মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৬৭১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ انگشتری اور مہر کے بارے میں حضور ﷺ کا طرز عمل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ ﷺ نے اس کے ہاتھ سے نکال کر پھینک دی ۔ اور ارشاد فرمایا کہ : تم میں سے کسی کسی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی خواہش سے دوزخ کا انگارہ لے کر اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے (یعنی مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی گویا دوزخ کی آگ ہے جو اس نے شوق سے ہاتھ میں لے رکھی ہے) ۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے گئے تو کسی نے ان صاحب سے کہا (جن کے ہاتھ سے سونے کی انگوٹھی نکال کر حضور ﷺ نے پھینک دی تھی) کہ اپنی انگوٹھی اُٹھا لو اور (کسی طرح) اپنے کام میں لے آؤ (مثلاً فروخت کر دو ، یا گھر کی خواتین میں سے کسی کو دے دو) ان صاحب نے کہا خدا کی قسم ! جب رسول اللہ ﷺ نے اس کو پھینک دیا تو اب کبھی میں اس کو نہیں اٹھاؤں گا ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے کے دوسرے زیورات کی طرح اس کی انگوٹھی کا استعمال بھی مردوں کے لئے حرام و ناجائز ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مناسب اور مفید سمجھا جائے تو اپنے خاص لوگون کے ساتھ اصلاح کا یہ طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس جو چیز شریعت کے خلاف ہو اس کو چھین کر پھینک دیا جائے یا توڑ پھوڑ دیا جائے ۔
ان صحابی نے لوگوں کے کہنے کے باوجود اپنی سونے کی انگوٹھی نہیں اٹھائی اور وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہوا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام کا ایمانی مقام کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اس کا کوئی حصہ ہم کو بھی نصیب فرمائے ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے کے دوسرے زیورات کی طرح اس کی انگوٹھی کا استعمال بھی مردوں کے لئے حرام و ناجائز ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مناسب اور مفید سمجھا جائے تو اپنے خاص لوگون کے ساتھ اصلاح کا یہ طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس جو چیز شریعت کے خلاف ہو اس کو چھین کر پھینک دیا جائے یا توڑ پھوڑ دیا جائے ۔
ان صحابی نے لوگوں کے کہنے کے باوجود اپنی سونے کی انگوٹھی نہیں اٹھائی اور وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہوا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام کا ایمانی مقام کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اس کا کوئی حصہ ہم کو بھی نصیب فرمائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ فِي يَدِ رَجُلٍ، فَنَزَعَهُ فَطَرَحَهُ، وَقَالَ: «يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ إِلَى جَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَيَجْعَلُهَا فِي يَدِهِ»، فَقِيلَ لِلرَّجُلِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذْ خَاتِمَكَ انْتَفِعْ بِهِ، قَالَ: لَا وَاللهِ، لَا آخُذُهُ أَبَدًا وَقَدْ طَرَحَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : یہ پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں ۔ ختنہ ، زیر ناف بالوں کی صفائی ، مونچھیں تراشنا ، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور طرزِ عمل سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ظاہری ہیئت اور شکل و صورت کے بارے میں بھی امت کی رہنمائی فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے !
بعض دوسری حدیثوں میں ان چیزوں کو انبیاء و مرسلین کی سنت اور ان کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ اور چونکہ یہ انسانی فطرت کے تقاضے ہیں اس لئے ہونا بھی یہی چاہئے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طریقہ اور یہی ان کی تعلیم ہو ۔ ان سب میں جو چیز مشترک ہے وہ طہارت و صفائی اور پاکیزگی ہے جو بلاشبہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور طرزِ عمل سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ظاہری ہیئت اور شکل و صورت کے بارے میں بھی امت کی رہنمائی فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے !
بعض دوسری حدیثوں میں ان چیزوں کو انبیاء و مرسلین کی سنت اور ان کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ اور چونکہ یہ انسانی فطرت کے تقاضے ہیں اس لئے ہونا بھی یہی چاہئے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طریقہ اور یہی ان کی تعلیم ہو ۔ ان سب میں جو چیز مشترک ہے وہ طہارت و صفائی اور پاکیزگی ہے جو بلاشبہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ " (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ ۴۰ روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
کنز العمال میں بیہقی کی شعب الایمان کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ :
“رسول اللہ ﷺ ہر جمعہ کو نکلنے سے پہلے اپنے ناخن تراشتے اور لبیں لیتے تھے” ۔ (1)
اس لئے مسنون یہی ہےکہ ہر ہفتہ یہ جسمانی اصلاح و صفائی کا کام کیا جائے ، اور آخری حد ۴۰ دن تک کی ہے ، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ۔ اگر اس سے زیادہ تغافل برتا تو ایک درجہ کی نافرمانی ہو گی ، اور علماء نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے نماز بھی مکروہ ہو گی ۔
تشریح
کنز العمال میں بیہقی کی شعب الایمان کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ :
“رسول اللہ ﷺ ہر جمعہ کو نکلنے سے پہلے اپنے ناخن تراشتے اور لبیں لیتے تھے” ۔ (1)
اس لئے مسنون یہی ہےکہ ہر ہفتہ یہ جسمانی اصلاح و صفائی کا کام کیا جائے ، اور آخری حد ۴۰ دن تک کی ہے ، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ۔ اگر اس سے زیادہ تغافل برتا تو ایک درجہ کی نافرمانی ہو گی ، اور علماء نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے نماز بھی مکروہ ہو گی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّوَارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : مونچھوں کو خوب باریک کرو اور ڈاڑھیاں چھوڑو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے انبیاء و مرسلین کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ ڈاڑھیاں رکھتے اور مونچھیں باریک کراتے تھے ۔
جیسا کہ ظاہر ہے ، ڈاڑھی رجولیت کی علامت اور وقارکی نشانی ہے ۔ خود مغربی اقوام میں بھی جہاں ڈاڑھی نہ رکھنے کا عام رواج ہے) ڈاڑھی کو قابل احترام اور عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ کاش ! ہم مسلمان محسوس کریں کہ ڈاڑھی رکھنا ہمارے ہادی برحق ﷺ اور سارے نبیوں ، رسولوں کی سنت اور ان کے طریقہ سے وابستگی کی علامت ہے ، اور ڈاڑھی نہ رکھنا ان کے منکروں کا طریقہ ہے ۔
اس حدیث میں صرف ڈاڑھی چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کہ ڈاڑھی کس حد تک چھوڑی جائے ، بلکہ اس کے الفاظ سے شبہ ہو سکتا ہے کہ کسی صورت میں بھی اس کو قینچی نہ لگائی جائے اور کم نہ کرایا جائے ۔ لیکن آگے متصلاً امام ترمذی کی روایت حضڑت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی جو حدیث درج کی جا رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ اپنی ریش مبارک (برابر اور ہموار کرنے کے لئے) اس کے عرض میں سے بھی اور طول میں سے بھی کچھ ترشوا دیتے تھے ۔ اور مندرجہ بالا حدیث : “انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى” کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ ان کی ڈاڑھی کے جو بال ایک مشت سے زیادہ ہوتے وہ ان کو ترشوا دیتے تھے ۔ بعض دوسرے صحابہ کا طرزِ عمل بھی یہی روایت کیا گیا ہے ۔ ان سب روایات کی روشنی میں زیرِ تشریح حدیث : “انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى” کا مطلب اور مدعا یہ ہو گا کہ ڈاڑھی رکھی جائے ، نہ منڈائی جائے نہ زیادہ کم کرائی جائے ۔
ہمارے فقہا نے ایک مشت سے کم کرانے کو نادرست کہا ہے ۔ ایک مشت کی مقدار کی یہ تحدید کسی حدیث میں نہیں ہے ۔ غالباً اس کی بنیاد یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ سے ایک مشت تک رکھنا تو ثابت ہے ، اس سے کم کرانا ثابت نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے انبیاء و مرسلین کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ ڈاڑھیاں رکھتے اور مونچھیں باریک کراتے تھے ۔
جیسا کہ ظاہر ہے ، ڈاڑھی رجولیت کی علامت اور وقارکی نشانی ہے ۔ خود مغربی اقوام میں بھی جہاں ڈاڑھی نہ رکھنے کا عام رواج ہے) ڈاڑھی کو قابل احترام اور عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ کاش ! ہم مسلمان محسوس کریں کہ ڈاڑھی رکھنا ہمارے ہادی برحق ﷺ اور سارے نبیوں ، رسولوں کی سنت اور ان کے طریقہ سے وابستگی کی علامت ہے ، اور ڈاڑھی نہ رکھنا ان کے منکروں کا طریقہ ہے ۔
اس حدیث میں صرف ڈاڑھی چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کہ ڈاڑھی کس حد تک چھوڑی جائے ، بلکہ اس کے الفاظ سے شبہ ہو سکتا ہے کہ کسی صورت میں بھی اس کو قینچی نہ لگائی جائے اور کم نہ کرایا جائے ۔ لیکن آگے متصلاً امام ترمذی کی روایت حضڑت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی جو حدیث درج کی جا رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ اپنی ریش مبارک (برابر اور ہموار کرنے کے لئے) اس کے عرض میں سے بھی اور طول میں سے بھی کچھ ترشوا دیتے تھے ۔ اور مندرجہ بالا حدیث : “انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى” کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ ان کی ڈاڑھی کے جو بال ایک مشت سے زیادہ ہوتے وہ ان کو ترشوا دیتے تھے ۔ بعض دوسرے صحابہ کا طرزِ عمل بھی یہی روایت کیا گیا ہے ۔ ان سب روایات کی روشنی میں زیرِ تشریح حدیث : “انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى” کا مطلب اور مدعا یہ ہو گا کہ ڈاڑھی رکھی جائے ، نہ منڈائی جائے نہ زیادہ کم کرائی جائے ۔
ہمارے فقہا نے ایک مشت سے کم کرانے کو نادرست کہا ہے ۔ ایک مشت کی مقدار کی یہ تحدید کسی حدیث میں نہیں ہے ۔ غالباً اس کی بنیاد یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ سے ایک مشت تک رکھنا تو ثابت ہے ، اس سے کم کرانا ثابت نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
عمرو بن شیعب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ریش مبارک کے عرض سے بھی اور طول سے بھی کچھ ترشواتے تھے ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس شخص کے بال ہوں اس کو چاہئے کہ وہ ان بالوں کا اکرام کرے ۔ (سنن ابو داؤد)
تشریح
بالوں کا اکرام یہ ہے کہ ان کو دھویا جائے ، حسب ضرورت تیل لگایا جائے ، ان میں کنگھی بھی کی جائے ۔ خود رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل بھی یہی تھا ، آپ ﷺ ہمیشہ سر پر بال رکھتے تھے جو کبھی کانوں تک اور کبھی کانوں کے نیچے تک رہتے تھے ۔ آپ ﷺ ان کو اہتمام سے دھوتے بھی تھے ، ان میں تیل بھی لگاتے تھے ، کنگھی بھی فرماتے تھے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ حج اور عمرہ کے سوا کبھی سر کے بالوں کا منڈوانا آپ ﷺ سے ثابت نہیں ۔
تشریح
بالوں کا اکرام یہ ہے کہ ان کو دھویا جائے ، حسب ضرورت تیل لگایا جائے ، ان میں کنگھی بھی کی جائے ۔ خود رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل بھی یہی تھا ، آپ ﷺ ہمیشہ سر پر بال رکھتے تھے جو کبھی کانوں تک اور کبھی کانوں کے نیچے تک رہتے تھے ۔ آپ ﷺ ان کو اہتمام سے دھوتے بھی تھے ، ان میں تیل بھی لگاتے تھے ، کنگھی بھی فرماتے تھے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ حج اور عمرہ کے سوا کبھی سر کے بالوں کا منڈوانا آپ ﷺ سے ثابت نہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْيُكْرِمْهُ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے خادم) نافع ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ منع فرماتے تھے قزع سے ۔ نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا کہ قزع یہ ہے کہ بچے کے سر کے کچھ حصہ کے بال مونڈ دئیے جائیں اور کچھ حصہ کے چھوڑ دئیے جائیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بچہ کو دیکھا جس کے سر کے کچھ بال مونڈ دئیے گئے اور کچھ چھوڑ دئیے گئے تھے تو آپ ﷺ نے لوگوں کو اس سے منع فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ یا تو پورا سر مونڈا جائے یا پورے سر پر بال چھوڑ دئیے جائیں ۔ اس حکم کی وجہ ظاہر ہے ، سر کے کچھ حصے کے بال مونڈ دینا اور کچھ چھوڑ دینا انتہائی بےڈھنگے پن کی بات ہے اور اس سے بچے کی شکل بگڑ جاتی ہے ۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس سے ممانعت فرمائی ہے ۔ اس حکم پر اس سے ملتی جلتی دوسری صورتوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ۔
تشریح
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بچہ کو دیکھا جس کے سر کے کچھ بال مونڈ دئیے گئے اور کچھ چھوڑ دئیے گئے تھے تو آپ ﷺ نے لوگوں کو اس سے منع فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ یا تو پورا سر مونڈا جائے یا پورے سر پر بال چھوڑ دئیے جائیں ۔ اس حکم کی وجہ ظاہر ہے ، سر کے کچھ حصے کے بال مونڈ دینا اور کچھ چھوڑ دینا انتہائی بےڈھنگے پن کی بات ہے اور اس سے بچے کی شکل بگڑ جاتی ہے ۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس سے ممانعت فرمائی ہے ۔ اس حکم پر اس سے ملتی جلتی دوسری صورتوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «سَمِعْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنِ الْقَزَعِ» قِيْلَ لِنَافِعٍ مَا الْقَزَعُ؟ قَالَ: «يُحْلَقُ بَعْضُ رَأْسِ الصَّبِيِّ وَيُتْرَكُ بَعْضٌ» رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عورتوں کو مہندی لگانے کا حکم
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ نے حضور ﷺ سعے عرض کیا کہ : “مجھے بیعت کر لیجئے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “میں تم کو اس وقت تک بیعت نہیں کروں گا جب تک کہ تم (مہندی لگا کر)” اپنے ہاتھوں کی صورت نہ بدلو گی (تمہارے ہاتھ اس وقت) کسی درندے کے سے ہاتھ معلوم ہوتے ہیں”۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
یہ ہند بنت عتبہ ابو سفیان کی بیوی تھیں ۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائیں ، اور اسی دن قریش کی دوسری بہت سی عورتوں کے ساتھ پہلی بیعت کی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں ہندہ کی طرف سے جس بیعت کی درخواست کا ذکر ہے بظاہر یہ انہوں نے بعد میں کسی وقت کی ہئے ، اور اسی موقع پر حضور ﷺ نے ان کو ہاتھوں میں مہندی لگانے کی یہ ہدایت فرمائی ۔
دوسری بعض روایات میں اور بھی بعض عورتوں کا ذکر ہے جن کو آپ ﷺ نے مہندی استعمال کرنے کی اسی طرح تاکید فرمائی ۔
رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت و تعلیم سے اسلامی شریعت کا یہ نقطہ نظر معلوم ہو گیا کہ عورتوں کو جائز حد تک زینت اور سنگھار کے اسباب استعمال کرنے چاہئیں ، ظاہر ہے یہ چیز ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان محبت اور قلبی تعلق میں اضافہ کا باعث ہو گی ۔
تشریح
یہ ہند بنت عتبہ ابو سفیان کی بیوی تھیں ۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائیں ، اور اسی دن قریش کی دوسری بہت سی عورتوں کے ساتھ پہلی بیعت کی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں ہندہ کی طرف سے جس بیعت کی درخواست کا ذکر ہے بظاہر یہ انہوں نے بعد میں کسی وقت کی ہئے ، اور اسی موقع پر حضور ﷺ نے ان کو ہاتھوں میں مہندی لگانے کی یہ ہدایت فرمائی ۔
دوسری بعض روایات میں اور بھی بعض عورتوں کا ذکر ہے جن کو آپ ﷺ نے مہندی استعمال کرنے کی اسی طرح تاکید فرمائی ۔
رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت و تعلیم سے اسلامی شریعت کا یہ نقطہ نظر معلوم ہو گیا کہ عورتوں کو جائز حد تک زینت اور سنگھار کے اسباب استعمال کرنے چاہئیں ، ظاہر ہے یہ چیز ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان محبت اور قلبی تعلق میں اضافہ کا باعث ہو گی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، بَايِعْنِي، قَالَ: «لَا أُبَايِعُكِ حَتَّى تُغَيِّرِي كَفَّيْكِ، كَأَنَّهُمَا كَفَّا سَبُعٍ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৭৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ستر اور پردے کے بارے میں ہدایات: ضروری ستر
حضرت جرہد بن خویلد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ران (بھی) ستر میں شامل ہے ۔ (یعنی اس کا کھولنا جائز نہیں) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
انسان کی معاشی زندگی میں ستر اور پردے کے مسئلہ کی بھی خاص اہمیت ہے اور یہ ان خصائص میں سے جن میں انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہے ۔ خالقِ کائنات نے دوسرے حیوانات میں حیا اور شرم کا وہ مادہ نہیں رکھا جو انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے اس لئے حیوانات اپنے جسم کے کسی حصے کو اور اپنے کسی فعل کو چھپانے کی وہ کوشش نہیں کرتے جو انسان کرتا ہے ، اور جس کے لئے وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے ۔
بہرحال ستر اور پردہ اصولی درجہ میں انسانی فطرت کا تقاضا ہے اسی لئے تمام اقوام و ملل اپنے عقائد و نظریات اور رسوم و عادات کے بہت سے اختلاف کے باوجود بنیادی طور پر اس پر متفق ہیں کہ آدمی کو دوسرے حیوانات کی طرح ننگ دھڑنگ نہیں رہنا چاہئے ۔
اسی طرح یہ بات بھی تمام انسانی گروہوں سے مسلمات بلکہ معمولات میں سے ہے کہ اس بارے میں عورت کا درجہ مرد سے بھی بلند ہے ، گویا جس طرح ستر اور پردے کے باب میں انسانوں کو عام حیوانات کے مقابلے میں امتیاز و تفوق حاصل ہے اسی طرح اس معاملہ میں عورت کو مرد کے مقابلہ میں فوقیت اور برتری حاصل ہے ، کیوں کہ اس کی جسمانی ساخت ایسی ہے کہ اس میں جنسی کشش جو بہت سے فتنوں کا ذریعہ بن سکتی ہے مردوں سے کہیں زیادہ ہے ، اسی لئے ان کے پیدا کرنے والے نے ان میں حیاء کا جذبہ بھی مردوں سے زیادہ رکھا ہے ۔ بہرحال اولادِ آدم کے لئے ستر اور پردہ بنیادی طور پر ان کی فطرت کا تقاضا اور پوری انسانی دنیا کے مسلمات میں سے ہے ۔
پھر جس طرح انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہدایت کی تکمیل اللہ کے آخری نبی سیدنا حضرت محمدﷺ کے ذریعہ ہوئی اسی طرح اس شعبہ میں بھی جو ہدایات آپ ﷺ نے دیں وہ بلاشبہ اس شعبہ کی تکمیلی ہدایات ہیں ۔
اس باب میں اصولی و بنیادی احکام تو آپ ﷺ کی لائی ہوئی کتابِ ہدایت قرآن مجید ہی میں دئیے گئے ہیں ۔ سورہ اعراف کے شروع ہی میں جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور انسانی دنیا کے آغاز کا ذکر ہے فرمایا گیا ہے کہ : “نسلِ آدمؑ کو ستر چھپانے کی ہدایت اسی ابتدائی دور میں دے دی گئی تھی اور آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اس بارے میں تم شیطان کے اغوا کا شکار نہ ہو جانا وہ تمہیں انسانیت کی بلند کے بلند سطح سے گرا کر جانوروں کی طرح ننگا اور بےپردہ کرنے کی کوشش کرے گا” ۔
پھر سورہ نور اور سورہ احزاب میں خاص کر عورتوں کے پردے کے بارے میں احکام دئیے گئے ۔ مثلاً یہ کہ ان کی اصل جگہ اپنا گھر ہے ، لہذا بے ضرورت سیر سپاٹے یا اپنی نمائش کے بارے میں احکام دئیے گئے ۔ مثلاً یہ کہ ان کی اصل جگہ اپنا گھر ہے ، لہذا بےضرورت سیرسپاٹے یا اپنی نمائش کے لئے گھروں سے باہر نہ گھومیں ۔ اور اگر ضرورت سے نکلیں (جس کی اجازت ہے) تو پورے پردے والا لباس پہن اوڑھ کر نکلیں ۔ اور گھروں میں شوہروں کے علاوہ گھر کے دوسرے لوگوں یا آنے جانے والے عزیزوں ، قریبوں کے سامنے لباس اور پردے کے بارے میں ان مقررہ حدود کی پابندی کریں ۔ اور مردوں کو چاہئے کہ اپنے اہلِ قرابت یا دیگر اہلِ تعلق کے گھروں میں اچانک یا بلااطلاع اور اجازت کے نہ جائیں ۔ نیز مرد عورتوں کو اور عورتیں مردوں کو دیکھنے ، تاکنے کی کوشش نہ کریں ، بلکہ سامنا ہو جائے تو نگاہین نیچی کر لیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جن کو عقلِ سلیم دی ہے اور ان کی فطرت مسخ نہیں ہوئی ہے ، وہ اگر غور کریں تو ان شاء اللہ انہیں اس میں شبہ نہ ہو گا کہ یہ احکام انسان کے جذبہ حیا کے فطری تقاضوں کی تکمیل بھی کرتے ہیں اور ان سے ان شیطانی اور شہوانی فتنوں کا دروازہ بھی بند ہو اجتا ہے جو زندگی کو گندہ اور اخلاق کو برباد کرتے ہیں ، اور کبھی کبھی بڑے شرمناک اور گھناؤنے نتائج کا باعث بن جاتے ہین ۔
اس تمہید کے بعد اور اس کی روشنی میں اس باب سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پڑھئے :
تشریح ..... انسانی جسم کے جو حصے عرف میں شرم گاہ کہلاتے ہیں ان کے بارے میں تو ہر آدمی حتیٰ کہ خدا کے اور کسی دین و مذہب کے نہ ماننے والے بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا ستر یعنی چھپانا ضروری ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ انسانی جسم میں صرف شرم گاہ اور اس کے قریبی حصے ہی نہیں بلکہ ران تک ستر میں شامل ہے جس کا چھپانا ضروری ہے ۔ یہ گویا ستر کے بارے میں تکمیلی تعلیم اور ہدایت ہے ۔ اس حدیث میں فخذ (ران) کو عورۃ فرمایا گیا ہے ۔ عورۃ کے لفظی معنی ہیں ، چھپانے کی چیز ، جس کا کھلنا شرم وع حیاء کے خلاف ہو ۔
تشریح
انسان کی معاشی زندگی میں ستر اور پردے کے مسئلہ کی بھی خاص اہمیت ہے اور یہ ان خصائص میں سے جن میں انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہے ۔ خالقِ کائنات نے دوسرے حیوانات میں حیا اور شرم کا وہ مادہ نہیں رکھا جو انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے اس لئے حیوانات اپنے جسم کے کسی حصے کو اور اپنے کسی فعل کو چھپانے کی وہ کوشش نہیں کرتے جو انسان کرتا ہے ، اور جس کے لئے وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے ۔
بہرحال ستر اور پردہ اصولی درجہ میں انسانی فطرت کا تقاضا ہے اسی لئے تمام اقوام و ملل اپنے عقائد و نظریات اور رسوم و عادات کے بہت سے اختلاف کے باوجود بنیادی طور پر اس پر متفق ہیں کہ آدمی کو دوسرے حیوانات کی طرح ننگ دھڑنگ نہیں رہنا چاہئے ۔
اسی طرح یہ بات بھی تمام انسانی گروہوں سے مسلمات بلکہ معمولات میں سے ہے کہ اس بارے میں عورت کا درجہ مرد سے بھی بلند ہے ، گویا جس طرح ستر اور پردے کے باب میں انسانوں کو عام حیوانات کے مقابلے میں امتیاز و تفوق حاصل ہے اسی طرح اس معاملہ میں عورت کو مرد کے مقابلہ میں فوقیت اور برتری حاصل ہے ، کیوں کہ اس کی جسمانی ساخت ایسی ہے کہ اس میں جنسی کشش جو بہت سے فتنوں کا ذریعہ بن سکتی ہے مردوں سے کہیں زیادہ ہے ، اسی لئے ان کے پیدا کرنے والے نے ان میں حیاء کا جذبہ بھی مردوں سے زیادہ رکھا ہے ۔ بہرحال اولادِ آدم کے لئے ستر اور پردہ بنیادی طور پر ان کی فطرت کا تقاضا اور پوری انسانی دنیا کے مسلمات میں سے ہے ۔
پھر جس طرح انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہدایت کی تکمیل اللہ کے آخری نبی سیدنا حضرت محمدﷺ کے ذریعہ ہوئی اسی طرح اس شعبہ میں بھی جو ہدایات آپ ﷺ نے دیں وہ بلاشبہ اس شعبہ کی تکمیلی ہدایات ہیں ۔
اس باب میں اصولی و بنیادی احکام تو آپ ﷺ کی لائی ہوئی کتابِ ہدایت قرآن مجید ہی میں دئیے گئے ہیں ۔ سورہ اعراف کے شروع ہی میں جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور انسانی دنیا کے آغاز کا ذکر ہے فرمایا گیا ہے کہ : “نسلِ آدمؑ کو ستر چھپانے کی ہدایت اسی ابتدائی دور میں دے دی گئی تھی اور آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اس بارے میں تم شیطان کے اغوا کا شکار نہ ہو جانا وہ تمہیں انسانیت کی بلند کے بلند سطح سے گرا کر جانوروں کی طرح ننگا اور بےپردہ کرنے کی کوشش کرے گا” ۔
پھر سورہ نور اور سورہ احزاب میں خاص کر عورتوں کے پردے کے بارے میں احکام دئیے گئے ۔ مثلاً یہ کہ ان کی اصل جگہ اپنا گھر ہے ، لہذا بے ضرورت سیر سپاٹے یا اپنی نمائش کے بارے میں احکام دئیے گئے ۔ مثلاً یہ کہ ان کی اصل جگہ اپنا گھر ہے ، لہذا بےضرورت سیرسپاٹے یا اپنی نمائش کے لئے گھروں سے باہر نہ گھومیں ۔ اور اگر ضرورت سے نکلیں (جس کی اجازت ہے) تو پورے پردے والا لباس پہن اوڑھ کر نکلیں ۔ اور گھروں میں شوہروں کے علاوہ گھر کے دوسرے لوگوں یا آنے جانے والے عزیزوں ، قریبوں کے سامنے لباس اور پردے کے بارے میں ان مقررہ حدود کی پابندی کریں ۔ اور مردوں کو چاہئے کہ اپنے اہلِ قرابت یا دیگر اہلِ تعلق کے گھروں میں اچانک یا بلااطلاع اور اجازت کے نہ جائیں ۔ نیز مرد عورتوں کو اور عورتیں مردوں کو دیکھنے ، تاکنے کی کوشش نہ کریں ، بلکہ سامنا ہو جائے تو نگاہین نیچی کر لیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جن کو عقلِ سلیم دی ہے اور ان کی فطرت مسخ نہیں ہوئی ہے ، وہ اگر غور کریں تو ان شاء اللہ انہیں اس میں شبہ نہ ہو گا کہ یہ احکام انسان کے جذبہ حیا کے فطری تقاضوں کی تکمیل بھی کرتے ہیں اور ان سے ان شیطانی اور شہوانی فتنوں کا دروازہ بھی بند ہو اجتا ہے جو زندگی کو گندہ اور اخلاق کو برباد کرتے ہیں ، اور کبھی کبھی بڑے شرمناک اور گھناؤنے نتائج کا باعث بن جاتے ہین ۔
اس تمہید کے بعد اور اس کی روشنی میں اس باب سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پڑھئے :
تشریح ..... انسانی جسم کے جو حصے عرف میں شرم گاہ کہلاتے ہیں ان کے بارے میں تو ہر آدمی حتیٰ کہ خدا کے اور کسی دین و مذہب کے نہ ماننے والے بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا ستر یعنی چھپانا ضروری ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ انسانی جسم میں صرف شرم گاہ اور اس کے قریبی حصے ہی نہیں بلکہ ران تک ستر میں شامل ہے جس کا چھپانا ضروری ہے ۔ یہ گویا ستر کے بارے میں تکمیلی تعلیم اور ہدایت ہے ۔ اس حدیث میں فخذ (ران) کو عورۃ فرمایا گیا ہے ۔ عورۃ کے لفظی معنی ہیں ، چھپانے کی چیز ، جس کا کھلنا شرم وع حیاء کے خلاف ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَرْهَدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَةٌ؟» (رواه الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ستر اور پردے کے بارے میں ہدایات: ضروری ستر
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ : اے علی ! اپنی ران نہ کھولو ، اور کسی زندہ یا مردہ آدمی کی ران کی طرف نظر نہ کرو ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ يَا عَلِىُّ «لَا تُبْرِزْ فَخِذَكَ، وَلا تَنْظُرِ الَى فَخِذِ حَيٍّ وَلا مَيِّتٍ» (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ستر اور پردے کے بارے میں ہدایات: ضروری ستر
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کے ستر کی طرف نظر نہ کرے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جسم کے وہ مخصوص حصے جن کو چھپانا ضروری قرار دیا گیا ہے (یعنی ناف کے نیچے سے رانوں تک) ان کی طرف نظر کرنا ہم جنسوں کے لئے بھی جائز نہیں ۔ اور بلاشبہ حیا اور شرم کا تقاضا یہی ہے ، ہاں ضرورت کے مواقع مستثنیٰ ہوں گے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جسم کے وہ مخصوص حصے جن کو چھپانا ضروری قرار دیا گیا ہے (یعنی ناف کے نیچے سے رانوں تک) ان کی طرف نظر کرنا ہم جنسوں کے لئے بھی جائز نہیں ۔ اور بلاشبہ حیا اور شرم کا تقاضا یہی ہے ، ہاں ضرورت کے مواقع مستثنیٰ ہوں گے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ، وَلَا الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ تنہائی میں بھی ستر کا چھپانا ضروری
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو (تنہائی کی حالت میں بھی) برہنگی سے پرہیز کرو (یعنی بےضرورت تنہائی میں بھی ستر نہ کھولو) کیوں کہ تمہارے ساتھ فرشتے برابر رہتے ہیں ، کسی وقت بھی جدا نہیں ہوتے ، سوائے قضائے حاجت اور میاں بیوی کی صحبت کے وقت کے، لہذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام کرو ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اگر آدمی کسی وقت اور کسی جگہ بالکل تنہا ہو کوئی دوسرا شخص دیکھنے والا نہ ہو تب بھی بلاضرورت برہنہ نہ ہو اور ستر کی حفاظت کرے ، اللہ سے اورا اس کے فرشتوں سے شرم کرے ۔
تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کراماً کاتبین وغیرہ جو فرشتے انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں ، وہ ان اوقات میں الگ ہو جاتے ہیں جو آدمی اپنی فطری ضرورت سے بےپردہ ہوتا ہے ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اگر آدمی کسی وقت اور کسی جگہ بالکل تنہا ہو کوئی دوسرا شخص دیکھنے والا نہ ہو تب بھی بلاضرورت برہنہ نہ ہو اور ستر کی حفاظت کرے ، اللہ سے اورا اس کے فرشتوں سے شرم کرے ۔
تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کراماً کاتبین وغیرہ جو فرشتے انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں ، وہ ان اوقات میں الگ ہو جاتے ہیں جو آدمی اپنی فطری ضرورت سے بےپردہ ہوتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِيَّاكُمْ وَالتَّعَرِّيَ فَإِنَّ مَعَكُمْ مَنْ لاَ يُفَارِقُكُمْ إِلاَّ عِنْدَ الغَائِطِ وَحِينَ يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى أَهْلِهِ، فَاسْتَحْيُوهُمْ وَأَكْرِمُوهُمْ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ تنہائی میں بھی ستر کا چھپانا ضروری
بہز بن حکیم نے اپنے والد حکیم سے اور انہوں نے بہز کے دادا (یعنی اپنے والد) معاویہ بن حیدہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو (کسی کے سامنے نہ کھولو) سوائے اپنی بیوی اور (شرعی) باندی کے (معاویہ بن حیدہ کہتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ : حضرت ! کیا فرماتے ہیں اس حالت کے ابرے میں جب آدمی بالکل تنہائی میں ہو ؟ (کوئی دوسرا آدمی دیکھنے والا نہ ہو) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ سزاوار ہے اور اس کا زیادہ حق ہے کہ اس سے شرم کی جائے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ؟ قَالَ: إِذَا كَانَ الرَّجُلُ خَالِيًا؟ قَالَ: «فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ» (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عورتوں کو پردہ ضروری ، باہر نکلنا موجب فتنہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : عورت گویا ستر ہے (یعنی جس طرح ستر کو چھپا رہنا چاہیے ، اسی طرح عورت کو گر میں پردے میں رہنا چاہئے) جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
عربی زبان میں “عورت” اس چیز یا اس حصہ جسم کو کہتے ہیں جس کا چھپانا اور پردے میں رکھنا ضروری اور کھولنا معیوب سمجھا جائے ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ “الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ” یعنی صنف خواتین کی نوعیت یہی ہے ، ان کو پردے میں رہنا چاہئے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ : جب کوئی خاتون باہر نکلتی ہے تو شیطان تاک جھانک کرتے ہیں ۔ حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مدعا اور مقصد یہ ہے کہ عورتوں کو حتی الوسع باہر نکلنا ہی نہ چاہئے تا کہ شیطانوں اور ان کے چیلے چانٹوں کو شیطنت اور شرارت کا موقع ہی نہ ملے ، اور اگر ضرورت سے نکلنا ہو تو اس طرح باپردہ نکلیں کہ زینت و آرائش کا اظہار نہ ہو ۔ قرآن مجید کی آیت “وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ” میں بھی یہی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ البتہ ضرورت سے باہر نکلنے کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضور ﷺ کا صریح ارشاد ہے : “إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ” یعنی بہ ضرورت باہر نکلنے کی اجازت ہے ۔
تشریح
عربی زبان میں “عورت” اس چیز یا اس حصہ جسم کو کہتے ہیں جس کا چھپانا اور پردے میں رکھنا ضروری اور کھولنا معیوب سمجھا جائے ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ “الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ” یعنی صنف خواتین کی نوعیت یہی ہے ، ان کو پردے میں رہنا چاہئے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ : جب کوئی خاتون باہر نکلتی ہے تو شیطان تاک جھانک کرتے ہیں ۔ حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مدعا اور مقصد یہ ہے کہ عورتوں کو حتی الوسع باہر نکلنا ہی نہ چاہئے تا کہ شیطانوں اور ان کے چیلے چانٹوں کو شیطنت اور شرارت کا موقع ہی نہ ملے ، اور اگر ضرورت سے نکلنا ہو تو اس طرح باپردہ نکلیں کہ زینت و آرائش کا اظہار نہ ہو ۔ قرآن مجید کی آیت “وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ” میں بھی یہی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ البتہ ضرورت سے باہر نکلنے کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضور ﷺ کا صریح ارشاد ہے : “إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ” یعنی بہ ضرورت باہر نکلنے کی اجازت ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نظر بازی موجبِ لعنت
حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : خدا کی لعنت ہے دیکھنے والے پر اور اس پر جس کو دیکھا جائے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو کوئی کسی نامحرم عورت کو یا کسی کے ستر کو (جس کا دیکھنا حرام ہے) دیکھے ، تو اس پر خدا کی طرف سے لعنت ہے ، یعنی رحمت سے محرومی کا فیصلہ ہے اور اسی طرح وہ بھی رحمت خداوندی سے محروم ہے جس نے قصداً دیکھنے والے کو دیکھنے کا موقع دیا اور دکھایا ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو کوئی کسی نامحرم عورت کو یا کسی کے ستر کو (جس کا دیکھنا حرام ہے) دیکھے ، تو اس پر خدا کی طرف سے لعنت ہے ، یعنی رحمت سے محرومی کا فیصلہ ہے اور اسی طرح وہ بھی رحمت خداوندی سے محروم ہے جس نے قصداً دیکھنے والے کو دیکھنے کا موقع دیا اور دکھایا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ الْحَسَنِ، مُرْسَلًا قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَعَنَ اللهُ النَّاظِرَ والْمَنْظُورَ إِلَيْهِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی اجنبی عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے کا حکم
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں دریافت کیا (یعنی یہ کہ اگر اچانک کسی نامحرم عورت پر یا کسی کے ستر پر نظر پڑ جائے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟) تو آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اُدھر سے نگاہ پھیر لوں ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظَرِ الْفُجَاءَةِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِي. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی اجنبی عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے کا حکم
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی سے ایک دفعہ فرمایا : اے علی ! (اگر کسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے) تو دوبارہ نظر نہ کرو ، تمہارے لئے پہلی نظر (جو بلاارادہ اور اچانک پڑ گئی وہ) تو جائز ہے (یعنی اس پر مواخذہ اور گناہ نہ ہو گا) اور دوسری جائز نہیں ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ بُرَيْدَةَ قَالَ لِعَلِيٍّ يَا عَلِيُّ لاَ تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَإِنَّ لَكَ الأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الآخِرَةُ. (رواه احمد الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی اجنبی عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے کا حکم
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جس مردِ مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر پہلی دفعہ نظر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے اور (اس کی طرف نہ دیکھے) تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی وہ لذت و حلاوت محسوس کرے گا ۔ (مسند احمد)
تشریح
یعنی ایک ناجائز نفسانی لذت کی قربانی کے صلہ میں اللہ تعالیٰ آخرت کے بےحساب اجر و ثواب سے پہلے اپنے اس مومن بندے کو حلاوتِ عبادت کی نہایت اعلیٰ روحانی لذت اسی دنیا میں عطا فرمائے گا ۔
تشریح
یعنی ایک ناجائز نفسانی لذت کی قربانی کے صلہ میں اللہ تعالیٰ آخرت کے بےحساب اجر و ثواب سے پہلے اپنے اس مومن بندے کو حلاوتِ عبادت کی نہایت اعلیٰ روحانی لذت اسی دنیا میں عطا فرمائے گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَنْظُرُ إِلَى مَحَاسِنِ امْرَأَةٍ أَوَّلَ مَرَّةٍ، ثُمَّ يَغُضُّ بَصَرَهُ إِلَّا أَحْدَثَ اللَّهُ لَهُ عِبَادَةً يَجِدُ حَلَاوَتَهَا» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৮৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غیر عورت پر نظر پڑ جانے سے دل میں گندہ جذبہ پیدا ہو تو
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایسا ہوتا ہے کہ کوئی عورت شیطان کی طرح آتی یا جاتی ہے (یعنی اس کا ڈھنگ اور اس کی چال آدمی کے لئے شیطانی فتنہ کا سامان بن سکتی ہے) تو اگر کسی کو ایسا واقعہ پیش آئے کہ کوئی ایسی عورت اچھی لگے اور اس کے ساتھ دلچسپی اور دل میں اس کی خواہش پیدا ہو جائے توا ٓدمی کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے پاس جائے اور اپنی نفسانی خواہش پوری کرے ، اس سے اس کی اس گندی خواہش نفس کا علاج ہو جائے گا ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
انسان کی یہ فطرت ہے کہ کوئی کھانے پینے کی مرغوب چیز دیکھے یا خوشبو ہی آ جائے تو اس کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے ۔ گرمی اور تپش کی حالت میں ٹھنڈی ، سایہ دار اور خوش منظر جگہ دیکھ کر وہاں ٹھہرنے اور آرام کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غیر عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے سے بسا اوقات شہوانی تقاجا پیدا ہو جاتا ہے جو اغواء شیطانی سے بہت برے نتائج تک بھی پہنچا سکتا ہے ، اور کم از کم آدمی ایک قسم کی بےچینی میں تو مبتلا ہو ہی جاتا ہے ۔ نفس و روح کے معالج اعظم رسول اللہ ﷺ نے اس کا بھی علاج بتلایا ہے ۔
تشریح
انسان کی یہ فطرت ہے کہ کوئی کھانے پینے کی مرغوب چیز دیکھے یا خوشبو ہی آ جائے تو اس کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے ۔ گرمی اور تپش کی حالت میں ٹھنڈی ، سایہ دار اور خوش منظر جگہ دیکھ کر وہاں ٹھہرنے اور آرام کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غیر عورت پر اچانک نگاہ پڑ جانے سے بسا اوقات شہوانی تقاجا پیدا ہو جاتا ہے جو اغواء شیطانی سے بہت برے نتائج تک بھی پہنچا سکتا ہے ، اور کم از کم آدمی ایک قسم کی بےچینی میں تو مبتلا ہو ہی جاتا ہے ۔ نفس و روح کے معالج اعظم رسول اللہ ﷺ نے اس کا بھی علاج بتلایا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ وَتُدْبِرُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ إِذَا أَحَدُكُمْ أَعْجَبَتْهُ الْمَرْأَةُ فَوَقَعَتْ فِي قَلْبِهِ فَلْيَعْمِدْ إِلَى امْرَأَتِهِ فَلْيُوَاقِعْهَا فَإِنَّ ذَلِكَ يَرُدُّ مَا فِي نَفْسِهِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৬৯০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نامحرم عورتوں سے تنہائی میں ملنے کی ممانعت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ کوئی (نامحرم) آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
معاشرے کو فواحش اور گندے اعمال و اخلاق سے محفوظ رکھنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے جو ہدایات فرمائی ہیں ان مین سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی نامحرم عورت سے تنہائی میں نہ ملے ، ایسی صورت میں اس شیطان کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے جو ہر وقت ساتھ رہتا ہے ۔
تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جب کوئی نامحرم شخص تنہائی میں کسی عورت سے ملے گا تو شیطان ان کو معصیت میں مبتلا کرنے کی ضرور کوشش کرے گا ۔ اس لعین دشمن ایمان کو اس کا موقع ہی نہ دیا جائے ۔
تشریح
معاشرے کو فواحش اور گندے اعمال و اخلاق سے محفوظ رکھنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے جو ہدایات فرمائی ہیں ان مین سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی نامحرم عورت سے تنہائی میں نہ ملے ، ایسی صورت میں اس شیطان کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے جو ہر وقت ساتھ رہتا ہے ۔
تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جب کوئی نامحرم شخص تنہائی میں کسی عورت سے ملے گا تو شیطان ان کو معصیت میں مبتلا کرنے کی ضرور کوشش کرے گا ۔ اس لعین دشمن ایمان کو اس کا موقع ہی نہ دیا جائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক: