মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩৬৭ টি

হাদীস নং: ১৬৩১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے کے بعد اللہ کی حمد اور اس کا شکر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے اس عمل سے بڑا خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے اور اس پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر کرے یا کچھ پئیے اور اس پر اس کی حمد اور شکر ادا کرے ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللهَ لَيَرْضَى عَنِ الْعَبْدِ أَنْ يَأْكُلَ الْأَكْلَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا أَوْ يَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৩২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے کے بعد اللہ کی حمد اور اس کا شکر
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کھانے سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا، وَسَقَانَا، وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ
ساری حمد و ستائش اس اللہ پاک کے لئے جس نے ہمیں کھلایا ، پلایا اور مسلمان بنایا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)

تشریح
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کھانے سے پہلے بسم اللہ اور آخر میں اللہ کی حمد اور اس کا شکر کھانے کے عمل کو جو بظاہر خالص مادی عمل اور ایک بشری تقاضا ہے ، نورانی اور روحانی بنا دیتا ہے ، اور اس پر خدا پرستی اور عبادت کا رنگ چڑھ جاتا ہے ۔
اسی سلسلہ معارف الحدیث کی جلد پنجم میں کھانے سے فراغت کے بعد کی وہ متعدد دعائیں درج کی جا چکی ہیں جو کتب حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں ۔ اس لئے یہاں صرف ایک ہی دعا پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ طَعَامِهِ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا، وَسَقَانَا، وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৩৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ پینے کے آداب
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَشْرَبُوا وَاحِدًا كَشُرْبِ البَعِيرِ، وَلَكِنْ اشْرَبُوا مَثْنَى وَثُلاَثَ، وَسَمُّوا إِذَا أَنْتُمْ شَرِبْتُمْ، وَاحْمَدُوا إِذَا أَنْتُمْ رَفَعْتُمْ. (رواه الترمذى)

تشریح
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اونٹ کی طرح ایک سانس میں نہ پیا کرو بلکہ دو دو یا تین تین سانس میں پیا کرو ، اور جب تم پینے لگو تو بسم اللہ پڑھ کے پیئو اور جب پی چکو اور برتن منہ سے ہٹاؤ تو اللہ کی حمد اور اس کا شکر کرو ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَشْرَبُوا وَاحِدًا كَشُرْبِ البَعِيرِ، وَلَكِنْ اشْرَبُوا مَثْنَى وَثُلاَثَ، وَسَمُّوا إِذَا أَنْتُمْ شَرِبْتُمْ، وَاحْمَدُوا إِذَا أَنْتُمْ رَفَعْتُمْ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৩৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ پینے کے آداب
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پینے میں تین دفعہ سانس لیتے تھے ۔ (صحیح بخاری)
(اور صحیح مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اس طرح درمیان میں سانس لے لے کر پینے سے زیادہ سیرابی حاصل ہوتی ہے اور یہ زیادہ صحت بخش اور معدہ کے لئے زیادہ خوشگوار ہے) ۔

تشریح
اس حدیث میں سانس توڑ توڑ کے پینے کی جو حکمت بیان فرمائی گئی ہے وہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ حکم طبی مصلحت کی بناء پ۴ دیا گیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ایک سانس میں پینا کوئی گناہ ہو ، ہاں وہ ناپسندیدہ اور نامناسب ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَنَفَّسُ فِي الشَّرَابِ ثَلَاثًا (رواه البخارى ومسلم) «وزاد مسلم إِنَّهُ أَرْوَى وَأَبْرَأُ وَأَمْرَأُ»
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৩৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ پینے کے برتن میں نہ سانس لیا جائے نہ پھونکا جائے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پینے کے برتن میں سانس لینے یا پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے ۔ (سنن ابی داؤد و ابن ماجہ)

تشریح
بعض لوگ برتن سے پا نی پیتے پیتے اسی میں سانس لیتے ہیں ، اس حدیث میں اس سے بھی منع فرمایا گیا ہے ، اور اس کی بھی ممانعت کی گئی ہے کہ برتن میں پھونک ماری جائے ، ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ اور تہذیب و سلیقہ کے خلاف ہیں اور صحت کے لئے بھی مضر ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاءِ، أَوْ يُنْفَخَ فِيهِ» (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৩৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھڑے کھڑے پینے کی ممانعت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے کھڑے پینے سے منع فرمایا ۔
(صحیح بخاری)

تشریح
بعض اور حدیثوں میں بھی کھڑے ہونے کی حالت میں پینے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، لیکن حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ اور بعض دوسرے صحابہ کرام نے بیان کیا ہے کہ ہم نے حضور ﷺ کو کھڑے ہونے کی حالت میں بھی پانی پیتے دیکھا ہے ۔ اس سلسلہ کی مختلف احادیث و روایات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں پینا پسندیدہ نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ کا عام معمول بیٹھ کر ہی پینے کا تھا ، لیکن کبھی کبھی آپ ﷺ نے کھڑے ہونے کی حالت میں بھی پیا ہے تو یا تو اس وقت اس کا کوئی خاص سبب ہو گا یا آپ ﷺ نے بیانِ جواز کے لئے کیا ہو گا ۔ کچھ ہی پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ جائز یہ بھی ہے اور اس کی بھی گنجائش ہے ، افضل و ادنیٰ کے خلاف بھی عمل کر لیتے تھے اور چونکہ تعلیم کی نیت سے کرتے تھے اس لئے آپ ﷺ کے حق میں اس وقت یہی اولیٰ و افضل ہوتا تھا ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «أَنَّهُ نَهَى أَنْ يَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৩৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ لباس کے احکام و آداب: لباس نعمت خداوندی اور اس کا مقصد
بو مطر تابعی سے روایت ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے تین درہم میں کپڑا خریدا اور جب اسے پہنا تو کہا : «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي»
حمد و شکر ہے اس اللہ کے لئے جس نے مجھے یہ لباس زینت عطا فرمایا جس سے میں لوگوں میں آرائش حاصل کرتا ہوں اور اپنی ستر پوشی کرتا ہوں ۔
پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ (کپڑا پہن کر) اسی طرح ان ہی الفاظ میں اللہ کی حمد و شکر کرتے تھے ۔ (مسند احمد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے اور کھانے پینے وغیرہ زندگی کے سارے معمولات کے بارے میں احکام و آداب کی تعلیم دی اور بتلایا کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ، یہ صحیح ہے اور یہ غلط ، یہ مناسب ہے اور یہ نامناسب ، اسی طرح لباس اور کپڑے کے استعمال کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے واضح ہدایات دیں ۔
اس باب میں آپ کی تعلیمات و ہدایات کی اساس و بنیاد سورہ اعراف کی یہ آیت ہے ۔
(يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ الاعراف ، ع : ۳)
اے فرزندانِ آدم ہم نے تم کو پہننے کے کپڑے عطا کئے جن سے تمہاری ستر پوشی ہو اور تحمل و آسائش کا سامان اور تقوے والا لباس تو سراسر خیر اور بھلائی ہے ۔
اس آیت میں لباس کے دو خاص فائدے ذکر کئے گئے ہیں ۔ ایک ستر پوشی یعنی انسانی جسم کے ان حصوں کو چھپانا جن پر غیروں کی نظر نہیں پڑنی چاہئے اور دوسرے زینت و آرائش یعنی یہ کہ دیکھنے میں آدمی بھلا اور آخر آراستہ معلوم ہو اور جانوروں کی طرح ننگ دھڑنگ نہ پھرے ۔
آخر میں فرمایا گیا ہے : “وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ” یعنی اللہ کے نزدیک اور فی الحقیقت وہ لباس اچھا ہے اور سراسر خیر ہے جو خدا ترسی اور پرہیزگاری کے اصول سے مطابقت رکھتا ہو ، اس میں اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو ، بلکہ اس کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق ہو ۔ ایسا ہر لباس بلاشبہ سراسر خیر و نعمت اور شکر کے ساتھ اس کا استعمال قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس سلسلہ کے ارشادات اور ذاتی معمولات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باب کی آپ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ لباس ایسا ہو جس سے ستر پوشی کا مقصد حاصل ہو اور دیکھنے میں آدمی باجمال اور باوقار معلوم ہو ۔ نہ تو ایسا ناقص ہو کہ ستر پوشی کا مقصد ہی پورا نہ ہو اور نہ ہی ایسا گندہ اور بےتکا ہو کہ بجائے زیب و زینت کے آدمی کی صورت بگاڑ دے ، اور دیکھنے والوں کے دلوں میں تنفر و توحش پیدا ہو ۔ اس طرح یہ کہ اارائش و تحمل کے لئے افراط اور بےجا اسراف بھی نہ ہو ۔ علیٰ ہذا شان و شوکت کی نمائش اور برتری کا اظہار و تفاخر بھی مقصود نہ ہو ۔ جو مقام عبدیت کے بالکل ہی خلاف ہے ۔ اسی طرح یہ کہ مرد ریشمی کپڑا استعمال نہ کریں ، یہ سونے چاندی کے زیورات کی طرح عورتوں کے لئے مخصوص ہے ،اور یہ کہ مرد خاص عورتوں والا لباس پہن کر نسوانی صورت نہ بنائیں اور عورتیں مردوں والے مخصوص کپڑے پہن کر اپنی نسوانی فطرت پر ظلم نہ کریں ۔
اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ جن بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو انہیں چاہئے کہ اس طرح رہیں اور ایسا لباس پہنیں جس سے محسوس ہو کہ ان پر ان کے رب کا فضل ہے ، یہ شکر کا ایک شعبہ ہے لیکن بےجا تکلف و اسراف سے پرہیز کریں ، اسی کے ساتھ اس کا بھی لحاظ رہے کہ غریب و نادار بندوں کی دل شکنی اور ان کے مقابلہ میں تفوق و بالا تری کی نمائش نہ ہو ۔
نیز یہ کہ ہر لباس کو اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ سمجھیں اور اس کے شکر کے ساتھ استعمال کریں ۔ بلاشبہ ان احکام و ہدایات کی تعمیل کے ساتھ ہر لاس کا استعمال ایک طرح کی عبادت اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا وسیلہ ہو گا ۔
اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :

تشریح ..... جامع ترمذی میں قریب قریب اسی مضمون کی حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ، ان دونوں حدیثوں سے اور ان کے علاوہ بھی متعدد احادیث سے معلوم ہوا کہ لباس اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کا اصل مقصد ستر پوشی اور تجمل و آرائش ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي مَطَرٍ، أَنَّ عَلِيًّا اشْتَرَى ثَوْبًا بِثَلاثَةِ دَرَاهِمَ فَلَمَّا لَبِسَهُ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي» ثُمَّ قَالَ: «هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ» (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৩৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بےپردہ اور بےڈھنگے لباس کی ممانعت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا : اس سے کہ آدمی بائیں ہاتھ سے کھائے ، یا صرف ایک پاؤں کی جوتی پہن کر چلے ، اور اس سے بھی منع فرمایا کہ آدمی صرف ایک چادر اپنے اوپر لپیٹ کر ہر طرف سے بند ہو جائے یا ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھے اس طرح کہ اس کا ستر کھلا ہو ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
عربوں میں کپڑے کے استعمال کے بعض طریقے رائج تھے اور ان کے لئے ان کی زبان میں بعض مخصوص الفاظ تھے ، مثلاً ایک طریقہ یہ تھا کہ سارے جسم پر ایک چادر اس طرح لپیٹ لی کہ ہر طرف سے بند ہو گئے اور اس طرح بندھ گئے کہ ہاتھ بھی باہر نہیں نکل سکتا ، اس کو “اشتمال صماء” کہا جاتا تھا ، اس حدیث مین اس سے ممانعت فرمائی گئی ہے کیوں کہ یہ ایک بےڈھنگا طریقہ ہے اور آدمی اس مین ہر طرف سے بندھ جاتا ہے اور مثلاً ایک طریقہ یہ تھا کہ آدمی سرینیں زمین پر رکھ کے اور گھٹنے کھڑے کر کے بیٹھ جاتا اور بس ایک کپڑا اپنی کمر اور پنڈلیوں پر لپیٹ لیتا ، اس میں ستر پوشی بھی نہ ہوتی (کیوں کہ اسفل کھلا رہ جاتا) اس کو “احتباء” کہتے تھے ، اس سے بھی اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے ، کیوں کہ یہ وقار کے خلاف اور بےڈھنگے پن کی علامت ہے ، ہاں اگر کسی عذر کی وجہ سے ہو تو ظاہر ہے وہ معذور ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْكُلَ الرَّجُلُ بِشِمَالِهِ، أَوْ يَمْشِيَ فِي نَعْلٍ وَاحِدَةٍ، وَأَنْ يَشْتَمِلَ الصَّمَّاءَ، أَوْ يَحْتَبِيَ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ كَاشِفًا عَنْ فَرْجِهِ». (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৩৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عورتوں کے لئے زیادہ باریک لباس کی ممانعت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (میری بہن) اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو آپ ﷺ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ اسے اسماء عورت جب بلوغ کو پہنچ جائے تو درست نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے چہرے اور ہاتھوں کے ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو ایسا باریک کپڑا پہننا جائز نہیں جس سے جسم نظر آئے ۔ ہاں چہرہ اور ہاتھوں کا کھلا رہنا جائز ہے ، یعنی باقی جسم کی طرح ان کو کپڑے سے چھپانا ضروری نہیں ۔ یہاں ملحوظ رہے کہ اس حدیث میں عورت کے لئے ستر کا حکم بیان فرمایا گیا ہے ۔ حجاب (پردہ) کا حکم اس سے الگ ہے ، اور وہ یہ ہے کہ بےضرورت باہر نہ گھومیں ، اور اگر ضرورت اور کام سے باہر نکلیں تو پردہ میں نکلیں ۔ ستر اور حجاب شریعت کے دو حکم ہیں اور ان کے حدود الگ الگ ہیں ، بعض حضرات کو ان میں اشتباہ ہو جاتا ہے ۔ غالب گمان یہ ہے کہ حضرت اسماءؓ کے حضور ﷺ کے سامنے آنے کے جس واقعہ کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے وہ حجاب (پردہ) کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے ۔ کیوں کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد حضرت اسماءؓ اس طرح آپو کے سامنے نہیں آ سکتی تھیں ۔ واللہ اعلم ۔
امام مالکؒ نے موطا میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ ان کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ان کے پاس آئیں اور وہ زیادہ باریک اوڑھنی (خمار) اوڑھے ہوئے تھیں ، تو حضرت صدیقہ نے اس کو اتار کے پھاڑ دیا اور موٹے کپڑے کی خمار اوڑھا دی ۔ ظاہر ہے حضرت صدیقہؓ کا یہ فعل رسول اللہ ﷺ ہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «يَا أَسْمَاءُ، إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا» وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عورتوں کے لئے باریک کپڑا بھی جائز ہے بشرطیکہ
حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قبطی چادریں آئیں تو آپ ﷺ نے ان میں سے ایک مجھے عنایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اس کے دو ٹکڑے کر لینا ایک ٹکڑے کا تو اپنے لئے کرتہ بنا لینا اور دوسرا ٹکڑا اپنی بیوی کو دے دینا وہ اس کو خمار (اوڑھنی) کے طور پر استعمال کر لے گی ۔ پھر جب دحیہ اٹھ کر جانے لگے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنی بیوی سے کہہ دینا کہ وہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لے تا کہ دکھائی نہ دیں اس کے بال اور جسم وغیرہ ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
قباطی سفید رنگ کی باریک بڑھیا قسم کی چادریں ہوتی تھیں جو عہد نبویﷺ میں مصر سے آتی تھیں ، ایک دفعہ کہین سے وہ چادریں حضور ﷺ کے پاس آئیں تو آپ ﷺ نے ان میں سے ایک حضرت دحیہ کلبی کو بھی عنایت فرمائی اور فرمایا کہ اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک سے تو اپنا پیراہن (کرتہ) بنا لینا اور دوسرا ٹکڑا اپنی بیوی کو دے دینا وہ خمار کے طور پر استعمال کر لے گی ، اور چونکہ وہ باریک تھا اس لئے آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ بیوی سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لے تاکہ جسم اور بال وغیرہ نظر نہ آئیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو باریک کپڑے پہننےکی اجازت ہے ، بشرطیکہ اس کے نیچے دوسرا کپڑا ہو جس کے بعد جسم اور سر کے بال وغیرہ نظر نہ آئیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ دِحْيَةَ بْنِ خَلِيفَةَ الْكَلْبِيِّ قَالَ: أُتِيَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبَاطِيَّ، فَأَعْطَانِي مِنْهَا قُبْطِيَّةً، فَقَالَ: «اصْدَعْهَا صَدْعَيْنِ، فَاقْطَعْ أَحَدَهُمَا قَمِيصًا، وَأَعْطِ الْآخَرَ امْرَأَتَكَ تَخْتَمِرُ بِهِ»، فَلَمَّا أَدْبَرَ، قَالَ: «وَأْمُرِ امْرَأَتَكَ أَنْ تَجْعَلَ تَحْتَهُ ثَوْبًا لَا يَصِفُهَا» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ لباس میں تفاخر اور نمائش کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو آدمی دنیا میں نمائش اور شہرت کے کپڑے پہنے گا اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ذلت و رسوائی کے کپڑے پہنائے گا ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
حدیث میں “ثوب شہرت” سے مراد وہ لباس ہے جو اپنی شوکت کی نمائش کے لئے اور لوگوں کی نظر میںٰ بڑا بننے کے لئے پہنا جائے ۔ ظاہر ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو لوگوں کی نظروں میں علامہ یا بڑا مقدس بزرگ بننے کے لئے اس طرح کا خاص لباس تقدس پہنیں یا اپنی فقیری و درویشی کی نمائش کے لئے ایسے کپڑے پہنیں جن سے لگ ان کو پہنچا ہوا فقیر و درویش سمجھیں ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا تعلق آدمی کے دل اور اس کی نیت سے ہے ، ایک ہی کپڑا اگر نمود و نمائش کے لئے اور اپنی بڑائی کے مظاہرہ کے لئے پہنا جائے تو گناہ اور اس حدیث کا مصداق ہو گا اور وہی کپڑا اگر اس نیت کے بغیر پہنا جائے تو جائز اور بعض صورتوں میں موجب اجر و ثواب ہو گا ۔ اور چونکہ ہم بندوں کو کسی کی نیت اور دل کا حال معلوم نہیں اس لئے ہمارے لئے جائز نہ ہو گا کہ کسی کے لباس کو نمود و نمائش اور ریاکاری کا لباس قرار دے کر اس پر اعتراض کریں ہاں اپنے دل ، اپنی نیت اور اپنے لباس کا محاسبہ کرتے رہیں ۔ یہی اس حدیث کا پیغام ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (رواه احمد وابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی اپنا کپڑا استکبار اور فخر کے طور پر زیادہ نیچا کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہ اُٹھائے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
عہدِ نبویﷺ میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔ ازار یعنی تہہ بند اس طرح باندھتے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا ، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے ، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالا تری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا ۔ اور اس وجی سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، فرماتے تھے کہ مومن بندہ کے لئے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ (یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ نصف ساق تک (یعنی پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو) اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے یعنی جائز ہے اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے (یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے) (روای کہتے ہیںٰ کہ) یہ بات آپ ﷺ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی (اس کے بعد فرمایا) اللہ اس آدمی کی طرف نگاہ اُٹھا کے بھی نہ دیکھے گا جو از راہِ فخر و تکبر اپنی ازار گھسیٹ کر چلے گا ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
ان حدیثوں میں فخر و غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے ربِ کریم کی نگاہِ رحم و کرم کا محتاج اور آرزو مند ہو گا وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے ، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کر دے گا انکی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھے گا ۔ کیا ٹھکانہ ہے اس محرومی اور بدبختی کا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لئے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند (اور اسی طرح پاجامہ) نصف ساق تک ہو ، اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو تو یہ بھی جائز ہے ۔ لیکن اس سے نیچے جائز نہیں ، بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے ۔ لیکن یہ وعید اسی صورت میں ہے جب کہ اس کا محرک اور باعث استکبار اور فخر و غرور کا جذبہ ہو ، آگے درج ہونے والی حدیث میں یہ بات بہت صراحت کے ساتھ مذکور ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِزْرَةُ الْمُؤْمِنِ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ، وَمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ فِي النَّارِ» . قَالَ: ذَالِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ «وَلَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا» (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی فخر و تکبر کے طور پر اپنا کپڑا زیادہ نیچا کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا (حضرت عبداللہ بن عمر راوی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرا تہہ بند اگر میں اس کا خیال نہ رکھوں تو نیچے لٹک جاتا ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا تم ان لوگوں مٰں سے نہیں ہو جو فخر و غرور کے جذبہ سے ایسا کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اس حدیث سے صراھت کے ساتھ معلوم ہو گیا کہ اگر کسی کا تہبند یا پاجامہ بےخیالی کی وجہ سے ٹخنوں سے نیچے ہو جائے تو یہ گناہ کی بات نہیں ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر ٹخنوں سے نیچا تہبند یا پاجامہ تفاخر و استکبار کے جذبہ سے ہو تو حرام ہے اور اسی پر جہنم کی وعید ہے اور اگر صرف عادت اور فیشن کی بناء پر ہے تو مکروہ ہے اور نادانستہ بےخیالی اور بےتوجہی کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہو تو اس پر کوئی مواخذہ اور عتاب نہیں ، معاف ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِزَارِىْ يَسْتَرْخِي، إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكَ لَسْتَ مِمَّنْ يَّفْعَلُهُ خُيَلاَءَ» (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مردوں کے لئے ریشم اور سونے کی ممانعت اور عورتوں کو اجازت
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سونا اور ریشمی کپڑے کا استعمال میری اُمت کی عورتوں کے لئے حلال اور جائز ہے اور مَردوں کے لئے حرام ہے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
دوسری حدیث سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ مردوں کے لیے وہ کپڑا حرام و ناجائز ہے جو خالص ریشم سے بنایا گیا ہو یا اس میں ریشم غالب ہو ، اگر ایسا نہ ہو تو جائز ہے ۔ اسی طرح ایسا کپڑا بھی مردوں کے لئے جائز ہے جو ریشمی نہ ہو ، لیکن اس پر نقش و نگار ریشم سے بنائے گئے ہوں یا دو چار انگل کا ریشمی حاشیہ ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُحِلَّ الذَّهَبُ وَالْحَرِيرُ لِلْإِنَاثِ مِنْ أُمَّتِي، وَحُرِّمَ عَلَى ذُكُورِهَا» (رواه الترمذى والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مردوں کے لئے شوخ سرخ رنگ کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے ایک آدمی گزرا اور وہ دونوں کپڑے سرخ رنگ کے پہنے ہوئے تھا ، اس نے حضور ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
شارحین نے لکھا ہے کہ ان صاحب کے کپڑے شوخ سرخ رنگ کے تھے جو کہ مردوں کے لئے زیبا نہیں اور سلام کا جواب نہ دینا اس پر حضور ﷺ کا عتاب تھا ، اسی حدیث کی بناء پر مردوں کے لئے شوخ وسرخ رنگ کے لباس کو بعض علماء نے حرام کہا ہے اور بعض نے مکروہ ۔ بہرحال حضور ﷺ کی طرف سے سلام کا جواب نہ دیا جانا آپ ﷺ کی سخت ناراضی و ناگواری کی کھلی دلیل ہے ۔ نعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله.
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «مَرَّ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَحْمَرَانِ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مردوں کو زنانہ اور عورتوں کو مردانہ لباس و ہیئت کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں (یعنی ان کی ہی شکل و ہیئت ، ان کا سا لباس اور ان کا انداز اپنائیں) اور ان عورتوں پر بھی جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں ۔ (یعنی ان کی سی شکل و ہیئت بنائیں ، ان کا سا لباس اور طرز و انداز اختیار کریں) ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اس حدیث میں خصوصیت سے لباس کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ مطلق تشبہ پر لعنت فرمائی گئی ہے لیکن تشبہ کی بہت نمایاں صورت یہی ہے کہ مرد زنانہ لباس پہن کر اور عورتیں مردانہ لباس اپنا کر اپنی فطرت کے تقاضوں سے بغاوت کریں ۔ آگے درج ہونے والی حدیث میں خصوصیت کے ساتھ لباس کے بارے میں یہی فرمایا گیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ» (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مردوں کو زنانہ اور عورتوں کو مردانہ لباس و ہیئت کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو زنانہ لباس پہنیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردانہ لباس پہنیں ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ يَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَةِ، وَالْمَرْأَةَ تَلْبَسُ لِبْسَةَ الرَّجُلِ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৪৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مردوں کے لئے سفید رنگ کے کپڑے زیادہ پسندیدہ
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : سفید کپڑے پہنا کرو ، وہ زیادہ پاک صاف اور نفیس ہوتے ہیں اور سفید کپڑوں ہی میں اپنے مردوں کو کفنایا کرو ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ سَمُرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْبَسُوا الثِّيَابَ الْبِيضَ، فَإِنَّهَا أَطْهَرُ، وَأَطْيَبُ وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ» (رواه احمد والترمذى والنسائى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৬৫০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مردوں کے لئے سفید رنگ کے کپڑے زیادہ پسندیدہ
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سب سے اچھا رنگ جس میں تم اپنی قبروں اور مسجدوں میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو خالص سفید رنگ ہے ۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
یعنی بہتر یہ ہے کہ مرنے کے بعد قبروں میں اللہ کے حضور میں حاضری ہو تو سفید کفن میں ہو ، اور مساجد میں جو اس دنیا میں اللہ کے دربار ہیں) حاضری ہو تو سفید کپڑوں میں ہو ۔ لیکن دوسری بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ بسا اوقات مختلف رنگ کے کپڑے بھی پہنتے تھے ۔ چنانچہ آپ ﷺ سے سبز یا ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے پہننا بھی ثابت ہے ، اسی طرح زرد رنگ کے بھی ، نیز سرخ دھاری دار چادر اوڑھنا اور سیاہ رنگ کا عمامہ زیب سر فرمانا بھی ثابت ہے ۔ اس لئے مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں سفید رنگ کے کپڑوں کے استعمال کی جو ترغیب دی گئی ہے اس کا درجہ بس ترغیب ہی کا ہے اور اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے ، عورتوں کے لئے رنگین لباس ہی زیادہ پسند فرمایا گیا ہے ، ازواج مطہرات کے طرزِ عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحْسَنَ مَا زُرْتُمُ اللَّهَ فِي قُبُورِكُمْ، وَمَسَاجِدِكُمْ، الْبَيَاضُ» (رواه ابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক: