মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৬১১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانا داہنے ہاتھ اور اپنے سامنے سے کھایا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کچھ کھائے تو داہنے ہاتھ سے کھائے اور جب کچھ پئیے تو داہنے ہاتھ سے پئیے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
انسان اپنے ہاتھوں کو پاک و ناپاک ہر قسم کے کاموں اور چیزوں میں استعمال کرتا ہے ، اس لئے اس کی فطری طہارت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ نجاست و گندگی کی صفائی جیسے کاموں کے لئے ایک ہاتھ کو مخصوص کر دیا جائے اور دوسرے کاموں میں دوسرا ہاتھ استعمال ہو ۔ اس فطری تقاضے کے مطابق دفع نجاست وغیرہ کے لئے بایاں ہاتھ مخصوص کر دیا گیا ہے اور باقی کھانے پینے وغیرہ دوسرے سارے اچھے اور پاکیزہ کاموں کے بارے میں حکم ہے کہ وہ داہنے ہاتھ سے انجام دئیے جائیں ۔ اور خلقی اور فطری لحاظ سے بائیں ہاتھ کے مقابلے میں داہنے ہاتھ کی فضیلت اور برتری ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے ۔ لہذا یہ حکم اور یہ تقسیم بالکل فطرت کے بھی مطابق ہے ۔ اس بناء پر بائیں ہاتھ سے کھانا بالکل ایسی الٹی بات ہے کہ کوئی آدمی بجائے پاؤں کے سر کے بل چلے ، اسی لئے آگے درج ہونے والی حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ بائیں ہاتھ سے کھانا شیطان کا طریقہ اور اس کا عمل ہے کیوں کہ شیطان کی فطرت یہی ہے کہ ہر کام الٹا کرے ۔
تشریح
انسان اپنے ہاتھوں کو پاک و ناپاک ہر قسم کے کاموں اور چیزوں میں استعمال کرتا ہے ، اس لئے اس کی فطری طہارت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ نجاست و گندگی کی صفائی جیسے کاموں کے لئے ایک ہاتھ کو مخصوص کر دیا جائے اور دوسرے کاموں میں دوسرا ہاتھ استعمال ہو ۔ اس فطری تقاضے کے مطابق دفع نجاست وغیرہ کے لئے بایاں ہاتھ مخصوص کر دیا گیا ہے اور باقی کھانے پینے وغیرہ دوسرے سارے اچھے اور پاکیزہ کاموں کے بارے میں حکم ہے کہ وہ داہنے ہاتھ سے انجام دئیے جائیں ۔ اور خلقی اور فطری لحاظ سے بائیں ہاتھ کے مقابلے میں داہنے ہاتھ کی فضیلت اور برتری ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے ۔ لہذا یہ حکم اور یہ تقسیم بالکل فطرت کے بھی مطابق ہے ۔ اس بناء پر بائیں ہاتھ سے کھانا بالکل ایسی الٹی بات ہے کہ کوئی آدمی بجائے پاؤں کے سر کے بل چلے ، اسی لئے آگے درج ہونے والی حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ بائیں ہاتھ سے کھانا شیطان کا طریقہ اور اس کا عمل ہے کیوں کہ شیطان کی فطرت یہی ہے کہ ہر کام الٹا کرے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ بِيَمِينِهِ، وَإِذَا شَرِبَ فَلْيَشْرَبْ بِيَمِينِهِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانا داہنے ہاتھ اور اپنے سامنے سے کھایا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی نہ بائیں ہاتھ سے کھائے اور نہ اس سے پئیے ۔ کیوں کہ (یہ شیطانی طریقہ ہے) وہ بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنُ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَأْكُلَنَّ أَحَدُكُمْ بِشِمَالِهِ، وَلَا يَشْرَبَنَّ بِهَا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ، وَيَشْرَبُ بِهَا» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جوتا اُتار کے کھانے میں زیادہ راحت ہے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کھانا سامنے رکھ دی اجائے تو اپنے جوتے اُتار دیا کرو اس سے تمہارے پاؤں کو زیادہ راحت ملے گی ۔ (مسند دارمی)
تشریح
اس حدیث میں کھانے کے وقت جوتا اتار دینے کا حکم دیتے ہوئے اس کی جو حکمت اور مصلحت بیان فرمائی ہے (کہ اس سے پاؤں کو زیادہ آرام ملے گا) اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ حکم شفقت کی بناء پر دیا گیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ جوتا پہنے کھانا کوئی گناہ کی بات ہو ۔
تشریح
اس حدیث میں کھانے کے وقت جوتا اتار دینے کا حکم دیتے ہوئے اس کی جو حکمت اور مصلحت بیان فرمائی ہے (کہ اس سے پاؤں کو زیادہ آرام ملے گا) اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ حکم شفقت کی بناء پر دیا گیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ جوتا پہنے کھانا کوئی گناہ کی بات ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وُضِعَ الطَّعَامُ، فَاخْلَعُوا نِعَالَكُمْ، فَإِنَّهُ أَرْوَحُ لِأَقْدَامِكُمْ» (رواه الدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانا زیادہ گرم نہ کھایا جائے
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کا یہ طریقہ تھا کہ جب ثرید پکا کر ان کے پاس لائی جاتی تو وہ ان کے حکم سے اس وقت تک ڈھکی رہتی کہ اس کی گرمی کا جوش اور تیزی ختم ہو جاتی (اس کے بعد وہ کھائی جاتی) اور (اپنے اس طرزِ عمل کی سند میں) وہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اس طرح (کچھ ٹھنڈا کر کے) کھانا زیادہ برکت کا باعث ہوتا ہے ۔ (مسند دارمی)
تشریح
ثرید ایک معروف و مرغوب کھانا ہے ، جس کا عہد نبویﷺ میں زیادہ رواج تھا ، ایک خاص طریقے سے گوشت کے ساتھ روٹی کے ٹکڑے پکا کر تیار کیا جاتا تھا ۔ اس روایت میں اگرچہ خاص ثرید کا ذکر ہے (کیوں کہ وہاں وہی زیادہ پکتا تھا) لیکن ظاہر ہے کہ حدیثِ پاک میں جو تعلیم دی گئی ہے وہ ہر پکے ہوئے کھانے اے متعلق ہے کہ زیادہ گرم نہ کھایا جائے ۔ اس کو موجب برکت بتلایا گیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ برکت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ غذا کا جو مقصد ہے وہ اس طرح کھانے سے بہتر طریقہ پر حاصل ہوتا ہے ۔ اصولِ طب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کھانا زیادہ گرم نہ کھایا جائے ۔
کنز العمال میں مختلف کتب حدیث کے حوالے سے متعدد صحابہ کرام کی روایت سے مختلف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت روایت کی گئی ہے کہ کھانا ٹھنڈا کر کے کھایا جائے ۔ اس میں برکت ہے ۔ (کنز العمال ص ۳ ، ۸ ، ج ۸)
تشریح
ثرید ایک معروف و مرغوب کھانا ہے ، جس کا عہد نبویﷺ میں زیادہ رواج تھا ، ایک خاص طریقے سے گوشت کے ساتھ روٹی کے ٹکڑے پکا کر تیار کیا جاتا تھا ۔ اس روایت میں اگرچہ خاص ثرید کا ذکر ہے (کیوں کہ وہاں وہی زیادہ پکتا تھا) لیکن ظاہر ہے کہ حدیثِ پاک میں جو تعلیم دی گئی ہے وہ ہر پکے ہوئے کھانے اے متعلق ہے کہ زیادہ گرم نہ کھایا جائے ۔ اس کو موجب برکت بتلایا گیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ برکت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ غذا کا جو مقصد ہے وہ اس طرح کھانے سے بہتر طریقہ پر حاصل ہوتا ہے ۔ اصولِ طب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کھانا زیادہ گرم نہ کھایا جائے ۔
کنز العمال میں مختلف کتب حدیث کے حوالے سے متعدد صحابہ کرام کی روایت سے مختلف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت روایت کی گئی ہے کہ کھانا ٹھنڈا کر کے کھایا جائے ۔ اس میں برکت ہے ۔ (کنز العمال ص ۳ ، ۸ ، ج ۸)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا أُتِيَتْ بِثَرِيدٍ، أَمَرَتْ بِهِ فَغُطِّيَ حَتَّى يَذْهَبَ فَوْرَةُ وَدُخَانُهُ، وَتَقُولُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «هُوَ أَعْظَمُ لِلْبَرَكَةِ» (رواه الدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ساتھ کھانے میں برکت ہے
حضرت وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے بعض صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارا حال یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہیں اور آسودگی حاصل نہیں ہوتی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ : شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں ، الگ الگ کھاتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ : تم کھانے پر ایک ساتھ بیٹھا کرو ! اور اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ کر کے (اجتماعی طور پر) کھایا کرو ، تمہارے واسطے اس کھانے میں برکت ہو گی (اور طبیعت کو سیری حاصل ہو جایا کرے گی) ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اجتماعی طور پر کھانے کی یہ برکت جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اس کا ہر ایک تجربہ کر سکتا ہے بشرطیکہ کھانے والوں میں ایثار کی صفت ہو ، جو ہر سچے مسلمان میں ہونی چاہئے یعنی ہر ایک یہ چاہے کہ میرے دوسرے ساتھی اچھا کھا لیں اور اچھی طرح کھا لیں ، اگر کھانے والوں میں یہ بات نہ ہو تو پھر اس برکت کا کوئی استحقاق نہیں ہے ، بلکہ اس صورت میں اندیشہ ہے کہ اکثر و بیشتر تجربہ اس کے برعکس ہو ۔ آگے درج ہونے والی حدیث کو بھی اسی روشنی میں سمجھنا چاہئے ۔
تشریح
اجتماعی طور پر کھانے کی یہ برکت جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اس کا ہر ایک تجربہ کر سکتا ہے بشرطیکہ کھانے والوں میں ایثار کی صفت ہو ، جو ہر سچے مسلمان میں ہونی چاہئے یعنی ہر ایک یہ چاہے کہ میرے دوسرے ساتھی اچھا کھا لیں اور اچھی طرح کھا لیں ، اگر کھانے والوں میں یہ بات نہ ہو تو پھر اس برکت کا کوئی استحقاق نہیں ہے ، بلکہ اس صورت میں اندیشہ ہے کہ اکثر و بیشتر تجربہ اس کے برعکس ہو ۔ آگے درج ہونے والی حدیث کو بھی اسی روشنی میں سمجھنا چاہئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ وَحْشِيُّ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: إِنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَأْكُلُ وَلَا نَشْبَعُ، قَالَ: «لَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُونَ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «فَاجْتَمِعُوا عَلَى طَعَامِكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ يُبَارَكْ لَكُمْ فِيهِ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ساتھ کھانے میں برکت ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے ایک کا کھانا دو کے لئے کافی ہو جاتا ہے ، اور دو کا کھانا چار کے لئے اور اسی طرح چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہو جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
کتبِ حدیث میں اس مضمون کی حدیثیں اور بھی بعض متعدد صحابہ کرام سے مروی ہیں ۔
تشریح
کنز العمال میں معجم کبیر طبرانی کے حوالے سے اسی مضمون کی حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے اس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے “فَاجْتَمعُوْا عَلَيْهِ وَلَا تَفَرَّقُوْا” (لہذا تم کو چاہئے کہ الگ الگ نہ کھایا کرو ، بلکہ جُڑ کے ساتھ کھایا کرو) ۔
اس اضافہ سے معلوم ہوا کہ جن حدیثوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ “ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے اور چار کا آٹھ کے لئے کافی ہو جاتا ہے ۔” ان کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے کہ لوگ اجتماعی طور پر ایک ساتھ کھایا کریں اور اس کی برکت سے فائدہ اٹھائیں لیکن شرط وہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی ۔
کھانا برتن کے اطراف اور کناروں سے کھایا جائے ، بیچ میں ہاتھ میں نہ ڈالا جائے
کتبِ حدیث میں اس مضمون کی حدیثیں اور بھی بعض متعدد صحابہ کرام سے مروی ہیں ۔
تشریح
کنز العمال میں معجم کبیر طبرانی کے حوالے سے اسی مضمون کی حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے اس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے “فَاجْتَمعُوْا عَلَيْهِ وَلَا تَفَرَّقُوْا” (لہذا تم کو چاہئے کہ الگ الگ نہ کھایا کرو ، بلکہ جُڑ کے ساتھ کھایا کرو) ۔
اس اضافہ سے معلوم ہوا کہ جن حدیثوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ “ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے اور چار کا آٹھ کے لئے کافی ہو جاتا ہے ۔” ان کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے کہ لوگ اجتماعی طور پر ایک ساتھ کھایا کریں اور اس کی برکت سے فائدہ اٹھائیں لیکن شرط وہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی ۔
کھانا برتن کے اطراف اور کناروں سے کھایا جائے ، بیچ میں ہاتھ میں نہ ڈالا جائے
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ساتھ کھانے میں برکت ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ثرید سے بھری ہوئی ایک لگن آئی ، آپ ﷺ نے (لوگوں کو اس میں شریک فرما لیا اور فرمایا کہ اس کے اطراف سے کھاؤ اور بیچ میں ہاتھ نہ ڈالو ، کیوں کہ برکت بیچ میں نازل ہوتی ہے ۔ (جامع ترمذی)
اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ثرید آنے کا مذکورہ بالا ذکر کئے بغیر رسول اللہ ﷺ کا صرف یہ ارشاد روایت کیا گیا ہے :
«إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلَا يَأْكُلْ مِنْ أَعْلَى الصَّحْفَةِ، وَلَكِنْ لِيَأْكُلْ مِنْ أَسْفَلِهَا، فَإِنَّ الْبَرَكَةَ تَنْزِلُ مِنْ أَعْلَاهَا»
جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اسے چاہئے کہ طباق کے بالائی حصہ سے (یعنی بیچ سے) نہ کھائے بلکہ نیچے والے حصے سے (یعنی کنارہ سے) کھائے کیوں کہ برکت بالائی حصہ سے اترتی ہے ۔
تشریح
ابھی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ برکت دراصل ایک امر الٰہی ہے ، رسول اللہ ﷺ کو اس کا ادراک ہوتا تھا اور آپ ﷺ محسوس فرماتے تھے کہ برکت براہِ راست کھانے کے وسط میں نازل ہوتی ہے ، اور پھر اس کے اثرات اطراف و جوانب کی طرف آتے ہیں ۔ اس لئے آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ کھانے والے برتن کے کناروں سے کھاتے رہیں بیچ میں ہاتھ نہ ڈالیں ۔ کھانے وغیرہ میں برکتیں نازل ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون وہی ہے جو پہلے تھا لیکن یقین اور استحقاق شرط ہے ۔
اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ثرید آنے کا مذکورہ بالا ذکر کئے بغیر رسول اللہ ﷺ کا صرف یہ ارشاد روایت کیا گیا ہے :
«إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلَا يَأْكُلْ مِنْ أَعْلَى الصَّحْفَةِ، وَلَكِنْ لِيَأْكُلْ مِنْ أَسْفَلِهَا، فَإِنَّ الْبَرَكَةَ تَنْزِلُ مِنْ أَعْلَاهَا»
جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اسے چاہئے کہ طباق کے بالائی حصہ سے (یعنی بیچ سے) نہ کھائے بلکہ نیچے والے حصے سے (یعنی کنارہ سے) کھائے کیوں کہ برکت بالائی حصہ سے اترتی ہے ۔
تشریح
ابھی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ برکت دراصل ایک امر الٰہی ہے ، رسول اللہ ﷺ کو اس کا ادراک ہوتا تھا اور آپ ﷺ محسوس فرماتے تھے کہ برکت براہِ راست کھانے کے وسط میں نازل ہوتی ہے ، اور پھر اس کے اثرات اطراف و جوانب کی طرف آتے ہیں ۔ اس لئے آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ کھانے والے برتن کے کناروں سے کھاتے رہیں بیچ میں ہاتھ نہ ڈالیں ۔ کھانے وغیرہ میں برکتیں نازل ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون وہی ہے جو پہلے تھا لیکن یقین اور استحقاق شرط ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أُتِيَ بِقَصْعَةٍ مِنْ ثَرِيدٍ، فَقَالَ: «كُلُوا مِنْ جَوَانِبِهَا، وَلا تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِهَا، فَإِنَّ الْبَرَكَةَ تَنْزِلُ فِي وَسَطِهَا». (رواه الترمذى وابن ماجه والدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جو کھانا انگلیوں میں یا برتن میں لگا رہ جائے اس کی بھی قدر کی جائے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ لیا جائے اور برتن کو بھی صاف کر لیا جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : تم کو معلوم نہیں کہ کھانے کے کس ذرہ اور جز میں برکت کا خاص اثر ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کھانا عطیہ خداوندی ہے اس کے ایک ایک ذرہ کی قدر کی جائے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس جز میں اللہ تعالیٰ نے خاص برکت اور خصوصی نافعیت رکھی ہے ، اس لئے کھانے کے جو اجزاء انگلیوں پر لگے رہ جائیں ان کو چاٹ کر صاف کر لیا جائے ۔ اسی طرح جو کچھ برتن میں لگا رہ جائے اس کو بھی اللہ کا رزق سمجھ کر صاف کر لیا جائے ۔ اس میں اللہ کے رزق کی قدردانی بھی ہے اور ربِ کریم کے سامنے اپنے عمل سے اپنی محتاجی کا اظہار بھی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا تھا ۔
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
پروردگار ! تو جو کچھ مجھے عطا فرمائے میں اس کا محتاج ہوں ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کھانا عطیہ خداوندی ہے اس کے ایک ایک ذرہ کی قدر کی جائے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس جز میں اللہ تعالیٰ نے خاص برکت اور خصوصی نافعیت رکھی ہے ، اس لئے کھانے کے جو اجزاء انگلیوں پر لگے رہ جائیں ان کو چاٹ کر صاف کر لیا جائے ۔ اسی طرح جو کچھ برتن میں لگا رہ جائے اس کو بھی اللہ کا رزق سمجھ کر صاف کر لیا جائے ۔ اس میں اللہ کے رزق کی قدردانی بھی ہے اور ربِ کریم کے سامنے اپنے عمل سے اپنی محتاجی کا اظہار بھی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا تھا ۔
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
پروردگار ! تو جو کچھ مجھے عطا فرمائے میں اس کا محتاج ہوں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِلَعْقِ الْأَصَابِعِ وَالصَّحْفَةِ، وَقَالَ: «إِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ فِي أَيِّهِ الْبَرَكَةُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬১৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جو کھانا انگلیوں میں یا برتن میں لگا رہ جائے اس کی بھی قدر کی جائے
حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ : آپ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی قصعہ (طباق یا لگن) میں کھائے اور اس کو بالکل صاف کر دے (کہ اس میں کچھ لگا نہ جائے) تو وہ قصعہ اس آدمی کے حق میں مغفرت کی دعا کرتا ہے ۔ (مسند احمد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ نُبَيْشَةُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَكَلَ فِي قَصْعَةٍ، فَلَحِسَهَا، اسْتَغْفَرَتْ لَهُ الْقَصْعَةُ» (رواه احمد والترمذى والدارمى وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ گرا ہوا لقمہ بھی اُٹھا کر کھا لیا جائے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : “تمہارے ہر کام کے وقت ، یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی ، شیطان تم میں سے ہر ایک کے ساتھ رہتا ہے ، (لہذا جب کھانا کھاتے وقت)” کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اسے چاہئے کہ اس کو صاف کر کے کھالے اور شیطان کے لئے چھوڑ نہ دے ۔ پھر جب کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیوں کو بھی چاٹ لے کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ کھانے کے کس جز میں خاص برکت ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری حصہ میں تو کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ کر صاف کر لینے کی ہدایت فرمائی گئی ہے جس کے بارے میں ابھی اوپر عرض کیا جا چکا ہے ۔ اور ابتدائی حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کھاتے وقت کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اس کو مستغنی اور متکبر لوگوں کی طرح نہ چھوڑ دے ، بلکہ ضرورت مند اور قدردان بندہ کی طرح اس کو اُٹھا لے ، اور اگر نیچے گر جانے کی وجہ سے اس پر کچھ لگ گیا ہو تو صاف کر کے اس لقمہ کو کھا لے ۔ اس میں مزید یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ کھانے کے وقت بھی شیطان ساتھ ہوتا ہے اگر گرا ہوا لقمہ چھوڑ دیا جائے گا تو وہ شیطان کے حصہ میں آئے گا ۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے فرشتے اور شیاطین اللہ کی وہ مخلوق ہیں جو یقیناً اکثر اوقات میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ بتلایا ہے اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے علم سے بتلایا ہے اور وہ بالکل حق ہے اور آپ ﷺ کو کبھی کبھی ان کا اس طرح مشاہدہ بھی ہوتا تھا ، جس طرح ہم اس دنیا کی مادی چیزوں کو دیکھتے ہیں (جیسا کہ بہت سے احادیث سے معلوم ہوتا ہے) اس لئے ایسی حدیثوں کو جن میں مثلاً کھانے کے وقت شیاطین کے ساتھ ہونے اور کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو اس میں شیاطین کے شریک ہو جانے یا گرے ہوئے لقمہ کا شیطان کا حصہ ہو جانے کا ذکر ہے تو ان حدیثوں کو مجاز پر محمول کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے “حجۃ اللہ البالغہ” میں یہ واقعہ بیان فرمایا ہے ۔ کہ ایک دن ہمارے ایک دوست (شاگرد یا مرید) ہمارے ہاں آئے ، ان کے لئے کھانا لایا گیا ، وہ کھا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے ایک ٹکڑا گر گیا اور لڑھک کر زمین میں چلا گیا ، انہوں نے اس کو اٹھا لینے کی کوشش کی اور اس کا پیچھا کیا مگر وہ ان سے اور دور ہوتا چلا گیا ، یہاں تک کہ جو لوگ وہاں موجود تھے (اور اس تماشے کو دیکھ رہے تھے) انہیں اس پر تعجب ہوا ، اور وہ صاحب جو کھانا کھا رہے تھے انہوں نے جدوجہد کر کے (آخر کار) اس کو پکڑ لیا اور نوالہ بنا لیا ۔ چند روز کے بعد کسی آدمی پر ایک جنی شیطان مسلط ہو گیا اور اس آدمی کی زبان سے باتیں کیں اور (ہمارے اس مہمان دوست کا نام لے کر) یہ بھی کہا کہ فلاں آدمی کھانا کھا رہا تھا ، میں اس کے پاس پہنچا ، مجھے اس کا کھانا بہت اچھا معلوم ہوا مگر اس نے مجھے نہیں کھلایا ۔ تو میں نے اس کے ہاتھ سے اُچک لیا (اور گرا دیا) لیکن اس نے مجھ سے پھر چھین لیا ۔
اسی سلسلہ میں دوسرا واقعہ اپنے گھر ہی کا شاہ صاحبؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ، ایک دفعہ ہمارے گھر کے کچھ لوگ گاجریں کھا رہے تھے ۔ ایک گاجر ان میں سے گر گئی ، ایک آدمی اس پر جھپٹا اور اس نے جلدی سے اُٹھا کر اس کو کھا لیا ، تھوڑی ہی دیر بعد اس کے پیٹ اور سینہ میں سخت درد اُٹھا ، پھر اس پر شیطان یعنی جن کا اثر ہو گیا تو اس نے اس آدمی کی زبان میں بتایا کہ اس آدمی نے میری گاجر اُٹھا کر کھا لی تھی ۔
یہ واقعات بیان فرمانے کے بعد شاہ صاحبؒ نے لکھا ہے کہ :
اس طرح کے واقعات ہم نے بکثرت سنے بھی ہیں اور ان سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ احادیث (جن میں کھانے پینے کے سلسلہ میں شیاطین کی شرکت اور ان کے افعال و تصرفات کا ذکر آیا ہے) مجاز کے قبیلہ سے نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ بتلایا گیا ہے وہی حقیقت ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
حدیث کے آخری حصہ میں تو کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ کر صاف کر لینے کی ہدایت فرمائی گئی ہے جس کے بارے میں ابھی اوپر عرض کیا جا چکا ہے ۔ اور ابتدائی حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کھاتے وقت کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اس کو مستغنی اور متکبر لوگوں کی طرح نہ چھوڑ دے ، بلکہ ضرورت مند اور قدردان بندہ کی طرح اس کو اُٹھا لے ، اور اگر نیچے گر جانے کی وجہ سے اس پر کچھ لگ گیا ہو تو صاف کر کے اس لقمہ کو کھا لے ۔ اس میں مزید یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ کھانے کے وقت بھی شیطان ساتھ ہوتا ہے اگر گرا ہوا لقمہ چھوڑ دیا جائے گا تو وہ شیطان کے حصہ میں آئے گا ۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے فرشتے اور شیاطین اللہ کی وہ مخلوق ہیں جو یقیناً اکثر اوقات میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ بتلایا ہے اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے علم سے بتلایا ہے اور وہ بالکل حق ہے اور آپ ﷺ کو کبھی کبھی ان کا اس طرح مشاہدہ بھی ہوتا تھا ، جس طرح ہم اس دنیا کی مادی چیزوں کو دیکھتے ہیں (جیسا کہ بہت سے احادیث سے معلوم ہوتا ہے) اس لئے ایسی حدیثوں کو جن میں مثلاً کھانے کے وقت شیاطین کے ساتھ ہونے اور کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو اس میں شیاطین کے شریک ہو جانے یا گرے ہوئے لقمہ کا شیطان کا حصہ ہو جانے کا ذکر ہے تو ان حدیثوں کو مجاز پر محمول کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے “حجۃ اللہ البالغہ” میں یہ واقعہ بیان فرمایا ہے ۔ کہ ایک دن ہمارے ایک دوست (شاگرد یا مرید) ہمارے ہاں آئے ، ان کے لئے کھانا لایا گیا ، وہ کھا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے ایک ٹکڑا گر گیا اور لڑھک کر زمین میں چلا گیا ، انہوں نے اس کو اٹھا لینے کی کوشش کی اور اس کا پیچھا کیا مگر وہ ان سے اور دور ہوتا چلا گیا ، یہاں تک کہ جو لوگ وہاں موجود تھے (اور اس تماشے کو دیکھ رہے تھے) انہیں اس پر تعجب ہوا ، اور وہ صاحب جو کھانا کھا رہے تھے انہوں نے جدوجہد کر کے (آخر کار) اس کو پکڑ لیا اور نوالہ بنا لیا ۔ چند روز کے بعد کسی آدمی پر ایک جنی شیطان مسلط ہو گیا اور اس آدمی کی زبان سے باتیں کیں اور (ہمارے اس مہمان دوست کا نام لے کر) یہ بھی کہا کہ فلاں آدمی کھانا کھا رہا تھا ، میں اس کے پاس پہنچا ، مجھے اس کا کھانا بہت اچھا معلوم ہوا مگر اس نے مجھے نہیں کھلایا ۔ تو میں نے اس کے ہاتھ سے اُچک لیا (اور گرا دیا) لیکن اس نے مجھ سے پھر چھین لیا ۔
اسی سلسلہ میں دوسرا واقعہ اپنے گھر ہی کا شاہ صاحبؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ، ایک دفعہ ہمارے گھر کے کچھ لوگ گاجریں کھا رہے تھے ۔ ایک گاجر ان میں سے گر گئی ، ایک آدمی اس پر جھپٹا اور اس نے جلدی سے اُٹھا کر اس کو کھا لیا ، تھوڑی ہی دیر بعد اس کے پیٹ اور سینہ میں سخت درد اُٹھا ، پھر اس پر شیطان یعنی جن کا اثر ہو گیا تو اس نے اس آدمی کی زبان میں بتایا کہ اس آدمی نے میری گاجر اُٹھا کر کھا لی تھی ۔
یہ واقعات بیان فرمانے کے بعد شاہ صاحبؒ نے لکھا ہے کہ :
اس طرح کے واقعات ہم نے بکثرت سنے بھی ہیں اور ان سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ احادیث (جن میں کھانے پینے کے سلسلہ میں شیاطین کی شرکت اور ان کے افعال و تصرفات کا ذکر آیا ہے) مجاز کے قبیلہ سے نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ بتلایا گیا ہے وہی حقیقت ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ يَحْضُرُ أَحَدَكُمْ عِنْدَ كُلِّ شَيْءٍ مِنْ شَأْنِهِ، حَتَّى يَحْضُرَهُ عِنْدَ طَعَامِهِ، فَإِذَا سَقَطَتْ مِنْ أَحَدِكُمُ اللُّقْمَةُ، فَلْيُمِطْ مَا كَانَ بِهَا مِنْ أَذًى، ثُمَّ لِيَأْكُلْهَا، وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ، فَإِذَا فَرَغَ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ يَكُونُ الْبَرَكَةُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اگر کھانے میں مکھی گر جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب کسی کے کھانے پینے کے برتن میں مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دے کر نکال دو ، کیونکہ اس کے دو بازوؤں میں سے ایک میں بیماری (پیدا کرنے والا مادہ) ہوتا ہے اور دوسرے میں (اس بیماری کے اثر کو (دفع کر کے) شفا دینے والا مادہ ہوتا ہے ، اور وہ اپنے اس بازو سے جس میں بیماری والا مادہ ہوتا ہے بچاؤ کرتی ہے ، (یعنی جب کسی چیز میں گرتی ہے تو اس کے بل گرتی ہے اور دوسرے بازو کا بچانا چاہتی ہے) تو کھانے والے کو چاہئے کہ مکھی کو غوطہ دے کر نکال دے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
یہ ان حدیثودں میں سے ہے جو اس زمانے میں بہت سے لوگوں کے لئے ایمان کی آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں ، حالانکہ اگر فطرت کے اسرار و حکمت کے اصولوں اور تجربوں کی روشنی میں غور کیا جائے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو خلاف قیاس یا مستبعد ہو ، بلکہ جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ دراصل حکمت ہی کی بات ہے ۔
یہ ایک معلوم و مسلم حقیقت ہے کہ بہت سے دوسرے حشرات الارض کی طرح مکھی میں بھی ایسا مادہ ہوتا ہے جس سے بیماری پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کی فطرت اور طبیعت میں یہ بات رکھی ہے کہ اس کے اندر جو خراب اور زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں طبیعت مدّبرہ ان کو خارجی اعضاء کی طرف پھینک دیتی ہے ۔ اس لئے بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اندر کے اس طرح کے فاسد مادہ کو اس کی طبیعت اس کے بازو کی طرف پھینک دیتی ہو ، کیوں کہ وہی اس کا خارجی عضو ہے اور دونوں بازوؤں میں سے بھی خاص اس بازو کی طرف پھینکتی ہو جو نسبتاً کمزور اور کم کام دینے والا ہو ، (جس طرح ہمارے داہنے ہاتھ کے مقابلہ میں بایاں ہاتھ)
اور ہر جانور کی یہ بھی فطرت ہے کہ جب اس کو کوئی خطرہ پیش آئے تو وہ زیادہ کام آنے والے اعلیٰ و اشرف عضو کو اس سے بچانے کی کوشش کرے ، اس لئے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ مکھی جب گرے تو اس بازو کو بچانے کی کوشش کرے جو خراب مادہ سے محفوظ اور نسبتاً اشرف ہو ۔
اور جن لوگوں نے اللہ کی مخلوق کے احوال اور ان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے عجائبات پر غور کیا ہے ۔ انہوں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ جہاں بیماری کا سامان ہے وہیں اس کے علاج کا بھی سامان ہے ۔ اس لئے یہ بھی بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اگر ایک بازو میں کوئی مضر اور زہریلا مادہ تو دوسرے بازو میںٰ اس کا تریاق اور شفاء کا مادہ ہو ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم بالکل اصولِ حکمت کے مطابق ہے ۔ بلکہ دراصل آپ ﷺ کی اس ہدایت کا تعلق دوسری بہت ہدایات کی طرح تحفظِ صحت کے باب سے ہے ، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے وہ کوئی فرض یا واجب نہیں ہے جس پر عمل نہ کرنا معصیت کی بات ہو ، بلکہ ایک طرح کی طبی رہنمائی ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(ان سطور میں حدیث کی تشریح کے سلسلہ میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ بھی بنیادی طور پر “حجۃ اللہ البالغہ” ہی سے ماخوذ ہے) ۔
تشریح
یہ ان حدیثودں میں سے ہے جو اس زمانے میں بہت سے لوگوں کے لئے ایمان کی آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں ، حالانکہ اگر فطرت کے اسرار و حکمت کے اصولوں اور تجربوں کی روشنی میں غور کیا جائے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو خلاف قیاس یا مستبعد ہو ، بلکہ جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ دراصل حکمت ہی کی بات ہے ۔
یہ ایک معلوم و مسلم حقیقت ہے کہ بہت سے دوسرے حشرات الارض کی طرح مکھی میں بھی ایسا مادہ ہوتا ہے جس سے بیماری پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کی فطرت اور طبیعت میں یہ بات رکھی ہے کہ اس کے اندر جو خراب اور زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں طبیعت مدّبرہ ان کو خارجی اعضاء کی طرف پھینک دیتی ہے ۔ اس لئے بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اندر کے اس طرح کے فاسد مادہ کو اس کی طبیعت اس کے بازو کی طرف پھینک دیتی ہو ، کیوں کہ وہی اس کا خارجی عضو ہے اور دونوں بازوؤں میں سے بھی خاص اس بازو کی طرف پھینکتی ہو جو نسبتاً کمزور اور کم کام دینے والا ہو ، (جس طرح ہمارے داہنے ہاتھ کے مقابلہ میں بایاں ہاتھ)
اور ہر جانور کی یہ بھی فطرت ہے کہ جب اس کو کوئی خطرہ پیش آئے تو وہ زیادہ کام آنے والے اعلیٰ و اشرف عضو کو اس سے بچانے کی کوشش کرے ، اس لئے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ مکھی جب گرے تو اس بازو کو بچانے کی کوشش کرے جو خراب مادہ سے محفوظ اور نسبتاً اشرف ہو ۔
اور جن لوگوں نے اللہ کی مخلوق کے احوال اور ان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے عجائبات پر غور کیا ہے ۔ انہوں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ جہاں بیماری کا سامان ہے وہیں اس کے علاج کا بھی سامان ہے ۔ اس لئے یہ بھی بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اگر ایک بازو میں کوئی مضر اور زہریلا مادہ تو دوسرے بازو میںٰ اس کا تریاق اور شفاء کا مادہ ہو ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم بالکل اصولِ حکمت کے مطابق ہے ۔ بلکہ دراصل آپ ﷺ کی اس ہدایت کا تعلق دوسری بہت ہدایات کی طرح تحفظِ صحت کے باب سے ہے ، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے وہ کوئی فرض یا واجب نہیں ہے جس پر عمل نہ کرنا معصیت کی بات ہو ، بلکہ ایک طرح کی طبی رہنمائی ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(ان سطور میں حدیث کی تشریح کے سلسلہ میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ بھی بنیادی طور پر “حجۃ اللہ البالغہ” ہی سے ماخوذ ہے) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ، فَامْقُلُوهُ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ دَاءً، وَفِي الْآخَرِ شِفَاءً، فَإِنَّهُ يَتَّقِي بِجَنَاحِهِ الَّذِي فِيهِ الدَّاءُ فَلْيَغْمِسْهُ كُلُّهُ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے کے معاملہ میں حضور ﷺ کی شانِ بندگی
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں ٹیک لگا کر یا کسی چیز کے سہارے بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتا ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
ٹیک لگا کر بلاضرورت کسی چیز کا سہارا لے کر کھانے کے لئے بیٹھنا متکبرانہ طریقہ ہے ، حدیث پاک کا مطلب یہی ہے کہ میں متکبرین کی طرح تکیہ وغیرہ لگا کر کھانا نہیں کھاتا اور اس کو پسند نہیں کرتا ، میں اللہ کا بندہ ہوں اور کھانا بھی اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح ایک بندہ کو کھانا چاہئے ۔
کنزالعمال میں مسند ابو یعلیٰ اور ابن سعد کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے ۔
آكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ، وَأَجْلِسُ كَمَا يَجْلِسُ الْعَبْدُ
میں ایک غلام اور بندہ کی طرح کھاتا ہوں اور غلام اور بندہ کی طرح بیٹھتا ہوں ۔
قریب قریب یہی مضمون دیگر صحابہ کرام کی روایات کا بھی ہے ۔ ان سب احادیث و روایات کا حاصل اور مدعا یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھانے کے لئے ایک عاجز بندہ کی طرح بیٹھتے تھے ، متکبرین کی طرح نہیں بیٹھتے تھے ، اور یہی آپ ﷺ کی تعلیم تھی ۔ اور جو بندہ کھانے کے وقت اس حقیقت سے غافل نہ ہو گا کہ کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت اور (اس کا عطیہ ہے اور وہ ربِ کریم حاضر و ناظر ہے اور میں اس کے سامنے اس کی نگاہ میں ہوں ، وہ کبھی متکبروں کی طرح نہیں بیٹھے گا اور متکبروں کی طرح نہیں کھائے گا) ۔
تشریح
ٹیک لگا کر بلاضرورت کسی چیز کا سہارا لے کر کھانے کے لئے بیٹھنا متکبرانہ طریقہ ہے ، حدیث پاک کا مطلب یہی ہے کہ میں متکبرین کی طرح تکیہ وغیرہ لگا کر کھانا نہیں کھاتا اور اس کو پسند نہیں کرتا ، میں اللہ کا بندہ ہوں اور کھانا بھی اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح ایک بندہ کو کھانا چاہئے ۔
کنزالعمال میں مسند ابو یعلیٰ اور ابن سعد کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے ۔
آكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ، وَأَجْلِسُ كَمَا يَجْلِسُ الْعَبْدُ
میں ایک غلام اور بندہ کی طرح کھاتا ہوں اور غلام اور بندہ کی طرح بیٹھتا ہوں ۔
قریب قریب یہی مضمون دیگر صحابہ کرام کی روایات کا بھی ہے ۔ ان سب احادیث و روایات کا حاصل اور مدعا یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھانے کے لئے ایک عاجز بندہ کی طرح بیٹھتے تھے ، متکبرین کی طرح نہیں بیٹھتے تھے ، اور یہی آپ ﷺ کی تعلیم تھی ۔ اور جو بندہ کھانے کے وقت اس حقیقت سے غافل نہ ہو گا کہ کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت اور (اس کا عطیہ ہے اور وہ ربِ کریم حاضر و ناظر ہے اور میں اس کے سامنے اس کی نگاہ میں ہوں ، وہ کبھی متکبروں کی طرح نہیں بیٹھے گا اور متکبروں کی طرح نہیں کھائے گا) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا آكُلُ مُتَّكِئًا» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے کے معاملہ میں حضور ﷺ کی شانِ بندگی
حضرت قتادہ نے رسول اللہ ﷺ کے خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی خوان پر کھانا نہیں کھایا اور نہ چھوٹی طشتری یا پیالی میں کھایا اور نہ کبھی آپ کے لئے چپاتی پکائی گئی ۔ قتادہ سے پوچھا گیا تو پھر (رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کرامؓ) کس چیز پر کھانا کھایا کرتے تھے ، تو انہوں نے کہا کہ دسترخوان پر ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
خُوان (جس کا ترجمہ خوان کیا گیا ہے) ایک چوکی یا نیچی قسم کی میز ہوتی تھی جو کھانے ہی میں استعمال ہوتی تھی ، بڑے لوگ (مترفین) اسی پر کھانا کھاتے تھے اور نیچے فرش پر دسترخوان بچھا کر کھانے کو بڑائی اور امارت کی شان کے خلاف سمجھا جاتا تھا ۔ اسی طرح امیر لوگوں کے دسترخوان پر سکرجہ یعنی چھوٹی چھوٹی طشتریاں اور پیالیاں ہوتی تھیں ۔ خود صحابہ کرامؓ کے آخری دور میں یہ چیزیں خود مسلمان گھرانوں میں بہت عام ہو گئی تھیں ۔
حضرت انسؓ کی اس حدیث کا مطلب و مدعا بھی بس یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں نہایت سادگی اور بندگی کی شان ہوتی تھی ، نہ آپ ﷺ نے کبھی خوان پر کھانا کھایا ، نہ چھوٹی طشتریوں اور پیالیوں میں کھایا ، نہ کبھی خاص طور سے آپ ﷺ کے لئیے گھر میں چپزتیاں بنائی گئیں ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث کی دوسری جلد “کتاب الرقاق” میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی معیشت کس قدر سادہ اور غریبانہ بلکہ فقیرانہ تھی ۔
تشریح
خُوان (جس کا ترجمہ خوان کیا گیا ہے) ایک چوکی یا نیچی قسم کی میز ہوتی تھی جو کھانے ہی میں استعمال ہوتی تھی ، بڑے لوگ (مترفین) اسی پر کھانا کھاتے تھے اور نیچے فرش پر دسترخوان بچھا کر کھانے کو بڑائی اور امارت کی شان کے خلاف سمجھا جاتا تھا ۔ اسی طرح امیر لوگوں کے دسترخوان پر سکرجہ یعنی چھوٹی چھوٹی طشتریاں اور پیالیاں ہوتی تھیں ۔ خود صحابہ کرامؓ کے آخری دور میں یہ چیزیں خود مسلمان گھرانوں میں بہت عام ہو گئی تھیں ۔
حضرت انسؓ کی اس حدیث کا مطلب و مدعا بھی بس یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں نہایت سادگی اور بندگی کی شان ہوتی تھی ، نہ آپ ﷺ نے کبھی خوان پر کھانا کھایا ، نہ چھوٹی طشتریوں اور پیالیوں میں کھایا ، نہ کبھی خاص طور سے آپ ﷺ کے لئیے گھر میں چپزتیاں بنائی گئیں ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث کی دوسری جلد “کتاب الرقاق” میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی معیشت کس قدر سادہ اور غریبانہ بلکہ فقیرانہ تھی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ، قَالَ: «مَا أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خِوَانٍ، وَلاَ فِي سُكْرُجَةٍ، وَلاَ خُبِزَ لَهُ مُرَقَّقٌ» قُلْتُ لِقَتَادَةَ: عَلَى مَا يَأْكُلُونَ؟ قَالَ: «عَلَى السُّفَرِ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے اور چاندی کے برتن میں کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ (سنن نسائی)
تشریح
سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا دراصل اپنی دولت مندی اور سرمایہ داری کی بےجا نمائش اور ایک طرح کا استکبار ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔ اور صحیحین کی ایک حدیث میں یہاں تک ہے کہ جو شخص سونے یا چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہے تو گویا وہ جہنم کی آگ اپنے پیٹ میں داخل کر رہا ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
تشریح
سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا دراصل اپنی دولت مندی اور سرمایہ داری کی بےجا نمائش اور ایک طرح کا استکبار ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔ اور صحیحین کی ایک حدیث میں یہاں تک ہے کہ جو شخص سونے یا چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہے تو گویا وہ جہنم کی آگ اپنے پیٹ میں داخل کر رہا ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَيَ عَنِ الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ فِى اِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ. (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آنحضرتﷺ کسی کھانے کو برا نہیں بتاتے تھے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا (یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اس میں یہ خرابی یا یہ عیب اور نقص ہے) اگر مرغوب ہوا تو تناول فرما لیا اور نامرغوب ہوا تو نہ کھایا چھوڑ دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «مَا عَابَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ، إِنِ اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ وَإِلَّا تَرَكَهُ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کھانے پر مدعو کیا جو اس نے تیار کیا تھا تو میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلا گیا (غالبا خادم کی حیثیت سے ان کو بھی مدعو کیا گیا ہو گا) تو اس نے جو کی روٹی اور شوربا حاضر کیا جس میں لوکی کےقتلے تھے اور سکھائے ہوئے گوشت کی بوٹیاں تھیں ، میں نے دیکھا کہ آنحضرتﷺ لوگی کی قتلے پیالے کی اطراف سے چن چن کر تناول فرماتے ہیں ، تو اس دن سے لوکی مجھے بھی مرغوب اور محبوب ہو گئی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ خَيَّاطًا دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ، فَذَهَبْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَّبَ خُبْزَ شَعِيرٍ، وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ، «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيِ القَصْعَةِ»، فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ بَعْدَ يَوْمِئِذٍ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کچی تر کھجوریں کھیرے کے ساتھ تناول فرماتے ہوئے دیکھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الرُّطَبَ بِالقِثَّاءِ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خربوزہ اور کچی تر کھجوریں ایک ساتھ کھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان کھجوروں کی گرمی کا توڑ اس خربوزہ کی ٹھنڈک سے ہو جاتا ہے اور خربوزہ کی ٹھنڈک کا توڑ کھجوروں کی گرمی سے ہو جاتا ہے ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ فَيَقُولُ: يَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا، وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا " (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬২৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو روٹی (اور گوشت کے شوربے) سے بنی ہوئی ثرید اور میدہ والی ثرید (یعنی روٹی ، کھجور اور گھی کا ملیدہ یہ دونوں چیزیں زیادہ مرغوب تھیں) ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ أَحَبَّ الطَّعَامِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّرِيدُ مِنَ الْخُبْزِ، وَالثَّرِيدُ مِنَ الحَيْسِ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৩০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آپ ﷺ کو کھانے میں کیا چیزیں مرغوب تھیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
“حلوا” عربی میں ہر میٹھی چیز اور میٹھے کھانے کو کہتے ہیں حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول ﷺ کر ہر میٹھی چیز اور خاص کر شہد مرغوب تھا ۔
تشریح
“حلوا” عربی میں ہر میٹھی چیز اور میٹھے کھانے کو کہتے ہیں حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول ﷺ کر ہر میٹھی چیز اور خاص کر شہد مرغوب تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ» (رواه البخارى)
তাহকীক: