মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৬৭ টি
হাদীস নং: ১৪১১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کی دنیوی برکات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ ماں باپ کی خدمت و فرمانبرداری اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر بڑھا دیتا ہے ۔ (مسند ابن منبع ،کامل ابن عدی)
تشریح
ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کی اصل جزاء تو جنت اور رضائے الٰہی ہے جیسا کہ ان احادیث سے معلوم ہو چکا ہے جو “ماں باپ کے حقوق” کے زیر عنوان پہلے درج ہو چکی ہیں ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے بتلایا ہے کہ ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کرنے والی اولاد کو اللہ تعالیٰ کچھ خاص برکتوں سے اس دنیا میں بھی نوازا جاتا ہے ۔
اس طرح کی احادیث کا تقدیر کے مسئلہ سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کو ازل سے معلوم تھا اور معلوم ہے کہ فلاں آدمی ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کرے گا اسی لحاظ سے اس کی عمر اس سے زیادہ مقرر فرمائی گئی جتنی کہ اس کو ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری نہ کرنے کی صورت میں دی جاتی ۔ اسی طرح ان سب حدیثوں کو سمجھنا چاہئے جن میں کسی اچھے عمل پر رزق میں وسعت اور برکت وغیرہ کی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ حالانکہ رزق کی تنگی اور وسعت بھی مقدر ہے ۔
تشریح
ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کی اصل جزاء تو جنت اور رضائے الٰہی ہے جیسا کہ ان احادیث سے معلوم ہو چکا ہے جو “ماں باپ کے حقوق” کے زیر عنوان پہلے درج ہو چکی ہیں ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے بتلایا ہے کہ ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کرنے والی اولاد کو اللہ تعالیٰ کچھ خاص برکتوں سے اس دنیا میں بھی نوازا جاتا ہے ۔
اس طرح کی احادیث کا تقدیر کے مسئلہ سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کو ازل سے معلوم تھا اور معلوم ہے کہ فلاں آدمی ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کرے گا اسی لحاظ سے اس کی عمر اس سے زیادہ مقرر فرمائی گئی جتنی کہ اس کو ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری نہ کرنے کی صورت میں دی جاتی ۔ اسی طرح ان سب حدیثوں کو سمجھنا چاہئے جن میں کسی اچھے عمل پر رزق میں وسعت اور برکت وغیرہ کی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ حالانکہ رزق کی تنگی اور وسعت بھی مقدر ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عن جابر قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إن الله تعالى يزيد في عمر الرجل ببره والديه. " (رواه ابن منيع وابن عدى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪১২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کی دنیوی برکات
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے آباء (ماں باپ) کی خدمت و فرمانبرداری کرو ، تمہاری اولاد تمہاری فرمانبردار اور خدمت گزار ہو گی اور تم پاک دامنی کے ساتھ رہو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو اولاد ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرے گی اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کو اس کا فرمانبردار اور خدمت گزار بنا دے گی ، اسی طرح جو لوگ پاکدامنی کی زندگی گزاریں گے ، اللہ تعالیٰ ان کی بیویوں کو پاک دامنی کی توفیق دے گا ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو اولاد ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرے گی اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کو اس کا فرمانبردار اور خدمت گزار بنا دے گی ، اسی طرح جو لوگ پاکدامنی کی زندگی گزاریں گے ، اللہ تعالیٰ ان کی بیویوں کو پاک دامنی کی توفیق دے گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عن ابن عمر قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِرُّوا آبَاءَكُمْ يَبِرُّكُمْ أَبْنَاؤُكُمْ وَعِفُّوا تَعِفُّ نِسَاؤُكُمْ. (رواه الطبرانى فى الاوسط)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪১৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ والدین کی نافرمانی و ایذاء رسانی عظیم ترین گناہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کبیرہ (یعنی بڑے بڑے) گناہوں کے بارے میں دریافت کیا گیا (کہ وہ کون کون سے گناہ ہیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : خدا کے ساتھ شرک کرنا ، ماں باپ کی نافرمانی و ایذاء رسانی ، کسی بندے کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
رسول اللہ ﷺنے جس طرح ماں باپ کی فرمانبرداری اور راحت رسانی کو اعلیٰ درجہ قرار دیا ہے (جو جنت اور رضائے الٰہی کا خاص وسیلہ ہے) اسی طرح ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی کو “اکبر الکبائر” یعنی بدترین اور خبیث ترین گناہوں میں سے بتلایا ہے ۔
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ان گناہوں کو “اکبر الکبائر” (یعنی کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ) بتایا ہے ، اور جس ترتیب سے آپ ﷺ نے ان کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کے بعد والدین کے حقوق (یعنی ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی) کا درجہ ہے ، حتی کہ قتل نفس کا درجہ بھی اس کے بعد ہے ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺنے جس طرح ماں باپ کی فرمانبرداری اور راحت رسانی کو اعلیٰ درجہ قرار دیا ہے (جو جنت اور رضائے الٰہی کا خاص وسیلہ ہے) اسی طرح ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی کو “اکبر الکبائر” یعنی بدترین اور خبیث ترین گناہوں میں سے بتلایا ہے ۔
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ان گناہوں کو “اکبر الکبائر” (یعنی کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ) بتایا ہے ، اور جس ترتیب سے آپ ﷺ نے ان کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کے بعد والدین کے حقوق (یعنی ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی) کا درجہ ہے ، حتی کہ قتل نفس کا درجہ بھی اس کے بعد ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الكَبَائِرِ، فَقَالَ: «الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪১৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ والدین کی نافرمانی و ایذاء رسانی عظیم ترین گناہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اپنے ماں باپ کو گالی دینا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ عرض کیا گیا کہ : یا رسول اللہ کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کے ماں باپ کو گالی دے ، پھر وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دے ، (تو گویا اس نے خود ہی اپنے ماں باپ کو گالی دلوائی) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی کا کسی دوسرے کو ایسی بات کہنا یا ایسی حرکت کرنا جس کے نتیجہ میں دوسرا آدمی اس کے ماں باپ کو گالی دینے لگے اتنی ہی بری بات ہے جتنی کہ خود اپنے ماں باپ کو گالی دینا ، اور یہ گناہِ کبیرہ کے درجہ کی چیز ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں ماں باپ کے احترام کا کیا مقام ہے ، اور اس بارے میں آدمی کو کتنا محتاط رہنا چاہئے ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی کا کسی دوسرے کو ایسی بات کہنا یا ایسی حرکت کرنا جس کے نتیجہ میں دوسرا آدمی اس کے ماں باپ کو گالی دینے لگے اتنی ہی بری بات ہے جتنی کہ خود اپنے ماں باپ کو گالی دینا ، اور یہ گناہِ کبیرہ کے درجہ کی چیز ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں ماں باپ کے احترام کا کیا مقام ہے ، اور اس بارے میں آدمی کو کتنا محتاط رہنا چاہئے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَهَلْ يَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪১৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دوسرے اہل قرابت کے حقوق اور صلہ رحمی کی اہمیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : رحم (یعنی حق قرابت) مشتق ہے رحمن سے (یعنی خداوند رحمٰن کی رحمت کی ایک شاخ ہے اور اس نسبت سے) اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا ، اور جو تجھے توڑے گا میں اس کو توڑوں گا ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
اسلامی تعلیم میں والدین کے علاوہ دوسرے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور “صلہ رحمی” اس کا خاص عنوان ہے ۔ قرآن مجید میں جہاں والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی گئی ہے وہیں “وَذِى الْقُرْبَى” فرما کر دوسرے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوقِ قرابت کی ادائیگی کی بھی وصیت فرمائی گئی ہے ۔ ابھی چند صفحے پہلے صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالہ سے ایک سائل کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ : خدمت اور حسن سلوک کا سب سے پہلا حق تم پر تمہاری ماں کا ہے ، اس کے بعد باپ کا ، اس کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے اہلِ قرابت کا ۔ اب یہاں چند وہ حدیثیں اور پڑھ لیجئے جن میں صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات بیان فرمائے گئے ہیں ، یا اس کے برعکس قطع رحمی کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی باہم قرابت اور رشتہ داری کے تعلق کو اللہ تعالیٰ کے اسم پاک رحمن سے اور اس کی صفت رحمت سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کا سرچشمہ ہے ، اور اسی لیے اس کا عنوان رحم مقرر کیا گیا ہے ۔ اس خصوصی نسبت ہی کی وجہ سے عنداللہ اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو صلہ رحمی کرے گا (یعنی قرابت اور رشتہ داری کے حقوق ادا کرے گا ، اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا) اس کو اللہ تعالیٰ اپنے سے وابستہ کر لے گا ، اور اپنا بنا لے گا ، اور جو کوئی اس کے برعکس قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے کاٹ دے گا اور دور اور بے تعلق کر دے گا ۔ اسی ایک حدیث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں صلہ رحمی کی (یعنی رشتہ داروں اور اہلِ قرابت کے ساتھ حسن سلوک کی) کتنی اہمیت ہے ، اور اس میں کوتاہی کتنا سنگین جرم اور کتنی بڑی محرومی ہے ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں کا مضمون بھی اس کے قریب ہی قریب ہے ۔
تشریح
اسلامی تعلیم میں والدین کے علاوہ دوسرے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور “صلہ رحمی” اس کا خاص عنوان ہے ۔ قرآن مجید میں جہاں والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی گئی ہے وہیں “وَذِى الْقُرْبَى” فرما کر دوسرے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوقِ قرابت کی ادائیگی کی بھی وصیت فرمائی گئی ہے ۔ ابھی چند صفحے پہلے صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالہ سے ایک سائل کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ : خدمت اور حسن سلوک کا سب سے پہلا حق تم پر تمہاری ماں کا ہے ، اس کے بعد باپ کا ، اس کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے اہلِ قرابت کا ۔ اب یہاں چند وہ حدیثیں اور پڑھ لیجئے جن میں صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات بیان فرمائے گئے ہیں ، یا اس کے برعکس قطع رحمی کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی باہم قرابت اور رشتہ داری کے تعلق کو اللہ تعالیٰ کے اسم پاک رحمن سے اور اس کی صفت رحمت سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کا سرچشمہ ہے ، اور اسی لیے اس کا عنوان رحم مقرر کیا گیا ہے ۔ اس خصوصی نسبت ہی کی وجہ سے عنداللہ اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو صلہ رحمی کرے گا (یعنی قرابت اور رشتہ داری کے حقوق ادا کرے گا ، اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا) اس کو اللہ تعالیٰ اپنے سے وابستہ کر لے گا ، اور اپنا بنا لے گا ، اور جو کوئی اس کے برعکس قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے کاٹ دے گا اور دور اور بے تعلق کر دے گا ۔ اسی ایک حدیث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں صلہ رحمی کی (یعنی رشتہ داروں اور اہلِ قرابت کے ساتھ حسن سلوک کی) کتنی اہمیت ہے ، اور اس میں کوتاہی کتنا سنگین جرم اور کتنی بڑی محرومی ہے ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں کا مضمون بھی اس کے قریب ہی قریب ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ " (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪১৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دوسرے اہل قرابت کے حقوق اور صلہ رحمی کی اہمیت
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ خدا ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ : اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “میں الرحمٰن ہوں ، میں نے رشتہ قرابت کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام رحمٰن کے مادہ سے نکال کر اس کو رحم کا نام دیا ہے ، پس جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا مین اس کو توڑوں گا ۔”(سنن ابی داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مشیت سے پیدائش کا ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا رشتوں کے بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے ، پھر ان رشتوں کے کچھ فطری تقاضے اور حقوق ہیں جن کا عنوان اللہ تعالیٰ نے رحم مقرر کیا ہے ، جو اس کے نام پاک رحمٰن سے گویا مشتق ہے (یعنی دونوں کا مادہ ایک ہی ہے) پس جو بندہ انسان کی فطرت میں رکھے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے ان حقوق اور تقاضوں کو ادا کرے گا (یعنی صلہ رحمی کرے گا) اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ اس کو جوڑے گا (یعنی اس کو اپنا بنا لے گا اور فضل و کرم سے نوازے گا) اور اس کےبرعکس جو قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اور قرابت کے ان حقوق کو پامال کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور انسان کی فطرت میں رکھے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دے گا ، یعنی اپنے قرب اور اپنی رحمت و کرم سے محروم کر دے گا ۔
آج دنیا میں مسلمان جن حالات سے دو چار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے محرومی کا منظر جو ہر جگہ نظر آ رہا ہے ، بلاشبہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہماری بہت سی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ، لیکن ان احادیث کی روشنی میں یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس بربادی اور محرومی میں بڑا دخل ہمارے اس جرم کو بھی ہے کہ صلہ رحمی کی تعلیم و ہدایت کو ہماری غالب اکثریت نے بالکل ہی بھلا دیا ہے اور اس باب میں ہمارا طرز عمل غیر مسلموں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مشیت سے پیدائش کا ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا رشتوں کے بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے ، پھر ان رشتوں کے کچھ فطری تقاضے اور حقوق ہیں جن کا عنوان اللہ تعالیٰ نے رحم مقرر کیا ہے ، جو اس کے نام پاک رحمٰن سے گویا مشتق ہے (یعنی دونوں کا مادہ ایک ہی ہے) پس جو بندہ انسان کی فطرت میں رکھے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے ان حقوق اور تقاضوں کو ادا کرے گا (یعنی صلہ رحمی کرے گا) اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ اس کو جوڑے گا (یعنی اس کو اپنا بنا لے گا اور فضل و کرم سے نوازے گا) اور اس کےبرعکس جو قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اور قرابت کے ان حقوق کو پامال کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور انسان کی فطرت میں رکھے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دے گا ، یعنی اپنے قرب اور اپنی رحمت و کرم سے محروم کر دے گا ۔
آج دنیا میں مسلمان جن حالات سے دو چار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے محرومی کا منظر جو ہر جگہ نظر آ رہا ہے ، بلاشبہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہماری بہت سی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ، لیکن ان احادیث کی روشنی میں یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس بربادی اور محرومی میں بڑا دخل ہمارے اس جرم کو بھی ہے کہ صلہ رحمی کی تعلیم و ہدایت کو ہماری غالب اکثریت نے بالکل ہی بھلا دیا ہے اور اس باب میں ہمارا طرز عمل غیر مسلموں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا اللَّهُ، وَأَنَا الرَّحْمَنُ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَهَا مِنْ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪১৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صلہ رحمی کے بعض دنیوی برکات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی یہ چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور کشادگی ہو ، اور دنیا میں اس کے آثار قدم تا دیر رہیں (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو وہ (اہل قرابت کے ساتھ) صلہ رحمی کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
خاندانی زندگی میں بکثرت ایسا پیش آتا ہے کہ ایک آدمی رشتہ اور قرابت کے حقوق ادا نہیں کرتا ۔ اہل قرابت کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ ایسے آدمیوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا معاملہ کیا جائے ۔
اللہ کی کتاب قرآن پاک اور رسول اللہ ﷺکی احادیث میں یہ حقیقت جا بجا بیان فرمائی گئی ہے کہ بعض نیک اعمال کے صلہ میں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی برکتوں سے نوازتا ہے ۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ صلہ رحمی یعنی اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک وہ مبارک عمل ہے جس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق میں وسعت اور عمر میں زیادتی اور برکت ہوتی ہے ۔ صلہ رحمی کی دو ہی صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ آدمی اپنی کمائی سے اہل قرابت کی مالی خدمت کرے ، دوسرے یہ کہ اپنے وقت اور اپنی زندگی کا کچھ حصہ ان کے کاموں میں لگائے اس کے صلہ میں رزق و مال میں وسعت اور زندگی کی مدت میں اضافہ اور برکت بالکل قرین قیاس اور اور اللہ تعالیٰ کی حکمت و رحمت کے عین مطابق ہے ۔
اسبابی نقطہ نظر سے بھی یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے یہ واقعہ اور عام تجربہ ہے کہ خاندانی جھگڑے اور خانگی الجھنیں جو زیادہ تر حقوق قرابت ادا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں آدمی کے لئے دلی پریشانی اور اندرونی کڑھن اور گھٹن کا باعث بنتی ہیں اور کاروبار اور صحت ہر چیز متاثر کرتی ہیں لیکن جو لوگ اہل خاندان اور اقارب کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کا برتاؤ کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھتے ہیں ان کی زندگی انشراح و طمانیت اور خوش دلی کے ساتھ گزرتی ہے اور ہر لحاظ سے ان کے حالات بہتر رہتے ہیں اور فضل خداوندی ان میں شامل حال رہتا ہے ۔
تشریح
خاندانی زندگی میں بکثرت ایسا پیش آتا ہے کہ ایک آدمی رشتہ اور قرابت کے حقوق ادا نہیں کرتا ۔ اہل قرابت کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ ایسے آدمیوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا معاملہ کیا جائے ۔
اللہ کی کتاب قرآن پاک اور رسول اللہ ﷺکی احادیث میں یہ حقیقت جا بجا بیان فرمائی گئی ہے کہ بعض نیک اعمال کے صلہ میں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی برکتوں سے نوازتا ہے ۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ صلہ رحمی یعنی اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک وہ مبارک عمل ہے جس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق میں وسعت اور عمر میں زیادتی اور برکت ہوتی ہے ۔ صلہ رحمی کی دو ہی صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ آدمی اپنی کمائی سے اہل قرابت کی مالی خدمت کرے ، دوسرے یہ کہ اپنے وقت اور اپنی زندگی کا کچھ حصہ ان کے کاموں میں لگائے اس کے صلہ میں رزق و مال میں وسعت اور زندگی کی مدت میں اضافہ اور برکت بالکل قرین قیاس اور اور اللہ تعالیٰ کی حکمت و رحمت کے عین مطابق ہے ۔
اسبابی نقطہ نظر سے بھی یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے یہ واقعہ اور عام تجربہ ہے کہ خاندانی جھگڑے اور خانگی الجھنیں جو زیادہ تر حقوق قرابت ادا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں آدمی کے لئے دلی پریشانی اور اندرونی کڑھن اور گھٹن کا باعث بنتی ہیں اور کاروبار اور صحت ہر چیز متاثر کرتی ہیں لیکن جو لوگ اہل خاندان اور اقارب کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کا برتاؤ کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھتے ہیں ان کی زندگی انشراح و طمانیت اور خوش دلی کے ساتھ گزرتی ہے اور ہر لحاظ سے ان کے حالات بہتر رہتے ہیں اور فضل خداوندی ان میں شامل حال رہتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪১৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قطع رحمی کے راستے میں رکاوٹ
حضرت جیبر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : قطع رحمی کرنے والا (یعنی رشتہ داروں اور اہلِ قرابت کے ساتھ برا سلوک کرنے والا) جنت میں نہ جا سکے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس ایک حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں اور اللہ کے نزدیک صلہ رحمی کی کتنی اہمیت ہے اور قطع رحمی کس درجہ کا گناہ ہے ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قطع رحمی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا سخت گناہ ہے کہ اس گناہ کی گندگی کے ساتھ کوئی جنت میں نہیں جا سکے گا ، ہاں جب اس کو سزا دے کے پاک کر دیا جائے گا یا کسی وجہ سے اس کو معاف کر دیا جائے گا تو جا سکے گا ، جب تک ان دونوں میں سے ایک بات نہ ہو جنت کا دروازہ اس کے لئے بند رہے گا ۔
تشریح
اس ایک حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں اور اللہ کے نزدیک صلہ رحمی کی کتنی اہمیت ہے اور قطع رحمی کس درجہ کا گناہ ہے ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قطع رحمی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا سخت گناہ ہے کہ اس گناہ کی گندگی کے ساتھ کوئی جنت میں نہیں جا سکے گا ، ہاں جب اس کو سزا دے کے پاک کر دیا جائے گا یا کسی وجہ سے اس کو معاف کر دیا جائے گا تو جا سکے گا ، جب تک ان دونوں میں سے ایک بات نہ ہو جنت کا دروازہ اس کے لئے بند رہے گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪১৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ آدمی صلہ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو (صلہ رحمی کرنے والے اور اپنے اقرباء کے ساتھ) بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے ۔ صلہ رحمی کا حق ادا کرنے والا دراصل وہ ہے جو اس حالت میں صلہ رحمی کرے (اور قرابت داروں کا حق ادا کرے) جب وہ اس کے ساتھ قطع رحم (اور حق تلفی) کا معاملہ کریں ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
ظاہر ہے کہ قطع رحمی اور حق تلفی کرنے والوں کے ساتھ جبجوابی طور پر قطع رحمی کا برتاؤ کیا جائے گا تو یہ ہماری اور گندگی معاشرے میں اور زیادہ بڑھے گی اور اس کے برعکس جب ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کیا جائے گا تو انسانی فطرت سے امید ہے کہ دیر سویر ان کی اصلاح ہو گی اور معاشرے میں صلہ رحمی کو فروغ ہو گا ۔
تشریح
ظاہر ہے کہ قطع رحمی اور حق تلفی کرنے والوں کے ساتھ جبجوابی طور پر قطع رحمی کا برتاؤ کیا جائے گا تو یہ ہماری اور گندگی معاشرے میں اور زیادہ بڑھے گی اور اس کے برعکس جب ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کیا جائے گا تو انسانی فطرت سے امید ہے کہ دیر سویر ان کی اصلاح ہو گی اور معاشرے میں صلہ رحمی کو فروغ ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَمْرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ الوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریاں: بیوی پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے ۔ (مستدرک حاکم)
تشریح
انسانوں کے باہمی تعلقات میں ازدواجی تعلق کی جو خاص نوعیت اور اہمیت ہے اور اس سے جو عظیم مصالح اور منافع وابستہ ہیں وہ کسی وضاحت کے محتاج نہیں ، نیز زندگی کا سکون اور قلب کا اطمینان بڑی حد تک اسی کی خوشگواری اور باہمی الفت و اعتماد پر موقوف ہے ۔ پھر جیسا کہ ظاہر ہے اس کا خاص مقصد یہ ہے کہ فریقین کو پاکیزگی کے ساتھ زندگی کی وہ مسرتیں اور راحتیں نصیب ہوں جو اس تعلق ہی سے حاصل ہو سکتی ہیں اور آدمی آوارگی اور پراگندگی سے محفوظ رہ کر زندگی کے فرائض و وظائف ادا کر سکے اور نسلِ انسانی کا وہ تسلسل بھی انسانی عظمت اور شرف کے ساتھ جاری رہے جو اس دنیا کے خالق کی مشیت ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد بھی اسی صورت میں بہتر طریقے پر پورے ہو سکتے ہیں جبکہ فریقین میں زیادہ سے زیادہ محبت و یگانگت اور تعلق میں زیادہ سے زیادہ خوشگواری ہو ۔
رسول اللہ ﷺ نے میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا خاص مقصد یہی ہے کہ یہ تعلق فریقین کے لئے زیادہ سے زیادہ خوش گوار اور مسرت و راحت کا باعث ہو ، دل جڑے رہیں اور وہ مقاصد جن کے لئے یہ تعلق قائم کیا جاتا ہے بہتر طریقے سے پورے ہوں ۔
اس باب میں آنحضرتﷺ کی تعلیم و ہدایت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے لئے سب سے بالاتر سمجھے ، اس کی وفادار اور فرمانبردار رہے ، اس کی خیر خواہی اور اضا جوئی میں کمی نہ کرے ، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے ۔ اور شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے ، اس کی قدر اور اس سے محبت کرے ، اگر اس سے غلطی ہو جائے تو چشم پوشی کرے ، صبر و تحمل و دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے ، اپنی استطاعت کیحد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے ، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے ۔
ان تعلیمات کی صحیح قدر و قیمت سمجھنے کے لئے اب سے قریبا ۱۴۰۰ سو سال پہلے پوری انسانی دنیا اور خاص کر عربوں کے اس ماحول کو سامنے رکھنا چاہئے جس میں بےچاری بیوی کی حیثیت ایک خرید کردہ جانور سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی اور اس غریب کا کوئی حق نہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس مختصر تمہید کے بعد اس سلسلہ کے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھئے :
تشریح
انسانوں کے باہمی تعلقات میں ازدواجی تعلق کی جو خاص نوعیت اور اہمیت ہے اور اس سے جو عظیم مصالح اور منافع وابستہ ہیں وہ کسی وضاحت کے محتاج نہیں ، نیز زندگی کا سکون اور قلب کا اطمینان بڑی حد تک اسی کی خوشگواری اور باہمی الفت و اعتماد پر موقوف ہے ۔ پھر جیسا کہ ظاہر ہے اس کا خاص مقصد یہ ہے کہ فریقین کو پاکیزگی کے ساتھ زندگی کی وہ مسرتیں اور راحتیں نصیب ہوں جو اس تعلق ہی سے حاصل ہو سکتی ہیں اور آدمی آوارگی اور پراگندگی سے محفوظ رہ کر زندگی کے فرائض و وظائف ادا کر سکے اور نسلِ انسانی کا وہ تسلسل بھی انسانی عظمت اور شرف کے ساتھ جاری رہے جو اس دنیا کے خالق کی مشیت ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد بھی اسی صورت میں بہتر طریقے پر پورے ہو سکتے ہیں جبکہ فریقین میں زیادہ سے زیادہ محبت و یگانگت اور تعلق میں زیادہ سے زیادہ خوشگواری ہو ۔
رسول اللہ ﷺ نے میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا خاص مقصد یہی ہے کہ یہ تعلق فریقین کے لئے زیادہ سے زیادہ خوش گوار اور مسرت و راحت کا باعث ہو ، دل جڑے رہیں اور وہ مقاصد جن کے لئے یہ تعلق قائم کیا جاتا ہے بہتر طریقے سے پورے ہوں ۔
اس باب میں آنحضرتﷺ کی تعلیم و ہدایت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے لئے سب سے بالاتر سمجھے ، اس کی وفادار اور فرمانبردار رہے ، اس کی خیر خواہی اور اضا جوئی میں کمی نہ کرے ، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے ۔ اور شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے ، اس کی قدر اور اس سے محبت کرے ، اگر اس سے غلطی ہو جائے تو چشم پوشی کرے ، صبر و تحمل و دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے ، اپنی استطاعت کیحد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے ، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے ۔
ان تعلیمات کی صحیح قدر و قیمت سمجھنے کے لئے اب سے قریبا ۱۴۰۰ سو سال پہلے پوری انسانی دنیا اور خاص کر عربوں کے اس ماحول کو سامنے رکھنا چاہئے جس میں بےچاری بیوی کی حیثیت ایک خرید کردہ جانور سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی اور اس غریب کا کوئی حق نہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس مختصر تمہید کے بعد اس سلسلہ کے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھئے :
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أعظم الناس حقا على المرأة زوجها، وأعظم الناس حقا على الرجل أمه. (رواه الحاكم فى المستدرك)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اگر غیر اللہ کے لئے سجدے کی گنجائش ہوتی تو عورتوں کو شوہروں کے لئے سجدے کا حکم ہوتا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اگر میں کسی مخلوق کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
کسی مخلوق پر کسی دوسری مخلوق کا زیادہ سے زیادہ حق بیان کرنے کے لئے اس سے زیادہ بلیغ اور موثر کوئی دوسرا عنوان نہیں ہو سکتا جو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بیوی پر شوہر کا حق بیان کے لئے اختیار فرمایا ۔ حدیث کا مطلب اور مدعا یہی ہے کہ کسی کے نکاح میں آ جانے اور اس کی بیوی بن جانے کے بعد عورت پر خدا کے بعد سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہو جاتا ہے ۔ اسے چاہئے کہ اس کی فرمانبرداری اور رجا جوئی میں کوئی کمی نہ کرے ۔
جامع ترمذی میں یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ میں روایت کی گئی ہے ۔
(52) اور امام احمد نے مسند میں اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے ان الفاظ میں روایت کی ہے ۔
«لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا» (الحديث)
کسی آدمی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے آدمی کو سجدہ کرے اور اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے ، کیوں کہ اس پر اس کے شوہر کا بہت بڑا حق ہے ۔
(53) اور سنن ابن اماجہ میں یہی مضمون حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی روایت سے حضرت معاذ بن جبل کے ایک واقعہ کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس روایت میں واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ :
“مشہور انصاری صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ملک شام گئے ہوئے تھے جب وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا ۔ آپ ﷺ نے تعجب سے پوچھا :
“ مَا هَذَا يَا مُعَاذ ؟ ”
“معاذ ! یہ کیا کر رہے ہو ؟”
انہوں نے عرض کیا کہ : میں شام گیا تھا ، وہاں کے لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے دینی پیشواؤں پادریوں کو اور قومی سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں ، تو میرے دل میں آیا کہ ایسے ہی ہم بھی آپ کو سجدہ کیا کریں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ایسا نہ کرو ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا :
فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. (الحديث)
اگر میں کسی کو اللہ کے سوا اور کے لئے سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔
(54) اور سنن ابی داؤد میں اس سے ملتا جلتا ایک دوسرا واقعہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی قیس بن سعد سے روایت کیا گیا ہے ۔ وہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ :
“میں حیرہ گیا تھا (یہ کوفہ کے پاس ایک قدیمی شہر تھا) وہاں کے لوگوں نے دیکھا کہ وہ ادب و تعظیم کے طور پر اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں ۔ میں نے اپنی جی میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کیا کریں ، پھر جب میں (سفر لوٹ کے) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے یہی بات عرض کی ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا :
«أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِي أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ»
بتاؤ اگر (میرے مرنے کے بعد) تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو کیا میری قبر کو بھی سجدہ (1) کرو گے ؟ (قیس کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ نہیں (میں آپ کی قبر کو تو سجدہ نہیں کروں گا) تو آپ ﷺ نے فرمایا ایسے ہی اب بھی نہ کرو ۔ (اس کے بعد آپنے ارشاد فرمایا) اگر میں کسی کو کسی دوسری مخلوق کے لئے سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں ، اس عظیم حق کی بناء پر جو اللہ نے ان کے شوہروں کا ان پر مقرر کیا ہے۔”
(55) اور مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور واقعہ روایت کیا گیا ہے کہ ایک اونٹ نے نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا (یعنی وہ اس طرح آپو کے حضور میں جھک گیا جس کو دیکھنے والوں نے سجدہ سے تعبیر کیا) اس اونٹ کا یہ طرز عمل دیکھ کر بعض صحابہؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ اونٹ جیسے چوپائے اور درخت آپ کے لئے سجدہ کرتے ہیں (یعنی جھک جاتے ہیں) تو ان کی بہ نسبت ہمارے لئے زیادہ سزاوار ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ۔ آپنے ان سے فرمایا:
«اعْبُدُوا رَبَّكُمْ، وَأَكْرِمُوا أَخَاكُمْ، وَلَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا، أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا» (الحديث)
عبادت اور پرستش بس اپنے رب کو کرو اور اپنے بھائی کا (یعنی میرا) بس اکرام و احترام کرو اور اگر میں کسی کو کسی دوسری مخلوق کے لئے سجدہ کرنے کو کہتا تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ الخ
ان مختلف احادیث و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیوی پر شوہر کے حق کے بارے میں یہ سجدے والی بات مختلف موقعوں پر اور بار بار فرمائی ۔
ہر قسم کا سجدہ صرف اللہ کے لئے
ان سب حدیثوں سے یہ بات بھی پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ معلوم ہو گئی کہ شریعت محمدی ﷺ میں سجدہ صرف اللہ کے لئے ہے اس کے سوا کسی دوسرے کے لئے حتی کہ افضل مخلوق سید الانبیاء حضرت محمدﷺ کے لئے بھی کسی طرح کے سجدہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت م عاذ یا قیس بن سعدؓ یا جن دوسرے صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدے کے بارے میں عرض کیا تھا وہ سجدہ تحیہ ہی کے بارے میں عرض کیا تھا (جس کو لوگ سجدہ تعظیمی بھی کہہ دیتے ہیں) اس کا تو شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان صحابہؓ نے معاذ اللہ سجدہ عبادت و عبودیت کے بارے میں عرض کیا ہو ۔ جو شخص رسول اللہ ﷺ پر ایمان لا چکا اور آپ ﷺ کی دعوت توحید کو قبول کر چکا اس کو تو اس کا وسوسہ بھی نہیں آ سکتا کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ عبادت کرے ۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ ان حدیثوں کا تعلق خاص کر سجدہ تحیہ ہی سے ہے ۔ اسی لئے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ کسی مخلوق کے لئے سجدہ تحیہ بھی حرام ہے ۔ پس جو لوگ اپنے بزرگوں ، مرشدوں کو یا مرنے کے بعد ان کے مزاروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ بہرحال شریعت محمدی ﷺ کے مجرم اور باغی ہیں اور ان کا یہ عمل صورۃ بلاشبہ شرک ہے ۔
(غیر اللہ کے لئے سجدے کے بارے میں یہاں جو چند سطریں لکھی گئیں ، یہ مندرجہ بالا احادیث کی تشریح کا ضروری حق اور تقاضا تھا اب اصل موضوع (یعنی بیوی پر شوہر کے حقوق) سے متعلق بقیہ احادیث پڑھئے)
تشریح
کسی مخلوق پر کسی دوسری مخلوق کا زیادہ سے زیادہ حق بیان کرنے کے لئے اس سے زیادہ بلیغ اور موثر کوئی دوسرا عنوان نہیں ہو سکتا جو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بیوی پر شوہر کا حق بیان کے لئے اختیار فرمایا ۔ حدیث کا مطلب اور مدعا یہی ہے کہ کسی کے نکاح میں آ جانے اور اس کی بیوی بن جانے کے بعد عورت پر خدا کے بعد سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہو جاتا ہے ۔ اسے چاہئے کہ اس کی فرمانبرداری اور رجا جوئی میں کوئی کمی نہ کرے ۔
جامع ترمذی میں یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ میں روایت کی گئی ہے ۔
(52) اور امام احمد نے مسند میں اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے ان الفاظ میں روایت کی ہے ۔
«لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا» (الحديث)
کسی آدمی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے آدمی کو سجدہ کرے اور اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے ، کیوں کہ اس پر اس کے شوہر کا بہت بڑا حق ہے ۔
(53) اور سنن ابن اماجہ میں یہی مضمون حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی روایت سے حضرت معاذ بن جبل کے ایک واقعہ کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس روایت میں واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ :
“مشہور انصاری صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ملک شام گئے ہوئے تھے جب وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا ۔ آپ ﷺ نے تعجب سے پوچھا :
“ مَا هَذَا يَا مُعَاذ ؟ ”
“معاذ ! یہ کیا کر رہے ہو ؟”
انہوں نے عرض کیا کہ : میں شام گیا تھا ، وہاں کے لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے دینی پیشواؤں پادریوں کو اور قومی سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں ، تو میرے دل میں آیا کہ ایسے ہی ہم بھی آپ کو سجدہ کیا کریں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ایسا نہ کرو ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا :
فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. (الحديث)
اگر میں کسی کو اللہ کے سوا اور کے لئے سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔
(54) اور سنن ابی داؤد میں اس سے ملتا جلتا ایک دوسرا واقعہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی قیس بن سعد سے روایت کیا گیا ہے ۔ وہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ :
“میں حیرہ گیا تھا (یہ کوفہ کے پاس ایک قدیمی شہر تھا) وہاں کے لوگوں نے دیکھا کہ وہ ادب و تعظیم کے طور پر اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں ۔ میں نے اپنی جی میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کیا کریں ، پھر جب میں (سفر لوٹ کے) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے یہی بات عرض کی ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا :
«أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِي أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ»
بتاؤ اگر (میرے مرنے کے بعد) تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو کیا میری قبر کو بھی سجدہ (1) کرو گے ؟ (قیس کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ نہیں (میں آپ کی قبر کو تو سجدہ نہیں کروں گا) تو آپ ﷺ نے فرمایا ایسے ہی اب بھی نہ کرو ۔ (اس کے بعد آپنے ارشاد فرمایا) اگر میں کسی کو کسی دوسری مخلوق کے لئے سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں ، اس عظیم حق کی بناء پر جو اللہ نے ان کے شوہروں کا ان پر مقرر کیا ہے۔”
(55) اور مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور واقعہ روایت کیا گیا ہے کہ ایک اونٹ نے نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا (یعنی وہ اس طرح آپو کے حضور میں جھک گیا جس کو دیکھنے والوں نے سجدہ سے تعبیر کیا) اس اونٹ کا یہ طرز عمل دیکھ کر بعض صحابہؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ اونٹ جیسے چوپائے اور درخت آپ کے لئے سجدہ کرتے ہیں (یعنی جھک جاتے ہیں) تو ان کی بہ نسبت ہمارے لئے زیادہ سزاوار ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ۔ آپنے ان سے فرمایا:
«اعْبُدُوا رَبَّكُمْ، وَأَكْرِمُوا أَخَاكُمْ، وَلَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا، أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا» (الحديث)
عبادت اور پرستش بس اپنے رب کو کرو اور اپنے بھائی کا (یعنی میرا) بس اکرام و احترام کرو اور اگر میں کسی کو کسی دوسری مخلوق کے لئے سجدہ کرنے کو کہتا تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ الخ
ان مختلف احادیث و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیوی پر شوہر کے حق کے بارے میں یہ سجدے والی بات مختلف موقعوں پر اور بار بار فرمائی ۔
ہر قسم کا سجدہ صرف اللہ کے لئے
ان سب حدیثوں سے یہ بات بھی پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ معلوم ہو گئی کہ شریعت محمدی ﷺ میں سجدہ صرف اللہ کے لئے ہے اس کے سوا کسی دوسرے کے لئے حتی کہ افضل مخلوق سید الانبیاء حضرت محمدﷺ کے لئے بھی کسی طرح کے سجدہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت م عاذ یا قیس بن سعدؓ یا جن دوسرے صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدے کے بارے میں عرض کیا تھا وہ سجدہ تحیہ ہی کے بارے میں عرض کیا تھا (جس کو لوگ سجدہ تعظیمی بھی کہہ دیتے ہیں) اس کا تو شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان صحابہؓ نے معاذ اللہ سجدہ عبادت و عبودیت کے بارے میں عرض کیا ہو ۔ جو شخص رسول اللہ ﷺ پر ایمان لا چکا اور آپ ﷺ کی دعوت توحید کو قبول کر چکا اس کو تو اس کا وسوسہ بھی نہیں آ سکتا کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ عبادت کرے ۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ ان حدیثوں کا تعلق خاص کر سجدہ تحیہ ہی سے ہے ۔ اسی لئے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ کسی مخلوق کے لئے سجدہ تحیہ بھی حرام ہے ۔ پس جو لوگ اپنے بزرگوں ، مرشدوں کو یا مرنے کے بعد ان کے مزاروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ بہرحال شریعت محمدی ﷺ کے مجرم اور باغی ہیں اور ان کا یہ عمل صورۃ بلاشبہ شرک ہے ۔
(غیر اللہ کے لئے سجدے کے بارے میں یہاں جو چند سطریں لکھی گئیں ، یہ مندرجہ بالا احادیث کی تشریح کا ضروری حق اور تقاضا تھا اب اصل موضوع (یعنی بیوی پر شوہر کے حقوق) سے متعلق بقیہ احادیث پڑھئے)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھے اور ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرم و آبرو کی حفاظت کرے اور شوہر کی فرمانبردار رہے تو پھر (اسے حق ہے کہ) جنت کے جس دروازے سے چاہے اس میں داخل ہو ۔ (حلیہ ابو نعیم)
تشریح
میاں بیوی کے تعلق میں یہ ضروری تھا کہ کسی ایک کو سربراہی کا درجہ دیا جائے اور اسی حساب سے اس پر ذمہ داریاں بھی ڈالی جائیں ، اور ظاہر ہے کہ فطری برتری کے لحاظ سے اس کے لئے شوہر ہی زیادہ موزوں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ شریعت محمدیﷺ میں گھر کا سربراہ مرد ہی کو قرار دیا گیا ہے ، اور بڑی ذمہ داریاں اسی پر ڈالی گئی ہیں ۔ فرمایا گیا ہے : “الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ” (مرد عورتوں کے سربراہ اور ذمہ دار ہیں) اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے سربراہ ذمہ دار اور اور اپنے سرتاج کی حیثیت سے شوہر کی بات مانیں ، اور بیوی ہونے کی حیثیت سے ان کی مخصوص خانگی ذمہ داریاں ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں ۔ چنانچہ ان کے لئے فرمایا گیا ہے “فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ ” (النساء ۳۴) (نیک بیویاں شوہروں کی فرمانبردار ہوتی ہیں ، اور شوہر کے پیچھے بھی (اس کی آبرو اور ہر امانت کی حفاظت کرتی ہیں)
اگر عورت شوہر کی اطاعت فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی و سرکشی کا رویہ اختیار کرے تو ظاہر ہے کہ اس کے نتیجہ میں پہلے کشمکش اور پھر خانہ جنگی ہو گی جو دونوں کی دینی و دنیوی بربادی کا باعث ہو گی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو شوہروں کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید بھی فرمائی ہے ، اور اس کا عظیم اجر و ثواب بیان فرما کر ترغیب بھی دی ہے ۔
تشریح ..... اس حدیث میں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ اس میں بیوی کے لئے شوہر کی اطاعت کو نماز ، روزہ اور زنا سے اپنی حفاظت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں اس کی بھی ایسی ہی اہمیت ہے جیسی کہ ان ارکان و فرائض کی ۔
تشریح
میاں بیوی کے تعلق میں یہ ضروری تھا کہ کسی ایک کو سربراہی کا درجہ دیا جائے اور اسی حساب سے اس پر ذمہ داریاں بھی ڈالی جائیں ، اور ظاہر ہے کہ فطری برتری کے لحاظ سے اس کے لئے شوہر ہی زیادہ موزوں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ شریعت محمدیﷺ میں گھر کا سربراہ مرد ہی کو قرار دیا گیا ہے ، اور بڑی ذمہ داریاں اسی پر ڈالی گئی ہیں ۔ فرمایا گیا ہے : “الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ” (مرد عورتوں کے سربراہ اور ذمہ دار ہیں) اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے سربراہ ذمہ دار اور اور اپنے سرتاج کی حیثیت سے شوہر کی بات مانیں ، اور بیوی ہونے کی حیثیت سے ان کی مخصوص خانگی ذمہ داریاں ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں ۔ چنانچہ ان کے لئے فرمایا گیا ہے “فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ ” (النساء ۳۴) (نیک بیویاں شوہروں کی فرمانبردار ہوتی ہیں ، اور شوہر کے پیچھے بھی (اس کی آبرو اور ہر امانت کی حفاظت کرتی ہیں)
اگر عورت شوہر کی اطاعت فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی و سرکشی کا رویہ اختیار کرے تو ظاہر ہے کہ اس کے نتیجہ میں پہلے کشمکش اور پھر خانہ جنگی ہو گی جو دونوں کی دینی و دنیوی بربادی کا باعث ہو گی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو شوہروں کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید بھی فرمائی ہے ، اور اس کا عظیم اجر و ثواب بیان فرما کر ترغیب بھی دی ہے ۔
تشریح ..... اس حدیث میں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ اس میں بیوی کے لئے شوہر کی اطاعت کو نماز ، روزہ اور زنا سے اپنی حفاظت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں اس کی بھی ایسی ہی اہمیت ہے جیسی کہ ان ارکان و فرائض کی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَلْمَرْأَةُ اِذَا صَلَّتْ خَمْسَهَا وَصَامَتْ شَهْرَهَا وَاَحْصَنَتْ فَرْجَهَا وَاَطَاعَتْ بَعْلَهَا فَلْتَدْخُلْ مِنْ اَىِّ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَتْ. (رواه ابو نعيم فى الحيلة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو عورت اس حالت میں دنیا سے جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش ہو تو وہ جنت میں جائے گی ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بات بار بار واضح کی جا چکی ہے کہ جن احادیث میں کسی خاص عمل پر جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور اس کا صلہ جنت ہے اور اس کا کرنے والا جنتی ہے لیکن اگر بالفرض وہ عقیدہ یا عمل کی کسی ایسی گندگی میں ملوث ہو جس کی لازمی سزا دوزخ کا عذاب ہو تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اس کا اثر بھی ظاہر ہو کے رہے گا ۔ اسی روشنی میں ام سلمہؓ کی اس حدیث کا مطلب سمجھنا چاہئے ۔
دوسری بات یہاں یہ قابل لحاظ ہے کہ اگر کوئی شوہر ناواجب طور پر اپنی بیوی سے ناراض ہو تو اللہ کے نزدیک بیوی بےقصور ہو گی اور ناراضی کی ذمہ داری خود شوہر پر ہو گی ۔
(یہاں تک وہ حدیثیں مذکور ہوئی جن میں بیویوں پر شوہروں کا حق بیان کیا گیا ہے ، اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید فرمائی گئی ہے ، اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید فرمائی گئی ہے ۔ اب وہ حدیثیں پڑھئے جن میں شوہروں کو بیویوں کی رعایت اور دلجوئی و دلداری اور بہتر رویہ کی تاکید فرمائی گئی ہے)۔
تشریح
اس سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بات بار بار واضح کی جا چکی ہے کہ جن احادیث میں کسی خاص عمل پر جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور اس کا صلہ جنت ہے اور اس کا کرنے والا جنتی ہے لیکن اگر بالفرض وہ عقیدہ یا عمل کی کسی ایسی گندگی میں ملوث ہو جس کی لازمی سزا دوزخ کا عذاب ہو تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اس کا اثر بھی ظاہر ہو کے رہے گا ۔ اسی روشنی میں ام سلمہؓ کی اس حدیث کا مطلب سمجھنا چاہئے ۔
دوسری بات یہاں یہ قابل لحاظ ہے کہ اگر کوئی شوہر ناواجب طور پر اپنی بیوی سے ناراض ہو تو اللہ کے نزدیک بیوی بےقصور ہو گی اور ناراضی کی ذمہ داری خود شوہر پر ہو گی ۔
(یہاں تک وہ حدیثیں مذکور ہوئی جن میں بیویوں پر شوہروں کا حق بیان کیا گیا ہے ، اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید فرمائی گئی ہے ، اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضا جوئی کی تاکید فرمائی گئی ہے ۔ اب وہ حدیثیں پڑھئے جن میں شوہروں کو بیویوں کی رعایت اور دلجوئی و دلداری اور بہتر رویہ کی تاکید فرمائی گئی ہے)۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتِ الجَنَّةَ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے حقوق اور ان کی رعایت و مدارات کی تاکید
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (حجۃ الوداع میں یوم عرفہ کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ہدایت بھی دی) لوگو ! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، تم نے ان کو اللہ کیامان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے ۔ اور اسی اللہ کے کلمہ اور حکم سے وہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں ۔تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جس کا (گھر میں آنا اور) تمہارے بستروں پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آ کر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں ، پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو (تنبیہ و تادیب کے طور پر) تم سزا دے سکتے ہو جو زیادہ سخت نہ ہو ، اور تمہارے ذمہ مناسب طریقے پر ان کے کھانے کپڑے (وغیرہ ضروریات) کا بندوبست کرنا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں سب سے پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ مرد جو عورتوں کے بااختیار اور صاحب امر سربراہ ہیں وہ اپنی اس سربراہی کو خدا کے مواخذہ اور محاسبہ سے بےپروا ہو کر عورتوں پر استعمال نہ کریں ، وہ ان کے معاملہ میں خدا سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ان کے اور ان کی بیویوں کے رمیان خدا ہے ، اسی کے حکم اور اسی کے مقرر کئے ہوئے ضابطہ نکاح کے مطابق وہ ان کی بیوی بنی ہیں اور ان کے لئے حلال ہوئی ہیں اور وہ اللہ کی امان میں ان کی ماتحت اور زیرِ دست بنائی گئی ہیں ، یعنی ان کی بیوی بن جانے کے بعد ان کو اللہ کی امان اور پناہ حاصل ہے ۔اگر شوہر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کریں گے تو اللہ کی دی ہوئی امان کو توڑیں گے اور اس کے مجرم ہوں گے ۔ “أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ” کا یہی مطلب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس جملہ نے بتایا کہ جب کوئی عورت اللہ کے حکم کے مطابق کسی مرد سے نکاح کر کے اس کی بیوی بن جاتی ہے تو اس کو اللہ کی ایک خاص امان حاصل ہو جاتی ہے ۔
یہ عورتوں کے لئے کتنا بڑا شرف ہے اور اس میں ان کے سربراہ شوہروں کو کتنی سخت آگاہی ہے کہ وہ یہ بات یاد رکھیں کہ ان کی بیویاں اللہ کی امان میں ہیں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ شوہروں کا بیویوں پر یہ حق ہے کہ جن مردوں یا عورتوں کا گھر میں آنا اور بیویوں سے بات چیت کرنا انہیں پسند نہ ہو بیویاں ان کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں ۔ “ وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ ” کا یہی (1) مطلب ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو تم مردوں کو ان کے سربراہ کی حیثیت سے حق ہے کہ ان کی اصلاح اور تنبیہ کے لئے مناسب سمجھیں تو ان کو سزا دیں ، لیکن صراحت کے ساتھ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ یہ سزا سخت نہ ہو “غَيْرَ مُبَرِّحٍ” کا یہی مطلب ہے ۔
آخر میں فرمایا گیا ہے کہ بیویوں کا شوہر پر یہ خاص حق ہے کہ وہ ان کو کھانے ، کپڑے وغیرہ کی ضروریات اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق پوری کریں ، اس معاملہ میں بخل و کنجوسی سے کام نہ لیں ۔ “بِالْمَعْرُوفِ” کا یہی مطلب ہے ۔
تشریح
اس حدیث میں سب سے پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ مرد جو عورتوں کے بااختیار اور صاحب امر سربراہ ہیں وہ اپنی اس سربراہی کو خدا کے مواخذہ اور محاسبہ سے بےپروا ہو کر عورتوں پر استعمال نہ کریں ، وہ ان کے معاملہ میں خدا سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ان کے اور ان کی بیویوں کے رمیان خدا ہے ، اسی کے حکم اور اسی کے مقرر کئے ہوئے ضابطہ نکاح کے مطابق وہ ان کی بیوی بنی ہیں اور ان کے لئے حلال ہوئی ہیں اور وہ اللہ کی امان میں ان کی ماتحت اور زیرِ دست بنائی گئی ہیں ، یعنی ان کی بیوی بن جانے کے بعد ان کو اللہ کی امان اور پناہ حاصل ہے ۔اگر شوہر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کریں گے تو اللہ کی دی ہوئی امان کو توڑیں گے اور اس کے مجرم ہوں گے ۔ “أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ” کا یہی مطلب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس جملہ نے بتایا کہ جب کوئی عورت اللہ کے حکم کے مطابق کسی مرد سے نکاح کر کے اس کی بیوی بن جاتی ہے تو اس کو اللہ کی ایک خاص امان حاصل ہو جاتی ہے ۔
یہ عورتوں کے لئے کتنا بڑا شرف ہے اور اس میں ان کے سربراہ شوہروں کو کتنی سخت آگاہی ہے کہ وہ یہ بات یاد رکھیں کہ ان کی بیویاں اللہ کی امان میں ہیں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ شوہروں کا بیویوں پر یہ حق ہے کہ جن مردوں یا عورتوں کا گھر میں آنا اور بیویوں سے بات چیت کرنا انہیں پسند نہ ہو بیویاں ان کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں ۔ “ وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ ” کا یہی (1) مطلب ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو تم مردوں کو ان کے سربراہ کی حیثیت سے حق ہے کہ ان کی اصلاح اور تنبیہ کے لئے مناسب سمجھیں تو ان کو سزا دیں ، لیکن صراحت کے ساتھ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ یہ سزا سخت نہ ہو “غَيْرَ مُبَرِّحٍ” کا یہی مطلب ہے ۔
آخر میں فرمایا گیا ہے کہ بیویوں کا شوہر پر یہ خاص حق ہے کہ وہ ان کو کھانے ، کپڑے وغیرہ کی ضروریات اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق پوری کریں ، اس معاملہ میں بخل و کنجوسی سے کام نہ لیں ۔ “بِالْمَعْرُوفِ” کا یہی مطلب ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ جَابِرٍ (فى حديث طويل فى قصة حجة الوداع قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فى خطبته يوم عرفة) اتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کے بارے میں میری وصیت مانو (یعنی میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کی ان بندیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، نرمی اور مدارات کا برتاؤ رکھو ، ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے (جو قدرتی طور پر ٹیڑھی ہتی ہے) اور زیادہ کجی پسلی کے اوپر کے حصے میں ہوتی ہے ، اگر تم اس ٹیڑھی پسلی کو (زبردستی) بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی ، اور اگر اسے یونہی اپنے حامل پر چھوڑ دو گے (اور درست کرنے کی کوشش نہ کرو گے) تو پھر وہ ہمیشہ ویسی ہی ٹیڑھی رہے گی ، اس لئے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے : “فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ” (ان کی تخلیق اور بناوٹ پسلی سے ہوئی ہے) یہ واقعہ کا بیان بھی ہو سکتا ہے اور اس کو محاوراتی تمثیل بھی کہا جا سکتا ہے ۔ بہرصورت مقصد و مدعا یہ ہے کہ عورتوں کی جبلت اور سرشت میں کچھ نہ کچھ کجی ہوتی ہے ۔ (1) جیسے کہ آدمی کے پہلو کی پسلی میں قدرتی کجی ہوتی ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے ک زیادہ کجی اس کے اوپر والے حصے میں ہوتی ہے ، یہ غالبا اس طرف اشارہ ہے کہ عورت میں کجی کا زیادہ تر ظہور اوپر کے حصے میں ہوتا ہے جس میں سوچنے والا دماغ اور بولنے والی زبان ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر تم ٹیڑھی پسلی کو زور و قوت سے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی ۔ اور اگر یونہی چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی ۔ مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی زبردستی اور تشدد سے عورت کی مزاجی کجی نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ کامیاب نہ ہو سکے گا ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ افتراق اور علیحدگی کی نوبت آ جائے اور اگر اصلاح کی بالکل فکر نہ کرے گا تو وہ کجی ہمیشہ رہے گی اور کبھی قلبی سکون اور زندگی کی خوشگواری کی وہ دولت حاصل نہ ہو سکے گی جو رشتہ اردواج کا خاص مقصد ہے ۔ اس لئے مردوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کی معمولی غلطیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہتر سلوک اور دلداری کا برتاؤ کریں ۔ اس طریقے اسے ان کی اصلاح بھی ہو سکے گی ، یہ میری خاص وصیت اور نصیحت ہے ۔ اس پر کاربند رہو ۔ “اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا” سے آپ نے کالم شروع فرمایا تھا اور خاتمہ کلام پر پھر فرمایا : “فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ” اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور دلداری کے برتاؤ کا کتنا اہتمام تھا ۔
تشریح
اس حدیث میں عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے : “فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ” (ان کی تخلیق اور بناوٹ پسلی سے ہوئی ہے) یہ واقعہ کا بیان بھی ہو سکتا ہے اور اس کو محاوراتی تمثیل بھی کہا جا سکتا ہے ۔ بہرصورت مقصد و مدعا یہ ہے کہ عورتوں کی جبلت اور سرشت میں کچھ نہ کچھ کجی ہوتی ہے ۔ (1) جیسے کہ آدمی کے پہلو کی پسلی میں قدرتی کجی ہوتی ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے ک زیادہ کجی اس کے اوپر والے حصے میں ہوتی ہے ، یہ غالبا اس طرف اشارہ ہے کہ عورت میں کجی کا زیادہ تر ظہور اوپر کے حصے میں ہوتا ہے جس میں سوچنے والا دماغ اور بولنے والی زبان ہے ۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر تم ٹیڑھی پسلی کو زور و قوت سے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی ۔ اور اگر یونہی چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی ۔ مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی زبردستی اور تشدد سے عورت کی مزاجی کجی نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ کامیاب نہ ہو سکے گا ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ افتراق اور علیحدگی کی نوبت آ جائے اور اگر اصلاح کی بالکل فکر نہ کرے گا تو وہ کجی ہمیشہ رہے گی اور کبھی قلبی سکون اور زندگی کی خوشگواری کی وہ دولت حاصل نہ ہو سکے گی جو رشتہ اردواج کا خاص مقصد ہے ۔ اس لئے مردوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کی معمولی غلطیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہتر سلوک اور دلداری کا برتاؤ کریں ۔ اس طریقے اسے ان کی اصلاح بھی ہو سکے گی ، یہ میری خاص وصیت اور نصیحت ہے ۔ اس پر کاربند رہو ۔ “اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا” سے آپ نے کالم شروع فرمایا تھا اور خاتمہ کلام پر پھر فرمایا : “فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ” اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور دلداری کے برتاؤ کا کتنا اہتمام تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی ایمان والا شوہر اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہیں کرتا (یا یہ کہ اس کو نفرت نہیں کرنی چاہئے) اگر اس کو کوئی عادت ناپسندیدہ ہو گی تو دوسری کوئی عادت پسندیدہ بھی ہو گی ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر کو اپنی بیوی کی عادات و اطوار میں کوئی بات مرضی کے خلاف اور ناپسندیدہ معلوم ہو اور اچھی نہ لگے تو اس کی وجہ سے اس سے نفرت اور لاتعلقی کا رویہ اختیار نہ کرے اور نہ طلاق کے بارے میں سوچے ، بلکہ اس میں جو خوبیاں ہوں ان پر نگاہ کرے اور ان کی قدر و قیمت کو سمجھے ، یہ مومن شوہر کی صفت ایمان کا تقاضا اور مومنہ بیوی کے ایمان کا حق ہے ۔ اسی صورتحال کے بارے میں قرآن مجید میں ہدایت دی گئی ہے ۔
(وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا النساء۴:۱۹)
اور بیویوں کے ساتھ مناسب و معقول طریقے سے گزران کرو ، اگر وہ تمہیں ناپسند بھی ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو اور اللہ نے اس میں بہت خیر و خوبی رکھی ہو ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر کو اپنی بیوی کی عادات و اطوار میں کوئی بات مرضی کے خلاف اور ناپسندیدہ معلوم ہو اور اچھی نہ لگے تو اس کی وجہ سے اس سے نفرت اور لاتعلقی کا رویہ اختیار نہ کرے اور نہ طلاق کے بارے میں سوچے ، بلکہ اس میں جو خوبیاں ہوں ان پر نگاہ کرے اور ان کی قدر و قیمت کو سمجھے ، یہ مومن شوہر کی صفت ایمان کا تقاضا اور مومنہ بیوی کے ایمان کا حق ہے ۔ اسی صورتحال کے بارے میں قرآن مجید میں ہدایت دی گئی ہے ۔
(وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا النساء۴:۱۹)
اور بیویوں کے ساتھ مناسب و معقول طریقے سے گزران کرو ، اگر وہ تمہیں ناپسند بھی ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو اور اللہ نے اس میں بہت خیر و خوبی رکھی ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يفرك مُؤمن مُؤمنَة، ان كره مِنْهَا خلقا رَضِي مِنْهَا الآخر " (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کمال ایمان کی شرط
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاق برتاؤ (سب کے ساتھ) بہت اچھا ہو (اور خاص کر) بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف و محبت کا ہو ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کمال ایمان کی شرط
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں میں زیادہ کامل الایمان وہ ہیں جن کےاخلاق بہتر ہیں اور (واقعہ میں اللہ کی نگاہ میں) تم میں اچھے اور خیر کا زیادہ حامل وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں زیادہ اچھے ہیں ۔ (جامع ترمذی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا، أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُهُمْ خِيَارُهُمْ لِنِسَائِهِمْ» (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪২৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معیاری اور مثالی برتاؤ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ آدمی تم میں زیادہ اچھا اور بھلا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو ۔ (اسی کے ساتھ فرمایا) اور میں اپنی بیویوں کے لیے بہت اچھا ہوں ۔ (جامع ترمذی)
(نیز مسند دارمی اور سنن ابن ماجہ مین یہی حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کی گئی ہے)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ آدمی کی اچھائی اور بھلائی کا خاص معیار اور نشانی یہ ہے کہ اس کا برتاؤ اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو ۔ آگے مسلمانوں کے واسطے اپنی اس ہدایت کو زیادہ موثر بنانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی مثال بھی پیش فرمائی کہ خدا کے فضل سے میں اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہوں ۔
واقعہ یہ ہے کہ بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا برتاؤ انتہائی دلجوئی اور دلداری کا تھا ، جس کی ایک دو مثالیں آگے درج ہونے والی حدیثوں سے بھی معلوم ہوں گی ۔
(نیز مسند دارمی اور سنن ابن ماجہ مین یہی حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کی گئی ہے)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ آدمی کی اچھائی اور بھلائی کا خاص معیار اور نشانی یہ ہے کہ اس کا برتاؤ اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو ۔ آگے مسلمانوں کے واسطے اپنی اس ہدایت کو زیادہ موثر بنانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی مثال بھی پیش فرمائی کہ خدا کے فضل سے میں اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہوں ۔
واقعہ یہ ہے کہ بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا برتاؤ انتہائی دلجوئی اور دلداری کا تھا ، جس کی ایک دو مثالیں آگے درج ہونے والی حدیثوں سے بھی معلوم ہوں گی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي. (رواه الترمذى والدارمى ورواه ابن ماجه عن ابن عباس)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৪৩০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معیاری اور مثالی برتاؤ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس (یعنی نکاح و رخصتی کے بعد آپ ﷺ کے ہاں آ جانے کے بعد بھی) گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری کچھ سہیلیاں تھیں (جو ساتھ کھیلنے کے لئے میرے پاس بھی آیا جایا کرتی تھیں) تو جب آنحضرتﷺ گھر میں تشریف لاتے تو وہ (آپ کے اس احترام میں کھیل چھوڑ کے) گھر کے اندر جا چھپتیں تو آپ ﷺ ان کو میرے پاس بھجوا دیتے (یعنی خود فرما دیتے کہ وہ اسی طرح میرے ساتھ کھیلتی رہیں) چنانچہ وہ آ کے پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا صحیح روایات کے مطابق نو سال کی عمر میں آنحضرتﷺ کے گھر آ گئیں تھیں (1) اور اس وقت وہ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں اور انہیں اس سے دلچسپی تھی ۔ صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اپنے متعلق یہ بیان ہے : “وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا” (یعنی جب ان کی رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں اور ان کے کھیلنے کی گڑیاں ان کے ساتھ تھیں) صحیحین کی زیرِ تشریح حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں اس کھیل اور تفریحی مشغلہ سے نہ صرف یہ کہ منع فرماتے تھے بلکہ اس بارے میں ان کی اس حد تک دلداری فرماتے تھے کہ جب آپ کے تشریف لانے پر ساتھ کھیلنے والی دوسری بچیاں کھیل چھوڑ کے بھاگتیں تو آپ ﷺ خود ان کو کھیل جاری رکھنے کے لئے فرما دیتے ۔ ظاہر ہے کہ بیوی کی دلداری کی یہ انتہائی مثال ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گریاں اور تصویر کا مسئلہ
یہاں بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب ذی روح کی تصویر بنانا اور اس کا گھر میں رکھنا جائز نہیں اور اس پر صحیح حدیثوں میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیقہؓ کو گڑیوں سے کھیلنے اور گھر میں رکھنے کی اجازت کیوں دی ؟ بعض شارحین نے اس کا ایک جواب یہ بھی دیا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے گڑیوں سے کھیلنے کا یہ واقعہ ہجرت کے ابتدائی زمانہ کا ہے جب کہ تصویروں کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، بعد میں جب تصویروں کے بنانے اور رکھنے کی سخت ممانعت کر دی گئی تو گڑیوں کے بنانے اور کھیلنے کی بھی گنجائش نہیں رہی ۔ لیکن اس عاجز کے نزدیک زیادہ صحیح جواب یہ ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ گڑیاں تصویر کے حکم میں داخل ہی نہیں تھیں ۔ وہ تو چودہ سو برس پہلے کی بات ہے خود ہمارے اس زمانے میں جب کہ سینے پرونے کے فن نے وہ ترقی کر لی ہے جو معلوم ہے گھروں کی چھوٹی بچیاں اپنے کھیلنے کے لئے جو گڑیاں بناتی ہیں ہم نے دیکھا کہ تصویریت کے لحاظ سے وہ اتنی ناقص ہوتی ہیں کہ ان پر کسی طرھ بھی تصویر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ، اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گڑیوں کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ۔
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا صحیح روایات کے مطابق نو سال کی عمر میں آنحضرتﷺ کے گھر آ گئیں تھیں (1) اور اس وقت وہ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں اور انہیں اس سے دلچسپی تھی ۔ صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اپنے متعلق یہ بیان ہے : “وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا” (یعنی جب ان کی رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں اور ان کے کھیلنے کی گڑیاں ان کے ساتھ تھیں) صحیحین کی زیرِ تشریح حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں اس کھیل اور تفریحی مشغلہ سے نہ صرف یہ کہ منع فرماتے تھے بلکہ اس بارے میں ان کی اس حد تک دلداری فرماتے تھے کہ جب آپ کے تشریف لانے پر ساتھ کھیلنے والی دوسری بچیاں کھیل چھوڑ کے بھاگتیں تو آپ ﷺ خود ان کو کھیل جاری رکھنے کے لئے فرما دیتے ۔ ظاہر ہے کہ بیوی کی دلداری کی یہ انتہائی مثال ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گریاں اور تصویر کا مسئلہ
یہاں بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب ذی روح کی تصویر بنانا اور اس کا گھر میں رکھنا جائز نہیں اور اس پر صحیح حدیثوں میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیقہؓ کو گڑیوں سے کھیلنے اور گھر میں رکھنے کی اجازت کیوں دی ؟ بعض شارحین نے اس کا ایک جواب یہ بھی دیا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے گڑیوں سے کھیلنے کا یہ واقعہ ہجرت کے ابتدائی زمانہ کا ہے جب کہ تصویروں کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، بعد میں جب تصویروں کے بنانے اور رکھنے کی سخت ممانعت کر دی گئی تو گڑیوں کے بنانے اور کھیلنے کی بھی گنجائش نہیں رہی ۔ لیکن اس عاجز کے نزدیک زیادہ صحیح جواب یہ ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ گڑیاں تصویر کے حکم میں داخل ہی نہیں تھیں ۔ وہ تو چودہ سو برس پہلے کی بات ہے خود ہمارے اس زمانے میں جب کہ سینے پرونے کے فن نے وہ ترقی کر لی ہے جو معلوم ہے گھروں کی چھوٹی بچیاں اپنے کھیلنے کے لئے جو گڑیاں بناتی ہیں ہم نے دیکھا کہ تصویریت کے لحاظ سے وہ اتنی ناقص ہوتی ہیں کہ ان پر کسی طرھ بھی تصویر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ، اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گڑیوں کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، «فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ، فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ فَيَلْعَبْنَ مَعِي» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক: