মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৬৫১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اللہ نصیب فرمائے تو پھٹے حال رہنا ٹھیک نہیں
ابو الاحوص تابعی اپنے والد (مالک بن فضلہ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ور میں بہت معمولی اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ مال و دولت ہے َ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں (اللہ کا فضل ہے) آپ نے پوچھا کہ کس نوع کا مال ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ نے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے ، اونٹ بھی ہیں ، گائے بیل بھی ہیں بھیڑ بکریاں بھی ہیں ، گھوڑے بھی ہیں ، غلام باندیاں بھی ہیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب اللہ نے تم کو مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر اللہ کے انعام و احسان اور اس کے فضل و کرم کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہئے ۔ (مسند احمد ، سنن نسائی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَعَلَىَّ ثَوْبٍ دُونٍ، فَقَالَ: لِىْ «أَلَكَ مَالٌ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟» قُلْتُ مِنْ كُلِّ الْمَالِ قَدْ اَعْطَانِى الله مِنَ الإِبِلِ، والبقر وَالْغَنَمِ، وَالْخَيْلِ، وَالرَّقِيقِ، قَالَ: «فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكَ، وَكَرَامَتِهِ» (رواه احمد والنسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৫২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اللہ نصیب فرمائے تو پھٹے حال رہنا ٹھیک نہیں
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کو یہ بات محبوب اور پسند ہے کہ کسی بندے پر اس کی طرف سے جو انعام ہو تو اس پر اس کا اثر نظر آئے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
جس طرح بعض لوگ اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے یا فیشن کے طور پر بہت بڑھیا لباس پہنتے اور اس مد میں بےجا اسراف کرتے ہیں اسی طرح بعض کنجوس کنجوسی کی وجہ سے یا صرف طبیعت کے گنوار پن کی وجہ سے صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود بالکل پھٹے حال رہتے ہیں ۔ ان دونوں حدیثوں میں ایسے ہی لوگوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جب کسی بندے پر اللہ کا فضل ہو تو اس کو اس طرح رہنا چاہئے کہ دیکھنے والوں کو بھی نظر آئے کہ اس پر اس کے رب کا فضل ہے ، یہ شکر کے تقاضوں میں سے ہے ۔
تشریح
جس طرح بعض لوگ اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے یا فیشن کے طور پر بہت بڑھیا لباس پہنتے اور اس مد میں بےجا اسراف کرتے ہیں اسی طرح بعض کنجوس کنجوسی کی وجہ سے یا صرف طبیعت کے گنوار پن کی وجہ سے صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود بالکل پھٹے حال رہتے ہیں ۔ ان دونوں حدیثوں میں ایسے ہی لوگوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جب کسی بندے پر اللہ کا فضل ہو تو اس کو اس طرح رہنا چاہئے کہ دیکھنے والوں کو بھی نظر آئے کہ اس پر اس کے رب کا فضل ہے ، یہ شکر کے تقاضوں میں سے ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبَّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৫৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خوب کھاؤ ، پہنو ، بشرطیکہ استکبار اور اسراف نہ ہو
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اجازت ہے خوب کھاؤ ، پیئو ، دوسروں پر صدقپ کرو ، اور کپڑے بنا کر پہنو ، بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر و استکبار نہ ہو ۔ (مسند احمد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
کھانے اور لباس وغیرہ کے بارے میں اس حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ ایک واضح قانون ہے یعنی یہ کہ آدمی حلال غذاؤں میں سے اپنے حسب مرضی جو کچھ کھائے اور جو پیئے اور جو من بھاتا حلال لباس پہنے جائز ہے ، بشرطیکہ اسراف کی حد تک نہ پہنچے اور دل میں تفاخر اور استکبار نہ ہو ۔ امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول بھی صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ :
“كُلْ مَا شِئْتَ، وَالبَسْ مَا شِئْتَ، مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ”
جو جی چاہے اور جو جی چاہے پہنو ، (جائز ہے) جب تک کہ دو باتیں نہ ہوں ایک اسراف اور دوسرے استکبار و تفاخر ۔
اس باب میں یہی بنیادی اصول اور معیار ہے ۔
تشریح
کھانے اور لباس وغیرہ کے بارے میں اس حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ ایک واضح قانون ہے یعنی یہ کہ آدمی حلال غذاؤں میں سے اپنے حسب مرضی جو کچھ کھائے اور جو پیئے اور جو من بھاتا حلال لباس پہنے جائز ہے ، بشرطیکہ اسراف کی حد تک نہ پہنچے اور دل میں تفاخر اور استکبار نہ ہو ۔ امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول بھی صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ :
“كُلْ مَا شِئْتَ، وَالبَسْ مَا شِئْتَ، مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ”
جو جی چاہے اور جو جی چاہے پہنو ، (جائز ہے) جب تک کہ دو باتیں نہ ہوں ایک اسراف اور دوسرے استکبار و تفاخر ۔
اس باب میں یہی بنیادی اصول اور معیار ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا مَا لَمْ يُخَالِطْ إِسْرَافٌ، وَلَا مَخِيلَةٍ» (رواه احمد والنسائى وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৫৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اُول جلول ، پراگندہ حال اور میلے کچیلے رہنے کی ممانعت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ملاقات کے لئے ہمارے ہاں تشریف لائے تو آپ ﷺ کی نظر ایک پراگندہ حال آدمی پر پڑی جس کے سر کے بال بالکل منتشر تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : کیا یہ آدمی ایسی کوئی چیز نہیں پا سکتا تھا جس سے اپنے سر کے بال ٹھیک کر لیتا ۔ (اور اسی مجلس میں) آپ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو بہت میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو ارشاد فرمایا : کیا اس کو کوئی چیز نہیں مل سکتی تھی جس سے یہ اپنے کپڑے دھو کر صاف کر لیتا ؟ (مسند احمد ، سنن نسائی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرًا، فَرَأَى رَجُلًا شَعِثًا، فَقَالَ: «أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ رَأْسَهُ» ، وَرَأَى رَجُلًا عَلَيْهِ ثِيَابٌ وَسِخَةٌ، فَقَالَ: «أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يَغْسِلُ بِهِ ثِيَابَهُ» (رواه احمد والنسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৫৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ڈاڑھی اور سر کے بالوں کی خبرگیری اور درستی کی ہدایت
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے ، ایک آدمی مسجد میں آیا ، اس کے سر اور داڑھی کے بال بالکل بکھرے ہوئے (اور بےتکے) تھے ۔ حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کو اشارہ فرمایا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے سر اور داڑھی کے بالوں کو ٹھیک کرائے ، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور پھر لوٹ کر آ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ (یعنی تمہارا سر اور ڈاڑھی کے بالوں کو درست کر کے آنا) اس سے بہتر نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی سر کے بال بکھیرے ہوئے ایسی (وحشیانہ) صورت میں آئے کہ گویا وہ شیطان ہے ۔ (موطا امام مالک)
تشریح
ان حدیثوں سے ان اہل تقشف کے خیال کی واضح تغلیظ ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ خدا کے طالبوں اور آخرت کی فکر رکھنے والوں کو اپنی صورت و ہیئت اور لباس کے حسن و قبح سے بےپروا ہو کر میلا کچیلا ، پراگندہ حال اور پراگندہ بال رہنا چاہئے اور صفائی ستھرائی ، صورت و لباس کو سنوارنے کی فکر اور اس میں جمال پسندی ان کے نزدیک گویا دنیا داری کی بات ہے ۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مزاج سے ناواقف ہیں ۔ ہاں صورت و لباس وغیرہ کے بناؤ سنوار کا حد سے زیادہ اہتمام اور اس کے لئے فضول و بےجا تکلفات بھی ناپسند اور مزاجِ شریعت کے خلاف ہیں ، جیسا کہ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔
واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ سے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کا حاصل یہی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اپنائی جائے ۔
اوپر جو حدیثیں مذکور ہوئی جن میں اچھا اور صاف ستھرا لباس استعمال کرنے اور شکل و صورت کی اصلاح اور سر اور داڑھی کے بالوں وغیرہ کو درست رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، جیسا کہ ان مضامین سے ظاہر ہے ، ان سب سے مخاطب وہی لوگ تھے جو اس معاملے میں تفریط میں مبتلا تھے اور جنہوں نے اپنے حلیے بگاڑ رکھے تھے ۔ آج بھی جن کا یہ حال ہو ان کو رسول اللہ ﷺ کے ان ارشاادات سے ہدایت حاصل کرنا چاہئے کہ اس کے برعکس جو لوگ اس بارے میں افراط میں مبتلا ہوں اور لباس اور ظاہری شکل و صورت کے بناؤ سنگار کو حد سے زیادہ اہمیت دیں ، اور اسی کر برتری اور کمتری کا معیار سمجھنے لگیں ان کو آگے درج ہونے والی احادیث سے ہدایت اور روشنی حاصل کرنی چاہئے ۔ ان حدیثوں کے مخاطب دراصل ایسے ہی لوگ ہیں ۔
تشریح
ان حدیثوں سے ان اہل تقشف کے خیال کی واضح تغلیظ ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ خدا کے طالبوں اور آخرت کی فکر رکھنے والوں کو اپنی صورت و ہیئت اور لباس کے حسن و قبح سے بےپروا ہو کر میلا کچیلا ، پراگندہ حال اور پراگندہ بال رہنا چاہئے اور صفائی ستھرائی ، صورت و لباس کو سنوارنے کی فکر اور اس میں جمال پسندی ان کے نزدیک گویا دنیا داری کی بات ہے ۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مزاج سے ناواقف ہیں ۔ ہاں صورت و لباس وغیرہ کے بناؤ سنوار کا حد سے زیادہ اہتمام اور اس کے لئے فضول و بےجا تکلفات بھی ناپسند اور مزاجِ شریعت کے خلاف ہیں ، جیسا کہ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔
واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ سے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کا حاصل یہی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اپنائی جائے ۔
اوپر جو حدیثیں مذکور ہوئی جن میں اچھا اور صاف ستھرا لباس استعمال کرنے اور شکل و صورت کی اصلاح اور سر اور داڑھی کے بالوں وغیرہ کو درست رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، جیسا کہ ان مضامین سے ظاہر ہے ، ان سب سے مخاطب وہی لوگ تھے جو اس معاملے میں تفریط میں مبتلا تھے اور جنہوں نے اپنے حلیے بگاڑ رکھے تھے ۔ آج بھی جن کا یہ حال ہو ان کو رسول اللہ ﷺ کے ان ارشاادات سے ہدایت حاصل کرنا چاہئے کہ اس کے برعکس جو لوگ اس بارے میں افراط میں مبتلا ہوں اور لباس اور ظاہری شکل و صورت کے بناؤ سنگار کو حد سے زیادہ اہمیت دیں ، اور اسی کر برتری اور کمتری کا معیار سمجھنے لگیں ان کو آگے درج ہونے والی احادیث سے ہدایت اور روشنی حاصل کرنی چاہئے ۔ ان حدیثوں کے مخاطب دراصل ایسے ہی لوگ ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْمَسْجِدِ. فَدَخَلَ رَجُلٌ ثَائِرَ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ. كَأَنَّهُ يَعْنِي إِصْلاَحَ شَعَرِ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ. فَفَعَلَ الرَّجُلُ، ثُمَّ رَجَعَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «أَلَيْسَ هذَا خَيْراً مِنْ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدُكُمْ ثَائِرَ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ شَيْطَانٌ؟». (رواه مالك)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৫৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سادگی اور خستہ حالی بھی ایک ایمانی رنگ ہے
حضرت ابو امامہ ایاس بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم سنتے نہیں ، کیا تم سنتے نہیں (یعنی سنو اور غور سے سنو اور یاد رکھو) کہ سادگی اور خستہ حالی بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے ، یہ آپ نے مکرر ارشاد فرمایا ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ظاہری سادگی و خستہ حالی ، اور زینت و آرائش کی طرف سے بےفکری یا کم توجہی ، اندرونی ایمانی کیفیت سے بھی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ ایمان ہی کا ایک شعبہ اور ایک رنگ ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ظاہری سادگی و خستہ حالی ، اور زینت و آرائش کی طرف سے بےفکری یا کم توجہی ، اندرونی ایمانی کیفیت سے بھی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ ایمان ہی کا ایک شعبہ اور ایک رنگ ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ اَيَاسِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا تَسْمَعُونَ، أَلَا تَسْمَعُونَ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৫৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ لباس میں خاکساری اور تواضع پر انعام و اکرام
معاذ بن انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ بڑھیا لباس کی استطاعت کے باوجود از راہِ تواضع و انکساری اس کو استعمال نہ کرے (اور سادہ معمولی لباس ہی پہنے) تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ساری مخلوقات کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ وہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا بھی پسند کرے اس کو زیب تن کرے ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ تَرَكَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلَّهِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ دَعَاهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلاَئِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الإِيمَانِ شَاءَ يَلْبَسُهَا. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৫৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کا لباس
ابو بردہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ہم کو نکال کر دکھائی ایک دبیز دہری چادر اور ایک موٹے کپڑے کا تہبندے اور ہمیں بتایا کہ انہی دونوں کپڑوں میں حضور ﷺ کا وصال ہوا تھا (یعنی آخری وقت میں حضور ﷺ کے جسم اطہر پر یہی دو کپڑے تھے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ بشارت ان بندوں کے لئے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اتنی دولت دی ہے کہ وہ بہت بڑھیا اور بیش قیمت لباس بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن وہ اس مبارک جذبے کے تحت بڑھیا لباس نہیں پہنتے کہ اس کی وجہ سے دوسرے بندوں پر میرا تفوق اور میری بڑائی ظاہر ہو گی اور شاید کسی غریب و نادار بندے کا دل ٹوٹے ۔ بلاشبہ بہت ہی مبارک اور پاکیزہ ہے یہ جذبہ ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو بندے اس جذبے کے تحت ایسا کریں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہلِ محشر کے سامنے انہیں اس انعام و اکرام سے نوازے گا کہ اہلِ ایمان جنتیوں کے لئے جو اعلیٰ سے اعلیٰ جوڑے وہاں موجود ہوں گے فرمایا جائے گا کہ ان میں سے جو جوڑا چاہو لے لو اور استعمال کرو ۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
اگر کسی کے ذہم میں یہ خلجان پیدا ہو کہ ابھی اوپر ابوالاحوص اور عمرو بن شعیب کی دو حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں مال و دولت اور استطاعت کی صورت میں اچھا لباس پہننے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ اور یہاں اس حدیث میں قدرت و استطاعت کے باوجود اچھا لباس نہ پہننے پر ایسے عظیم انعام و اکرام کی بشارت سنائی گئی ہے ، اور اس سے اوپر والی ابو امامہ کی حدیث میں بہت ہی اہتمام اور زور کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ : “ان البذاذة من الايمان ، ان البذاذة من الايمان” جس کا حاصل یہی ہے کہ اچھے لباس کا اہتمام نہ کرنا اور معمولی کپڑوں میں خستہ حالوں کی طرح رہنا ایمان کا ایک شعبہ ہے ۔ دراصل ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ، ان کا محل الگ الگ ہے ۔ ابوالاحوص اور عمرو بن شعیب والی حدیثوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مالی وسعت کے باوجود محض کنجوسی سے یا طبیعت کے لااُبالی پن کی وجہ سے پھٹے حال رہیں جیسے کہ انہیں کپڑے نصیب ہی نہیں ، ایسے لوگوں کے لئے فرمایا گیا ہے کہ جب کسی بندے پر اللہ کا فضل ہو تو اس کے رہن سہن اور اس کے لباس میں اس کا اثر محسوس ہونا چاہئے ۔ اور ابو امامہ اور معاذ بن انس کی ان حدیثوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کے مخاطب دراصل وہ لوگ ہیں جو لباس کی بہتری کو زیادہ اہمیت دیتے ، اور اس کے بارے میں بہت زیادہ اہتمام اور تکلف سے کام لیتے ہیں ، گویا ا ٓدمی کی قدر و قیمت کا وہی معیار اور پیمانہ ہے ۔
اصلاح و تربیت کا طریقہ یہی ہےکہ جو لوگ افراط اور غلو کے مریض ہوں ان سے ان کے حال کے مطابق اور جو تفریط کی بیماری میں مبتلا ہوں ان سے ان کے حسبِ حال اصلاح کی بات کی جائے ۔ اگر کوئی آدمی محل اور مخاطبین کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھے گا تو بسا اوقات اس کو مصلحین کی ہدایتوں اور نصیحتوں میں تضاد محسوس ہو گا ۔
رسول اللہ ﷺ کا لباس
رسول اللہ ﷺ لباس کے بارے میں ان حدود و احکام کی پابندی کے ساتھ جو مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں اسی طرح کے کپڑے پہنتے تھے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں آپ کے علاقے اور آپ کی قوم میں رواج تھا ۔ آپ ﷺ تہبند باندھتے تھے ، چادر اوڑھتے تھے ، کرتا پہنتے تھے ، عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے تھے ، اور یہ کپڑے اکثر و بیشتر معمولی سوتی قسم کے ہوتے تھے کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش و نگار بنے ہوتے تھے ۔ اسی طرح کبھی کبھی بہت خوش نما یمنی چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا ۔ اس بناء پ۴ کہا جا سکتا ہے کہ زبانی ارشادات و ہدایات کے علاوہ آپ ﷺ نے امت کو اپنے طرز عمل سے بھی یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے ۔ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جا سکتا ہے اور یہ کہ ہر علاقے اور ہر زمانے سے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کر سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حد درجہ اہتمام تھا یہ ضروری نہی سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے ۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمند کے ارتقاء کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ، اسی طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو ، یا کسی قوم یا کسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہے ۔ اس لئے شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے ، ہاں ایسے اصولی احکام دئیے گئے ہیں جن کی ہر زمانے میں اور ہر جگہ بہ سہولت پابندی کی جا سکتی ہے ۔
ان تمہیدی سطروں کے بعد حضور ﷺ کے لباس سے متعلق چند احادیث ذیل میں پڑھئے :
تشریح
یہ بشارت ان بندوں کے لئے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اتنی دولت دی ہے کہ وہ بہت بڑھیا اور بیش قیمت لباس بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن وہ اس مبارک جذبے کے تحت بڑھیا لباس نہیں پہنتے کہ اس کی وجہ سے دوسرے بندوں پر میرا تفوق اور میری بڑائی ظاہر ہو گی اور شاید کسی غریب و نادار بندے کا دل ٹوٹے ۔ بلاشبہ بہت ہی مبارک اور پاکیزہ ہے یہ جذبہ ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو بندے اس جذبے کے تحت ایسا کریں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہلِ محشر کے سامنے انہیں اس انعام و اکرام سے نوازے گا کہ اہلِ ایمان جنتیوں کے لئے جو اعلیٰ سے اعلیٰ جوڑے وہاں موجود ہوں گے فرمایا جائے گا کہ ان میں سے جو جوڑا چاہو لے لو اور استعمال کرو ۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
اگر کسی کے ذہم میں یہ خلجان پیدا ہو کہ ابھی اوپر ابوالاحوص اور عمرو بن شعیب کی دو حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں مال و دولت اور استطاعت کی صورت میں اچھا لباس پہننے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ اور یہاں اس حدیث میں قدرت و استطاعت کے باوجود اچھا لباس نہ پہننے پر ایسے عظیم انعام و اکرام کی بشارت سنائی گئی ہے ، اور اس سے اوپر والی ابو امامہ کی حدیث میں بہت ہی اہتمام اور زور کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ : “ان البذاذة من الايمان ، ان البذاذة من الايمان” جس کا حاصل یہی ہے کہ اچھے لباس کا اہتمام نہ کرنا اور معمولی کپڑوں میں خستہ حالوں کی طرح رہنا ایمان کا ایک شعبہ ہے ۔ دراصل ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ، ان کا محل الگ الگ ہے ۔ ابوالاحوص اور عمرو بن شعیب والی حدیثوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مالی وسعت کے باوجود محض کنجوسی سے یا طبیعت کے لااُبالی پن کی وجہ سے پھٹے حال رہیں جیسے کہ انہیں کپڑے نصیب ہی نہیں ، ایسے لوگوں کے لئے فرمایا گیا ہے کہ جب کسی بندے پر اللہ کا فضل ہو تو اس کے رہن سہن اور اس کے لباس میں اس کا اثر محسوس ہونا چاہئے ۔ اور ابو امامہ اور معاذ بن انس کی ان حدیثوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کے مخاطب دراصل وہ لوگ ہیں جو لباس کی بہتری کو زیادہ اہمیت دیتے ، اور اس کے بارے میں بہت زیادہ اہتمام اور تکلف سے کام لیتے ہیں ، گویا ا ٓدمی کی قدر و قیمت کا وہی معیار اور پیمانہ ہے ۔
اصلاح و تربیت کا طریقہ یہی ہےکہ جو لوگ افراط اور غلو کے مریض ہوں ان سے ان کے حال کے مطابق اور جو تفریط کی بیماری میں مبتلا ہوں ان سے ان کے حسبِ حال اصلاح کی بات کی جائے ۔ اگر کوئی آدمی محل اور مخاطبین کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھے گا تو بسا اوقات اس کو مصلحین کی ہدایتوں اور نصیحتوں میں تضاد محسوس ہو گا ۔
رسول اللہ ﷺ کا لباس
رسول اللہ ﷺ لباس کے بارے میں ان حدود و احکام کی پابندی کے ساتھ جو مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں اسی طرح کے کپڑے پہنتے تھے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں آپ کے علاقے اور آپ کی قوم میں رواج تھا ۔ آپ ﷺ تہبند باندھتے تھے ، چادر اوڑھتے تھے ، کرتا پہنتے تھے ، عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے تھے ، اور یہ کپڑے اکثر و بیشتر معمولی سوتی قسم کے ہوتے تھے کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش و نگار بنے ہوتے تھے ۔ اسی طرح کبھی کبھی بہت خوش نما یمنی چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا ۔ اس بناء پ۴ کہا جا سکتا ہے کہ زبانی ارشادات و ہدایات کے علاوہ آپ ﷺ نے امت کو اپنے طرز عمل سے بھی یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے ۔ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جا سکتا ہے اور یہ کہ ہر علاقے اور ہر زمانے سے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کر سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حد درجہ اہتمام تھا یہ ضروری نہی سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے ۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمند کے ارتقاء کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ، اسی طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو ، یا کسی قوم یا کسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہے ۔ اس لئے شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے ، ہاں ایسے اصولی احکام دئیے گئے ہیں جن کی ہر زمانے میں اور ہر جگہ بہ سہولت پابندی کی جا سکتی ہے ۔
ان تمہیدی سطروں کے بعد حضور ﷺ کے لباس سے متعلق چند احادیث ذیل میں پڑھئے :
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ كِسَاءً مُلَبَّدًا، وَإِزَارًا غَلِيظًا، فَقَالَتْ: «قُبِضَ رُوْحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَيْنِ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৫৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کپڑوں میں کرتا زیادہ پسند تھا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
کُرتے کو حضور ﷺ غالباً اس لئے زیادہ پسند فرماتے تھے کہ وہ جبے اور چادر کی بہ نسبت ہلکا ہوتا ہے اور لباس کا مقصد اس سے اچھی طرح پورا ہو جاتا ہے ۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے کرتے کی آستینیں ہاتھ کے پہنچوں تک ہوتی تھیں ، اور نیچے کی جانب ٹخنوں سے اوپر تک ہوتا تھا ۔
تشریح
کُرتے کو حضور ﷺ غالباً اس لئے زیادہ پسند فرماتے تھے کہ وہ جبے اور چادر کی بہ نسبت ہلکا ہوتا ہے اور لباس کا مقصد اس سے اچھی طرح پورا ہو جاتا ہے ۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے کرتے کی آستینیں ہاتھ کے پہنچوں تک ہوتی تھیں ، اور نیچے کی جانب ٹخنوں سے اوپر تک ہوتا تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: «كَانَ أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَمِيصَ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کپڑوں میں حبرہ (چادر) کا پہننا بہت پسند تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حبرہ یمن کی بنی ہوئی ایک خاص سوتی چادر ہوتی تھی جس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں یہ اوسط درجے کی اچھی چادروں میں سمجھی جاتی تھی ۔ حضرت انسؓ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ چادروں میں سے حبرہ قسم کی چادر کا استعمال زیادہ پسند فرماتے تھے ۔
تشریح
حبرہ یمن کی بنی ہوئی ایک خاص سوتی چادر ہوتی تھی جس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں یہ اوسط درجے کی اچھی چادروں میں سمجھی جاتی تھی ۔ حضرت انسؓ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ چادروں میں سے حبرہ قسم کی چادر کا استعمال زیادہ پسند فرماتے تھے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «كَانَ أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَهَا الحِبَرَةَ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک (دفعہ) رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی اکثر دوسری روایتوں میں اس کو کی اس حدیث کی اکثر دوسری روایتوں میں اس کو “شامی جبہ” کہا گیا ہے ۔ قرین قیاس یہ ہے کہ شام اس زمانے میں چونکہ رومی حکومت کے زیر اقتدار تھا اس لئے وہاں کی چیزوں کو رومی بھی کہہ دیا جاتا تھا اور شامی بھی ! بہرحال اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ دوسری قوموں کے بنائے ہوئے اور دوسرے ملکوں سےا ٓئے ہوئے کپڑے استعمال کئے جا سکتے ہیں ، اور خود حضور ﷺ نے استعمال فرمائے ہیں ۔
تشریح
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی اکثر دوسری روایتوں میں اس کو کی اس حدیث کی اکثر دوسری روایتوں میں اس کو “شامی جبہ” کہا گیا ہے ۔ قرین قیاس یہ ہے کہ شام اس زمانے میں چونکہ رومی حکومت کے زیر اقتدار تھا اس لئے وہاں کی چیزوں کو رومی بھی کہہ دیا جاتا تھا اور شامی بھی ! بہرحال اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ دوسری قوموں کے بنائے ہوئے اور دوسرے ملکوں سےا ٓئے ہوئے کپڑے استعمال کئے جا سکتے ہیں ، اور خود حضور ﷺ نے استعمال فرمائے ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ جُبَّةً رُومِيَّةً ضَيِّقَةَ الكُمَّيْنِ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے طیلسان کا بنا ہوا ایک کسروانی جبہ نکال کر دکھایا اس کا گریبان ریشمی دیباج سے بنوایا گیا تھا اور دونوں چاکوں کے کناروں پر بھی دیباج لگا ہوا تھا (یعنی گریبان اور جبہ کے آگے پیچھے چاکوں پر دیباج کا حاشیہ تھا) اور حضرت اسماءؓ نے بتایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا جبہ مبارک ہے ۔ یہ (میری بہن) عائشہ صدیقہ (ام المومنینؓ) کے پاس تھا جب ان کا انتقال ہو گیا تو میں نے لے لیا (یعنی میراث کے حساب سے مجھے مل گیا) حضور ﷺ اس کو زیب تن فرمایا کرتے تھے اور اب ہم اس کو مریضوں کے لئے دھوتے ہیں اور اس کے ذریعے شفا حاصل کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جس طرح رومی جبہ استعمال فرمایا (جس کا ذکر اوپر والیحدیث میں گزر چکا ہے) اسی طرح آپ ﷺ نے کسروانی جبہ بھی استعمال فرمایا (جس کی نسبت کسی وجہ سے شاہِ فارس کسریٰ کی طرف کی جاتی تھی) اور یہ کہ اس کے گریبان اور چاکوں پر دیباج کا حاشیہ بھی تھا ، جس کا اس زمانہ میں رواج تھا ۔ یہاں یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ دوسری بعض احادیث میں تشریح ہے کہ ریشم کا حاشیہ دو چار انگل کا تو مردوں کے لئے جائز ہے ، اس سے زیادہ جائز نہیں ہے ۔ اس لئے یقین ہے کہ اس کسروانی جبہ کا حاشیہ اس حد کے اندر ہی ہو گا ۔ دوسری خاص بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرامؓ ہی کے دور میں رسول اللہ ﷺ کے استعمالی کپڑوں سے یہ برکت بھی حاصل کی جاتی تھی کہ ان کا غسالہ (دھوون کا پانی) شفایابی کی امید پر مریضوں کا پلایا جاتا یا ان پر چھڑکا جاتا تھا ۔
تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جس طرح رومی جبہ استعمال فرمایا (جس کا ذکر اوپر والیحدیث میں گزر چکا ہے) اسی طرح آپ ﷺ نے کسروانی جبہ بھی استعمال فرمایا (جس کی نسبت کسی وجہ سے شاہِ فارس کسریٰ کی طرف کی جاتی تھی) اور یہ کہ اس کے گریبان اور چاکوں پر دیباج کا حاشیہ بھی تھا ، جس کا اس زمانہ میں رواج تھا ۔ یہاں یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ دوسری بعض احادیث میں تشریح ہے کہ ریشم کا حاشیہ دو چار انگل کا تو مردوں کے لئے جائز ہے ، اس سے زیادہ جائز نہیں ہے ۔ اس لئے یقین ہے کہ اس کسروانی جبہ کا حاشیہ اس حد کے اندر ہی ہو گا ۔ دوسری خاص بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرامؓ ہی کے دور میں رسول اللہ ﷺ کے استعمالی کپڑوں سے یہ برکت بھی حاصل کی جاتی تھی کہ ان کا غسالہ (دھوون کا پانی) شفایابی کی امید پر مریضوں کا پلایا جاتا یا ان پر چھڑکا جاتا تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا أَخْرَجَتْ جُبَّةَ طَيَالِسَةٍ كِسْرَوَانِيَّةٍ لَهَا لِبْنَةُ دِيبَاجٍ، وَفَرْجَيْهَا مَكْفُوفَيْنِ بِالدِّيبَاجِ، وَقَالَتْ: هَذَا جُبَّةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا، وَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَى يُسْتَشْفَى بِهَا (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) دیکھا ، اس وقت آپ ﷺ سیاہ رنگ کا عمامہ زیب سر فرمائے ہوئے تھے اور اس کا کنارہ (شملہ) اپﷺ نے پشت پر دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹکا رکھا تھا ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ، قَدْ أَرْخَى طَرَفَيْهَا بَيْنَ كَتِفَيْهِ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفید ٹوپی (بھی) زیبِ سر فرماتے تھے ۔ (معجم کبیر طبرانی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ قَلَنْسُوَةً بَيْضَاءَ " (رواه الطبرانى فى الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب خوارج کا ظہور ہوا ، تو میں حضرت علی کے پاس آیا ، انہوں نے مجھے سے فرمایا کہ : تم ان لوگوں کے (یعنی گروہِ خوارج کے) پاس جاؤ (اور ان کو سمجھانے اور ان پر حجت قائم کرنے کی کوشش کرو) ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے حسین و نفیس قسم کا ایک یمنی جوڑا پہنا ۔ واقعہ کے راوی ابو زمیل کہتے ہیں کہ ابنِ عباس خود بہت حسین و جمیل تھے اور آواز بھی زوردار تھی ۔ آگے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں خوارج کی جماعت کے پاس پہنچا تو انہوں نے مرحبا کہہ کے میرا استقبال کیا اور ساتھ ہی (طنز و اعتراض کے طور پر) کہا کہ یہ بڑھیا جوڑا (جو آپ پہنے ہوئے ہیں) کیا ہے ؟ (مطلب یہ تھا کہ بڑھیا قسم کا حسین جمیل لباس اسوہ نبوی ﷺ اور مقام تقویٰ کے خلاف ہے) (حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں) میں نے کہا کہ تم میرے اس اچھے لباس پر کیا اعتراض کرتے ہو ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسین سے حسین جوڑا پہنے دیکھا ہے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کبھی اچھا نفیس لباس بھی استعمال فرمایا ہے ۔ اس لئے ان خوارج کا یہ سمجھنا کہ اچھا اور عمدہ لباس پہننا طریقہ نبوی ﷺ یا مقامِ تقویٰ کے خلاف ہے ان کی جہالت تھی ۔ ہاں اگر پہننے والے کا مقصد تفاخر و استکبار اور اپنی بڑائی کی نمائش ہو تو جیسا کہ احادیث سے معلوم ہو چکا ہے سخت درجے کی معصیت اور موجبِ غضب خداوندی ہے ۔ لیکن اگر اظہارِ نعمت کی نیت سے یا کسی دوسری دینی مصلحت سے پہنا ئجائے تو نہ صرف جائز بلکہ باعث اجر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا پہننا اظہارِ نعمت کے لئے بھی تھا اور لانے والوں کی تطیب خاطر کے لئے بھی ، اور بیان جواز کے لئے بھی ۔
تشریح
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کبھی اچھا نفیس لباس بھی استعمال فرمایا ہے ۔ اس لئے ان خوارج کا یہ سمجھنا کہ اچھا اور عمدہ لباس پہننا طریقہ نبوی ﷺ یا مقامِ تقویٰ کے خلاف ہے ان کی جہالت تھی ۔ ہاں اگر پہننے والے کا مقصد تفاخر و استکبار اور اپنی بڑائی کی نمائش ہو تو جیسا کہ احادیث سے معلوم ہو چکا ہے سخت درجے کی معصیت اور موجبِ غضب خداوندی ہے ۔ لیکن اگر اظہارِ نعمت کی نیت سے یا کسی دوسری دینی مصلحت سے پہنا ئجائے تو نہ صرف جائز بلکہ باعث اجر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا پہننا اظہارِ نعمت کے لئے بھی تھا اور لانے والوں کی تطیب خاطر کے لئے بھی ، اور بیان جواز کے لئے بھی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَتِ الْحَرُورِيَّةُ أَتَيْتُ عَلِيًّا فَقَالَ: ائْتِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ فَلَبِسْتُ أَحْسَنَ مَا يَكُونُ مِنْ حُلَلِ الْيَمَنِ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَجُلًا جَمِيلًا جَهِيرًا - قَالَ: فَأَتَيْتُهُمْ فَقَالُوا: مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا هَذِهِ الْحُلَّةُ قَالَ: مَا تَعِيبُونَ عَلَيَّ «لَقَدْ رَأَيْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ مَا يَكُونُ مِنَ الحُلَلِ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ لباس میں داہنی طرف سے ابتداء حضور ﷺ کا معمول تھا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کرتا پہنتے تو داہنی جانب سے شروع فرماتے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں کرتے کا ذکر بطورِ مثال سمجھنا چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ ہی سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : “جب کپڑا پہنا جائے ، یا وضو کیا جائے تو داہنے اعضاء سے شروع کیا جائے” ۔
بائیں اعضاء کے مقابلے میں داہنے اعضاء کو جو فضیلت حاصل ہے اور اس کی جو لِمْ ہے اس کا ذکر “آدابِ طعام” کے ذیل میں کیا جا چکا ہے ۔ اسی فضیلت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ لباس میں داہنی طرف سے ابتداء فرماتے تھے ، یعنی جو کپڑا پہنتے ، داہنی جانب سے پہننا شروع فرماتے ۔
تشریح
اس حدیث میں کرتے کا ذکر بطورِ مثال سمجھنا چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ ہی سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : “جب کپڑا پہنا جائے ، یا وضو کیا جائے تو داہنے اعضاء سے شروع کیا جائے” ۔
بائیں اعضاء کے مقابلے میں داہنے اعضاء کو جو فضیلت حاصل ہے اور اس کی جو لِمْ ہے اس کا ذکر “آدابِ طعام” کے ذیل میں کیا جا چکا ہے ۔ اسی فضیلت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ لباس میں داہنی طرف سے ابتداء فرماتے تھے ، یعنی جو کپڑا پہنتے ، داہنی جانب سے پہننا شروع فرماتے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَبِسَ قَمِيصًا بَدَأَ بِمَيَامِنِهِ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کپڑا پہننے کے وقت کی حضور ﷺ کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نیا کپڑا پہنتے عمامہ یا کرتا یا چادر تو اس کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کہتے کہ : اے اللہ ! تیرا شکر اور تیری حمد جیسا کہ تو نے مجھے پہننے کو دیا یہ (عمامہ یا کرتا یا چادر) خداوندا ! مین تجھ سے مانگتا ہوں اس کا خیر اور جو اس کا وجود ہے اس کا خیر (یعنی یہ کپڑا میرے لئے باعث خیر ہو اور اس کا جو اچھا مقصد ہے وہ مجھے نصیب ہو مثلاً اس کو پہن کر تیری عبادت کروں اور تیرا شکر ادا کروں) اور میں مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کے مقصد یعنی استعمال کے شر سے تیری پناہ (یعنی اس کپڑے میں اور اس کے استعمال میں جو شر ہو سکتا ہے اس سے میری حفاظت فرما) ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
کپڑا پہننے کے وقت کی رسول اللہ ﷺ کی ایک اور مختصر دعا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے “آداب لباس” کے بالکل شروع میں بھی درج کی جا چکی ہے ۔ اور اسی سلسلہ معارف الحدیث (جلد پنجم) میں سنن ابی داؤد کے حوالہ سے یہ حدیث درج ہو چکی ہے کہ جو شخص کپڑا پہنتے وقت اللہ تعالیٰ کے شکر و حمد کا یہ کلمہ دل و زبان سے کہے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ” (1)
تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائین گے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی اور ہر نعمت پر شکر کی توفیق عطا فرمائے ۔
تشریح
کپڑا پہننے کے وقت کی رسول اللہ ﷺ کی ایک اور مختصر دعا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے “آداب لباس” کے بالکل شروع میں بھی درج کی جا چکی ہے ۔ اور اسی سلسلہ معارف الحدیث (جلد پنجم) میں سنن ابی داؤد کے حوالہ سے یہ حدیث درج ہو چکی ہے کہ جو شخص کپڑا پہنتے وقت اللہ تعالیٰ کے شکر و حمد کا یہ کلمہ دل و زبان سے کہے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ” (1)
تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائین گے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی اور ہر نعمت پر شکر کی توفیق عطا فرمائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَجَدَّ ثَوْبًا سَمَّاهُ بِاسْمِهِ، عِمَامَةً، أَوْ قَمِيصًا، أَوْ رِدَاءً، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ، أَسْأَلُكَ خَيْرَهُ وَخَيْرَ مَا صُنِعَ لَهُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جوتا پہننے کے بارے میں ہدایات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ جہاد کے ایک سفر پر روانہ ہو رہے تھے ، میں نے آپ ﷺ کو سنا آپ ہدایت دے رہے تھے کہ : لوگو ! جوتیاں زیادہ لے لو ، کیوں کہ آدمی جب تک پاؤں میں جوتا پہنے رہتا ہے تو وہ سوار کی طرح رہتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یہ واقعہ اور تجربہ ہے کہ جو آدمی جوتا پہن کے چلتا ہے وہ بہ نسبت اس شخص کے جو بغیر جوتا پہنے چلے ، تیز بھی چلتا ہے اور کم تھکتا ہے ۔ اس کا پاؤں محفوظ بھی رہتا ہے ۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ “وہ سوار کی طرح رہتا ہے” اور ہمارے اس زمانے مین تو فوجیوں کے لئے ان کا خاص جوتا ، ان کی وردی کا جز ہے ۔
تشریح
یہ واقعہ اور تجربہ ہے کہ جو آدمی جوتا پہن کے چلتا ہے وہ بہ نسبت اس شخص کے جو بغیر جوتا پہنے چلے ، تیز بھی چلتا ہے اور کم تھکتا ہے ۔ اس کا پاؤں محفوظ بھی رہتا ہے ۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ “وہ سوار کی طرح رہتا ہے” اور ہمارے اس زمانے مین تو فوجیوں کے لئے ان کا خاص جوتا ، ان کی وردی کا جز ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَوْنَاهَا: «اسْتَكْثِرُوا مِنَ النِّعَالِ، فَإِنَّ الرَّجُلَ لَا يَزَالُ رَاكِبًا مَا انْتَعَلَ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৬৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جوتا پہننے کے بارے میں ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو پہلے داہنے پاؤں میں پہنے ، اور جب نکالنے لگے تو پہلے بائیں پاؤں سے نکالے (الغرض) داہنا پاؤں جوتا پہننے میں مقدم اور نکالنے میں مؤخر ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ظاہر ہے کہ جوتا پہننے میں پاؤں کا اکرام و اعزاز ہے اور داہنے اعضاء کو بائیں اعضاء کے مقابلہ مین جو فضیلت اور ترجیح حاصل ہے (جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے) اس کا حق اور تقاضا ہے کہ جوتا داہنے پاؤں میں پہنا پہلے جائے اور نکالا بعد میں جائے ۔
تشریح
ظاہر ہے کہ جوتا پہننے میں پاؤں کا اکرام و اعزاز ہے اور داہنے اعضاء کو بائیں اعضاء کے مقابلہ مین جو فضیلت اور ترجیح حاصل ہے (جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے) اس کا حق اور تقاضا ہے کہ جوتا داہنے پاؤں میں پہنا پہلے جائے اور نکالا بعد میں جائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا انْتَعَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِاليَمِينِ، وَإِذَا نَزَعَ فَلْيَبْدَأْ بِالشِّمَالِ، لِيَكُنِ اليُمْنَى أَوَّلَهُمَا تُنْعَلُ وَآخِرَهُمَا تُنْزَعُ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ انگشتری اور مہر کے بارے میں حضور ﷺ کا طرز عمل
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ : شاہِ فارس کسریٰ اور شاہِ روم قیصر اور شاہِ حبشہ نجاشی کو خطوط لکھائیں (اور ان کو اسلام کی دعوت دیں) تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ حکمران لوگ مہر کے بغیر خطوط کو تسلیم نہیں کرتے ، تو حضور ﷺ نے مہر بنوائی جو چاندی کی انگوٹھی تھی ، اس میں نقش تھا :
مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ .................................................... (صحیح مسلم)
(اور اسی حدیث کی صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ مُہر میں تین سطریں تھیں ، ایک سطر میں “محمد” اور دوسری سطر میں “رسول” اور تیسری سطر میں “اللہ”)
تشریح
صحیح روایات سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ۶ھ کے آخر میں سفر حدیبیہ سے واپسی کے بعد اس وقت کی دنیا کے بہت سے مشہور بادشاہوں اور حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھائے تھے ۔ اسی وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ جب آپ ﷺ نے ان خطوط کے لکھانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو بعض صحابہ کرام نے جو ان حکومتوں کے طور طریقوں سے کچھ باخبر تھے عرض کیا کہ ان خطوط پر حضور ﷺ کی مہر ہونا ضروری ہے ، یہ حکمران لوگ مہر کے بغیر کسی خط کو کوئی اہمیت نہیں دیتے (گویا ایسے خطوط ان کے پاس ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتے ہیں) حضور ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرما لیا اور چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی جس کے نگینہ میں “محمد رسول اللہ” کندہ تھا ۔ صحیح بخاری کی روایت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ تینوں لفظ تین سطروں میں نیچے اوپر لکھے گئے تھے ۔ اس طرح (محمد رسول اللہ) یہی آپ ﷺ کی مہر آپ ﷺ کی انگوٹھی تھی ۔
روایات میں بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی میں پہننے کا بھی ذکر آتا ہے اور داہنے ہاتھ میں بھی ، گویا کبھی آپ ﷺ داہنے ہاتھ میں پہن لیتے تھے اور کبھی بائیں ہاتھ میں ۔
مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ .................................................... (صحیح مسلم)
(اور اسی حدیث کی صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ مُہر میں تین سطریں تھیں ، ایک سطر میں “محمد” اور دوسری سطر میں “رسول” اور تیسری سطر میں “اللہ”)
تشریح
صحیح روایات سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ۶ھ کے آخر میں سفر حدیبیہ سے واپسی کے بعد اس وقت کی دنیا کے بہت سے مشہور بادشاہوں اور حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھائے تھے ۔ اسی وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ جب آپ ﷺ نے ان خطوط کے لکھانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو بعض صحابہ کرام نے جو ان حکومتوں کے طور طریقوں سے کچھ باخبر تھے عرض کیا کہ ان خطوط پر حضور ﷺ کی مہر ہونا ضروری ہے ، یہ حکمران لوگ مہر کے بغیر کسی خط کو کوئی اہمیت نہیں دیتے (گویا ایسے خطوط ان کے پاس ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتے ہیں) حضور ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرما لیا اور چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی جس کے نگینہ میں “محمد رسول اللہ” کندہ تھا ۔ صحیح بخاری کی روایت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ تینوں لفظ تین سطروں میں نیچے اوپر لکھے گئے تھے ۔ اس طرح (محمد رسول اللہ) یہی آپ ﷺ کی مہر آپ ﷺ کی انگوٹھی تھی ۔
روایات میں بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی میں پہننے کا بھی ذکر آتا ہے اور داہنے ہاتھ میں بھی ، گویا کبھی آپ ﷺ داہنے ہاتھ میں پہن لیتے تھے اور کبھی بائیں ہاتھ میں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى كِسْرَى، وَقَيْصَرَ، وَالنَّجَاشِيِّ، فَقِيلَ: إِنَّهُمْ لَا يَقْبَلُونَ كِتَابًا إِلَّا بِخَاتَمٍ، «فَصَاغَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا حَلْقَتُهُ فِضَّةً، نُقِشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ» (رواه مسلم)
(وفى رواية للبخارى كَانَ نَقْشُ الخَاتَمِ ثَلاَثَةَ أَسْطُرٍ مُحَمَّدٌ سَطْرٌ، وَرَسُولُ سَطْرٌ، وَاللَّهِ سَطْرٌ)
(وفى رواية للبخارى كَانَ نَقْشُ الخَاتَمِ ثَلاَثَةَ أَسْطُرٍ مُحَمَّدٌ سَطْرٌ، وَرَسُولُ سَطْرٌ، وَاللَّهِ سَطْرٌ)
তাহকীক: