মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩৬৭ টি

হাদীস নং: ১৭১১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شادی کے بعد ولیمہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی بیوی کے نکاح پر ایسا ولیمہ نہیں کیا جیسا کہ زینب بنت جحش کے نکاح کے موقع پر کیا ۔ پوری ایک بکری پر ولیمہ کیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اور سب بیویوں کے نکاح پر آپ ﷺ نے جو ولیمہ کی دعوت کی وہ اس سے مختصر اور ہلکے پیمانہ پر کی تھی ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں صفیہ بنت شیبہ کی روایت سے یہ حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ نے بعض بیویوں کے نکاح پر جو ولیمہ کی دعوت کی تو صرف دو سیر جَو کام میں آئے اور اسی صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ بیان مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت صفیہؓ کو اپنے نکاح میں لیا اور لوگوں کو ولیمہ کی دعوت دی تو دسترخوان پر گوشت روٹی کچھ نہیں تھا ، کچھ کھجوریں تھیں اور کچھ پنیر اور مکھن تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ولیمہ کے لئے باقاعدہ کھانے کی دعوت بھی ضروری نہیں ، کھانے پینے کی جو بھی مناسب اور مرغوب چیز میسر ہو رکھ دی جائے ۔ لیکن بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ہم مسلمانوں نے جہیز کی طرح ولیمہ کو بھی ایک مصیبت بنا لیا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ مَا أَوْلَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَائِهِ مَا أَوْلَمَ عَلَى زَيْنَبَ أَوْلَمَ بِشَاةٍ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭১২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ولیمہ کی دعوت قبول کرنی چاہئے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کسی کو سلیمہ کی دعوت دی جائے تو اس کو چاہئے کہ دعوت قبول کرے اور آئے ۔ (صحیح بخاری و مسلم)

تشریح
ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ حکم دیا تھا اس وقت ولیمے صحیح قسم کے ہی ہوتے تھے اور ایسے ولیمے جب بھی اور جہاں بھی ہوں ان کے لئے یہی حکم ہے ۔ ایسی مخلصانہ دعوتیں بابرکت ہیں لیکن جن ولیموں میں کھلا اسراف اور نمائش اور تفاخر ہو یا دوسری قسم کی منکرات ہوں ان کے لئے ہرگز یہ حکم نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کے ہاں کھانے سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْوَلِيمَةِ فَلْيَأْتِهَا. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭১৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کیسے لوگوں کا کھانا نہ کھایا جائے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابہم مقابلہ کرنے والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی شان اونچی دکھانے کے لئے شاندار دعوتیں کریں ان کے کھانے میں شرکت کرنے سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ طَعَامِ الْمُتَبَارِيَيْنِ أَنْ يُؤْكَلَ. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭১৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کیسے لوگوں کا کھانا نہ کھایا جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اس ولیمہ کا کھانا برا کھانا ہے جس میں صرف امیروں کو بلایا جائے اور حاجتمندوں غریبوں کو چھوڑ دیا جائے ۔ اور جس نے دعوت کو (بلاوجہ شرعی) قبول نہ کیا تو اس نے اللہا ور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے پہلے جز کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ جب کوئی ولیمہ کرے تو غریبوں حاجت مندوں کو نظر انداز نہ کرے ان کو ضرور دعوت دے جس ولیمہ میں ان کو نہ بلایا جائے صرف امیروں اور بڑے لوگوں کو مدعو کیا جائے اس کا کھانا اس لائق نہیں ہے کہ کھایا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ولیمہ کے علاوہ دوسری قسم کی دعوتوں کا حکم بھی یہی ہے حدیث کے دوسرے جز کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ اگر کوئی شرعی مانع یا مجبوری نہ ہو تو مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کرنا چاہئے ۔ اس سے دلوں میں جوڑ پیدا ہوتا ہے اور قبول نہ کرنے سے دلوں میں دوری اور بدگمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اس لئے بلاوجہ دعوت کا قبول نہ کرنا اللہ و رسول کی مرضی اور حکم کے خلاف ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ يُدْعَى لَهَا الأَغْنِيَاءُ، وَيُتْرَكُ الْفُقَرَاءُ، وَمَنْ تَرَكَ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭১৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مباشرت سے متعلق ہدایات اور احکام: دعا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی بیوی کے پاس جاتے وقت اللہ کے حضور میں یہ عرض کرے : “بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَ جَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا” (بسم اللہ ! اے اللہ تو شیطان کے شر سے ہم کو بچا اور ہم کو جو اولاد دے اس کو بھی بچا) تو اگر اس مباشرت کے نتیجہ میں ان کے لئے بچہ مقدر ہو گا تو شیطان کبھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا اور وہ ہمیشہ شرِ شیطان سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
یہ حدیث معارف الحدیث “کتاب الدعوات” میں بھی ذکر کی جا چکی ہے اور وہاں تشریح میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی “اشعۃ اللمعات” کے حوالہ سے ان کا یہ عارفانہ نکتہ بھی نقل کیا جا چکا ہے کہ اس حدیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مباشرت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا نہ کی اور خدا سے غافل رہ کر جانوروں کی طرح شہوتِ نفس کا تقاضا پورا کر لیا تو ایسی مباشرت سے جو اولاد پیدا ہو گی وہ شیطان کے شر سے محفوظ نہیں رہے گی ۔ اس کے آگے شیخ نے فرمایا ہے کہ “اس زمانہ میں پیدا ہونے والی نسل کے احوال ، اخلاق ، عادات جو عام طور سے خراب و برباد ہیں اس کی خاص بنیاد یہی ہے” ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کی ان ہدایات کی روشنی میں اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرْ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭১৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مباشرت ایک راز ہے اس کا افشا بدترین گناہ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : قیامت کے دن اللہ کے ہاں وہ آدمی بدترین درجہ میں ہو گا جو بیوی سے ہم بستری کے بعد اس کا راز فاش کرے ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِيْ سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ وَتُفْضِي إِلَيْهِ ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭১৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خلافِ وضع فطری عمل پر خدا کی لعنت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بیوی کے ساتھ خلاف وضع فطرت عمل کرے وہ ملعون ہے ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭১৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خلافِ وضع فطری عمل پر خدا کی لعنت ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص کسی مرد یا عورت کے ساتھ خلاف وضع فطرت حرکت کرے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر بھی نہ فرمائے گا ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
بےچارے حیوانات بھی جو عقل و تمیز سے محروم ہیں وہ بھی شہوت کا تقاضا خلاف فطرت طریقے سے پورا نہیں کرتے ، پس جو انسان ایسا کرتے ہیں وہ حیوانوں سے بھی بدتر اور “ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ” کے مصداق ہیں ۔ یہ بات قیامت اور آخرت ہی میں معلوم ہو گی کہ اللہ کی نظر کرم سے محروم ہو جانا کتنی بڑی بدبکتی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى رَجُلٍ أَتَى رَجُلاً أَوِ امْرَأَةً فِي الدُّبُرِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭১৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عزل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں) جبکہ نزولِ قرآن کا سلسلہ جاری تھا ، ہم لوگ (یعنی بعض اصحاب) عزل کرتے تھے (اور اس کی ممانعت میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی) اور صحیح مسلم کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کو اس کی اطلاع بھی ہوئی مگر آپ ﷺ نے منع نہیں فرمایا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
کبھی ایسا بھی ہو.تا ہے کہ آدمی کسی خاص وجہ سے (مثلاً بیوی کی صحت یا پہلے بچہ کی صحت کے تحفظ کے خیال سے) یہ نہیں چاہتا کہ اس وقت اس کی بیوی کو حمل قرار پائے ، وہ اس غرض سے ایسا کرتا ہے کہ انزال کا وقت قریب آنے پر اپنے کو بیوی سے الگ کر لیتا ہے تا کہ مادہ منویہ باہر خارج ہو جائے ، اسی کو عزل کہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی بعض لوگ ایسا کرتے تھے ، اس کے بارے میں حضور ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے جواب دیا جس کا ذکر آگے حدیث میں آ رہا ہے اور بظاہر جس کا مفاد یہ ہے کہ یہ ممنوع اور ناجائز تو نہیں ہے لیکن اچھا بھی نہیں ہے ۔ امت کے اکثر فقہا نے اس باب کی حدیثوں سے یہی سمجھا ہے اور ان کے نزدیک مسئلہ یہی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے خاص حالات اور مصالح کی وجہ سے عزل کرے تو گنجائش ہے گناہ نہیں ہے ۔ لیکن فی زماننا مغربی اقوام و ممالک کی تقلید و پیروی میں بعض ملکوں میں ملکی اور قومی پیمانے پر تحدید نسل کی مہمیں جس طرح چلائی جا رہی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ انسانی نسل بڑھنے نہ پائے ، اگر بڑھتی رہی تو روٹی نہ ملے گی ، اس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہی ہے ، یہ وہی گمراہانہ نقطہ نظر ہے جس کی بناء پر زمانہ جاہلیت کے بعض عرب اپنے نومولود بچوں کو ختم کر دیتے تھے ۔ قرآن پاک میں انہی سے فرمایا گیا ہے ۔
لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ
اپنے بچوں کو مفلسی اور ناداری کی وجہ سے ختم نہ کرو ، ہم تمہیں بھی روزی دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے ۔
اس تمہید کے بعد عزل سے متعلق مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ قَالَ كُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ. (رواه البخارى ومسلم)
وزاد مسلم فَبَلَغَ ذَالِكَ النَّبِيَّ فَلَمْ يَنْهَنَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عزل
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عزل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ایسا نہیں ہے کہ پورے مادہ منویہ ہی سے بچہ ہو ۔ (یعنی غیر ارادی طور پر خارج ہونے والے ایک قطرہ سے بھی اللہ کا حکم ہو تو حمل قرار پا سکتا ہے) اور جب کسی چیز کی تخلیق کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو جائے تو پھر کوئی چیز اس کو روک نہیں سکتی ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ عزل کیا جائے گا تو بچہ نہیں ہوگا اگر اللہ کی مشیت ہوگی تو بچہ بہرحال پیدا ہوگا یہ مضمون آگے درج ہونے والی حدیث سے اور زیادہ واضح ہو جائے گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَزْلِ فَقَالَ: مَا مِنْ كُلِّ الْمَاءِ يَكُونُ الْوَلَدُ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ خَلْقَ شيء لَمْ يَمْنَعْهُ شَيْءٌ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عزل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری ایک باندی ہے اور وہی ہمارے گھر کا کام کاج کرتی ہے اور میں اس سے صحبت بھی کرتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ اس کے حمل قرار پائے (غالباً مطلب یہ تھا کہ کیا میں عزل کر سکتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو عزل کرو لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس باندی کے لئے جو مقدر ہوچکا ہے وہ ضرور ہوگا کچھ دنوں کے بعد وہی آدمی آیا اور عرض کیا کہ اس باندی کے تو حمل قرار پا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو تم کو بتایا تھا کہ جو اس کے لیے مقدر ہوچکا ہے وہ ہو کے رہے گا ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد نقل کیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی کی طرف سے کسی چیز کے وجود کا فیصلہ ہو چکا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوگی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو کے رہے گا مثلا ایک آدمی اس مقصد سے کہ بیوی کے حمل قرار نہ پائے عزل کرتا ہے تو اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کسی وقت بچہ پیدا ہونے کی ہوگی تو ایسا ہوگا کہ وہ بروقت عزل نہ کر سکے گا اور مادہ منویہ اندر ہی خارج ہوجائے گا یا وہ عزل کرے گا لیکن مادہ کا کوئی جز پہلے ہی خارج ہوجائے گا اور اس کو شعور بھی نہ ہوگا الغرض انسانی تدبیر فیل ہو گی اور ارادہ الٰہیہ پورا ہو کے رہے گا۔ واللہ اعلم۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَجُلاً أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ لِي جَارِيَةً هِيَ خَادِمَتُنَا وَأَنَا أَطُوفُ عَلَيْهَا وَأَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ. فَقَالَ: اعْزِلْ عَنْهَا إِنْ شِئْتَ فَإِنَّهُ سَيَأْتِيهَا مَا قُدِّرَ لَهَا. فَلَبِثَ الرَّجُلُ ثُمَّ أَتَاهُ فَقَالَ إِنَّ الْجَارِيَةَ قَدْ حَبِلَتْ. فَقَالَ: قَدْ أَخْبَرْتُكَ أَنَّهُ سَيَأْتِيهَا مَا قُدِّرَ لَهَا. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چار بیویوں تک کی اجازت
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہلانا بن سلمہ ثقفی نے اسلام قبول کیا اور اس وقت ان کی دس بیویاں تھیں ان سب نے بھی ان کے ساتھ اسلام قبول کرلیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ چار بیویاں تو رکوع اور باقیوں کو جدا کر دو ۔ (مسند احمد)

تشریح
جو لوگ انسانوں کی فطرت اور ان کے مختلف طبقات کے حالات سے واقف ہیں وہ یقین کے ساتھ جانتے ہونگے کہ بہت سے آدمی اپنی طبیعت اور مزاج کے لحاظ سے اور بہت سے اپنے یا اپنی بیوی کے مخصوص حالات کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کی ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت نہ ہو تو اس کا بڑا خطرہ ہوگا کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائیں اسی لیے آسمانی شریعتوں میں جن میں زنا اشد حرام قرار دیا گیا ہے عام طور سے اس کی اجازت رہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں خاص کر شادی شدہ آدمی کے لیے زنا اتنا شدید گناہ ہے کہ اس کی سزا سنگساری ہے’ ایسی شریعت میں اگر کسی حال میں بھی تعداد ازواج کی اجازت نہ ہو تو انسان پر قانون کی یہ بہت زیادتی ہوگی جن مغربی ملکوں اور قوموں کے قانون میں تعداد ازواج کی بالکل گنجائش نہیں ہے ان میں زنا کو قانونی جواز حاصل ہے اور عمل بھی وہاں زنا کی جتنی کثرت ہے وہ کوئی پوشیدہ راز نہیں ہے اسلامی شریعت نے زنا کو ختم کرنے کے لئے ایک طرف تو اس کے لیے سخت سے سخت سزا مقرر کی اور دوسری طرف مناسب شرائط کے ساتھ چار بیویاں تک کی اجازت دی ان کے علاوہ بھی بہت سے وجوہ اسباب ہیں جن کا یہی تقاضہ ہے لیکن ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کی بہت سی دوسری قوموں کی طرح عربوں میں بھی بیویوں کی تعداد کا کوئی تہدیدی نہ تھا بعض لوگ دس دس اور اس سے بھی زیادہ بیویاں رکھتے تھے اسلامی شریعت میں انسانوں کی مختلف حالتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی آخری حد چار مقرر فرما دی گئی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ غَيْلاَنَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ وَلَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَأَسْلَمْنَ مَعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمْسِكْ أَرْبَعاً. وَفَارِقْ سَائِرَهُنَّ. (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے ساتھ برتاؤ میں عدل و مساوات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی آدمی کی دو یا زیادہ بیویاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ عدل و مساوات کا برتاؤ نہ کرے تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اسکا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا ۔ (جامع ترمذی سنن ابی داؤد سنن نسائی سنن ابن ماجہ مسند دارمی)

تشریح
اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس کے لیے بطور فریضہ کے لازم کیا گیا ہے کہ وہ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے کسی کے ساتھ ادنیٰ بے انصافی نہ ہو قرآن مجید میں سورہ نساء کی جس آیت میں چار تک کی اجازت دی گئی ہے اس میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے “وَإِنْ لَّمْ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً” یعنی اگر تم ایک سے زیادہ بیویوں سے نکاح کرنے کی صورت میں عدل پر قائم نہ رہ ‏‏‏سکو اور ہر ایک کے ساتھ یکساں برتاؤ نہ کر سکو تو بس ایک ہی بیوی پر قناعت کرو ایک سے زیادہ نکاح مت کرو ۔
بیویوں کے ساتھ عدل نہ کرنے والے شہروں کو آخرت میں جو خاص رسوا کن عذاب ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی ذکر فرمایا تاکہ لوگ اس معاملے میں ڈرتے رہیں ہاں دل کے ملان پر انسان کا اختیار نہیں لیکن معاملہ اور برتاؤ میں فرق نہ ہونا چاہیے ۔

تشریح ..... دنیا کے گناہوں اور آخرت کی سزاؤں میں جومناسب اورمشابہت ہوگی یہ بھی اس کی ایک مثال ہیں وہ معاملہ اور برتاؤ میں ایک بیوی کی طرف جھکتا تھا قیامت ہوگا کہ اسکا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا اور سب اس کو اس حال میں دیکھیں گے اللہ کی پناہ کیسا منظر ہوگا اور کیسی رسوائی ہوگی۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِطٌ. (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے ساتھ برتاؤ میں عدل و مساوات
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سب بیویوں کے ہاں باری باری رہتے تھے اور پورے عادل کا برتاؤ فرماتے تھے اور اس کے ساتھ اللہ سے عرض کرتے تھے کہ اے میرے اللہ یہ میری تقسیم ہے ان معاملات میں اور اس عملی برتاؤ میں جو میرے اختیار میں ہیں پس میری سرزنش اور محاسبہ نہ فرما دل کے اس معاملے میں جو تیرے ہیں میرے اختیار میں نہیں۔ (جامع ترمذی سنن ابی داؤد سنن نسائی سنن ابن ماجہ مسند الدارمی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جہاں تک رہن سہن اور عملی برتاؤ کا تعلق ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ مثالی اور کامل عدل فرماتے تھے جو معاملہ اور برتاؤ کیسی ایک کے ساتھ تھا وہ سب کے ساتھ تھا لیکن قلبی محبت اور دل کا میلان ایسی چیز ہے جس پر کسی بشر کا قابل نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی قابو نہیں تھا اس کا حال یکساں نہیں تھا اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے حضور میں اس طرح معذرت فرماتے تھے کہ اے اللہ یہ چیز میرے اختیار میں نہیں ہے آپ کے اختیار میں ہے اس پر مواخذہ اور محاسبہ نہ ہو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال عبدیت تھا ورنہ قرآن مجید میں فرما دیا گیا ہے ..... “لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا”
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلاَ تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلاَ أَمْلِكُ. (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے حلال اور جائز چیزوں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ مبغوض طلاق ہے۔ (سنن ابی داود)

تشریح
جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے نکاح اور شادی کا مقصد یہ ہے کہ مردوعورت یہ رشتہ قائم کرکے اور باہم وابستہ ہوکر عفت و پاکبازی کے ساتھ مسرت و شادمانی کی زندگی گزار سکیں اور جس طرح وہ خود کسی کی اولاد ہیں اسی طرح ان سے بھی اولاد کا سلسلہ چلے اور وہ اولاد ان کے لیے دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اور آخرت میں حصول جنت کا وسیلہ بنے اور ان مقاصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں میں محبت اور خوشگواری کا تعلق رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہروں اور بیویوں کو باہم برتاؤ کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا محور اور مرکزی نقطہ یہی ہے اس کے باوجود کبھی ایسے حالات ہوجاتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان سخت تلخی اور ناگواری پیدا ہوجاتی ہے اور ساتھ رہنا بجائے راحت و مسرت کے مصیبت بن جاتا ہے ایسے وقت کے لئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تعلیم و ترغیب یہی ہے کہہ ۃروصو دونوں ناگواریوں کو جھیلیں نباہنے اور تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں لیکن آخری چارہ کار کے طور پر طلاق کی بھی اجازت دی گئی ہے اگر کسی حالت میں بھی طلاق اور علیحدگی کی اجازت نہ ہو تو پھر یہ تعلق اور رشتہ دونوں کے لیے عذاب بن سکتا ہے پھر طلاق کے سلسلے میں تفصیلی ہدایات بھی دی گئی ہیں ۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی اصولی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ طلاق اور اس کے ذریعے شوہر و بیوی کے تعلقات کا ٹوٹنا اللہ تعالیٰ کو بےحد ناپسند ہے لہذا جہاں تک ممکن ہو اس سے بچ نہیں چاہیے نا مرد خون یہ اقدام کرے نو عورت اس کا مطالبہ کرے بس انتہائی مجبوری کی صورت ہی میں ایسا کیا جائے جس طرح کیسی وضو میں بڑا فساد پیدا ہوجانے کی صورت میں آپریشن گوارا کیا جاتا ہے۔
پھر اس طلاق اور علیحدگی کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے کہ شوہر طہر کی حالت میں یعنی جن دنوں میں عورت کی ناپاکی کی خالص حالت نہ ہو صرف ایک رجعی طلاق دے تاکہ زمانہ عدت میں رجعت یعنی رجوع کر لینے کی گنجائش رہے پھر اگر شوہر کو رجوع کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے تو عدت کی مدت گزر جانے دے اس سے رجعت کی گنجائش تو نہ رہے گی لیکن دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کا رشتہ قائم ہو سکے گا۔
بیک وقت تین طلاق دینے کو تو ناجائز اور سخت گناہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے معلوم ہوگا لیکن متفرق اوقات میں تین طلاقیں دینے کو بھی سخت ناپسند کیا گیا ہے اور اس کی یہ سزا اس دنیا ہی میں مقرر کی گئی ہے کہ اگر وہ شوہر اپنی اس مطلقہ بیوی سے پھر نکاح کرنا چاہے تو نہیں کر سکے گا جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں آکر اس کی زیر صحبت نہ رہی ہو پھر یا تو اس کے انتقال کرجانے سے بیوہ ہو گئی ہو یا اس نے بھی طلاق دے دی ہو۔
الغرض صرف اسی صورت میں عدت گزر جانے کے بعد ان دونوں کا دوبارہ نکاح ہو سکے گا یہ سخت پابندی دراصل شوہر کو تین طلاق دینے ہی کی سزا ہے اس تمہید کے بعد اس سلسلے کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے :
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَبْغَضُ الْحَلاَلِ إِلَى اللَّهِ الطَّلاَقُ. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے معاذ اللہ تعالی نے روئے زمین پر کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جو غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرنے سے زیادہ اللہ تعالی کو محبوب اور پسندیدہ ہوں اور روئے زمین پر کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جو طلاق دینے سے زیادہ اللہ تعالی کو مبغوض اور ناپسندیدہ ہو۔ (سنن دارقطنی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا مُعَاذُ مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَتَاقِ , وَلَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلَاقِ. (رواه الدار قطنى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی جو عورت اپنے شوہر سے کسی سخت تکلیف کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (مسنداحمد جامع ترمذی سنن ابی داؤد سنن ابن ماجہ مسند دارمی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کو کسی مرد کے ساتھ رہنے میں کوئی واقعی زیادہ تکلیف ہو اور وہ طلاق طلب کرے تو اس کے لیے یہ وعید نہیں ہے ہاں اگر بغیر کسی بڑی تکلیف اور مجبوری کی طلاق چاہے گی تو یہ اس کے لئے سخت محرومی اور گناہ کی بات ہوگی۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاَقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجة والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورتوں کو طلاق نہیں دینی چاہیے الا یہ کہ ان کا چال چلن مشتبہ ہو اللہ تعالی ان مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو ذائقہ چکھنے کے شوقین اور خوگر ہوں۔ (مسند بزار معجم کبیر و معجم اوسط للطبرانی)

تشریح
حدیث کے آخری جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرد اللہ کی محبت اور پسندیدگی سے محروم ہیں جو بیوی کو اس لیے طلاق دیں کہ اس کی جگہ دوسری بیوی لاکر نیا ذائقہ چکھیں اسی طرح وہ عورتیں بھی محروم ہیں جو اس غرض سے شوہروں سے طلاق لیں کہ کسی دوسرے مرد کی بیوی بن کر نیا مزہ چکھے۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِىْ مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلَّا مِنْ رِيبَةٍ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الذَّوَّاقِينَ وَالذَّوَّاقَاتِ» (رواه البزار والطبرانى فى الكبير والاوسط)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭২৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ طلاق کا وقت اور طریقہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خود انھوں نے اپنی بیوی کو ایسی حالت میں کہ اسکی ناپاکی کے ایام جاری تھے طلاق دے دی تو ان کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بہت سخت برہمی اور ناراضی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ عبداللہ ابن عمر کو چاہیے کہ وہ اس طلاق سے رجعت کر لے اور بیوی کو اپنے پاس اپنے نکاح میں رکھے یہاں تک کہ ناپاکی کے ایام ختم ہوکر طہر یعنی پاکی کے ایام آ جائیں اور پھر اس طہر کی مدت ختم ہو کر دوبارہ ناپاکی کے ایام آ جائیں اور اس کے بعد وہ پھر طہر کی حالت میں آجائے تو اس حالت میں اگر وہ طلاق ہی دینا مناسب سمجھے تو اس طہر میں اس سے صحبت کئے بغیر اس کو طلاق دے دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہی وہ عدت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے۔ “فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ” (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق دینا ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے اور اگر غلطی سے کوئی ایسا کرے تو اس کو رجعت کر لینی چاہیے پھر اگر طلاق ہی دینے کی رائے قائم ہو تو اس طہر میں طلاق دینی چاہیے جس میں صحبت کی نوبت نہ آئی ہو اس کی حکمت ظاہر ہے کہ ناپاکی کی حالت میں عورت قابل رغبت نہیں ہوتی طہر کی حالت میں اس کا کافی امکان ہے کہ شوہر کے دل میں رغبت پیدا ہو جائے اور طلاق دینے کا خیال ہی ختم ہوجائے اور اللہ و رسول کی زیادہ خوشی اسی میں ہے۔
اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ جو تالاب انہوں نے حیض کی حالت میں دی گئی تھی وہ اس سے رجعت کر لیں اور ایک طہر گزر جانے دیں اور اگر طلاق دینی ہی ہو تو پھر دوسرے طہر میں دیں اس کا مقصد بھی بظاہر یہی تھا کہ درمیان کے طہر کی پوری مدت میں جب دونوں ساتھ رہیں گے تو اس کا امکان ہے کہ تعلقات میں پھر خوشگواری آجائے اور طلاق کی نوبت ہی نہ آئے لیکن اگر ایسا نہ ہو اور طلاق دینے ہی کا فیصلہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ دوسرے طہر میں قبل از صحبت طلاق دی جائے قبل از صحبت کی پابندی لگانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب ناپاکی کے ایام ختم ہوتے ہیں تو فطری طور پر صحبت کی رغبت ہوتی ہے اس طرح یہ پابندی بھی طلاق دینے میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔
اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو رجعت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو حیض کے ایام طلاق دینا اگرچہ ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے لیکن یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے اگر طلاق نہ ہوئی ہوتی تو رجعت کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رجعت کا حکم دینے کے بجائے یہ فرماتے کہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَغَيَّظَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «لِيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ فَتَطْهُرَ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِىْ أَمَرَ اللَّهُ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৩০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیک وقت تین طلاقیں دینا سخت گناہ
محمود ابن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے کی حالت میں کھڑے ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ ابھی جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں کیا کتاب اللہ سے کھیلا جائے گا یعنی ایک ساتھ تین طلاق دینا اس کتاب اللہ کے ساتھ گستاخانہ کھیل اور مذاق ہے جس میں طلاق کا تریکا اور قانون پوری وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے تو کیا میری موجودگی میں اور میری زندگی ہی میں کتاب اللہ اور اسکی تعلیم سے مذاق کیا جائے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت غصے کی حالت میں یہ بات ارشاد فرمائی تو ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں اس آدمی کو قتل ہی نہ کردوں جس نے یہ حرکت کی ہے۔ (سنن نسائی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیک وقت تین طلاق دینا سخت گناہ اور قرآن مجید کے بتلائے ہوئے طریق طلاق سے انحراف اور اسکے ساتھ ایک طرح کا کھیل اور مذاق ہے لیکن جس طرح حالت حیض میں دی ہوئی طلاق سخت گناہ اور معصیت ہونے کے باوجود پڑ جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے عورت “مطلقہ” ہوجاتی ہے اسی طرح ایک دفعہ کی دی ہوئی تین طلاقیں بھی جمہور ائمہ کے نزدیک پڑ جاتی ہیں۔
بیک وقت تین طلاقیں دینے کو کتاب اللہ کے ساتھ کھیل اور مذاق غالبا اسی بنا پر فرمایا گیا کہ قرآن مجید کی آیت “الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ الى قوله فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ” سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ طلاقیں دینے ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نہیں بلکہ مختلف دفعات میں درمیان میں مناسب کے ساتھ دی جائیں جس کی شرح اور تفصیل حدیث سے یہ معلوم ہوئیں ایک طہر میں ایک طلاق دی جائے۔
حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ جن صحابی نے اس غلط گار آدمی کو قتل کر دینے کے بارے میں حضور صلی اللہ وسلم سے عرض کیا تھا ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا بظاہر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی اور خاموشی ہی سے یہ بتلا دیا کہ اگرچہ اس آدمی نے سخت گمراہانہ کام کیا ہے لیکن یہ ایسا گناہ نہیں ہے جس کی سزا قتل ہوگا۔ واللہ اعلم۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے زمانہ میں خاص کر ہمارے ملک میں طلاق کے جو واقعہ سامنے آتے ہیں ان میں قریبا 90 فیصد وہ ہوتے ہیں جن میں جاھل شوہر ایک ساتھ تین طلاق دیتے ہیں اور وہ بالکل نہیں جانتے کہ یہ سخت گناہ بھی ہے اور اسکے بعد دوبارہ نکاح کا مسئلہ بھی سخت مشکل ہو جاتا ہے۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا، فَقَامَ غَضْبَانَ ثُمَّ قَالَ: «أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟» حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ؟ (رواه النسائى)
tahqiq

তাহকীক: