মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৭৩১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ تین طلاق دینے کا نتیجہ اور شرعی حکم
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ قرضی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے بتایا کہ میں رفاعہ قرضی کے نکاح میں تھیں اس نے مجھے طلاق دے دی اور طلاق کا پورا کورس ختم کردیا یعنی اس نے مجھے تین طلاقیں دے دیں تو اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کرلیا لیکن وہ بالکل ازکار رفتہ ہیں یعنی نکاح سے جو خاص مقصد ہوتا ہے وہ اس کے قابل نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم کیا یہ چاہتی ہے کہ پھر رفاعہ کے نکاح میں چلی جائے اس نے کہا ہاں یہی چاہتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم دونوں میں باہم صحبت کا عمل نہ ہو جائے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
شریعت کا یہ حکم قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہے : “فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ” (مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو دو طلاق دینے کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی تو وہ عورت اس شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک کسی دوسرے شوہر کے نکاح میں نہ رہی ہو) اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اگر انتقال کر جائے یا طلاق دے دے تو عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکے گا۔
پھر اس حدیث سے اور اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثوں سے اس آیت کی تفسیر تشریح یہ معلوم ہوئی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ صرف عقد نکاح ہو جانا کافی نہیں بلکہ وہ عمل بھی ضروری ہے جو نکاح سے خاص طور پر مقصود ہوتا ہے جمہور ائمہ امت کا مسلک اس مسئلہ میں یہی ہے واقعہ یہ ہے کہ اگر دوسرے شوہر کے ساتھ زنا شوئی کی پابندی نہ ہو تو نکاح ثانی کی شرط بالکل لغو اور بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔
تشریح
شریعت کا یہ حکم قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہے : “فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ” (مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو دو طلاق دینے کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی تو وہ عورت اس شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک کسی دوسرے شوہر کے نکاح میں نہ رہی ہو) اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اگر انتقال کر جائے یا طلاق دے دے تو عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکے گا۔
پھر اس حدیث سے اور اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثوں سے اس آیت کی تفسیر تشریح یہ معلوم ہوئی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ صرف عقد نکاح ہو جانا کافی نہیں بلکہ وہ عمل بھی ضروری ہے جو نکاح سے خاص طور پر مقصود ہوتا ہے جمہور ائمہ امت کا مسلک اس مسئلہ میں یہی ہے واقعہ یہ ہے کہ اگر دوسرے شوہر کے ساتھ زنا شوئی کی پابندی نہ ہو تو نکاح ثانی کی شرط بالکل لغو اور بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ القُرَظِيِّ اِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَنِي، فَبَتَّ طَلاَقِي، فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ وَمَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: «أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ». (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৩২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ہنسی مذاق کی طلاق بھی طلاق ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں دل کے ارادہ اور سنجیدگی کے ساتھ بات کرنا بھی حقیقت ہے اور ہنسی مذاق کے طور پر کہنا بھی حقیقت ہی کے حکم میں ہے نکاح طلاق رجعت۔ (جامع ترمذی سنن ابی داود)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے ہنسی مذاق میں نکاح کیا یا اسی طرح ہنسی مذاق میں بیوی کو طلاق دی یا مطلقہ بیوی سے ہنسی مذاق میں رجعت کی تو شریعت میں یہ سب چیزیں واقع اور معتبر ہوں گی یہاں یعنی نکاح منعقد ہو جائے گا طلاق پڑ جائے گی اور رجعت ہو جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں اسلامی شریعت میں اتنی نازک اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کے بارے میں ہنسی مذاق کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی ہے ان کے بارے میں جو کچھ آدمی کی زبان سے نکلے گا اس کو حقیقت اور سنجیدہ بات ہی سمجھا جائے گا دوسرے لفظوں میں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلامی شریعت میں یہ میدان ہی ہنسی مذاق کا نہیں ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے ہنسی مذاق میں نکاح کیا یا اسی طرح ہنسی مذاق میں بیوی کو طلاق دی یا مطلقہ بیوی سے ہنسی مذاق میں رجعت کی تو شریعت میں یہ سب چیزیں واقع اور معتبر ہوں گی یہاں یعنی نکاح منعقد ہو جائے گا طلاق پڑ جائے گی اور رجعت ہو جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں اسلامی شریعت میں اتنی نازک اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کے بارے میں ہنسی مذاق کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی ہے ان کے بارے میں جو کچھ آدمی کی زبان سے نکلے گا اس کو حقیقت اور سنجیدہ بات ہی سمجھا جائے گا دوسرے لفظوں میں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلامی شریعت میں یہ میدان ہی ہنسی مذاق کا نہیں ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ " (رواه الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৩৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مغلوب العقل کی طلاق
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر طلاق درست و نافذ ہے سوائے اس آدمی کی طلاق کے جس کی عقل و فہم مغلوب ہو گئی ہوں۔ (جامع ترمذی)
تشریح
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرض یا صدمے کی وجہ سے آدمی کی عقل دانش غیرمتوازن اور مغلوب ہوجاتی ہے اور وہ ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو عقل و فہم کی سلامتی کی حالت میں نہ کرتا اور اسے اپنی باتوں کا پورا شعور بھی نہیں ہوتا ایسے آدمی کو “معتوہ” اور “مغلوب العقل” کہا جائے گا ۔ پس اگر ایسا شخص اس حالت میں بیوی کو طلاق دے تو وہ واقع نہ ہوگی جس طرح دیوانے اور پاگل کی طلاق واقع نہیں مانی جاتی ۔
ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ تین آدمی شریعت میں “مرفوع القلم” ہیں یعنی ان کے کسی قول و فعل کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس پر شریعی حکم مرتب نہیں ہو گا۔ایک وہ جو نیند کی حالت میں ہوں دوسرے نابالغ بچہ اور تیسرے مغلوب العقل آدمی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی سونے کی حالت میں بڑبڑائے اور اس میں بیوی کو طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع نہ ہوگی اسی طرح چھوٹے بچے کی اور مغلوب العقل کی طلاق بھی واقع نہ ہوگی ۔
تشریح
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرض یا صدمے کی وجہ سے آدمی کی عقل دانش غیرمتوازن اور مغلوب ہوجاتی ہے اور وہ ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو عقل و فہم کی سلامتی کی حالت میں نہ کرتا اور اسے اپنی باتوں کا پورا شعور بھی نہیں ہوتا ایسے آدمی کو “معتوہ” اور “مغلوب العقل” کہا جائے گا ۔ پس اگر ایسا شخص اس حالت میں بیوی کو طلاق دے تو وہ واقع نہ ہوگی جس طرح دیوانے اور پاگل کی طلاق واقع نہیں مانی جاتی ۔
ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ تین آدمی شریعت میں “مرفوع القلم” ہیں یعنی ان کے کسی قول و فعل کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس پر شریعی حکم مرتب نہیں ہو گا۔ایک وہ جو نیند کی حالت میں ہوں دوسرے نابالغ بچہ اور تیسرے مغلوب العقل آدمی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی سونے کی حالت میں بڑبڑائے اور اس میں بیوی کو طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع نہ ہوگی اسی طرح چھوٹے بچے کی اور مغلوب العقل کی طلاق بھی واقع نہ ہوگی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ طَلاَقٍ جَائِزٌ، إِلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৩৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ زبردستی کی طلاق
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ زبردستی کی طلاق اور زبردستی کے “عتاق” کا اعتبار نہیں ۔ (سنن ابی داؤد ،سنن ابن ماجہ)
تشریح
یعنی اگر کسی آدمی کو مجبور اور بالکل بے بس کر کے اس سے بیوی کو طلاق دلوائی گئی یا اس کے غلام کو آزاد کرایا گیا یعنی اس کی زبان سے زبردستی طلاق یا عتاق کی بات کہلوائی گئی تو شریعت میں اس کا اعتبار نہ ہوگا اکثر ائمہ مجتہدین کا مسئلہ یہی ہے کہ جو طلاق زبردستی لی جائے (جس کو اصطلاح میں “طلاق مکرہ” کہتے ہیں اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہؒ ہنسی مذاق کی طرح زبردستی والی طلاق کو بھی نافذ مانتے ہیں اور مصنفین احناف اس حدیث کی تاویل و توجیہ دوسری طرح کرتے ہیں ملحوظ رہے کہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ منفرد نہیں ہیں ۔ سلف میں سعید ابن المسیبؒ ، ابراہیم نخعیؒ اور سفیان ثوریؒ کا مذہب بھی شروح حدیث میں یہی نقل کیا گیا ہے ۔
تشریح
یعنی اگر کسی آدمی کو مجبور اور بالکل بے بس کر کے اس سے بیوی کو طلاق دلوائی گئی یا اس کے غلام کو آزاد کرایا گیا یعنی اس کی زبان سے زبردستی طلاق یا عتاق کی بات کہلوائی گئی تو شریعت میں اس کا اعتبار نہ ہوگا اکثر ائمہ مجتہدین کا مسئلہ یہی ہے کہ جو طلاق زبردستی لی جائے (جس کو اصطلاح میں “طلاق مکرہ” کہتے ہیں اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہؒ ہنسی مذاق کی طرح زبردستی والی طلاق کو بھی نافذ مانتے ہیں اور مصنفین احناف اس حدیث کی تاویل و توجیہ دوسری طرح کرتے ہیں ملحوظ رہے کہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ منفرد نہیں ہیں ۔ سلف میں سعید ابن المسیبؒ ، ابراہیم نخعیؒ اور سفیان ثوریؒ کا مذہب بھی شروح حدیث میں یہی نقل کیا گیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ» (رواه ابوداؤد وابن ماجة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৩৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عدت
حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان کو طلاق ہو گئی تھی اور اس وقت تک مطلقہ عورت کے لئے عدت کا کوئی حکم نہیں آیا تھا تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کی وہ آیات نازل فرمائیں جن میں طلاق والی عدت کا بیان ہے تو یہ اسماء بنت یزید وہ پہلی طلاق یافتہ خاتون ہیں جن کے بارے میں طلاق کی عدت کا حکم نازل ہوا۔ (سنن ابی داود)
تشریح
اسلامی شریعت میں طلاق یافتہ عورت کے لیے عدت کا قانون بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی حکم ہے کہ جس بیوی کو اسکا شوہر طلاق دے دے وہ ایک مقررہ مدت تک عدت گزارے جس کی مختصر تفصیل جو خود قرآن مجید میں بیان فرما دی گئی ہے یہ ہے کہ اگر اس عورت کو حیض کے ایام ہوتے ہوں تو ان کے پورے تین دور گزر جائیں اور اگر عمر کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے ایام نہ ہوتے اور حمل بھی نہ ہو تو تین مہینے اور اگر حمل کی حالت ہو تو پھر عدت کی مدت وضع حمل تک ہےکم ہو یا زیادہ۔
عدت کے اس قانون میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ ایک اہم مصلحت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ رشتہ نکاح کی عظمت اور تقدس کا اظہار ہوتا ہے اگر عدت کا قانون نہ ہو اور عورت کو اجازت ہو کہ شوہر کی طرف سے طلاق کے بعد وہ اپنے حسب خواہش فورا نکاح کرلے تو یقینا یہ بات نکاح کی عظمت شان کے خلاف ہوگی اور نکاح بچوں کا ایک کھیل سے ہوجائے گا ایک دوسری مسئلہ خاص کر طلاق رجعی کی صورت میں یہ بھی ہے کہ عدت کی اس مدت میں مرد کے لیے امکان ہوگا کہ وہ معاملہ پر اچھی طرح غور کرکے رجعت کر لے اور پھر دونوں میاں بیوی بن کے زندگی گزارنے لگیں ۔ یہی بات اللہ و رسول کو زیادہ پسند ہے اسی لئے طلاق رجعی کی عدت میں عورت کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے کو بنانے سنوارنے کا ایک ایسا اہتمام کرے اور اپنا رویہ ایسا رکھے کہ شوہر کی طبیعت پھر اس کی طرف مائل ہو جائے اور وہ رجعت کرلے اور طلاق بائنہ کی صورت میں اگرچہ رجعت کا امکان تو نہیں رہتا لیکن زمانہ عدت میں عورت کو دوسرا نکاح نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کی زیادہ گنجائش رہتی ہیں کہ دونوں باہم راضی ہوکر دوبارہ نکاح کے ذریعے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جوڑ لیں ۔
ایک تیسری مصلحت یہ بھی ہے کہ عدت کے اس قانون کی وجہ سے عورت سے آئندہ پیدا ہونے والے بچہ کے نسب میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔ بہرحال قانون عدت کی یہ چند کھلی ہوئی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ۔ غالبا اسی وجہ سے اکثر متمدن قوموں کے قوانین میں میاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں کسی نہ کسی شکل میں عدت کا ضابطہ ہے ۔لیکن بعض قوموں کے قانون میں یہ عدت بہت طویل رکھی گئی ہے جو بیچاری عورت کے لیے تکلیف مالایطاق ہے ۔شریعت اسلام نے جو مدت مقرر کی ہے وہ یقینا معتدل اور متوسط ہے ۔آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدت کا قانون اس وقت نازل ہوا تھا جب ایک صحابیہ اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی ۔
تشریح ..... اس حدیث میں عدت سے متعلق جس آیت کے نازل ہونے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بظاہر سورہ بقرہ کی یہ آیت ہے “وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ الآية” اس آیت میں ان مطلقہ عورتوں کی عدت کا حکم بیان کیا گیا ہے جن کو ایام ہوتے ہیں ۔ اور جن کو صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے ایام نہ ہوتے ہوں یا ان کو حمل ہو تو ان کی عدت سورہ طلاق کی آیات میں بیان فرمائی گئی ہے ۔
تشریح
اسلامی شریعت میں طلاق یافتہ عورت کے لیے عدت کا قانون بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی حکم ہے کہ جس بیوی کو اسکا شوہر طلاق دے دے وہ ایک مقررہ مدت تک عدت گزارے جس کی مختصر تفصیل جو خود قرآن مجید میں بیان فرما دی گئی ہے یہ ہے کہ اگر اس عورت کو حیض کے ایام ہوتے ہوں تو ان کے پورے تین دور گزر جائیں اور اگر عمر کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے ایام نہ ہوتے اور حمل بھی نہ ہو تو تین مہینے اور اگر حمل کی حالت ہو تو پھر عدت کی مدت وضع حمل تک ہےکم ہو یا زیادہ۔
عدت کے اس قانون میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ ایک اہم مصلحت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ رشتہ نکاح کی عظمت اور تقدس کا اظہار ہوتا ہے اگر عدت کا قانون نہ ہو اور عورت کو اجازت ہو کہ شوہر کی طرف سے طلاق کے بعد وہ اپنے حسب خواہش فورا نکاح کرلے تو یقینا یہ بات نکاح کی عظمت شان کے خلاف ہوگی اور نکاح بچوں کا ایک کھیل سے ہوجائے گا ایک دوسری مسئلہ خاص کر طلاق رجعی کی صورت میں یہ بھی ہے کہ عدت کی اس مدت میں مرد کے لیے امکان ہوگا کہ وہ معاملہ پر اچھی طرح غور کرکے رجعت کر لے اور پھر دونوں میاں بیوی بن کے زندگی گزارنے لگیں ۔ یہی بات اللہ و رسول کو زیادہ پسند ہے اسی لئے طلاق رجعی کی عدت میں عورت کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے کو بنانے سنوارنے کا ایک ایسا اہتمام کرے اور اپنا رویہ ایسا رکھے کہ شوہر کی طبیعت پھر اس کی طرف مائل ہو جائے اور وہ رجعت کرلے اور طلاق بائنہ کی صورت میں اگرچہ رجعت کا امکان تو نہیں رہتا لیکن زمانہ عدت میں عورت کو دوسرا نکاح نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کی زیادہ گنجائش رہتی ہیں کہ دونوں باہم راضی ہوکر دوبارہ نکاح کے ذریعے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جوڑ لیں ۔
ایک تیسری مصلحت یہ بھی ہے کہ عدت کے اس قانون کی وجہ سے عورت سے آئندہ پیدا ہونے والے بچہ کے نسب میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔ بہرحال قانون عدت کی یہ چند کھلی ہوئی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ۔ غالبا اسی وجہ سے اکثر متمدن قوموں کے قوانین میں میاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں کسی نہ کسی شکل میں عدت کا ضابطہ ہے ۔لیکن بعض قوموں کے قانون میں یہ عدت بہت طویل رکھی گئی ہے جو بیچاری عورت کے لیے تکلیف مالایطاق ہے ۔شریعت اسلام نے جو مدت مقرر کی ہے وہ یقینا معتدل اور متوسط ہے ۔آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدت کا قانون اس وقت نازل ہوا تھا جب ایک صحابیہ اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی ۔
تشریح ..... اس حدیث میں عدت سے متعلق جس آیت کے نازل ہونے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بظاہر سورہ بقرہ کی یہ آیت ہے “وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ الآية” اس آیت میں ان مطلقہ عورتوں کی عدت کا حکم بیان کیا گیا ہے جن کو ایام ہوتے ہیں ۔ اور جن کو صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے ایام نہ ہوتے ہوں یا ان کو حمل ہو تو ان کی عدت سورہ طلاق کی آیات میں بیان فرمائی گئی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ الْأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا «طُلِّقَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَكُنْ لِلْمُطَلَّقَةِ عِدَّةٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْعِدَّةِ لِلطَّلَاقِ، فَكَانَتْ أَوَّلَ مَنْ أُنْزِلَتْ فِيهَا الْعِدَّةُ لِلْمُطَلَّقَاتِ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৩৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عدت وفات اور سوگ
ام المومنین حضرت ام حبیبہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی ایمان والی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مرنے والے عزیز قریب کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے اس کے انتقال پر چار مہینے دس دن سوگ کا حکم ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
شریعت اسلام میں جس طرح مطلقہ عورت کے لیے عدت کا حکم ہے اسی طرح اس بیوہ عورت کے لیے بھی عدت کا حکم ہے جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اس عدت کا حکم بھی قرآن مجید میں صراحۃبیان فرمایا گیا ہے ارشاد ہے : “وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا” (تم میں سے جن لوگوں کا انتقال ہوجائے اور وہ بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے کو روکے رکھی گئی چار میں نے دس دن) یہ اردت ان بیوہ عورتوں کے لیے ہے جو حاملہ نہ ہو اور جو حمل کی حالت میں ہوں انکی عدت دوسری آیت میں وضع حمل تک کی مدت قرار دی گئی ہے حاکم ہو یا زیادہ۔ اوراس عدت وفات میں سوگ کا بھی حکم ہے یعنی بیوہ ہو جانے والی عورت کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ عزت کی پوری مدت میں سوگ منائے جو چیزیں زینت اور سنگھار کے لیے استعمال ہوتی ہیں وہ اس مدت میں بالکل استعمال نہ کرے الغرض اس پوری مدت میں اس طرح رہے گے اس کی شکل صورت ولباس وہئیت سے اس کی بیوگی اور غمزدگی ظاہر ہو اور دوسروں کو بھی اس کی ظاہری حالت سے محسوس ہو کہ شوہر کے انتقال کا اس کو ویسا ہی رنج و صدمہ ہے جیسا کہ ایک شریف و پاکدامن بیوی کو ہونا چاہیے ۔ لیکن یہ حکم صرف مدت عدت کے لیے ہے عدت کے ایام ختم ہو جانے کے بعد اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔ شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی عورت بیوہ ہوجانے کے بعد ہمیشہ کے لیے سوگ کا طریقہ اختیار کرلے۔
شوہر کے علاوہ کسی دوسرے اپنے عزیز قریب مثلا بھائی باپ وغیرہ کے انتقال پر اگر کوئی عورت اپنا دلی صدمہ اور تاثر سوگ کی شکل میں ظاہر کرے تو صرف تین دن تک کی اجازت ہے اس سے زیادہ منع ہے۔
تشریح
شریعت اسلام میں جس طرح مطلقہ عورت کے لیے عدت کا حکم ہے اسی طرح اس بیوہ عورت کے لیے بھی عدت کا حکم ہے جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اس عدت کا حکم بھی قرآن مجید میں صراحۃبیان فرمایا گیا ہے ارشاد ہے : “وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا” (تم میں سے جن لوگوں کا انتقال ہوجائے اور وہ بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے کو روکے رکھی گئی چار میں نے دس دن) یہ اردت ان بیوہ عورتوں کے لیے ہے جو حاملہ نہ ہو اور جو حمل کی حالت میں ہوں انکی عدت دوسری آیت میں وضع حمل تک کی مدت قرار دی گئی ہے حاکم ہو یا زیادہ۔ اوراس عدت وفات میں سوگ کا بھی حکم ہے یعنی بیوہ ہو جانے والی عورت کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ عزت کی پوری مدت میں سوگ منائے جو چیزیں زینت اور سنگھار کے لیے استعمال ہوتی ہیں وہ اس مدت میں بالکل استعمال نہ کرے الغرض اس پوری مدت میں اس طرح رہے گے اس کی شکل صورت ولباس وہئیت سے اس کی بیوگی اور غمزدگی ظاہر ہو اور دوسروں کو بھی اس کی ظاہری حالت سے محسوس ہو کہ شوہر کے انتقال کا اس کو ویسا ہی رنج و صدمہ ہے جیسا کہ ایک شریف و پاکدامن بیوی کو ہونا چاہیے ۔ لیکن یہ حکم صرف مدت عدت کے لیے ہے عدت کے ایام ختم ہو جانے کے بعد اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔ شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی عورت بیوہ ہوجانے کے بعد ہمیشہ کے لیے سوگ کا طریقہ اختیار کرلے۔
شوہر کے علاوہ کسی دوسرے اپنے عزیز قریب مثلا بھائی باپ وغیرہ کے انتقال پر اگر کوئی عورت اپنا دلی صدمہ اور تاثر سوگ کی شکل میں ظاہر کرے تو صرف تین دن تک کی اجازت ہے اس سے زیادہ منع ہے۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أُمِّ حَبِيْبَةَ وَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৩৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عدت وفات اور سوگ
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو وہ کسم کے رنگے ہوئے اور اس طرح سرخ گیروے رنگے ہوئے کپڑے نہ پہنے نہ زیورات پہنے نہ خضاب مہندی وغیرہ کا استعمال کرے نہ سرمہ لگائے۔ (سنن ابی داؤد سنن نسائی)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو خواتین زیب و زینت کے لیے کپڑے رنگ کی تھیں وہ زیادہ تر یہی دو چیزیں استعمال کرتی تھیں کُسم خاص قسم کا لال گیرو’ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خاص طور سے ذکر فرمایا ورنہ ان دو چیزوں کی کوئی خصوصیت نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ ایسے رنگین اور شوخ کپڑے استعمال نہ کئے جائیں جو زیب وزینت کے لیے استعمال ہوتے ہیں اسی طرح زیورات اور سرمہ مہندی جیسی چیزیں بھی استعمال نہ کی جائیں جو زینت اور سنگھار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں زمانہ عدت میں سوگ کے ان احکام کا مقصد یہی ہے کہ شوہر کے انتقال کا بیوی کو جو رنج و صدمہ ہو اس کا اثر دل اور باطن کی طرح ظاہر یعنی جسم اور لباس میں بھی ہوں یہ جوہر نسوانیت کا فطری تقاضا ہے اور اسی میں نسوانیت کا شرف ہے۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو خواتین زیب و زینت کے لیے کپڑے رنگ کی تھیں وہ زیادہ تر یہی دو چیزیں استعمال کرتی تھیں کُسم خاص قسم کا لال گیرو’ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خاص طور سے ذکر فرمایا ورنہ ان دو چیزوں کی کوئی خصوصیت نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ ایسے رنگین اور شوخ کپڑے استعمال نہ کئے جائیں جو زیب وزینت کے لیے استعمال ہوتے ہیں اسی طرح زیورات اور سرمہ مہندی جیسی چیزیں بھی استعمال نہ کی جائیں جو زینت اور سنگھار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں زمانہ عدت میں سوگ کے ان احکام کا مقصد یہی ہے کہ شوہر کے انتقال کا بیوی کو جو رنج و صدمہ ہو اس کا اثر دل اور باطن کی طرح ظاہر یعنی جسم اور لباس میں بھی ہوں یہ جوہر نسوانیت کا فطری تقاضا ہے اور اسی میں نسوانیت کا شرف ہے۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا لَا تَلْبَسُ الْمُعَصْفَرَ مِنَ الثِّيَابِ، وَلَا الْمُمَشَّقَةَ، وَلَا الْحُلِيَّ، وَلَا تَخْتَضِبُ، وَلَا تَكْتَحِلُ» (رواه ابوداؤد والنسائى)
তাহকীক: