মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩৬৭ টি

হাদীস নং: ১৩৯১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس بندے یا بندی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی (اور اس نے اس ذمہ داری کو ادا کیا) اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا ، تو یہ بیٹیاں اس کے لئے دوزخ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت صدیقہؓ کی اسی حدیث کی ایک روایت میں وہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے جس کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی ۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک نہایت غریب عورت کچھ مانگنے کے لئے آئی ، اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں ، اتفاق سے ان کے پاس اس وقت صرف ایک کھجور تھی ۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے وہی کھجور اسی بےچاری کو دے دی ۔ اس نے اس ایک کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں بچیوں میں تقسیم کر دئیے ، اور خود اس میں سے کچھ بھی نہیں لیا اور چلی گئی ۔ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا ۔ اس پر اپﷺ نے فرمایا کہ : جس بندے یا بندی پر بیٹیوں کی ذمہ داری پڑے ، اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، تو یہ بیٹیاں آخرت میں اس کی نجات کا سامان بنیں گی ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ آدمی اگر بالفرض اپنے کچھ گناہوں کی وجہ سے سزا اور عذاب کے قابل ہو گا تو لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کے صلہ میں اس کی مغفرت فرما دی جائے گی اور وہ دوزخ سے بچا دیا جائے گا ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری روایت میں جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک بےچاری مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو گود میں لئے ان کے پاس آئی اور سوال کیا ، تو حضرت عائشہؓ نے اس کو تین کھجوریں دیں ، اس نے ایک ایک دونوں بچیوں کو دے دی ، اور ایک خود کھانے کے لئے اپنے منہ میں رکھنے لگی ، بچیوں نے اس تیسری کھجور کو بھی مانگا تو اس نے خود نہیں کھائی ، بلکہ وہ بھی آدھی آدھی کر کے دونوں بچیوں کو دے دی ۔ حضرت عائشہؓ اس کے اس طرز عمل سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے اسی عمل کی وجہ سے اس کے لئے جنت کا اور دوزخ سے رہائی کا فیصلہ فرما دیا ” ۔
ہو سکتا ہے کہ حضرت صدیقہ کے ساتھ یہ دونوں واقعے الگ الگ پیش آئے ہوں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ ایک ہی ہو اور راویوں کے بیان میں اختلاف ہو گیا ہو ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«مَنِ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ، فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৯২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو بندہ دو لڑکیوں کا بار اٹھائے اور ان کی پرورش کرے ، یہاں تک کہ وہ سنِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ اور میں قیامت کے دن اس طرح ساتھ ہوں گے ۔ راوی حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو بالکل ملا کر دکھایا ۔ (یعنی یہ کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ، اسی طرح میں اور وہ شخص بالکل ساتھ ہوں گے) ۔ (صحیح مسلم)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ» وَضَمَّ أَصَابِعَهُ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৯৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو ہی بیٹیوں یا بہنوں کا بار اٹھایا اور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اللہ تعالیی کی طرف سے اس بندے کے لئے جنت کا فیصلہ ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)

تشریح
ان حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے حسن سلوک کو لڑکیوں کا صرف حق ہی نہیں بتلایا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر داخلہ جنت اور عذاب دوزخ سے نجات کا آپ نے اعلان فرمایا ، اور یہ انتہائی خوش خبری سنائی کہ لڑکیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے اہل ایمان قیامت میں اس طرح میرے قریب اور بالکل میرے ساتھ ہوں گے جس طرح ایک ہاتھ کی باہم ملی ہوئی انگلیاں ساتھ ہوتی ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثَ أَخَوَاتٍ، أَوْ أُخْتَيْنِ، أَوْ بِنْتَيْنِ، فَأَدَّبَهُنَّ، وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، وَزَوَّجَهُنَّ، فَلَهُ الْجَنَّةُ» (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৯৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ داد و دہش میں مساوات و برابری بھی اولاد کا حق ہے
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے (بعض روایات میں ہے کہ گود میں لے کر حاضر ہوئے) اور عرض کیا کہ میں نے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کر دیا ہے ۔ بعض روایات میں بجائے غلام کے باغ ہبہ کرنے کا ذکر ہے ، بہرحال آنحضرتﷺ نے ان سے پوچھا : کیا تم نے اپنے سب بچوں کو اتنا ہی اتنا دیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ : نہیں (اوروں کو تو نہیں دیا ، صرف اسی لڑکے نعمان کو دیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : پھر یہ تو ٹھیک نہیں اور فرمایا کہ : اس کو واپس لے لو ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ : کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری سب اولاد یکساں طور پر تمہاری فرمانبردار اور خدمت گزار بنے ؟ انہوں نے رض کیا کہ : ہاں ! حضرتﷺ یہ تو ضرور چاہتا ہوں ! تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر ایسا ن کرو (کہ ایک دو دو اور دوسروں کو محروم رکھو) اور نعمان بن بشیرؓ ہی کی ایک دوسری روایت میں (یہی واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ میرے والد نے(میری والدہ کے اصرار پر) میرے لئے کچھ ہبہ کیا تو میری والدہ عمرہ بنت رواحہؓ نے کہا کہ میں جب خوش اور مطمئن ہوں گی جب تم رسول اللہ ﷺ کو اس ہبہ کا گواہ بنا دو گے ۔ چنانچہ میرے والد نعمان حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری بیوی عمرہ بنت رواحہ سے میرا جو بچہ (نعمان) ہے میں نے اس کے لئے کچھ ہبہ کیا ہے ، تو اس کی ماں نے مجھ سے تاکید کی ہے کہ حضور ﷺ کو اس کا گواہ بنا دوں اور اس طرح حضور ﷺ کی منظوری بھی حاصل کر کے ہبہ کو پکا کر دوں) آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ : کیا تم نے اپنے اور سب بچوں کے لئے بھی اتنا ہبہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں (اوروں کے لئے تو نہیں کیا) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم (یعنی خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے ساتھ مساوات اور برابری کا سلوک کرو) حضرت نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اس فرمانے پر والد صاحب نے رجوع کر لیا اور ہبہ واپس لے لیا ۔ اور ایک روایت میں ہے : حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : میں بےانصافی کے معاملہ کا گواہ نہیں بن سکتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے بارے میں یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ داد و دہش میں سب کے ساتھ انصاف اور برابری کا برتاؤ کیا جائے یہ نہ ہو کہ کسی کو زیادہ نوازا جائے اور کسی کو محروم رکھا جائے یا کم دیا جائے ۔ یہ چیز بذات خود بھی مطلوب ہے اور اس عدل و انصاف کا بھی تقاضا ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں یہ بھی حکمت و مصلحت ہے کہ اگر اولاد میں سے کسی کو زیادہ نوازا جائے اور کسی کو کم تو ان میں باہم بغض و حسد پیدا ہو گا جو دین اور تقوے کے لئے تباہ کن اور ہزار فتنوں کی جڑ ہے ۔ نیز اولاد میں جس کے ساتھ ناانصافی ہو گی اس کے دل میں باپ کی طرف سے میل آئے گا اور شکایت کدورت پیدا ہو گی اور ظاہر ہے کہ اس کا انجام کتنا خراب ہو گا ۔ ان سب وجوہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت تاکیدیں فرمائی ہیں اور اس رویہ کو ایک طرح کا ظلم قرار دیا ہے ۔ اس باب میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :

تشریح ..... جیسا کہ ظاہر ہے اس حدیث میں اس بات سے ممانعت فرمائی گئی ہے اور اس کو جور یعنی بےانصافی قرار دیا گیا ہے کہ اولاد میں سے کسی کے ساتھ داد و دہش میں ترجیحی سلوک کیا جائے ۔ بعض فقہاء نے اس کو حرام تک کہا ہے لیکن اکثر فقہاء نے اور ائمہ اربعہ میں امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے (بعض دوسرے دلائل اور قرائن کی بناء) پر اس کو حرام تو نہیں ، لیکن مکروہ اور سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے مگر واضح رہے کہ یہ حکم اسی صورت میں ہے جب کہ ترجیحی سلوک کسی ایسی وجہ کے جو شرعاً معتبر ہو ، لیکن اگر کوئی ایسی وجہ موجود ہو تو پھر اس وجہ کے بقدر ترجیحی سلوک درست ہو گا ۔ مثلاً اولاد میں سے کسی کی صحت مستقل طور پر خراب ہے اور دوسرے بھائیوں کی طرح معاشی جدوجہد نہیں کر سکتا تو اس کے ساتھ خصوصی سلوک عدل و انصاف کے خلاف نہ ہو گا بلکہ ایک درجہ میں ضروری اور باعث اجر ہو گا ۔ اسی طرح اگر اولاد میں سے کسی نے اپنے کو دین و ملت کی خدمت میں اس طرح لگا دیا ہے کہ معاشی جدو جہد میں زیادہ حصہ نہیں لے سکتا تو اس کےساتھ بھی مناسب حد تک خصوصی سلوک جائز ہے بلکہ باعث اجر ہو گا ۔ علیٰ ہذا اگر کسی ایک بھائی کے ساتھ خصوصی اور ترجیحی سلوک پر دوسرے بھائی رضامند ہوں تب بھی یہ جائز ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا كَانَ لِي، فَقَالَ «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ مِثْلَ هَذَا؟» قَالَ: لَا، قَالَ «فَارْجِعْهُ» وِفِى رِوَايَةٍ «أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ وَاللُّطْفِ سَوَاءٌ» قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَلَا إِذًا وِفِى رِوَايَةٍ أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهدَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فأتى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فقال: "إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله ، قال:" أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟ قال: لا، قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم قال: فرجع فرد عطيته وِفِى رِوَايَةٍ إنه قال: لا أشهد على جور. " (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৯৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ داد و دہش میں مساوات و برابری بھی اولاد کا حق ہے
داد و دہش میں اپنی سب اولاد کے ساتھ مساوات اور برابری کا معاملہ کرو ۔ اگر میں اس معاملہ میں کسی کو ترجیح دیتا تو عورتوں (یعنی لڑکیوں) کو ترجیح دیتا ۔ (یعنی مساوات اور برابری ضروری نہ ہوتی تو میں حکم دیتا کہ لڑکیوں کو لڑکوں سے زیادہ دیا جائے) ۔ (سنن سعید ابن منصور ، معجم کبیر للطبرانی)

تشریح
اس حدیث سے فقہاء کی ایک جماعت نے یہ سمجھا ہے کہ ماں باپ کے انتقال کے بعد میراث میں اگرچہ لڑکیوں کا حصہ لڑکوں سے نصف ہے ، لیکن زندگی میں ان کا حصہ بھائیوں کے برابر ہے ، لہذا ماں باپ کی طرف سے جو کچھ اور جتنا کچھ لڑکوں کو دیا جائے وہی اور اتنا ہی لڑکیوں کو دیا جائے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَوُّوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ فِي الْعَطِيَّةِ فَلَوْ كُنْتُ مُفَضِّلًا أَحَدًا فَضَّلْتُ النِّسَاءَ» (رواه سعيد بن منصور فى سننه والطبرانى فى الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৯৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نکاح اور شادی کی ذمہ داری
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دے تو چاہئے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو اچھی تربیت دے اور سلیقہ سکھائے ، پھر جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو اس کے نکاح کا بندوبست کرے ، اگر (اس نے اس میں کوتاہی کی اور) شادی کی عمر کو پہنچ جانے پر بھی (اپنی غفلت اور بےپروائی سے) اس کی شادی کا بندوبست نہیں کیا اور وہ اس کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو گیا تو اس کا باپ اس گناہ کا ذمہ دار ہو گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے باپ کی یہ بھی ذمہ داری بتلائی ہے کہ جب بچہ یا بچی نکاح کے قابل ہو جائے تو اس کے نکاح کا بندوبست کیا جائے اور تاکید فرمائی کہ اس میں غفلت نہ برتی جائے ۔

تشریح ..... اس حدیث میں اولاد کے قابل شادیہ ہو جانے پر ان کے نکاح اور شادی کے بندوبست کو بھی باپ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے ۔ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بڑی کوتاہی ہو رہی ہے ، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دوسروں کی تقلید میں نکاح شادی کو بےحد بھاری اور بوجھل بنا لیا ہے اور ان کے رسم و رواج کی بیڑیاں اپنے پاؤں میں ڈال لی ہیں ۔ اگر ہم اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں اور نکاح شادی اس طرح کرنے لگیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے اور اپنی صاحبزادیوں کے نکاح کئے تھے تو یہ کام اتنا ہلکا پھلکا ہو جائے جتنا ایک مسلمان کےھ لئے جمعہ کی نماز ادا کرنا اور پھر اس نکاح اور شادی میں وہ برکتیں ہوں جن سے ہم بالکل محروم ہو گئے ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَلْيُحْسِنِ اسْمَهُ وَأَدَبَهُ، فَإِذَا بَلَغَ فَلْيُزَوِّجْهُ فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ يُزَوِّجْهُ فَأَصَابَ إِثْمًا، فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى أَبِيهِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৯৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کے حقوق اولاد پر: ماں باپ اولاد کی جنت اور دوزخ ہیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : حضرت (ﷺ) ! اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح ماں باپ پر اولاد کے حقوق اور اس سلسلہ کی ان کی ذمہ داریاں بیان فرمائیں اسی طرح اولاد پر ماں باپ کے حقوق اور اس سلسلہ کے ان کے فرائض بھی بتلائے ، بلکہ اس کو آپ ﷺ نے اپنی تعلیم و ہدایت میں جزو ایمان کا درجہ دیا ۔ قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر نازل کیا ہوا صحیفہ ہدایت ہے ، اس میں ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کے ساتھ ساتھ اس طرح دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال میں خدا کی عبادت کے بعد ماں باپ کی خدمت اور راحت رسانی کا درجہ ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (بنى اسرائيل 23:17)
اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور پرستش کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاؤ اور ان کی خدمت کرو ۔
اور دوسری جگہ سورہ لقمان میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر و مشرک ہوں اور اولاد کو بھی کفر و شرک کے لئے مجبور کریں تو اولاد کو چاہئے کہ ان کے کہنے سے کفر و شرک تو نہ کرے لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت پھر بھی کرتی رہے ۔
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖوَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (سوره لقمان 15:31)
آگے درج ہونے والی حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے ماں باپ کے حقوق اور ان سے متعلق اولاد کے فرائض کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ دراصل قرآن مجید کی ان آیات ہی کی تشریح تفسیر ہے ۔

تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری و خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پا لو گے اور اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ» (رواه ابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৯৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اللہ کی رضا والدین کی رضامندی سے وابستہ ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حدیث کا مطلب اور مدعا یہ ہے کہ جو اپنے مالک و مولا کو راضی رکھنا چاہے وہ اپنےوالد کو راضی اور خوش رکھے ۔ اللہ کی رضا حاصل ہونے کے لئے والد کی رضا جوئی شرط ہے اور والد کی ناراضی کا لازمی نتیجہ اللہ کی ناراضی ہے ، لہذا جو کوئی والد کو ناراض کرے گا وہ رضائے الہی کی دولت سے محروم ہو گا ۔
اس حدیث میں والد کا لفظ آیا ہے جو عربی زبان میں باپ ہی کے لیے استعماقل ہوتا ہے ۔ (ماں کے لئے والدہ کا لفظ بولا جاتا ہے) اس بناء پر اس حدیث میں ماں کا ذخر صراحۃً نہیں آیا ہے۔ لیکن چونکہ دوسری احادیث میں جو عنقریب درج ہوں گی اس بارے میں ماں کا درجہ باپ سے بھی بلند اور بالا تر بتایا گیا ہے ، اس لئے ماں کی خوشی اور ناخوشی کی بھی وہی اہمیت ہو گی اور اس کا بھی وہی درجہ ہو گا جو اس حدیث میں باپ کی رضامندی اور ناراضی کا بتایا گیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رِضَى الرَّبِّ فِي رِضَى الوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৯৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں کا حق باپ سے بھی زیادہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ مجھ پر حسن و سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : تمہاری ماں ، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں ، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں ، اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے ، اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں سوال کرنے والے صحابی کا نام مذکور نہیں ہے ، لیکن جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں بہز بن حکیم بن معاویہ قشیری سے روایت کیا ہے کہ میرے دادا معاویہ بن حیدہ قشیری نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تھا کہ “مَنْ أَبَرُّ” (مجھے کس کی خدمت اور کس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے ؟) یعنی اس بارے میں سب سے زیادہ اور سب سے مقدم حق کس کا ہے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “أُمَّكَ” (تمہاری ماں کا) انہوں نے پوچھا “ثُمَّ مَنْ” (پھر کس کا حق ہے ۔) آپ ﷺ نے پھر فرمایا “أُمُّكَ” (تمہاری ماں کا) انہوں نے پھر پوچھا “ثُمَّ مَنْ” (اس کے بعد کس کا حق ہے) آپ ﷺ نے پھر فرمایا : “ أُمُّكَ” انہوں نے اس کے بعد پھر پوچھا “ثُمَّ مَنْ” (پھر ماں کے بعد کس کا حق ہے ؟) تو چوتھی دفعہ میں آپ ﷺ نے فرمایا : “ أَبَاكَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ ” یعنی ماں کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے ، اس کے بعد درجہ بدرجہ اہل قرابت اور رشتہ داروں کا حق ہے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔
ان دونوں حدیثوں کا مضمون بلکہ سوال جواب کے الفاظ بھی قریب قریب یکساں ہیں اس لئے اس کا بہت امکان ہے کہ صحیحین کی حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں جس شخص کے سوال کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی معاویہ بن حیدہ قشیری ہوں جن کی حدیث ان کے پوتے بہز بن حکیم نے امام ترمذی اور امام ابو داؤد نے روایت کی ہے ۔
ان دونوں حدیثوں کا صریح مدعا یہ ہے کہ خدمت اور حسن سلوک کے بارے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے ۔ قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ کئی جگہ اس میں ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کے ساتھ خاص طور سے ماں کی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو حمل اور ولادت میں اور پھر دودھ پلانے اور پالنے میں خصوصیت کے ساتھ ماں کو اُٹھانی پڑتی ہیں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: «أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أَبُوكَ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بوڑھے ماں باپ کی خدمت میں کوتاہی کرنے والے بدبخت اور محروم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ آدمی ذلیل ہو وہ خوار ہو ، وہ رسوا ہو ۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون ؟ (یعنی کس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بدنصیب جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک ہی کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر (ان کی خدمت اور ان کا دل خوش کر کے) جنت حاصل نہ کر لے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث اوپر درج ہو چکی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ماں باپ تمہاری جنت اور تمہاری دوزخ ہیں (یعنی ماں باپ کی خدمت اور راحت رسانی جنت حاصل کرنے کا خاص وسیلہ ہے اور اس کے برعکس ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی آدمی کو دوزخی بنا دیتی ہے) پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ماں باپ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کے اذکار رفتہ ہو جائین تو اس وقت وہ خدمت اور راحت رسانی کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ، اور اس حالت میں ان کی خدمت اللہ کے نزدیک نہایت محبوب اور مقبول عمل اور جنت تک پہنچنے کا سیدھا زینہ ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ جس بندے کو اس کا موقع میسر فرمائے اور وہ ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی ایک ہی کا بڑھاپا پائے اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت تک نہ پہنچ سکے بلاشبہ وہ بڑا بدنصیب اور محروم ہے اور ایسوں کے حق میں رسول اللہ ﷺ کا فرمانا ہے کہ وہ نامراد ہوں ، ذلیل و خوار ہوں ، رسوا ہوں ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ» قِيلَ: مَنْ؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا، ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০১
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کی خدمت بعض حالات میں ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں ؟ اس نے کہا ۔ ہاں ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جدو جہد کرو ۔ یہی تمہارا جہاد ہے ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
غالباً رسول اللہ ﷺ پریہ بات منکشف ہو گئی تھی یا کسی وجہ سے اس کے بارے میں شبہ ہو گیا تھا کہ اس آدمی کے ماں باپ اس کی خدمت کے محتاج ہیں ، اور یہ ان کو چھوڑ کے ان کی اجازت کے بغیر جہاد کے لئے آ گیا ہے ، اس لئے آپ ﷺ نے اس کو یہ حکم دیا کہ وہ گھر واپس جا کر ماں باپ کی خدمت کرے ، کیوں کہ ایسی حالت میں اس کے لئے ماں باپ کی خدمت مقدم ہے ۔
اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہو گا کہ جس کسی کے ماں باپ ہوں وہ جہاد اور دین کی کسی خدمت کے لئے کبھی گھر سے باہر نہ نکلے ، اور صرف وہی لوگ جہاد میں اور دین کی خدمت میں لگیں جن کے ماں باپ نہ ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد کرتے تھے اور ان میں بڑی تعداد انہی کی ہوتی تھی جن کے ماں باپ زندہ ہوتے تھے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُجَاهِدُ؟ قَالَ: «أَلَكَ أَبَوَانِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০২
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کی خدمت بعض حالات میں ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ : ہاں ! میرے والدین ہیں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا : انہوں نے تم کو اجازت دی ہے ؟ (اور تم ان کی اجازت سے یہاں آئے ہو ؟) اس نے عرض کیا : کہ ایسا تو نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر ماں باپ کے پاس جاؤ اور یہاں آنے کی (اور جہاد اور دین کی محنت میں لگنے کی) ان سے اجازت مانگو ، پھر وہ اگر تمہیں اجازت دے دیں تو آؤ اور جہاد میں لگ جاؤ اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو ۔ (سنن ابی داؤد ، مسند احمد)

تشریح
ہجرت کر کے آنے والوں اور جہاد میں شرکت کرنے والوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا جو عام مستقل رویہ اور اسوہ حسنہ تھا اس کی روشنی میں اس قسم کی تمام احادیث کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق اس صورت سے ہے جب ماں باپ خدمت کے سخت محتاج ہوں اور اگر دوسرا ان کی خبر گیری کرنے والا نہ ہو اور اس وجہ سے وہ اجازت بھی نہ دیں تو پھر بلاشبہ ان کی خدمت اور خبر گیری ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم ہو گی ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَجُلًا هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْيَمَنِ فَقَالَ: «هَلْ لَكَ أَحَدٌ بِالْيَمَنِ؟»، قَالَ: أَبَوَايَ، قَالَ: «أَذِنَا لَكَ؟» قَالَ: «لَا»، قَالَ: «ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا، فَإِنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ، وَإِلَّا فَبِرَّهُمَا» (رواه ابوداؤد احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৩
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جنت ماں کے قدموں میں ہے
معاویہ بن جاہمہ سے روایت ہے کہ میرے والد جاہمہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ : “میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے اور میں آپ ﷺ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوا ۔” آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : کیا تمہاری ماں ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا : “ہاں ! ہیں” ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر انہی کے پاس اور انہی کی خدمت مین رہو ، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے ۔ (مسند احمد ، سنن نسائی)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ، أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ، فَقَالَ: «هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلِهَا» (رواه احمد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৪
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جنت ماں کے قدموں میں ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں سویا تو میں نے خواب دیکھا کہ میں جنت میں ہوں ، وہیں میں نے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے دریافت کیا کہ : “اللہ کا یہ کون بندہ ہے جو یہاں جنت میں قرآن پڑھ رہا ہے ؟ ” تو مجھے بتایا گیا کہ “یہ حارثہ بن النعمان ہیں” ماں باپ کی خدمت و اطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے ، ماں باپ کی خدمت و اطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے ۔ (رسول اللہ ﷺ نے اپنا یہ خواب بیان فرمانے کے بعد فرمایا کہ) حارثہ بن النعمان اپنی ماں کے بہت ہی خدمت گزار اور اطاعت شعار تھے (یعنی اس عمل نے ان کو اس مقام تک پہنچایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جنت میں ان کی قرأت سنی) ۔ (شرح السنہ للبغوی و شعب الایمان)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نِمْتُ، فَرَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَسَمِعْتُ فِيْهَا قِرَاءَةً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: حَارِثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ " «كَذَلِكُمُ الْبِرُّ، كَذَلِكَ الْبِرُّ» وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّهِ. (رواه البغوى والبيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৫
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں کی خدمت بڑے سے بڑے گناہ کی معافی کا ذریعہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ : حضرت ! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے ، تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے (اور مجھے معافی مل سکتی ہے) آپ ﷺ نے پوچھا : تمہاری ماں زندہ ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ : ماں تو نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ : ہاں خالہ موجود ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو (اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرما لے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
توبہ کیا ہے ؟ گناہ پر دل سے نادم و پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنا ، تا کہ اللہ کے غضب اور اس عذاب سے بچ جائے جس کا وہ گناہ کی وجہ سے مستحق ہو چکا ہے ، اور توبہ کی قبولیت یہ ہے کہ اللہ پاک اس کو معاف فرما دے اور اس سے راضی ہو جائے ۔ یوں تو سارے ہی اعمال صالحہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ گناہوں کے گندے اثرات کو مٹاتے ہیں اور اللہ کی رجا و رحمت کو کھینچتے ہیں (إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ) لیکن بعض اعمال صالحہ اس بارے میں معمولی امتیازی شان رکھتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت اور اسی طرح خالہ اور نانی کی خدمت بھی انہی اعمال میں سے ہے جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ بڑے بڑے گناہگاروں اور سیاہ کاروں کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور ان سے راضی ہو جاتا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِيمًا فَهَلْ لِي تَوْبَةٌ؟ قَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ خَالَةٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَبِرَّهَا. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৬
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خدمت اور حسن سلوک کافر و مشرک ماں کا بھی حق ہے
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور قریش مکہ کے (حدیبیہ والے) معاہدے کے زمانہ میں میری ماں جو اپنے مشرکانہ مذہب پر قائم تھی (سفر کر کے مدینے میں) میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ کچھ خواہش مند ہے ، تو کیا میں اس کی خدمت کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس کی خدمت کرو (اور اس کے ساتھ وہ سلوک کرو جو بیٹی کو ماں کے ساتھ کونا چاہئے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت اسماء صدیق رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی اور دوسری ماں سے حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن تھیں ، ان کی ماں کا نام روایات میں قتیلہ بنت العزی ذکر کیا گیا ہے (جن کو حضرت ابو بکرؓ نے زمانہ جاہلیت ہی میں طلاق دے کر الگ کر دیا تھا ، بہرحال اسلام کے دور میں یہ ان کی بیوی نہیں رہیں اور اپنے مشرکانہ طریقے ہی پر قائم رہیں ۔ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں جب مشرکین مکہ کو مدینہ آنے کی اور مدینہ کے مسلمانوں کو مکہ جانے کی آزادی حاصل ہو گئی تو حضرت اسماء کی یہ ماں اپنی بیٹی کے پاس مدینے آئیں ۔ حضرت اسماءؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ : “مجھے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ، کیا ان کے کافر و مشرک ہونے کی وجہ سے میں ان سے “ترک موالات” کروں یا ماں کے رشتے کا لحاظ کر کے ان کی خدمت اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں ؟ ” آپ نے حکم دیا کہ : ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو جو ماں کا حق ہے ۔
حدیث میں “رَاغِبَةٌ” کا لفظ ہے جس کا ترجمہ اس عاجز نے خواہش مند کیا ہے ، اس بناء پر مطلب یہ ہو گا کہ حضرت اسماء نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میری ماں جو مشرک ہیں کچھ خواہش مند ہو کر یہاں آئی ہیں یعنی وہ اس کی طالب و متوقع ہیں کہ میں ان کی مالیل خدمت کروں ۔ بعض شارحین نے اس کا ترجمہ منحرف اور بیزار بھی کیا ہے اور لغت کے لحاظ سے اس کی بھی گنجائش ہے ۔ اس بناء پر مطلب یہ ہو گا کہ میری ماں ملنے تو آئی ہیں لیکن ہمارے دین سے منحرف اور بےزار ہیں ، ایسی صورت میں ان کے ساتھ میرا رویہ کیا ہو نا چاہئے ؟ کیا ماں ہونے کی وجہ سے ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کروں ، یا بے تعلقی اور بےرخی کا رویہ اختیار کروں بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو ، جو ماں کا حق ہے ۔ (نَعَمْ صِلِيهَا)
اوپر قرآن مجید کی وہ آیت ذکر کی جا چکی ہے جس میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کسی کے ماں باپ کافر و مشرک ہوں ، اور وہ اولاد کو بھی کفر شرک کے لئے مجبور کریں اور دباؤ ڈالیں تو اولاد ان کی یہ بات تو نہ مانے لیکن ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک برابر کرتی ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ، إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُدَّتِهِمْ مَعَ أَبِيهَا، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ صِلِيهَا» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৭
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے خاص حقوق
ابو اُسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے بنی سلمہ میں سے ایک شخص آئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ : یا رسول اللہ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے بھی حق ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! ان کے لئے خیر و رحمت کی دعا کرتے رہنا ، ان کے واسطے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا ، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا ، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا ، اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اولاد پر ماں باپ کے حقوق کا سلسلہ ان کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کے کچھ اور حقوق عائد ہو جاتے ہیں جن کا ادا کرتے رہنا سعادت مند اولاد کی ذمہ داری اور اللہ تعالیٰ کی خاص رضا اور رحمت کا وسیلہ ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا؟ قَالَ: «نَعَمْ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا، وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا» (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৮
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے خاص حقوق
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو کوئی یہ چاہے کہ قبر میں اپنے باپ کو آرام پہنچائے اور خدمت کرے تو باپ کے انتقال کے بعد اس کے بھائیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے ، جو رکھنا چاہئے ۔ (صحیح ابن حبان)
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَصِلَ أَبَاهُ فِي قَبْرِهِ فَلْيَصِلْ إِخْوَانَ أَبِيهِ بَعْدَهُ" (رواه ابن حبان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪০৯
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے خاص حقوق
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باپ کی خدمت اور حسن سلوک کی ایک اعلیٰ قسم یہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ (اکرام و احترام کا) تعلق رکھا جائے اور باپ کی دوستی و محبت کا حق ادا کیا جائے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ان دونوں حدیثوں میں صرف باپ کے بھائیوں اور اہل محبت کا ذخر کیا گیا ہے ۔ اور یہ بات پہلے معلوم ہو چکی ہے کہ اس باب میں ماں کا حق باپ سے بھی زیادہ ہے ۔ علاوہ ازیں ابھی اوپر حضرت ابو اسید ساعدی کی روایت سے جو حدیث ذکر کی جا چکی ہے اس میں ماں باپ دونوں کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور اہل محبت کے اکرام و احترام کو اولاد پر ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کا حق بتایا گیا ہے ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَةَ الرَّجُلِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৪১০
মু‘আমালাত ও মু‘আশারাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے خاص حقوق
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی آدمی کے ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی کا انتقال ہو جاتا ہے اور اولاد زندگی میں ان کی نافرمان اور ان کی رضامندی سے محروم ہوتی ہے ، لیکن یہ اولاد ان کے انتقال کے بعد (سچے دل) سے ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر و رحمت کی دعا اور مغفرت و بخشش کی استدعا کرتی ہے (اور اس طرح اپنے قصور کی تلافی کرنا چاہتی ہے) تو اللہ تعالیٰ نافرمان اولاد کو فرمانبردار قرار دے دیتا ہے (پھر وہ ماں باپ کی نافرمانی کے وبال اور عذاب سے بچ جاتی ہے) (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
جس طرح زندگی میں ماں باپ کی فرمانبرداری و خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اعلیٰ درجے کا عمل صالح ہے جو بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اسی طرح ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے اخلاص اور الحاح سے رحمت و مغفرت کی دعا ایسا عمل ہے جو ایک طرف تو ماں باپ کے لئے قبر میں راحت و سکون کا وسیلہ بنتا ہے اور دوسری طرف اس سے اولاد کے ان قصورون کی تلافی ہو جاتی ہے جو ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت میں ان سے ہوئی ہو اور وہ خود اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کی مستحق ہو جاتی ہے ۔ قرآن پاک میں اولاد کو خاص طور سے ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ماں باپ کے لئے رحمت اور مغفرت مانگا کرے ۔
وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل ع ۲)
اور اللہ سے یوں عرض کیا کرو کہ : اے پروردگار ! میرے ماں باپ پر رحمت فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپنے میں (شفقت کے ساتھ) پالا تھا ۔
کتاب المعاملات والمعاشرت
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْعَبْدَ لَيَمُوتُ وَالِدَاهُ أَوْ أَحَدُهُمَا، وَإِنَّهُ لَهُمَا لَعَاقٌّ، فَلَا يَزَالُ يَدْعُو لَهُمَا، وَيَسْتَغْفِرُ لَهُمَا حَتَّى يَكْتُبَهُ اللهُ بَارًّا " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক: