মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩৬৭ টি

হাদীস নং: ১৫১১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ معانقہ و تقبیل اور قیام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو شکل و صورت ، سیرت و عادت اور چال ڈھال میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ زیادہ مشابہ ہو ۔ صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے (یعنی ان سب چیزوں میں وہ سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے مشابہ تھیں) جب وہ حضور ﷺ کے پاس آتیں تو آپ ﷺ (جوشِ محبت سے) کھڑے ہو کر ان کی طرف بڑھتے ۔ ان کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیتے اور (پیار سے) اس کو چومتے ، اور اپنی جگہ پر ان کو بٹھاتے (اور یہی ان کا دستور تھا) جب آپ ﷺ ان کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپکے لئے کھڑی ہو جاتیں ۔ آپ ﷺ کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے لیتیں ، اس کو چومتیں اور اپنی جگہ پر آپ ﷺ کو بٹھاتیں ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ روایات اس کی واضح دلیل ہیں کہ محبت اور اکرام کے جذبہ سے معانقہ اور تقبیل (یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا) جائز ، اور خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں ، اس لئے حضرت انسؓ کی اس حدیث کو جس میں معانقہ اور تقبیل کی ممانعت کا ذکر ہے اسی پر محمول کیا جائے گا کہ وہ حکم ان مواقع کے لئے جب سینہ سے لگانے اور چومنے میں کسی برائی یا اس کے شک و شبہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ۔ حضرت عائشہ والی آخرت حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد پر حضور ﷺ کے کھڑے ہو جانے اور حضور ﷺ کی تشریف آوری پر حضرت فاطمہؓ کے کھڑے ہونے کا ذکر ہے ۔ یہ بات اس کی دلیل ہے ہے کہ محبت اور اکرام و احترام کے جذبہ سے اپنے کسی عزیز ، محبوب یا محترم بزرگ کے لئے کھڑا ہو جانا بھی درست ہے ۔ لیکن بعض احادیث سے (جو آگے درج ہوں گی) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے تشریف لانے پر اگر صحابہ کرامؓ کبھی کھڑے ہو جاتے تو آپ ﷺ اس کو ناپسند فرماتے اور ناگواری کا اظہار فرماتے تھے ، غالباً اس کی وجہ آپ ﷺ کی مزاجی خاکساری اور تواضع پسندی تھی ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَةَ كَانَتْ «إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَبَّلَهَا، وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ إِلَيْهِ، فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ فَقَبَّلَتْهُ، وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
کلدہ بن حنبل سے روایت ہے کہ (ان کے اخیافی بھائی) صفوان بن امیہ نے ان کو دودھ اور ہرنی کا ایک بچہ اور کچھ کھیرے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ وادی مکہ کے بالائی حصے میں تھے کلدہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا اور نہ میں نے سلام کیا اور نہ حاضری کی اجازت چاہی ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم واپس جاؤ اور (قاعدہ کے مطابق) “السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ” کہہ کر اجازت مانگو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی سے ملاقات کرنے کے لئے یا اس کے گھر یا اس کی مجلس میں کوئی جانا چاہے تو پہلے سلام کہے اور اجازت مانگے ، اس کے بغیر ہرگز اچانک داخل نہ ہو ، معلوم نہیں وہ اس وقت کس حال اور کس کام میں ہو ، ممکن ہے اس وقت اس کے لئے ملنا مناسب نہ ہو ۔

تشریح ..... یہ صفوان بن امیہ مشہور دشمنِ اسلام اور دشمنِ رسول ﷺ امیہ بن خلف کے لڑکے تھے ۔ یہ اللہ کی توفیق سے فتح مکہ کے بعد اسلام لے آئے ۔ اور یہ واقعہ جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے غالباً فتح مکہ کے سفر ہی کا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا قیام وادی مکہ کے اس بالائی حصہ میں تھا جس کو معلی کہتے ہیں ۔ صفوان بن امیہ نے اپنے اخیافی بھائی کلدہ بن حنبل کو ہدیہ کے طور پر یہ تین چیزیں لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا ۔ کچھ دودھ تھا ، ایک ہرنی کا بچہ تھا اور کچھ کھیرے تھے ۔ یہ اس سے واقف نہیں تھے کہ جب کسی سے ملنے کے لئے جانا ہو تو سلام کر کے اور پہلے اجازت لے کر جانا چاہئے اسی لئے یونہی حضور ﷺ کے پاس پہنچ گئے ۔ آپ نے اس ادب کی تعلیم کے لئے ان سے فرمایا کہ : باہر واپس جاؤ اور کہو : “السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ” (السلام علیکم ! کیا میں اندر آ سکتا ہوں) اور جب اجازت ملے تو آؤ ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے سلام اور استیذان (یعنی اجازت چاہنے) کا طریقہ صرف زبانی بتا دینے کے بجائے اس سے عمل بھی کرا دیا ۔ ظاہر ہے جو سبق اس طرح دیا جائے اس کو آدمی کبھی نہیں بھول سکتا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ كَلَدَةَ بْنَ حَنْبَلٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ بَعَثَهُ بِلَبَنٍ وَجَدَايَةٍ وَضَغَابِيسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَى الوَادِي، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَلَمْ أُسَلِّمْ وَلَمْ أَسْتَأْذِنْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْجِعْ فَقُلْ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ؟ (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
عطاء بن یسار تابعی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا میں اپنی ماں کے پاس جانے کے لئے بھی پہلے اجازت طلب کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ! مان کے پاس جانے کے لئے بھی اجازت لو ! اس شخص نے عرض کیا کہ : میں ماں کے ساتھ ہی گھر میں رہتا ہوں (مطلب یہ کہ میرا گھر کہیں الگ نہیں ہے ، ہم ماں بیٹے ایک ہی گھر میں ساتھ رہتے ہیں ۔ تو کیا ایسی صورت میں بھی میرے لئے ضروری ہے کہ اجازت لے کر گھر میں جاؤں ؟)
آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اجازت لے کر ہی جاؤ ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ : میں ہی اس کا خادم ہوں (اس کے سارے کام کاج میں ہی کرتا ہوں اس لیے بار بار جانا ہوتا ہے ، ایسی صورت میں تو ہر دفعہ اجازت لیجنا ضروری نہ ہو گا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : نہیں ، اجازت لے کر ہی جاؤ ، کیا تم یہ پسند کرو گے کہ اس کو برہنہ دیکھو ! اس شخص نے عرض کیا کہ : یہ تو ہرگز پسند نہیں کروں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر اجازت لے کر ہی جاؤ ۔ (موطا امام مالک)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اجازت اور اچانک اپنی ماں کے گھر میں جانے کی صورت میں اس کا امکان ہے کہ تم ایسی حالت میں گھر میں پہنچو کہ تمہاری ماں کسی ضرورت سے کپڑے اتارے ہوئے ہو ، اس لئے ماں کے پاس بھی اجازت لے کر ہی جانا چاہئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَسْتَأْذِنُ عَلَى أُمِّي؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي مَعَهَا فِي الْبَيْتِ، قَالَ: «اسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا» ، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي خَادِمُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا أتُحِبُّ أَنْ تَرَاهَا عُرْيَانَةً؟» قَالَ: لا، قَالَ: «فَاسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا» . (رواه مالك مرسلا)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص اجازت لینے سے پہلے سلام نہ کرے اس کو اجازت نہ دو ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اجازت لینیے کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ پہلے السلام علیکم کہے ، اس کے بعد کہے کیا میں آ سکتا ہوں ، اگر کوئی آدمی بغیر سلام کے اجازت چاہے تو اس کو اجازت نہ دو ۔ بلکہ اس کو بتا دو کہ پہلے السلام علیکم کا دعائیہ کلمہ کہہ کے (جو اسلامی شعار بھی ہے) اسلامی اخوت اور للہی رشتہ کا اظہار کرے ، اس کے بعد اجازت طلب کرے ۔ جب وہ اس طریقہ پر اجازت طلب کرے تو اس کو اجازت دے دو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَأْذَنُوا لِمَنْ لَمْ يَبْدَأْ بِالسَّلَامِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
ربعی بن خراش (تابعی) روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے حاضری کی اجازت چاہی اور عرض کیا “أَأَلِجُ” (کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟) رسول اللہ ﷺ نے اپنے خدم سے فرمایا کہ اس شخص کے پاس جاؤ اور اسے اجازت طلب کرنے کا طریقہ بتاؤ اس سے کہو کہ وہ یوں کہے “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟” اس شخص نے آپ ﷺ کی بات خود سن لی اور عرض کیا “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟” تو آپ ﷺ نے آنے کی اجازت دے دی اور وہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہو گیا ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَجُلٌ فَاسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَأَلِجُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَادِمِهِ: " اخْرُجْ إِلَى هَذَا فَعَلِّمْهُ الِاسْتِئْذَانَ، فَقُلْ لَهُ: قُلِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ " فَسَمِعَهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ فَأَذِنَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے فرزند قیس بن سعد (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) ہمارے گھر پہ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے (قاعدے کے مطابق باہر سے) “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” تو میرے والد (سعد بن عبادہؓ) نے (بجائے اس کے کہ آپ ﷺ کے سلام کا آواز سے جواب دیتے اور اندر تشریف لے آنے کے لئے عرض کرتے) بہت خفی آواز سے (کہ حضور سُن نہ سکیں) صرف سلام کا جواب دیا ۔ تو میں نے کہا کہ آ پ حضور ﷺ سے اندر تشریف لانے کے لئے کیوں عرض نہیں کرتے ؟ میرے والد نے فرمایا کہ بولو مت ، ایسے ہی رہنے دو ، تا کہ آپ بار بار ہمارے لئے سلام فرمائیں (اور ہمیں اس کی برکتیں حاصل ہوں) تو رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” حضرت سعدؓ نے پھر اسی طرح چپکے سے سلام کا جواب دیا (جس کو حضور ﷺ نے نہیں سنا ۔ تو پھر (تیسری بار) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” (اور جب اس کے بعد بھی حضرت سعدؓ کی طرف سے کوئی جواب آپ ﷺ نے نہیں سنا) تو آپ واپس لوٹنے لگے ۔ تو حضرت سعدؓ آپ ﷺ کے پیچھے آئے اور عرض کیا کہ : حضرت ! میں آپ کا سلام سنتا تھا اور (دانستہ) چپکے سے جواب دیتا تھا ، تا کہ آپ (ﷺ) بار بار ہمارے لئے سلام فرمائیں (اور ہمیں اس کی برکات حاصل ہوں) تو رسول اللہ ﷺ سعدؓ کے ساتھ ان ان کے گھر لوٹ آئے ۔ حضرت سعدؓ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺ کے غسل کا انتظام کیا جائے ۔ چنانچہ حضور ﷺ نے غسل فرمایا ۔ پھر حضرت سعدؓ نے حضور ﷺ کو ایک چادر دی (جو زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی تھی) جسے آپ نے “اشمال” کے طریقے پر باندھ لیا ، پھر آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کے اس طرح دعا فرمائی : اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْد (اے میرے اللہ ! اپنی خاص نوازشیں اور رحمتیں نازل فرما سعد کے گھر والوں پر) اس کے بعد آپ ﷺ نے کچھ کھانا تناول فرمایا ۔ پھر جب آپ ﷺ نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو میرے والد سعد بن عبادہ نے سواری کے لئے اپنا حمار پیش کیا ۔ جس کی کمر پر چادر کا گدا بنا کر رکھ دیا گیا تھا اور مجھ سے فرمایا کہ تم حضور ﷺ کے ساتھ جاؤ ، تو میں آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ چلا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ : تم بھی میرے ساتھ سوار ہو جاؤ ۔ میں نے معذرت کر دی اور سوار نہیں ہوا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یا تو میرے ساتھ تم بھی سوار ہو جاؤ یا پھر واپس چلے جاؤ (یعنی مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں سوار ہو کر چلو اور تم ساتھ ساتھ پیدل چلو ، واقعہ کے راوی قیس بن سعد کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے یہ فرمایا تو میں واپس لوٹ آیا ۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی کے ہاں ملاقات کے لئے جائے تو پہلے “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” کہہ کے اندر آنے کی اجازت چاہے ۔ اور جب کوئی جواب نہ ملے تو دوسری دفعہ اور پھر جواب نہ ملے تو تیسری دفعہ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” کہہ کے اجازت مانگے ، اور بالفرض اگر تیسری دفعہ بھی جواب نہ ملے تو پھر واپس ہو جائے ۔
حضرت سعد بن عبادہ نے حضور ﷺ کے بار بار سلام اور اس کی برکات حاصل کرنے کے لئے جو رویہ اختیار کیا (جس کی وجہ سے حضور ﷺ کو تین دفعہ سلام کرنا اور اس کے بعد واپسی کا ارادہ کر لینا پڑا) بظاہر ایک نامناسب بات تھی ، لیکن ان کی نیت اور جذبہ بہت مبارک تھا ، اور حضور ﷺ کی مزاج شناسی کی بناء پر انہیں یقین تھا کہ آپ ﷺ اس سے ناراض نہ ہوں گے ۔ اس لئے انہوں نے یہ جرأت کی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، اور حضور ﷺ نے کسی گرانی کا اظہار نہیں فرمایا ، بلکہ ان کے جذبہ اور نیت کی قدر فرمائی ، جیسا کہ آپ ﷺ کی دعا سے ظاہر ہے ۔
اس روایت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے غسل فرمانے کے بعد ایک ایسی چادر لپیٹ لی جو زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی تھی ۔ حالانکہ دوسری بعض حدیثوں میں اس کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے کہ کوئی مرد زعفران یا ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے (ورس بھی زعفران ہی کی طرح ایک نبات ہے جو رنگ دار بھی ہوتی ہے اور خوشبودار بھی) اب یا تو یہ سمجھا جائے کہ یہ واقعہ جو زیر تشریح حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اس ابتدائی زمانہ کا ہے جب کہ مردوں کے لئے زعفران وغیرہ سے رنگے ہوئے کپڑوں کی ممانعت کا حکم نہیں آیا تھا ، یا یہ کہا جائے کہ جو چادر حضور ﷺ نے استعمال فرمائی وہ کبھی پہلے رنگی گئی تھی لیکن بعد میں اچھی طرح دھو دی گئی تھی ، اور ایسی صورت میں اس کا استعمال مردوں کے لئے بھی جائز ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: زَارَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلِنَا فَقَالَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» فَرَدَّ اَبِىْ رَدًّا خَفِيًّا، قَالَ قَيْسٌ: فَقُلْتُ: أَلَا تَأْذَنُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ذَرْهُ يُكْثِرُ عَلَيْنَا السَّلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» فَرَدَّ سَعْدُ رَدًّا خَفِيًّا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاتَّبَعَهُ سَعْدٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَسْمَعُ تَسْلِيمَكَ وَأَرُدُّ عَلَيْكَ رَدًّا خَفِيًّا لِتُكْثِرَ عَلَيْنَا مِنَ السَّلَامِ، فَانْصَرَفَ مَعَهُ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ لَهُ سَعْدٌ بِغُسْلٍ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ نَاوَلَهُ مِلْحَفَةً مَصْبُوغَةً بِزَعْفَرَانٍ، أَوْ وَرْسٍ، فَاشْتَمَلَ بِهَا، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْدِ» قَالَ: ثُمَّ أَصَابَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمَّا أَرَادَ الِانْصِرَافَ قَرَّبَ لَهُ سَعْدٌ حِمَارًا قَدْ وَطَّأَ عَلَيْهِ بِقَطِيفَةٍ، فَقَالَ لِي سَعْدٌ: اصْحَبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَحِبْتُهُ فَقَالَ لِىْ «ارْكَبْ مَعِىْ» فَأَبَيْتُ، فَقَالَ: إِمَّا أَنْ تَرْكَبَ وَإِمَّا أَنْ تَنْصَرِفَ فَانْصَرَفْتُ. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ملاقات کو آنے والے کا حق ہے کہ اس کو پاس بٹھایا جائے
واثلہ بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے ، ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ ان کے لئے اپنی جگہ سے کھسک گئے ۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت (اپنی جگہ تشریف رکھیں) جگہ میں کافی گنجائش ہے (مطلب یہ تھا کہ میرے لئے اپنی جگہ سے ہٹنے کی حضرت زحمت نہ فرمائیں) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : مسلم کا یہ حق ہے کہ جب کوئی بھائی اس کو (اپنے پاس آتا) دیکھے تو اس کے لئے اپنی جگہ سے کچھ ہٹے (اور اپنے قریب بٹھائے) ۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی بڑے سے بڑے کے پاس بھی کوئی مسلم آئے تو اس کو بھی اس کے ساتھ اکرام کا یہی برتاؤ کرنا چاہئے ، اس میں رسول اللہ ﷺ سے قرب و جان نشینی کی نسبت رکھنے والے بزرگوں کے لئے خاص سبق ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ قَاعِدٌ، فَتَزَحْزَحَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ فِي الْمَكَانِ سَعَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلْمُسْلِمِ حَقًّا إِذَا رَآهُ أَخُوهُ أَنْ يَتَزَحْزَحَ لَهُ ". (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مجلس سے کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھنا چاہئے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی آدمی ایسا نہ کرے (یعنی کسی کو اس کا حق نہیں ہے) کہ کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس جگہ بیٹھ جائے ، بلکہ لوگوں کو چاہئے کہ (آنے والوں کے لئے) کشادگی اور گنجائش پیدا کریں (اور ان کو جگہ دے دیں) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں اس بات سے ممانعت فرمائی گئی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس جگہ بیٹھ جائے لیکن اگر خود بیٹھنے والا ایثار کر کے کسی کے لئے اپنی جگہ خالی کر دے تو اپنی نیت کے مطابق وہ اجر کا مستحق ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ وَلَكِنْ تَفَسَّحُوْا وَتَوَسَّعُوْا» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مجلس سے کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھنا چاہئے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص اپنی جگہ سے (کسی ضرورت سے) اٹھا اور پھر واپس آ گیا تو اس جگہ کا وہی شخص زیادہ حق دار ہے ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ» وَفِي حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ «مَنْ قَامَ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مجلس میں دو آدمیوں کے بیچ میں ان کی اجازت کے بغیر بیٹھنا چاہئے
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : دو آدمیوں کے بیچ میں ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہی حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے سنن ابی داؤد ہی میں اور اس کے علاوہ جامع ترمذی میں بھی ایک دوسرے طریقے سے ان الفاظ میں روایت کی گئی ہے : “لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا” (کسی کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ (قریب قریب بیٹھے ہوئے) دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھ کر انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دے)
سبحان اللہ العظیم ! رسول اللہ ﷺ کی ان تعلیمات و ہدایات میں لطیف انسانی جذبات اور نازک احساسات کا کتنا لحاظ فرمایا گیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا تَجْلِسْ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اپنی تعظیم کے لئے بندگانِ خدا کا کھڑا ہونا جسے اچھا لگے وہ جہنمی ہے
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس آدمی کو اس بات سے خوشی ہو کہ لوگ اس کی تعظیم میں کھڑے رہیں ، اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
ظاہر ہے کہ اس وعید کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ کوئی آدمی خود یہ چاہے اور اسی سے خوش ہو کہ اللہ کے بندے اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اور یہ تکبر کی نشانی ہے ، اور تکبر والوں کی جگہ جہنم ہے ، جس کے حق میں فرمایا گیا ہے : “بِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ” (وہ دوزخ متکبرین کا برا ٹھکانہ ہے) لیکن اگر کوئی آدمی خود بالکل نہ چاہے مگر دوسرے لوگ اکرام اور عقیدت و محبت کے جذبہ میں اس کے لئے کھڑے ہو جائیں تو یہ بالکل دوسری بات ہے ۔ اگرچہ رسول اللہ ﷺ اپنے لئے اس کو بھی پسند نہیں فرماتے تھے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ اپنے لئے تعظیمی قیام کو ناپسند فرماتے تھے
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عصا کا سہارا لیتے ہوئے باہر تشریف لائے تو ہم کھڑے ہو گئے ، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اس طرح مت کھڑے ہو جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا عَلَى عَصًا فَقُمْنَا لَهُ فَقَالَ: «لَا تَقُومُوا كَمَا يَقُومُ الْأَعَاجِمُ، يُعَظِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ اپنے لئے تعظیمی قیام کو ناپسند فرماتے تھے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کے لئے کوئی شخصیت بھی رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب نہیں تھی اس کے باوجود ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حضور ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے تھے ، کیوں کہ جانتے تھے کہ یہ آپ ﷺ کو ناپسند ہے ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صاحب ِ مجلس کے اُٹھنے پر اہلِ مجلس کا کھڑا ہو جانا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے اور ہم سے باتیں فرماتے تھے ، پھر جب آپ (گھر تشریف لے جانے کے لئے مجلس سے) اٹھتے تو ہم سب لوگ بھی کھڑے ہو جاتے ، اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب کہ ہم دیکھ لیتے کہ ازواجِ مطہرات کے گھروں میں سے کسی گھر میں آپ ﷺ داخل ہو گئے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
صحابہ کرام کو اس طریقہ عمل سے رسول اللہ ﷺ کا منع نہ فرمانا اس کی دلیل ہے کہ اس کو آپ ﷺ نے گوارا فرمایا ، حالانکہ ابھی م علوم ہو چکا ہے کہ مجلس میں تشریف آوری کے وقت لوگوں کے کھڑے ہونے کو آپ ﷺ ناپسند فرماتے تھے ۔ اس عاجز کے نزدیک ان دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ مجلس میں تشریف آوری کے وقت اہلِ مجلس کا کھڑا ہونا صرف تعظیم ہی کے لئے ہوتا تھا جو آپ کے لئے گرانی کا باعث ہوتا تھا ، اور مجلس سے حضور ﷺ کے اُٹھ جانے کے وقت کھڑا ہونا مجلس کے برخواست ہو جانے کی وجہ سے بھی ہوتا تھا ، اس کے بعد خود اہلِ مجلس بھی اپنے اپنے ٹھکانوں پر جانے والے ہوتے تھے ، اس لئے کھڑے ہونے کو حضور ﷺ گوارا فرما لیتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ مَعَنَا فِي الْمَسْجِدِ يُحَدِّثُنَا، فَإِذَا قَامَ قُمْنَا قِيَامًا حَتَّى نَرَاهُ قَدْ دَخَلَ بَعْضَ بُيُوتِ أَزْوَاجِهِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ لیٹنے ، سونے اور بیٹھنے کے بارے میں حضور ﷺ کی ہدایات اور آپ ﷺ کا طریقہ: سپاٹ چھت پر سونے کی ممانعت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو ایسی چھت پر پر سونے سے منع فرمایا ، جو (دیواروں یا منڈیروں سے) گھیری نہ گئی ہو ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے لیٹنے ، سونے اور بیٹھنے کے بارے میں بھی امت کو ہدایات دی ہیں ، اور اپنے طرزِ عمل سے بھی رہنمائی فرمائی ہے ۔ ذیل میں اس سلسلہ کی چند احادیث پڑھئے اور آپ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کی جامعیت کا اندازہ کیجئے ۔

تشریح .....ظاہر ہے کہ جو چھت دیواروں یا منڈیروں سے گھیری نہ گئی ہو اس پر سونے سے اس کا اندیشہ ہے کہ آدمی نیند کی غفلت میں چھت سے نیچے گر جائے ۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنَامَ الرَّجُلُ عَلَى سَطْحٍ لَيْسَ بِمَحْجُورٍ عَلَيْهِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ لیٹنے ، سونے اور بیٹھنے کے بارے میں حضور ﷺ کی ہدایات اور آپ ﷺ کا طریقہ: سپاٹ چھت پر سونے کی ممانعت
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص کسی گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پردہ اور رکاوٹ کی دیوار نہ ہو تو اس کی ذمہ داری ختم ہو گئی ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ دراصل ممانعت کا ایک بلیغ انداز ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی حفاظت کے جو غیبی انتظامات ہیں ، جن کا اشارہ قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے (قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ الآية) تو اگر کوئی آدمی جان بوجھ کر ایسی چھت پر سوتا ہے جس کے گرد رکاوٹ کے لئے کوئی دیوار یا منڈیر نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حفاظتی انتظام کا استحقاق کھو دیتا ہے اور ملائکہ محافظین کی کوئی ذمہ داری نہیں رہتی اور اگر خدانخواستہ وہ گر کے ہلاک ہو جاتا ہے یا اس کو سخت جسمانی صدمہ پہنچ جاتا ہے تو کسی دوسرے پر اس کی ذمہ داری نہیں وہ خود ہی ذمہ دار ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَلِيٍّ ابْنَ شَيْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ بَاتَ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ لَيْسَ عَلَيْهَِ حِجَابٌ (وَفِىْ رِوَايَةً حِجَارٌ) فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھڑی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹنے کی ممانعت اور اس کی وجہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی چت لیٹنے کی حالت میں اپنی ایک ٹانگ اٹھا کے دوسری ٹانگ پر رکھے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضور ﷺ کے زمانہ میں عربوں میں عام طور سے تہبند باندھنے کا رواج تھا اور ظاہر ہے کہ اگر تہبند باند کے اس طرح چ ت لیٹا جائے کہ اپنا ایک زانو کھڑا کر کے دوسرا پاؤں اس کے اوپر رکھا جائے تو بسا اوقات ستر کھل جائے گا ۔ غالباً اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس طرح لیٹنے سے منع فرمایا ۔ لیکن اگر لباس ایسا ہو کہ اس طرح لیٹنے سے ستر کھل جانے کا اندیشہ نہ ہو تو ظاہر یہی ہے کہ اس کی ممانعت نہ ہو گی ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ، نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى وَهُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَى ظَهْرِهِ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ پیٹ کے بل اوندھے لیٹنے کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو پیٹ کے بل اوندھا لیٹا ہوا دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لیٹنے کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
ظاہر ہے کہ یہ لیٹنے کا غیر فطری اور غیر مہذب طریقہ ہے اسی لئے اس کوناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے ایک دوسری حدیث میں اس کو دوزخیوں کا طریقہ بھی فرمایا گیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلاً مُضْطَجِعًا عَلَى بَطْنِهِ فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ ضِجْعَةٌ لاَ يُحِبُّهَا اللَّهُ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫২৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ پیٹ کے بل اوندھے لیٹنے کی ممانعت
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے اور میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے اپنے قدم مبارک سے مجھے ہلایا اور فرمایا : اے جندب ! یہ دوزخیوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے ۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
کسی عمل یا کسی عادت کی قباحت یا شناخت اہل ایمان کے دلوں پر بٹھانے کے لئے یہ نہایت موثر طریقہ ہے کہ ان کو بتایا جائے کہ یہ دوزخیوں کا طریقہ یا ان کی عادت ہے ۔ جندت حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ کا اصل نام ہے ۔ حضور ﷺ نے اس تعلیم و ہدایت کے وقت ان کو اسی نام سے یاد فرمایا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُضْطَجِعٌ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ: «يَا جُنْدُبُ، إِنَّمَا هَذِهِ ضِجْعَةُ أَهْلِ النَّارِ» (رواه ابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫৩০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خود آنحضرتﷺ کس طرح لیٹتے تھے
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول اور دستور تھا کہ (سفر میں) جب آپ ﷺ رات میں پڑاؤ کرتے تو داہنی کروٹ پر آرام فرماتے اور جب صبح سے کچھ پہلے پڑاؤ کرتے تو اپنی کلائی کھڑی کر لیتے اور سر مبارک اپنی ہتھیلی پر رکھ کر کچھ آرام لے لیتے ۔ (شرح السنہ للبغوی)

تشریح
اہلِ عرب عام طور سے رات کے ٹھنڈے وقت میں سفر کرتے تھے ، پھر اگر سفر سویرے سرِ شام شروع کرتے تو کسی مناسب جگہ ایسے وقت آرام کے لئے اتر جاتے اور پڑاؤ کرتے کہ رات کا کافی حصہ باقی ہوتا تھا اور سونے کا کافی موقع مل جاتا تھا ۔ اور اگر سفر دیر رات سے شروع کرتے تو آرام کے لئے صبح سے کچھ پہلے اتر جاتے تھے ۔ حضرت ابو قتادہؓ کی اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ حضور ﷺ جب ایسے وقت اترتے اور پڑاؤ کرتے کہ رات کافی باقی ہوتی تو آپ ﷺ سونے کے لئے اطمینان سے داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے جیسا کہ سونے میں آپ ﷺ کا ہمیشہ معمول تھا ۔ اور جب آپ ﷺ رات کے بالکل آخری حصہ میں اترتے کہ فجر کا وقت ہوتا تو آپ اپنی کہنی ٹیک کے اور کلائی کھڑی کر کے ہتھیلی پر سر مبارک رکھ کر لیٹ جاتے تھے ، اور اس طرح گویا نمازِ فجر کا انتظار فرماتے تھے ۔ اس قسم کی احادیث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کے لیٹنے اور سونے تک کی ہستیوں کو بھی کتنے اہتمام سے محفوظ رکھ کر امت کو پہنچایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس فکر و کاوش کا ان کو بہتر سے بہتر صلہ پوری امت کی طرف سے عطا فرمائے اور ہم کو اتباع اور پیروی کی توفیق دے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَرَّسَ بِلَيْلٍ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ، وَإِذَا عَرَّسَ قُبَيْلَ الصُّبْحِ، نَصَبَ ذِرَاعَهُ، وَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى كَفِّهِ» (رواه فى شرح السنة)
tahqiq

তাহকীক: