মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৪৭১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (لہذا) نہ خود اس پر ظلم و زیادتی کرے ، نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لئے اس کو بےیار و مددگار چھوڑے ، نہ اس کی تحقیر کرے (حدیث کے رااوی حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ فرمایا) “تقویٰ یہاں ہوتا ہے” ۔ کسی آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ، اور اس کی تحقیر کرے ۔ مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لئے حرام ہے (یعنی اس پر دست دارزی حرام ہے) س کا خون بھی اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ہدایت فرمانے کے ساتھ کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو حقیر و ذلیل نہ سمجھے اور اس کی تحقیر نہ کرے (لا یحقرہ) اپنے سینہ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کر کے جو یہ فرمایا کہ “التقویٰ ھھنا” (تقویٰ یہاں سینہ کے اندر اور باطن میں ہوتا ہے) اس کا مقصد اور مطلب سمجھنے کے لئے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑائی ، چھوٹائی ، عظمت و حقارت اور عزت و ذلت کا دار و مدار “تقویٰ” پر ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے :
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ
اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز اور قابلِ احترام وہ ہے جس میں تقویٰ زیادہ ہے ۔
اور تقویٰ درحقیقت خدا کے خوف اور محاسبہ آخرت کی فکر کا نام ہے ، اور ظاہر ہے کہ وہ دل کے اندر کی اور باطن کی ایک کیفیت ہے ، اور ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی دوسرا آدمی آنکھوں سے دیکھ کر معلوم کر سکے کہ اس آدمی میں تقویٰ ہے یا نہیں ہے ، اس لیے کسی بھی صاحب ایمان کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے ایمان والے کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے ۔ کیا خبر جس کو تم اپنی ظاہری معلومات یا قرائن سے قابلِ تحقیر سمجھتے ہو اس کے باطن میں تقویٰ ہو اور وہ اللہ کے نزدیک مکرم ہو ۔ اس لئے کسی مسلم کے لئے روا نہیں کہ وہ دوسرے مسلم کی تحقیر کرے ۔ آگے آپ ﷺ نے فرمایا کہ :کسی آدمی کے برے ہونے کے لئے تنہا یہی ایک بات کافی ہے کہ وہ اللہ کے کسی بندے کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے ۔
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ہدایت فرمانے کے ساتھ کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو حقیر و ذلیل نہ سمجھے اور اس کی تحقیر نہ کرے (لا یحقرہ) اپنے سینہ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کر کے جو یہ فرمایا کہ “التقویٰ ھھنا” (تقویٰ یہاں سینہ کے اندر اور باطن میں ہوتا ہے) اس کا مقصد اور مطلب سمجھنے کے لئے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑائی ، چھوٹائی ، عظمت و حقارت اور عزت و ذلت کا دار و مدار “تقویٰ” پر ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے :
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ
اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز اور قابلِ احترام وہ ہے جس میں تقویٰ زیادہ ہے ۔
اور تقویٰ درحقیقت خدا کے خوف اور محاسبہ آخرت کی فکر کا نام ہے ، اور ظاہر ہے کہ وہ دل کے اندر کی اور باطن کی ایک کیفیت ہے ، اور ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی دوسرا آدمی آنکھوں سے دیکھ کر معلوم کر سکے کہ اس آدمی میں تقویٰ ہے یا نہیں ہے ، اس لیے کسی بھی صاحب ایمان کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے ایمان والے کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے ۔ کیا خبر جس کو تم اپنی ظاہری معلومات یا قرائن سے قابلِ تحقیر سمجھتے ہو اس کے باطن میں تقویٰ ہو اور وہ اللہ کے نزدیک مکرم ہو ۔ اس لئے کسی مسلم کے لئے روا نہیں کہ وہ دوسرے مسلم کی تحقیر کرے ۔ آگے آپ ﷺ نے فرمایا کہ :کسی آدمی کے برے ہونے کے لئے تنہا یہی ایک بات کافی ہے کہ وہ اللہ کے کسی بندے کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يَخْذُلُهُ وَلاَ يَحْقِرُهُ. التَّقْوَى هَاهُنَا. وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ: بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی ۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے پر اور ہر مسلمان کے ساتھ مخلصانہ خیر خواہی پر ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ کہ رسول اللہ ﷺ سے جب میں نے بیعت کی تھی تو آپ نے خصوصیت کے ساتھ تین باتوں کا مجھ سے عہد لیا تھا ۔ ایک اہتمام سے نماز پڑھنے کا ، دوسرے زکوٰۃ ادا کرنے کا ، تیسرے ہر مسلمان کے ساتھ مخلصانہ تعلق اور اس کے لئے خیر خواہی اور خیر اندیشی کا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو مسلمانوں کے باہمی تعلق کااتنا اہتمام تھا کہ آپ ﷺ نماز اور زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان کے ساتھ اس کی بھی بیعت لیتے تھے ۔
تشریح
مطلب یہ کہ رسول اللہ ﷺ سے جب میں نے بیعت کی تھی تو آپ نے خصوصیت کے ساتھ تین باتوں کا مجھ سے عہد لیا تھا ۔ ایک اہتمام سے نماز پڑھنے کا ، دوسرے زکوٰۃ ادا کرنے کا ، تیسرے ہر مسلمان کے ساتھ مخلصانہ تعلق اور اس کے لئے خیر خواہی اور خیر اندیشی کا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو مسلمانوں کے باہمی تعلق کااتنا اہتمام تھا کہ آپ ﷺ نماز اور زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان کے ساتھ اس کی بھی بیعت لیتے تھے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَرِيرٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس کو مسلمانوں کے مسائل و معاملات کی فکر نہ ہو وہ ان میں سے نہیں ہے اور جس کا یہ حال ہو کہ وہ ہر دن اور ہر صبح و شام اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب پاک قرآنِ مجید اور اس کے امام (یعنی خلیفہ وقت) کا اور عام مسلمانوں کا مخلص و خیرخواہ اور وفادار ہو (یعنی جو کسی وقت بھی اس اخلاص اور وفاداری سے خالی ہو) وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بندے کے اللہ کے نزدیک مسلمان اور مقبول الاسلام ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے معاملات اور ان کے مصائب و مشکلات سے بےپرواہ نہ ہو بلکہ ان کی فکر رکھتا ہو ۔ اسی طرح یہ بھی شرط ہے کہ وہ اللہ و رسول اور کتاب اللہ اور حکومت اسلام اور عوام مسلمین کا ایسا مخلص اور وفادار و خیرخواہ ہو کہ یہ خلوص اس کی زندگی کا جزو بن گئی ہو ، اور اس کی رگ و پے میں اس طرح سرایت کر گئی ہو کہ وہ کسی وقت بھی اس سے خالی نہ ہو سکے ۔ خدا کے لئے ہم غور کریں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی اس قدر اہم ہدایات کو کیسا پس پشت ڈال دیا ہے ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بندے کے اللہ کے نزدیک مسلمان اور مقبول الاسلام ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے معاملات اور ان کے مصائب و مشکلات سے بےپرواہ نہ ہو بلکہ ان کی فکر رکھتا ہو ۔ اسی طرح یہ بھی شرط ہے کہ وہ اللہ و رسول اور کتاب اللہ اور حکومت اسلام اور عوام مسلمین کا ایسا مخلص اور وفادار و خیرخواہ ہو کہ یہ خلوص اس کی زندگی کا جزو بن گئی ہو ، اور اس کی رگ و پے میں اس طرح سرایت کر گئی ہو کہ وہ کسی وقت بھی اس سے خالی نہ ہو سکے ۔ خدا کے لئے ہم غور کریں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی اس قدر اہم ہدایات کو کیسا پس پشت ڈال دیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَا يَهْتَمُّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ , وَمَنْ لَا يُصْبِحُ وَيُمْسِي نَاصِحًا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِإِمَامِهِ وَلِعَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ» (رواه الطبرانى فى الاوسط)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، کوئی بندہ سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کی اس درجہ خیرخواہی کہ جو خیر اور بھلائی اپنے لئے چاہے وہی اس کے لئے بھی چاہے ایمان کے شرائط اور لوازم میں سے ہے ، اور ایمان و اسلام کا جو مدعی اس سے خالی ہے وہ ایمان کی روح و حقیقت اور اس کے برکات سے محروم ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کی اس درجہ خیرخواہی کہ جو خیر اور بھلائی اپنے لئے چاہے وہی اس کے لئے بھی چاہے ایمان کے شرائط اور لوازم میں سے ہے ، اور ایمان و اسلام کا جو مدعی اس سے خالی ہے وہ ایمان کی روح و حقیقت اور اس کے برکات سے محروم ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اسلامی رشتے کے چند خاص حقوق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلم کو دوسرے مسلم پر پانچ حق ہیں ۔ سلام کا جواب دینا ، بیمار کی عیادت کرنا ، جنازے کے ساتھ جانا ، دعوت قبول کرنا اور چھینک آے پر “يرحمك الله” کہہ کے اس کے لئے دعائے رحمت کرنا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی عملی زندگی میں یہ پانچ باتیں ایسی ہیں جن سے دو مسلمانوں کا باہمی تعلق ظاہر ہوتا ہے اور نشوونما بھی پاتا ہے ، اس لئے ان کا خاص طور سے اہتمام کیا جائے ۔ ایک دوسری حدیث میں سلام کا جواب دینے کی جگہ خود سلام کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے ، اور ان پانچ کے علاوہ بعض اور چیزوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں ان پانچ کا ذکر بطور تمثیل کے فرمایا گیا ہے ، ورنہ اور بھی اس درجہ کی چیزیں ہیں جو اسی فہرست میں شامل ہیں ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی عملی زندگی میں یہ پانچ باتیں ایسی ہیں جن سے دو مسلمانوں کا باہمی تعلق ظاہر ہوتا ہے اور نشوونما بھی پاتا ہے ، اس لئے ان کا خاص طور سے اہتمام کیا جائے ۔ ایک دوسری حدیث میں سلام کا جواب دینے کی جگہ خود سلام کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے ، اور ان پانچ کے علاوہ بعض اور چیزوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں ان پانچ کا ذکر بطور تمثیل کے فرمایا گیا ہے ، ورنہ اور بھی اس درجہ کی چیزیں ہیں جو اسی فہرست میں شامل ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ رَدُّ السَّلاَمِ، وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جو (بےتوفیق) مسلمان کسی دوسرے مسلمان بندے کو کسی ایسے موقع پر بےمدد چھوڑے گا جس میں اس کی عزت پر حملہ ہو ، اور اس کی آبرو اتاری جاتی ہو ، تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی ایسی جگہ اپنی مدد سے محروم رکھے گا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہش مند (اور طلبگار) ہو گا ۔ اور جو (باتوفیق مسلمان) کسی مسلمان بندے کی ایسے موقع پر مدد اور حمایت کرے گا جہاں اس کی عزت و آبرو پر حملہ ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر اس کی مدد فرمائے گا جہاں وہ اس کی نصرت کا خواہشمند (اور طلب گار) ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرَ أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ إِلاَّ خَذَلَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي مَوْضِعٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ وَمَا مِنِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلاَّ نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی بددین منافق کے شر سے بندہ مومن کی حمایت کی (مثلا کسی شریر بددین نے کسی مومن بندے پر کوئی الزام لگایا ، اور کسی باتوفیق مسلمان نے اس کی مدافعت کی) تو اللہ تعالیٰ قیامت میں ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جو اس کے گوشت (یعنی جسم) کو آتش دوزخ سے بچائے گا ۔ اور جس کسی نے کسی مسلمان بندے کو بدنام کرنے اور گرانے کے لئے اس پر کوئی الزام لگایا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کے پل پر قید کر دے گا ، اس وقت تک کے لئے کہ وہ اپنے الزام کی گندگی سے پاک صاف نہ ہو جائے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی بندہ مومن کو بدنام رسوا کرنے کے لئے اس پر الزام لگانا اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ایسا سنگین اور اتنا سخت گناہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا اگرچہ مسلمانوں میں سے ہو جہنم کے ایک حصہ پر (جس کو حدیث میں جسر جہنم کہاگیا ہے) اس وقت تک ضرور قید میں رکھا جائے گا جب تک کہ جل بھن کر اپنے اس گناہ کی گندگی سے پاک صاف نہ ہو جائے جس طرح کہ سونا اس وقت تک آگ پر رکھا جاتا ہے جب تک کہ اس کا میل کچیل ختم نہ ہو جائے ۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گناہ اللہ کے ہاں ناقابل معافی ہے ، لیکن آج ہم مسلمانوں کا ، ہمارے خوص تک کا یہ لذیذ ترین مشغلہ ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی بندہ مومن کو بدنام رسوا کرنے کے لئے اس پر الزام لگانا اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ایسا سنگین اور اتنا سخت گناہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا اگرچہ مسلمانوں میں سے ہو جہنم کے ایک حصہ پر (جس کو حدیث میں جسر جہنم کہاگیا ہے) اس وقت تک ضرور قید میں رکھا جائے گا جب تک کہ جل بھن کر اپنے اس گناہ کی گندگی سے پاک صاف نہ ہو جائے جس طرح کہ سونا اس وقت تک آگ پر رکھا جاتا ہے جب تک کہ اس کا میل کچیل ختم نہ ہو جائے ۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گناہ اللہ کے ہاں ناقابل معافی ہے ، لیکن آج ہم مسلمانوں کا ، ہمارے خوص تک کا یہ لذیذ ترین مشغلہ ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَمَى مُؤْمِنًا مِنْ مُنَافِقٍ بَعَثَ اللَّهُ مَلَكًا يَحْمِي لَحْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ وَمَنْ رَمَى مُسْلِمًا بِشَيْءٍ يُرِيدُ شَيْنَهُ بِهِ حَبَسَهُ اللَّهُ عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلم بھائی کی آبرو پر ہونے والے حملہ کا جواب دے (اور اس کی طرف سے مدافعت کرے) تو اللہ تعالیٰ کا یہ ذإہ ہو گا کہ وہ قیامت کے دن آتشِ جہنم کو اس سے دفع کرے ۔ پھر (بطورِ سند کے) آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : “وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ” (اور ہمارے ذمہ ہے ایمان والوں کی مدد کرنا) ۔ (شرح السنہ للامام محی السنہ البغوی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَرُدُّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ إِلا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يَرُدَّ عَنْهُ نَارَ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ: {وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ} (رواه البغوى فى شرح السنة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:جس بندے نے اپنے کسی مسلمان بھائی کے خلاف کی جانے والی غیبت اور بدگوئی کی اس کی عدم موجودگی میں مدافعت اور جواب دہی کی تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ آتشِ دوزخ سے اس کو آزادی بخش دے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ ذَبَّ عَنْ لَحْمِ أَخِيهِ بِالْمَغِيبَةَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُعْتِقَهُ مِنَ النَّارِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مسلمان کی عزت و آبرو کی حفاظت و حمایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے سامنے اس کے کسی مسلم بھائی کی غیبت اور بدگوئی کی جائے اور وہ اس کی نصرت و حمایت کر سکتا ہو اور کرے (یعنی غیبت و بدگوئی کرنے والے کو س سے روکے یا اس کا کواب دے اور مداخلت کرے) تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی مدد فرمائے گا ، اور اگر قدرت حاصل ہونے کے باوجود وہ اس کی نصرت و حمایت نہ کرے (نہ غیبت کرنے والے کو غیبت سے روکے نہ جوابدہی اور مدافعت کرے) تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں س کوتاہی پر پکڑے گا (اور اس کی سزا دے گا) ۔ (شرح السنہ للامام محی السنہ للبغوی)
تشریح
حضرت جابر ، حضرت معاذ بن انس ، حضرت ابو الدرداء ، حضرت اسماء بنت یزید اور حضرت انس رضی اللہ عنہم کی ان پانچوں حدیثوں سے اندازاہ کیا جا سکتا ہے ہے کہ ایک بندہ مسلم کی عزت و آبرو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس قدر محترم ہے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے اس کی حفاظت و حمایت کس درجہ کا فریضہ ہے اور اس میں کوتاہی کس درجہ کا سنگین جرم ہے ۔ افسوس ےہے کہ ہدایت محمدی ﷺ کے اس اہم باب کو امت نے بالکل ہی فراموش کر دیا ہے ۔ بلاشبہ یہ ہمارے ان اجتماعی گناہوں میں سے ہے جن کی پاداش میں ہم صدیوں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہیں ، ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ذلیل ہو رہے ہیں ۔
تشریح
حضرت جابر ، حضرت معاذ بن انس ، حضرت ابو الدرداء ، حضرت اسماء بنت یزید اور حضرت انس رضی اللہ عنہم کی ان پانچوں حدیثوں سے اندازاہ کیا جا سکتا ہے ہے کہ ایک بندہ مسلم کی عزت و آبرو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس قدر محترم ہے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے اس کی حفاظت و حمایت کس درجہ کا فریضہ ہے اور اس میں کوتاہی کس درجہ کا سنگین جرم ہے ۔ افسوس ےہے کہ ہدایت محمدی ﷺ کے اس اہم باب کو امت نے بالکل ہی فراموش کر دیا ہے ۔ بلاشبہ یہ ہمارے ان اجتماعی گناہوں میں سے ہے جن کی پاداش میں ہم صدیوں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہیں ، ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ذلیل ہو رہے ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ اغْتِيبَ عِنْدَهُ أَخُوهُ الْمُسْلِمُ، وَهُوَ يقْدِرُ عَلَى نَصْرِهِ، فَنَصَرَهُ، نَصَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ فَاِنْ لَّمْ يَنْصُرَهُ وَهُوَ يقْدِرُ عَلَى نَصْرِهِ، أَدَرَكَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ». (رواه البغوى فى شرح السنة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے آئینہ ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے ، اور مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے ، اس کے ضرر کو اس سے دفع کرتا ہے اور اس کے پیچھے سے اس کی پاسبانی و نگرانی کرتا ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
تشریح
آئینہ کا یہ کام ہے کہ وہ دیکھنے والے کو اس کے چہرے کا ہر داغ دھبہ اور ہر بدنما نشان دکھا دیتا ہے ، اور صرف اسی کو دکھاتا ہے دوسروں کو نہیں دکھاتا ۔ ایک مومن کے دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کو چاہئے کہ دوسرے بھائی میں جو نامناسب اور قابلِ اصلاح بات دیکھے وہ پورے خلوص اور خیرکواہی کے ساتھ اس کو اس پر مطلع کر دے ، دوسروں میں اس کی تشہیر نہ کرے ۔ آگے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس دینی اخوت کے ناطے سے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر اس پر کوئی آفت اور تباہی آنے والی ہو تو وہ اپنے مقدور بھر اس کو روکنے اور اس کی زد سے اس کو بچانے کی کوشش کرے ، اور جس طرح اپنی کسی عزیز ترین چیز کی ہر طرف سے پاسبانی اور نگرانی کی جاتی ہے اسی طرح اپنے دینی و ایمانی بھائی کی نگرانی اور پاسبانی کرے ۔
تشریح
آئینہ کا یہ کام ہے کہ وہ دیکھنے والے کو اس کے چہرے کا ہر داغ دھبہ اور ہر بدنما نشان دکھا دیتا ہے ، اور صرف اسی کو دکھاتا ہے دوسروں کو نہیں دکھاتا ۔ ایک مومن کے دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کو چاہئے کہ دوسرے بھائی میں جو نامناسب اور قابلِ اصلاح بات دیکھے وہ پورے خلوص اور خیرکواہی کے ساتھ اس کو اس پر مطلع کر دے ، دوسروں میں اس کی تشہیر نہ کرے ۔ آگے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس دینی اخوت کے ناطے سے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر اس پر کوئی آفت اور تباہی آنے والی ہو تو وہ اپنے مقدور بھر اس کو روکنے اور اس کی زد سے اس کو بچانے کی کوشش کرے ، اور جس طرح اپنی کسی عزیز ترین چیز کی ہر طرف سے پاسبانی اور نگرانی کی جاتی ہے اسی طرح اپنے دینی و ایمانی بھائی کی نگرانی اور پاسبانی کرے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ يَكُفُّ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ وَيَحُوطُهُ مِنْ وَرَائِهِ. (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ ایمان کا افضل درجہ کیا ہے ؟ (یعنی ایمان والے اعمال و اخلاق میں وہ کون سے ہیں جن کو فضیلت کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کہ تمہاری محبت و مودت اور تمہاری نفرت و عداوت بس اللہ کے واسطے ہو ، اور تمہاری زبان اللہ کے ذکر میں استعمال ہو ۔ معاذ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اس کے علاوہ اور کیا یا رسول اللہ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : اور یہ کہ تم سب لوگوں کے وہی چاہو اور وہی پسند کرو جو اپنے لئے چاہتے اور پسند کرتے ہو اور اس چیز اور اس حالت کو سب لوگوں کے لئے ناپسند کرو جس کو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو ۔ (مسند احمد)
تشریح
مندرجہ بالا حدیثوں میں مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ تعلق اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں ۔ ذیل میں وہ حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺنے عام انسانوں اور دوسری مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات دی ہیں ۔
تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم میں عام انسانوں کی اس حد تک خیرخواہی و خیر اندیشی اور ان کے ساتھ اتنا خلوص کہ جو اپنے لئے چاہے وہ سب کے لئے چاہے اور جو اپنے لئے نہ چاہے وہ کسی کے لئے بھی نہ چاہے ، اعلی درجہ کے ایمانی اعمال و اخلاق میں سے ہے ۔
تشریح
مندرجہ بالا حدیثوں میں مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ تعلق اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں ۔ ذیل میں وہ حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺنے عام انسانوں اور دوسری مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات دی ہیں ۔
تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم میں عام انسانوں کی اس حد تک خیرخواہی و خیر اندیشی اور ان کے ساتھ اتنا خلوص کہ جو اپنے لئے چاہے وہ سب کے لئے چاہے اور جو اپنے لئے نہ چاہے وہ کسی کے لئے بھی نہ چاہے ، اعلی درجہ کے ایمانی اعمال و اخلاق میں سے ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مُعَاذٍ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَفْضَلِ الْإِيمَانِ قَالَ: «أَنْ تُحِبَّ لِلَّهَ، وَتُبْغِضَ لِلَّهِ، وَتُعْمِلَ لِسَانَكَ فِي ذِكْرِ اللَّهِ» . قَالَ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَأَنْ تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَتَكْرَهَ لَهُمْ مَا تَكْرَهُ لِنَفْسِكَ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس شخص پر اللہ کی رحمت نہ ہو گی ، جو (اس کے پیدا کئے ہوئے) انسانوں پر رحم نہ کھائے گا ، اور ان کے ساتھ ترحم کا معاملہ نہ کرے گا ۔
تشریح
اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے جو دوسرے قابلِ رحم انسانوں کے ساتھ ترحم کا برتاؤ نہ کریں یعنی ان کی تکلیف اور ضرورت کو محسوس کر کے اپنے مقدور کے مطابق ان کی مدد اور خدمت نہ کریں ، بڑی سخت وعید ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ : ایسے لوگ خداوند رحمٰن کی رحمت سے محروم رہیں گے ۔ الفاظ میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ اس کو بددعا سمجھا جائے ، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ ایسے لوگ خدا کی رحمت سے محروم رہیں ۔ واضح رہے کہ چوروں ، ڈاکوؤں اور اس طرح کے دوسرے مجرموں کو سزا دینا اور قاتلوں کو قصاص میں قتل کرنا ، ترحم کی اس تعلیم و ہدایت کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی عوام کے ساتھ ترحم ہی کا تقاضا ہے ۔ اگر مجرموں کو تعزیری قانون کے مطابق سخت سزائیں نہ دی جائیں تو بےچارے عوام ظالموں کے مظالم اور مجرمین کے جرائم کا اور زیادہ نشانہ بنیں گے ۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
اے اہل دانش قصاص کے قانون میں تمہارے لئے زندگی کا سامان ہے ۔
تشریح
اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے جو دوسرے قابلِ رحم انسانوں کے ساتھ ترحم کا برتاؤ نہ کریں یعنی ان کی تکلیف اور ضرورت کو محسوس کر کے اپنے مقدور کے مطابق ان کی مدد اور خدمت نہ کریں ، بڑی سخت وعید ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ : ایسے لوگ خداوند رحمٰن کی رحمت سے محروم رہیں گے ۔ الفاظ میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ اس کو بددعا سمجھا جائے ، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ ایسے لوگ خدا کی رحمت سے محروم رہیں ۔ واضح رہے کہ چوروں ، ڈاکوؤں اور اس طرح کے دوسرے مجرموں کو سزا دینا اور قاتلوں کو قصاص میں قتل کرنا ، ترحم کی اس تعلیم و ہدایت کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی عوام کے ساتھ ترحم ہی کا تقاضا ہے ۔ اگر مجرموں کو تعزیری قانون کے مطابق سخت سزائیں نہ دی جائیں تو بےچارے عوام ظالموں کے مظالم اور مجرمین کے جرائم کا اور زیادہ نشانہ بنیں گے ۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
اے اہل دانش قصاص کے قانون میں تمہارے لئے زندگی کا سامان ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَرْحَمُ اللَّهُ مَنْ لاَ يَرْحَمُ النَّاسَ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اللہ کی مخلوق پر) رحم کھانے والوں اور (ان کے ساتھ) ترحم کا معاملہ کرنے والوں پر خداوند رحمن کی خاص رحمت ہو گی ۔ تم زمین والی مخلوق کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو ، آسمان والا تم پر رحمت فرمائے گا۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں بڑے ہی بلیغ اور موثر انداز میں تمام مخلوق کے ساتھ جس سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے ترحم کی ترغیب دی گئی ہے ، پہلے فرمایا گیا ہے کہ ترحم کرنے والوں پر خدا کی رحمت ہو گی ، اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم کدا کی زمینی مخلوق کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرو ، آسمان والا (رب العرش) تم پر رحمت کرے گا ۔
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لئے “مَنْ فِي السَّمَاءِ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے کہ “وہ جو آسمان میں ہے” ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان سے وہ نسبت نہیں ہے جو ایک مکین کو اپنے خاص رہائشی مکان سے ہوتی ہے ، آسمان بھی زمین اور دوسری مخلوق کی طرح اس کی ایک مخلوق ہے وہ “ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ” ہے ، اور اس کی خالقیت اور الوہیت و ربوبیت کا دونوں سے یکساں تعلق ہے ۔ (وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ) (1)
اس کے باوجود فوقیت اور بالاتری کے لحاظ سے اس کی نوعیت اور کیفیت جانتا ہے ، اسی نسبت کے اعتبار سے اس حدیث میں “مَنْ فِي الأَرْضِ” کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے “مَنْ فِي السَّمَاءِ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
تشریح
اس حدیث میں بڑے ہی بلیغ اور موثر انداز میں تمام مخلوق کے ساتھ جس سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے ترحم کی ترغیب دی گئی ہے ، پہلے فرمایا گیا ہے کہ ترحم کرنے والوں پر خدا کی رحمت ہو گی ، اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم کدا کی زمینی مخلوق کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرو ، آسمان والا (رب العرش) تم پر رحمت کرے گا ۔
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لئے “مَنْ فِي السَّمَاءِ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے کہ “وہ جو آسمان میں ہے” ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان سے وہ نسبت نہیں ہے جو ایک مکین کو اپنے خاص رہائشی مکان سے ہوتی ہے ، آسمان بھی زمین اور دوسری مخلوق کی طرح اس کی ایک مخلوق ہے وہ “ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ” ہے ، اور اس کی خالقیت اور الوہیت و ربوبیت کا دونوں سے یکساں تعلق ہے ۔ (وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ) (1)
اس کے باوجود فوقیت اور بالاتری کے لحاظ سے اس کی نوعیت اور کیفیت جانتا ہے ، اسی نسبت کے اعتبار سے اس حدیث میں “مَنْ فِي الأَرْضِ” کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے “مَنْ فِي السَّمَاءِ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ. (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ساری مخلوق اللہ کی عیال (گویا اس کا کنبہ) ہے اس لئے اللہ کو زیادہ محبوب اپنی مخلوق میں وہ آدمی ہے جو اللہ کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
آدمی کے “عیال” ان کو کہا جاتا ہے جن کی زندگی کی ضروریات کھانے ، کپڑے وغیرہ کا وہ کفیل ہو ۔ بلاشبہ اس لحاظ سئ ساری مخلوق اللہ کی “عیال” ہے ، وہی سب کا پروردگار اور روزی رساں ہے ۔ اس نسبت سے جو آدمی اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا ، اس حدیث میں فرمایا گیا ہے ک وہ اس کی محبت اور پیار کا مستحق ہو گا ۔
تشریح
آدمی کے “عیال” ان کو کہا جاتا ہے جن کی زندگی کی ضروریات کھانے ، کپڑے وغیرہ کا وہ کفیل ہو ۔ بلاشبہ اس لحاظ سئ ساری مخلوق اللہ کی “عیال” ہے ، وہی سب کا پروردگار اور روزی رساں ہے ۔ اس نسبت سے جو آدمی اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا ، اس حدیث میں فرمایا گیا ہے ک وہ اس کی محبت اور پیار کا مستحق ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ وَ عَبْدِ اللهِ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْخَلْقُ عِيَالُ اللهِ، فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللهِ مَنْ أَحْسَنَ إِلَى عِيَالِهِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت سہیل بن الحنظلیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ (بھوک کی وجہ سے) اس کی کمر سے لگ گیا تھا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا لوگو ! ان بےزبان جانوروں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو ! (ان کو اس طرح بھوکا نہ مارو) ان پر سوار ہو تو ایسی حالت میں جب یہ ٹھیک ہوں (یعنی ان کا پیٹ بھرا ہو) اور ان کو چھوڑو تو (اسی طرح کھلا پلا کر) اچھی حالت میں ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ سَهْلِ ابْنِ الْحَنْظَلِيَّةِ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ فَقَالَ: اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ فَارْكَبُوهَا وَكُلُوهَا صَالِحَةً. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نظر ایک گدھے پر پڑی جس کے چہرے پر داغ دے کر نشان بنایا گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص خدا کی رحمت سے محروم ہے جس نے یہ (بےرحمی کا) کام کیا ہے ۔ (مسند احمد)
تشریح
اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے (اور آپ ﷺ سے پہلے آنے والے نبیوں ، رسولوں نے بھی) اس کی اجازت دی ہے کہ جو جانور سواری یا باربرداری کے لئے یا کسی دوسرے کام کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ان سے وہ کام لئے جائیں ۔ اسی طرح جن جانوروں کو حلال طیب قرار دیا گیا ہے ان کو اللہ کی نعمت سمجھتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق غذا میں استعمال کیا جائے ، لیکن اسی کے ساتھ آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ ان کے ساتھ ایذاء رسانی اور بےرحمی کا برتاؤ نہ کیا جائے ، اور ان کے معاملہ میں بھی خدا سے ڈرا جائے ۔
تشریح ..... دنیا کے بہت سے حصوں میں گھوڑون ، گدھوں جیسے جانوروں کی پہچان کے لئے ان کے جسم کے کسی حصہ پر گرم لوہے سے داغ دے کر نشان بنا دیا جاتا تھا ، اب بھی کہیں کہیںاس کا رواج ہے لیکن س مقصد کے لئے چہرے کو داغنا (جو جانور کے سارے جسم میں سب سے زیادہ نازک اور حساس عضو ہے) بڑی بےرحمی اور گنوار پنے کی بات ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے ایک گدھے کو دیکھا جس کا چہرہ داغا گیا تھا تو آپ ﷺ کو سخت دکھ ہوا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا” (یعنی اس پر خدا کی لعنت جس نے یہ کیا ہے) ظاہر ہے کہ یہ انتہائی درجہ کی ناراضی اور بےزاری کا کلمہ تھا ، جو ایک گدھے کے ساتھ بےرحمی کا معاملہ کرنے والے کے لئے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ۔
دنیا نے “انسداد بےرحمی” کو اب اپنی ذمہ داری سمجھا ہے ، لیکن اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے اب سے چودہ سو برس پہلے اس کی طرف رہنمائی فرمائی تھی اور اس پر روز دیا تھا ۔
تشریح
اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے (اور آپ ﷺ سے پہلے آنے والے نبیوں ، رسولوں نے بھی) اس کی اجازت دی ہے کہ جو جانور سواری یا باربرداری کے لئے یا کسی دوسرے کام کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ان سے وہ کام لئے جائیں ۔ اسی طرح جن جانوروں کو حلال طیب قرار دیا گیا ہے ان کو اللہ کی نعمت سمجھتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق غذا میں استعمال کیا جائے ، لیکن اسی کے ساتھ آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ ان کے ساتھ ایذاء رسانی اور بےرحمی کا برتاؤ نہ کیا جائے ، اور ان کے معاملہ میں بھی خدا سے ڈرا جائے ۔
تشریح ..... دنیا کے بہت سے حصوں میں گھوڑون ، گدھوں جیسے جانوروں کی پہچان کے لئے ان کے جسم کے کسی حصہ پر گرم لوہے سے داغ دے کر نشان بنا دیا جاتا تھا ، اب بھی کہیں کہیںاس کا رواج ہے لیکن س مقصد کے لئے چہرے کو داغنا (جو جانور کے سارے جسم میں سب سے زیادہ نازک اور حساس عضو ہے) بڑی بےرحمی اور گنوار پنے کی بات ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے ایک گدھے کو دیکھا جس کا چہرہ داغا گیا تھا تو آپ ﷺ کو سخت دکھ ہوا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا” (یعنی اس پر خدا کی لعنت جس نے یہ کیا ہے) ظاہر ہے کہ یہ انتہائی درجہ کی ناراضی اور بےزاری کا کلمہ تھا ، جو ایک گدھے کے ساتھ بےرحمی کا معاملہ کرنے والے کے لئے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ۔
دنیا نے “انسداد بےرحمی” کو اب اپنی ذمہ داری سمجھا ہے ، لیکن اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے اب سے چودہ سو برس پہلے اس کی طرف رہنمائی فرمائی تھی اور اس پر روز دیا تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارًا قَدْ وُسِمَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا»
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایک بدچلن عورت کی اسی عمل پر بخشش ہو گئی کہ وہ ایک کتے کے پاس سے گزری جو ایک کنویں کے پاس اس حالت میں (چکر کاٹ رہا) تھا کہ اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور وہ ہانپ رہا تھا کہ پیاس سے مر جائے ۔ اس عورت نے (ڈول رسی نہ ہونے کی وجہ سے) پاؤں سے اپنا چمڑے کا موزہ اتارا پھر اپنی اوڑھنی میںٰ (کسی طرح) اس کو باندھا اور اس پیاسے کتے کے لئے (کنویں سے)پانی نکالا (اور پلایا) تو اس پر اس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ : کیا جانور (کے کھلانے پلانے) میں بھی ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : بےشک ہر زندہ جانور کے کھلانے پلانے میں ثواب ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ظاہر ہے کہ اس بدچلن عورت کے اس واقعہ کا ذکر کرنے سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد صرف واقعہ سنا دینا نہ تھا ، بلکہ یہ سبق دینا تھا کہ کتے جیسی مخلوق کے ساتھ بھی اگر ترحم کا برتاؤ کیا جائے تو وہ خدا وند قدوس کی رحمت و مغفرت کا باعث ہو گا اور بندہ اس کا اجر و ثواب پائے گا ۔
قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث جس میں عورت کے بجائے اس راستہ چلتے مسافر کا اسی طرح کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی کے حوالہ سے اسی سلسلہ معارف الحدیث میں اب سے بہت پہلے (کتاب الاخلاق میں رحم دلی کے زیر عنوان) درج ہو چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح میں بہت تفصیل سے کلام کیا جا چکا ہے اور اس سوال کا جواب بھی دیا جا چکا ہے کہ صرف ایک کتے کو پانی پلا دینا کیونکر ایک گنہگار آدمی کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے ، اور اس میں کیا راز (1) ہے ۔ اس حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ کتے جیسے جانوروں کے ساتھ بھی ہمارا برتاؤ ترحم کا ہونا چاہئے ۔
تشریح
ظاہر ہے کہ اس بدچلن عورت کے اس واقعہ کا ذکر کرنے سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد صرف واقعہ سنا دینا نہ تھا ، بلکہ یہ سبق دینا تھا کہ کتے جیسی مخلوق کے ساتھ بھی اگر ترحم کا برتاؤ کیا جائے تو وہ خدا وند قدوس کی رحمت و مغفرت کا باعث ہو گا اور بندہ اس کا اجر و ثواب پائے گا ۔
قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث جس میں عورت کے بجائے اس راستہ چلتے مسافر کا اسی طرح کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی کے حوالہ سے اسی سلسلہ معارف الحدیث میں اب سے بہت پہلے (کتاب الاخلاق میں رحم دلی کے زیر عنوان) درج ہو چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح میں بہت تفصیل سے کلام کیا جا چکا ہے اور اس سوال کا جواب بھی دیا جا چکا ہے کہ صرف ایک کتے کو پانی پلا دینا کیونکر ایک گنہگار آدمی کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے ، اور اس میں کیا راز (1) ہے ۔ اس حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ کتے جیسے جانوروں کے ساتھ بھی ہمارا برتاؤ ترحم کا ہونا چاہئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غُفِرَ لاِمْرَأَةٍ مُومِسَةٍ مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، قَالَ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ، فَنَزَعَتْ خُفَّهَا، فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا، فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ الْمَاءِ، فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ. قِيْلَ إِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ أَجْرًا؟ قَالَ: فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৮৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی مسلم بندہ کسی درخت کا پودا لگائے یا کھیتی کرے ، پھر کوئی انسان یا کوئی پرندہ یا چوپایہ اس درخت یا کھیتی میں سے کھائے ، تو یہ اس بندے کی طرف سے صدقہ اور کارِ ثواب ہو گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث کا بھی پیغام اور سبق یہی ہے کہ انسانوں کے علاوہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے سب جانوروں ، پرندوں اور چوپایوں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ اور کار ثواب ہے ۔ اس کے برعکس مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہو گا کہ کسی جانور کو بلاوجہ ستانا اور اس کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرنا سخت گناہ ہے ، جو آدمی کو عذاب خداوندی کا مستحق بنا دیتا ہے ۔
تشریح
اس حدیث کا بھی پیغام اور سبق یہی ہے کہ انسانوں کے علاوہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے سب جانوروں ، پرندوں اور چوپایوں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ اور کار ثواب ہے ۔ اس کے برعکس مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہو گا کہ کسی جانور کو بلاوجہ ستانا اور اس کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرنا سخت گناہ ہے ، جو آدمی کو عذاب خداوندی کا مستحق بنا دیتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلاَّ كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৯০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جانوروں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی ہدایت
حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے دونوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایک ظاہم عورت کو ایک بلی کو (نہایت ظالمانہ طریقہ سے) مار ڈالنے کے جرم میں عذاب دیا گیا ہے ۔ اس نے اس بلی کو بند کر لیا ، پھر نہ تو خود اسے کچھ کھانے دیا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ حشرات الارض سے اپنا پیٹ بھر لیتی (اس طرح اسے بھوکا تڑپا تڑپا کے ماڑ ڈالا ۔ اس کی سزا اور پاداش میں وہ عورت عذاب میں ڈالی گئی ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ چند حدیثیں یہ جاننے کے لئے کافی ہیں کہ جانوروں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور تعلیم کیا ہے اور یہ اس کے بالکل منافی نہیں ہے کہ سانپ ، بچھو جیسے موذی جانوروں کو مار ڈالنے کا خود آپ ﷺ نے حکم دیا ہے ، اور حرم میں بھی ان کے مار دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔ یہ بھی دراصل اللہ کی مخلوق اور اس کے بندوں کے ساتھ خیرخواہی کا تقاضا ہے ۔
تشریح
یہ چند حدیثیں یہ جاننے کے لئے کافی ہیں کہ جانوروں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور تعلیم کیا ہے اور یہ اس کے بالکل منافی نہیں ہے کہ سانپ ، بچھو جیسے موذی جانوروں کو مار ڈالنے کا خود آپ ﷺ نے حکم دیا ہے ، اور حرم میں بھی ان کے مار دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔ یہ بھی دراصل اللہ کی مخلوق اور اس کے بندوں کے ساتھ خیرخواہی کا تقاضا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَا: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ اَمْسَكْتَهَا، حَتَّى مَاتَتْ مِنَ الْجُوعِ، فَلَمْ تَكُنْ تُطْعِمُهَا وَلاَ تُرْسِلُهَا فَتَاكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক: