মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৫৭১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا :“شریطہ شیطان” کے کھانے سے حدیث کے روای ابن عیسیٰ نے (لفظ “شریطہ شیطان” کی تشریح میں) یہ اضافہ کیا ہے کہ اس سے مراد وہ ذبح کیا ہوا جانور ہے جس کے اوپر سے صرف کھال کاٹ دی جائے اور گلے کی رگیں (جن سے خون جاری ہوتا ہے) نہ کاٹی جائیں اور یوں ہی چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ مر جائے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ سنگدلانہ فعل بھی ناجائز و حرام ہے ، کیوں کہ اس سے جانور کو جو اللہ کی مخلوق ہے ، بےضرورت اور بہت دیر تک سخت تکلیف و اذیت ہوتی ہے ، اور اس طرح ذبح کیا ہوا جانور بھی مردار کے حکم میں ہے اور اس کا کھانا حرام ہے ۔ اس طرح ذبح کئے ہوئے جانور کو “شریطہ شیطان” کہا گیا ہے جس کے معنی ہیں شیطان کا گھائل کیا ہوا ، گویا جانور کو ذبح کرنے کا یہ طریقہ شیطان کا سکھایا ہوا ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ سنگدلانہ فعل بھی ناجائز و حرام ہے ، کیوں کہ اس سے جانور کو جو اللہ کی مخلوق ہے ، بےضرورت اور بہت دیر تک سخت تکلیف و اذیت ہوتی ہے ، اور اس طرح ذبح کیا ہوا جانور بھی مردار کے حکم میں ہے اور اس کا کھانا حرام ہے ۔ اس طرح ذبح کئے ہوئے جانور کو “شریطہ شیطان” کہا گیا ہے جس کے معنی ہیں شیطان کا گھائل کیا ہوا ، گویا جانور کو ذبح کرنے کا یہ طریقہ شیطان کا سکھایا ہوا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَا: « أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ شَرِيطَةِ الشَّيْطَانِ» زَادَ ابْنُ عِيسَى فِي حَدِيثِهِ: «وَهِيَ الذَّبِيْحَةُ مِنْهُ الْجِلْدُ وَلَا تُفْرَى الْأَوْدَاجُ، ثُمَّ تُتْرَكُ حَتَّى تَمُوتَ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৭২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
عبدالرحمن بن شبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گوہ حلال جانوروں میں سے نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ ائمہ مجتہدین میں سے امام ابو حنیفہ کا قول یہی ہے ، لیکن آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا گوشت کھانا ناجائز نہیں ہے ، اس بناء پر دوسرے اکثر ائمہ نے اس کو جائز اور حلال کہا ہے ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گوہ حلال جانوروں میں سے نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ ائمہ مجتہدین میں سے امام ابو حنیفہ کا قول یہی ہے ، لیکن آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا گوشت کھانا ناجائز نہیں ہے ، اس بناء پر دوسرے اکثر ائمہ نے اس کو جائز اور حلال کہا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ: «أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ لَحْمِ الضَّبِّ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৭৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خالد بن ولید نے ان سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا (راوی نے بتایا کہ حضرت میمونہ خالد بن الولید اور عبداللہ بن عباس کی بھی حقیقی خالہ تھیں ، آگے حضرت خالد کا بیان ہے کہ) میں نے دیکھا کہ ان کے (یعنی ہماری خالہ میمونہ کے) پاس ایک بھنی ہوئی گوہ ہے ، وہ انہوں نے کھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھا دی ، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا ، (جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اس کو کھانا نہیں چاہتے) تو خالد بن الولید نے (جو کھانے میں شریک تھے) پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حرام ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں (یعنی حرام تو نہیں ہے) لیکن یہ ہمارے علاقہ میں (یعنی مکہ کی سرزمین میں) ہوتی نہیں تھی اس لئے میری طبیعت اس کو قبول نہیں کرتی ، خالد نے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺ کا یہ جواب سن کر) میں نے اس کو اپنی طرف سرکا لیا اور کھاتا رہا ، اور رسول اللہ ﷺ دیکھتے رہے (یعنی آپ ﷺ نے مجھے کھاتا دیکھا اور منع نہیں فرمایا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
جو حضرات ائمہ گوہ کی حلت کے قائل ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل یہی حدیث ہے ، اس کے علاوہ بھی بعض حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گوہ کا کھانا حلال ہے ، امام ابو حنیفہؒ کا خیال یہ ہے کہ یہ حدیثیں غالباً اس زمانہ کی ہیں جب کہ اس کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، اور جب تک کسی چیز کی حرمت کا حکم نہ آئے وہ مباح ہے ، بہرحال امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ممانعت کی حدیث کو جو اوپر درج ہو چکی ہے ، زمانہ کے لحاظ سے موخر اور ناسخ سمجھتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ابھی کچھ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ امام صاحب کا عام دستور اور رویہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کی حلت اور حرمت کے بارے میں اشتباہ پیدا ہو جائے تو وہ ازراہِ احتیاط حرمت کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔
تشریح
جو حضرات ائمہ گوہ کی حلت کے قائل ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل یہی حدیث ہے ، اس کے علاوہ بھی بعض حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گوہ کا کھانا حلال ہے ، امام ابو حنیفہؒ کا خیال یہ ہے کہ یہ حدیثیں غالباً اس زمانہ کی ہیں جب کہ اس کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، اور جب تک کسی چیز کی حرمت کا حکم نہ آئے وہ مباح ہے ، بہرحال امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ممانعت کی حدیث کو جو اوپر درج ہو چکی ہے ، زمانہ کے لحاظ سے موخر اور ناسخ سمجھتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ابھی کچھ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ امام صاحب کا عام دستور اور رویہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کی حلت اور حرمت کے بارے میں اشتباہ پیدا ہو جائے تو وہ ازراہِ احتیاط حرمت کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنَ عَبَّاسٍأَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ، وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا، فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَنِ الضَّبِّ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ» قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيَّ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৭৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ گھی میں چوہا گر گیا اور مر گیا ، تو رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا گیا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس مرے ہوئے چوہے کو اور اس کے ارد گرد کے گھی کو نکا ل کر پھینک دو ، اور پھر باقی گھی کو کھا لو ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ گھی منجمد ہو ، یعنی اگر منجمد نہ ہو بلکہ رقیق اور سیال ہو تو پھر وہ ساری گھی کھانے کے لائق نہیں رہے گا ۔
تشریح
جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ گھی منجمد ہو ، یعنی اگر منجمد نہ ہو بلکہ رقیق اور سیال ہو تو پھر وہ ساری گھی کھانے کے لائق نہیں رہے گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مَيْمُونَةَ: أَنَّ فَأْرَةً وَقَعَتْ فِي سَمْنٍ فَمَاتَتْ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا فَقَالَ: «أَلْقُوهَا وَمَا حَوْلَهَا وَكُلُوهُ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৭৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب چوہا گھی میں گر جائے (اور مر جائے) تو اگر گھی جما ہوا ہو تو اس چوہے کو اور ارد گرد کے گھی کو نکال کر پھینک دو اور اگر گھی پتلا ہو تو پھر اس کے پاس نہ جاؤ (یعنی اس کا کھانا جائز نہیں ہے نہ کھاؤ) ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
(اور یہی حدیث دارمی نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے)
(اور یہی حدیث دارمی نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وَقَعَتِ الْفَأْرَةُ فِي السَّمْنِ فَإِنْ كَانَ جَامِدًا فَأَلْقُوهَا وَمَا حَوْلَهَا، وَإِنْ كَانَ مَائِعًا فَلاَ تَقْرَبُوهُ. (رواه احمد وابوداؤد والدارمى عن ابن عباس)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৭৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک سفر میں) ایک گورخران کی نظر پڑا (وہ اچھے ماہر شکاری تھے) انہوں نے اس کو زخمی کر کے شکار کر لیا (پھر جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ حلال ہے یا نہیں ؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس کے گوشت میں سے کچھ بچا ہوا تمہارے پاس ہے ؟ ابو قتادہؓ نے عرض کیا کہ ہاں اس کا ایک پاؤں ہے (اور وہ پیش کر دیا) آپ ﷺ نے اس کو قبول فرما لیا اور تناول فرمایا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ گورخر حلال ہے اور شکار کیا ہوا جانور حلال طیب ہے ۔
تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ گورخر حلال ہے اور شکار کیا ہوا جانور حلال طیب ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ إِنَّهُ رَاَى حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَعَقَرُوْهُ فَقَالَ لَهُ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ؟ قَالَ: مَعَنَا رِجْلُهُ، فَأَخَذَهَا فَأَكَلَهَا. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৭৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم نے مر الظہران کے جنگل میں ایک خرگوش دوڑا کر پکڑ لیا اور اس کی دونوں رانیں اور کولہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (بطور تحفہ کے) بھیجا تو آپ ﷺ نے اس کو قبول فرما لیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رگوش جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے حلال ہے ، اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے ۔
تشریح
رگوش جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے حلال ہے ، اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسِ قَالَ: «اَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَأَخَذْتُهَا، فَأَتَيْتُ بِهَا أَبَا طَلْحَةَ فَذَبَحَهَا، وَبَعَثَ اِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَرِكِهَا وَفَخِذَيْهَا فَقَبِلَهُ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৭৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ لَحْمَ الدَّجَاجٍ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৭৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
(رسول اللہ ﷺ کے خادم اور آزاد کردہ غلام) حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حباریٰ پرند کا گوشت کھایا ہے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
لغت کی کتابوں میں “حباری” کے ترجمے مختلف کئے گئے ہیں ، بعض نے سرخاب کیا ہے اور بعض نے تغدری ، بہرحال “حباری” پرندہ ہے اور معلوم ہے کہ وہ سب پرندے حلال ہیں جو ذی مخلب نہیں ہیں ، یعنی جو جھپٹا مار کر پنجے سے شکار نہیں کرتے اور جو فطرت کے لحاظ سے موذی اور خبیث نہیں ہیں ۔
تشریح
لغت کی کتابوں میں “حباری” کے ترجمے مختلف کئے گئے ہیں ، بعض نے سرخاب کیا ہے اور بعض نے تغدری ، بہرحال “حباری” پرندہ ہے اور معلوم ہے کہ وہ سب پرندے حلال ہیں جو ذی مخلب نہیں ہیں ، یعنی جو جھپٹا مار کر پنجے سے شکار نہیں کرتے اور جو فطرت کے لحاظ سے موذی اور خبیث نہیں ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ سَفِينَةَ قَالَ أَكَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمَ الْحُبَارَى. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حلال قرار دی گئی ہیں ہمارے لئے دو مردہ چیزیں اور خون کی دو قسمیں ۔ دو مردہ چیزیں ہیں مچھلی اور ٹڈی اور خون کی دو قسمیں ہیں کلیجی اور تلی (کہ یہ دونوں منجمد خون ہیں) ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ،دار قطنی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ سارے حلال جانوروں کے لئے شرعی قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ شرعی طریقہ سے ذبح کئے جائیں تو حلال ہیں اور اگر بغیر ذبح کئے مر جائیں تو مردار اور حرام ہیں لیکن دو چیزیں اس سے مستثنیٰ ہیں ایک مچھلی اور دوسرے ٹڈی ۔ یہ دونوں مری ہوئی بھی حلال ہیں ۔ اسی طرح کلیجی اور تلی اگرچہ یہ دونوں دراصل منجمد خون ہیں اور خون حرام ہے ۔ لیکن جب وہ جم کر کلیجی اور تلی کی شکل اختیار کر لے تو اس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ سارے حلال جانوروں کے لئے شرعی قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ شرعی طریقہ سے ذبح کئے جائیں تو حلال ہیں اور اگر بغیر ذبح کئے مر جائیں تو مردار اور حرام ہیں لیکن دو چیزیں اس سے مستثنیٰ ہیں ایک مچھلی اور دوسرے ٹڈی ۔ یہ دونوں مری ہوئی بھی حلال ہیں ۔ اسی طرح کلیجی اور تلی اگرچہ یہ دونوں دراصل منجمد خون ہیں اور خون حرام ہے ۔ لیکن جب وہ جم کر کلیجی اور تلی کی شکل اختیار کر لے تو اس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِيْ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ الْحُوتُ وَالْجَرَادُ وَأَمَّا الدَّمَانِ الْكَبِدُ وَالطِّحَالُ. (رواه احمد وابن ماجه والدار قطنى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ساتھ غزوے کئے ہیں ، (یعنی ساتھ غزووں میں ہمیں آپ کی معیت اور رفاقت نصیب ہوئی ہے) ہم ان غزووں میں آپ کے ساتھ رہ کر ٹڈیاں بھی کھاتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
سنن ابی داؤد میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ٹڈیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : “ اَكْثَرُ جُنُوْدُ اللهِ لَا آكُلُهُ وَلَا اُحَرِّمُهُ ” (اللہ کی بہت سی مخلوق یعنی بہت سے جانور ایسے ہیں کہ میں ان کو خود تو نہیں کھاتا لیکن ان کو حرام نہیں بتلاتا) مطلب یہ کہ وہ حلال ہیں ، لوگ ان کو کھا سکتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ خود ٹڈی نہیں کھاتے تھے ۔ اس کی روشنی میں شارحین نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کی مندرجہ بالا حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ حضور ﷺ کے ساتھ غزوات میں ٹڈیاں بھی کھاتے تھے اور آپ ﷺ منع نہیں فرماتے تھے ۔ اس کا مطلب کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ حضرت ابن ابی اوفیٰ والی اس حدیث کی صحیح مسلم اور جامع ترمذی وغیرہ کی روایات میں “معه” کا لفظ نہیں ہے ، بلکہ آخری الفاظ یہ ہیں “كنا ناكل الجراد” واللہ اعلم ۔
تشریح
سنن ابی داؤد میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ٹڈیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : “ اَكْثَرُ جُنُوْدُ اللهِ لَا آكُلُهُ وَلَا اُحَرِّمُهُ ” (اللہ کی بہت سی مخلوق یعنی بہت سے جانور ایسے ہیں کہ میں ان کو خود تو نہیں کھاتا لیکن ان کو حرام نہیں بتلاتا) مطلب یہ کہ وہ حلال ہیں ، لوگ ان کو کھا سکتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ خود ٹڈی نہیں کھاتے تھے ۔ اس کی روشنی میں شارحین نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کی مندرجہ بالا حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ حضور ﷺ کے ساتھ غزوات میں ٹڈیاں بھی کھاتے تھے اور آپ ﷺ منع نہیں فرماتے تھے ۔ اس کا مطلب کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ حضرت ابن ابی اوفیٰ والی اس حدیث کی صحیح مسلم اور جامع ترمذی وغیرہ کی روایات میں “معه” کا لفظ نہیں ہے ، بلکہ آخری الفاظ یہ ہیں “كنا ناكل الجراد” واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ ابْنَ أَبِي أَوْفَى قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، كُنَّا نَأْكُلُ مَعَهُ الْجَرَادَ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں “جیش الخبط” کے جہاد میں شریک تھا اور ابو عبیدہ اس لشکر کے امیر بنائے گئے تھے (غذا کا کچھ سامان نہ ہونے کی وجہ سے اس سفر جہاد میں) ہم سخت بھوک میں گرفتار ہو گئے ۔ تو سمندر نے ایک مچھلی پھینکی یہ مر چکی تھی ہم نے ایسی (یعنی اتنی بڑی)مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی ، اس کا نام عنبر بتلایا جاتا تھا ، ہم سب نے (یعنی پورے لشکر نے) س کو آدھے مہینہ تک کھایا ، پھر ابو عبیدہ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی (غالبا پسلی) اٹھا کے کھڑی کی تو اونٹ کا سوار اس کے نیچے سے نکل گیا ، پھر جب ہم سفر سے مدینہ واپس آئے آئے تو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا (اور پوچھا کہ ہمارا اس کو کھانا درست تھا یا نہیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا کھاؤ ، اللہ تعالیٰ کا عطیہ (اور تحفہ) جو اللہ نے تمہارے واسطے نکالا تھا ، اور اگر اس میں سے کچھ تمہارے ساتھ ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ (جابر کہتے ہیں کہ) ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی بھیجا تو آپ ﷺ نے اس کو تناول فرمایا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ ۶ھ کی ایک جہادی مہم کا واقعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے قریبا تین سو مجاہدین کا ایک لشکر روانہ فرمایا تھا ، اس کا امیر حضرت ابو عبیدہ کو بنایا گیا تھا پورے لشکر کے کھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک بورا کھجوریں حضرت ابو عبیدہ کو دی تھیں ، اس وقت اتنا ہی بندوبست ہو سکا تھا ، ابو داؤد وغیرہ کی اس واقعہ کی روایت میں ہے کہ ابو عبیدہ روزانہ ہر لشکری کو اس بورے میں سے صرف ایک کھجور دیتے تھے ،اور یہ اللہ کے سپاہی اسی پر گزارہ کرتے تھے ، خود اس لشکر کے بعض حضرات نے بیان کیا ہے کہ ہم اس ایک کھجور کو منہ میں دیر تک رکھ کر اس طرح چوستے تھے جس طرح ننھے بچے چوستے ہیں اور اوپر سے پانی پی لیتے تھے ، بس یہی دن بھر کے لئے کافی ہو جاتا تھا ۔ پھر وہ کھجوریں ختم ہو گئیں تو درختوں سے پتے جھاڑے اور انہیں پانی سے تر کر کے کھانے لگے اس سے ہمارے منہ زخمی ہو گئے اور سوج گئے ، اس لشکر کو “جیش الخبط” کے نام سے اسی لئے یاد کیا جاتا ہے ۔ خبط کے معنی درخت سے پتے جھاڑنے کے ہیں ۔
ابو داؤد وغیرہ کی روایت میں حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ اسی حال میں ہم سمندر کے کنارے سے قریب چل رہے تھے کہ ہمیں ایک ٹیلہ یا ایک پہاڑی سی نظر پڑی ، قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ سمندر کا پھینکا ہوا ایک مچھلی نماز جانور ہے اور مرا ہوا ہے ، حضرت ابو عبیدہ کو اس کے حلال ہونے کے بارے میں شک ہوا ، بعد میں انہوں نے سوچا کہ ہم اللہ کے کام کے لئے نکلے ہیں اور اس کے رسول کے بھیجے ہوئے ہیں اور کھانے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ہماری غذا کا ساما فراہم کیا ہے ، پھر اس بارے میں انہیں شرح صدر ہو گیا تو انہوں نے لشکر کو اس کے کھانے کی اجازت دے دی ۔ اور صحیحین کی اس روایت کے بیان کے مطابق پورے لشکر نے اس کو آدھے مہینے تک کھایا ۔ اور دوسری بعض روایات میں ہے کہ اس کو ایک مہینہ تک کھایا گیا ۔
اس عاجز کے نزدیک ان دونوں باتوں میں مطابقت اس طرح ہے کہ لشکر کا قیام آدھے مہینہ کے قریب اسی علاقہ میں رہا اور ان دنوں میں وہی مچھلی خوب فراوانی سے کھائی جاتی رہی ، اس کے بعد واپسی ہوئی اور قریبا آدھے مہینہ میں مدینہ پہنچے ، ان دنوں میں بھی اسی سے کچھ کام چلتا رہا ، تو جن روایات میں آدھے مہینہ تک کھائے جانے کا ذکر ہے ان میں صرف سفر واپسی ہے پہلے دنوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جب کہ پورا لشکر فراوانی سے اس کو کھاتا رہا ، اور جن روایات میں ایک مہینہ تک کھانے کا ذکر کیا گیا ان میں واپسی کا زمانہ بھی شامل کر لیا گیا ہے ، کیوں کہ ان دنوں میں بھی اس کو بطور غذا کے کچھ نہ کچھ استعمال کیا جاتا رہا ۔ واللہ اعلم ۔
حدیث کے آخر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مدینہ کی واپسی پر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا اور غالبا ابو عبیدہ کے شک و شبہ کا ذکر آیا ، تو آپ ﷺ نے فرما کر کہ “كُلُوا رِزْقًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ” اطمینان دلایا کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ اور تحفہ تھا جو اس نے تمہارے ہی واسطے سمندر سے نکلوایا تھا ، ایسی چیز کو تو بڑی قدر اور شکر کے ساتھ کھانا چاہئے ۔ آخر میں آپ ﷺ نے ان لوگوں کا دل خوش کرنے کے لئے اور اس عطیہ ربانی کی قدردانی کے اظہار کے لیے یہ بھی فرمایا :
“وَأَطْعِمُونَا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ” (یعنی اگر اس میں سے کچھ ساتھ لائے ہو تو ہم کو بھی کھلاؤ) چنانچہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے تناول فرمایا ۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ سمندر کی اتنی بڑی مچھلی ، جو ظاہر ہے کہ ایک عجیب و غریب مخلوق معلوم ہوتی ہو گی حلال طیب ہے ۔
حدیث میں ہے کہ اس مچھلی کو عنبر کہا جاتا ہے ، بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ عنبر جو بعض خاص علاقوں میں سمندر کے کنارے ملتا ہے اس مچھلی سے نکلتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ ۶ھ کی ایک جہادی مہم کا واقعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے قریبا تین سو مجاہدین کا ایک لشکر روانہ فرمایا تھا ، اس کا امیر حضرت ابو عبیدہ کو بنایا گیا تھا پورے لشکر کے کھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک بورا کھجوریں حضرت ابو عبیدہ کو دی تھیں ، اس وقت اتنا ہی بندوبست ہو سکا تھا ، ابو داؤد وغیرہ کی اس واقعہ کی روایت میں ہے کہ ابو عبیدہ روزانہ ہر لشکری کو اس بورے میں سے صرف ایک کھجور دیتے تھے ،اور یہ اللہ کے سپاہی اسی پر گزارہ کرتے تھے ، خود اس لشکر کے بعض حضرات نے بیان کیا ہے کہ ہم اس ایک کھجور کو منہ میں دیر تک رکھ کر اس طرح چوستے تھے جس طرح ننھے بچے چوستے ہیں اور اوپر سے پانی پی لیتے تھے ، بس یہی دن بھر کے لئے کافی ہو جاتا تھا ۔ پھر وہ کھجوریں ختم ہو گئیں تو درختوں سے پتے جھاڑے اور انہیں پانی سے تر کر کے کھانے لگے اس سے ہمارے منہ زخمی ہو گئے اور سوج گئے ، اس لشکر کو “جیش الخبط” کے نام سے اسی لئے یاد کیا جاتا ہے ۔ خبط کے معنی درخت سے پتے جھاڑنے کے ہیں ۔
ابو داؤد وغیرہ کی روایت میں حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ اسی حال میں ہم سمندر کے کنارے سے قریب چل رہے تھے کہ ہمیں ایک ٹیلہ یا ایک پہاڑی سی نظر پڑی ، قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ سمندر کا پھینکا ہوا ایک مچھلی نماز جانور ہے اور مرا ہوا ہے ، حضرت ابو عبیدہ کو اس کے حلال ہونے کے بارے میں شک ہوا ، بعد میں انہوں نے سوچا کہ ہم اللہ کے کام کے لئے نکلے ہیں اور اس کے رسول کے بھیجے ہوئے ہیں اور کھانے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ہماری غذا کا ساما فراہم کیا ہے ، پھر اس بارے میں انہیں شرح صدر ہو گیا تو انہوں نے لشکر کو اس کے کھانے کی اجازت دے دی ۔ اور صحیحین کی اس روایت کے بیان کے مطابق پورے لشکر نے اس کو آدھے مہینے تک کھایا ۔ اور دوسری بعض روایات میں ہے کہ اس کو ایک مہینہ تک کھایا گیا ۔
اس عاجز کے نزدیک ان دونوں باتوں میں مطابقت اس طرح ہے کہ لشکر کا قیام آدھے مہینہ کے قریب اسی علاقہ میں رہا اور ان دنوں میں وہی مچھلی خوب فراوانی سے کھائی جاتی رہی ، اس کے بعد واپسی ہوئی اور قریبا آدھے مہینہ میں مدینہ پہنچے ، ان دنوں میں بھی اسی سے کچھ کام چلتا رہا ، تو جن روایات میں آدھے مہینہ تک کھائے جانے کا ذکر ہے ان میں صرف سفر واپسی ہے پہلے دنوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جب کہ پورا لشکر فراوانی سے اس کو کھاتا رہا ، اور جن روایات میں ایک مہینہ تک کھانے کا ذکر کیا گیا ان میں واپسی کا زمانہ بھی شامل کر لیا گیا ہے ، کیوں کہ ان دنوں میں بھی اس کو بطور غذا کے کچھ نہ کچھ استعمال کیا جاتا رہا ۔ واللہ اعلم ۔
حدیث کے آخر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مدینہ کی واپسی پر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا اور غالبا ابو عبیدہ کے شک و شبہ کا ذکر آیا ، تو آپ ﷺ نے فرما کر کہ “كُلُوا رِزْقًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ” اطمینان دلایا کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ اور تحفہ تھا جو اس نے تمہارے ہی واسطے سمندر سے نکلوایا تھا ، ایسی چیز کو تو بڑی قدر اور شکر کے ساتھ کھانا چاہئے ۔ آخر میں آپ ﷺ نے ان لوگوں کا دل خوش کرنے کے لئے اور اس عطیہ ربانی کی قدردانی کے اظہار کے لیے یہ بھی فرمایا :
“وَأَطْعِمُونَا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ” (یعنی اگر اس میں سے کچھ ساتھ لائے ہو تو ہم کو بھی کھلاؤ) چنانچہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے تناول فرمایا ۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ سمندر کی اتنی بڑی مچھلی ، جو ظاہر ہے کہ ایک عجیب و غریب مخلوق معلوم ہوتی ہو گی حلال طیب ہے ۔
حدیث میں ہے کہ اس مچھلی کو عنبر کہا جاتا ہے ، بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ عنبر جو بعض خاص علاقوں میں سمندر کے کنارے ملتا ہے اس مچھلی سے نکلتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: غَزَوْتُ جَيْشَ الْخَبَطِ وَأُمِّرَ أَبُو عُبَيْدَةَ، فَجُعْنَا جُوعًا شَدِيدًا فَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا مَيِّتًا، لَمْ نَرَ مِثْلَهُ، يُقَالُ لَهُ الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهَا نِصْفَ شَهْرٍ، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ. فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كُلُوا رِزْقًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ، أَطْعِمُونَا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ. قَالَ: فَأَرْسَلْنَا اِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَهُ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے وہاں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا شرک کا زمانہ قریب ہی کا ہے (یعنی قریبی زمانہ کے نومسلم ہیں اور ابھی ان کی اسلامی تعلیم و تربیت نہیں ہو سکی ہے) وہ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ ذبح کرتے وقت وہ اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں (تو اس صورت میں وہ گوشت کھائیں یا نہیں ؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کا نام لو اور کھا لو ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خواہ مخواہ وہم میں نہیں پڑنا چاہئے ، جب وہ لوگ مسلمان ہو چکے ہیں تو سمجھنا چاہئے کہ اللہ کا نام لے کر ہی ذبح کرتے ہوں گے اس لئے تم اللہ کا نام لے کر کھا لیا کرو ، یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر انہوں نے اللہ کا نام لئے بغیر ہی کافرانہ طریقہ پر ذبح کر لیا ہے تو تمہارے بسم اللہ پڑھنے سے اب وہ حلال ہو جائے گا ، قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ (الانعام 121)
اور جس جانور پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو اس کو مت کھاؤ ، اس کا کھانا سخت گناہ ہے ۔
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خواہ مخواہ وہم میں نہیں پڑنا چاہئے ، جب وہ لوگ مسلمان ہو چکے ہیں تو سمجھنا چاہئے کہ اللہ کا نام لے کر ہی ذبح کرتے ہوں گے اس لئے تم اللہ کا نام لے کر کھا لیا کرو ، یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر انہوں نے اللہ کا نام لئے بغیر ہی کافرانہ طریقہ پر ذبح کر لیا ہے تو تمہارے بسم اللہ پڑھنے سے اب وہ حلال ہو جائے گا ، قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ (الانعام 121)
اور جس جانور پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو اس کو مت کھاؤ ، اس کا کھانا سخت گناہ ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هُنَا أَقْوَامًا حَدِيثًا عَهْدُهُمْ بِشِرْكٍ، يَأْتُونَا بِلُحْمَانٍ لاَ نَدْرِي يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا أَمْ لاَ. قَالَ: اذْكُرُوا أَنْتُمُ اسْمَ اللَّهِ وَكُلُوا. (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
قبیصہ بن ہلب اپنے والد ہلب طائی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نصاری کا کھانا کھانے کے بارے میں سوال کیا (کہ جائز ہے یا ناجائز ؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ :اس کے کھانے کے بارے میں تمہارے دل میں کوئی خلجان نہیں ہونا چاہئے ۔ تم اس (تنگ نظری اور بیجا شدت پسندی میں) طریقہ نصرانیت سے مشابہ ہو گئے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
یہ ہلب طائی پہلے خود نصرانی المذہب تھے ، بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایمان و اسلام نصیب فرمایا تو ان کو نصاریٰ یعنی عیسائیوں کے ہاں کھانے اور ان کا ذبیحہ کھانے کے بار ے میں تردد تھا ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس بارے میں تمہارے دل میں کئی تردد اور خلجان نہیں ہونا چاہئے یعنی ہماری شریعت میں ان کا کھانا اور ذبیحہ جائز ہے ۔ قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ “وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ” (1) ۔ (یعنی اہل کتاب کا کھانا تمہارے واسطے حلال ہے) آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : کھانے پینے میں یہ تنگ نظری اور شدت پسندی عیسائی راہبوں کا شیوہ ہے ۔ اگر تم وہی طریقہ اپناتے ہو تو گویا ان کی ہم رنگی اختیار کرتے ہو ۔ ہماری شریعت میں یہ تنگی نہیں بلکہ وسعت ہے ۔ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ۔
تشریح
یہ ہلب طائی پہلے خود نصرانی المذہب تھے ، بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایمان و اسلام نصیب فرمایا تو ان کو نصاریٰ یعنی عیسائیوں کے ہاں کھانے اور ان کا ذبیحہ کھانے کے بار ے میں تردد تھا ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس بارے میں تمہارے دل میں کئی تردد اور خلجان نہیں ہونا چاہئے یعنی ہماری شریعت میں ان کا کھانا اور ذبیحہ جائز ہے ۔ قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ “وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ” (1) ۔ (یعنی اہل کتاب کا کھانا تمہارے واسطے حلال ہے) آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : کھانے پینے میں یہ تنگ نظری اور شدت پسندی عیسائی راہبوں کا شیوہ ہے ۔ اگر تم وہی طریقہ اپناتے ہو تو گویا ان کی ہم رنگی اختیار کرتے ہو ۔ ہماری شریعت میں یہ تنگی نہیں بلکہ وسعت ہے ۔ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ قَبِيصَةَ بْنَ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ طَعَامِ النَّصَارَى فَقَالَ: لاَ يَتَخَلَّجَنَّ فِي صَدْرِكَ طَعَامٌ ضَارَعْتَ فِيهِ النَّصْرَانِيَّةَ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مشروبات کے احکام: شراب کی حرمت کا حکم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شراب کی ممانعت (تدریجاً) تین دفعہ میں کی گئی ہے (جس کی تفصیل یہ ہے) کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اس زمانہ میں اہل مدینہ شراب پیا کرتے تھے اور جوئے سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے ، تو ان دونوں چیزوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا (کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز ؟) دریافت کرنے کی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ خود ان میں سے صالح طبیعت رکھنے والوں نے محسوس کیا ہو گا کہ اسلام کی عام تعلیمات اور اس کے پاکیزہ مزاج سے یہ دونوں چیزیں میل نہیں کھاتیں ۔ واللہ اعلم ۔ (ان کے اس سوال کے جواب میں سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی) ۔
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا
اے پیغمبر ! یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ انہیں بتا دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں گناہ ہے بہت اور فائدے بھی ہیں لوگوں کے لئے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے ۔
تو کچھ لوگوں نے کہا کہ (اس آیت میں) شراب اور جوئے کو قطعیت کے ساتھ حرام قرار نہیں دیا گیا ہے ، تو وہ لوگ (گنجائش سمجھتے ہوئے) اس کے بعد بھی پیتے رہے ، یہاں تک کہ ایک دن یہ واقعہ پیش آیا کہ مہاجرین میں سے ایک صاحب اپے کچھ ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے (اور امامت کر رہے تھے اور نشہ میں تھے) انہوں نے قرأت میں کچھ گڑ بڑ کر دی (اور کچھ کا کچھ پڑھ گئے) تو شراب کی ممانعت کے سلسلہ میں یہ دوسری آیت نازل ہوئی جو پہلی آیت کے مقابلہ میں زیادہ سخت تھی ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ
اے ایمان والو ! ایسی حالت میں نماز کے پاس بھی نہ جاؤ جب کہ تم نشہ میں ہو تا وقتیکہ (تمہیں ایسا ہوش نہ ہو) کہ تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔
مگر کچھ لوگ (اس کے بعد بھی گنجائش سمجھتے ہوئے) پیتے رہے (ہاں جیسا کہ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے اس کا اہتمام کرنے لگے کہ نماز کے قریب نہیں پیتے تھے) تو سورہ مائدہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں جو پہلی دونوں آیتوں کے مقابلہ میں زیادہ سخت اور صاف صریح تھیں ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ
اے ایمان والو! بلاشبہ یہ شراب اور جوا اور بت پانسے (جو ایک خاص قسم کے جوئے میں استعمال ہوتے تھے ، یہ سب چیزیں) گندی اور ناپاک ہیں اور شیطانی اعمال میں سے ہیں لہذا ان سے کلی پرہیز کرو ، پھر تم امید کر سکتے ہو کہ فلاح یاب ہو جاؤ ، شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں پھانس کر تمہارے درمیان بغض و عداوت پید کر دے (اور تم کو آپس میں لڑا دے) اور اللہ کی یاد اور نماز جیسی نعمت سے (جو بارگاہ خداوندی کی حضوری ہے) تم کو روک دے تو کیا تم (شراب اور جوئے وغیرہ سے) باز آؤ گے ؟
جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو ان لوگوں نے کہا “نهينا ربنا” (اے ہمارے پروردگار ! ہم باز آئے اور اب ہم نے اس کو بالکل چھوڑ دیا) پھر ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے ان لوگوں کا کیا انجام ہو گا جو راہِ خدا میں شہید ہو چکے ہیں یا اپنے بستروں پر (بیمارپڑ کر) انتقال کر چکے ہیں اور وہ شراب پیا کرتے اور جوئے سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے ۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ناپاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے (تو ہمارے جو بھائی ان دونوں میں ملوث تھے اور اسی حال میں انتقال کر گئے یا راہِ خدا میں شہید ہو گئے ، تو آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا ؟) تو اس کے جواب میں بعد والی یہ آیت نازل ہوئی ۔
لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ الْآيَةِ
ان صاحب ایمان اور نیکوکار بندوں پر کوئی گناہ (اور مواخذہ) نہیں ہے ان کے کھانے پینے پر ، جب کہ ان کا حال یہ ہو کہ وہ خدا سے ڈر کر پرہیزگاری کی زندگی گزارتے ہوں اور دل سے مانتے ہوں اور اعمال صالحہ کرتے ہوں ۔ الخ (مسند احمد)ھ
تشریح
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ، کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت کے بارہ میں شریعت کا بنیادی اصول وہی ہے جسے قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔
“وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ” اس بناء پر مشروبات میں بھی جو طیبات ہیں یعنی پاکیزہ اور مرغوب و خوشگوار اور نفع بخش چیزیں مثلا حلال چوپایوں کا دودھ ، پھلوں کا رس ، اچھے سے اچھے شربت ، نفیس عرقیات وغیرہ یہ سب حلال قرار دئیے گئے ہیں ۔ اور ان کے برعکس جو مشروبات “خبیث” اور انسانیت کے لئے مضر ہیں وہ حرام قرار دئیے گئے ہیں ۔ پھر جس طرح کھانے کی بعض ان چیزوں کی حرمت کا اعلان اہتمام اور خصوصیت سے قرآن پاک میں بھی کیا گیا ہے جو اگلی شریعتوں میں بھی حرام قرار دی گئی تھیں مگر ان کو بعض طبقے کھاتے تھے جیسے کہ مردار جانور اور خنزیر وغیرہ ، اسی طرح مشروبات میں خمر یعنی شراب کی حرمت کا اعلان بھی خاص اہتمام سے قرآن پاک میں بھی کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کے بارے میں غیر معمولی اہتمام فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اس سلسلہ میں نہایت سخت رویہ آپ نے اختیار فرمایا ۔ جیسا کہ آگے درج ہونے والی احادیث سے معلوم ہو گا ۔
شراب کی حرمت کا حکم
شراب کے حرام قرار دئیے جانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے استعمال سے آدمی کم از کم کچھ دیر کے لئے اس جوہر عقل و تفکر سے محروم ہو کر جو اس کے پروردگار کا خاص الخاص عطیہ اور معرفت الہی کا وسیلہ ہے ، ان حیوانوں کی صف میں آ جاتا ہے جن کو ان کے پیدا کرنے والے نے عقل و تمیز کی نعمت اور اپنی کاص معرفت کی صلاحیت عطا نہیں فرمائی ہے ۔ اور یہ انسان کا اپنے اوپر بڑے سے بڑا ظلم اور اپنے پروردگار کی انتہائی ناشکری ہے ۔ اس کے علاوہ نشہ کی حالت میں بسا اوقات اس سے انتہائی نامناسب اور شرمناک حرکتیں سرزد ہوتی ہیں اور وہ شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے ، علاوہ ازیں شراب نوشی کے نتیجہ میں بعض اوقات بڑے دور رس اور تباہ کن فسادات پرپا ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے تمام آسمانی شریعتوں میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ہر دور کے خدا پرست مصلحوں اور روحانیت پسندوں نے اس سے پرہیز کیا ہے اور اس کے خلاف جدو جہد کی ہے ۔
آگے جو احادیث شراب کے بارے میں درج ہوں گی ان کا یہ پس منظر ناظرین کے ذہن میں رہنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت اور غالبا اس کے بہت پہلے سے عربوں میں خاص کر اہل مدینہ میں شراب کا بےحد رواج تھا ، گھر گھر شراب بنتی تھی اور پی جاتی تھی اس سے وہ نشاط و سرور بھی حاصل کیا جاتا تھا جس کے لئے عموما پینے والے اس کو پیتے ہیں ، اس کے علاوہ اس ماحول میں شراب نوشی کو ایک اخلاقی عظمت و فضیلت کا مقام بھی حاصل تھا وہاں کا عام رواج یہ تھا کہ دولت مند لوگ شراب پی کر نشہ کی حالت میں خوب داد و دہش کرتے اور مال لٹاتے تھے جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا اور اسی وجہ سے شراب نہ پینا یا کم پینا بخل و کنجوسی کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔
یہی حال جوئے کو بھی تھا وہاں جوئے کے کچھ خاص طریقے رائج تھے اور حوصلہ مند اور دریا دل لوگ ہی وہ جوا کھیلتے تھے اور جو کچھ جیتتے تھے وہ غربا اور حاجت مندوں میں لٹا دیتے تھے ۔ اس لئے جوا بھی امیروں کا ایک معزز کھیل تھا جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا ۔ زمانہ جاہلیت کی روایات اور شاعری میں اس کا پورا سراغ ملتا ہے ۔
شراب اور جوئے میں نافعیت کا غالباً یہی وہ خاص پہلو تھا جس کی طرف اشارہ سورہ بقرہ کی اس آیت میں بھی کیا گیا ہے جو شراب اور جوئے کے بارے میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی ۔ بہرحال شراب کا چونکہ وہاں عام رواج تھا اور گویا وہ ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور اس کے وہ بری طرح عادی تھے اور ان کی نگاہ میں اس کو ایک عظمت بھی حاصل تھی اس لئے اس کی ممانعت کے بارے میں ابتداء تو نرم تدریجی رویہ اختیار کیا گیا لیکن جب قوم میں اس کی صلاحیت پیدا ہو گئی کہ قطعی حرمت کا اعلان ہو جانے پر وہ اس کو یکلخت چھوڑ دے تو پھر اتنا سخت رویہ اختیار کیا گیا کہ جس قسم کے برتنوں میں شراب پینے کا رواج تھا ، سرے سے ان برتنوں ہی کے استعمال کرنے کی ممانعت کر دی گئی ۔ اسی طرح کے بعض اور بھی انتہائی سخت احکام جاری کئے گئے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے ، چنانچہ جب یہ بات پیدا ہو گئی تو وہ سخت احکام واپس لے لئے گئے ۔ اس تمہید کے بعد شراب کی حرمت سے متعلق آگے درج ہونے والی حدیثیں پڑھئے :
تشریح ..... حدیث کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں جابجا کر دی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی اس حدیث سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ شراب کی حرمت کے بارے میں ابتداء تدریجی رویہ اختیار کیا گیا اور آخر میں سورہ مائدہ کی آیت میں اس کے بارے میں “رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ” فرما کر اس کی قطعی حرمت کا اعلان فرما دیا گیا ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ۸ھ میں نازل ہوئی ۔
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا
اے پیغمبر ! یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ انہیں بتا دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں گناہ ہے بہت اور فائدے بھی ہیں لوگوں کے لئے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے ۔
تو کچھ لوگوں نے کہا کہ (اس آیت میں) شراب اور جوئے کو قطعیت کے ساتھ حرام قرار نہیں دیا گیا ہے ، تو وہ لوگ (گنجائش سمجھتے ہوئے) اس کے بعد بھی پیتے رہے ، یہاں تک کہ ایک دن یہ واقعہ پیش آیا کہ مہاجرین میں سے ایک صاحب اپے کچھ ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے (اور امامت کر رہے تھے اور نشہ میں تھے) انہوں نے قرأت میں کچھ گڑ بڑ کر دی (اور کچھ کا کچھ پڑھ گئے) تو شراب کی ممانعت کے سلسلہ میں یہ دوسری آیت نازل ہوئی جو پہلی آیت کے مقابلہ میں زیادہ سخت تھی ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ
اے ایمان والو ! ایسی حالت میں نماز کے پاس بھی نہ جاؤ جب کہ تم نشہ میں ہو تا وقتیکہ (تمہیں ایسا ہوش نہ ہو) کہ تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔
مگر کچھ لوگ (اس کے بعد بھی گنجائش سمجھتے ہوئے) پیتے رہے (ہاں جیسا کہ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے اس کا اہتمام کرنے لگے کہ نماز کے قریب نہیں پیتے تھے) تو سورہ مائدہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں جو پہلی دونوں آیتوں کے مقابلہ میں زیادہ سخت اور صاف صریح تھیں ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ
اے ایمان والو! بلاشبہ یہ شراب اور جوا اور بت پانسے (جو ایک خاص قسم کے جوئے میں استعمال ہوتے تھے ، یہ سب چیزیں) گندی اور ناپاک ہیں اور شیطانی اعمال میں سے ہیں لہذا ان سے کلی پرہیز کرو ، پھر تم امید کر سکتے ہو کہ فلاح یاب ہو جاؤ ، شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں پھانس کر تمہارے درمیان بغض و عداوت پید کر دے (اور تم کو آپس میں لڑا دے) اور اللہ کی یاد اور نماز جیسی نعمت سے (جو بارگاہ خداوندی کی حضوری ہے) تم کو روک دے تو کیا تم (شراب اور جوئے وغیرہ سے) باز آؤ گے ؟
جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو ان لوگوں نے کہا “نهينا ربنا” (اے ہمارے پروردگار ! ہم باز آئے اور اب ہم نے اس کو بالکل چھوڑ دیا) پھر ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے ان لوگوں کا کیا انجام ہو گا جو راہِ خدا میں شہید ہو چکے ہیں یا اپنے بستروں پر (بیمارپڑ کر) انتقال کر چکے ہیں اور وہ شراب پیا کرتے اور جوئے سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے ۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ناپاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے (تو ہمارے جو بھائی ان دونوں میں ملوث تھے اور اسی حال میں انتقال کر گئے یا راہِ خدا میں شہید ہو گئے ، تو آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا ؟) تو اس کے جواب میں بعد والی یہ آیت نازل ہوئی ۔
لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ الْآيَةِ
ان صاحب ایمان اور نیکوکار بندوں پر کوئی گناہ (اور مواخذہ) نہیں ہے ان کے کھانے پینے پر ، جب کہ ان کا حال یہ ہو کہ وہ خدا سے ڈر کر پرہیزگاری کی زندگی گزارتے ہوں اور دل سے مانتے ہوں اور اعمال صالحہ کرتے ہوں ۔ الخ (مسند احمد)ھ
تشریح
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ، کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت کے بارہ میں شریعت کا بنیادی اصول وہی ہے جسے قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔
“وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ” اس بناء پر مشروبات میں بھی جو طیبات ہیں یعنی پاکیزہ اور مرغوب و خوشگوار اور نفع بخش چیزیں مثلا حلال چوپایوں کا دودھ ، پھلوں کا رس ، اچھے سے اچھے شربت ، نفیس عرقیات وغیرہ یہ سب حلال قرار دئیے گئے ہیں ۔ اور ان کے برعکس جو مشروبات “خبیث” اور انسانیت کے لئے مضر ہیں وہ حرام قرار دئیے گئے ہیں ۔ پھر جس طرح کھانے کی بعض ان چیزوں کی حرمت کا اعلان اہتمام اور خصوصیت سے قرآن پاک میں بھی کیا گیا ہے جو اگلی شریعتوں میں بھی حرام قرار دی گئی تھیں مگر ان کو بعض طبقے کھاتے تھے جیسے کہ مردار جانور اور خنزیر وغیرہ ، اسی طرح مشروبات میں خمر یعنی شراب کی حرمت کا اعلان بھی خاص اہتمام سے قرآن پاک میں بھی کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کے بارے میں غیر معمولی اہتمام فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اس سلسلہ میں نہایت سخت رویہ آپ نے اختیار فرمایا ۔ جیسا کہ آگے درج ہونے والی احادیث سے معلوم ہو گا ۔
شراب کی حرمت کا حکم
شراب کے حرام قرار دئیے جانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے استعمال سے آدمی کم از کم کچھ دیر کے لئے اس جوہر عقل و تفکر سے محروم ہو کر جو اس کے پروردگار کا خاص الخاص عطیہ اور معرفت الہی کا وسیلہ ہے ، ان حیوانوں کی صف میں آ جاتا ہے جن کو ان کے پیدا کرنے والے نے عقل و تمیز کی نعمت اور اپنی کاص معرفت کی صلاحیت عطا نہیں فرمائی ہے ۔ اور یہ انسان کا اپنے اوپر بڑے سے بڑا ظلم اور اپنے پروردگار کی انتہائی ناشکری ہے ۔ اس کے علاوہ نشہ کی حالت میں بسا اوقات اس سے انتہائی نامناسب اور شرمناک حرکتیں سرزد ہوتی ہیں اور وہ شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے ، علاوہ ازیں شراب نوشی کے نتیجہ میں بعض اوقات بڑے دور رس اور تباہ کن فسادات پرپا ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے تمام آسمانی شریعتوں میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ہر دور کے خدا پرست مصلحوں اور روحانیت پسندوں نے اس سے پرہیز کیا ہے اور اس کے خلاف جدو جہد کی ہے ۔
آگے جو احادیث شراب کے بارے میں درج ہوں گی ان کا یہ پس منظر ناظرین کے ذہن میں رہنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت اور غالبا اس کے بہت پہلے سے عربوں میں خاص کر اہل مدینہ میں شراب کا بےحد رواج تھا ، گھر گھر شراب بنتی تھی اور پی جاتی تھی اس سے وہ نشاط و سرور بھی حاصل کیا جاتا تھا جس کے لئے عموما پینے والے اس کو پیتے ہیں ، اس کے علاوہ اس ماحول میں شراب نوشی کو ایک اخلاقی عظمت و فضیلت کا مقام بھی حاصل تھا وہاں کا عام رواج یہ تھا کہ دولت مند لوگ شراب پی کر نشہ کی حالت میں خوب داد و دہش کرتے اور مال لٹاتے تھے جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا اور اسی وجہ سے شراب نہ پینا یا کم پینا بخل و کنجوسی کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔
یہی حال جوئے کو بھی تھا وہاں جوئے کے کچھ خاص طریقے رائج تھے اور حوصلہ مند اور دریا دل لوگ ہی وہ جوا کھیلتے تھے اور جو کچھ جیتتے تھے وہ غربا اور حاجت مندوں میں لٹا دیتے تھے ۔ اس لئے جوا بھی امیروں کا ایک معزز کھیل تھا جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا ۔ زمانہ جاہلیت کی روایات اور شاعری میں اس کا پورا سراغ ملتا ہے ۔
شراب اور جوئے میں نافعیت کا غالباً یہی وہ خاص پہلو تھا جس کی طرف اشارہ سورہ بقرہ کی اس آیت میں بھی کیا گیا ہے جو شراب اور جوئے کے بارے میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی ۔ بہرحال شراب کا چونکہ وہاں عام رواج تھا اور گویا وہ ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور اس کے وہ بری طرح عادی تھے اور ان کی نگاہ میں اس کو ایک عظمت بھی حاصل تھی اس لئے اس کی ممانعت کے بارے میں ابتداء تو نرم تدریجی رویہ اختیار کیا گیا لیکن جب قوم میں اس کی صلاحیت پیدا ہو گئی کہ قطعی حرمت کا اعلان ہو جانے پر وہ اس کو یکلخت چھوڑ دے تو پھر اتنا سخت رویہ اختیار کیا گیا کہ جس قسم کے برتنوں میں شراب پینے کا رواج تھا ، سرے سے ان برتنوں ہی کے استعمال کرنے کی ممانعت کر دی گئی ۔ اسی طرح کے بعض اور بھی انتہائی سخت احکام جاری کئے گئے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے ، چنانچہ جب یہ بات پیدا ہو گئی تو وہ سخت احکام واپس لے لئے گئے ۔ اس تمہید کے بعد شراب کی حرمت سے متعلق آگے درج ہونے والی حدیثیں پڑھئے :
تشریح ..... حدیث کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں جابجا کر دی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی اس حدیث سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ شراب کی حرمت کے بارے میں ابتداء تدریجی رویہ اختیار کیا گیا اور آخر میں سورہ مائدہ کی آیت میں اس کے بارے میں “رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ” فرما کر اس کی قطعی حرمت کا اعلان فرما دیا گیا ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ۸ھ میں نازل ہوئی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حُرِّمَتِ الْخَمْرُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَأْكُلُونَ الْمَيْسِرَ، فَسَأَلُوهُ عَنْهُمَا، فَنَزَلَ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ الْآيَةِ، فَقَالَ النَّاسُ: مَا حَرَّمَ عَلَيْنَا، وَكَانُوا يَشْرَبُونَ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمٌ صَلَّى رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، بِأَصْحَابِهِ وَخَلَطَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَنَزَلَتْ آيَةٌ أَغْلَظَ مِنْهَا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى الاية، وَكَانَوْا يَشْرَبُونَ حَتَّى نَزَلَتْ أَغْلَظُ مِنْهَا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ الاية، قَالُوا: انْتَهَيْنَا رَبَّنَا، فَقَالُوْا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَاسٌ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَاتُوا عَلَى فُرُشِهِمْ كَانُوا يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَأْكُلُونَ الْمَيْسِرَ، وَقَدْ جَعَلَهُ اللَّهُ رِجْسًا، مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ، فَنَزَلَ: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا} الْآيَةِ. (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مشروبات کے احکام: شراب کی حرمت کا حکم
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (میرے مربی اور سرپرست) ابو طلحہ انصاری کے گھر میں مجلس قائم تھی اور شراب کا دور چل رہا تھا اور میں پلانے والا تھا تو رسول اللہ ﷺ پر شراب کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا (یعنی سورہ مائدہ کی وہ آیت نازل ہو گئی جس میں شراب کو “رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ” بتلا کر اس کوقطعی حرام قرار دیا گیا ہے) تو آپ ﷺ نے اسی وقت ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان مدینہ میں کر دے ، چنانچہ اس نے (معمول کے مطابق پکار کے) اعلان کیا تو ابو طلحہ نے مجھ سے کہا کہ انس باہر جا کر دیکھو کہ یہ کیسی پکار ہے اور کیا اعلان ہو رہا ہے کہ “شراب حرام ہو گئی” تو ابو طلحہ نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ اور ساری شراب کو باہر لے جا کر بہا دو ، چنانچہ (میںٰ نے ایسا ہی کیا اور دوسرے گھروں سے بھی شراب بہائی گئی جس کی وجہ سے) شراب مدینہ کی گلیوں سے بہنے لگی ۔ انس کہتے ہیں کہ اس دن وہ شراب وہ تھی جو “فصیح” بولی جاتی ہے ۔ پھر بعض لوگوں کی زبان پر یہ بات آئی کہ بہت سے بندگانِ خدا ایسی حالت میں شہید ہوئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں تھی (تو ان کا کیا انجام ہو گا ؟) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی “لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا” جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ شراب کی قطعی حرمت کے اس حکم کے آنے سے پہلے اس دنیا سے جا چکے اور ان کی زندگی ایمان اور عملِ صالح اور تقویٰ والی تھی تو اس پچھلے دور کے کھانے پینے کے بارے میں ان سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ایک خاص قسم کی شراب بنائی جاتی تھی ۔ کچی پکی کھجوروں کے باریک ٹکڑے کر کے ان کو اس میں ڈال دیا جاتا تھا ، ایک مقررہ مدت گزرنے پر اس میں سرور اور نشہ پیدا ہو جاتا تھا ، اس زمانہ میں یہ اوسط درجہ کی ایک شراب تھی جو بہت آسانی سے بن جاتی تھی ۔
تشریح
ایک خاص قسم کی شراب بنائی جاتی تھی ۔ کچی پکی کھجوروں کے باریک ٹکڑے کر کے ان کو اس میں ڈال دیا جاتا تھا ، ایک مقررہ مدت گزرنے پر اس میں سرور اور نشہ پیدا ہو جاتا تھا ، اس زمانہ میں یہ اوسط درجہ کی ایک شراب تھی جو بہت آسانی سے بن جاتی تھی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ فَنَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى. فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ اخْرُجْ فَانْظُرْ مَا هَذَا الصَّوْتُ قَالَ فَخَرَجْتُ فَقُلْتُ هَذَا مُنَادٍ يُنَادِي أَلاَ إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ. فَقَالَ لِي اذْهَبْ فَأَهْرِقْهَا. قَالَ فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ. قَالَ وَكَانَتْ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ قُتِلَ قَوْمٌ وَهْيَ فِي بُطُونِهِمْ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مشروبات کے احکام: شراب کی حرمت کا حکم
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے یہاں کچھ شراب تھی جو ایک یتیم بچہ کی ملکیت تھی تو جب سورہ مائدہ (یعنی س کی وہ آیت جس میں شراب کی قطعی حرمت کا حکم بیان ہوا ہے) نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس شراب کے بارے میں پوچھا کہ اب اس کا کیا کیا جائے ؟ اور میں نے یہ عرض کر دیا کہ وہ ایک یتیم بچہ کی ملکیت ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس کو پھینک دیا جائے اور بہا دیا جائے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس کی بھی اجازت نہیں دی کہ اس کو کسی غیر مسلم کے ہاتھ بیچ دیا جائے یا کسی طرح بھی اس سے کوئی فائدہ اٹھا لیا جائے ۔ اور حضرت انسؓ کی ایک روایت میں ہے کہ شراب کی قطعی حرمت نازل ہونے سے کچھ ہی پہلے ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بعض یتیموں کے لئے جو ان کی سرپرستی میں تھے ان ہی کے حساب میں شراب خریدی تھی ، انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اب اس کا کیا کیا جائے ؟ تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : “اهرق الخمر واكسر الدباء” یعنی شراب کو بہا دو ، پھینک دو اور جن مٹکوں میں وہ ہے ان کو بھی توڑ دو ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس کی بھی اجازت نہیں دی کہ اس کو کسی غیر مسلم کے ہاتھ بیچ دیا جائے یا کسی طرح بھی اس سے کوئی فائدہ اٹھا لیا جائے ۔ اور حضرت انسؓ کی ایک روایت میں ہے کہ شراب کی قطعی حرمت نازل ہونے سے کچھ ہی پہلے ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بعض یتیموں کے لئے جو ان کی سرپرستی میں تھے ان ہی کے حساب میں شراب خریدی تھی ، انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اب اس کا کیا کیا جائے ؟ تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : “اهرق الخمر واكسر الدباء” یعنی شراب کو بہا دو ، پھینک دو اور جن مٹکوں میں وہ ہے ان کو بھی توڑ دو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ: كَانَ عِنْدَنَا خَمْرٌ لِيَتِيمٍ فَلَمَّا نَزَلَتِ الْمَائِدَةُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ وَقُلْتُ إِنَّهُ لِيَتِيمٍ فَقَالَ: أَهْرِيقُوهُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شراب کی حرمت اور شرابی کے بارے میں وعیدیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ہر نشہ آور چیز (یعنی ہر وہ مشروب جس کو پی کر نشہ آ جائے) خمر (شراب) کا مصداق ہے اور حرام ہے اور جو کوئی دنیا میں شراب پیئے اور اس حال میں مرے کہ برابر شراب پیتا ہو اور اس نے اس سے توبہ نہ کی ہو تو وہ آخرت میں جنت کی شراب طہور سے محروم رہے گا ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ وَمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا فَمَاتَ وَهُوَ يُدْمِنُهَا لَمْ يَتُبْ لَمْ يَشْرَبْهَا فِي الآخِرَةِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৮৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شراب کی حرمت اور شرابی کے بارے میں وعیدیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے آیا اور رسول اللہ ﷺ سے ایک خاص قسم کی شراب کے بارے میں سوال کیا جو اس علاقہ میں پی جاتی تھی جس کو “مزر” کہا جاتا تھا اور وہ چینا سے بنتی تھی آپ ﷺ نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا وہ نشہ پیدا کرتی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں اس سے نشہ ہوتا ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : (اصولی بات یہ ہے کہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے (مزید آپ ﷺ نے فرمایا کہ سنو) نشہ پینے والے کے لئے اللہ کا یہ عہد ہے جس کو پورا کرنا اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ وہ آخرت میں اس کو “طِينَةِ الْخَبَالِ” ضرور پلائے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ “طِينَةِ الْخَبَالِ” کیا چیز ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : دوزخیوں کے جسم سے نکلنے والا پسینہ ، یا فرمایا کہ دوزخیوں کے جسم سے نکلنے والا لہو پیپ ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یعنی راوی کو شک ہے کہ “طِينَةِ الْخَبَالِ” کی وضاغت کے لئے رسول اللہ ﷺ نے “عَرَقُ أَهْلِ النَّارِ” فرمایا تھا یا “عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ” پہلے کا ترجمہ “دوزخیوں کا پسینہ” اور دوسرے کا ترجمہ “دوزخیوں کے جسم سے بہنے والا لہو اور پیپ” بہرحال شراب کی حرمت کے بعد اس کا پینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرما لیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں شراب سے دلچسپی رکھے گا اور بلا توبہ کے اس دنیا سے چلا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو شراب نوشی کی پاداش میں “طِينَةِ الْخَبَالِ” ضرور پلائے گا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
تشریح
یعنی راوی کو شک ہے کہ “طِينَةِ الْخَبَالِ” کی وضاغت کے لئے رسول اللہ ﷺ نے “عَرَقُ أَهْلِ النَّارِ” فرمایا تھا یا “عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ” پہلے کا ترجمہ “دوزخیوں کا پسینہ” اور دوسرے کا ترجمہ “دوزخیوں کے جسم سے بہنے والا لہو اور پیپ” بہرحال شراب کی حرمت کے بعد اس کا پینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرما لیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں شراب سے دلچسپی رکھے گا اور بلا توبہ کے اس دنیا سے چلا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو شراب نوشی کی پاداش میں “طِينَةِ الْخَبَالِ” ضرور پلائے گا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَجُلاً قَدِمَ مِنَ الْيَمَنِ فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَرَابٍ يَشْرَبُونَهُ بِأَرْضِهِمْ مِنَ الذُّرَةِ يُقَالُ لَهُ الْمِزْرُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَمُسْكِرٌ هُوَ؟ قَالَ نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ إِنَّ عَلَى اللَّهِ عَهْدًا لِمَنْ يَشْرَبُ الْمُسْكِرَ أَنْ يَسْقِيَهُ مِنْ طِينَةِ الْخَبَالِ. قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا طِينَةُ الْخَبَالِ قَالَ: عَرَقُ أَهْلِ النَّارِ أَوْ عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شراب کی حرمت اور شرابی کے بارے میں وعیدیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام عالم کے لئے رحمت اور سب کے لئے وسیلہ ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور میرے پروردگار عز وجل نے مجھے حکم دیا ہے معاز و مزامیر (یعی ہر طرح کے باجوں) کے مٹا دینے کا اور بت پرستی اور صلیب پرستی کو مٹا دینے کا اور تمام رسوم جاہلیت کو ختم کر دینے کا ، اور میرے رب عزو جل نے یہ قسم کھائی ہے کہ میری عزت و جلال کی قسم میرے بندوں میں سے جو بندہ شراب کا ایک گھونٹ بھی پیئے گا تو میں آخرت میں اس کو اتنا ہی لہو و پیپ ضرور پلاؤں گا ۔ اور جو بندہ میرے خوف سے شراب کو چھوڑ دے گا اور اس سے باز رہے گا تو میں آخرت کے قدسی حوضوں کی شراب، طہور اپنے اس بندہ کو ضرور نوش کراؤں گا ۔(مسند احمد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ چند اصلاحی کام رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے خاص مقاصد میں سے ہیں ۔ بت پرستی اور صلیب پرستی کا قلع قمع کرنا ، زمانہ جاہلیت کی جاہلی رسوم کو ختم کرنا ، اور معازف و مزامیر یعنی ہر قسم کے باجوں کے رواج کو مٹانا ...... معازف ان باجوں کو کہا جاتا ہے جو ہاتھ سے بجائے جاتے ہیں جیسے ڈھولک ، طبلہ ، ستار ، سارنگی وغیرہ اور مزامیر وہ باجے ہیں جو منہ سے بجائے جاتے ہیں جیسے شہنائی اور بانسری وغیرہ ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سب باجے دراصل لہو لعب اور فسق و فجور کے آلات ہیں اور دنیا سے ان کے رواج کو مٹانا رسول اللہ ﷺ کے ان خاص کاموں میں سے ہے جن کے لئے آپ ﷺ مبعوث ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں ۔ لیکن کس قدر دکھ کی بات ہے اور شیطان کی کتنی بڑی کامیابی ہے کہ بزرگانِ دین کے مزارات پر عرسوں کے نام سے جو میلے ہوتے ہیں ان میں دوسری خرافات کے علاوہ معازف و مزامیر کا بھی وہ زور ہوتا ہے کہ فسق و فجور کے کسی تماشے میں بھی اس سے زیادہ نہ ہوتا ہو گا ۔ کاش یہ لوگ سمجھ سکتے کہ خود ان کے بزرگانِ دین کی روحوں کو ان خرافات اور ان باجوں گانوں سے کتنی تکلیف ہوتی ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں شیطان کے مشن کو کامیاب بنا کر روحِ نبویﷺ کو کتنا صدمہ پہنچا رہے ہیں ۔
حدیث کے آخری حصہ میں شراب اور ان شراب پینے والوں کے بارے میں اور خدا کے خوف سے شراب سے بچنے والوں کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ ہم کو بھی اپنے بندوں میں شامل فرمائے جو اس کے حکم سے اور اس کی پکڑ اور عذاب کے خوف سے شراب سے پرہیز کرتے ہیں اور جنت کے قدسی حوضوں کی شراب طہور سے ہمیں سیراب فرمائے ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ چند اصلاحی کام رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے خاص مقاصد میں سے ہیں ۔ بت پرستی اور صلیب پرستی کا قلع قمع کرنا ، زمانہ جاہلیت کی جاہلی رسوم کو ختم کرنا ، اور معازف و مزامیر یعنی ہر قسم کے باجوں کے رواج کو مٹانا ...... معازف ان باجوں کو کہا جاتا ہے جو ہاتھ سے بجائے جاتے ہیں جیسے ڈھولک ، طبلہ ، ستار ، سارنگی وغیرہ اور مزامیر وہ باجے ہیں جو منہ سے بجائے جاتے ہیں جیسے شہنائی اور بانسری وغیرہ ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سب باجے دراصل لہو لعب اور فسق و فجور کے آلات ہیں اور دنیا سے ان کے رواج کو مٹانا رسول اللہ ﷺ کے ان خاص کاموں میں سے ہے جن کے لئے آپ ﷺ مبعوث ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں ۔ لیکن کس قدر دکھ کی بات ہے اور شیطان کی کتنی بڑی کامیابی ہے کہ بزرگانِ دین کے مزارات پر عرسوں کے نام سے جو میلے ہوتے ہیں ان میں دوسری خرافات کے علاوہ معازف و مزامیر کا بھی وہ زور ہوتا ہے کہ فسق و فجور کے کسی تماشے میں بھی اس سے زیادہ نہ ہوتا ہو گا ۔ کاش یہ لوگ سمجھ سکتے کہ خود ان کے بزرگانِ دین کی روحوں کو ان خرافات اور ان باجوں گانوں سے کتنی تکلیف ہوتی ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں شیطان کے مشن کو کامیاب بنا کر روحِ نبویﷺ کو کتنا صدمہ پہنچا رہے ہیں ۔
حدیث کے آخری حصہ میں شراب اور ان شراب پینے والوں کے بارے میں اور خدا کے خوف سے شراب سے بچنے والوں کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ ہم کو بھی اپنے بندوں میں شامل فرمائے جو اس کے حکم سے اور اس کی پکڑ اور عذاب کے خوف سے شراب سے پرہیز کرتے ہیں اور جنت کے قدسی حوضوں کی شراب طہور سے ہمیں سیراب فرمائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ، وَأَمَرَنِي رَبِّي بِمَحْقِ الْمَعَازِفِ وَالْمَزَامِيرِ وَالْأَوْثَانِ وَالصُّلُبِ، وَأَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ وَحَلَفَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِعِزَّتِهِ: لَا يَشْرَبُ عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِي جَرْعَةً مِنْ خَمْرٍ، إِلَّا سَقَيْتُهُ مِنَ الصَّدِيدِ مِثْلَهَا، وَلَا يَتْرُكُهَا مِنْ مَخَافَتِي إِلَّا سَقَيْتُهُ مِنْ حِيَاضِ الْقُدُسِ" (رواه احمد)
তাহকীক: