মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩৬৭ টি

হাদীস নং: ১৪৯১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آدابِ ملاقات: سلام کی فضیلت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لوگو ! خدا وند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو خوب پھیلاؤ ، تم جنت میں پہنچ جاؤ گے ، سلامتی کے ساتھ ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
یہاں تک جو حدیثیں درج ہوئی ان سے انسانوں کے مختلف طبقات اور اللہ کی عام مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات و ہدایات معلوم ہوئیں ، آگے “آدابِ ملاقات” اور اس کے بعد “آدابِ مجلس” کےسلسلہ کی جو احادیث درج کی جا رہی ہیں ، وہ بھی دراصل زندگی کے ایک خاص دائرے میں آپس کے برتاؤ ہی سے متعلق ہدایات ہیں ۔

تحیہ اسلام ، سلام
دنیا کی تمام متمدن قوموں اور گروہوں میں ملاقات کے وقت پیار و محبت یا جذبہ اکرام و خیر اندیشی کا اظہار کرنے اور مخاطب کو مانوس و مسرور کرنے کے لئے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے ، اور آج بھی ہے ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں ہمارے برادرانِ وطن ہندو ، ملاقات کے سات “نمستے” کہتے ہیں ، کچھ پرانے قسم کے کم پڑھے لکھوں کو “رام رام” کہتے ہوئے بھی سنا ہے ۔ یورپ کے لوگوں میں صبح کی ملاقات کے وقت “گذ مارننگ” (اچھی صبح) اور شام کی ملاقات کے وقت “گذ ایوننگ” (اچھی شام) اور رات کی ملاقات میں “گذ نائٹ” (اچھی رات) وغیرہ کہنے کا رواج ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے وقت عربوں میں بھی اسی طرح کے کلمات ملاقات کے وقت کہنے کا رواج تھا ۔
سنن ابی داؤد میں رسول اللہ ﷺ کے صحابی عمران بن حصینؓ کا یہ بیان مروی ہے کہ ہم لوگ اسلام سے پہلے ملاقات کے وقت آپس میں “أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا” (خدا آنکھوں کی ٹھنڈک نصٰب کرے) اور “أَنْعِمْ صَبَاحًا” (تمہاری صبح خوشگوار ہو) کہا کرتے تھے ۔ جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کر دی گئی ، یعنی اس کے بجائے ہمیں “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” تعلیم دی گئی ۔
آج بھی غور کرے تو واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر کوئی کلمہ محبت و تعلق اور اکرام و خیراندیشی کے اظہار کے لئے سوچا نہیں جا سکتا ۔ ذرا اس کی معنوی خصوصیات پر غور کیجئے ۔ یہ بہترین اور نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے ، اس کا مطلب ہے کہ اللہ تم کو ہر طرح کی سلامتی نصیب فرمائے ۔ یہ اپنے سے چھوٹوں کے لئے شفقت اور مرحمت اور پیار و محبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لئے اس میں اکرام اور تعظیم بھی ہے ، اور پھر “السَّلَامُ” اسماء الہیہ میں سے بھی ہے ۔ قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال فرمایا گیا ہے ، اور اس میں عنایت اور پیار و محبت کا رس بھرا ہوا ہے ۔ ارشاد ہوا ہے :
سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ....... سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ...... سَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ
اور اہل ایمان کو حکم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کریں : “ السَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِىُّ ” اور ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ : جب ہمارے وہ بندے آپ کے پاس آئیں ۔ جو ایمان لا چکے ہیں ، تو آپ ان سے کہیں کہ : “سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ” (السلام علیکم ! تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے رحمت کا فیصلہ فرما دیا ہے) اور آخرت میں داخلہ جنت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ایمان سے فرمایا جائے گا : “ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ” اور “سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ”
الغرض ملاقات کے وقت کے لئے “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہو سکتا ۔ اگر ملنے والے پہلے بے باہم متعارف اور شناسا ہیں اور ان میں محبت و اخوت یا قرابت کے قسم کا کوئی تعلق ہے تو اس کلمہ میں اس تعلق اور اس کی بناء پر محبت و مسرت اور اکرام و خیراندیشی کا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف اور تعلق نہیں ہے ، تو یہ کلمہ ہی تعلق و اعتماد اور خیرسگالی کا وسیلہ بتنا ہے ، اور اس کے ذریعے ہر ایک دوسرے کو گویا اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیراندیش اور دعاگو ہوں ، اور میرے تمہارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے ۔
بہرحال ملاقات کے وقت “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” اور “وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ” کی تعلیم رسول اللہ ﷺ کی نہایت مبارک تعلیمات میں سے ہے ، اور یہ اسلام کا شعار ہے ، اور اسی لئے آپ ﷺ نے اس کی بڑی تاکید فرمائی اور بڑے فضائل بیان فرمائے یہں ۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی احادیث پڑھئے !

تشریح ..... اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تین نیک کاموں کی ہدایت فرمائی ہے ، اور ان کے کرنے والے کو جنت کی بشارت دی ہے ۔ ایک خداوند رحمن کی عبادت (یعنی بندے پر اللہ کا جو حق ہے اور جو دراصل مقصدِ تخلیق ہے کہ اس کی اور صرف اس کی عبادت کی جائے اور اس کو ادا کیا جائے) دوسرے اطعام طعام ، یعنی اللہ کے محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ اخلاق و محبت کے کھانا کھلایا جائے (جو دلوں کو جورنے اور محبت و الفت پیدا کرنے کا بہترین وسیلہ ہے ، اور بخل جیسی مہلک بیماری کا علاج بھی ہے) تیسرے “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” اور “وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ” کو جو اسلامی شعار ہے اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم فرمایا ہوا دعائیہ کلمہ ہے ، اس کو خوب پھیلایا جائے اور اس کی ایسی کثرت اور ایسی رواج ہو کہ اسلامی دنیاکی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے ۔ ان تین نیک کاموں پر رسول اللہ ﷺ نے بشارت سنائی ہے : “ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ ” (تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤ گے) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اعْبُدُوا الرَّحْمَنَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَأَفْشُوا السَّلاَمَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلاَمٍ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سلام کی فضیلت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ :“حضرت اسلام میں (یعنی اسلامی اعمال میں) وہ کیا چیز (اور کون ساعمل)زیادہ اچھا ہے ؟”آپ ﷺ نے فرمایا:“(ایک)یہ کہ تم اللہ کے بندوں کو کھانا کھلاؤ اور (دوسرے) یہ کہ جس سے جان پہچان ہو اس کو بھی اور جس سے جان پہچان نہ ہو اس کو بھی سلام کرو” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺنے اطعام طعام اور سلام کو خیر اور بہتر قرار دیا ہے ۔ بعض دوسری حدیثوں میں (جو گزر بھی چکی ہیں) دوسرے بعض اعمالِ صالحہ کو مثلا ذکراللہ یا جہاد فی سبیل اللہ کو یا والدین کو خدمت و اطاعت کو “خیر اعمال” اور “افضل اعمال” قرار دیا گیا ہے لیکن جیسا کہ اسی سلسلہ میں بار بار واضح کیا جا چکا ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ آپ ﷺ کے جوابات کا یہ فرق دراصل پوچھنے والوں کی حالت و ضرورت اور موقع محل کے فرق کے لحاظ سے ہے ، اور اسلامی نظامِ حیات میں ان سب ہی اعمال کو مختلف جہتوں سے خاص اہمیت اور عظمت حاصل ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتُقْرِئُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سلام کی فضیلت و اہمیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم جنت میں نہیں جا سکتے تاوقتیکہ پورے مومن نہ ہو جاؤ (اور تمہاری زندگی ایمان والی زندگی نہ ہو جائے) اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم میں باہم محبت نہ ہو جائے ، کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دوں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت و یگانگت پیدا ہو جائے ۔ (وہ یہ ہے کہ) سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں صراحۃً معلوم ہوا کہ ایمان جس پر داخہ جنت کی بشارت ور وعدہ ہے ، وہ صرف کلمہ پڑھ لینے کا اور عقیدہ کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ اتنی وسیع حقیقت ہے کہ اہل ایمان کی باہمی محبت و مودت بھی اس کی لازمی شرط ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بڑے اہتمام کے ساتھ بتلایا ہے کہ ای دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے یہ محبت و مودت دِلوں میں پیدا ہوتی ہے ۔
یہاں یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ کسی عمل کی خاص تاثیر جب ہی ظہور میں آتی ہے جب کہ اس عمل میں روح ہو ، نماز ، روزہ اور حج اور ذکراللہ جیسے اعمال کا حال بھی یہی ہے ۔ بالکل یہی معاملہ سلام اور مصافحہ کا بھی ہے کہ یہ اگر دل کے اخلاص اور ایمانی رشتہ کی بناء پر صحیح جذبہ سے ہوں تو پھر دلوں سے کدورت نکلنے اور محبت و مودت کا رس پیدا ہو جانے کا یہ بہترین وسیلہ ہیں ۔ لیکن آج ہمارا ہر عمل بےروح ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا. أَوَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى شيء إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سلام کا اجر و ثواب
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا “ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ” آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا ، پھر وہ مجلس میں بیٹھ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :“دس (یعنی اس بندے کے لئے اس کے سلام کی وجہ سے دس نیکیاں لکھی گئیں)”پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا : “ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ” آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا ، پھر وہ آدمی بیٹھ گیا تو تو آپ ﷺ نے فرمایا :“بیس (یعنی اس کے لئے بیس نیکیاں لکھی گئیں)”پھر ایک تیسرا آدمی آیا اور اس نے کہا : “ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ” آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ مجلس میں بیٹھ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :“تیس (یعنی اس کے لئے تیس نیکیاں ثابت ہو گئیں)۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
اللہ تعالیٰ کا یہ کریمانہ قانون ہے کہ اس نے ایک نیکی کا اجر اس آخری امت کے لئے دس نیکیوں کے برابر مقرر کیا ہے ۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا : “مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا” اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں جس نے صرف ایک کلمہ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ” کہا تھا ، فرمایا کہ : اس کے لیے دس نیکیاں ثابت ہو گئیں ۔ اور جس شخص نے اس کے ساتھ دوسرے کلمہ “وَرَحْمَةُ اللَّهِ” کا بھی اضافہ کیا ، اس کے لئے آپ فرمایا کہ : بیس نیکیاں ثابت ہو گئیں ۔ اور تیسرے شخص کے لئے جس نے کلمہ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ” کے ساتھ “وَبَرَكَاتُهُ” کا اضافہ کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ :اس کے لیے ۳۰نیکیاں ثابت ہو گئیں ۔ اسی حساب سے سلام کا جواب دینے والا بھی اجر و دثواب کا مستحق ہو گا ۔
اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقینی نصیب فرمائے اور رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصؒ کرنے کے جو راستے ہیں ان کی قدر اور استفادے کی توفیق دے ۔
امام مالکؒ نے ابی بن کعب کے صاحبزادے طفیل کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا ۔ ان کا طریقہ تھا کہ وہ ہمیں ساتھ لے کر بازار جاتے اور جس دکاندار اور جس کباڑئیے اور جس فقیر و مسکین کے پاس سے گزرتے اس کو بس سلام کرتے (اور کچھ خرید و فروخت کے بغیر واپس آ جاتے) ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو معمول کے مطابق مجھے ساتھ لے کربازار جانے لگے میں نے عرض کیا کہ آپ بازار جا کے کیا کریں گے ؟ نہ تو آپ کسی دکان پر کھڑے ہوتے ہیں ، نہ کسی چیز کا سودا کرتے ہیں ، نہ بھاؤ ہی کی بات کرتے ہیں ، اور بازار کی مجلسوں میں بھی نہیں بیٹھتے (پھر آپ بازار کس لئے جائیں ؟) یہیں بیٹھئے ، باتیں ہوں اور ہم استفادہ کریں ! حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ : ہم تو صرف اس غرض اور اس نیت سے بازار جاتے ہیں کہ جو سامنے پڑے اس کو سلام کریں اور ہر سلام پر کم از کم دس نیکیاں کما کر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور بندگانِ خدا کے جوابی سلاموں کی برکتیں حاصل کریں ۔)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ إِنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ. فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَشْرٌ. ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ: عِشْرُونَ. ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ. فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ: ثَلاَثُونَ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سلام کا اجر و ثواب
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندے ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِاللَّهِ مَنْ بَدَأَ بِالسَّلاَمِ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سلام کا اجر و ثواب
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
یعنی سلام میں پہل کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اس بندے کے دل میں تکبر نہیں ہے ۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ سلام میں پہل کرنا کبر کا علاج ہے جو بدترین رزیلہ ہے ، جس پر احادیث میں عذاب نار کی وعید ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا ۔
اس کے بعد چند وہ حدیثین پڑھئے جن میں خاص خاص موقعوں پر سلام کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْبَادِئُ بِالسَّلَامِ بَرِيءٌ مِنَ الْكِبْرِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عندالملاقات ، سلام
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ (خاص) حق ہیں : اول یہ کہ جب ملاقات ہو تو سلام کرے ۔ دوسرے جب وہ مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کرے (بشرطیکہ کوئی شرعی محذور اور مانع نہ ہو) تیسرے جب وہ نصیحت (یا مخلصانہ مشورہ) کا طالب ہو تو اس سے دریغ نہ کرے ، چوتھے جب اس کو چھینک آئے اور وہ “الحمدللہ” کہے تو اس کو یہ کہے “یرحمک اللہ” (جو دعائیہ کلمہ ہے) پانچویں جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے ۔ چھٹے وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر سب سے پہلا حق یہ بتلایا ہے کہ ملاقات ہو تو سلام کرے ، یعنی “السلام علیکم” کہے (حضرت ابو ہریرہؓ ہی کی روایت سے قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث “ اسلامی رشتہ کے چند حقوق” کے زیرِ عنوان) صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالہ سے چند ہی ورق پہلے گزر چکی ہے ۔ وہاں ضروری تشریح بھی کی جا چکی ہے ، اس لئے یہاں اس سے زیادہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ. قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عندالملاقات ، سلام
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کسی کی اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو تو چاہئے کہ اس کو سلام کرے ، اگر اس کے بعد کوئی درخت یا کوئی دیوار یا کوئی پتھر ان دونوں کے درمیان حائل ہو جائے (اور تھوڑی دیر کے لئے ایک دوسرے سے غائب ہو جائیں) اور اس کے بعد پھر سامنا ہو ، تو پھر سلام کرے ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر ملاقات اور سلام کے بعد دو چار سیکنڈ کے لئے بھی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں اور اس کے بعد پھر ملیں تو دوبارہ سلام کیا جائے اور دوسرا اس کا جواب دے ۔ اس حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور شریعت اسلام میں سلام کی کتنی اہمیت ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا لَقِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ فَإِنْ حَالَتْ بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ جِدَارٌ أَوْ حَجَرٌ ثُمَّ لَقِيَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪৯৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اپنے گھر یا کسی مجلس میں آؤ یا جاؤ تو سلام کرو
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیٹا ! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو سلام کرو ، یہ تمہارے لئے بھی باعث برکت ہو گا ، اور تمہارے گھر والوں کے لئے بھی ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَا بُنَيَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى أَهْلِكَ فَسَلِّمْ يَكُونُ بَرَكَةً عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِكَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اپنے گھر یا کسی مجلس میں آؤ یا جاؤ تو سلام کرو
حضرت قتادہ (تابعی) سے (مرسلاً) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی گھر میں جاؤ تو گھر والوں کو سلام کرو ، اور پھر جب گھر سے نکلو اور جانے لگو تو وداعی سلام کر کے نکلو ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا دَخَلْتُمْ بَيْتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهِ، فَإِذَا خَرَجْتُمْ فَأَوْدِعُوا أَهْلَهُ بِسَلَامٍ ". (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اپنے گھر یا کسی مجلس میں آؤ یا جاؤ تو سلام کرو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہئے کہ اولاً اہلِ مجلس کو سلام کرے ، پھر بیٹھنا مناسب سمجھے تو بیٹھ جائے ، پھر جانے لگے تو پھر سلام کرے اور پہلا سلام بعد والے سلامسے اعلیٰ اور بالا نہیں ہے ۔ (یعنی بعد والے رخصتی سلام کا بھی وہی درجہ ہے جو پہلے سلام کا ، اس سے کچھ کم نہیں ۔) (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِّ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى مَجْلِسٍ فَلْيُسَلِّمْ فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ ثُمَّ إِذَا قَامَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الآخِرَةِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سلام کے متعلق کچھ احکام اور ضابطے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : چھوٹا بڑے کو سلام کیا کرے اور راستہ سے گزرنے والے چلنے والا بیٹھے ہوؤں کو سلام کیا کرے ، اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کی جماعت کو سلام کریں ۔ (صحیح بخاری)
(اور حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ سوار آدمی کو چاہئے کہ وہ پیدل چلنے ولے کو سلام کرے) ۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب ایک چھوٹے اور بڑے کی ملاقات ہو تو چھوٹے کو چاہئے کہ وہ پیش قدمی کر کے بڑے کو سلام کرے ۔ اور اسی طرح جب کسی چلنے والے کا گزر کسی بیٹھے ہوئے آدمی پر ہو تو چلنے والے کو چاہئے کہ وہ سلام میں پیش قدمی کرے ، اور اگر دو جماعتوں کی ملاقات ہو تو جس جماعت میں نسبتاً آدمی کم ہوں وہ دوسری زیاد ہ آدمیوں والی جماعت کو سلام کرنے میں پیش قدمی کرے ، اور جو شخص کسی سواری پر جا رہا ہو وہ پیش قدمی کر کے پیدل چلنے والوں کو سلام کرے ۔ اس ہدایت کی یہ حکمت عملی ظاہر ہے کہ سوار کو بظاہر ایک دنیوی بلندی اور بڑائی حاصل ہے اس لئے اس کو حکم دیا گیا کہ وہ پیدل چلنے والوں کو سلام کر کے اپنی بڑائی کی نفی اور تواضع اور خاکساری کا اظہار کرے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ، وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ. (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سلام کے متعلق کچھ احکام اور ضابطے
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کر کے بیان فرمایا کہ گزرنے والی جماعت میں سے اگر کوئی ایک سلام کر لے تو پوری جماعت کی طرف سے کافی ہے ، اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے سلام اور جوابِ سلام کے کچھ احکام اور ضابطے بھی تعلیم فرمائے ہیں ۔ ان کے لئے ذیل کی چند حدیثیں پڑھئے :
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَلِيٍّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ مَرْفُوعًا: " يُجْزِئُ عَنِ الْجَمَاعَةِ إِذَا مَرُّوا أَنْ يُسَلِّمَ أَحَدُهُمْ، وَيُجْزِئُ عَنِ الْجُلُوسِ أَنْ يَرُدَّ أَحَدُهُمْ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بعض حالتوں میں سلام نہ کیا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں سلام کیا جب آپ ﷺ پیشاب کے لیے بیٹھے تھے ۔ تو آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی حالتوں میں سلام نہیں کرنا چاہئے ۔ اور اگر کوئی آدمی ناواقفی سے سلام کرے تو اس کا جواب نہ دینا چاہئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلاً سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلاَمَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بعض حالتوں میں سلام نہ کیا جائے
حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث کے ضمن میں بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو اصحاب صفہ کے پاس تشریف لاتے تو آپ ﷺ اس طرح آہستہ اور احتیاط سے سلام کرتے کہ سونے والے نہ جاگتے اور جاگنے والے سن لیتے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ اس کے سلام سے کسی سونے والے کی آنکھ نہ کھل جائے ، یا اس طرح کی کوئی دوسری اذیت اللہ کے کسی بندے کو نہ پہنچ جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ آداب سیکھنے اوربرتنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ فِىْ حَدِيْثِ طَوِيْلٍ فَيَجِيءُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ عَلَيْنَا تَسْلِيمًا لاَ يُوقِظُ النَّائِمَ وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مصافحہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سلام کا تکملہ مصافحہ ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
ملاقات کے وقت محبت و مسرت اور جذبہ اکرام و احترام کے اظہار کا ایک ذریعہ سلام کےعلاوہ اور اس سے بالاتر مصافحہ بھی ہے جو عموما سلام کے ساتھ اور اس کے بعد ہوتا ہے ۔ اور اس سے سلام کے ان مقاصد کی گویا تکمیل ہوتی ہے ۔ بعض احادیث میں صراحۃً یہی بات فرمائی گئی ہے ۔

(قریب قریب یہی مضمون جامع ترمذی ہی میں ایک دوسری حدیث کے ضمن میں مشہور صحابی حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ اَبِىْ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الأَخْذُ بِاليَدِ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مصافحہ کا اجر و ثواب اور اس کی برکتیں
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمانوں کی ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ کی حمد اور اپنے لئے مغفرت طلب کریں تو ان کی مغفرت ہو ہی جائے گی ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا، وَحَمِدَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَاسْتَغْفَرَاهُ غُفِرَ لَهُمَا» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مصافحہ کا اجر و ثواب اور اس کی برکتیں
عطاء خراسانی سے (بطریق ارسال) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم باہم مصافحہ کرو اس سے کینہ کی صفائی ہوتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے تم میں باہم محبت پیدا ہو گی اور دلوں سے دشمنی دور ہو گی ۔ (موطا امام مالک)
(یہ روایت امام مالک نے اسی طرح عطاء خراسانی سے مرسلا روایت کی ہے یعنی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کو یہ حدیث کس صحابی سے پہنچی ۔ ایسی حدیث کو مرسل کہا جاتا ہے اور اس طریقہ سے روایت کرنے کو ارسال)

تشریح
یہاں بھی اس بات کو یاد کر لیا جائے کہ ہر عمل کی تاثیر اور برکت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس میں روح ہو اور جو دانہ بےجان ہو چکا اس سے پودا نہیں اگتا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَطَاءِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْخُرَاسَانِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: «تَصَافَحُوا يَذْهَبِ الْغِلُّ. وَتَهَادَوْا تَحَابُّوا، وَتَذْهَبِ الشَّحْنَاءُ». (رواه مالك مرسلا)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫০৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ معانقہ و تقبیل اور قیام
ایوب بن بشیر قبیلہ بنو عنزہ کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں اس نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ ملاقات کے وقت آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں جب بھی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور آپ ﷺ سے ملا تو آپ نے ہمیشہ مجھ سے مصافحہ کیا ۔ اور ایک دفعہ آپ ﷺ نے مجھے گھر سے بلوایا میں اس وقت اپنے گھر پر نہیں تھا ، جب میں گھر آیا اور مجھے بتایا گیا (کہ حضور ﷺ نے مجھے بلوایا تھا) تو میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ ﷺ اپنے سریر پر تھے (جو کھجور کی شاخوں سے ایک تخت یا چارپائی کی طرح بنا لیا جاتا ہے) آپ ﷺ (اس سے اٹھ کر) مجھ سے لپٹ گئے اور گلے لگایا ، اور آپ ﷺ کا یہ معانقہ بہت خوب اور بہت ہی خوبصورت تھا (یعنی بڑا لذت بخش اور بہت ہی مبارک تھا) ۔

تشریح
محبت و تعلق کے اظہار کا آخری اور انتہائی ذریعہ معانقہ اور تقبیل (چومنا) ہے ، لیکن اس کی اجازت اسی صورت میں ہے جبکہ موقع محل کے لحاظ سے کسی شرعی مصلحت کے خلاف نہ ہو ، اور اس سے کسی برائی یا اس کے شک شبہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔ جامع ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ : جب اپنے بھائی یا عزیز دوست سے ملاقات ہو تو ، کیا اس کی اجازت ہے کہ اس سے لپٹ جائیں ، اسے گلے لگائیں اور اس کو چومیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ :اس کی اجازت نہیں ہے ۔ اس شخص نے عرض کیا : تو کیا اس کی اجازت ہے کہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیں اور مصافحہ کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اس کی اجازت ہے ۔ اس حدیث اس حدیث سے معانقہ اور تقبیل کی جو ممانعت مفہوم ہوتی ہے اس کے بارے میں شارحین حدیث کی رائے دوسری بہت سی حدیثوں کی روشنی میں یہی ہے کہ اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ سینہ سے لگانے اور چومنے میں کسی برائی یا اسکے شک و شبہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ۔ ورنہ خود رسول اللہ ﷺ سے معانقہ اور تقبیل کے بہت سے واقعات مروی اور ثابت ہیں ۔ ان میں سے بعض ذیل کی حدیثوں سے معلوم ہوں گے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَيُّوبَ بْنِ بُشَيْرِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَنَزَةَ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَافِحُكُمْ إِذَا لَقِيتُمُوهُ؟ قَالَ: «مَا لَقِيتُهُ قَطُّ إِلَّا صَافَحَنِي، وَبَعَثَ إِلَيَّ ذَاتَ يَوْمٍ وَلَمْ أَكُنْ فِي أَهْلِي فَلَمَّا جِئْتُ أُخْبِرْتُ أَنَّهُ أَرْسَلَ لِي، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ عَلَى سَرِيرِهِ فَالْتَزَمَنِي، فَكَانَتْ تِلْكَ أَجْوَدَ وَأَجْوَدَ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৫১০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ معانقہ و تقبیل اور قیام
امام شعبی تابعی سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جعفر بن ابی طالب کا استقبال کیا (جب وہ حبشہ سے واپس آئے ۔ تو آپ ﷺ ان کو لپٹ گئے (یعنی معانقہ فرمایا) اور دونوں آنکھوں کے بیچ میں (ان کی پیشانی کو) بوسہ دیا ۔ (سنن ابی داؤد ، شعب الایمان للبیہقی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَلَقَّى جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَالْتَزَمَهُ، وَقَبَّلَ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ» (رواه ابوداؤد والبيهقى فى شعب الايمان مرسلا)
tahqiq

তাহকীক: