কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
آداب کا بیان۔ - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৭০ টি
হাদীস নং: ৩৭৭৭
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ جس کے پاس تیر ہو تو اسے پیکان سے پکڑے۔
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا : کیا آپ نے جابر بن عبداللہ (رض) کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ایک شخص مسجد میں تیر لے کر گزرا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کی پیکان (نوک و پھل) تھام لو ، انہوں نے کہا : ہاں (سنا ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٦ (٤٥١) ، الفتن ٧ (٧٠٧٣) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٤ (٢٦١٤) ، سنن ابی داود/الجہاد ٧٢ (٢٥٨٦) ، سنن النسائی/المساجد ٢٦ (٧١٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٨، ٣٥٠) ، سنن الدارمی/المقدمة ٥٣ (٦٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم اس لیے ہے کہ کسی کو اس کی نوک نہ لگے کہ وہ زخمی ہوجائے۔
حدیث نمبر: 3777 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: أَسَمِعْتَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: مَرَّ رَجُلٌ بِسِهَامٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمْسِكْ بِنِصَالِهَا، قَالَ: نَعَمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৭৮
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ جس کے پاس تیر ہو تو اسے پیکان سے پکڑے۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص ہماری مسجد یا بازار میں سے ہو کر گزرے، اور اس کے ساتھ تیر ہو تو اس کی پیکان اپنی ہتھیلی سے پکڑے رہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کو اس کی نوک لگ جائے، (اور وہ زخمی ہو) ، یا چاہیئے کہ وہ تیر کی پیکان اپنی مٹھی میں دبائے رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٧ (٤٥٢) ، الفتن ٧ (٧٠٧٥) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٤ (٢٦١٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ٧٢ (٢٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩١، ٣٩٢، ٣٩٧، ٤١٠، ٤١٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 3778 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَسْجِدِنَا أَوْ فِي سُوقِنَا وَمَعَهُ نَبْلٌ، فَلْيُمْسِكْ عَلَى نِصَالِهَا بِكَفِّهِ، أَنْ تُصِيبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِشَيْءٍ، أَوْ فَلْيَقْبِضْ عَلَى نِصَالِهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৭৯
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قرآن کے پڑھنے میں ماہر ہو، وہ معزز اور نیک سفراء (فرشتوں) کے ساتھ ہوگا، اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہو اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہو تو اس کو دو گنا ثواب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٧٩ (٤٩٣٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٨ (٧٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٩ (١٤٥٤) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٣ (٢٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٨، ٩٤، ٩٨، ١١٠، ١٧٠، ١٩٢، ٢٣٩، ٢٦٦) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ١١ (٣٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک تلاوت کا، دوسرے محنت کرنے کا۔
حدیث نمبر: 3779 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَؤُهُ يَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ اثْنَانِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮০
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن والے (قرآن کی تلاوت کرنے والے سے، یا حافظ قرآن سے) سے جب وہ جنت میں داخل ہوگا کہا جائے گا : پڑھتا جا اور اوپر چڑھتا جا، تو وہ پڑھتا اور چڑھتا چلا جائے گا، وہ ہر آیت کے بدلے ایک درجہ ترقی کرتا چلا جائے گا، یہاں تک کہ جو اسے یاد ہوگا وہ سب پڑھ جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠) (صحیح) (سند میں عطیہ العوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٢٤٠، صحیح أبی داود : ١٣١٧ )
حدیث نمبر: 3780 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَنَا شَيْبَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ إِذَا دَخَلَ الْجَنَّةَ: اقْرَأْ وَاصْعَدْ، فَيَقْرَأُ وَيَصْعَدُ بِكُلِّ آيَةٍ دَرَجَةً، حَتَّى يَقْرَأَ آخِرَ شَيْءٍ مَعَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮১
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن قرآن ایک تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا، اور حافظ قرآن سے کہے گا کہ میں نے ہی تجھے رات کو جگائے رکھا، اور دن کو پیاسا رکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٣٢١) ، وقد أخرجہ : حم (٥/٣٤٨، ٣٥٢، ٣٦١) ، سنن الدارمی/فضائل القران ١٥ (٣٤٣٤) (حسن) (سند میں بشیر بن مہاجر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٨٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو قرآن پڑھتا یا قرآن سنتا تھا پس سننے والوں کو بھی ایسا ہی کہے گا۔
حدیث نمبر: 3781 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ، فَيَقُولُ: أَنَا الَّذِي أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَأَظْمَأْتُ نَهَارَكَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮২
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر جائے تو اسے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیاں گھر پر بندھی ہوئی ملیں ؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں (کیوں نہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں تین آیتیں پڑھتا ہے، تو یہ اس کے لیے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیوں سے افضل ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤١ (٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٦، ٤٦٦، ٤٩٦) سنن الدارمی/فضائل القرآن ١ (٣٣٥٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 3782 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَؤُهُنَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ سِمَانٍ عِظَامٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮৩
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جب تک مالک اسے باندھ کر دیکھ بھال کرتا رہے گا تب تک وہ قبضہ میں رکھے گا، اور جب اس کی رسی کھول دے گا تو وہ بھاگ جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣٢ (٧٨٩) ، سنن الترمذی/القراء ات ١٠٠ (٢٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٣ (٥٠٣١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٧ (٩٤٣) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (٦) ، مسند احمد (٢/١٧، ٢٣، ٣٠، ٦٤، ١١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے حافظ قرآن کو چاہیے کہ وہ پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہے، کیونکہ اگر وہ اسے پڑھنا ترک کر دے گا، تو بھول جائے گا پھر اس کی ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔
حدیث نمبر: 3783 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الْقُرْآنِ مَثَلُ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ، إِنْ تَعَاهَدَهَا صَاحِبُهَا بِعُقُلِهَا أَمْسَكَهَا عَلَيْهِ، وَإِنْ أَطْلَقَ عُقُلَهَا ذَهَبَتْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮৪
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، آدھا میرے لیے ہے، اور آدھا میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم پڑھو ! ، جب بندہ الحمد لله رب العالمين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : حمدني عبدي ولعبدي ما سأل میرے بندے نے میری حمد ثنا بیان کی، اور بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور جب بندہ الرحمن الرحيم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : أثنى علي عبدي ولعبدي ما سأل میرے بندے نے میری تعریف کی، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر جب بندہ مالک يوم الدين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :مجدني عبدي فهذا لي وهذه الآية بيني وبين عبدي نصفين میرے بندے نے میری عظمت بیان کی تو یہ میرے لیے ہے، اور یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، یعنی پھر جب بندہ إياک نعبد وإياک نستعين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فهذه بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل وآخر السورة لعبدي یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور سورت کی اخیر آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، پھر جب بندہ اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے : فهذا لعبدي ولعبدي ما سأل یہ میرے بندہ کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٦ (٨٢١) ، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ٢ (١) (٢٩٥٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٣ (٩١٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣٩) مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٢٩٠، ٤٥٧، ٤٧٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 3784 حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي شَطْرَيْنِ، فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَءُوا: يَقُولُ الْعَبْدُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَيَقُولُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3، فَيَقُولُ: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4، فَيَقُولُ اللَّهُ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، فَهَذَا لِي، وَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، يَقُولُ الْعَبْدُ: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سورة الفاتحة آية 5، يَعْنِي: فَهَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 6 صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ 7 سورة الفاتحة آية 6-7، فَهَذَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮৫
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
ابوسعید بن معلّیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کیا میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں وہ سورت نہ سکھاؤں جو قرآن مجید میں سب سے عظیم سورت ہے، پھر آپ ﷺ جب مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ سورت الحمد لله رب العالمين ہے جو سبع مثانی ہے، اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے عطا کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة ١ (٤٤٧٤) ، تفسیرالأنفال ٣ (٤٦٤٧) ، و تفسیر الحجر ٣ (٤٧٠٣) ، فضائل القرآن ٩ (٥٠٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٠ (١٤٥٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٦ (٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٧ (٣٧) ، مسند احمد (٣/٤٥٠، ٤/٢١١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٢ (١٥٣٣) ، فضائل القرآن ١٢ (٣٤١٦) (صحیح )
حدیث نمبر: 3785 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ؟، قَالَ: فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ، فَأَذْكَرْتُهُ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮৬
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن میں ایک سورت ہے جس میں تیس آیتیں ہیں وہ اپنے پڑھنے والے کے لیے (اللہ تعالیٰ سے) سفارش کرے گی، حتیٰ کہ اس کی مغفرت کردی جائے گی، اور وہ سورة تبارک الذي بيده الملک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٧ (١٤٠٠) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ٩ (٢٨٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٣ (٣٤٥٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 3786 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُشَمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ سُورَةً فِي الْقُرْآنِ ثَلَاثُونَ آيَةً شَفَعَتْ لِصَاحِبِهَا حَتَّى غُفِرَ لَهُ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮৭
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : قل هو الله أحد (یعنی سورة الاخلاص) (ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١١ (٢٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ المسافرین ٤٥ (٨١٢) (صحیح )
حدیث نمبر: 3787 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنِي سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮৮
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قل هو الله أحد (یعنی سورة الاخلاص) (ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١١ (٢٨٩٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٤ (٣٤٧٥) (صحیح )
حدیث نمبر: 3788 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৮৯
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن کا ثواب۔
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الله أحد الواحد الصمد (یعنی سورة الاخلاص ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠١، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ کلمات ثواب میں تہائی قرآن کے برابر ہیں بعض نسخوں میں یوں ہے : قل ھو الله أحد الصمد تہائی قرآن کے برابر ہے۔
حدیث نمبر: 3789 حدثنا علي بن محمد حدثنا وكيع عن سفيان عن أبي قيس الأودي عن عمرو بن ميمون عن أبي مسعود الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الله أحد الواحد الصمد تعدل ثلث القرآن».
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯০
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ یاد الہی کی فضیلت۔
ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل ہو، اور تمہارے مالک کو سب سے زیادہ محبوب ہو، اور تمہارے درجات کو بلند کرتا ہو، اور تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ تم ان کی گردنیں مارو، اور وہ تمہاری گردنیں ماریں بہتر ہو ؟ ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ اللہ کا ذکر ہے ۔ اور معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے والا انسان کا کوئی عمل ذکر الٰہی سے بڑھ کر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٦ (٣٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٤) ، مسند احمد (٥/١٩٥، ٦/٤٤٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 3790 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْزِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ، وَأَرْضَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ، وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ إِعْطَاءِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، وَمِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ، فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ، وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ، قَالُوا: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ذِكْرُ اللَّهِ، وقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: مَا عَمِلَ امْرُؤٌ بِعَمَلٍ، أَنْجَى لَهُ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯১
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ یاد الہی کی فضیلت۔
ابوہریرہ اور ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ وہ دونوں گواہی دیتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو لوگ مجلس میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتے ہیں، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، اور (اللہ کی) رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور سکینت ان پر نازل ہونے لگتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں سے ان کا ذکر کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکروالدعاء ١١ (٢٧٠٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧ (٣٣٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٤، ١٢١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣/٣٣، ٤٩، ٩٢، ٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے زور سے اللہ کی یاد شروع کی یعنی بہت چلا کر تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اس کو نہیں پکارتے جو بہرہ ہے، یا غائب ہے، اپنے اوپر آسانی کرو، دوسری روایت میں ہے کہ وہ تم سے زیادہ قریب ہے تمہارے پالان کی آگے کی لکڑی یا تمہارے اونٹ کی گردن سے بھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ اور ہر چیز کو سنتا، اور دیکھتا ہے، پس چلانے کی ضرورت نہیں اگرچہ اس کی ذات مقدس عرش معلی پر ہے مگر اس کا سمع اور بصر ہر جگہ ہے۔
حدیث نمبر: 3791 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، يَشْهَدَانِ بِهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ فِيهِ، إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَتَغَشَّتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَتَنَزَّلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯২
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ یاد الہی کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں، جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور اس کے ہونٹ میرے ذکر کی وجہ سے حرکت میں ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٤٣ تعلیقا، مسند احمد (٢/٥٤٠) (صحیح) (سند میں محمد بن مصعب قرقسانی صدوق اور کثیر الغلط راوی ہیں، ابن حبان کے یہاں ایوب بن سوید نے ان کی متابعت کی ہے، بوصیری نے سند کو حسن کہا ہے، اور البانی نے شاہد کی بناء پر صحیح کہا ہے )
حدیث نمبر: 3792 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، يَقُولُ: أَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا هُوَ ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯৩
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ یاد الہی کی فضیلت۔
عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و قواعد مجھ پر بہت ہوگئے ہیں ١ ؎، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئیے جس پر میں مضبوطی سے جم جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٤ (٣٣٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٥١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٨، ١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسلام میں نیک اعمال کے طریقے بہت زیادہ ہیں۔
حدیث نمبر: 3793 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْكِنْدِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، قَالَ: لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَنْبِئْنِي مِنْهَا بِشَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ، قَالَ: لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯৪
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ یاد الہی کی فضیلت۔
اغر ابومسلم سے روایت ہے اور انہوں نے شہادت دی کہ ابوہریرہ اور ابوسعید (رض) دونوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بندہ لا إله إلا الله والله أكبر یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے، کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں ہی سب سے بڑا ہوں، اور جب بندہ لا إله إلا الله وحده یعنی صرف تنہا اللہ ہی عبادت کے لائق ہے، کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، میں ہی اکیلا معبود برحق ہوں، اور جب بندہ لا إله إلا الله لا شريك له کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میرا کوئی شریک اور ساجھی نہیں، اور جب بندہ لا إله إلا الله له الملک وله الحمد یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اسی کی بادشاہت اور ہر قسم کی تعریف ہے، کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، بادشاہت اور تعریف (یعنی ملک اور حمد) میرے ہی لیے ہے، اور جب بندہ لا إله إلا الله ولا حول ولا قوة إلا بالله یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور اس کے علاوہ کسی میں کوئی طاقت و قوت نہیں، کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میرے علاوہ کسی میں کوئی قوت و طاقت نہیں ١ ؎۔ ابواسحاق کہتے ہیں : پھر اغر نے ایک بات کہی جسے میں نہ سمجھ سکا، میں نے ابوجعفر سے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مرتے وقت ان کلمات کے کہنے کی توفیق بخشی تو اسے جہنم کی آگ نہ چھوئے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٣٧ (٣٤٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٦، ١٢١٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں کلمہ تمجید کے علیحدہ علیحدہ کلمات مذکور ہیں، پورا کلمہ یوں ہے جو ہر نماز کے بعد پڑھنا مسنون ہے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له الملک وله الحمد و هو على كل شيئ قدير لاإله إلا الله والله أکبرلا حول ولا قوة إلا باللهالعلى العظيم۔
حدیث نمبر: 3794 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ، أَنَّهُ شَهِدَ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا قَالَ الْعَبْدُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، وَأَنَا أَكْبَرُ، وَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَحْدِي، وَإِذَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، وَلَا شَرِيكَ لِي، وَإِذَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، لِي الْمُلْكُ وَلِيَ الْحَمْدُ، وَإِذَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِي، قَالَ أَبُو إِسْحَاق: ثُمَّ قَالَ: الْأَغَرُّ شَيْئًا لَمْ أَفْهَمْهُ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: مَا قَالَ، فَقَالَ: مَنْ رُزِقَهُنَّ عِنْدَ مَوْتِهِ، لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯৫
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ یاد الہی کی فضیلت۔
سعدیٰ مریہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد عمر (رض) طلحہ (رض) کے پاس گزرے، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم کو رنجیدہ پاتا ہوں ؟ کیا تمہیں اپنے چچا زاد بھائی (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کی خلافت گراں گزری ہے ؟ ، انہوں نے کہا : نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میں ایک بات جانتا ہوں اگر کوئی اسے موت کے وقت کہے گا تو وہ اس کے نامہ اعمال کا نور ہوگا، اور موت کے وقت اس کے بدن اور روح دونوں اس سے راحت پائیں گے ، لیکن میں یہ کلمہ آپ سے دریافت نہ کرسکا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی، عمر (رض) نے کہا کہ میں اس کلمہ کو جانتا ہوں، یہ وہی کلمہ ہے جو آپ ﷺ نے اپنے چچا (ابوطالب) سے مرتے وقت پڑھنے کے لیے کہا تھا، اور اگر آپ کو اس سے بہتر اور باعث نجات کسی کلمہ کا علم ہوتا تو وہی پڑھنے کے لیے فرماتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢١، ١٠٦٧٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ نبی اکرم ﷺ کو اپنے چچا سے جو الفت و محبت تھی، اور جس طرح آپ انہیں آخری وقت میں قیامت کے دن کے عذاب سے بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، اور کلمہ لا إله إلا الله کہنے کا حکم دیتے رہے، اس سے بہتر کوئی دوسرا کلمہ نہیں ہوسکتا جسے مرتے وقت کوئی اپنی زبان سے ادا کرے۔
حدیث نمبر: 3795 حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْالشَّعْبِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ سُعْدَى الْمُرِّيَّةِ، قَالَتْ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لَكَ مُكتَئِبًا أَسَاءَتْكَ إِمْرَةُ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا أَحَدٌ عِنْدَ مَوْتِهِ، إِلَّا كَانَتْ نُورًا لِصَحِيفَتِهِ، وَإِنَّ جَسَدَهُ وَرُوحَهُ لَيَجِدَانِ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ، فَلَمْ أَسْأَلْهُ حَتَّى تُوُفِّيَ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُهَا هِيَ الَّتِي أَرَادَ عَمَّهُ عَلَيْهَا، وَلَوْ عَلِمَ أَنَّ شَيْئًا أَنْجَى لَهُ مِنْهَا لَأَمَرَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯৬
آداب کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ یاد الہی کی فضیلت۔
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی موت اس گواہی پر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور یہ گواہی سچے دل سے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٣١، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وعدوں سے متعلق بہت ساری احادیث آئی ہیں : ١ ۔ بعض ایسی احادیث ہیں جس میں کسی نیکی کے کرنے پر جنت کی بشارت ہے۔ ٢ ۔ اور بعض میں کسی کام کے کرنے پر جنت کے حرام ہونے کی وعید اور دھمکی ہے۔ اور وعید سے متعلق بھی متعدد احادیث آئی ہیں : ١ ۔ بعض احادیث میں بعض کبیرہ گناہوں پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ ٢ ۔ بعض کبائر کے مرتکب سے ایمان کی نفی آئی ہے۔ ٣ ۔ بعض احادیث میں ان کبائر کے مرتکب سے نبی اکرم ﷺ نے اپنی براءت کا اظہار فرمایا ہے۔ ٤ ۔ بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ٥ ۔ بعض میں بعض کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر جہنم کی دھمکی ہے۔ ٦ ۔ بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کو لعنت سنائی گئی ہے، یعنی رحمت سے دوری کی دھمکی۔ وعید کی یہ ساری احادیث ایسے مسلمان کے بارے میں ہیں، جس کے پاس اصل ایمان و توحید کی دولت موجود ہے، لیکن اس سے بعض کبیرہ گناہ سرزد ہوئے ہیں، اور وعدوں سے متعلق ساری احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان جنت میں داخل ہوگا، اور جہنم سے نجات پائے گا، اس لئے وہ لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ کی شہادت دینے والا ہے، اور فی الجملہ مسلمان ہے۔ اور وعید کی احادیث میں گناہ کبیرہ کے ارتکاب کرنے والے کو جہنم کے عذاب اور جنت سے محرومی کی دھمکی سنائی گئی ہے، اور بعض میں اس سے ایمان کی نفی ہے، بعض میں رسول اکرم ﷺ نے اس سے اپنی براءت کا اعلان فرمایا ہے، بلکہ بعض میں اس پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ وعدہ اور وعید سے متعلق مسئلہ کو اہل علم نے عقیدے کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ابتداء ہی میں ان احادیث کے سمجھنے میں اور اس سے مستفاد مسائل عقیدہ میں امت اسلامیہ اختلافات کا شکار ہوئی۔ اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ نصوص متواترہ کا مفاد ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد اپنے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی سزا میں داخل جہنم ہوں گے، پھر سزا بھگتنے کے بعد اصل توحید و ایمان کی برکت سے وہاں سے نکل کر داخل جنت ہوں گے، جیسا کہ شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ علماء کا اس مسئلہ میں ایک مسلک یہ ہے کہ وعدوں سے متعلق احادیث کا ظاہری معنی ہی مراد ہے، اور کلمہ توحید و رسالت کے شروط اور تقاضوں کے پورے ہونے اور اس راہ کے موانع (رکاوٹوں) کے دور ہونے کے بعد ان وعدوں کا متحقق ہونا ضروری ولابدی ہے، اس لئے ان نصوص کو اسی طرح بیان کیا جائے گا، مثلاً حدیث میں ہے کہ جس شخص نے لا الہ إلا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوا، اور جہنم کو اللہ نے اس پر حرام کردیا، یا جس نے ایسا کیا جنت میں داخل ہوا وغیرہ وغیرہ، تو جنت کا یہ دخول اس صورت میں ہوگا جب کلمہ توحید کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہوں گے، اور دخول جنت کی راہ کے موانع (رکاوٹیں) دور کی ہوں گی، ان احادیث میں صرف یہ ہے کہ یہ جنت میں جانے یا جہنم سے نجات کا سبب ہیں، اور سبب کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کے ہونے سے مسبب (نتیجہ) کا برآمد ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ وعدہ کے پورا ہونے کے لئے شروط و قیود کا پایا جانا، اور موانع (رکاوٹوں) کا دور ہونا ضروری ہے۔ لیکن ان احادیث کو کسی خاص آدمی پر چسپاں کر کے اس کو جنت یا جہنم کا مستحق قرار دینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس مخصوص بندے نے کیا اس کلمہ کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہیں ؟ جس سے وہ جنت کا مستحق ہے، اور دخول جنت سے مانع چیزوں کو دور کردیا ہے یا نہیں ؟۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہی مسلک ہے، امام بخاری نے ابو ذر (رض) کی حدیث : ما من عبد قال : لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة کے بارے میں فرمایا : هذا عند الموت أو قبله، إذا تاب، وندم وقال : لا إله إلا الله غفر له یہ موت کے وقت یا موت سے پہلے جب بندہ نے توبہ کی، نادم ہوا، اور لا إله إلا الله کہا، تو اس کو بخش دیا جائے گا چناچہ توبہ و ندامت، اور کلمہ لا إله إلا الله پر موت سے جنت میں داخلہ کی شروط اور شہادت میں قدح کرنے والی رکاوٹوں کی نفی ہوگئی، اور بندہ جنت میں چلا گیا۔ علامہ سلیمان بن عبداللہ تیسیرالعزیز الحمید ( ٧٢ ) میں فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اس کلمہ توحید کو اس کے معنی کی معرفت و سمجھ کے ساتھ کہا، اور ظاہر و باطن میں اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ یہ احادیث مطلق ہیں، دوسری احادیث میں ان کی قیود و شروط آئی ہیں، اس لئے قید و شرط پر ان مطلق احادیث کو پیش کرنا ضروری ہے۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے دونوں جوتوں کو لے کر جاؤ، اور اس باغ کے پرے جو لا الہ إلا اللہ کہنے، اور اس پر دل سے یقین رکھنے والا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو ۔ جابر (رض) کی حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کئے بغیر مرگیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ معاذ (رض) کی حدیث ہے کہ جس نے خلوص دل سے لا إلہ الا اللہ کی گواہی دی، یا یقین قلب کے ساتھ گواہی دی وہ جہنم میں نہیں جائے گا، یا جنت میں جائے گا، نیز فرمایا : وہ جنت میں داخل ہوگا، اور اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ۔ امام ابن رجب فرماتے ہیں : اس کی وضاحت یہ ہے کہ بندہ کا لا إله إلا الله کہنا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ غیر اللہ کے معبود ہونے کی نفی کرے، اور إلــه ایسی قابل اطاعت (مطاع) ذات ہے کہ اس کی اہمیت کے سامنے، اس کی جلالت شان کے آگے، اس سے محبت کرکے، اس سے ڈر کر، اس سے امید کر کے، اس پر توکل کر کے، اس سے سوال کر کے، اور اس کو پکار کر اس کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی، یہ ساری چیزیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں، تو جس نے ان الٰہی خصوصیات و امتیازات میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس کے لا إله إلا الله کے کہنے کے اخلاص میں یہ قدح وطعن کی بات ہوئی، اور اس کی توحید میں نقص آیا، اور اس میں اسی مقدار میں مخلوق کی عبودیت متحقق ہوئی، اور یہ سب شرک کی شاخیں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وعدہ سے متعلق احادیث کو اس کے ظاہر پر رکھا جائے، اور اس کو ویسے ہی بیان کیا جائے، اور اس کو کسی مخصوص آدمی پر منطبق (چسپاں) نہیں کیا جائے گا، اور اس وعدے یعنی دخول جنت کے وجود کے تحقق کے لئے ایسی شروط و قیود ہیں جن کا وجود ضروری ہے، اور اس کی تنفیذ کی راہ میں جو موانع اور رکاوٹیں حائل ہوں ان کا دور ہونا ضروری ہے۔ بعض علماء نے ان احادیث کو اس کے عام اور ظاہری معنی میں نہیں لیا ہے بلکہ وہ اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں، مثلاً کلمہ گو مسلمان (لا إله إلا الله کے قائل) پر جہنم کے حرام ہونے کا مطلب ان کے نزدیک اس کا ہمیشہ ہمیش اور ابد الآباد تک جہنم میں نہ رہنا ہے، بلکہ اس میں داخل ہونے کے بعد وہ اس سے باہر نکلے گا، یا یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ کفار و منافقین کے جہنم کے ٹھکانوں میں داخل نہ کیا جائے گا، جب کہ بہت سے گنہگار موحد (مسلمان) جہنم کے اوپری طبقہ میں اپنے گناہوں کی پاداش میں داخل ہوں گے، اور اہل شفاعت کی شفاعت اور ارحم الراحمین کی رحمت سے وہ اس سے باہر نکل کر جنت میں جائیں گے، امام ابن قتیبہ اور قاضی عیاض انہی مذکورہ معانی کے اعتبار سے لا إله إلا الله کے قائلین کے جنت میں داخل ہونے کے استحقاق کی احادیث کے معنی و مراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ آخری انجام و عاقبت کے اعتبار سے عذاب پانے کے بعد وہ جنت میں جائیں گے۔ بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامرو نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہوگئی ہیں، اور واجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی )
حدیث نمبر: 3796 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَيَانٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ هِصَّانَ بْنِ الْكَاهِلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ، تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرْجِعُ ذَلِكَ إِلَى قَلْبِ مُوقِنٍ، إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهَا.
তাহকীক: