মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৫৯১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نشہ آور شراب کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس شراب کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
“قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث مسند احمد اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے” ۔
“قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث مسند احمد اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے” ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ. (رواه ابوداؤد والترمذى وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شراب بطور دوا کے بھی استعمال نہ کی جائے
حضرت وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے شراب کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا ، انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اس کو دوا کے لیے استعمال کرتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ :وہ دوا نہیں ہے بلکہ وہ تو بیماری ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
بعض قرائن کی بناء پر کچھ ائمہ اور علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ حدیث اس دور کی ہے جب کہ شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے ایک خاص مصلحت اور مقصد کے لئے (جو آگے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو جائے گا) شراب کے بارے میں انتہائی سخت رویہ ہنگامی طور پر اختیار کیا تھا اور اس سلسلہ میں بعض ان چیزوں کو بھی منع فرما دیا تھا جن کی بعد میں آپ ﷺ نے اجازت دے دی ۔ اس بناء پر ان حضرات نے اس کی گنجائش سمجھی ہے کہ اگر کسی ایسے مریض کے بارے میں جس کی زندگی خطرہ میں ہو ، معتمد اور حاذق طبیب کی رائے ہو کہ اس کے علاج میں شراب ناگزیر ہے تو صرف بقدر ضرورت استعمال کی جا سکتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
بعض قرائن کی بناء پر کچھ ائمہ اور علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ حدیث اس دور کی ہے جب کہ شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے ایک خاص مصلحت اور مقصد کے لئے (جو آگے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو جائے گا) شراب کے بارے میں انتہائی سخت رویہ ہنگامی طور پر اختیار کیا تھا اور اس سلسلہ میں بعض ان چیزوں کو بھی منع فرما دیا تھا جن کی بعد میں آپ ﷺ نے اجازت دے دی ۔ اس بناء پر ان حضرات نے اس کی گنجائش سمجھی ہے کہ اگر کسی ایسے مریض کے بارے میں جس کی زندگی خطرہ میں ہو ، معتمد اور حاذق طبیب کی رائے ہو کہ اس کے علاج میں شراب ناگزیر ہے تو صرف بقدر ضرورت استعمال کی جا سکتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَيْدٍ الْجُعْفِيَّ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَمْرِ فَنَهَاهُ فَقَالَ إِنَّمَا أَصْنَعُهَا لِلدَّوَاءِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شراب نوشی پر اصرار کرنے والی قوم کے خلاف اعلانِ جنگ
حضرت دیلم حمیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم لوگ سرد علاقہ میں رہتے ہیں اور وہاں بڑی سخت محنت کرتے ہیں ، اور ہم گیہوں سے ایک شراب بنا کر استعمال کرتے ہیں اور اس سے قوت و طاقت حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے سخت محنت طلب کام بھی کر لیتے ہیں اور اپنے ملک کی سردی کا مقابلہ بھی کر لیتے ہیۃں ۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا ، کیا اس سے نشہ ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں وہ نشہ پیدا کرتی ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : پھر اس سے بچو ، بالکل استعمال نہ کرو ۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت وہاں کے لوگ اس کو چھوڑنے والے نہیں ہیں ، (یعنی مجھے اس کی امید نہیں ہے کہ وہ کہنے سننے سے اس کا استعمال چھوڑ دیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اگر نہ چھوڑیں تو ان سے جنگ کرو ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی علاقہ کے مسلمان اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے اپنے واسطے شراب کے استعمال کو ناگزیر اور ضروری سمجھیں تب بھی ان کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی علاقہ یا بستی والے شراب کے استعمال پر اجتماعی طور پر اصرار کریں اور باز نہ آئیں تو اسلامی حکومت ان کے خلاف طاقت استعمال کرے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں شراب نوشی کتنا سنگین جرم ہے ۔
تشریح
اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی علاقہ کے مسلمان اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے اپنے واسطے شراب کے استعمال کو ناگزیر اور ضروری سمجھیں تب بھی ان کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی علاقہ یا بستی والے شراب کے استعمال پر اجتماعی طور پر اصرار کریں اور باز نہ آئیں تو اسلامی حکومت ان کے خلاف طاقت استعمال کرے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں شراب نوشی کتنا سنگین جرم ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ دَيْلَمٍ الْحِمْيَرِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا بِأَرْضٍ بَارِدَةٍ نُعَالِجُ فِيهَا عَمَلاً شَدِيدًا وَإِنَّا نَتَّخِذُ شَرَابًا مِنْ هَذَا الْقَمْحِ نَتَقَوَّى بِهِ عَلَى أَعْمَالِنَا وَعَلَى بَرْدِ بِلاَدِنَا. قَالَ: هَلْ يُسْكِرُ؟ قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ: فَاجْتَنِبُوهُ. قَالَ قُلْتُ إِنَّ النَّاسَ غَيْرُ تَارِكِيهِ، قَالَ: إِنْ لَمْ يَتْرُكُوهُ قَاتِلُوهُمْ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شرابیوں کے واسطے سخت ترین وعید
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ہمیشہ شراب پینے والا اگر اسی حال میں مرے گا تو خدا کے سامنے اس کی پیشی مشرک اور بت پرست کی طرح ہو گی ۔ (مسند احمد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُدْمِنُ الْخَمْرِ إِنْ مَاتَ، لَقِيَ اللَّهَ كَعَابِدِ وَثَنٍ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شرابیوں کے واسطے سخت ترین وعید
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کے سلسلے میں (اس سے تعلق رکھنے والے) دس آدمیوں پر لعنت کی ۔ ایک (انگور وغیرہ) شراب نچوڑنے والے پر (اگرچہ کسی دوسرے کے لیے نچوڑے) اور خود اپنے واسطے نچوڑنے والے پر ، اور اس کے پینے والے پر اور ساقی یعنی پلانے والے پر اور اس پر جو شراب کو لے کر جائے اور اس پر جس کے لئے وہ لے جائی جائے اور اس کے بیچنے والے اور خریدنے والے پر اور اس پر جو کسی چوسرے کو ہدیہ اور تحفہ میں شراب دے اور اس پر جو اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت کھائے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
لعنت کا مطلب ہے خدا کی رحمت اور اس کی نگاہِ کرم سے محرومی کی بد دعا ، اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص شراب سے کچھ بھی تعلق رکھے ، خواہ اس کا بنانے والا یا بنوانے والا ہو ، یا پینے والا یا پلانے والا ہو ، یا خریدنے والا یا بیچنے والا ہو ۔ کسی کو ہبہ کرنے والا یا اس کو کسی کے پاس پہنچانے والا ہو ، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ نے بددعا کی کہ وہ خدا کی رحمت اور اس کی نگاہِ کرم سے محروم ہیں ۔
“قریب قریب اسی مضمون کی حدیث مسند احمد اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہسے بھی مروی ہے” ۔
رسول اللہ ﷺ کے اس قسم کے ارشادات نے صحابہ کرامؓ کو شراب کے بارے میں کتنا شدت پسند بنا دیا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے انگور کے باغات تھے ، ایک دفعہ ان میں بہت پھل آیا تو باغوں کے اس محافظ نے جو ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے ان کی طرف سے مقرر تھا (اور ان کا معتمد ملازم تھا) ان کو خط لکھا کہ اس فصل میں انگور کی پیداوار بہت ہے اور مجھے ان کے ضائع اور برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔ تو آپ کی رائے ہو تو میں انگوروں سے شیرہ حاصل کر کے محفوظ کر لوں ؟ حضرت نے اس کے جواب میں خط لکھا ۔
إِذَا جَاءَكَ كِتَابِي، فَاعْتَزِلْ ضَيْعَتِي، فَوَاللَّهِ لَا أَئْتَمِنُكَ عَلَى شَيْءٍ بَعْدَهُ أَبَدًا» (1)
(جب تمہیں میرا یہ خط ملے تو میری زمین اور باغات سے الگ اور بےتعلق ہو جاؤ ۔ خدا کی قسم ! میں اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں بھی تم پر اعتماد نہیں کر سکتا) ۔
بہرحال حضرت سعد نے اس محافظ اور باغبان کو صرف اس بناء پر الگ اور ملازمت سے برطرف کر دیا کہ اس نے انگور سے شیرہ حاصل کر کے اس کو محفوظ کرنے کے بارے میں سوچا تھا جس سے شراب بنائی جا سکتی ہے ۔
تشریح
لعنت کا مطلب ہے خدا کی رحمت اور اس کی نگاہِ کرم سے محرومی کی بد دعا ، اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص شراب سے کچھ بھی تعلق رکھے ، خواہ اس کا بنانے والا یا بنوانے والا ہو ، یا پینے والا یا پلانے والا ہو ، یا خریدنے والا یا بیچنے والا ہو ۔ کسی کو ہبہ کرنے والا یا اس کو کسی کے پاس پہنچانے والا ہو ، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ نے بددعا کی کہ وہ خدا کی رحمت اور اس کی نگاہِ کرم سے محروم ہیں ۔
“قریب قریب اسی مضمون کی حدیث مسند احمد اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہسے بھی مروی ہے” ۔
رسول اللہ ﷺ کے اس قسم کے ارشادات نے صحابہ کرامؓ کو شراب کے بارے میں کتنا شدت پسند بنا دیا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے انگور کے باغات تھے ، ایک دفعہ ان میں بہت پھل آیا تو باغوں کے اس محافظ نے جو ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے ان کی طرف سے مقرر تھا (اور ان کا معتمد ملازم تھا) ان کو خط لکھا کہ اس فصل میں انگور کی پیداوار بہت ہے اور مجھے ان کے ضائع اور برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔ تو آپ کی رائے ہو تو میں انگوروں سے شیرہ حاصل کر کے محفوظ کر لوں ؟ حضرت نے اس کے جواب میں خط لکھا ۔
إِذَا جَاءَكَ كِتَابِي، فَاعْتَزِلْ ضَيْعَتِي، فَوَاللَّهِ لَا أَئْتَمِنُكَ عَلَى شَيْءٍ بَعْدَهُ أَبَدًا» (1)
(جب تمہیں میرا یہ خط ملے تو میری زمین اور باغات سے الگ اور بےتعلق ہو جاؤ ۔ خدا کی قسم ! میں اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں بھی تم پر اعتماد نہیں کر سکتا) ۔
بہرحال حضرت سعد نے اس محافظ اور باغبان کو صرف اس بناء پر الگ اور ملازمت سے برطرف کر دیا کہ اس نے انگور سے شیرہ حاصل کر کے اس کو محفوظ کرنے کے بارے میں سوچا تھا جس سے شراب بنائی جا سکتی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشَرَةً عَاصِرَهَا وَمُعْتَصِرَهَا وَشَارِبَهَا وَسَاقِيَهَا وَحَامِلَهَا وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ وَبَائِعَهَا وَمُبْتَاعَهَا وَوَاهِبَهَا وَآكِلَ ثَمَنِهَا. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ہر نشہ آور چیز حرام ہے
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (دعوت و تبلیغ اور دوسرے دینی مقاصد کے لئے) مجھے اور معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجا اور ہم لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ لوگوں کو دین حق کی دعوت دینا اور ان کو (خوش انجامی کی) بشارریں سنانا اور ان سے ایسی باتیں نہ کرنا جن سے وہ دور بھاگیں اور ان کو وحشت ہو ، نیز لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ، ان کو مشکلات میں نہ ڈالنا ! ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ہمیں دو شرابوں کے بارے میں شریعت کا حکم بتا دیجئے جو ہم یمن میں بنایا کرتے تھے (یعنی وہاں ان کے پینے کا عام رواج تھا) ایک وہ جسے بتع کہا جاتا ہے وہ شہد سے بنائی جاتی ہے (مقررہ حساب سے) شہد میں پانی ملا کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ اس میں جوش پیدا ہو جائے اور دوسری وہ شراب ہے جسے مزر کہا جاتا ہے اور وہ چینا اور جو سے بنائی جاتی ہے ۔ اسے بھی پانی میں چھوڑ دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس میں جوش پیدا ہو جائے (الغرض دو شرابوں کے بارے میں ابو موسیٰ اشعری نے شرعی حکم دریافت کیا) ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو “جوامع الکلم اور خواتم الکلم” کی نعمت عطا فرمائی تھی ، یعنی آپ ﷺ کو اس کی خاص صلاحیت بخشی تھی کہ (بہت مختصر الفاظ میں) انتہائی جامع ، مانع اور فیصلہ کن بات فرما دیتے تھے (چنانچہ آپ ﷺ نے میرے سوال کے جواب میں) ارشاد فرمایا “أَنْهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ أَسْكَرَ عَنِ الصَّلاَةِ” (میں ہر اس چیز کی ممانعت کرتا ہوں جو نشہ آور ہو اور نماز سے آدمی کو غافل کر دے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے بطور قاعدہ کلیہ کے معلوم ہو گیا کہ جس چیز کے کھانے پینے سے نشہ پیدا ہو اور نماز جیسی چیز سے غفلت ہو جائے ، وہ شریعت اسلام میں ممنوع اور ناجائز ہے ۔ اس سے بھنگ وغیرہ ان تمام نباتات کا حکم بھی معلوم ہو گیا جو نشہ پیدا کرتی ہیں ، اور نشہ ہی کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ۔
تشریح
اس حدیث سے بطور قاعدہ کلیہ کے معلوم ہو گیا کہ جس چیز کے کھانے پینے سے نشہ پیدا ہو اور نماز جیسی چیز سے غفلت ہو جائے ، وہ شریعت اسلام میں ممنوع اور ناجائز ہے ۔ اس سے بھنگ وغیرہ ان تمام نباتات کا حکم بھی معلوم ہو گیا جو نشہ پیدا کرتی ہیں ، اور نشہ ہی کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عن أَبِيْ مُوْسَى قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ: ادْعُوَا النَّاسَ وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا وَيَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا. قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْتِنَا فِي شَرَابَيْنِ كُنَّا نَصْنَعُهُمَا بِالْيَمَنِ الْبِتْعُ وَهُوَ مِنَ الْعَسَلِ يُنْبَذُ حَتَّى يَشْتَدَّ وَالْمِزْرُ وَهُوَ مِنَ الذُّرَةِ وَالشَّعِيرِ يُنْبَذُ حَتَّى يَشْتَدَّ قَالَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُعْطِيَ جَوَامِعَ الْكَلِمِ بِخَوَاتِمِهِ فَقَالَ: أَنْهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ أَسْكَرَ عَنِ الصَّلاَةِ. (رواه البخارى ومسلم واللفظ له)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ امت کی شراب نوشی کے بارے میں ایک پیشین گوئی
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا ، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پیئیں گے اور (از راہِ فریب) اس کا کوئی دوسرا نام رکھیں گے ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
شراب کی حرمت کے بارے میں شریعت اسلام کا جو بے لاگ فیصلہ ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے متعلق جو سخت ترین رویہ اختیار فرمایا ہے وہ مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکا ہے ، لیکن آپ ﷺ پر یہ منکشف کیا گیا تھا کہ شریعت کے واضح احکام اور آپ ﷺ کے اس سخت رویہ کے باوجود آپ ﷺ کی امت کے کچھ غلط کار لوگ شراب پیئیں گے اور اپنے بچاؤ کے لئے بطور حیلہ کے اس شراب کا کوئی اور نام رکھیں گے اور نام کی تبدیلی سے دوسروں کو یا خود کو فریب دینا چاہیں گے ۔ حالانکہ صرف نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدلتی اور شریعت کا حکم بھی نہیں بدلتا ۔ اس لئے خدا کے نزدیک وہ شراب نوشی کے مجرم ہوں گے اور نام بدلنے کا فریب ان کا دوسرا جرم ہو گا ۔
تشریح
شراب کی حرمت کے بارے میں شریعت اسلام کا جو بے لاگ فیصلہ ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے متعلق جو سخت ترین رویہ اختیار فرمایا ہے وہ مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکا ہے ، لیکن آپ ﷺ پر یہ منکشف کیا گیا تھا کہ شریعت کے واضح احکام اور آپ ﷺ کے اس سخت رویہ کے باوجود آپ ﷺ کی امت کے کچھ غلط کار لوگ شراب پیئیں گے اور اپنے بچاؤ کے لئے بطور حیلہ کے اس شراب کا کوئی اور نام رکھیں گے اور نام کی تبدیلی سے دوسروں کو یا خود کو فریب دینا چاہیں گے ۔ حالانکہ صرف نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدلتی اور شریعت کا حکم بھی نہیں بدلتا ۔ اس لئے خدا کے نزدیک وہ شراب نوشی کے مجرم ہوں گے اور نام بدلنے کا فریب ان کا دوسرا جرم ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مَالِكٍ الأَشْعَرِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا. (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شراب کے سلسلہ میں کچھ سخت ہنگامی احکام
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ : دبا یا حنتم یا مقفت یا نقیر میں نبیذ بنائی جائے اور حکم دیا کہ اب چمڑے کے مشکیزوں میں نبیذ بنائی جائے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ جب سورہ مائدہ کے نزول کے بعد شراب کی قطعی حرمت کا اعلان کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلہ میں بعض ایسے سخت ہنگامی احکام بھی جاری فرمائے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہلِ ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے اور پرائی عادت کبھی اس کی طرف میلان اور رغبت پیدا نہ کر سکے ۔ ذیل میں اس سلسلہ کی حدیثیں پڑھی جائیں ۔
تشریح ..... کھجور یا منقیٰ یا انگور یا اس طرح کی کوئی چیز پانی میں ڈال دی جائے اور اتنی دیر پڑی رہے کہ اس کا ذائقہ اور شیرینی پانی میں آ جائے اور نشہ کی کیفیت پیدا نہ ہو تو اس کو نبیذ کہتے ہیں ۔ عربوں میں اس کا بھی رواج تھا اور جیسا کہ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ بھی اس کو نوش فرماتے تھے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں چار قسم کے جن برتنوں میں نبیذ بنانے سے رسول اللہ ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے ، یہ عام طور سے شراب بنانے میں استعمال ہوتے تھے ۔ دبا ، کدو کی تونبی ہوتی تھی ، حنتم اور مزفت یہ خاص طرح کی ٹھلیاں ہوتیں تھیں اور نقیر کھجور کی لکڑی سے بنا ہوا ایک برتن ہوتا تھا ۔ بہرحال یہ چاروں قسم کے برتن عام طور سے شراب میں استعمال ہوتے تھے ، جب شراب کی قطعی حرمت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے بھی منع فرما دیا ۔ غالبا اس ممانعت کا مقصد یہ تھا کہ یہ برتن شراب کو یاد دلا کر دل میں اس کی طلب اور خواہش پیدا نہ کریں ۔ پھر جب شراب کی نفرت پوری طرح دلوں میں جاگزیں ہو گئی اور اس کا اندیشہ باقی نہ رہا کہ یہ برتن شراب کو یاد دلا کر اس کی طلب اور خواہش پیدا کریں تو رسول اللہ ﷺ نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث میں صراحۃً مذکور ہے ۔
تشریح
یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ جب سورہ مائدہ کے نزول کے بعد شراب کی قطعی حرمت کا اعلان کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلہ میں بعض ایسے سخت ہنگامی احکام بھی جاری فرمائے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہلِ ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے اور پرائی عادت کبھی اس کی طرف میلان اور رغبت پیدا نہ کر سکے ۔ ذیل میں اس سلسلہ کی حدیثیں پڑھی جائیں ۔
تشریح ..... کھجور یا منقیٰ یا انگور یا اس طرح کی کوئی چیز پانی میں ڈال دی جائے اور اتنی دیر پڑی رہے کہ اس کا ذائقہ اور شیرینی پانی میں آ جائے اور نشہ کی کیفیت پیدا نہ ہو تو اس کو نبیذ کہتے ہیں ۔ عربوں میں اس کا بھی رواج تھا اور جیسا کہ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ بھی اس کو نوش فرماتے تھے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں چار قسم کے جن برتنوں میں نبیذ بنانے سے رسول اللہ ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے ، یہ عام طور سے شراب بنانے میں استعمال ہوتے تھے ۔ دبا ، کدو کی تونبی ہوتی تھی ، حنتم اور مزفت یہ خاص طرح کی ٹھلیاں ہوتیں تھیں اور نقیر کھجور کی لکڑی سے بنا ہوا ایک برتن ہوتا تھا ۔ بہرحال یہ چاروں قسم کے برتن عام طور سے شراب میں استعمال ہوتے تھے ، جب شراب کی قطعی حرمت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے بھی منع فرما دیا ۔ غالبا اس ممانعت کا مقصد یہ تھا کہ یہ برتن شراب کو یاد دلا کر دل میں اس کی طلب اور خواہش پیدا نہ کریں ۔ پھر جب شراب کی نفرت پوری طرح دلوں میں جاگزیں ہو گئی اور اس کا اندیشہ باقی نہ رہا کہ یہ برتن شراب کو یاد دلا کر اس کی طلب اور خواہش پیدا کریں تو رسول اللہ ﷺ نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی جیسا کہ آگے درج ہونے والی حدیث میں صراحۃً مذکور ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ وَالنَّقِيرِ وَأَمَرَ أَنْ يُنْبَذَ فِيْ اَسْقَيِةِ الْاَدَمِ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৯৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شراب کے سلسلہ میں کچھ سخت ہنگامی احکام
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں نے تم کو کچھ برتنوں کے استعمال سے منع کر دیا تھا (اب میں اس کی اجازت دیتا ہوں) کیوں کہ صرف برتن کی وجہ سے کوئی چیز حلال یا حرام نہیں ہو جاتی ۔۔۔ (ہاں یہ ملحوظ رہے کہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے (لہذا اس سے بچو) ۔۔۔ اور یہی حدیث اس طرح بھی روایت کی گئی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ “میں نے تم کو منع کیا تھا کہ چمڑے کے برتنوں (مشکیزوں) کے سوا کوئی اور برتن استعمال نہ کرو (اب اجازت دیتا ہوں کہ) ہر قسم کے برتن میں پی سکتے ہو ، لیکن کوئی نشہ پیدا کرنے والی چیز ہرگز نہ پی جائے” ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کی قطعی حرمت نازل ہو جانے کے بعد اس کے بارے میں کچھ زیادہ سخت احکام مذکورہ بالا مصلحت سے وقتی اور عارضی طور پر بھی دئیے تھے جو بعد میں واپس لے لئے گئے ۔
تشریح
اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کی قطعی حرمت نازل ہو جانے کے بعد اس کے بارے میں کچھ زیادہ سخت احکام مذکورہ بالا مصلحت سے وقتی اور عارضی طور پر بھی دئیے تھے جو بعد میں واپس لے لئے گئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَهَيْتُكُمْ عَنِ الظُّرُوفِ فَإِنَّ ظَرْفًا لاَ يُحِلُّ شَيْئًا وَلاَ يُحَرِّمُهُ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ. وَفِيْ رِوَايَةٍ نَهَيْتُكُمْ عَنِ الأَشْرِبَةِ فِي ظُرُوفِ الأَدَمِ فَاشْرَبُوا فِي كُلِّ وِعَاءٍ غَيْرَ أَنْ لاَ تَشْرَبُوا مُسْكِرًا. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شراب کے سلسلہ میں کچھ سخت ہنگامی احکام
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا : (نبیذ بنانے کے لئے) کچی خشک کھجوروں اور آدھ پکی کھجوروں کے ملانے سے ، اور اسی طرح خشک انگور اور پکی کھجورں کے ملانے سے اور کچی کھجوروں اور پکی تازہ کھجوروں کے ملانے سے اور ارشاد فرمایا کہ ان سب چیزوں کی علیحدہ علیحدہ نبیذ بنایا کریں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں جن مختلف چیزوں کو باہم ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا گیا ہے ان کو ملا کر پانی میں ڈالنے سے نشہ کی کیفیت جلدی پیدا ہو جانے کا امکان ہوتا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے بطور احتیاط کے یہ ممانعت فرمائی تھی اور حکم دیا تھا کہ ان چیزوں کی نبیذ علیحدہ علیحدہ ہی بنائی جائے ۔ اور غالباً یہ حکم بھی آپ ﷺ نے اسی زمانہ میں دیا تھا جب کہ شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور آپ ﷺ امت کی تربیت کتے لئے اس بارے میں ایسے سخت احکام بھی دے رہے تھے جن کا مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان شراب اور نشہ کے ادنیٰ شبہ سے بھی نفرت کرنے لگیں ۔ لیکن جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو پھر وہ سخت احکام واپس لے لئے گئے جو اس مقصد کے لئے ہنگامی طور پر دئیے گئے تھے ۔ آگے درج ہونے والی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ کے لیے خشک انگور اور کھجوریں پانی میں ساتھ ڈال کر نبیذ تیار کی جاتی تھی اور آپ ﷺ نوش فرماتے تھے ۔
تشریح
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں جن مختلف چیزوں کو باہم ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا گیا ہے ان کو ملا کر پانی میں ڈالنے سے نشہ کی کیفیت جلدی پیدا ہو جانے کا امکان ہوتا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے بطور احتیاط کے یہ ممانعت فرمائی تھی اور حکم دیا تھا کہ ان چیزوں کی نبیذ علیحدہ علیحدہ ہی بنائی جائے ۔ اور غالباً یہ حکم بھی آپ ﷺ نے اسی زمانہ میں دیا تھا جب کہ شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور آپ ﷺ امت کی تربیت کتے لئے اس بارے میں ایسے سخت احکام بھی دے رہے تھے جن کا مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان شراب اور نشہ کے ادنیٰ شبہ سے بھی نفرت کرنے لگیں ۔ لیکن جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو پھر وہ سخت احکام واپس لے لئے گئے جو اس مقصد کے لئے ہنگامی طور پر دئیے گئے تھے ۔ آگے درج ہونے والی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ کے لیے خشک انگور اور کھجوریں پانی میں ساتھ ڈال کر نبیذ تیار کی جاتی تھی اور آپ ﷺ نوش فرماتے تھے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ خَلِيطِ التَّمْرِ وَالْبُسْرِ وَعَنْ خَلِيطِ الزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ وَعَنْ خَلِيطِ الزَّهْوِ وَالرُّطَبِ وَقَالَ: انْتَبِذُوا كُلَّ وَاحِدٍ عَلَى حِدَتِهِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نبیذ حلال طیب ہے اور خود رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے تھے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے خشک انگوروں سے نبیذ بنائی جاتی تھی اور اس میں کھجوریں بھی ڈال دی جاتی تھیں ، یا کھجوروں سے نبیذ بنائی جاتی تھی اور اس میں خشک انگور بھی ڈال دئیے جاتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انگور اور کھجور وغیرہ مخلوط اجناس کی نبیذ بھی جائز ہے ہاں اس کی شدید احتیاط ضروری ہے کہ اس میں نشہ کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے واسطے نبیذ بنانے کے لئے ہم پانی میں کھجوریں وغیرہ شام کو ڈال دیتے تھے جس کو آپ صبح کو نوش فرما لیتے تھے اور پھر ہم شام کے واسطے اسی طرح صبح کو ڈال دیتے تھے اور اس کو آپ ﷺ شام کے وقت نوش فرما لیتے تھے ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انگور اور کھجور وغیرہ مخلوط اجناس کی نبیذ بھی جائز ہے ہاں اس کی شدید احتیاط ضروری ہے کہ اس میں نشہ کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے واسطے نبیذ بنانے کے لئے ہم پانی میں کھجوریں وغیرہ شام کو ڈال دیتے تھے جس کو آپ صبح کو نوش فرما لیتے تھے اور پھر ہم شام کے واسطے اسی طرح صبح کو ڈال دیتے تھے اور اس کو آپ ﷺ شام کے وقت نوش فرما لیتے تھے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُنْبَذُ لَهُ زَبِيبٌ فَيُلْقِي فِيهِ تَمْرًا وَتَمْرٌ فَيُلْقِي فِيهِ الزَّبِيبَ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نبیذ حلال طیب ہے اور خود رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے تھے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے (اپنے ایک پیالہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کہاکہ میں نے اپنے اس پیالہ سے رسول اللہ ﷺ کو پینے والی سب چیزیں پلائی ہیں ، شہد بھی ، نبیذ بھی ، پانی بھی ، اور دودھ بھی ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نبیذ استعمال کرتے تھے اور آپ ﷺ کے واسطے اس کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔
تشریح
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نبیذ استعمال کرتے تھے اور آپ ﷺ کے واسطے اس کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَقَدْ سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحِي هَذَا الشَّرَابَ كُلَّهُ الْعَسَلَ وَالنَّبِيذَ وَالْمَاءَ وَاللَّبَنَ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حضور ﷺ کو ٹھنڈا میٹھا مرغوب تھا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو پینے میں ٹھنڈا میٹھا محبوب و مرغوب تھا ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ أَحَبَّ الشَّرَابِ اِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحُلْوُ الْبَارِدُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حضور ﷺ کے لئے میٹھے پانی کا اہتمام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے “بیوت سقیا” سے میٹھا پانی لایا جاتا تھا ۔ امام ابو داؤد کے استاذ قتیبہ جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں ، ان کا بیان ہے کہ یہ مقام (بیوت سقیا) جہاں سے حضور ﷺ کے لیے یہ میٹھا پانی لایا جاتا تھا ، مدینہ سے دو دن کی مسافت پر تھا ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مشروبات میں ٹھنڈے میٹھے کی رغبت یا اسی طرح کھانے پینے کی کسی اچھی چیز کی رغبت جو فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے مقام زہد کے منافی نہیں ہے اور للہی تعلق و محبت کی بناء پر اس کا اہتمام کرنا سعادت ہے ۔
تشریح
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مشروبات میں ٹھنڈے میٹھے کی رغبت یا اسی طرح کھانے پینے کی کسی اچھی چیز کی رغبت جو فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے مقام زہد کے منافی نہیں ہے اور للہی تعلق و محبت کی بناء پر اس کا اہتمام کرنا سعادت ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ كَانَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْتَعْذَبُ لَهُ الْمَاءُ مِنْ بُيُوتِ السُّقْيَا. قَالَ قُتَيْبَةُ عَيْنٌ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْمَدِينَةِ يَوْمَانِ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے آداب: کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے تورات میں پڑھا کہ کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا باعث برکت ہے ۔ میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : کھانے سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھ اور منہ کا دھونا باعث برکت ہے ۔ (جامع ترمذی ، ابو داؤد)
تشریح
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت کے لئے اشیاء خورد و نوش کے بارے میں حلت و حرمت کے احکام بھی بیان فرمائے اور کھانے پینے کے آداب بھی بتلائے جن کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے ، یا ان میں طبی مصلحت ملحوظ ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کے قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعہ کھانے پینے کے عمل کو جو بظاہر خاصی مادی عمل ہے اور نفس حیوانی کے تقاضے سے ہوتا ہے ، روحانی اور نورانی اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے ۔
اس سلسلہ کی گزشتہ تین قسطوں میں جو احادیث درج ہوئیں ان کا تعلق اشیاء خوردنی و نوشیدنی کی حلت و حرمت سے تھا ، آگے وہ حدیثیں درج کی جا رہی ہیں جن میں آنحضرتﷺ نے کھانے پینے کے آداب کی تلقین فرمائی ہے ۔ ان حدیثوں میں ایسے ارشادات موجود ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں کھانے پینے کے جن آداب کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے ان کا درجہ استحباب اور استحسان کا ہے ، اس لئے اگر اس پر رعمل نہ ہوا تو کوئی گناہ کی بات نہ ہو گی ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح ..... قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ جو تعلیم و ہدایت اگلے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ آتی رہی اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ اس کی تکمیل فرمائی ہے (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ الخ) اس کی روشنی میں حدیث کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تورات میں آدابِ طعام کے سلسلے میں صرف کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کو باعث برکت بتلایا گیا تھا اور اس کی ترغیب دی گئی تھی ، رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کھانے سے پہلے بھی ہاتھ اور منہ دھو لینے (یعنی کلی کر لینے) کی ترغیب دی گئی اور آپ ﷺ نے بتلایا کہ یہ بھی باعث برکت ہے ۔
برکت بڑا وسیع المعنیٰ لفظ ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس حدیث اور کھانے میں برکت کے سلسلہ کی بعض دوسری احادیث کا حوالہ دے کر جو کچھ فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی کھانے میں برکت ہونے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ غذا کا جو اصل مقصد ہے وہ اچھی طرح حاصل ہو ، کھانا رغبت اور لذت کے ساتھ کھایا جائے ، طبیعت کو سیری نصیب ہو ، جی خوش ہو اور دلجمعی حاصل ہو اور تھوڑی سے مقدار کافی ہو اور اس سے صالح خون پیدا ہو کر جزو بدن بنے اور اس کا نفع دیرپا ہو ، پھر اس سے نفس کی طغیانی اور غفلت نہ پیدا ہو بلکہ شکر اور ا طاعت کی توفیق ملے ۔ دراصل یہ اس حقیقت کے آثار ہیں جس کو حدیث میں برکت کہا گیا ہے ، اور کنز العمال میں معجم اوسط طبرانی کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا دافع فقر ہے اور انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے” ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بالکل ظاہر ہے کہ صفائی اور اصولِ صحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہاتھ اور منہ جو کھانے کے آلے ہیں ، کھانے سے پہلے بھی ان کو دھو کر اچھی طرح ان کی صفائی کر لی جائے ۔ اور پھر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی دھو کر صاف کر لیا جائے ۔ (1)
حضرت سلمان فارسی کی اس حدیث میں بلکہ اس سلسلہ کی اکثر دوسری حدیثوں میں بھی ہاتھ اور منہ دھونے کے لئے “وضو” کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے اس سے وہ وضو مراد نہیں جو نماز کے لئے کیا جاتا ہے ، بلکہ بس ہاتھ منہ دھونا ہی مراد ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ نماز کا وضو تو وہ ہے جو معلوم و معروف ہے اور کھانے کا وضو بس یہ ہے کہ ہاتھ اور منہ جو کھانے میں استعمال ہوتے ہیں ان کو دھو لیا جائے اور ان کی صفائی کر لی جائے ، بعض حدیثوں میں اس کی تصریح بھی ہے ۔
تشریح
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت کے لئے اشیاء خورد و نوش کے بارے میں حلت و حرمت کے احکام بھی بیان فرمائے اور کھانے پینے کے آداب بھی بتلائے جن کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے ، یا ان میں طبی مصلحت ملحوظ ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کے قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعہ کھانے پینے کے عمل کو جو بظاہر خاصی مادی عمل ہے اور نفس حیوانی کے تقاضے سے ہوتا ہے ، روحانی اور نورانی اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے ۔
اس سلسلہ کی گزشتہ تین قسطوں میں جو احادیث درج ہوئیں ان کا تعلق اشیاء خوردنی و نوشیدنی کی حلت و حرمت سے تھا ، آگے وہ حدیثیں درج کی جا رہی ہیں جن میں آنحضرتﷺ نے کھانے پینے کے آداب کی تلقین فرمائی ہے ۔ ان حدیثوں میں ایسے ارشادات موجود ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں کھانے پینے کے جن آداب کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے ان کا درجہ استحباب اور استحسان کا ہے ، اس لئے اگر اس پر رعمل نہ ہوا تو کوئی گناہ کی بات نہ ہو گی ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح ..... قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ جو تعلیم و ہدایت اگلے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ آتی رہی اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ اس کی تکمیل فرمائی ہے (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ الخ) اس کی روشنی میں حدیث کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تورات میں آدابِ طعام کے سلسلے میں صرف کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کو باعث برکت بتلایا گیا تھا اور اس کی ترغیب دی گئی تھی ، رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کھانے سے پہلے بھی ہاتھ اور منہ دھو لینے (یعنی کلی کر لینے) کی ترغیب دی گئی اور آپ ﷺ نے بتلایا کہ یہ بھی باعث برکت ہے ۔
برکت بڑا وسیع المعنیٰ لفظ ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس حدیث اور کھانے میں برکت کے سلسلہ کی بعض دوسری احادیث کا حوالہ دے کر جو کچھ فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی کھانے میں برکت ہونے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ غذا کا جو اصل مقصد ہے وہ اچھی طرح حاصل ہو ، کھانا رغبت اور لذت کے ساتھ کھایا جائے ، طبیعت کو سیری نصیب ہو ، جی خوش ہو اور دلجمعی حاصل ہو اور تھوڑی سے مقدار کافی ہو اور اس سے صالح خون پیدا ہو کر جزو بدن بنے اور اس کا نفع دیرپا ہو ، پھر اس سے نفس کی طغیانی اور غفلت نہ پیدا ہو بلکہ شکر اور ا طاعت کی توفیق ملے ۔ دراصل یہ اس حقیقت کے آثار ہیں جس کو حدیث میں برکت کہا گیا ہے ، اور کنز العمال میں معجم اوسط طبرانی کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا دافع فقر ہے اور انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے” ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بالکل ظاہر ہے کہ صفائی اور اصولِ صحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہاتھ اور منہ جو کھانے کے آلے ہیں ، کھانے سے پہلے بھی ان کو دھو کر اچھی طرح ان کی صفائی کر لی جائے ۔ اور پھر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی دھو کر صاف کر لیا جائے ۔ (1)
حضرت سلمان فارسی کی اس حدیث میں بلکہ اس سلسلہ کی اکثر دوسری حدیثوں میں بھی ہاتھ اور منہ دھونے کے لئے “وضو” کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے اس سے وہ وضو مراد نہیں جو نماز کے لئے کیا جاتا ہے ، بلکہ بس ہاتھ منہ دھونا ہی مراد ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ نماز کا وضو تو وہ ہے جو معلوم و معروف ہے اور کھانے کا وضو بس یہ ہے کہ ہاتھ اور منہ جو کھانے میں استعمال ہوتے ہیں ان کو دھو لیا جائے اور ان کی صفائی کر لی جائے ، بعض حدیثوں میں اس کی تصریح بھی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّ بَرَكَةَ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ وَالْوُضُوءُ بَعْدَهُ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے آداب: کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی رات کو اس حال میں سو جائے کہ اس کے ہاتھ میں کھانے کی چکنائی کا اثر اور اس کی بو ہو اور اس کی وجہ سے اسے کوئی گزند پہنچ جائے (مثلاً کوئی کیڑا کاٹ لے) تو وہ بس اپنے ہی کو ملامت کرے (اور اپنی ہی غلطی اور غفلت کا نتیجہ سمجھے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث کا مدعا اور تقاضا یہی ہے کہ کھانے کے بعد خاص کر جب ہاتھ میں چکنائی وغیرہ کا اثر ہو تو ہاتھون کو اس طرح دھو لیا جائے کہ اس کا اثر باقی نہ رہے ۔ اور چونکہ یہ صرف استحبابی حکم ہے اس لئے خود رسول اللہ ﷺنے کبھی کبھی اس کے خلاف بھی عمل فرمایا جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا ۔
تشریح
اس حدیث کا مدعا اور تقاضا یہی ہے کہ کھانے کے بعد خاص کر جب ہاتھ میں چکنائی وغیرہ کا اثر ہو تو ہاتھون کو اس طرح دھو لیا جائے کہ اس کا اثر باقی نہ رہے ۔ اور چونکہ یہ صرف استحبابی حکم ہے اس لئے خود رسول اللہ ﷺنے کبھی کبھی اس کے خلاف بھی عمل فرمایا جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ بَاتَ وَفِي يَدِهِ رِيحُ غَمَرٍ لَمْ يَغْسِلْهُ فَأَصَابَهُ شَيْءٌ فَلاَ يَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَهُ. (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے کے بعد صرف ہاتھ پونچھ لینا
حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تھے ، کسی شخص نے آپ کی خدمت میں روٹی اور گوشت لا کر پیش کیا ، آپ ﷺ نے مسجد ہی میں تناول فرمایا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھایا ، پھر آپ ﷺ اور آپ کے ساتھ ہم بھی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور (اس وقت) اس سے زیادہ ہم نے کچھ نہیں کیا کہ اپنے ہاتھ بس سنگریزوں سے پونچھ ڈالے (جو مسجد میں بچھے ہوئے تھے) ۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن الحارث کا مقصد اس واقعہ کے بیان کرنے سے بظاہر یہی ہے کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے اصحابِ کرام نے کھانا کھایا اور اس کے بعد ہاتھ نہیں دھوئے جیسا کہ شارحین حدیث نے لکھا ہے ۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ آپ ﷺ نے یہی بات ظاہر کرنے کے لئے (کہ کھانے کے بعد منہ ہاتھ دھونا کوئی فرض و واجب نہیں ہے اور اس کے بغیر نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے) یہ عمل کیا ہو ۔ رسول اللہ ﷺ امت کو رخصت اور جواز کے حدود بتلانے کے لئے بسا اوقات اولی اور افضل کو ترک کر دیتے تھے اور معلم اور ہادی ہونے کی حیثیت سے ایسا کرنا آپ کے لئے ضروری تھا ۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ ظاہر واقعہ اس طرح پیش آیا کہ نماز کے لئے کھڑے ہونے کا وقت قریب تھا ، صحابہ کرام بھی نما زکے لئے مسجد میں آ چکے تھے ، اس وقت کوئی صاحب آپ کی خدمت میں کچھ کھانا روٹی اور گوشست لے آئے ممکن ہے بلکہ اغلب یہی ہے کہ حاضرین مسجد میں کچھ وہ بھی ہوں جو بھوک میں مبتلا ہوں اور ان کو کھانے کی اشتہا ہو ، ایسی صورت میں آپ ﷺ نے مناسب یہی سمجھا کہ کھانا نماز سے پہلے ہی کھا لیا جائے آپو نے صحابہ کرام کو بھی شریک فرما لیا ، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں سب نے پیٹ بھر کر تو کھایا نہ ہو گا تبرک کے طور پر کم و بیش کچھ حصہ لے لیا ہو گا ۔ اس لئے ہاتھوں پر کھانے کا کچھ زیادہ اثر بھی نہ آیا ہو گا ۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ مسجد شریف میں پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا ، اگر اس وقت ہاتھ دھونا ضروری سمجھا جاتا تو لوگوں کو اپنے گھروں پر جانا پڑتا ۔ راقم السطور کا خیال ہے کہ ہاتھ نہ دھونے میں ان تمام باتوں کا کچھ نہ کچھ دخل ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
حدیث میں سنگریزوں اور کنکریوں سے ہاتھ صاف کرنے کا ذکر جس طرح کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی اس وقت ایسا ہی کیا ، اس سے یہ بھی رہنمائی ملی کہ کھانا کھا کر تولیہ یا کاغذ یا کسی بھی ایسی چیز سے ہاتھ صاف کئے جا سکتے ہیں جس سے ہاتھوں کی صفائی ہو جائے اور ایسا کرنا بھی سنت کے دائرہ ہی میں ہو گا ۔
تشریح
اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن الحارث کا مقصد اس واقعہ کے بیان کرنے سے بظاہر یہی ہے کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے اصحابِ کرام نے کھانا کھایا اور اس کے بعد ہاتھ نہیں دھوئے جیسا کہ شارحین حدیث نے لکھا ہے ۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ آپ ﷺ نے یہی بات ظاہر کرنے کے لئے (کہ کھانے کے بعد منہ ہاتھ دھونا کوئی فرض و واجب نہیں ہے اور اس کے بغیر نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے) یہ عمل کیا ہو ۔ رسول اللہ ﷺ امت کو رخصت اور جواز کے حدود بتلانے کے لئے بسا اوقات اولی اور افضل کو ترک کر دیتے تھے اور معلم اور ہادی ہونے کی حیثیت سے ایسا کرنا آپ کے لئے ضروری تھا ۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ ظاہر واقعہ اس طرح پیش آیا کہ نماز کے لئے کھڑے ہونے کا وقت قریب تھا ، صحابہ کرام بھی نما زکے لئے مسجد میں آ چکے تھے ، اس وقت کوئی صاحب آپ کی خدمت میں کچھ کھانا روٹی اور گوشست لے آئے ممکن ہے بلکہ اغلب یہی ہے کہ حاضرین مسجد میں کچھ وہ بھی ہوں جو بھوک میں مبتلا ہوں اور ان کو کھانے کی اشتہا ہو ، ایسی صورت میں آپ ﷺ نے مناسب یہی سمجھا کہ کھانا نماز سے پہلے ہی کھا لیا جائے آپو نے صحابہ کرام کو بھی شریک فرما لیا ، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں سب نے پیٹ بھر کر تو کھایا نہ ہو گا تبرک کے طور پر کم و بیش کچھ حصہ لے لیا ہو گا ۔ اس لئے ہاتھوں پر کھانے کا کچھ زیادہ اثر بھی نہ آیا ہو گا ۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ مسجد شریف میں پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا ، اگر اس وقت ہاتھ دھونا ضروری سمجھا جاتا تو لوگوں کو اپنے گھروں پر جانا پڑتا ۔ راقم السطور کا خیال ہے کہ ہاتھ نہ دھونے میں ان تمام باتوں کا کچھ نہ کچھ دخل ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
حدیث میں سنگریزوں اور کنکریوں سے ہاتھ صاف کرنے کا ذکر جس طرح کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی اس وقت ایسا ہی کیا ، اس سے یہ بھی رہنمائی ملی کہ کھانا کھا کر تولیہ یا کاغذ یا کسی بھی ایسی چیز سے ہاتھ صاف کئے جا سکتے ہیں جس سے ہاتھوں کی صفائی ہو جائے اور ایسا کرنا بھی سنت کے دائرہ ہی میں ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْجَزْءِ قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزٍ وَلَحْمٍ وهو فِي الْمَسْجِدِ فأكل وأَكَلْنَا مَعَهُ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَلَمْ نَزِدْ عَلَى اَنَ مَسَحَنَا أَيْدِيَنَا بِالْحَصْبَاءِ. (رواه ابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے سے پہلے اللہ کو یاد کیا جائے اور اس کا نام لیا جائے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے کا ارادہ کرے تو چاہئے کہ اللہ کا نام ہے (یعنی پہلے بسم اللہ پڑھے) اور اگر شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو بعد میں کہہ لے : “بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ” ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
تشریح
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام پاک لینا باعث برکت ہے ، اور جیسا کہ دوسری احادیث میں صراحۃً وارد ہوا ہے اس نام پاک کی یہ بھی ایک خاص تاثیر ہے کہ پھر شیاطین پاس نہیں آتے ، اس لئے وہ کھانا جس پر اللہ کا نام لیا جائے شیاطین کی شرکت اور ان کے شر سے محفوظ رہے گا ۔ اس کے علاوہ اس تعلیم و ہدایت کا یہ بھی ایک مقصد ہے کہ بندہ کے سامنے جب کھانا آئے تو اس حقیقیت کو یاد کر لے کہ یہ کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کا عطیہ ہے اور اسی کے کرم سے میں اس لائق ہوں کہ اس کو کھا سکوں اور اس سے لذت و فائدہ حاصل کر سکوں ۔ اس طرح کھانے کا عمل جو بظاہر ایک خالص مادی عمل ہے اور حیوانی تقاضے سے ہوتا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ سے جڑ جاتی ہے اور وہ ایک ربانی اور نورانی عمل بن جاتا ہے ۔ اور چونکہ کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ کھانا شروع کرتے وقت بندہ اللہ کا نام لینا اور بسم اللہ کہنا بھول جاتا ہے تو اس کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ایسی صورت میں جب یاد آ جائے اسی وقت بندہ کہہ لے “بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ” (میں اللہ کے نام سے برکت حاصل کرتا ہوں ، شروع میں بھی اور آخر میں بھی) ۔
تشریح
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام پاک لینا باعث برکت ہے ، اور جیسا کہ دوسری احادیث میں صراحۃً وارد ہوا ہے اس نام پاک کی یہ بھی ایک خاص تاثیر ہے کہ پھر شیاطین پاس نہیں آتے ، اس لئے وہ کھانا جس پر اللہ کا نام لیا جائے شیاطین کی شرکت اور ان کے شر سے محفوظ رہے گا ۔ اس کے علاوہ اس تعلیم و ہدایت کا یہ بھی ایک مقصد ہے کہ بندہ کے سامنے جب کھانا آئے تو اس حقیقیت کو یاد کر لے کہ یہ کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کا عطیہ ہے اور اسی کے کرم سے میں اس لائق ہوں کہ اس کو کھا سکوں اور اس سے لذت و فائدہ حاصل کر سکوں ۔ اس طرح کھانے کا عمل جو بظاہر ایک خالص مادی عمل ہے اور حیوانی تقاضے سے ہوتا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ سے جڑ جاتی ہے اور وہ ایک ربانی اور نورانی عمل بن جاتا ہے ۔ اور چونکہ کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ کھانا شروع کرتے وقت بندہ اللہ کا نام لینا اور بسم اللہ کہنا بھول جاتا ہے تو اس کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ایسی صورت میں جب یاد آ جائے اسی وقت بندہ کہہ لے “بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ” (میں اللہ کے نام سے برکت حاصل کرتا ہوں ، شروع میں بھی اور آخر میں بھی) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يَذْكُرَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ. (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬০৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے سے پہلے اللہ کو یاد کیا جائے اور اس کا نام لیا جائے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : شیطان اپنے لئے کھانے کو جائز کر لیتا ہے (یعنی اس کے لئے کھانے میں شرکت اور حصہ داری کا امکان اور جواز پیدا ہو جاتا ہے) جب کہ اس کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نام شیطان کے لئے تازیانہ بلکہ گرز ہے جب کسی کھانے پر اللہ کا نام لیا جائے گا اور بسم اللہ پڑھ کے کھانا شروع کیا جائے گا تو شیطان اس میں شریک نہ ہو سکے گا لیکن جب کسی کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اور کھانا یونہی شروع کر دیا جائے تو پھر شیطان کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو گی ، اگرچہ کھانے والے کی آنکھ نہ دیکھ سکے گی مگر شیطان اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گا ۔
حیح مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی آدمی اپنے گھر میں جہاں وہ رات کو رہتا اور سوتا ہے اللہ کا نام لے کر داخل ہوتا ہے اور پھر کھانے کے وقت بھی اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ یہاں سے چل دو یہاں ہمارے تمہارے لئے نہ رہنے کا ٹھکانا ہے نہ کھانے کا سامان ہے ۔ اور اس کے برعکس جب کوئی آدمی اپنے گھر میں آ کر اللہ کا نام نہیں لیتا اور کھانے کے وقت بھی اللہ کو یاد نہیں کرتا تو شیطان اپنے رفیقوں سے کہتا ہے کہ آ جاؤ یہاں تمہارے لئے آرام سے شب باشی کی جگہ بھی ہے اور راشن کھانا بھی ۔
الغرض اللہ کا نام پاک شیطانوں کے لئے ایسی ضرب کاری ہے جس کا وہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح جس طرح اندھیرا آفتاب کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
یہاں اس ایمانی حقیقت کو ذہن میں تازہ کر لینا چاہئے کہ ملائکہ اور شیاطین کا وجود اور ان کے افعال و صفات ان امور غیب میں سے ہیں جن کا علم ہم بندے اپنے طور پر اپنے حواس آنکھ کان وغیرہ کے ذریعہ حاصل نہیں کر سکتے ۔ خود خدا کی ذات و صفات کا حال بھی یہی ہے مومن کا مقام یہ ہے کہ ان تمام غیبی حقائق کے بارے میں بس اللہ کے صادق و مصدوق پیغمبر کے بیان پر اعتماد کرے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نام شیطان کے لئے تازیانہ بلکہ گرز ہے جب کسی کھانے پر اللہ کا نام لیا جائے گا اور بسم اللہ پڑھ کے کھانا شروع کیا جائے گا تو شیطان اس میں شریک نہ ہو سکے گا لیکن جب کسی کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اور کھانا یونہی شروع کر دیا جائے تو پھر شیطان کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو گی ، اگرچہ کھانے والے کی آنکھ نہ دیکھ سکے گی مگر شیطان اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گا ۔
حیح مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی آدمی اپنے گھر میں جہاں وہ رات کو رہتا اور سوتا ہے اللہ کا نام لے کر داخل ہوتا ہے اور پھر کھانے کے وقت بھی اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ یہاں سے چل دو یہاں ہمارے تمہارے لئے نہ رہنے کا ٹھکانا ہے نہ کھانے کا سامان ہے ۔ اور اس کے برعکس جب کوئی آدمی اپنے گھر میں آ کر اللہ کا نام نہیں لیتا اور کھانے کے وقت بھی اللہ کو یاد نہیں کرتا تو شیطان اپنے رفیقوں سے کہتا ہے کہ آ جاؤ یہاں تمہارے لئے آرام سے شب باشی کی جگہ بھی ہے اور راشن کھانا بھی ۔
الغرض اللہ کا نام پاک شیطانوں کے لئے ایسی ضرب کاری ہے جس کا وہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح جس طرح اندھیرا آفتاب کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
یہاں اس ایمانی حقیقت کو ذہن میں تازہ کر لینا چاہئے کہ ملائکہ اور شیاطین کا وجود اور ان کے افعال و صفات ان امور غیب میں سے ہیں جن کا علم ہم بندے اپنے طور پر اپنے حواس آنکھ کان وغیرہ کے ذریعہ حاصل نہیں کر سکتے ۔ خود خدا کی ذات و صفات کا حال بھی یہی ہے مومن کا مقام یہ ہے کہ ان تمام غیبی حقائق کے بارے میں بس اللہ کے صادق و مصدوق پیغمبر کے بیان پر اعتماد کرے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَسْتَحِلُّ الطَّعَامَ أَنْ لَا يُذْكَرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانا داہنے ہاتھ اور اپنے سامنے سے کھایا جائے
حضرت عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں (بچپن میں) رسول اللہ ﷺ کی آغوش شفقت میں پرورش پا رہا تھا تو (کھانے کے وقت)میرا ہاتھ پلیٹ میں ہر طرف چلتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نصیحت فرمائی کہ (کھانے سے پہلے) بسم اللہ پڑھا کرو اور اپنے داہنے ہاتھ سے اور اپنے سامنے ہی سے کھایا کرو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ابو سلمہ رضی اللہ عنہرسول اللہ ﷺ کے پھوپی زاد بھائی اور سابقین اولین میں سے تھے ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا ان کی بیوی تھیں اور بڑی مخلص مومنہ تھیں ، حدیث کے راوی عمر بن ابی سلمہ انہی کے بیٹے تھے ۔ ۳ھ یا ۴ھ میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ وفات پائی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی بیوہ ام سلمہ سے ان کی دلداری کے لئے نکاح کر لیا ، ان کے یہ بیٹے عمر بن ابی سلمہؓ جو اس وقت کم عمر بچے تھے آپ ﷺ کی آغوش تربیت میں آ گئے ، وہ بیان کرتے ہیںٰ کہ بچپنے میں اس مانہ میں جب رسول اللہ ﷺ مجھے اپنے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھلاتے تو میرا ہاتھ پلیٹ میں ہر طرف چلتا ، تو حضور ﷺ نے مجھے بتلایا اور سکھایا کہ بسم اللہ پڑھ کے کھانا کھایا کرو ، اور داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے اور اپنے سامنے سے کھایا کرو ۔ (دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سامنے مختلف الانواع کھانے یا مختلف قسم کے پھل ہوں تو ہر طرف ہاتھ بڑھانے کی اجازت ہے) ۔
تشریح
ابو سلمہ رضی اللہ عنہرسول اللہ ﷺ کے پھوپی زاد بھائی اور سابقین اولین میں سے تھے ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا ان کی بیوی تھیں اور بڑی مخلص مومنہ تھیں ، حدیث کے راوی عمر بن ابی سلمہ انہی کے بیٹے تھے ۔ ۳ھ یا ۴ھ میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ وفات پائی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی بیوہ ام سلمہ سے ان کی دلداری کے لئے نکاح کر لیا ، ان کے یہ بیٹے عمر بن ابی سلمہؓ جو اس وقت کم عمر بچے تھے آپ ﷺ کی آغوش تربیت میں آ گئے ، وہ بیان کرتے ہیںٰ کہ بچپنے میں اس مانہ میں جب رسول اللہ ﷺ مجھے اپنے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھلاتے تو میرا ہاتھ پلیٹ میں ہر طرف چلتا ، تو حضور ﷺ نے مجھے بتلایا اور سکھایا کہ بسم اللہ پڑھ کے کھانا کھایا کرو ، اور داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے اور اپنے سامنے سے کھایا کرو ۔ (دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سامنے مختلف الانواع کھانے یا مختلف قسم کے پھل ہوں تو ہر طرف ہاتھ بڑھانے کی اجازت ہے) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: كُنْتُ غُلاَمًا فِي حَجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ يَدِي تَطِيشُ فِي الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَمِّ اللَّهَ، وَكُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক: