মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩৬৭ টি

হাদীস নং: ১৫৫১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ظرافت و مزاح
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ اپنے بھائی سے جھگڑا ٹنٹا نہ کرو ، اور اس سے مزاح (یعنی مذاق) نہ کرو اور اس سے ایسا وعدہ نہ کرو جس کی تم وعدہ خلافی کرو ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ۔ اس حدیث میں مزاح کی ممانعت جس سیاق و سباق میں کی گئی ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ اسی مزاح کی ممانعت ہے جو ناگوار اور اذیت کا باعث ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تُمَارِ أَخَاكَ، وَلاَ تُمَازِحْهُ، وَلاَ تَعِدْهُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَهُ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سے مجھے اسلام نصیب ہوا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے (خدمت میں) حاضری سے روکا ہو ، اور جب بھی آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو آپ ﷺ نے تبسم فرمایا (یعنی ہمیشہ مسکرا کر ملے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ہنسی کے موقع پر ہنسایا مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور اس میں قطعا کوئی خیر نہیں ہے کہ آدمی کے لبوں پر کبھی مسکراہٹ بھی نہ آئے اور وہ ہمیشہ “عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا” ہی بنا رہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی عادتِ شریفہ اللہ کے بندوں اور اپنے مخلصوں سے ہمیشہ مسکرا کر ملنے کی تھی ، ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کا یہ رویہ اور برتاؤ ان لوگوں کے لئے کیسی قلبی روحانی مسرت کا باعث ہوتا ہو گا اور اس کی وجہ سے ان کے اخلاص و محبت میں کتنی ترقی ہوتی ہو گی ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :

تشریح ..... “ مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ جب کبھی میں نے حاضر خدمت ہونا چاہا تو آپ ﷺ نے اجازت عطا فرمائی اور شرف ملاقات بخشا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَرِيرٍ قَالَ: مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلاَ رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی دوسرا نہیں دیکھا ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو پوری طرح (کھل کھلاتے) ہنستا ہوا نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر پڑ جاتا ۔ (یعنی آپ اس طرح کھل کھلا کر اور قہقہہ لگا کر کبھی نہیں ہنستے تھے کہ آپ ﷺ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آ سکتا) بس تبسم فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
بعض روایات میں آنحضرت ﷺ کے ہنسنے کو “ضحک” سے بھی تعبیر کیا گیا ہے یعنی اس سے مراد وہی ہنسنا ہے جو آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی ، یعنی مسکرانا ، البتہ کبھی کبھی جب ہنسی کا غلبہ ہوتا تو آپ ﷺ اس طرح بھی مسکراتے تھے کہ دہن مبارک کسی قدر کھل جاتا تھا ، چنانچہ بعض روایات میں ہے “ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ” (آپ کو ایسی ہنسی آئی کہ اندر کی داڑھیں بھی ظاہر ہو گئیں) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا ضَاحِكًا، حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ. (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز جس جگہ پڑھتے تھے ، آفتاب طلوع ہونے تک وہاں سے نہیں اٹھتے تھے ، پھر جب آفتاب طلوع ہو جاتا تو کھڑے ہو جاتے ۔ اور (اس اثناء میں) آپ ﷺ کے صحابہ زمانہ جاہلیت کی باتیں (بھی) کیا کرتے اور اس سلسلے میں خوب ہنستے اور رسول اللہ ﷺ بس مسکراتے رہتے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کبھی کبھی مسجد نبوی میں اور رسول اللہ ﷺ کی مجلس مبارک میں بھی زمانہ جاہلیت کی ایسی لغویات و خرافات کا بھی تذکرہ کیا کرتے تھے جن پر خوب ہنسی آتی تھی ۔ اور جامع ترمذی کی اسی حدیث کی روایت میں یہ الفاظ مزید ہیں ۔ “وَيَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ” (یعنی اس سلسلہ گفتگو میں اشعار بھی پڑھے اور سنائے جاتے تھے) اور رسول اللہ ﷺ یہ سب کچھ سنتے اور اس پر تبسم فرماتے تھے ۔
ناچیز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اگر آنحضرتﷺ اپنے اصحاب کرام کے ساتھ اس طرح کی بےتکلفی کا برتاؤ نہ کرتے تو ان حضرات پر آپ ﷺ کا ایسا رعب چھایا رہتا جو استفادہ میں رکاوٹ بنتا ۔ حضرت مشائخ صوفیہ کی اصطلاح میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ حضور اقدس ﷺ کا نزول تھا ، اس کے بغیر مقصد رسالت کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی ۔
صحابہ کرام کے باہم ہنسنے ہنسانے کے اس تذکرہ کے ساتھ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمر اور ایک بزرگ تابعی بلال بن سعد کے دو بیان پڑھ لینا بھی ان شاء اللہ موجب بصیرت ہو گا ۔ یہ دونوں بیان مشکوٰۃ المصابیح میں “شرح السنہ” کے حوالے سے نقل کئے گئے ہیں ۔
قتادہ تابعی نے بیان فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہنسا بھی کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا :
نَعَمْ وَالإِيمَانُ فِي قُلُوبِهِمْ أَعْظَمُ مِنَ الْجَبَلِ.
ہاں ۔ بےشک ! وہ حضرات (ہنسنے کے موقع پر) ہنستے بھی تھے لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑوں سے عظیم تر ہوتا تھا ۔
(یعنی ان کا ہنسنا غافلین کا سا ہنسنا نہیں ہوتا تھا جو قلوب کو مردہ کر دیتا ہے)
اور بلال بن سعد کا بیان ہے :
أَدْرَكْتُهُمْ يَشْتَدُّونَ بَيْنَ الأَغْرَاضِ، وَيَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَإِذَا كَانَ اللَّيْلُ، كَانُوا رُهْبَانًا
میں نے صحابہ کرام کو دیکھا ہے وہ مقررہ نشانیوں کے درمیان دوڑا بھی کرتے تھے (جس طرح بچے اور نوجوان کھیل اور مشق کے لئے دوڑ میں مقابلہ کیا کرتے ہیں) اور باہم ہنستے ہنساتے بھی تھے ، پھر جب رات ہو جاتی تو بس درویش ہو جاتے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَامَ وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَيَأْخُذُونَ فِي أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ “ الحَمْدُ لِلَّهِ ” کہے ۔ اور اس کا جو بھائی (یا آپ ﷺ نے فرمایاکہ : اس کا جو ساتھی اس کے پاس) ہو وہ کہے “ يَرْحَمُكَ اللَّهُ ”
(تم پر اللہ کی رحمت) اور جب یہ بھائی “يَرْحَمُكَ اللَّهُ”
(کا دعائیہ کلمہ) کہے تو چاہئے کہ چھینکنے والا (اس کے جواب میں یہ دعائیہ کلمہ) کہے “يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ” (اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نوازے اور تمہارے حالات درست فرمادے) ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
چھینکنا اور جمائی لینا بھی انسانی فطرت کے لوازم میں سے ہے ، ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :

تشریح .....چھینک آنے کے ذریعہ ایسی رطوبت اور ایسے ابخرات دماغ سے نکل جاتے ہیں وہ اگر نہ نکلیں تو کسی تکلیف یا بیماری کا باعث بن جائیں اس لئے صحت و اعتدال کی حالت میں چھینک کا آنا گویا اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے ۔ اس لئے ہدایت فرمائی گئی کہ جس کو چھینک آئے وہ “ الحَمْدُ لِلَّهِ ” کہے اور جو کوئی اس کے پاس ہو وہ کہے “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” (یعنی یہ چھینک تمہارے لئے خیر و برکت کا ذریعہ بنے) اور پھر چھینکنے والا اس دعا دینے والے بھائی کو کہے “ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ”
ذرا غور کیا جائے رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم و ہدایت نے ایک چھینک کو اللہ کی کتنی یاد اور کتنی رحمتوں کا وسیلہ بنا دیا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: الحَمْدُ لِلَّهِ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَإِذَا قَالَ لَهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَلْيَقُلْ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ " (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ “الحَمْدُ لِلَّهِ” کہے تو تم کو چاہئے کہ اس کو “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہہ کر دعا دو ، اور اگر وہ “الحَمْدُ لِلَّهِ” نہ کہے (اور خدا کو یاد نہ کرے) تو تم بھی “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” نہ کہو ، (یعنی الحمدللہ نہ کہنے کی وجہ سے وہ تمہاری اس دعا رحمت کا حقدار نہیں رہا)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَحَمِدَ اللهَ، فَشَمِّتُوهُ، فَإِنْ لَمْ يَحْمَدِ اللهَ، فَلَا تُشَمِّتُوهُ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس (بیٹھے ہوئے) دو آدمیوں کو چھینک آئی تو آپ ﷺ نے ایک کو “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہہ کر دعا دی اور دوسرے کو آپ ﷺ نے “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” نہیں کہا تو اس دوسرے نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے ان (بھائی) کو “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہہ کے دعا دی اور مجھے یہ دعا نہیں دی ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ : ان (بھائی) نے “الحَمْدُ لِلَّهِ” کہا تھا اور تم نے نہیں کہا (اس لئے خود تم نے “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کا حق کھو دیا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: عَطَسَ رَجُلاَنِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَلَمْ يُشَمِّتِ الآخَرَ،فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، قَالَ: «إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ، وَلَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৫৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ ﷺ نے “يَرْحَمُكَ اللهُ” کہہ کے ان کو دعا دی ، ان کو دوبارہ چھینک آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یہ زکام میں مبتلا ہیں ۔ (صحیح مسلم)
(اور جامع ترمذی کی اسی حدیث کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری دفعہ چھینکنے پر یہ فرمایا تھا کہ ان کو زکام ہے) ۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر نزلہ زکام کی وجہ سے کسی کو بار بار چھینک آئے تو اس صورت میں ہر دفعہ “ يَرْحَمُكَ اللهُ ” کہنا ضروری نہیں ۔ آگے درج ہونے والی حدیث میں اس بارے میں واضح ہدایت آ رہی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ: «يَرْحَمُكَ اللهُ» ثُمَّ عَطَسَ أُخْرَى، فَقَالَ «الرَّجُلُ مَزْكُومٌ»
وفى روايةٍ للترمذى أَنَّهُ قَالَ فِى الثَّالِثَةِ أَنَّهُ مَزْكُومٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
عبید بن رفاعہ نے رسول اللہ ﷺسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : چھینکنے والے کو تین دفعہ تو “يَرْحَمُكَ اللهُ” کہو اور اس سے زیادہ چھینکیں آئیں تو اختیار ہے چاہے “يَرْحَمُكَ اللهُ” کہو ، چاہے نہ کہو ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «شَمِّتِ الْعَاطِسَ ثَلَاثًا، فَمَا زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا» (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص کو جو حضرت عبداللہ بن عمر کے برابر میں بیٹھے تھے چھینک آئی تو انہوں نے کہا “الحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللهِ” تو حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ میں بھی کہتا ہوں “الحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللهِ” (یعنی یہ کلمہ بجائے خود مبارک ہے اور میں بھی کہتا ہوں) لیکن (چھینکنے کے وقت) اس طرح نہیں کہا جاتا ، ہم کو رسول اللہ ﷺ نے تعلیم دی ہے کہ “الحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” کہا کریں ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے پر رسول اللہ ﷺ نے جس طرح “الحَمْدُ لِلَّهِ” تعلیم فرمایا ہے ، اسی طرح “الحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” کی بھی تعلیم دی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے اس ارشاد سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خاص موقعوں کے لئے ذکر یا دعا کے جو مخصوص کلمے تعلیم فرمائے ہیں اس میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہ کرنا چاہئے اگرچہ معنوی حیثیت سے وہ اجافہ صحیح ہی کیوں نہ ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلاً عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: الحَمْدُ لِلَّهِ، وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَأَنَا أَقُولُ: الحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللهِ، وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ: الحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو آپ ﷺ اپنے ہاتھ یا کپڑے سے چہرہ مبارک کو ڈھک لیتے تھے ، اور اس کی آواز کو دبا لیتے تھے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے کے وقت کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اس وقت منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھ لیا جائے اور چھینک کی آواز کو بھی حتی الوسع دبا لیا جائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّى وَجْهَهُ بِيَدِهِ أَوْ بِثَوْبِهِ وَغَضَّ بِهَا صَوْتَهُ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینکنے اور جمائی لینے کے برے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو چاہئے کہ وہ اپنا ہاتھ رکھ کے منہ بند کر لے ، کیوں کہ شیطان داخل ہو جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
واقعہ یہ ہے کہ جمائی لینے میں آدمی کا منہ بہت بدنما انداز میں کھل جاتا ہے اور ہاہا کی مکروہ آواز منہ سے نکلتی ہے اور چہرہ کی قدرتی شکل بدل کر ایک بدنما ہیئت ہو جاتی ہے ۔ ان چیزوں کے انسداد کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ہدایت فرمائی ہے کہ جب جمائی آئے تو ہاتھ سے منہ کو بند کر لینا چاہئے ۔ اس طرح کرنے سے منہ کھلے کا بھی نہیں اور وہ مکروہ آواز بھی پیدا نہیں ہو گی اور چہرہ کی ہیئت بھی زیادہ نہیں بگڑے گی ۔ حدیث کے آخر میں شیطان کے داخل ہونے کو جو ذکر فرمایا گیا ہے شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اس سے اس کا حقیقی داخلہ بھی مراد ہو سکتا ہے (جس کی حقیقت ہم نہیں جاتے) اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی حالت میں شیطان کو وسوسہ اندازی کا زیادہ موقع ملتا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس کی شرح یہ کی ہے کہ جب جمائی لیتے وقت آدمی کا منہ پوری طرح کھل جاتا ہے تو شیطان کسی مکھی مچھر جیسی چیز کو اڑا کر اس کے منہ میں داخل کر دیتا ہے ۔ (1) واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:«إِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُمْسِكْ بِيَدِهِ عَلَى فَمِهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے عرب) کچھ چیزوں کو (طبعی خواہش اور رغبت کی بناء پر) کھاتے تھے اور کچھ چیزوں کو (طبعی نفرت اور گھن کی بنیاد پر) نہیں کھاتے تھے ، (اسی طرح ان کی زندگی چل رہی تھی) پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور اپنی مقدس کتاب نازل فرمائی اور جو چیزیں عنداللہ حلال تھیں ان کو حلال ہونا بیان فرمایا اور جو حرام تھیں ان کو حرام ہونا بیان فرمایا (پس جس چیز کو اللہ و رسول اللہ نے حلال بتلایا ہے وہ حلال ہے اور جس کو حرام بتایا ہے وہ حرام ہے) اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے (یعنی اس کا حلال یا حرام ہونا بیان نہیں فرمایا گیا) وہ معاف ہے (یعنی اس کے استعمال پر مواخذہ نہیں) اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس نے بطورِ سند یہ آیت تلاوت فرمائی : قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً ........... الآية (سنن ابی داؤد)

تشریح
کھانے پینے سے متعلق رسول اللہ ﷺکی تعلیمات جو ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک وہ جن میں ماکولات و مشروبات یعنی کھانے پینے کی چیزوں کی حلت یا حرمت بیان فرمائی گئی ہے ۔ دوسرے وہ جن میں خورد ونوش کے وہ آداب سکھائے گئے ہیں جن کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے ، یا ان میں طبی مصلحت ملحوظ ہے ، یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کے قبیل سے ہیں ، اور ان کے ذریعہ کھانے پینے کے عمل کو جو بظاہر خالص مادی عمل ہے اور نفس کے تقاضے سے ہوتا ہے نورانی اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے ۔
ماکولات و مشروبات کی حلت و حرمت کے بارے میں بنیادی بات وہ ہے جس کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے “يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ” (1) (یہ نبی اُمی ﷺ اچھی اور پاکیزہ چیزوں (الطَّيِّبَاتِ) کو اللہ کے بندوں کے لئے حلال بتلاتے ہیں اور خراب اور گندی چیزوں (الْخَبَائِثَ) کو حرام قرار دیتے ہیں) ۔
قرآن و حدیث میں کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ دراصل اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں ۔ جن چیزوں کو آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے حرام قرار دیا ہے ان میں فی الحقیقت کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے ، اسی طرح جن چیزوں کو آپ ﷺ نے حلال قرار دیا ہے وہ بالعموم انسانی فطرت کے لئے مرغوب اور پاکیزہ ہیں ، اور غذا کی حیثیت سے نفع بخش ہیں ۔
قرآن مجید میں پینے والی چیزوں میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہےی ۔ حدیثوں میں اس کے بارے میں مزید تفصیلی اور تاکیدی احکام ہیں ، جیسا کہ اس سلسلہ کی آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔ اور غذائی اشیاء میں سے ان چیزوں کی حرمت کا قرآن پاک میں واضح اعلان فرمایا گیا ہے ۔
میتہ یعنی وہ جانور جو اپنی موت مر چکا ہو ، خون یعنی وہ لہو جو رگوں سے نکلا ہو ، خنزیر جو ایک ملعون اور خبیث جانور ہے ، اور وہ جانور جو غیر اللہ کی نذر کیا گیا ہو (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ) یہ سب وہ چیزیں تھیں جن کو عرب کے کچھ طبقات کھاتے تھے ، حالانکہ پہلی آسمانی شریعتوں میں بھی ان کو حرام قرار دیا گیا تھا ، اسی لئے قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ اور بار بار ان کی حرمت کا اعلان کیا گیا ۔
میتہ یعنی مرے ہوئے جانور کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ انسان کی فطرت سلیمہ اس کو کھانے کے قابل نہیں سمجھتی بلکہ اس سے گھن کرتی ہے ۔ اور طبی حیثیت سے بھی وہ مضر ہے کیوں کہ جیسا کہ علماء طب نے کہا ہے حرارتِ غریزیہ کے گھٹ جانے اور خون کے اندر ہی جذب ہو جانے سے اس میں سمیت کا اثر آ جاتا ہے ۔
خون یعنی لہو کا بھی یہی حال ہے کہ فطرت سلیمہ اس کو کھانے کی چیز نہیں سمجھتی اور شریعت میں اس کو قطعا ناپاک اور نجس العین قرار دیا گیا ہے ۔
اور خنزیر وہ ملعون مخلوق ہے کہ جب اللہ کے غضب و جلال نے بعض سخت مجرم اور بدکردار قوموں کو مسخ کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ان کو خنزیروں اور بندروں کی شکل میں مسخ کیا گیا (وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ) اس لئے معلوم ہوا کہ یہ دونوں جانور انتہائی خبیث و ملعون ہیں اور خدا کی لعنت و غضب کا مظہر ہیں ، اس لئے ان کو قطعی حرام قرار دیا گیا ۔ التبہ چونکہ بندر کو غالبا دنیا کی کوئی قوم نہیں کھاتی اور اس طرح گویا اس کی حرمت پر انسانوں کے تمام طبقات اوراقوام و ملل کا اتفاق ہے اس لئے قرآن مجید میں اس کی حرمت پر خاص زور نہیں دیا گیا ، بخلاف خنزیر کے بہت سی قوموں نے خاص کر حضرت مسیح علیہ السلام کی امت نے اس کو اپنی مرغوب غذا بنا لیا ہے اس لئے قرآن پاک میں اس کی حرمت کا بار بار اور شدت و تاکید سے اعلان فرمایا گیا ۔ اور احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ جب آخری زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ صلیب شکنی کے ساتھ دنیا کو خنزیر کے وجود سے پاک کرنے کا بھی حکم دیں گے (وبقتل خنزير) اور اس وقت اس بات کا پورا ظہور ہو گا کہ ان کے نام لیوا عیسائیوں نے خنزیر کو اپنی مرغوب غذا بنا کر ان کی تعلیم اور تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت کی کیسی مخالفت کی ہے ۔
اور وہ جانور جس کو غیر اللہ کی نذر کر دیا گیا ہو جس کو قرآن مجید میں “ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ” کے عنوان سے ذکر فرمایا گیا ہے ۔ اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نذر کرنے والے کی مشرکانہ نیت اور اس کے اعتقادی شرک کی نجاست و خباثت سرایت کر جاتی ہے اس لئے وہ جانور بھی حرام ہو جاتا ہے ۔
الغرض یہ چار چیزیں وہ ہیں جن کی حرمت کا اعلان اہتمام اور صراحت کے ساتھ خود قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ گویا اسی حکم الہی کا تکملہ ہے ۔
اس تمہید کے بعد اب وہ احادیث پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ نے کھانے پینے کی چیزوں کی علت و حرمت کے بارے میں ہدایات فرمائی ہیں :

تشریح .....مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور قرآن پاک کے نزول کے بعد کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا معیار وحی الٰہی اور خدا اور رسول کا حکم ہے ، کسی کی پسند و ناپسند اور رغبت و نفرت کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَأْكُلُونَ أَشْيَاءَ وَيَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا،» فَبَعَثَ اللَّهُ نَبِيَّهُ، وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ، وَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلَالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ " وَتَلَا {قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا : ہر کچلی والے درندے اور ہر چنگل گیر (یعنی شکاری پنچہ والے پرندے کے کھانے سے) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
وہ سب درندے جو منہ سے اور دانتوں سے شکار کرتے ہیں جیسے شیر ، چیتا ، بھیڑیا ، اسی طرح کتا اور بلی ان سب کے وہ نکیلا دانت ہوتا ہے س کو عربی میں “ناب” اور اردو میں کچلی اور کیلا کہتے ہیں ، وہی ان درندوں کا خاص جارحہ اور ہتھیار ہے ۔ اسی طرح جو پرندے شکار کرتے ہیں جیسے باز ، چیل اور شاہین ان کا جارحہ وہ پنجہ ہوتا ہے جس سے جھپٹا مار کر بےچارے شکار کو یہ اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ۔
حدیث کا مطلب اور حاصل یہ ہے کہ درندوں کی قسم کے سب چوپائے جن کے منہ میں کچلی ہوتی ہے اور جو شکار کرتے ہیں اور اسی طرح شکاری پرندے جو ذی مخلب یعنی پنجہ سے جھپٹا مار کر شکار کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ان سب کے کھانے سے منع فرمایا ، یعنی حکم دیا کہ ان کو نہ کھایا جائے ۔ یہ بھی محرمات اور خبائث میں شامل ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پالتو گدھوں کو حرام قرار دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
بعض دوسری حدیثوں میں گدھوں کے ساتھ خچروں کا بھی ذکر ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں ہی جانوروں کی حرمت کا اعلان فرمایا ہے ، اور یہ بھی محرمات میں سے ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ أَبِىْ ثَعْلَبَةَ، قَالَ: «حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لُحُومَ الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے دن منع فرمایا پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے اور اجازت دی گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث کی بناء پر اکثر ائمہ گھوڑے کے گوشت کی حلت کے قائل ہیں ، امام ابو حنیفہ سے کراہت کا قول نقل کیا گیا ہے ۔ غالبا اس کی بنیاد یہ ہے کہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ، وَالْبِغَالِ، وَالْحَمِيرِ»
رسول اللہ ﷺ نے گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھے اور خچر کے ساتھ گھوڑے کے گوشت کی بھی ممانعت فرمائی ہے ۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں ضعف ہے لیکن امام ابو حنیفہؒ کا عام دستور یہ ہے کہ جب کسی چیز کی حلت و حرمت دلائل کی بناء پر مشتبہ ہو جائے تو وہ از راہِ احتیاط ممانعت کو ترجیح دیتے ہیں غالبا اسی لئے انہوں نے گھوڑے کے گوشت کو مکروہ قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کچھ دلائل ہیں لیکن فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ آخر میں امام ابو حنیفہ نے اس مسئلہ میں دوسرے ائمہ کے قول کی طرف رجوع فرما لیا تھا اور جواز کے قائل ہو گئے تھے ۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے جو صحیحین کی حدیث ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الحُمُرِالأَهْلِيَّةِ، وَرَخَّصَ فِي لُحُومِ الخَيْلِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلی کے کھانے سے منع فرمایا ہے اور اس کی قیمت کے کھانے سے بھی ممانعت فرمائی ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلی بھی محرمات میں سے ہے اور ہونا بھی یہی چاہئے کیوں کہ وہ بھی ایک درندہ ہے ۔ نیز اسی حدیث میں بلی کی قیمت کانے سے بھی منع فرمایا گیا ہے علماء اور شارحین کے نزدیک اس کی ممانعت کا مطلب کراہت ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ،أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَكْلِ الْهِرَّةِ، وَأَكْلِ ثَمَنِهَا. (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৬৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جلالہ (نجاست خور جانور) کے کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
کبھی کبھی بعض جانور اونٹ ، گائے ، بکری وغیرہ کا مزاج ایسا بگڑ جاتا ہے کہ وہ نجاست اور غلاظت ہی کھاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے گوشت اور دودھ میں اس کی بدبو محسوس ہونے لگتی ہے ۔ ایسے ہی جانور کو جلالہ کہا جاتا ہے ، اس حدیث میں اس کا گوشت کھانے اور دودھ پینے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ اگر کسی مرغی کا یہ حال ہو تو اس کا حکم بھی یہی ہے ۔ ہاں اگر اس جانور کو اتنی مدت تک باندھ کے اور پابند کر کے نجاست کھانے سے باز رکھا جائے کہ اس کے گوشت اور دودھ میں کوئی اثر باقی نہ رہے تو پھر اس کا گوشت کھانا یا دودھ پینا جائز ہو گا ۔ اب وہ گوشت اور دودھ “جلالہ” کا نہیں رہا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الجَلاَّلَةِ وَأَلْبَانِهَا. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৭০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب (مکہ سے ہجرت فرما کے) مدینہ تشریف لائے تو یہاں (نہایت سنگدلانہ ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ) کچھ لوگ کھانے کے لئے اپنے زندہ اونٹ کا کوہان کاٹ لیتے (جو بہت مرغوب قسم کا گوشت ہوتا ہے) اور اسی طرح ذہنوں کی چکی کاٹ لیتے (اور پھر اس اونٹ اور دنبہ کا علاج کر لیتے) تو رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں فرمایا کہ کسی زندہ جانور میں سے جو گوشت کاٹا جائے گا وہ مردار ہے ، اس کا کھانا جائز نہیں ۔(جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الإِبِلِ، وَيَقْطَعُونَ أَلْيَاتِ الغَنَمِ، فَقَالَ: مَا قُطِعَ مِنَ البَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ لَا تُؤْكَلْ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক: