মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৪৩১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حضور ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ میں مقابلہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھی تو پیدل دوڑ میں ہمارا مقابلہ ہوا تو میں جیت گئی اور آگے نکل گئی ، اس کے بعد جب (فربہی سے) میرا جسم بھاری ہو گیا تو (اس زمانہ میں بھی ایک دفعہ) ہمارا دوڑ میں مقابلہ ہوا تو آپ جیت گئے اور آگے نکل گئے ، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ تمہاری اس جیت کا جواب ہو گیا” ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
بلا شبہ بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کا دل خوش کرنے کی یہ بھی نہایت اعلیٰ مثال ہے ۔ اور اس میں ان لوگوں کے لئے خاص سبق ہے جن کے نزدیک دین میں اس طرح کی تفریحات کی کوئی جگہ نہیں ۔
تشریح
بلا شبہ بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کا دل خوش کرنے کی یہ بھی نہایت اعلیٰ مثال ہے ۔ اور اس میں ان لوگوں کے لئے خاص سبق ہے جن کے نزدیک دین میں اس طرح کی تفریحات کی کوئی جگہ نہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ قَالَتْ: فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلَى رِجْلَيَّ، فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ فَسَبَقَنِي فَقَالَ: «هَذِهِ بِتِلْكَ السَّبْقَةِ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حضور ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو خود کھیل دکھایا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، بیان کرتی ہیں : خدا کی قسم ! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک روز) حبشی لوگ مسجد میں نیزہ ماری کا کھیل کھیل رہے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ مجھے ان کا کھیل دکھانے کے لئے میرے لئے اپنی چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو گئے (جو مسجد ہی میں کھلتا تھا) میں آپ کے کاندھے اور کان کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی ، آپ میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے ، یہاں تک کہ (میرا جی بھر گیا اور) میں خود ہی لوٹ آئی ۔ (حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ سے) انداسزہ کرو کہ ایک نو عمر اور کھیل تماشہ سے دلچسپی رکھنے والی لڑکی کا کیا مقام تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ہ واقعہ بھی بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی حسن معاشرت اور ان کی دل جوئی اور دلداری کی انتہائی مثال ہے ، اور اس میں امت کے لئے بڑا سبق ہے ۔
عید میں لہو و لعب کی بھی گنجائش
البتہ اس سلسلہ میں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ یہ عید کا دن تھا ۔ جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کی تصریح ہے ۔ (1) اور عید میں لہو و لعب کی بھی ایک حد تک گنجائش رکھی ہے ، کیوں کہ عوامی جشن و نشاط کا یہ بھی ایک فطری تقاضا ہے ۔ صحیحین اور دورسری کتب حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے یہ واقعہ مروی ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن رسول اللہ ﷺ کپڑا اوڑھے آرام فرما رہے گھے ، دو بچیاں آئیں اور دَف بجا بجا کر جنگ بُعاث سے متعلق کچھ اشعار گانے لگیں ، اتنے میں حضرت ابو بکرؓ آ گئے ۔ انہوں نے ان بچیوں کو ڈانٹ کر بھگا دینا چاہا ، آنحضرتﷺ نے منہ کھول کر فرمایا : “دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ” (ابو بکر ! ان بچیوں کو چھوڑ دو ، یعنی جو کر رہی ہیں کرنے دو ، یہ عید کا دن ہے) مطلب یہی تھا کہ عید میں اس طرح کے لہو و لعب کی ایک حد تک گنجائش رکھی گئی ہے ۔
الغرض کھیل کو دیکھنے کا جو ذکر ہے اس کے بارے میں ایک بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ وہ عید کا دن تھا ، اور عید میں اس طرح کی تفریحات کی ایک حد تک گنجائش ہے ۔
یہ ایک بامقصد اور تربیتی کھیل تھا ، اسی لئے خود حضور ﷺ نے اس میں دلچسپی لی
علاوہ ازیں نیزہ ماری کا یہ کھیل ایک بامقصد کھیل تھا جو فن جنگ کی تعلیم و تربیت کا بھی ایک ذریعہ تھا ، غالبا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اس سے دلچسپی لی ۔ صحیحین کی اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ آنحضرتﷺ ان کھلاڑیوں کو “دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ” کہہ کر ایک طرح کی داد بھی دیتے اور ان کی ہمت افزائی فرماتے تھے ۔ (1)
اور اسی واقعہ سے متعلق صحیحین کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کھلاڑیوں حبشیوں کو (جو مسجد میں اپنا کھیل دکھا رہے تھے) مسجد سے بھگا دینا چاہا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا : “دَعْهُمْ” (یعنی انہیں کھیلنے دو) اور ان کھلاڑیوں سے فرمایا “أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ” (یعنی تم بےخوف اور مطمئن ہو کر کھیلو) ۔
پردہ کا سوال
اس حدیث کے سلسلہ میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ حبشی لوگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لئے یقینا غیر محرم اور اجنبی تھے ، پھر انہوں نے ان کا کھیل کیوں دیکھا اور رسول اللہ ﷺ نے کیوں دکھایا ؟
بعض شارحین نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ یہ واقعہ اس ابتدائی زمانہ کا ہے جب پردہ کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا ۔ لیکن روایات کی روشنی میں یہ بات صحیح ثابت نہیں ہوتی ۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے ابن حبان کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ ۷ھ کا ہے جب کہ حبشہ کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور حجاب کا حکم یقینا اس سے پہلے آ چکا تھا ۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زیر تشریح حدیث میں بھی یہ مذکور ہے کہ جس وقت وہ کھیل دیکھ رہی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے اپنی چادر مبارک کا پردہ کر دیا تھا ، اگر یہ واقعہ حجاب کے حکم سے پہلے کا ہوتا تو اس کی ضرورت نہ ہوتی ۔
دوسری بات اس سوال کے جواب میں یہ کہی گئی ہے کہ چونکہ اس کا قطعا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ ان حبشیوں کا کھیل دیکھنے کی وجہ سے حضرت صدیقہؓ کے دل میں کوئی بُرا خیال اور وسوسہ پیدا ہو ، اس لئے ان کے لئیے یہ دیکھنا جائز تھا ۔ اور جب بھی کسی عورت کے لئے ایسی صورت ہو کہ وہ فتنہ اور مفسدہ سے مامون و محفوظ ہو تو اس کے لئے اجنبی کو دیکھنا ناجائز نہیں ہو گا ۔ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کتاب النکاح میں اسی حدیث پر “باب النظر الى الحبش ونحوهم من غير ريبة” کا ترجمۃ الباب قائم کر کے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور بلاشبہ یہی جواب زیادہ تشفی بخش ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
ہ واقعہ بھی بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی حسن معاشرت اور ان کی دل جوئی اور دلداری کی انتہائی مثال ہے ، اور اس میں امت کے لئے بڑا سبق ہے ۔
عید میں لہو و لعب کی بھی گنجائش
البتہ اس سلسلہ میں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ یہ عید کا دن تھا ۔ جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کی تصریح ہے ۔ (1) اور عید میں لہو و لعب کی بھی ایک حد تک گنجائش رکھی ہے ، کیوں کہ عوامی جشن و نشاط کا یہ بھی ایک فطری تقاضا ہے ۔ صحیحین اور دورسری کتب حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے یہ واقعہ مروی ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن رسول اللہ ﷺ کپڑا اوڑھے آرام فرما رہے گھے ، دو بچیاں آئیں اور دَف بجا بجا کر جنگ بُعاث سے متعلق کچھ اشعار گانے لگیں ، اتنے میں حضرت ابو بکرؓ آ گئے ۔ انہوں نے ان بچیوں کو ڈانٹ کر بھگا دینا چاہا ، آنحضرتﷺ نے منہ کھول کر فرمایا : “دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ” (ابو بکر ! ان بچیوں کو چھوڑ دو ، یعنی جو کر رہی ہیں کرنے دو ، یہ عید کا دن ہے) مطلب یہی تھا کہ عید میں اس طرح کے لہو و لعب کی ایک حد تک گنجائش رکھی گئی ہے ۔
الغرض کھیل کو دیکھنے کا جو ذکر ہے اس کے بارے میں ایک بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ وہ عید کا دن تھا ، اور عید میں اس طرح کی تفریحات کی ایک حد تک گنجائش ہے ۔
یہ ایک بامقصد اور تربیتی کھیل تھا ، اسی لئے خود حضور ﷺ نے اس میں دلچسپی لی
علاوہ ازیں نیزہ ماری کا یہ کھیل ایک بامقصد کھیل تھا جو فن جنگ کی تعلیم و تربیت کا بھی ایک ذریعہ تھا ، غالبا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اس سے دلچسپی لی ۔ صحیحین کی اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ آنحضرتﷺ ان کھلاڑیوں کو “دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ” کہہ کر ایک طرح کی داد بھی دیتے اور ان کی ہمت افزائی فرماتے تھے ۔ (1)
اور اسی واقعہ سے متعلق صحیحین کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کھلاڑیوں حبشیوں کو (جو مسجد میں اپنا کھیل دکھا رہے تھے) مسجد سے بھگا دینا چاہا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا : “دَعْهُمْ” (یعنی انہیں کھیلنے دو) اور ان کھلاڑیوں سے فرمایا “أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ” (یعنی تم بےخوف اور مطمئن ہو کر کھیلو) ۔
پردہ کا سوال
اس حدیث کے سلسلہ میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ حبشی لوگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لئے یقینا غیر محرم اور اجنبی تھے ، پھر انہوں نے ان کا کھیل کیوں دیکھا اور رسول اللہ ﷺ نے کیوں دکھایا ؟
بعض شارحین نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ یہ واقعہ اس ابتدائی زمانہ کا ہے جب پردہ کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا ۔ لیکن روایات کی روشنی میں یہ بات صحیح ثابت نہیں ہوتی ۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے ابن حبان کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ ۷ھ کا ہے جب کہ حبشہ کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور حجاب کا حکم یقینا اس سے پہلے آ چکا تھا ۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زیر تشریح حدیث میں بھی یہ مذکور ہے کہ جس وقت وہ کھیل دیکھ رہی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے اپنی چادر مبارک کا پردہ کر دیا تھا ، اگر یہ واقعہ حجاب کے حکم سے پہلے کا ہوتا تو اس کی ضرورت نہ ہوتی ۔
دوسری بات اس سوال کے جواب میں یہ کہی گئی ہے کہ چونکہ اس کا قطعا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ ان حبشیوں کا کھیل دیکھنے کی وجہ سے حضرت صدیقہؓ کے دل میں کوئی بُرا خیال اور وسوسہ پیدا ہو ، اس لئے ان کے لئیے یہ دیکھنا جائز تھا ۔ اور جب بھی کسی عورت کے لئے ایسی صورت ہو کہ وہ فتنہ اور مفسدہ سے مامون و محفوظ ہو تو اس کے لئے اجنبی کو دیکھنا ناجائز نہیں ہو گا ۔ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کتاب النکاح میں اسی حدیث پر “باب النظر الى الحبش ونحوهم من غير ريبة” کا ترجمۃ الباب قائم کر کے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور بلاشبہ یہی جواب زیادہ تشفی بخش ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةُ قَالَتْ: «وَاللهِ رَأَيْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ عَلَى بَابِ حُجْرَتِي، وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ بِحِرَابِهِمْ، فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، لِكَيْ أَنْظُرَ إِلَى لَعِبِهِمْ، ثُمَّ يَقُومُ مِنْ أَجْلِي، حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ، فَاقْدِرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ، حَرِيصَةً عَلَى اللهْوِ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ہمسایوں کے حقوق: پڑوسی کے بارے میں حضرت جبرئیلؑ کی مسلسل وصیت اور تاکید
حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : (اللہ کے خاص قاصد جبرائیل کے پڑوسی کے حق کے بارے میں مجھے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) برابر وصیت اور تاکید کرتے رہے ۔ یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
انسان کا اپنے ماں باپ ، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل واسطہ اور تعلق ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے ، اور اس کی خوشگواری اور ناخوشگواری کا زندگی کے چین و سکون پر اور اخلاق کے بناؤ بگاڑ پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی تعلیم و ہدایت میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا جزو ایمان اور داخلہ جنت کی شرط اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت کا معیار قرار دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کے مندرجہ ذٰل ارشادات پڑھئے !
تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ پڑوسی کے حق اور اس کے ساتھ اکرام و رعایت کا رویہ رکھنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل مسلسل ایسے تاکیدی احکام لاتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید اس کو وارث بھی بنا دیا جائے گا ، یعنی حکم آ جائے گا کہ کسی کے انتقال کے بعد جس طرح اس کے ماں باپ اس کی اولاد اور دوسرے اقارب اس کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں اسی طرح پڑوسی کا بھی اس میں حصہ ہو گا ۔ ظاہر ہے کہ اس ارشاد کا مقصد صرف یہ واقعہ بیان نہیں ہے بلکہ پڑوسیوں کے حق کی اہمیت کے اظہار کے لئے یہ ایک نہایت موثر اور بلیغ ترین عنوان ہے ۔
تشریح
انسان کا اپنے ماں باپ ، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل واسطہ اور تعلق ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے ، اور اس کی خوشگواری اور ناخوشگواری کا زندگی کے چین و سکون پر اور اخلاق کے بناؤ بگاڑ پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی تعلیم و ہدایت میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا جزو ایمان اور داخلہ جنت کی شرط اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت کا معیار قرار دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کے مندرجہ ذٰل ارشادات پڑھئے !
تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ پڑوسی کے حق اور اس کے ساتھ اکرام و رعایت کا رویہ رکھنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل مسلسل ایسے تاکیدی احکام لاتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید اس کو وارث بھی بنا دیا جائے گا ، یعنی حکم آ جائے گا کہ کسی کے انتقال کے بعد جس طرح اس کے ماں باپ اس کی اولاد اور دوسرے اقارب اس کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں اسی طرح پڑوسی کا بھی اس میں حصہ ہو گا ۔ ظاہر ہے کہ اس ارشاد کا مقصد صرف یہ واقعہ بیان نہیں ہے بلکہ پڑوسیوں کے حق کی اہمیت کے اظہار کے لئے یہ ایک نہایت موثر اور بلیغ ترین عنوان ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا رویہ اللہ و رسول ﷺ کی محبت کی شرط اور اس کا معیار
عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا تو صحابہؓ آپ ﷺ کے وضو کا استعمال شدہ پانی لے لے کر اپنے پر ملنے لگے ۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ : تمہارے لئے اس کا کیا باعث اور محرک ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ : بس اللہ و رسول ﷺ کی محبت ! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :“جس کی یہ خوشی اور چاہت ہو کہ اس کو اللہ اور رسول کی محبت نصیب ہو یا یہ کہ اس سے اللہ اور رسول کو محبت ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ان تین باتوں کا اہتمام کرے :
۱۔ بات کرے تو سچ بوے ، ۲۔ کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو امانتداری کے ساتھ اس کو ادا کرے اور ۳۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھے” ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
۱۔ بات کرے تو سچ بوے ، ۲۔ کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو امانتداری کے ساتھ اس کو ادا کرے اور ۳۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھے” ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي قُرَادٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ يَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَتَمَسَّحُونَ بِوَضُوئِهِ، فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَذَا؟ " قَالُوا: حُبُّ اللهِ وَرَسُولِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحِبَّ اللهَ وَرَسُولَهُ، أَوْ يُحِبَّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ فَلْيَصْدُقْ حَدِيثَهُ إِذَا حَدَّثَ، وَلْيُؤَدِّ أَمَانَتَهُ إِذَا ائْتُمِنَ، وَلْيُحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَهُ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ لازمہ ایمان
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سنا اور جس وقت آپ ﷺ یہ فرما رہے تھے اس وقت میری آنکھیں آپ ﷺ کو دیکھ رہی تھیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے اور جو اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اچھی بات بولے یا پھر چپ رہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
(یہی مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے) ۔
(یہی مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ العَدَوِيِّ، قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ، وَأَبْصَرَتْ عَيْنَايَ، حِينَ تَكَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ» وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ آدمی مومن اور جنتی نہیں جس کے پڑوسی اس سے مامون اور بے خوف نہ ہوں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ : خدا کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ، خدا کی قسم ! اس میں ایمان نہیں ،خدا کی قسم ! وہ صاحب ایمان نہیں ۔ عرض کیا گیا “یا رسول اللہ ! کون شخص ؟ ” (یعنی حضور صﷺ کس بدنصیب شخص کے بارے میں قسم کے ساتھ ارشاد فرما رہے ہیں کہ وہ مومن نہیں ، اور اس میں ایمان نہیں ؟) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :“وہ آدمی جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور مفسدہ پروازیوں سے مامون اور بےخوف نہ ہوں ۔” (یعنی ایسا آدمی ایمان سے محروم ہے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
(یہ حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت طلق بن علیؓ سے طبرانی نے معجم کبیر میں اور حضرت انسؓ سے حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے) ۔
تشریح
حدیث کے الفاظ میں غور کر کے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کیسے جلال سے معمور ہے ، اور جس وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہو گا اس وقت آپ ﷺ کا حال اور آپ ﷺ کے خطاب کا انداز کیا رہا ہو گا ۔ بہرحال اس پُرجلال ارشاد کا مدعا اور پیغام یہی ہے کہ ایمان والوں کے لئے لازم ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور رویہ ایسا شریفانہ رہے کہ وہ ان کی طرف سے بالکل مطمئن اور بےخوف رہیں ان کے دلوں و دماغوں میں بھی ان کے بارے میں کوئی اندیشہ اور خطرہ نہ ہو ۔ اگر کسی مسلمان کا یہ حال نہیں ہے ، اور اس کے پڑوسی اس سے مطمئن نہیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسے ایمان کا مقام نصیب نہیں ہے ۔
(یہ حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت طلق بن علیؓ سے طبرانی نے معجم کبیر میں اور حضرت انسؓ سے حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے) ۔
تشریح
حدیث کے الفاظ میں غور کر کے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کیسے جلال سے معمور ہے ، اور جس وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہو گا اس وقت آپ ﷺ کا حال اور آپ ﷺ کے خطاب کا انداز کیا رہا ہو گا ۔ بہرحال اس پُرجلال ارشاد کا مدعا اور پیغام یہی ہے کہ ایمان والوں کے لئے لازم ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور رویہ ایسا شریفانہ رہے کہ وہ ان کی طرف سے بالکل مطمئن اور بےخوف رہیں ان کے دلوں و دماغوں میں بھی ان کے بارے میں کوئی اندیشہ اور خطرہ نہ ہو ۔ اگر کسی مسلمان کا یہ حال نہیں ہے ، اور اس کے پڑوسی اس سے مطمئن نہیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسے ایمان کا مقام نصیب نہیں ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ» ، قِيْلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «الَّذِىْ الْجَارُ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ آدمی مومن اور جنتی نہیں جس کے پڑوسی اس سے مامون اور بے خوف نہ ہوں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :“وہ آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا جس کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے اس کے پڑوسی مامون نہ ہوں ” ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کا کردار اور رویہ ایسا ہو کہ اس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور بداطواریوں سے خائف رہتے ہوں وہ اپنی اس بدکرداری کی وجہ سے اور اس کی سزا پائے بغیر جنت میں نہ جا سکے گا ۔ ان دو حدیثوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت میں ہمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کا کیا درجہ اور مقام ہے ۔ نبوت کی زبان میں کسی عمل کی سخت تاکید اور دین میں اس کی انتہائی اہمیت جتانے کے لئے آخری تعبیر یہی ہوتی ہے کہ اس میں کوتاہی کرنے والا مومن نہیں یا یہ کہ وہ جنت میں نہ جا سکے گا ۔ افسوس یہ ہے کہ اس طرح کی حدیثیں ہمارے علمی اور درسی حلقوں میں اب کلامی بحثوں اور علمی موشگافیوں کا موضوع بن کر رہ گئی ہیں ، شاذ و نادر ہی اللہ کے وہ خوش نصیب بندے ہوں گے جو یہ حدیثیں پڑھ کر اور سن کر زندگی کے اس شعبہ کو درست کرنے کی فکر میں لگ جائیں ، حالانکہ حضور ﷺ کے ان ارشادات کا مقصد و مدعا یہی ہے ۔ یہ حدیثیں پڑھنے اور سننے کے بعد بھی پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ اور رویہ کو بہتر اور خوشگوار بنانے کی فکر نہ کرنا بلاشبہ بری شقاوت اور بدبختی کی نشانی ہے ۔
اسی سلسلہ “معارف الحدیث” کی پہلی جلد “کتاب الایمان” میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے کہ اس طرح کی حدیثیں جن میں کسی عملی یا اخلاقی تقصیر اور کوتاہی کی بناء پر ایمان کی نفی کی گئی ہے یا جنت میں نہ جا سکنے کی وعید سنائی گئی ہے ان کا مدعا اور مطلب کیا ہے اور شریعت میں ایسے لوگوں کا حکم کیا ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کا کردار اور رویہ ایسا ہو کہ اس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور بداطواریوں سے خائف رہتے ہوں وہ اپنی اس بدکرداری کی وجہ سے اور اس کی سزا پائے بغیر جنت میں نہ جا سکے گا ۔ ان دو حدیثوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت میں ہمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کا کیا درجہ اور مقام ہے ۔ نبوت کی زبان میں کسی عمل کی سخت تاکید اور دین میں اس کی انتہائی اہمیت جتانے کے لئے آخری تعبیر یہی ہوتی ہے کہ اس میں کوتاہی کرنے والا مومن نہیں یا یہ کہ وہ جنت میں نہ جا سکے گا ۔ افسوس یہ ہے کہ اس طرح کی حدیثیں ہمارے علمی اور درسی حلقوں میں اب کلامی بحثوں اور علمی موشگافیوں کا موضوع بن کر رہ گئی ہیں ، شاذ و نادر ہی اللہ کے وہ خوش نصیب بندے ہوں گے جو یہ حدیثیں پڑھ کر اور سن کر زندگی کے اس شعبہ کو درست کرنے کی فکر میں لگ جائیں ، حالانکہ حضور ﷺ کے ان ارشادات کا مقصد و مدعا یہی ہے ۔ یہ حدیثیں پڑھنے اور سننے کے بعد بھی پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ اور رویہ کو بہتر اور خوشگوار بنانے کی فکر نہ کرنا بلاشبہ بری شقاوت اور بدبختی کی نشانی ہے ۔
اسی سلسلہ “معارف الحدیث” کی پہلی جلد “کتاب الایمان” میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے کہ اس طرح کی حدیثیں جن میں کسی عملی یا اخلاقی تقصیر اور کوتاہی کی بناء پر ایمان کی نفی کی گئی ہے یا جنت میں نہ جا سکنے کی وعید سنائی گئی ہے ان کا مدعا اور مطلب کیا ہے اور شریعت میں ایسے لوگوں کا حکم کیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھر کے سو جائے اور اس کا پڑوسی بُھوکا ہو
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا (اور وہ میری جماعت میں نہیں ہے) جو ایسی حالت میں اپنا پیٹ بھر کے رات کو (بےفکری سے) سو جائے کہ اس کے برابر والا اس کا پڑوسی بھوکا ہو ، اور اس آدمی کو اس کے بھوکے ہونے کی خبر ہو ۔ (مسند بزار ، معجم کبیر للطبرانی)
تشریح
(یہی مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں امام بخاری نے “الادب المفرد” میں اور بیہقی نے “شعب الایمان” میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اور حاکم نے “مستدرک” میں ان کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت کیا ہے)
ف ..... افسوس ! ہم مسلمانوں کے طرز عمل اور رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات میں اتنا بعد اور فاصلہ ہو گیا ہے کہ کسی ناواقف کو اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ تعلیم اور ہدایت مسلمانوں کے پیغمبر ﷺ کی ہو سکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان ارشادات میں اعلان فرما دیا ہے کہ جو شخص اپنے پڑوسیوں کے بھوک پیاس کے مسئلوں اور اسی طرح کی دوسری ضرورتوں سے بےفکر اور بےنیاز ہو کر زندگی گزارے وہ مجھ پر ایمان نہیں لایا اس نے میری بات بالکل نہیں مانی اور وہ میرا نہیں ہے ۔ یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان تمام حدیثوں میں مسلم اور غیر مسلم پڑوسیوں کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی ہے ، بلکہ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ یہ سارے حقوق غیر مسلم پڑوسیوں کے بھی ہیں ۔
تشریح
(یہی مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں امام بخاری نے “الادب المفرد” میں اور بیہقی نے “شعب الایمان” میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اور حاکم نے “مستدرک” میں ان کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت کیا ہے)
ف ..... افسوس ! ہم مسلمانوں کے طرز عمل اور رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات میں اتنا بعد اور فاصلہ ہو گیا ہے کہ کسی ناواقف کو اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ تعلیم اور ہدایت مسلمانوں کے پیغمبر ﷺ کی ہو سکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان ارشادات میں اعلان فرما دیا ہے کہ جو شخص اپنے پڑوسیوں کے بھوک پیاس کے مسئلوں اور اسی طرح کی دوسری ضرورتوں سے بےفکر اور بےنیاز ہو کر زندگی گزارے وہ مجھ پر ایمان نہیں لایا اس نے میری بات بالکل نہیں مانی اور وہ میرا نہیں ہے ۔ یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان تمام حدیثوں میں مسلم اور غیر مسلم پڑوسیوں کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی ہے ، بلکہ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ یہ سارے حقوق غیر مسلم پڑوسیوں کے بھی ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا آمَنَ بِي مَنْ بَاتَ شَبْعَانَ وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يَعْلَمُ بِهِ» (رواه البزار والطبرانى فى الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ہم سائیگی کے بعض متعین حقوق
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پڑوسی کے حقوق تم پر یہ ہیں کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور خبر گیری کرو اور اگر انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ (اور تدفین کے کاموں میں ہاتھ بٹاؤ) اور وہ (اپنی ضرورت کے لئے) قرض مانگے تو بشرط استطاعت) اس کو قرض دو اور اگر وہ کوئی برا کام کر بیٹھے تو پردہ پوشی کرو اور اگر اسے کوئی نعمت ملے تو اس کو مبارک باد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو ، اور اپنی عمارت اس کی عمارت سے اس طرح بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہو جائے اور (جب تمہارے گھر کوئی اچھا کھانا پکے تو اس کی کوشش کرو کہ) تمہاری ہانڈی کی مہک اس کے لئے (اور اس کے بچوں کے لئے) باعث ایذاء نہ ہو (یعنی اس کا اہتمام کرو کہ ہانڈی کی مہک اس کے گھر تک نہ جائے) الا یہ کہ اس میں سے تھوڑا سا کچھ اس کے گھر بھی بھیج دو (اس صورت میں کھانے کی مہک اس کے گھر تک جانے میں کوئی مضائقہ نہیں) (معجم کبیر للطبرانی)
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے بعض متعین حقوق کی نشان دہی بھی فرمائی ہے ان سے اس باب میں شریعت کا اصولی نقطہ نظر بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔
تشریح ..... اس حدیث میں ہمسایوں کے جو متعین حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں سے آخری دو خاص طور سے قابل غور ہیں : ایک یہ کہ اپنے گھر کی تعمیر میں اس کا لحاظ رکھو اور اس کی دیواریں اس طرح نہ اُٹھاؤ کہ پڑوسی کے گھر کی ہوا بند ہو جائے اور اس کو تکلیف پہنچے ۔ اور دوسرے یہ کہ گھر میں جب کوئی اچھی مرغوب چیز پکے تو اس کو نہ بھولو کہ ہانڈی کی مہک پڑوسی کے گھر تک جائے گی ، اور اس کے یا اس کے بچوں کے دل میں اس کی طلب اور طمع پیدا ہو گی جو ان کے لئے باعث ایذاء ہو گی ۔ اس لئے یا تو اپنے پر لازم کر لو کہ اس کھانے میں سے کچھ تم پڑوسی کے گھر بھیجو گے یا پھر اس کا اہتمام کرو کہ ہانڈی کی مہک پڑوسی کے گھر تک نہ جائے جو ظاہر ہے کہ مشکل ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی ان دو ہدایتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پڑوسیوں کے بارے مٰں کتنے نازک اور باریک پہلوؤں کی رعایت کو آپ ﷺ نے ضروری قرار دیا ہے ۔
قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث ابن عدی نے “کامل ” میں اور خرائطی نے “مکارم الاخلاق” میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے بھی روایت کی ہے ۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے :
وَإِنِ اشْتَرَيْتَ فَاكِهَةً فَأَهْدِ لَهُ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَأَدْخِلْهَا سِرًّا، وَلَا يَخْرُجْ بِهَا وَلَدُكَ لِيَغِيظَ بِهِ وَلَدَهُ. (كنز العمال)
اور اگر تم کوئی پھل پھلار خرید کر لاؤ ، تو اس میں سے پڑوسی کے ہاتھ بھی ہدیہ بھیجو اور اگر ایسا نہ کر سکو تو اس کو چھپا کے لاؤ) کہ پڑوس والوں کو خبر نہ ہو ، اور اس کی بھی احتیاط کرو کہ) تمہارا کوئی بچہ وہ پھل لے کر گھر سے باہر نہ نکلے کہ پڑوسی کے بچے کے دل میں اسے دیکھ کر جلن پیدا ہو ۔
اللہ تعالیٰ امت کوتوفیق دے کہ وہ اپنے رسول اللہ ﷺ کی ان ہدایتوں کی قدر و قیمت کو سمجھیں اور اپنی زندگی فکا معمول بنا کر ان کی بیش بہا برکات کا دنیا ہی میں تجربہ کریں ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے بعض متعین حقوق کی نشان دہی بھی فرمائی ہے ان سے اس باب میں شریعت کا اصولی نقطہ نظر بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔
تشریح ..... اس حدیث میں ہمسایوں کے جو متعین حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں سے آخری دو خاص طور سے قابل غور ہیں : ایک یہ کہ اپنے گھر کی تعمیر میں اس کا لحاظ رکھو اور اس کی دیواریں اس طرح نہ اُٹھاؤ کہ پڑوسی کے گھر کی ہوا بند ہو جائے اور اس کو تکلیف پہنچے ۔ اور دوسرے یہ کہ گھر میں جب کوئی اچھی مرغوب چیز پکے تو اس کو نہ بھولو کہ ہانڈی کی مہک پڑوسی کے گھر تک جائے گی ، اور اس کے یا اس کے بچوں کے دل میں اس کی طلب اور طمع پیدا ہو گی جو ان کے لئے باعث ایذاء ہو گی ۔ اس لئے یا تو اپنے پر لازم کر لو کہ اس کھانے میں سے کچھ تم پڑوسی کے گھر بھیجو گے یا پھر اس کا اہتمام کرو کہ ہانڈی کی مہک پڑوسی کے گھر تک نہ جائے جو ظاہر ہے کہ مشکل ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی ان دو ہدایتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پڑوسیوں کے بارے مٰں کتنے نازک اور باریک پہلوؤں کی رعایت کو آپ ﷺ نے ضروری قرار دیا ہے ۔
قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث ابن عدی نے “کامل ” میں اور خرائطی نے “مکارم الاخلاق” میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے بھی روایت کی ہے ۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے :
وَإِنِ اشْتَرَيْتَ فَاكِهَةً فَأَهْدِ لَهُ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَأَدْخِلْهَا سِرًّا، وَلَا يَخْرُجْ بِهَا وَلَدُكَ لِيَغِيظَ بِهِ وَلَدَهُ. (كنز العمال)
اور اگر تم کوئی پھل پھلار خرید کر لاؤ ، تو اس میں سے پڑوسی کے ہاتھ بھی ہدیہ بھیجو اور اگر ایسا نہ کر سکو تو اس کو چھپا کے لاؤ) کہ پڑوس والوں کو خبر نہ ہو ، اور اس کی بھی احتیاط کرو کہ) تمہارا کوئی بچہ وہ پھل لے کر گھر سے باہر نہ نکلے کہ پڑوسی کے بچے کے دل میں اسے دیکھ کر جلن پیدا ہو ۔
اللہ تعالیٰ امت کوتوفیق دے کہ وہ اپنے رسول اللہ ﷺ کی ان ہدایتوں کی قدر و قیمت کو سمجھیں اور اپنی زندگی فکا معمول بنا کر ان کی بیش بہا برکات کا دنیا ہی میں تجربہ کریں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حَقُّ الْجَارِ إِنْ مَرِضَ عُدْتَهُ، وَإِنْ مَاتَ شَيَّعْتَهُ، وَإِنِ اسْتَقْرَضَكَ أَقْرَضْتَهُ، وَإِنْ أَعْوَزَ سَتَرْتَهُ، وَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ هَنَّأْتَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ عَزَّيْتَهُ، وَلَا تَرْفَعْ بِنَاءَكَ فَوْقَ بِنَائِهِ فَتَسُدَّ عَلَيْهِ الرِّيحَ، وَلَا تُؤْذِهِ بِرِيحِ قِدْرِكَ إِلَّا أَنْ تَغْرِفَ لَهُ مِنْهَا» (رواه الطبرانى فى الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ہم سائیگی کے بعض متعین حقوق
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کے ہاں سالن کی ہانڈی پکے تو اسے چاہئے کہ شوربہ زیادہ کر لے ، پھر اس میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی بھیج دے ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
(رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت قریب قریب انہی الفاظ میں جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے) ۔
(رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت قریب قریب انہی الفاظ میں جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے) ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا طَبَخَ أَحَدُكُمْ قِدْرًا فَلْيُكْثِرْ مَرَقَهَا ثُمَّ لْيُنَاوِلْ جَارَهُ مِنْهَا» (رواه الطبرانى فى الاوسط)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ پڑوسی کی تین قسمیں ، غیر مسلم پڑوسی کا بھی حق ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پڑوسی تین قسم کے اور تین درجے کے ہوتے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک ہی حق ہو اور وہ (حق کے لحاظ سے) سب سے کم درجہ کا پڑوسی ہے ، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں اور تیسرا وہ جس کے تین حق ہوں ۔ تو ایک حق والا وہ مشرک (غیر مسلم) پڑوسی ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہ ہو (تو اس کا صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے) اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے ، جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم (یعنی دینی بھائی) بھی ہو ، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہو گا اور دوسرا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے ، جو پڑوسی بھی ہو ، مسلم بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو ۔ تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا ہو گا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا اور تیسرا رشتہ داری کا ہو گا ۔ (مسند بزار ، حلیہ ابی نعیم)
تشریح
اس حدیث میں صراحت اور وضاحت فرما دی گئی ہے کہ پڑوسیوں کے جو حقوق قرآن و حدیث میں بیان فرمائے گئے اور ان کے اکرام اور رعایت و حسنِ سلوک کی جو تاکید فرمائی گئی ہے ان میں غیر مسلم پڑوسی بھی شامل ہیں اور ان کے بھی وہ سب حقوق ہیں ۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سے یہی سمجھا ۔ جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے متعلق روایت کیا گیا ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی وہ تشریف لائے تو انہوں نے گھر والوں سے کہا :
أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا اليَهُودِيِّ؟ أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا اليَهُودِيِّ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ.
تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لئے بھی گوشت کا ہدیہ بھیجا َ؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لئے بھی بھیجا ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں مجھے جبرئیل (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) برابر وصیت اور تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ اس کو وارث بھی قرار دے دیں گے ۔
افسوس کہ عہد نبویﷺ سے جتنا بعد ہوتا گیا امت آپ ﷺ کی تعلیمات اور ہدایات سے اسی قدر دور ہوتی چلی گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے بارے میں جو وصیت اور تاکید امت کو فرمائی تھی اگر صحابہ کرامؓ کے بعد بھی اس پر امت کا عمل رہا ہوتا تو یقینا آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو توفیق دے کہ آنحضرتﷺ کی تعلیم و ہدایت کی قدر و قیمت سمجھیں اور اس کو اپنا دستور العمل بنائیں ۔
تشریح
اس حدیث میں صراحت اور وضاحت فرما دی گئی ہے کہ پڑوسیوں کے جو حقوق قرآن و حدیث میں بیان فرمائے گئے اور ان کے اکرام اور رعایت و حسنِ سلوک کی جو تاکید فرمائی گئی ہے ان میں غیر مسلم پڑوسی بھی شامل ہیں اور ان کے بھی وہ سب حقوق ہیں ۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سے یہی سمجھا ۔ جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے متعلق روایت کیا گیا ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی وہ تشریف لائے تو انہوں نے گھر والوں سے کہا :
أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا اليَهُودِيِّ؟ أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا اليَهُودِيِّ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ.
تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لئے بھی گوشت کا ہدیہ بھیجا َ؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لئے بھی بھیجا ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں مجھے جبرئیل (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) برابر وصیت اور تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ اس کو وارث بھی قرار دے دیں گے ۔
افسوس کہ عہد نبویﷺ سے جتنا بعد ہوتا گیا امت آپ ﷺ کی تعلیمات اور ہدایات سے اسی قدر دور ہوتی چلی گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے بارے میں جو وصیت اور تاکید امت کو فرمائی تھی اگر صحابہ کرامؓ کے بعد بھی اس پر امت کا عمل رہا ہوتا تو یقینا آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو توفیق دے کہ آنحضرتﷺ کی تعلیم و ہدایت کی قدر و قیمت سمجھیں اور اس کو اپنا دستور العمل بنائیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْجِيرَانُ ثَلَاثَةٌ: فَجَارٌ لَهُ حَقٌّ وَاحِدٌ، وَهُوَ اَدْنَى الْجِيْرَانِ حَقًّا وَجَارٌ لَهُ حَقَّانِ، وَجَارٌ لَهُ ثَلَاثَةُ حُقُوقٍ، فَأَمَّا الَّذِي لَهُ حَقٌّ وَاحِدٌ فَجَارٌ مُشْرِكٌ لا رَحِمَ لَهُ، لَهُ حَقُّ الْجِوَارِ، وَأَمَّا الَّذِي لَهُ حَقَّانِ: فَجَارٌ مُسْلِمٌ، لَهُ حَقُّ الإِسْلامِ وَحَقُّ الْجِوَارِ، وَأَمَّا الَّذِي لَهُ ثَلاثَةُ حُقُوقٍ: فَجَارٌ مُسْلِمٌ ذُو رَحِمٍ، لَهُ حَقُّ الإِسْلامِ، وَحَقُّ الْجِوَارِ، وَحَقُّ الرَّحِمِ ". (رواه البزار فى المسند وابى نعيم فى الحلية)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی پڑوسی کا حق ہے
علقمہ بن عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمن کے واسطے سے اپنے دادا ابزی خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن (اپنے ایک خاص خطاب میں) اراشاد فرمایا : کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو اور کیا حال ہے ان کا (جنہیں اللہ نے علم و تفقہ کی دولت سے نوازا ہے اور ان کے پڑوس میں ایسے پسماندہ لوگ ہیں جن کے پاس دین کا علم اور اس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے) وہ اپنے ان پڑوسیوں کو دین سکھانے اور ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ، نہ ان و وعظ و نصیحت کرتے ہیں ۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں ۔ اور کیا ہو گیا ہے ان (بےعلم اور پسماندہ) لوگوں کو کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھنے اور دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے نہ ان سے نصیحت لیتے ہیں ۔ خدا کی قسم ! (دین کا علم اور اس کی سمجھ رکھنے والے) لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے (ناواقف اور پسماندہ) پڑوسیوں کو دین سکھانے اور دین کی سمجھ بوجھ ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور وعظ و نصیحت (کے ذریعہ ان کی اصلاح) کریں اور انہیں نیک کاموں کی تاکید اور برے کاموں سے منع کریں اور اسی طرح ان کے ناواقف اور پسماندہ پڑوسیوں و چا ہئے کہ وہ خود طالب بن کر اپنے پڑوسیوں سے دین کا علم و فہم حاصل کریں اور ان سے نصیحت لیں ۔ یا پھر (یعنی اگر یہ دونوں طبقے اپنا اپنا فرض ادا نہیں کریں گے) تو میں ان کو دنیا ہی میں سخت سزا دوں گا ۔ (مسند اسحاق بن راہویہ)
تشریح
پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے جو ارشادات یہاں تک درج ہوئے ان کا زیادہ تر تعلق زندگی کے معاملات میں ان کے ساتھ اکرام و رعایت کے برتاؤ اور حسن سلوک سے تھا ۔ آخر میں آپ ﷺ کا ایک وہ ارشاد بھی پڑھئے جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی کے پڑوس میں بےچارے ایسے لوگ رہتے ہوں جو دینی تعلیم و تربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے پسماندہ ہوں تو دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اور اور ان کے سدھار و اصلاح کی فکر و کوشش کریں اور اگر وہ اس میں کوتاہی کریں تو مجرم اور سزا کے مستحق ہوں گے ۔
تشریح ..... یہ حدیث کنز العمال جلد پنجم میں “حق الجار” کے زیر عنوان اسی طرح مرکوز ہے ۔ جس طرح یہاں درج کی گئی ہے ، لیکن دوسری جگہ اسی کنز العمال میں حضور و کا یہی خطاب قریب قریب انہی الفاظ میں اس اضافہ کے ساتھ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا روئے سخن اس خطاب میں ابو موسیٰ اشعری اور ابو مالک اشعری کی قوم اشعریین کی طرف تھا ۔ اس قوم کے افراد عام طور سے دین کے علم اور تفقہ سے بہرہ مند تھے لیکن ان ہی کے علاقہ میں اور ان کے پڑوس میں ایسے لوگ بھی آباد تھے جو اس لحاظ سے بہت پسماندہ تھے ، نہ ان کی تعلیم و تربیت ہوئی تھی اور نہ خود ان می ں اس کی طلب اور فکر تھی ۔ اس لحاظ سے یہ دونوں طبقے قصور وار تھے ، اس بناء پر رسول اللہ ﷺنے اپنے کریمانہ عادت کے مطابق ان کو نامزد کئے بغیر اپنے اس خطاب میں ان دونوں پر عتاب فرمایا تھا ۔ اس روایت میں آگے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب اشعریین کو یہ معلوم ہوا کہ اس خطاب میں حضور ﷺ کے عتاب کا روئے سخن ہماری طرف تھا تو ان کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور انہوں نے حضور ﷺ سے یہ وعدہ کیا کہ ہم ان شاء اللہ ایک سال کے اندر اندر ان آبادیوں کے لوگوں کو دین کی تعلیم دے دیں گے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر علاقہ کے لوگوں کو جو دین کا علم رکھتے ہوں اس کا ذمہ دار قرار دیا کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے ناواقف لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان ی اصلاح کی کوشش کرتے تہیں ۔ اور اس طرح ناواقف لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے اہل علم اور اہل دین سے تعلیم اور تربیت و اصلاح کا رابطہ رکھیں ۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل جاری رہتا تو امت کے کسی طبقہ میں بھی دین سے بےخبری اور رسول اللہ ﷺ سے وہ بےتعلقی نہ ہوتی جس میں امت کی غالب اکثریت آج مبتلا ہے ۔ بلاشبہ اس وقت کا سب سے بڑا اصلاحی اور تجدیدی کارنامہ یہی ہے کہ امت میں تعلیم اور تعلم کے اس عمومی غیر رسمی نظام کو پھر سے جاری اور قائم کیا جائے جس کی اس حدیث پاک میں ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ بڑے خوش نصیب ہوں گے وہ بندے جن کو اس کی توفیق ملے گی ۔
تشریح
پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے جو ارشادات یہاں تک درج ہوئے ان کا زیادہ تر تعلق زندگی کے معاملات میں ان کے ساتھ اکرام و رعایت کے برتاؤ اور حسن سلوک سے تھا ۔ آخر میں آپ ﷺ کا ایک وہ ارشاد بھی پڑھئے جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی کے پڑوس میں بےچارے ایسے لوگ رہتے ہوں جو دینی تعلیم و تربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے پسماندہ ہوں تو دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اور اور ان کے سدھار و اصلاح کی فکر و کوشش کریں اور اگر وہ اس میں کوتاہی کریں تو مجرم اور سزا کے مستحق ہوں گے ۔
تشریح ..... یہ حدیث کنز العمال جلد پنجم میں “حق الجار” کے زیر عنوان اسی طرح مرکوز ہے ۔ جس طرح یہاں درج کی گئی ہے ، لیکن دوسری جگہ اسی کنز العمال میں حضور و کا یہی خطاب قریب قریب انہی الفاظ میں اس اضافہ کے ساتھ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا روئے سخن اس خطاب میں ابو موسیٰ اشعری اور ابو مالک اشعری کی قوم اشعریین کی طرف تھا ۔ اس قوم کے افراد عام طور سے دین کے علم اور تفقہ سے بہرہ مند تھے لیکن ان ہی کے علاقہ میں اور ان کے پڑوس میں ایسے لوگ بھی آباد تھے جو اس لحاظ سے بہت پسماندہ تھے ، نہ ان کی تعلیم و تربیت ہوئی تھی اور نہ خود ان می ں اس کی طلب اور فکر تھی ۔ اس لحاظ سے یہ دونوں طبقے قصور وار تھے ، اس بناء پر رسول اللہ ﷺنے اپنے کریمانہ عادت کے مطابق ان کو نامزد کئے بغیر اپنے اس خطاب میں ان دونوں پر عتاب فرمایا تھا ۔ اس روایت میں آگے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب اشعریین کو یہ معلوم ہوا کہ اس خطاب میں حضور ﷺ کے عتاب کا روئے سخن ہماری طرف تھا تو ان کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور انہوں نے حضور ﷺ سے یہ وعدہ کیا کہ ہم ان شاء اللہ ایک سال کے اندر اندر ان آبادیوں کے لوگوں کو دین کی تعلیم دے دیں گے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر علاقہ کے لوگوں کو جو دین کا علم رکھتے ہوں اس کا ذمہ دار قرار دیا کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے ناواقف لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان ی اصلاح کی کوشش کرتے تہیں ۔ اور اس طرح ناواقف لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے اہل علم اور اہل دین سے تعلیم اور تربیت و اصلاح کا رابطہ رکھیں ۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل جاری رہتا تو امت کے کسی طبقہ میں بھی دین سے بےخبری اور رسول اللہ ﷺ سے وہ بےتعلقی نہ ہوتی جس میں امت کی غالب اکثریت آج مبتلا ہے ۔ بلاشبہ اس وقت کا سب سے بڑا اصلاحی اور تجدیدی کارنامہ یہی ہے کہ امت میں تعلیم اور تعلم کے اس عمومی غیر رسمی نظام کو پھر سے جاری اور قائم کیا جائے جس کی اس حدیث پاک میں ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ بڑے خوش نصیب ہوں گے وہ بندے جن کو اس کی توفیق ملے گی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ جده: قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ لا يفقهون جيرانهم ولا يعلمونهم ولا يعظونهم ولا يامرونهم ومَا بَالُ أَقْوَامٍ لا يتعلمون جيرانهم ولا يتفقهون ولا يتعظون والله ليعلمن قوم جيرانهم ويفقهونهم ويعظونهم ويامرونهم وينهونهم وليتعلمن قوم من جيرانهم ويتفقهون ويتعظون ولاعاجلنهم بالعقوبة فى الدنيا. (رواه ابن راهويه والبخارى فى الوحدان وابن السكن وابن مدة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی بےچاری بےشوہر والی عورت یا کسی مسکین حاجت مند کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا بندہ (اللہ کے نزدیک اور اجر و ثواب میں) راہ خدا میں جہاد کرنے والے بندے کے مثل ہے ۔ اور میرا گمان ہے کہ یہ بھی فرمایا تھا کہ اس قائم اللیل (یعنی شب بیدار) بندے کی طرح جو (عبادت اور شب خیزی میں) سستی نہ کرتا ہو اور اس صائم الدہر بندے کی طرح ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو کبھی ناغہ نہ کرتا ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہاں تک جن طبقوں کے حقوق کا بیان کیا گیا یہ سب وہ تھے جن سے آدمی کا کوئی خاص تعلق اور واسطہ ہوتا ہے خواہ نسلی اور خونی رشتہ ہو یا ازدواجی رابطہ ، یا ہمسائیگی اور پڑوس کا تعلق یا عارضی اور وقتی سنگھ ساتھ ۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں ان کے علاوہ تمام طبقوں اور ہر طرح کے حاجت مندوں ، یتیموں ، بیواؤں ، غریبوں ، مسکینوں ، مظلوموں ، آفت رسیدوں اور بیماروں وغیرہ کا بھی حق مقرر کیا گیا ہے اور آپ ﷺ نے اپنے پیروؤں کو ان کی خدمت و خبر گیری اور ہمدردی و معاونت کی تلقین و تاکید فرمائی ہے اور اس کو اعلیٰ درجہ کی نیکی قرار دے کر اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے انعامات کی بشارت سنائی ہے ۔ ان سے طبقوں سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ۔
شریح ..... ہر شخص جو دین کی کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے ، جانتا ہے کہ راہِ خدا میں جہاد و جانبازی بلند ترین عمل ہے ، اسی طرح کسی بندے کا یہ حال کہ اس کی راتیں عبادت میں کٹتی ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو ، بڑا ہی قابلِ رشک حال ہے ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک یہی درجہ اور مقام ان لوگوں کا بھی ہے جو کسی حاجت مند مسکین یا کسی ایسی لاوارث عورت کی خدمت و اعانت کے لئے جس کے سر پر شوہر کا سایہ نہ ہو دورڑ دھوپ کریں ، جس کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خود محنت کر کے کمائیں اور ان پر خرچ کریں ، اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو ان کی خبر گیری اور اعانت کی اطراف متوجہ کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کریں ۔ بلاشبہ وہ بندے بڑے محروم ہیں جو اس حدیث کے علم میں آ جانے کے بعد اس سعادت سے محرورم رہیں ۔
تشریح
یہاں تک جن طبقوں کے حقوق کا بیان کیا گیا یہ سب وہ تھے جن سے آدمی کا کوئی خاص تعلق اور واسطہ ہوتا ہے خواہ نسلی اور خونی رشتہ ہو یا ازدواجی رابطہ ، یا ہمسائیگی اور پڑوس کا تعلق یا عارضی اور وقتی سنگھ ساتھ ۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں ان کے علاوہ تمام طبقوں اور ہر طرح کے حاجت مندوں ، یتیموں ، بیواؤں ، غریبوں ، مسکینوں ، مظلوموں ، آفت رسیدوں اور بیماروں وغیرہ کا بھی حق مقرر کیا گیا ہے اور آپ ﷺ نے اپنے پیروؤں کو ان کی خدمت و خبر گیری اور ہمدردی و معاونت کی تلقین و تاکید فرمائی ہے اور اس کو اعلیٰ درجہ کی نیکی قرار دے کر اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے انعامات کی بشارت سنائی ہے ۔ ان سے طبقوں سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ۔
شریح ..... ہر شخص جو دین کی کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے ، جانتا ہے کہ راہِ خدا میں جہاد و جانبازی بلند ترین عمل ہے ، اسی طرح کسی بندے کا یہ حال کہ اس کی راتیں عبادت میں کٹتی ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو ، بڑا ہی قابلِ رشک حال ہے ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک یہی درجہ اور مقام ان لوگوں کا بھی ہے جو کسی حاجت مند مسکین یا کسی ایسی لاوارث عورت کی خدمت و اعانت کے لئے جس کے سر پر شوہر کا سایہ نہ ہو دورڑ دھوپ کریں ، جس کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خود محنت کر کے کمائیں اور ان پر خرچ کریں ، اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو ان کی خبر گیری اور اعانت کی اطراف متوجہ کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کریں ۔ بلاشبہ وہ بندے بڑے محروم ہیں جو اس حدیث کے علم میں آ جانے کے بعد اس سعادت سے محرورم رہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالمِسْكِينِ، كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ «كَالقَائِمِ لاَ يَفْتُرُ، وَكَالصَّائِمِ لاَ يُفْطِرُ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں اور اپنے یا پرائے یتیم کی کفالت کرنے والا آدمی جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے اور آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کر کے بتلایا ، اور ان کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلمہ والی انگلی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی اس طرح اٹھا کر ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا ، بتلایا کہجتنا تھوڑا سا فاصلہ اور فرق تم میری ان دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس مردِ مومن کے مقام میں ہو گا جو اللہ کے لئے اس دنیا میں کسی یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے خواہ وہ یتیم اس کا اپنا ہو (جیسے پوتا یا بھتیجا وغیرہ) یا پرایا ہو یعنی جس کے ساتھ رشتہ داری وغیرہ کا کوئی خاص تعلق نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں پر یقین نصیب فرمائے اور وہ سعادت میسر فرمائے جس کی رسول اللہ ﷺ نے ان ارشادات میں ترغیب دی ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلمہ والی انگلی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی اس طرح اٹھا کر ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا ، بتلایا کہجتنا تھوڑا سا فاصلہ اور فرق تم میری ان دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس مردِ مومن کے مقام میں ہو گا جو اللہ کے لئے اس دنیا میں کسی یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے خواہ وہ یتیم اس کا اپنا ہو (جیسے پوتا یا بھتیجا وغیرہ) یا پرایا ہو یعنی جس کے ساتھ رشتہ داری وغیرہ کا کوئی خاص تعلق نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں پر یقین نصیب فرمائے اور وہ سعادت میسر فرمائے جس کی رسول اللہ ﷺ نے ان ارشادات میں ترغیب دی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا وَكَافِلُ اليَتِيمِ لَهُ اَوْ لِغَيْرِهِ فِي الجَنَّةِ هَكَذَا وَأَشَارَ السَّبَّابَةَ وَالوُسْطَى وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا شَيْئًا. (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کے جس بندے نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم بچے کو لے لیا اور اپنے کھانے پینے میں شریک کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور بالضرور جنت میں داخل کر دے گا ۔ الا یہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو ناقابلِ معافی ہو ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ یتیم کی کفالت و پرورش پر داخلہ جنت کا قطعی بشارت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ آدمی کسی ایسے سخت گناہ کا مرتکب نہ ہو جو اللہ کے نزدیک ناقابل معافی ہو (جیسے شرک و کفر اور کونِ ناحق وغیرہ) دراصل یہ شرط اس طرح کی تمام تبشیریں حدیثوں میں ملھوظ ہوتی ہے ، اگرچہ الفاظ میں مذکور نہ ہو ۔ بہرحال اس طرح کی تمام ترغیبی اور تبشیری حدیثوں میں بطور قاعدہ کلیہ کے اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے ۔
تشریح
اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ یتیم کی کفالت و پرورش پر داخلہ جنت کا قطعی بشارت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ آدمی کسی ایسے سخت گناہ کا مرتکب نہ ہو جو اللہ کے نزدیک ناقابل معافی ہو (جیسے شرک و کفر اور کونِ ناحق وغیرہ) دراصل یہ شرط اس طرح کی تمام تبشیریں حدیثوں میں ملھوظ ہوتی ہے ، اگرچہ الفاظ میں مذکور نہ ہو ۔ بہرحال اس طرح کی تمام ترغیبی اور تبشیری حدیثوں میں بطور قاعدہ کلیہ کے اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَبَضَ يَتِيمًا مِنْ بَيْنِ الْمُسْلِمِينَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ الْبَتَّةَ إِلاَّ أَنْ يَعْمَلَ ذَنْبًا لاَ يُغْفَرُ لَهُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف اللہ کے لئے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھرا تو ہر ہر بال کے حساب سے اس کی نیکیاں ثابت ہوں گی ، اور جس نے اپنے پاس رہنے والی کسی یتیم بچی یا یتیم بچے کے ساتھ بہتر سلوک کیا تو میں اور وہ آدمی جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے اور آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر بتایا اور دکھایا (کہ ان دو انگلیوں کی طرح بالکل پاس پاس ہوں گے) (مسند احمد ، جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک پر جو روح پرور بشارت اس حدیث میں سنائی گئی ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ یہ حسنِ سلوک خالصاً لوجہ اللہ ہو ۔ اس کو بھی قاعدہ کلیہ کی طرح اس کی تمام ترغیبی اور تبشیری حدیثوں میں ملحوظ رکھنا چاہئے ۔
تشریح
اس حدیث سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک پر جو روح پرور بشارت اس حدیث میں سنائی گئی ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ یہ حسنِ سلوک خالصاً لوجہ اللہ ہو ۔ اس کو بھی قاعدہ کلیہ کی طرح اس کی تمام ترغیبی اور تبشیری حدیثوں میں ملحوظ رکھنا چاہئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَسَحَ رَأْسَ يَتِيمٍ لَمْ يَمْسَحْهُ إِلَّا لِلَّهِ كَانَ لَهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ يَمُرُّ عَلَيْهَا يَدُهُ حَسَنَاتٌ، وَمَنْ أَحْسَنَ إِلَى يَتِيمَةٍ أَوْ يَتِيمٍ عِنْدَهُ كُنْتُ أَنَا وَهُوَ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ وَقَرَنَ بَيْنَ إِصْبُعَيْهِ» (رواه احمد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین گھرانہ وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو ، اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے ۔ (سنن ابن ماجہ)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُحْسَنُ إِلَيْهِ، وَشَرُّ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُسَاءُ إِلَيْهِ» (رواه ابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق: مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سرپرستی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی قساوتِ قلبی اور سخت دلی کی شکایت کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :یتیموں کے سر پر (پیار کا) ہاتھ پھیرا کرو اور مسکینوں حاجت مندوں کو کھانا کھلایا کرو ۔ (مسند احمد)
تشریح
یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا اور مسکینوں حاجت مندوں کو کھانا کھلانا دراصل وہ اعمال ہیں جو جو دل کی درد مندی اور ترحم کے جذبہ سے صادر ہوتے ہیں ، لیکن اگر کسی کا دل دردمندی اور جذبہ ترحم سے خالی ہو اور اس کے بجائے اس میں قساوت ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ وہ عزت اور قوت ارادی سے کام لے کر یہ اعمال کرے ، ان شاء اللہ اس کے دل کی قساوت دردمندی سے بدل جائے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اسی طریق علاج کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔
تشریح
یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا اور مسکینوں حاجت مندوں کو کھانا کھلانا دراصل وہ اعمال ہیں جو جو دل کی درد مندی اور ترحم کے جذبہ سے صادر ہوتے ہیں ، لیکن اگر کسی کا دل دردمندی اور جذبہ ترحم سے خالی ہو اور اس کے بجائے اس میں قساوت ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ وہ عزت اور قوت ارادی سے کام لے کر یہ اعمال کرے ، ان شاء اللہ اس کے دل کی قساوت دردمندی سے بدل جائے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اسی طریق علاج کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا شَكَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْوَةَ قَلْبِهِ، فَقَالَ: «امْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيمِ، وَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৪৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (اس لئے) نہ تو خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لئے اس کو بے یارو مددگار چھوڑے اور جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرے گا اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور مصیبت کو دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبتوں میں سے اس کی کسی مصیبت کو دور کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی پردہ دری کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ دری کرے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৫০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ محتاجوں ، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی مسلمان کی کوئی دنیوی تکلیف اور پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ (س کے عوض) قیامت کے دن کی تکلیف اور پریشانی سے اس کو نجات دے گا اور (جو قرض خواہ اپنے) کسی مقروض کو (اپنے قرضے کی وصولی کے سلسلے میں) سہولت دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت دے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جو کوئی بندہ جب تک اپنے کسی بھائی کی مدد و اعانت کرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کی مدد و اعانت کرتا رہے گا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ فِي الدُّنْيَا يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ فِي الدُّنْيَا سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ العَبْدِ مَا كَانَ العَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ. (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক: