মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৪৫১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز جوڑے عطا فرمائے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں اپنی (یا کوئی مشروب) پلائے اللہ تعالیٰ اس کو نہایت نفیس (جنت کی) شراب طہور پلائے گا ، جس پر غیبی مہر لگی ہو گی ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَامُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا عَلَى عُرْيٍ، كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ أَطْعَمَ مُسْلِمًا عَلَى جُوعٍ، أَطْعَمَهُ اللَّهُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ سَقَى مُسْلِمًا عَلَى ظَمَإٍ، سَقَاهُ اللَّهُ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ» (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ، بیماروں کی خبر لو (اور دیکھ بھال کرو) اور اسیروں قیدیوں کو رہائی دلانے کی کوشش کرو ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
اس حدیث میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کے علاوہ مریضوں کی عیادت اور قیدیوں کو رہا کرانے کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے ۔ “عیادت” کے متعلق یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ہمارے عرف اور محاورہ میں عیادت کا مطلب صرف بیمار پرسی (یعنی مریض کا حال دریافت کرنا) سمجھا جاتا ہے لیکن عربی زبان میں اس کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے اور بیمار پرسی اور خبر گیری کے علاوہ تیمار داری بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔ اس لئے اس حدیث میں مریضوں کی عیادت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب صرف بیمار پرسی نہیں ، بلکہ تیمار داری اور حسب استطاعت دوا علاج کی فکر بھی اس میں شامل ہے ۔ اسی طرح قیدیوں کو رہا کرانے کا جو حکم اس حدیث میں دیا گیا ہے اس کے بارے میں بھی یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس سے وہی اسیران بلا مراد ہیں جو ناحق قید میں رکھے گئے ہوں یا کم از کم ان کے رہا ہو جانے سے خیر کی امید ہو ، بلاشبہ ایسے گرفتار ان بلا کا رہا کرانا اور ان کو آزادی دلانا بڑا کارثواب ہے ۔
تشریح
اس حدیث میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کے علاوہ مریضوں کی عیادت اور قیدیوں کو رہا کرانے کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے ۔ “عیادت” کے متعلق یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ہمارے عرف اور محاورہ میں عیادت کا مطلب صرف بیمار پرسی (یعنی مریض کا حال دریافت کرنا) سمجھا جاتا ہے لیکن عربی زبان میں اس کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے اور بیمار پرسی اور خبر گیری کے علاوہ تیمار داری بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔ اس لئے اس حدیث میں مریضوں کی عیادت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب صرف بیمار پرسی نہیں ، بلکہ تیمار داری اور حسب استطاعت دوا علاج کی فکر بھی اس میں شامل ہے ۔ اسی طرح قیدیوں کو رہا کرانے کا جو حکم اس حدیث میں دیا گیا ہے اس کے بارے میں بھی یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس سے وہی اسیران بلا مراد ہیں جو ناحق قید میں رکھے گئے ہوں یا کم از کم ان کے رہا ہو جانے سے خیر کی امید ہو ، بلاشبہ ایسے گرفتار ان بلا کا رہا کرانا اور ان کو آزادی دلانا بڑا کارثواب ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَطْعِمُوا الجَائِعَ، وَعُودُوا المَرِيضَ، وَفُكُّوا العَانِيَ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرزند آدمؑ سے فرمائے گا کہ اے ابن آدم میں بیمار پڑا تھا تونے میری خبر نہیں لی ؟ بندہ عرض کرے گا : اے میرے مالک اور پروردگار ! میں کیسے تیری تیمارداری یا بیمار پرسی کر سکتا تھا تو تو رب العالمین ہے (بیماری کا تجھ سے کیا واسطہ اور تیری بارگاہ میں اس کا کہاں گزر) ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے علم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تھا تو نے اس کی عیادت نہیں کی اور خبر نہیں لی ؟ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اس کی خبر لیتا اور تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا ؟ اے ابنِ آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے مجھے نہیں کھلایا ؟ بندہ عرض کرے گا : (خدا وندا !) میں تجھے کیسے کھانا کھلا سکتا تھا تو تو رب العالمین ہے (تجھے کھانے سے کیا واسطہ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے اس کو کھانا نہیں دیا ، کیا تجھے علم نہیں ہے کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا ۔
اے ابن آدم میں نے پینے کے لئے تجھ سے (پانی) مانگا تھا تونے مجھے نہیں پلایا ؟ بندہ عرض کرے گا : میں تجھے پانی کیسے پلاتا تو تو رب العالمین ہے تجھے پینے سے کیا واسطہ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پینے کے لئے پانی مانگا تھا تو نے اس کو نہیں پلایا اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں موثر اور غیر معمولی انداز میں کسمپرس بیماروں کی عیادت و تیمارداری اور بھوکوں ، پیاسوں کو کھلانے پلانے کی ترغیب دی گئی ہے اس میں غور کرنے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت میں ان معاشرتی اعمال اور حاجت مندوں کی خدمت و اعانت کی کس قدر اہمیت ہے اور ان کا درجہ کتنا بلند ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ جو کسی حاجت مند اور بیمار کی عیادت کرے گا وہ خدا کو اس کے پاس پائے گا اور اسے خدا مل جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ۔
اے ابن آدم میں نے پینے کے لئے تجھ سے (پانی) مانگا تھا تونے مجھے نہیں پلایا ؟ بندہ عرض کرے گا : میں تجھے پانی کیسے پلاتا تو تو رب العالمین ہے تجھے پینے سے کیا واسطہ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پینے کے لئے پانی مانگا تھا تو نے اس کو نہیں پلایا اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں موثر اور غیر معمولی انداز میں کسمپرس بیماروں کی عیادت و تیمارداری اور بھوکوں ، پیاسوں کو کھلانے پلانے کی ترغیب دی گئی ہے اس میں غور کرنے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت میں ان معاشرتی اعمال اور حاجت مندوں کی خدمت و اعانت کی کس قدر اہمیت ہے اور ان کا درجہ کتنا بلند ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ جو کسی حاجت مند اور بیمار کی عیادت کرے گا وہ خدا کو اس کے پاس پائے گا اور اسے خدا مل جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ، فَلَمْ تَسْقِنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي " (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غلوموں اور زیرِ دستوں کے بارے میں ہدایت: غلاموں کے بنیادی حقوق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : طعام اور لباس غلام کا حق ہے ، اور یہ بھی اس کا حق ہے کہ اسے ایسے سخت کام کی تکلیف نہ دی جائے جس کا وہ متحمل نہ ہو سکے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں مبعوث ہوئے تو عرب میں بلکہ قریب قریب اس پوری دنیا میں جس کی تاریخ معلوم ہے غلاموں کا طبقہ موجود تھا ۔ فاتح قومیں مفتوح قوموں کے افراد کو غلام بنا لیتی تھیں ، پھر وہ ان کی ملکیت ہو جاتے تھے ، ان سے جانوروں کی طرح محنت و مشقت کے کام لئے جاتے تھے ، اور ان کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک طرف تو غلاموں کو آزاد کرنے کو بہت سے گناہوں کا کفارہ اور بہت بڑا کارِ ثواب قرار دیا اور طرح طرح سے اس کی ترغیب دی ، دوسری طرف ہدایت فرمائی کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے ، ان پر محنت و مشقت کا زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ، ان کے طعام لباس جیسی بنیادی ضرورتوں کا مناسب انتظام کیا جائے ، بلکہ حکم دیا کہ جو گھر میں کھایا جائے وہی اس کو کھلایا جائے ، جیسا کپڑا خود پہنا جائے ویسا ہی ان کو پہنایا جائے ، ان کے معاملے میں خدا کے محاسبہ اور مواخذہ سے ڈرا جائے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ ان ہدایات اور تعلیمات نے غلاموں کی دنیا ہی بدل دی ، پھر تو ان میں سے ہزاروں امت کے ائمہ اور پیشوا تک ہوئے ، ہزاروں حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے ، ان کی حکومتیں تک قائم ہوئیں ۔ یہ سب اس ہدایت و تعلیم ہی کے نتائج تھے جو انسانیت کے اس مظلوم و ناتواں طبقہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دی تھی ، اور پھر ساری دنیا اس سے متاثر ہوئی ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھی جائیں ۔
تشریح ..... اس حدیث میں صرف یہ فرمایا گیا ہے کہ طعام و لباس غلام کا حق ہے ۔ آقا کی یہ ذمہ داری ہے کہ س کا یہ حق ادا ہو ، اسے ضرورت بھر کھانا اور کپڑا دیا جائے ۔
آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ اسے وہی کھانا کھلایا جائے جو گھر میں کھایا جائے ، وہی لباس پہنایا جائے جو خود پہنا جائے ۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ : اس پر کام کا بےجا بوجھ نہ ڈالا جائے ، اتنا ہی کام لیا جائے جتنا وہ کر سکے ۔ یہ گویا غلاموں کے بنیادی حقوق ہیں ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں مبعوث ہوئے تو عرب میں بلکہ قریب قریب اس پوری دنیا میں جس کی تاریخ معلوم ہے غلاموں کا طبقہ موجود تھا ۔ فاتح قومیں مفتوح قوموں کے افراد کو غلام بنا لیتی تھیں ، پھر وہ ان کی ملکیت ہو جاتے تھے ، ان سے جانوروں کی طرح محنت و مشقت کے کام لئے جاتے تھے ، اور ان کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک طرف تو غلاموں کو آزاد کرنے کو بہت سے گناہوں کا کفارہ اور بہت بڑا کارِ ثواب قرار دیا اور طرح طرح سے اس کی ترغیب دی ، دوسری طرف ہدایت فرمائی کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے ، ان پر محنت و مشقت کا زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ، ان کے طعام لباس جیسی بنیادی ضرورتوں کا مناسب انتظام کیا جائے ، بلکہ حکم دیا کہ جو گھر میں کھایا جائے وہی اس کو کھلایا جائے ، جیسا کپڑا خود پہنا جائے ویسا ہی ان کو پہنایا جائے ، ان کے معاملے میں خدا کے محاسبہ اور مواخذہ سے ڈرا جائے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ ان ہدایات اور تعلیمات نے غلاموں کی دنیا ہی بدل دی ، پھر تو ان میں سے ہزاروں امت کے ائمہ اور پیشوا تک ہوئے ، ہزاروں حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے ، ان کی حکومتیں تک قائم ہوئیں ۔ یہ سب اس ہدایت و تعلیم ہی کے نتائج تھے جو انسانیت کے اس مظلوم و ناتواں طبقہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دی تھی ، اور پھر ساری دنیا اس سے متاثر ہوئی ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھی جائیں ۔
تشریح ..... اس حدیث میں صرف یہ فرمایا گیا ہے کہ طعام و لباس غلام کا حق ہے ۔ آقا کی یہ ذمہ داری ہے کہ س کا یہ حق ادا ہو ، اسے ضرورت بھر کھانا اور کپڑا دیا جائے ۔
آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ اسے وہی کھانا کھلایا جائے جو گھر میں کھایا جائے ، وہی لباس پہنایا جائے جو خود پہنا جائے ۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ : اس پر کام کا بےجا بوجھ نہ ڈالا جائے ، اتنا ہی کام لیا جائے جتنا وہ کر سکے ۔ یہ گویا غلاموں کے بنیادی حقوق ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِلْمَمْلُوكِ طَعَامُهُ وَكِسْوَتُهُ، وَلَا يُكَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا يُطِيقُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ یہ غلام تمہارے بھائی ہیں ، ان سے برادرانہ سلوک کیا جائے
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (یہ بیچارے غلام) تمہارے بھائی ہیں ، اللہ نے ان کو تمہارا زیرِ دست (محکوم) بنا دیا ہے ، تو اللہ جس کے زیرِ دست (اور تحت حکم) اس کے کسی بھائی کو کر دے تو اس کو چاہئے کہ اس کو وہ کھلائے جو خود کھاتا ہے ، اور وہ پہنائے جو خود پہنتا ہے ، اور اس کو ایسے کام کا مکلف نہ کرے جو اس کے لئے بہت بھاری ہو ، اور اگر ایسے کام کا مکلف کرے تو پھر اس کام میں خود اس کی مدد کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں ہر غلام کو اس کے آقا کا بھائی بتایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے تحت میں کر دیا ہے ۔ اس تعبیر میں اس مظلوم طبقہ کے ساتھ حسن سلوک کی جتنی موثر اپیل ہے وہ ظاہر ہے ۔ غلام اور آقا کو بھائی غالبا اسی بناء پر قررار دیا گیا ہے کہ دونوں بہرحال آدم و حوا کی اولاد ہیں ۔ ؎
بنی آدم اعضائے یکد یگرند
کہ در آفرینش ز یک جوہر اند
پھر اسی تعلق اور رشتہ کی بنیاد پر فرمایا گیا ہے کہ جب تمہارا غلام اور خادم تمہارا بھائی ہے تو اس کے ساتھ وہی برتاؤ ہونا چاہئے جو بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے اسے وہی کھلایا اور پہنایا جائے جو خود کھایا اور پہنا جائے ۔
تشریح
اس حدیث میں ہر غلام کو اس کے آقا کا بھائی بتایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے تحت میں کر دیا ہے ۔ اس تعبیر میں اس مظلوم طبقہ کے ساتھ حسن سلوک کی جتنی موثر اپیل ہے وہ ظاہر ہے ۔ غلام اور آقا کو بھائی غالبا اسی بناء پر قررار دیا گیا ہے کہ دونوں بہرحال آدم و حوا کی اولاد ہیں ۔ ؎
بنی آدم اعضائے یکد یگرند
کہ در آفرینش ز یک جوہر اند
پھر اسی تعلق اور رشتہ کی بنیاد پر فرمایا گیا ہے کہ جب تمہارا غلام اور خادم تمہارا بھائی ہے تو اس کے ساتھ وہی برتاؤ ہونا چاہئے جو بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے اسے وہی کھلایا اور پہنایا جائے جو خود کھایا اور پہنا جائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِخْوَانُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ أَخَاهُ تَحْتَ يَدِهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ يُكَلِّفُهُ مِنَ العَمَلِ مَا يَغْلِبُهُ، فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غلام یا نوکر جو کھانا بنائے اس میں اس کو ضرور کھلایا جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لئے کھانا تیار کرے ، پھر وہ اس کے پاس لے کر آئے اور اس نے اس کے پکانے اور بنانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھا لی ہے ۔ تو آقا کو چاہئے کہ کھانا تیار کرنے والے اس خادم کو بھی کھانے میں اپنے ساتھ بٹھا لے اور وہ بھی کھا لے ۔ پس اگر (کبھی) وہ کھانا تھوڑا ہو (جو دونوں کے لئے کافی نہ ہو سکے) تو آقا کو چاہئے کہ اس کھانے میں سے دو ایک لقمے ہی اس خادم کو دے دے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جن گھروں میں غلام یا باندیاں ہوتی تھیں کھانے پکانے ، جیسے خدمت کے کام انہی سے لئے جاتے تھے ۔ ان کے بارے میں آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جب وہ کھانا پکا کے لائیں تو ان کو اس میں سے کچھ حصہ ضرور دو کیوں کہ انہوں نے اس کے پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف برداشت کی ہے ۔ ہمارے زمانے میں اسی بنیاد پر یہی حکم کھانا پکانے والے نوکروں اور نوکرانیوں کے لئے ہو گا ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جن گھروں میں غلام یا باندیاں ہوتی تھیں کھانے پکانے ، جیسے خدمت کے کام انہی سے لئے جاتے تھے ۔ ان کے بارے میں آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جب وہ کھانا پکا کے لائیں تو ان کو اس میں سے کچھ حصہ ضرور دو کیوں کہ انہوں نے اس کے پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف برداشت کی ہے ۔ ہمارے زمانے میں اسی بنیاد پر یہی حکم کھانا پکانے والے نوکروں اور نوکرانیوں کے لئے ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا صَنَعَ لِأَحَدِكُمْ خَادِمُهُ طَعَامَهُ، ثُمَّ جَاءَهُ بِهِ، وَقَدْ وَلِيَ حَرَّهُ وَدُخَانَهُ، فَلْيُقْعِدْهُ مَعَهُ، فَلْيَأْكُلْ، فَإِنْ كَانَ الطَّعَامُ مَشْفُوهًا قَلِيلًا، فَلْيَضَعْ فِي يَدِهِ مِنْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غلاموں کی غلطیوں اور قصوروں کو معاف کیا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اپنے خادم اور غلام کی غلطیاں کس حد تک ہمیں معاف کر دینا چاہئیں ۔ آپ ﷺ نے سکوت فرمایا (اور کوئی جواب نہیں دیا) اس شخص نے دوبارہ آپ ﷺ کی خدمت میں یہی عرض کیا ۔ آپ ﷺ پھر خاموش رہے ، اور جواب میں کچھ نہیں فرمایا ۔ پھر جب تیسری دفعہ اس نے عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہر روز ستر دفعہ ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
پہلی اور دوسری دفعہ جو آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار فرمائی اس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ آپ ﷺ نے سوال کرنے والے صاحب کو اپنی خاموشی سے یہ تاثر دینا چاہا کہ یہ کوئی پوچھنے کی بات نہیں ہے ، اپنے زیرِ دست خادم اور غلام کا قصور معاف کر دینا تو ایک نیکی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے معاف ہی کیا جائے لیکن جب دو دفعہ کے بعد تیسری دفعہ بھی ان صاحب نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:“ كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً” یعنی اگر بالفرض ہر روز صبح سے شام تک ستر قصور کرے تب بھی اسے معاف ہی کر دو ۔ ظاہر ہے کہ یہاں “سبعین” سے ستر کا خاص عدد مراد نہیں ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا زیرِ دست غلام یا نوکر بار بار غلطی اور قصور کرے تو انتقام نہ لو ، معاف ہی کر دو ۔
اس عاجز کے نزدیک معافی کے اس حکم کا مطلب یہی ہے کہ اس کو انتقاماً سزا نہ دی جائے ، لیکن اگر اصلاح و تادیب کے لئے کچھ سرزنش مناسب سمجھی جائے تو اس کا پورا حق ہے ، اور اس حق کا استعمال کرنا اس ہدایت کے خلاف نہ ہو گا ، بلکہ بعض اوقات اس کے حق میں یہی بہتر ہو گا ۔
تشریح
پہلی اور دوسری دفعہ جو آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار فرمائی اس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ آپ ﷺ نے سوال کرنے والے صاحب کو اپنی خاموشی سے یہ تاثر دینا چاہا کہ یہ کوئی پوچھنے کی بات نہیں ہے ، اپنے زیرِ دست خادم اور غلام کا قصور معاف کر دینا تو ایک نیکی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے معاف ہی کیا جائے لیکن جب دو دفعہ کے بعد تیسری دفعہ بھی ان صاحب نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:“ كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً” یعنی اگر بالفرض ہر روز صبح سے شام تک ستر قصور کرے تب بھی اسے معاف ہی کر دو ۔ ظاہر ہے کہ یہاں “سبعین” سے ستر کا خاص عدد مراد نہیں ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا زیرِ دست غلام یا نوکر بار بار غلطی اور قصور کرے تو انتقام نہ لو ، معاف ہی کر دو ۔
اس عاجز کے نزدیک معافی کے اس حکم کا مطلب یہی ہے کہ اس کو انتقاماً سزا نہ دی جائے ، لیکن اگر اصلاح و تادیب کے لئے کچھ سرزنش مناسب سمجھی جائے تو اس کا پورا حق ہے ، اور اس حق کا استعمال کرنا اس ہدایت کے خلاف نہ ہو گا ، بلکہ بعض اوقات اس کے حق میں یہی بہتر ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَقَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمْ نَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ؟ فَصَمَتَ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ، فَصَمَتَ، فَلَمَّا كَانَ فِي الثَّالِثَةِ، قَالَ: «اعْفُوا عَنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غلاموں کی غلطیوں اور قصوروں کو معاف کیا جائے
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : اپنی باندیوں کو برتن توڑ دینے پر سزا نہ دیا کرو ، ال لئے کہ برتنوں کی بھی عمریں مقرر ہیں تمہاری عمروں کی طرح ۔ (مسند الفردوس للدیلمی)
تشریح
گھروں میں کام کرنے والی باندیوں اور نوکرانیوں سے اور اسی طرح غلاموں اور نوکروں سے برتن ٹوٹ پھوٹ جاتے تھے ، اور ان بےچاروں کی پٹائی ہوتی تھی ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس طرح وقت پورا ہونے پر آدمی مر جاتا ہے اسی طرح وقت پورا ہونے پر برتن بھی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں ، اس لئے ان بےچاروں سے انتقام لینا اور مارنا پیٹنا بہت ہی غلط بات ہے ۔ (ہاں جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اصلاح و تادیب کی نیت سے مناسب تنبیہ اور سرزنش کی جا سکتی ہے) ۔
تشریح
گھروں میں کام کرنے والی باندیوں اور نوکرانیوں سے اور اسی طرح غلاموں اور نوکروں سے برتن ٹوٹ پھوٹ جاتے تھے ، اور ان بےچاروں کی پٹائی ہوتی تھی ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس طرح وقت پورا ہونے پر آدمی مر جاتا ہے اسی طرح وقت پورا ہونے پر برتن بھی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں ، اس لئے ان بےچاروں سے انتقام لینا اور مارنا پیٹنا بہت ہی غلط بات ہے ۔ (ہاں جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اصلاح و تادیب کی نیت سے مناسب تنبیہ اور سرزنش کی جا سکتی ہے) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَضْرِبُوْا اِمَاءَكُمْ عَلَى كَسْرِ اِنَاءِكُمْ فَاِنَّ لَهَا آجَالًا كَآجَالِكُمْ. (رواه الديلمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غلام پر ظلم کرنے والے سے قیامت میں بدلہ لیا جائے گا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جب کوئی اپنے غلام کو ناحق مارے گا قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ضَرَبَ مَمْلُوكَهُ ظَالِمًا اُقِيْدَ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غلام پر ظلم کا کفارہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جس کسی نے اپنے غلام کو کسی ایسے جرم پر سزا دی جو اس نے نہیں کیا تھا ، یا اس کو طمانچہ مارا ، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے ۔ (یعنی اگر ایسا نہیں کرے گا تو خدا کے ہاں سزا کا مستحق ہو گا) ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ اَبِىْ عُمَرَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ ضَرَبَ غُلَامًا لَهُ حَدًّا لَمْ يَأْتِهِ، أَوْ لَطَمَهُ، فَإِنَّ كَفَّارَتَهُ أَنْ يُعْتِقَهُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غلام پر ظلم کا کفارہ
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا ، میں نے پیچھے سے آواز سنی (کوئی کہہ رہا تھا) کہ اے ابو مسعود ! تجھے معلوم رہنا چاہئے (اور اس بات سے غافل نہ ہونا چاہئے) کہ اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ قدرت اور قابو حاصل ہے جتنا تجھے اس بےچارے غلام پر ہے ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ فرمانے والے رسول اللہ ﷺ تھے ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (میں نے اس کو آزاد کر دیا) اب یہ (میری طرف سے) اللہ کے لئے آزاد ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تم یہ نہ کرتے (یعنی اس غلام کو اللہ کے لئے آزاد نہ کر دیتے) تو “لَلَفَحَتْكَ النَّارُ” (جس کا ترجمہ ہے کہ جہنم کی آگ تمہیں جلا ڈالتی) یا فرمایا “لَمَسَّتْكَ النَّارُ” (جس کا ترجمہ ہے کہ جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے لیتی) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہو تو ظلم و زیادتی اور ہر قسم کے گناہوں سے بچانے کے لئے بہترین تدبیر یہی ہے کہ اللہ کی پکڑ اور آخرت کے مواخذہ و محاسبہ کو یاد دلایا جائے ۔ اللہ تعالیٰ ایمان نصیب فرمائے ۔
تشریح
اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہو تو ظلم و زیادتی اور ہر قسم کے گناہوں سے بچانے کے لئے بہترین تدبیر یہی ہے کہ اللہ کی پکڑ اور آخرت کے مواخذہ و محاسبہ کو یاد دلایا جائے ۔ اللہ تعالیٰ ایمان نصیب فرمائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ غُلَامًا لِي، فَسَمِعْتُ مِنْ خَلْفِي صَوْتًا: «اعْلَمْ، أَبَا مَسْعُودٍ، لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ»، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللهِ، فَقَالَ: «أَمَا لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَلَفَحَتْكَ النَّارُ»، أَوْ «لَمَسَّتْكَ النَّارُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غلاموں کے بارے میں حضور ﷺ کی آخری وصیت
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس دنیا سے اور امت سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو خاص طور سے دو باتوں کی تاکید اور وصیت فرمائی تھی ۔ ایک یہ کہ نماز کا پورا اہتمام کیا جائے اس سے غفلت اور کوتاہی نہ ہو یہ سب سے اہم فریضہ اور بندوں پر اللہ کا سب سے بڑا حق ہے ۔ دوسری یہ کہ غلاموں ، باندیوں کے ساتھ برتاؤ میں اس خداوند ذوالجلال سے ڈرا جائے جس کی عدالت میں ہر ایک کی پیشی ہو گی اور ہر مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا ۔ غلاموں زیر دستوں کے لئے یہ بات کتنے شرف کی ہے کہ نبی رحمتﷺ نے اس دنیا سے جاتے وقت سب سے آخری وصیت اللہ کے حق کے ساتھ ان کے حق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی فرمائی ، اور اس حدیث کے مطابق سب سے آخری لفظ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے جو ادا ہوا وہ یہ تھا : “وَاتَّقُوا اللهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت ہے جو صحیح بخاری میں بھی مروی ہے ، یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے آخری کلمہ آپ ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ ادا ہوا تھا : “اللهم الرفيق الاعلى” (اے اللہ ! مجھے رفیقِ اعلیٰ کی طرف اُٹھا لے) شارحین نے ان دونوں حدیثوں میں اس طرح تطبیق کی ہے کہ امت سے مخاطب ہو کر آپ ﷺ نے وصیت کے طور پر آخری بات تو وہ فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہوئی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف مخاطب ہو کر آخری کلمہ وہ فرمایا تھا جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے (وفات سے پہلے) جو آخری کلام فرمایا وہ یہ تھا : “الصَّلاةَ الصَّلاةَ، اتَّقُوا اللهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ” (یعنی نماز کی پابندی کرو ، نماز کا پورا اہتمام کرو ، اور اپنے غلاموں میں زیرِ دستوں کے بارے میں خدا سے ڈرو) ۔ (سنن ابی داؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آقاؤں کی خیر خواہی اور وفاداری کے بارے میں غلاموں کو ہدایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی غلام اور مملوک کے لئے بڑی اچھی اور کامیابی کی بات ہے کہ اللہ اس کو ایسی حالت میں اٹھائے کہ وہ اپنے پروردگار کا عبادت گزار ہو اور اپنے سید و آقا کا فرمانبردار ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح غلاموں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں آقاؤں کو ہدایات دیں اسی طرح غلاموں کو بھی آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی اور ترغیب دی کہ وہ جس کے زیرِ دست ہیں ان کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری کا رویہ رکھیں ۔ آپ ﷺ نے غلام کی بڑی خوش نصیبی اور کامیابی یہ بتائی کہ وہ اپنے خالق و پروردگار کا عبادت گزار اور اپنے سید و آقا کا وفادار و فرمانبردار ہو ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح غلاموں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں آقاؤں کو ہدایات دیں اسی طرح غلاموں کو بھی آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی اور ترغیب دی کہ وہ جس کے زیرِ دست ہیں ان کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری کا رویہ رکھیں ۔ آپ ﷺ نے غلام کی بڑی خوش نصیبی اور کامیابی یہ بتائی کہ وہ اپنے خالق و پروردگار کا عبادت گزار اور اپنے سید و آقا کا وفادار و فرمانبردار ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نِعِمَّا لِلْمَمْلُوكِ أَنْ يُتَوَفَّاهُ بُحْسِنِ عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَطَاعَةَ سَيِّدِهِ، نِعِمَّا» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آقاؤں کی خیر خواہی اور وفاداری کے بارے میں غلاموں کو ہدایت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی غلام جب اپنے سید و آقا کی خیر خواہی اور وفاداری کرے اور خدا کی عبادت بھی اچھی طرح کرے تو وہ دہرے ثواب کا مستحق ہو گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم کا یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ ہر فرد اور ہر طبقہ کو آپ ترغیب دیتے ہیں اور تاکید فرماتے ہیں کہ وہ دوسرے کا حق ادا کرے اور حقوق ادا کرنے میں اپنی کامیابی سمجھے ۔
سیدوں اور آقاؤں کو آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ وہ غلاموں زیر دستوں کے بارے میں خدا سے ڈریں ، ان کے حقوق ادا کریں ، ان کے ساتھ بہتر سلوک کریں ، ان کو اپنا بھائی سمجھیں ، اور ایک فرد کاندان کی طرح رکھیں ۔
اور غلاموں اور مملوکوں کو ہدایت فرمائی اور ترغیب دی کہ وہ سیدوں اور آقاؤوں کے خیر خواہ اور وفادار ہو کر رہیں ۔
ہماری اس دنیا کے سارے شر و فساد کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کا حق ادا کرنے سے منکر یا کم از کم بےپروا ہے ، اور اپنا حق دوسرے سے وصول کرنے بلکہ چھیننے کے لئے ہر کشمکش اور جبر و زور کو صحیح سمجھتا ہے ، اسی نے دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے ، اور اس وقت تک یہ دنیا امن سکون سے محروم رہے گی جب تک کہ حق لینے اور چھیننے کے بجائے حق ادا کرنے پر زور نہ دیا جائے گا ۔ اگر عقل و بصیرت سے محرومی نہ ہو تو مسئلہ بالکل بدیہی ہے ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم کا یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ ہر فرد اور ہر طبقہ کو آپ ترغیب دیتے ہیں اور تاکید فرماتے ہیں کہ وہ دوسرے کا حق ادا کرے اور حقوق ادا کرنے میں اپنی کامیابی سمجھے ۔
سیدوں اور آقاؤں کو آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ وہ غلاموں زیر دستوں کے بارے میں خدا سے ڈریں ، ان کے حقوق ادا کریں ، ان کے ساتھ بہتر سلوک کریں ، ان کو اپنا بھائی سمجھیں ، اور ایک فرد کاندان کی طرح رکھیں ۔
اور غلاموں اور مملوکوں کو ہدایت فرمائی اور ترغیب دی کہ وہ سیدوں اور آقاؤوں کے خیر خواہ اور وفادار ہو کر رہیں ۔
ہماری اس دنیا کے سارے شر و فساد کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کا حق ادا کرنے سے منکر یا کم از کم بےپروا ہے ، اور اپنا حق دوسرے سے وصول کرنے بلکہ چھیننے کے لئے ہر کشمکش اور جبر و زور کو صحیح سمجھتا ہے ، اسی نے دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے ، اور اس وقت تک یہ دنیا امن سکون سے محروم رہے گی جب تک کہ حق لینے اور چھیننے کے بجائے حق ادا کرنے پر زور نہ دیا جائے گا ۔ اگر عقل و بصیرت سے محرومی نہ ہو تو مسئلہ بالکل بدیہی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا نَصَحَ لِسَيِّدِهِ، وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ، فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ»، (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بڑوں اور چھوٹوں کے باہمی برتاؤ کے بارے میں ہدایات
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو آدمی ہمارے چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ نہ کرے اور بڑوں کی عزت کا خیال نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
ہر معاشرہ اور سماج میں کچھ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ ان کے چھوٹے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بڑوں کو چھوٹوں کے ساتھ اور چھوٹون کو بڑوں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں بھی ہدایات فرمائی ہیں ۔ اگر ان کا اتباع کیا جائے تو معاشرہ میں وہ خوشگواری اور روحانی سرور و سکونم رہے جو انسانیت کے لئے نعمتِ عظمیٰ ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں یہاں پڑھ لی جائیں :
تشریح
ہر معاشرہ اور سماج میں کچھ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ ان کے چھوٹے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بڑوں کو چھوٹوں کے ساتھ اور چھوٹون کو بڑوں کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں بھی ہدایات فرمائی ہیں ۔ اگر ان کا اتباع کیا جائے تو معاشرہ میں وہ خوشگواری اور روحانی سرور و سکونم رہے جو انسانیت کے لئے نعمتِ عظمیٰ ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں یہاں پڑھ لی جائیں :
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ شَرَفَ كَبِيرِنَا. (رواه الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بڑوں اور چھوٹوں کے باہمی برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بوڑھے بزرک آئے وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچنا چاہتے تھے لوگوں نے (جو اس وقت حاضر تھے) ان کے لئے گنجائش پیدا کرنے میں دیر کی (یعنی ایسا نہیں کیا کہ ان کے بڑھاپے کے احترام میں جلدی سے ان کو راستہ دے دیتے اور جگہ خالی کر دیتے) تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ : جو آدمی ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔(جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دین سے وابستگی چاہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بڑوں کے ساتھ ادب و احترام کا برتاؤ رکھے اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے ، اور جو ایسا نہ کرے اس کو حق نہیں ہے کہ وہ حضور ﷺ کی طرف اور آپ و کی خاص جماعت کی طرف اپنی نسبت کرے ۔
قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دین سے وابستگی چاہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بڑوں کے ساتھ ادب و احترام کا برتاؤ رکھے اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے ، اور جو ایسا نہ کرے اس کو حق نہیں ہے کہ وہ حضور ﷺ کی طرف اور آپ و کی خاص جماعت کی طرف اپنی نسبت کرے ۔
قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ شَيْخٌ يُرِيدُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبْطَأَ القَوْمُ أَنْ يُوَسِّعُوا لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بڑوں اور چھوٹوں کے باہمی برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو جوان کسی بوڑھے بزرگ کا اس کے بڑھاپے ہی کی وجہ سے ادب و احترام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس جوان کو بوڑھے ہونے کے وقت ایسے بندے مقرر کر دے گا جو اس وقت اس کا ادب و احترام کریں گے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اوپر جو دو حدیثیں درج ہوئی ہیں ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بڑوں کے ادب و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کا رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم میں کیا درجہ ہے اور اس میں غفلت اور کوتاہی کتنا سنگین جرم ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑوں کا ادب و احترام اور ان کی خدمت وہ نیکی ہے جس کا صلہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے اور اصل جزاء ثواب کی جگہ تو آخرت ہی ہے ۔
تشریح
اوپر جو دو حدیثیں درج ہوئی ہیں ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بڑوں کے ادب و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کا رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم میں کیا درجہ ہے اور اس میں غفلت اور کوتاہی کتنا سنگین جرم ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑوں کا ادب و احترام اور ان کی خدمت وہ نیکی ہے جس کا صلہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے اور اصل جزاء ثواب کی جگہ تو آخرت ہی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا مِنْ اَجْلِ سِنِّهِ إِلاَّ قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ سِنِّهِ مَنْ يُكْرِمُهُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت کا سا ہے ، اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا (کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم وابستہ اور پیوستہ ہونا چاہئے) (صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ (اور اسی طرح آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام بھی) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین حق کی دعوت اور ہدایت لے کر آئے تھے جو لوگ ان کی دعوت کو قبول کر کے ان کا دین اور ان کا راستہ اختیار کر لیتے تھے وہ قدرتی طور سے ایک جماعت اور امت بنتے جاتے تھے ۔ یہی دراصل “اسلامی برادری” اور “امت مسلمہ” تھی ۔
جب تک رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں رونق افروز رہے یہی برادری اور یہی امت آپ ﷺ کا دست و بازو اور دعوت و ہدایت کی مہم میں آپ ﷺ کی رفیق و مددگار تھی ، اور آپ ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو آپ ﷺ کی نیابت میں اس مقدس مشن کی ذمہ داری سنبھالنی تھی ۔ اس کے لئے جس طرح ایمان و یقین ، تعلق باللہ اور اعمال و اخلاق کی پاکیزگی اور جذبہ دعوت کی ضرورت تھی ، اسی طرح دلوں کے جوڑ اور شیرازہ بندی کی بھی ۔ ضرورت تھی ، اگر دل پھٹے ہوئے ہوں ، اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف و انتشار اور خود آپس میں جنگ و پیدار ہو تو ظاہر ہے کہ نیابت نبوت کی یہ ذمہ داری کسی طرح بھی ادا نہیں کی جا سکتی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اسلامیت کو بھی ایک مقدس رشتہ قرار دیا ۔ اور امت کے افراد اور مختلف طبقوں کو خاص طور سے ہدایت و تاکید فرمائی کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھیں ، اور باہم خیرخواہ و خیر اندیش اور معاون و مدد گار بن کے رہیں ۔ ہر ایک دوسرے کا لحاظ رکھے ، اور اس دینی ناطہ سے ایک دوسرے پر جو حقوق ہوں ان کو ادا کرنے کی کوشش کریں ۔
اس تعلیم و ہدایت کی ضرورت خاص طور سے اس لئے بھی تھی کہ امت میں مختلف ملکوں ، نسلوں اور مختلف طبقوں کے لوگ تھے ۔ جن کے رنگ و مزاج اور جن کی زبانیں مختلف تھیں اور یہ رنگا رنگی آگے کو اور زیادہ بڑھنے والی تھی ۔ اس سلسلہ کی رسول اللہ ﷺ کی اہم ہدایات مندرجہ ذیل حدیثوں میں پڑھئے :
تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جس طرح عمارت کی اینٹیں باہم مل کر مضبوط قلعہ بن جاتی ہیں اسی طرح امت مسلمہ ایک قلعہ ہے ، اور ہر مسلمان اس کی ایک ایک اینٹ ہے ان میں باہم وہی تعلق اور ارتباط ہونا چاہئے جو قلعہ کی ایک اینٹ کا دوسری اینٹ سے ہوتا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا کہ مسلمانوں کے مختلف افراد اور طبقوں کو باہم پیوستہ ہو کر اس طرح امت واحد ہ بن جانا چاہئے جس طرح اگ اگ دو ہاتھوں کی یہ انگلیاں ایک دوسرے سے پیوستہ ہو کر ایک حلقہ اور گویا ایک وجود بن گئیں ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ (اور اسی طرح آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام بھی) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین حق کی دعوت اور ہدایت لے کر آئے تھے جو لوگ ان کی دعوت کو قبول کر کے ان کا دین اور ان کا راستہ اختیار کر لیتے تھے وہ قدرتی طور سے ایک جماعت اور امت بنتے جاتے تھے ۔ یہی دراصل “اسلامی برادری” اور “امت مسلمہ” تھی ۔
جب تک رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں رونق افروز رہے یہی برادری اور یہی امت آپ ﷺ کا دست و بازو اور دعوت و ہدایت کی مہم میں آپ ﷺ کی رفیق و مددگار تھی ، اور آپ ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو آپ ﷺ کی نیابت میں اس مقدس مشن کی ذمہ داری سنبھالنی تھی ۔ اس کے لئے جس طرح ایمان و یقین ، تعلق باللہ اور اعمال و اخلاق کی پاکیزگی اور جذبہ دعوت کی ضرورت تھی ، اسی طرح دلوں کے جوڑ اور شیرازہ بندی کی بھی ۔ ضرورت تھی ، اگر دل پھٹے ہوئے ہوں ، اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف و انتشار اور خود آپس میں جنگ و پیدار ہو تو ظاہر ہے کہ نیابت نبوت کی یہ ذمہ داری کسی طرح بھی ادا نہیں کی جا سکتی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اسلامیت کو بھی ایک مقدس رشتہ قرار دیا ۔ اور امت کے افراد اور مختلف طبقوں کو خاص طور سے ہدایت و تاکید فرمائی کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھیں ، اور باہم خیرخواہ و خیر اندیش اور معاون و مدد گار بن کے رہیں ۔ ہر ایک دوسرے کا لحاظ رکھے ، اور اس دینی ناطہ سے ایک دوسرے پر جو حقوق ہوں ان کو ادا کرنے کی کوشش کریں ۔
اس تعلیم و ہدایت کی ضرورت خاص طور سے اس لئے بھی تھی کہ امت میں مختلف ملکوں ، نسلوں اور مختلف طبقوں کے لوگ تھے ۔ جن کے رنگ و مزاج اور جن کی زبانیں مختلف تھیں اور یہ رنگا رنگی آگے کو اور زیادہ بڑھنے والی تھی ۔ اس سلسلہ کی رسول اللہ ﷺ کی اہم ہدایات مندرجہ ذیل حدیثوں میں پڑھئے :
تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جس طرح عمارت کی اینٹیں باہم مل کر مضبوط قلعہ بن جاتی ہیں اسی طرح امت مسلمہ ایک قلعہ ہے ، اور ہر مسلمان اس کی ایک ایک اینٹ ہے ان میں باہم وہی تعلق اور ارتباط ہونا چاہئے جو قلعہ کی ایک اینٹ کا دوسری اینٹ سے ہوتا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا کہ مسلمانوں کے مختلف افراد اور طبقوں کو باہم پیوستہ ہو کر اس طرح امت واحد ہ بن جانا چاہئے جس طرح اگ اگ دو ہاتھوں کی یہ انگلیاں ایک دوسرے سے پیوستہ ہو کر ایک حلقہ اور گویا ایک وجود بن گئیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৬৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب مسلمان ایک شخص واحد (کے مختلف اعضاء) کی طرح ہیں ۔ اگر اس کی آنکھ دکھے تو اس کا سارا جسم درد محسوس کرتا ہے ، اور اسی طرح اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ گویا ایک جسم و جان والا وجود ہے ، اور اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں ۔ کسی کے ایک عضو میں اگر تکلیف ہو تو اس کے سارے اعضاء تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔ اسی طرح پوری ملت اسلامیہ کو ہر مسلمان فرد کی تکلیف محسوس کرنی چاہئے ۔ اور ایک کے دکھ درد میں سب کو شریک ہونا چاہئے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ گویا ایک جسم و جان والا وجود ہے ، اور اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں ۔ کسی کے ایک عضو میں اگر تکلیف ہو تو اس کے سارے اعضاء تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔ اسی طرح پوری ملت اسلامیہ کو ہر مسلمان فرد کی تکلیف محسوس کرنی چاہئے ۔ اور ایک کے دکھ درد میں سب کو شریک ہونا چاہئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُونَ كَرَجُلٍ وَاحِدٍ إِنِ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وَإِنِ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৭০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (اس لئے) نہ تو خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کا نشانہ ظلم بننے کے لئے اس کو بےمدد چھوڑے (یعنی دوسروں کے ظلم سے بچانے کے لئے اس کی مدد کرے) اور جو کوئی اپنے ضرورت مند بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ تعالیٰ کی حاجت روائی کرے گا ۔ اور جو کسی مسلمان کو کسی تکلیف اور مصیبت سے نجات دلائے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کسی مصیبت اور پریشانی سے نجات عطا فرمائے گا ۔ اور جو کسی مسلمان کی پردہ داری کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ داری کرے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক: