মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৫৩১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خود آنحضرتﷺ کس طرح لیٹتے تھے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا جب آپ ﷺ رات کو بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے “اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا” (اے اللہ ! میں تیرے ہی نام کے ساتھ مرنا چاہتا ہوں ، اور تیرے ہی نام کے ساتھ جیسا چاہتا ہوں) اور پھر جب آپ ﷺ بیدار ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ” (ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لئے جس نے ہمیں (ایک طرح کی) موت دینے کے بعد جِلا دیا ، اور مرنے کے بعد اسی کی طرف ہمارا اُٹھنا ہو گا) ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
دوسری روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ ﷺ داہنی کروٹ پر داہنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ کر لیٹتے رھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے ۔ علاوہ ازیں اس حدیث میں سونے کے لئے لیٹنے کے وقت اور پھر جاگتے وقت کی جس مختصر دعا کا ذکر ہے دوسری حدیثوں میں اس کے علاوہ بھی متعدد دعائیں ان دونوں موقعوں کے لئے روایت کی گئی ہیں ۔ یہ سب حدیثیں اس سلسلہ معارف الحدیث کی پانچویں جلد میں “زیر عنوان” سونے کے وقت کی دعائیں درج کی جا چکی ہیں ۔
تشریح
دوسری روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ ﷺ داہنی کروٹ پر داہنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ کر لیٹتے رھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے ۔ علاوہ ازیں اس حدیث میں سونے کے لئے لیٹنے کے وقت اور پھر جاگتے وقت کی جس مختصر دعا کا ذکر ہے دوسری حدیثوں میں اس کے علاوہ بھی متعدد دعائیں ان دونوں موقعوں کے لئے روایت کی گئی ہیں ۔ یہ سب حدیثیں اس سلسلہ معارف الحدیث کی پانچویں جلد میں “زیر عنوان” سونے کے وقت کی دعائیں درج کی جا چکی ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ، وَضَعَ يَدَهُ تَحْتَ خَدِّهِ، ثُمَّ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا» وَإِذَا اسْتَيْقَظَ قَالَ: «الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৩২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سو کے اٹھ کر مسواک کا اہتمام
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ سونے کا ارادہ کرتے تو مسواک اپنے سرہانے رکھ لیتے ، پھر جب بیدار ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے ۔ (مسند احمد ، مستدرک حاکم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَنَامُ إِلَّا وَالسِّوَاكُ عِنْدَهُ، فَإِذَا اسْتَيْقَظَ بَدَأَ بِالسِّوَاكِ» (رواه احمد والحاكم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৩৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سو کے اٹھ کر مسواک کا اہتمام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات میں یا دن میں جب بھی سوتے تو اُٹھ کر مسواک ضرور کرتے ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَرْقُدُ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ، فَيَسْتَيْقِظُ إِلَّا تَسَوَّكَ قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৩৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حضور ﷺ کس طرح بیٹھتے تھے اور کس طرح بیٹھنے کی ہدایت فرماتے تھے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان رماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ کے صحن میں احتبا کے طور پر (یعنی گوٹ مارے)بیٹھا دیکھا ہے ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
احتبا بیٹھنے کا ایک خاص طریقہ ہے ، اس کی صورت یہ ہے کہ دونوں سرینیں اور دونوں پاؤں کے تلوے زمین پر ہوں اور دونوں زانوں کھڑ ہوں اور ان کو دونوں ہاتھوں کے حلقہ میں لے لیا جائے ، یہ اہل تفکر اور اصحاب مسکنت کے بیٹھنے کا طریقہ ہے ، اس کو ہندی میں گوٹ مار کے بیٹھنا بھی کہتے ہیں ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اکثر اس طرح بیٹھتے تھے ۔
تشریح
احتبا بیٹھنے کا ایک خاص طریقہ ہے ، اس کی صورت یہ ہے کہ دونوں سرینیں اور دونوں پاؤں کے تلوے زمین پر ہوں اور دونوں زانوں کھڑ ہوں اور ان کو دونوں ہاتھوں کے حلقہ میں لے لیا جائے ، یہ اہل تفکر اور اصحاب مسکنت کے بیٹھنے کا طریقہ ہے ، اس کو ہندی میں گوٹ مار کے بیٹھنا بھی کہتے ہیں ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اکثر اس طرح بیٹھتے تھے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِنَاءِ الكَعْبَةِ، مُحْتَبِيًا بِيَدِهِ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৩৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حضور ﷺ کس طرح بیٹھتے تھے اور کس طرح بیٹھنے کی ہدایت فرماتے تھے
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ اپنی اسی جگہ میں چہار زانو بیٹھے رہتے تھے ، یہاں تک کہ آفتاب اچھی طرح نکل ا ٓتا تھا ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ احتبا کی شکل ک علاوہ چہار زانو بھی بیٹھتے تھے ۔ اور حدیث کے راوی جابر بن سمرہ کے بیان کے مطابق فجر کی نماز کے بعد سے طلوع آفتاب کے بعد تک (گویا اشراق تک) حضور ﷺ مسجد شریف میں اپنی جگہ پر چہار زانو ہی بیٹھے رہتے تھے ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ احتبا کی شکل ک علاوہ چہار زانو بھی بیٹھتے تھے ۔ اور حدیث کے راوی جابر بن سمرہ کے بیان کے مطابق فجر کی نماز کے بعد سے طلوع آفتاب کے بعد تک (گویا اشراق تک) حضور ﷺ مسجد شریف میں اپنی جگہ پر چہار زانو ہی بیٹھے رہتے تھے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ تَرَبَّعَ فِي مَجْلِسِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَسْنَاءَ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৩৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مجلس میں آنے والے کو چاہئے کہ مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جائے
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کا (یعنی صحابہ کا)یہ طریقہ اور دستور تھا کہ جب ہم میں سے کوئی حضور ﷺ کی مجلس میں آتا تو (حاضرین مجلس کے درمیان سے گزر کے آگے جانے کی کوشش نہیں کرتا تھا بلکہ) کنارے ہی بیٹھ جایا کرتا تھے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اصولِ حدیث میں یہ بات مسلم اور مقرر ہو چکی ہے کہ کسی صحابی کا یہ بیان کرنا کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں آپ ﷺ کے صحابہؓ ایسا کیا کرتے تھے اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کا وہ عمل آپ ﷺ کی مرضی کے مطابق اور آپ ﷺ ہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔ اس بناء پر اس حدیث کا مطلب اور مدعا یہ ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ ادب سکھایا تھا کہ جب مجلس قائم ہو اور کوئی آدمی بعد میں آئے تو وہ مجلس کے کنارے پر جہاں جگہ پائے وہاں بیٹھ جائے ۔ ہاں صاحبِ مجلس کو حق ہے کہ کسی خصوصیت یا کسی مصلحت کے پیش نظر اس کو آگے بلا لے ۔
تشریح
اصولِ حدیث میں یہ بات مسلم اور مقرر ہو چکی ہے کہ کسی صحابی کا یہ بیان کرنا کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں آپ ﷺ کے صحابہؓ ایسا کیا کرتے تھے اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کا وہ عمل آپ ﷺ کی مرضی کے مطابق اور آپ ﷺ ہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔ اس بناء پر اس حدیث کا مطلب اور مدعا یہ ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ ادب سکھایا تھا کہ جب مجلس قائم ہو اور کوئی آدمی بعد میں آئے تو وہ مجلس کے کنارے پر جہاں جگہ پائے وہاں بیٹھ جائے ۔ ہاں صاحبِ مجلس کو حق ہے کہ کسی خصوصیت یا کسی مصلحت کے پیش نظر اس کو آگے بلا لے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: «كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَلَسَ أَحَدُنَا حَيْثُ يَنْتَهِي» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৩৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حلقہ کے بیچ میں آ کر بیٹھ جانا سخت ممنوع ہے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی زبان مبارک نے اس شخص کو قابل لعنت قرار دیا ہے جو بیچ حلقہ میں بیٹھ جائے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
شارحین نے اس حدیث کی کئی توجیہیں کی ہیں : ایک یہ کہ اللہ کے بندے حلقہ بنائے بیٹھے ہیں ، ایک متکبر یا بےتمیز اور ادب سے ناآشنا آدمی لوگوں کے اوپر سے پھلانگ کے حلقہ کے بیچ میں آ کر بیٹھ جاتا ہے بلا شبہ یہ سخت مجرمانہ حرکت ہے ، اور ایسا آدمی لوگوں کی لعنت کا مستحق ہے ۔ دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اللہ کے کچھ بندے حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اور ہر ایک کا دوسرے سے مواجہہ یعنی آمنا سامنا ہے ، ایک آدمی آ کر اس طرھ حلقہ کے بیچ میں بیٹھ جاتا ہے کہ بعض لوگوں کا مواجہہ باقی نہیں رہتا ظاہر ہے کہ یہ بھی بہت بےہودہ حرکت ہے ۔ تیسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اس سے وہ مسخرے مراد ہیں جو لوگوں کے بیچ میں ان کو ہنسانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور یہی ان کا مشغلہ ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
شارحین نے اس حدیث کی کئی توجیہیں کی ہیں : ایک یہ کہ اللہ کے بندے حلقہ بنائے بیٹھے ہیں ، ایک متکبر یا بےتمیز اور ادب سے ناآشنا آدمی لوگوں کے اوپر سے پھلانگ کے حلقہ کے بیچ میں آ کر بیٹھ جاتا ہے بلا شبہ یہ سخت مجرمانہ حرکت ہے ، اور ایسا آدمی لوگوں کی لعنت کا مستحق ہے ۔ دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اللہ کے کچھ بندے حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اور ہر ایک کا دوسرے سے مواجہہ یعنی آمنا سامنا ہے ، ایک آدمی آ کر اس طرھ حلقہ کے بیچ میں بیٹھ جاتا ہے کہ بعض لوگوں کا مواجہہ باقی نہیں رہتا ظاہر ہے کہ یہ بھی بہت بےہودہ حرکت ہے ۔ تیسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اس سے وہ مسخرے مراد ہیں جو لوگوں کے بیچ میں ان کو ہنسانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور یہی ان کا مشغلہ ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ حُذَيْفَةَ مَلْعُونٌ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَعَدَ وَسْطَ الْحَلْقَةِ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৩৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ متفرق ہو کر بیٹھنے کی ممانعت
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور صحابہ متفرق الگ الگ (ٹکڑیاں بنائے) بیٹھتے تھے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے کیا ہو گیا ہےکہ میں تمہیں الگ الگ بیٹھے دیکھ رہا ہوں ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
کسی چیز پر اظہار ناراضی کا یہ ایک خاص انداز ہے کہ کہا جائے “میری آنکھیں یہ کیا دیکھ رہی ہیں” یعنی جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے اور نظر نہ آنا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ الگ الگ ٹکڑیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے حیرت کا اظہار فرما کر تنبیہ فرمائی اور بتایا کہ بجائے اس طرح الگ الگ بیٹھنے کے سب مل کر قرینے سے بیٹھو ۔ بعض دوسری حدیثوں میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اس سے ظاہری تفرق اور تشتت کا اثر دلوں میں پڑتا ہے اور مل کر ساتھ بیٹھنے سے قلوب میں جوڑ اور توافق پیدا ہوتا ہے ۔
تشریح
کسی چیز پر اظہار ناراضی کا یہ ایک خاص انداز ہے کہ کہا جائے “میری آنکھیں یہ کیا دیکھ رہی ہیں” یعنی جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے اور نظر نہ آنا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ الگ الگ ٹکڑیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے حیرت کا اظہار فرما کر تنبیہ فرمائی اور بتایا کہ بجائے اس طرح الگ الگ بیٹھنے کے سب مل کر قرینے سے بیٹھو ۔ بعض دوسری حدیثوں میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اس سے ظاہری تفرق اور تشتت کا اثر دلوں میں پڑتا ہے اور مل کر ساتھ بیٹھنے سے قلوب میں جوڑ اور توافق پیدا ہوتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاَصْحَابُهُ جُلُوْسٌ فَقَالَ: «مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৩৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اس طرح نہ بیٹھا جائے کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں ہو اورکچھ سائے میں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی سایہ کی جگہ میں بیٹھا ہو پھر اس پر سے سایہ ہٹ جائے اور پھر اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ سائے میں ہو جائے تو اس چاہئے کہ وہ اس جگہ سے اُٹھ جائے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
ماہرین نے بتایا ہے کہ اس طرح بیٹھنا یا لیٹنا کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ سایہ میں ہو طبی لحاظ سے مضر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ممانعت غالبا اسی لئے فرمائی ہو گی ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
ماہرین نے بتایا ہے کہ اس طرح بیٹھنا یا لیٹنا کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ سایہ میں ہو طبی لحاظ سے مضر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ممانعت غالبا اسی لئے فرمائی ہو گی ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِىْ هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْفَيْءِ فَقَلَصَ عَنْهُ الظِّلُّ، فَصَارَ بَعْضُهُ فِي الشَّمْسِ، وَبَعْضُهُ فِي الظِّلِّ فَلْيَقُمْ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مجلس میں گفتگو ، ہنسی و مزاح ، چھینک اور جمائی وغیرہ کے بارے میں ہدایات: بےضرورت بات کو لمبا نہ کیا جائے
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن جب کہ ایک شخص نے (ان کی موجودگی میں) کھڑے ہو کر (وعظ و تقریر کے طور پر) بات کی اور بہت لمبی بات کی ، تو آپ نے فرمایا کہ : اگر یہ شخص مختصر بات کرتا تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہوتا ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : میں یہ مناسب سمجھتا ہوں ۔ یا آپ ﷺ نے فرمایا کہ : مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے “بات کرنے میں اختصار سے کوم لوں کیوں کہ بات میں اختصار ہی بہتر ہوتا ہے” ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
رسول اللہ ﷺنے امت کو اس بارے میں واضح ہدایات دی ہیں کہ بات چیت میں کن باتوں کا لحاظ رکھا جائے ، اور ظرافت و مزاح اور کسی بات پر ہنسنے یا چھینک اور جمائی آنے کے جیسے موقعوں پر کیا رویہ اختیار کیا جائے ۔ اس سلسلہ کی آپ ﷺ کی ہدایات و تعلیمات کی روح یہ ہے کہ بندہ اپنے فطری اور معاشرتی تقاضوں و وقار اور خوبصورتی کے ساتھ پورا کرے لیکن ہر حال میں اللہ کو اور اس کے ساتھ اپنی بندگی کی نسبت کو اور اس کے احکام اور اپنے عمل اور رویہ کے اُخروی انجام کو پیش نظر رکھے ۔
زبان کے استعمال اور بات چیت کے بارے میں آنحضرتﷺ کے ارشادات کا کافی حصہ اسی سلسلہ معارف الحدیث کی دوسری جلد (کتاب الاخلاق) میں درج ہو چکا ہے ۔ سچ اور جھوٹ ، شیریں کلامی اور بدزبانی ، چغل خوری و عیب جوئی یا وہ گوئی ، غیبت اور بہتان وغیرہ کے متعلق احادیث وہاں گزر چکی ہیں ، اس لئے گفتگو اور زبان کے استعمال کے سلسلہ میں چند باقی مضامین کی حدیثیں ہی یہاں درج کی جا رہی ہیں ۔
تشریح .....تجربہ شاہد ہے کہ بہت لمبی بات سے سننے والے اکتا جاتے ہیں اور دیکھا ہے کہ بعض اوقات کسی تقریر یا وعظ سے سامعین شروع میں بہت اچھا تاثر لیتے ہیں لیکن جب بات حد سے زیادہ لمنی ہو جاتی ہے تو لوگ اکتا جاتے ہیں ، اور وہ اثر بھی زائل ہو جاتا ہے ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺنے امت کو اس بارے میں واضح ہدایات دی ہیں کہ بات چیت میں کن باتوں کا لحاظ رکھا جائے ، اور ظرافت و مزاح اور کسی بات پر ہنسنے یا چھینک اور جمائی آنے کے جیسے موقعوں پر کیا رویہ اختیار کیا جائے ۔ اس سلسلہ کی آپ ﷺ کی ہدایات و تعلیمات کی روح یہ ہے کہ بندہ اپنے فطری اور معاشرتی تقاضوں و وقار اور خوبصورتی کے ساتھ پورا کرے لیکن ہر حال میں اللہ کو اور اس کے ساتھ اپنی بندگی کی نسبت کو اور اس کے احکام اور اپنے عمل اور رویہ کے اُخروی انجام کو پیش نظر رکھے ۔
زبان کے استعمال اور بات چیت کے بارے میں آنحضرتﷺ کے ارشادات کا کافی حصہ اسی سلسلہ معارف الحدیث کی دوسری جلد (کتاب الاخلاق) میں درج ہو چکا ہے ۔ سچ اور جھوٹ ، شیریں کلامی اور بدزبانی ، چغل خوری و عیب جوئی یا وہ گوئی ، غیبت اور بہتان وغیرہ کے متعلق احادیث وہاں گزر چکی ہیں ، اس لئے گفتگو اور زبان کے استعمال کے سلسلہ میں چند باقی مضامین کی حدیثیں ہی یہاں درج کی جا رہی ہیں ۔
تشریح .....تجربہ شاہد ہے کہ بہت لمبی بات سے سننے والے اکتا جاتے ہیں اور دیکھا ہے کہ بعض اوقات کسی تقریر یا وعظ سے سامعین شروع میں بہت اچھا تاثر لیتے ہیں لیکن جب بات حد سے زیادہ لمنی ہو جاتی ہے تو لوگ اکتا جاتے ہیں ، اور وہ اثر بھی زائل ہو جاتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ: يَوْمًا وَقَامَ رَجُلٌ فَأَكْثَرَ الْقَوْلَ فَقَالَ عَمْرٌو: لَوْ قَصَدَ فِي قَوْلِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَقَدْ رَأَيْتُ، أَوْ قَالَ أُمِرْتُ، أَنْ أَتَجَوَّزَ فِي الْقَوْلِ، فَإِنَّ الْجَوَازَ هُوَ خَيْرٌ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ منہ سے نکلنے والی کوئی بات وسیلہ فوز و فلاھ بھی ہو سکتی ہے اور موجب ہلاکت بھی
بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : آدمی کی زبان سے کبھی خیر اور بھلائی کی کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس کی پوری برکت اور قدر و قیمت وہ خود بھی نہیں جانتا ، مگر اللہ تعالیٰ اسی ایک بات کی وجہ سے اپنے حضور میں حاضری تک کے لئے اس بندہ کے واسطے اپنی رضا طے فرما دیتا ہے ۔ اور (اسی طرح) کبھی آدمی کی زبان سے شرج ، کی کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس کی برائی اور خطرناکی کی حد وہ خود بھی نہیں جانتا مگر اللہ تعالیٰ اس بات کی وجہ سے اس آدمی پر آخرت کی پیشی تک کے لئے اپنی ناراضی اور اپنے غضب کا فیصلہ فرما دیتا ہے ۔ (شرح السنہ للبغوی)
(اور ایسی ہی حدیث امام مالکؒ نے موطا میں اور امام ترمذیؒ نے اپنی جامع مین اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کی ہے) ۔
تشریح
حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ اللہ اور آخرت کے انجام سے غافل و بےپروا ہو کر باتیں نہ کرے ، منہ سے نکلنے والی بات ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی خاص رضا و رحمت کا مستحق بنا دے ، اور (خدا پناہ میں رکھے) ایسی بھی ہو سکتی ہے جو اس کی رضا و رحمت الہی سے محروم کر کے جہنم میں پہنچا دے ۔
کسی کی تعریف کرنا دراصل اس کے حق میں ایک شہادت اور گواہی ہے جو بڑی ذمہ داری کی بات ہے اور اس سے اس کا بھی خطرہ ہے کہ اس آدمی میں اعجابِ نفس اور خود پسندی پیدا ہو جائے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت احتیاط کی تاکید فرمائی ہے ۔ افسوس ہے کہ اس تعلیم و ہدایت سے فی زماننا ہمارے دینی حلقوں میں بھی بڑی بے پروائی برتی جا رہی ہے ۔ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا
(اور ایسی ہی حدیث امام مالکؒ نے موطا میں اور امام ترمذیؒ نے اپنی جامع مین اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کی ہے) ۔
تشریح
حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ اللہ اور آخرت کے انجام سے غافل و بےپروا ہو کر باتیں نہ کرے ، منہ سے نکلنے والی بات ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی خاص رضا و رحمت کا مستحق بنا دے ، اور (خدا پناہ میں رکھے) ایسی بھی ہو سکتی ہے جو اس کی رضا و رحمت الہی سے محروم کر کے جہنم میں پہنچا دے ۔
کسی کی تعریف کرنا دراصل اس کے حق میں ایک شہادت اور گواہی ہے جو بڑی ذمہ داری کی بات ہے اور اس سے اس کا بھی خطرہ ہے کہ اس آدمی میں اعجابِ نفس اور خود پسندی پیدا ہو جائے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت احتیاط کی تاکید فرمائی ہے ۔ افسوس ہے کہ اس تعلیم و ہدایت سے فی زماننا ہمارے دینی حلقوں میں بھی بڑی بے پروائی برتی جا رہی ہے ۔ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ بِلالِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنَ الْخَيْرِ، مَا يَعْلَمُ مَبْلَغَهَا يَكْتُبُ اللَّهُ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنَ الشَّرِّ، مَا يَعْلَمُ مَبْلَغَهَا يَكْتُبُ اللَّهُ بِهَا عَلَيْهِ سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ». (رواه فى شرح السنة روى والترمذى وابن ماجه نحوه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی کی تعریف کرنے میں بھی احتیاط سے کام لیا جائے
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک صاحب نے ایک دوسرے صاحب کی تعریف کی (اور اس تعریف میں بےاحتیاطی کی) تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : تم نے اپنے اس بھائی کی (اس طرح تعریف کر کے) گردن کاٹ دی (یعنی ایسا کام کیا جس سے وہ ہلاک ہو جائے) یہ بات آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمائی ۔ (س کے بعد فرمایا) تم میں سے (کسی بھائی کی) تعریف کرنا ضروری ہی سمجھے اور اس کو اس تعریف و مدح کا مستحق سمجھے تو یوں کہے کہ میں فلاں بھائی کے بارے میں ایسا گمان کرتا ہوں (اور میری اس کے بارے میں یہ رائے ہے) اور اس کا حساب کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے (جس کو حقیقت کا پورا علم ہے) اور ایسا نہ کرے کہ خدا پر کسی کی پاکیزگی کا حکم لگائے (یعنی کسی کے حق میں ایسی بات نہ کہے کہ وہ بلاشبہ اور یقینا عنداللہ پاک اور مقدس ہے ، کیوں کہ یہ خدا پر حکم لگانا ہے اور کسی بندہ کو اس کا حق نہیں ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: أَثْنَى رَجُلٌ عَلَى رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ أَخِيْكَ ثَلَاثًا» .... «مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَادِحًا لاَ مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا، وَاللَّهُ حَسِيبُهُ، إِنْ كَانَ يَرَى إِنَّهُ كَذَالِكَ وَلاَ يُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی کی تعریف کرنے میں بھی احتیاط سے کام لیا جائے
حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم “مداحین” (بہت زیادہ تعریف کرنے والوں) کو دیکھو تو ان کے منہ پر خاک ڈال دو ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں “مداحین” سے غالبا وہ لوگ مراد ہیں جو لوگوں کی خوشامد اور چاپلوسی کےلئے اور پیشہ وارانہ طور پر ان کی مبالغہ آمیز تعریفیں اور ان کی قصیدہ خوانی کیا کرتے ہیں ، اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے اور وہ تمہارے منہ پر تمہاری مبالغہ آمیز تعریفیں کریں تو ان کے منہ پر خاک ڈال دو ۔ اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اظہارِ ناراضگی کے طور پر ان کے منہ پر حقیقۃً خاک ڈال دو ۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہیں کسی قسم کا انعام و اکرام کچھ نہ دو گویا “منہ پہ خاک ڈالنے” کا مطلب انہیں کچھ نہ دینا اور محروم و نامراد واپس کر دینا ہے اور بلاشبہ یہ بھی ایک محاورہ ہے ۔ تیسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان مداحین سے کہہ دو کہ تمہارے منہ میں خاک ! گویا یہ کہنا کہ منہ میں خاک ڈالنا ہے ۔ حدیث کے راوی حضرت مقداد بن الاسود سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے ان کی موجودگی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کی تعرید کی تو انہوں نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے مٹی زمین سے اُٹھا کے اس شخص کے منہ پر پھینک ماری ۔ زمانہ مابعد کے بعض اکابر سے بھی اسی طرح کے واقعات مروی ہیں ۔
واضح رہے کہ اگر اچھی نیت اور کسی چینی مصلحت سے کسی بندہ خدا کی سچی تعریف اس کے سامنے یا اس کے پیچھے کی جائے اور اس کا خطرہ نہ ہو کہ وہ اعجاب نفس اور اپنے بارے میں کسی غلط قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی تعریف کی ممانعت نہیں ہے ۔ بلکہ ان شاء اللہ اچھی نیت کے مطابق وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہو گا ، خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کی اور بعض صحابہ کرام نے بعض دوسرے صحابیوں کی جو روح و تعریف کبھی کی ہے وہ اسی قبیل سے ہے ۔
تشریح
اس حدیث میں “مداحین” سے غالبا وہ لوگ مراد ہیں جو لوگوں کی خوشامد اور چاپلوسی کےلئے اور پیشہ وارانہ طور پر ان کی مبالغہ آمیز تعریفیں اور ان کی قصیدہ خوانی کیا کرتے ہیں ، اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے اور وہ تمہارے منہ پر تمہاری مبالغہ آمیز تعریفیں کریں تو ان کے منہ پر خاک ڈال دو ۔ اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اظہارِ ناراضگی کے طور پر ان کے منہ پر حقیقۃً خاک ڈال دو ۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہیں کسی قسم کا انعام و اکرام کچھ نہ دو گویا “منہ پہ خاک ڈالنے” کا مطلب انہیں کچھ نہ دینا اور محروم و نامراد واپس کر دینا ہے اور بلاشبہ یہ بھی ایک محاورہ ہے ۔ تیسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان مداحین سے کہہ دو کہ تمہارے منہ میں خاک ! گویا یہ کہنا کہ منہ میں خاک ڈالنا ہے ۔ حدیث کے راوی حضرت مقداد بن الاسود سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے ان کی موجودگی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کی تعرید کی تو انہوں نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے مٹی زمین سے اُٹھا کے اس شخص کے منہ پر پھینک ماری ۔ زمانہ مابعد کے بعض اکابر سے بھی اسی طرح کے واقعات مروی ہیں ۔
واضح رہے کہ اگر اچھی نیت اور کسی چینی مصلحت سے کسی بندہ خدا کی سچی تعریف اس کے سامنے یا اس کے پیچھے کی جائے اور اس کا خطرہ نہ ہو کہ وہ اعجاب نفس اور اپنے بارے میں کسی غلط قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی تعریف کی ممانعت نہیں ہے ۔ بلکہ ان شاء اللہ اچھی نیت کے مطابق وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہو گا ، خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کی اور بعض صحابہ کرام نے بعض دوسرے صحابیوں کی جو روح و تعریف کبھی کی ہے وہ اسی قبیل سے ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ، فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمِ التُّرَابَ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شعر و سخن
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے شعر کے بارے میں ذکر آیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : شعر بھی کلام ہے ۔ اس میں جو اچھا ہے وہ اچھا ہے اور جو برا ہے وہ برا ہے ۔ (سنن دار قطنی)
اور امام شافعی نے اسی حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے حضرت عروہ سے مرسلا روایت کیا ہے ۔
تشریح
واضح رہے کہ اگر اچھی نیت اور کسی چینی مصلحت سے کسی بندہ خدا کی سچی تعریف اس کے سامنے یا اس کے پیچھے کی جائے اور اس کا خطرہ نہ ہو کہ وہ اعجاب نفس اور اپنے بارے میں کسی غلط قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی تعریف کی ممانعت نہیں ہے ۔ بلکہ ان شاء اللہ اچھی نیت کے مطابق وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہو گا ، خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کی اور بعض صحابہ کرام نے بعض دوسرے صحابیوں کی جو روح و تعریف کبھی کی ہے وہ اسی قبیل سے ہے ۔
شعر و سخن
اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اور اس سے پہلے بھی شعر و شاعر ی عام تھی اور شاذ و نادر ہی ایسے لوگ تھے جو اس کا ذوق نہ رکھتے ہوں ، لیکن خود آنحضرتﷺ کو اس سے بالکل مناسبت نہ تھی ۔ بلکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ مشیت الٰہی نے خاص حکمت کے تحت آپ ﷺ کو اس سے بالکل محفوظ رکھا ۔ سورہ یٰسین شریف میں فرمایا گیا ہے :
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ (يسن 69:36)
ہم نے اپنے نبی کو شعر و شاعری کا علم نہیں دیا اور وہ ان کے لئے مناسبت اور سزاوار نہیں تھا ۔
علاوہ ازیں جس قسم کی شعر و شاعری کا وہاں عام رواج تھا اور یہ شاعر جس سیرت و کردارکے ہوتے تھے قرآن مجید میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ﴿٢٢٤﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ﴿٢٢٥﴾وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ (الشعراء224:27-226)
اور ان شاعروں کا حال یہ ہے کہ بےرا اور بدچلن لوگ ہی ان کی راہ چلتے ہیں ، کیا تم نے دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ۔
بعض صحابہ نے شعر و شاعری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا وہ مطلقاً قابل مذمت ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ایسا نہیں ہے بلکہ اگر شعر کا مضمون اچھا ہے تو وہ اچھا ہے اور اگر برا ہے تو وہ برا ہے ۔ اور بعض موقعوں پر آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : بعض اشعار تو بڑے حکیمانہ ہوتے ہیں ۔اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :
اور امام شافعی نے اسی حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے حضرت عروہ سے مرسلا روایت کیا ہے ۔
تشریح
واضح رہے کہ اگر اچھی نیت اور کسی چینی مصلحت سے کسی بندہ خدا کی سچی تعریف اس کے سامنے یا اس کے پیچھے کی جائے اور اس کا خطرہ نہ ہو کہ وہ اعجاب نفس اور اپنے بارے میں کسی غلط قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی تعریف کی ممانعت نہیں ہے ۔ بلکہ ان شاء اللہ اچھی نیت کے مطابق وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہو گا ، خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کی اور بعض صحابہ کرام نے بعض دوسرے صحابیوں کی جو روح و تعریف کبھی کی ہے وہ اسی قبیل سے ہے ۔
شعر و سخن
اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اور اس سے پہلے بھی شعر و شاعر ی عام تھی اور شاذ و نادر ہی ایسے لوگ تھے جو اس کا ذوق نہ رکھتے ہوں ، لیکن خود آنحضرتﷺ کو اس سے بالکل مناسبت نہ تھی ۔ بلکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ مشیت الٰہی نے خاص حکمت کے تحت آپ ﷺ کو اس سے بالکل محفوظ رکھا ۔ سورہ یٰسین شریف میں فرمایا گیا ہے :
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ (يسن 69:36)
ہم نے اپنے نبی کو شعر و شاعری کا علم نہیں دیا اور وہ ان کے لئے مناسبت اور سزاوار نہیں تھا ۔
علاوہ ازیں جس قسم کی شعر و شاعری کا وہاں عام رواج تھا اور یہ شاعر جس سیرت و کردارکے ہوتے تھے قرآن مجید میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ﴿٢٢٤﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ﴿٢٢٥﴾وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ (الشعراء224:27-226)
اور ان شاعروں کا حال یہ ہے کہ بےرا اور بدچلن لوگ ہی ان کی راہ چلتے ہیں ، کیا تم نے دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ۔
بعض صحابہ نے شعر و شاعری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا وہ مطلقاً قابل مذمت ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ایسا نہیں ہے بلکہ اگر شعر کا مضمون اچھا ہے تو وہ اچھا ہے اور اگر برا ہے تو وہ برا ہے ۔ اور بعض موقعوں پر آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : بعض اشعار تو بڑے حکیمانہ ہوتے ہیں ۔اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشِّعْرُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ كَلَامٌ فَحَسَنَهُ حَسَنٌ , وَقَبِيحُهُ قَبِيحٌ». (رواه الدار قطنى وروى الشافعى عن عودة مرسلا)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شعر و سخن
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : بعض شعر (اپنے مضمون کے لحاظ سے) سراسر حکمت ہوتے ہیں ۔ (صحیح بخاری)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شعر و سخن
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے وہ لبید بن ربیعہ شاعر کی یہ بات (یعنی یہ مصرع) ہے : “ أَلاَ كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلاَ اللَّهَ بَاطِلٌ ” (آگاہی ہو کہ اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ لبید زمانہ جاہلیت کا مشہور و مقبول شاعر تھا ، لیکن اس کی شاعری اس زمانہ میں بھی خداپرستانہ اور پاکیزہ تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مصرعہ “ أَلاَ كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلاَ اللَّهَ بَاطِلٌ ” کو شعر کی دنیا کا سب سے سچا کلمہ اس لئے فرمایا کہ یہ قرآن مجید کے اس ارشاد کے بالکل ہم معنی ہے ۔ “كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ” اس کے ساتھ کا دوسرا مصرعہ یہ ہے “وَكُلُّ شَيْءٍ لَا مَحَالَةَ زَائِلُ” (یعنی یہاں کی ہر نعمت ایک دن ختم ہو جانے والی ہے) ،
یہ شعر لبید کے جس قصیدہ کا ہے وہ انہوں نے اپنے دور جاہلیت ہی میں کہا تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے قبولِ اسلام کی توفیق عطا فرمائی ۔ روایات میں ہے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد شعر و شاعری کا مشغلہ بالکل چھوٹ گیا اور کہا کرتے تھے کہ “يَكْفِيْنِى الْقُرْآنُ” (بس اب قرآن میرے لئے کافی ہے) اللہ تعالیٰ نے بہت طویل عمر بھی عطا فرمائی ۔ حافظ ابن حجر کے بیان کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ۱۵۶ سال کی عمر میں وفات پائی (1) رضى الله عنه وارضاه۔
تشریح
یہ لبید زمانہ جاہلیت کا مشہور و مقبول شاعر تھا ، لیکن اس کی شاعری اس زمانہ میں بھی خداپرستانہ اور پاکیزہ تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مصرعہ “ أَلاَ كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلاَ اللَّهَ بَاطِلٌ ” کو شعر کی دنیا کا سب سے سچا کلمہ اس لئے فرمایا کہ یہ قرآن مجید کے اس ارشاد کے بالکل ہم معنی ہے ۔ “كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ” اس کے ساتھ کا دوسرا مصرعہ یہ ہے “وَكُلُّ شَيْءٍ لَا مَحَالَةَ زَائِلُ” (یعنی یہاں کی ہر نعمت ایک دن ختم ہو جانے والی ہے) ،
یہ شعر لبید کے جس قصیدہ کا ہے وہ انہوں نے اپنے دور جاہلیت ہی میں کہا تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے قبولِ اسلام کی توفیق عطا فرمائی ۔ روایات میں ہے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد شعر و شاعری کا مشغلہ بالکل چھوٹ گیا اور کہا کرتے تھے کہ “يَكْفِيْنِى الْقُرْآنُ” (بس اب قرآن میرے لئے کافی ہے) اللہ تعالیٰ نے بہت طویل عمر بھی عطا فرمائی ۔ حافظ ابن حجر کے بیان کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ۱۵۶ سال کی عمر میں وفات پائی (1) رضى الله عنه وارضاه۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ، كَلِمَةُ لَبِيدٍ: أَلاَ كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلاَ اللَّهَ بَاطِلٌ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شعر و سخن
عمرو بن شرید اپنے والد شرید بن سوید ثقفی سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دن (سفر میں) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آپ ﷺ ہی کی سواری پر سوار تھا ، آپ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کیا تمہیں امیۃ بن الصلت کے کچھ شعر بھی یاد ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا سناؤ ! تو میں نے ایک بیت آپ ﷺ کو سنایا ، آپ ﷺ نے فرمایا اور سناؤ ، میں نے ایک اور بیت سنایا ، آپ ﷺ نے پھر فرمایا اور سناؤ ، تو میں نے سو بیت سنائے (اور ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ امیہ اپنے اشعار میں اسلام سے بہت قریب ہو گیا تھا) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
امیہ بن الصلت ثقفی بھی جاہلی شاعر تھا لیکن اس کی شاعری خدا پرستانہ تھی ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ کو جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا اس کے اشعار سے دلچسپی تھی اور آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا : “لَقَدْ كَادَ يُسْلِمُ فِىْ شَعْرِهِ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں اسلام سے بہت قریب ہو گیا تھا) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ امیہ بن الصلت کے اشعار سن کر فرمایا : “آمَنَ شِعْرُهُ وَكَفَرَ قَلْبُهُ” (اس کی شاعری مسلمان ہو گئی اور اس کا قلب کافر رہا) امیہ نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا اور دین کی دعوت بھی پہنچی مگر ایمان کی توفیق نہیں ہوئی ۔
تشریح
امیہ بن الصلت ثقفی بھی جاہلی شاعر تھا لیکن اس کی شاعری خدا پرستانہ تھی ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ کو جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا اس کے اشعار سے دلچسپی تھی اور آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا : “لَقَدْ كَادَ يُسْلِمُ فِىْ شَعْرِهِ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں اسلام سے بہت قریب ہو گیا تھا) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ امیہ بن الصلت کے اشعار سن کر فرمایا : “آمَنَ شِعْرُهُ وَكَفَرَ قَلْبُهُ” (اس کی شاعری مسلمان ہو گئی اور اس کا قلب کافر رہا) امیہ نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا اور دین کی دعوت بھی پہنچی مگر ایمان کی توفیق نہیں ہوئی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَدِفْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: «هَلْ مَعَكَ مِنْ شِعْرِ أُمَيَّةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ شَيْءٌ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «هِيهْ» فَأَنْشَدْتُهُ بَيْتًا، فَقَالَ: «هِيهْ» ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ بَيْتًا، فَقَالَ: «هِيهْ» ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ مِائَةَ بَيْتٍ. (رواه مسلم زاد فى رواية لقد كاد يسلم فى شعره)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ظرافت و مزاح
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے حضور ﷺ عرض کیا کہ رسول اللہ آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں (مزاح میں بھی) حق ہی کہتا ہوں (یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی) ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا، قَالَ: إِنِّي لاَ أَقُولُ إِلاَّ حَقًّا. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৪৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ظرافت و مزاح
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سواری کے لئے اونٹ مانگا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، ہاں میں تم کو سواری کے لئے ایک اونٹنی کا بچہ دوں گا ، اس شخص نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ : اونٹ اونٹنیوں ہی کے تو بچے ہوتے ہیں ۔ (یعنی ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے جو اونٹ بھی دیا جائے گا وہ اونٹنی کا بچہ ہی ہو گا) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
ظرافت ومزاح بھی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہونا نازیبا اور مضر ہے اسی طرح آدمی کا اس سے بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر کسی بلند پایہ اور مقدس شخصیت کی طرف سے چھوٹی اور معمولی حیثیت کے کسی آدمی کے ساتھ لطیف ظرافت مزاح کا برتاؤ ہو تو وہ اس کے لئے ایسی مسرت اور عزت افزائی کا باعث ہوتا ہے جو کسی دوسرے طریقہ سے حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ بھی کبھی کبھی اپنے جاں نثاروں اور نیاز مندوں سے مزاح فرماتے تھے اور یہ ان کے ساتھ آپ ﷺ کی نہایت لذت بخش شفقت ہوتی تھی ، لیکن آپ ﷺ کا مزاح بھی نہایت لطیف اور حکیمانہ ہوتا تھا ۔
تشریح
ظرافت ومزاح بھی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہونا نازیبا اور مضر ہے اسی طرح آدمی کا اس سے بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر کسی بلند پایہ اور مقدس شخصیت کی طرف سے چھوٹی اور معمولی حیثیت کے کسی آدمی کے ساتھ لطیف ظرافت مزاح کا برتاؤ ہو تو وہ اس کے لئے ایسی مسرت اور عزت افزائی کا باعث ہوتا ہے جو کسی دوسرے طریقہ سے حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ بھی کبھی کبھی اپنے جاں نثاروں اور نیاز مندوں سے مزاح فرماتے تھے اور یہ ان کے ساتھ آپ ﷺ کی نہایت لذت بخش شفقت ہوتی تھی ، لیکن آپ ﷺ کا مزاح بھی نہایت لطیف اور حکیمانہ ہوتا تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسِ " أَنَّ رَجُلا اسْتَحْمَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهَلْ تَلِدُ الإِبِلَ إِلا النُّوقُ ". (رواه الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৫৫০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ظرافت و مزاح
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا کہ: کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی ۔ اس (بےچاری) نے عرض کیا کہ ان میں (یعنی بوڑھیوں میں) کیا ایسی بات ہے جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جا سکیں گی ؟ وہ بوڑھی قرآن خواں تھی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھتی ہو “ إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً ﴿٣٥﴾فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کی عورتوں کی ہم نئے سرے سے نشوونما کریں گے اور ان کو نوخیز دوشیزائیں بنا دیں گے) ۔ (مسند زریں)
تشریح
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ دونوں حدیثیں رسول اللہ ﷺ کے لطیف مزاح کی مثالیں ہیں ۔ بعض حدیثوں میں مزاح کی ممانعت بھی وارد ہوئی ہے لیکن ان حدیثوں میں اس کا قرینہ موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ کا جو اسوہ حسنہ اس بارے میں مندرجہ بالا حدیثوں سے معلوم ہواہے وہ بھی اس کا قرینہ بلکہ اس کی واضح دلیل ہے کہ ممانعت اسی مزاح کی فرمائی گئی ہے جو دوسرے آدمی کے لئے ناگواری اور اذیت کا باعث ہو ۔
تشریح
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ دونوں حدیثیں رسول اللہ ﷺ کے لطیف مزاح کی مثالیں ہیں ۔ بعض حدیثوں میں مزاح کی ممانعت بھی وارد ہوئی ہے لیکن ان حدیثوں میں اس کا قرینہ موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ کا جو اسوہ حسنہ اس بارے میں مندرجہ بالا حدیثوں سے معلوم ہواہے وہ بھی اس کا قرینہ بلکہ اس کی واضح دلیل ہے کہ ممانعت اسی مزاح کی فرمائی گئی ہے جو دوسرے آدمی کے لئے ناگواری اور اذیت کا باعث ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ اَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِامْرَأَةٍ عَجُوْزٍ إِنَّهُ " لَا تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَجُوزٌ، فَقَالَتْ وَمَا لَهُنَّ؟ وَكَانَتْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهَا اَمَا تَقْرَئِيْنَ الْقُرْآنَ {“ إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً ﴿٣٥﴾فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا} (رواه زرين)
তাহকীক: