কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
حج کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২৩৮ টি
হাদীস নং: ৩০৬২
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زمزم پینا۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : زمزم کا پانی اس مقصد اور فائدے کے لیے ہے جس کے لیے وہ پیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٧، ٣٧٢) (صحیح) (اس سند میں عبداللہ بن مؤمل ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١١٢٣ ) وضاحت : ١ ؎: اگر آدمی زمزم کا پانی شفا کے لیے پئے تو شفا حاصل ہوگی، اگر پیٹ بھرنے کے لئے تو کھانے کی احتیاج نہ ہوگی، اگر پیاس بجھانے کے لیے پئے تو پیاس دور ہوجائے گی، بہرحال جس نیت سے پئے گا وہی فائدہ اللہ چاہے تو حاصل ہوگا، خواہ دنیا کا فائدہ ہو یا آخرت کا، صحیح کہا اور بہت سے ائمہ دین نے زمزم کو مختلف اغراض سے پیا ہے اور جو غرض تھی، وہ حاصل ہوئی۔
حدیث نمبر: 3062 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُؤَمَّلِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৩
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کعبہ کے اندر جانا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن کعبہ کے اندر تشریف لے گئے، آپ کے ساتھ بلال اور عثمان بن شیبہ (رض) بھی تھے، پھر ان لوگوں نے اندر سے دروازہ بند کرلیا، جب وہ لوگ باہر نکلے تو میں نے بلال (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی ؟ تو انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک کے سامنے ہی نماز پڑھی، جب دونوں ستو نوں کے درمیان تشریف لے گئے، پھر میں نے اپنے آپ پر اس بات پر ملامت کی کہ میں نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنی رکعتیں پڑھیں ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٠ (٣٩٧) ، ٨١ (٤٨٦) ، ٩٦ (٥٠٤) ، التھجد ٢٥ (١١٦٧) ، الحج ٥١ (١٥٩٨) ، الجہاد ١٢٧ (٢٦٨٨) ، المغازي ٤٩ (٤٢٨٩) ، ٧٧ (٤٤٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٢٩) ، سنن ابی داود/الحج ٩٣ (٢٠٢٣) ، سنن الترمذی/الحج ٤٦ (٨٧٤) ، سنن النسائی/المساجد ٥ (٦٩٣) ، القبلة ٦ (٧٥٠) ، الحج ١٢٦ (٢٩٠٨) ، ١٢٧ (٢٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٣٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٦٣ (١٩٣) ، مسند احمد (٢/٣٣، ٥٥، ١١٣، ١٢٠، ١٣٨، ٦/١٢، ١٣، ١٤، ١٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٣ (١٩٠٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 3063 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ الْكَعْبَةَ وَمَعَهُ بِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ شَيْبَةَ، فَأَغْلَقُوهَا عَلَيْهِمْ مِنْ دَاخِلٍ، فَلَمَّا خَرَجُوا، سَأَلْتُ بِلَالًا: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَأَخْبَرَنِي: أَنَّهُ صَلَّى عَلَى وَجْهِهِ حِينَ دَخَلَ بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ لُمْتُ نَفْسِي أَنْ لَا أَكُونَ سَأَلْتُهُ كَمْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৪
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کعبہ کے اندر جانا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے نکلے، آپ بہت خوش اور ہشاش بشاش تھے، پھر میرے پاس واپس آئے تو آپ غمگین تھے، یہ دیکھا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا بات ہے، ابھی میرے پاس سے آپ نکلے تو آپ بہت خوش تھے، اور واپس آئے ہیں تو غمگین ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں کعبہ کے اندر گیا، پھر میرے جی میں آیا کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا، میں ڈرتا ہوں کہ اپنے بعد میں اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈال دوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٩٥ (٢٠٢٩) ، سنن الترمذی/الحج ٤٥ (٨٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٧) (ضعیف) (سند میں اسماعیل بن عبدالملک منکر راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٣٤٦ )
حدیث نمبر: 3064 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِي وَهُوَ قَرِيرُ الْعَيْنِ، طَيِّبُ النَّفْسِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ وَهُوَ حَزِينٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَرَجْتَ مِنْ عِنْدِي وَأَنْتَ قَرِيرُ الْعَيْنِ، وَرَجَعْتَ وَأَنْتَ حَزِينٌ، فَقَالَ: إِنِّي دَخَلْتُ الْكَعْبَةَ، وَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ فَعَلْتُ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَكُونَ أَتْعَبْتُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৫
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ منی کی راتیں مکہ گزارنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی، کیونکہ زمزم کے پلانے کا کام ان کے سپرد تھا، تو آپ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٣ (١٧٤٥) ، صحیح مسلم/الحج ٦٠ (١٣١٥) ، سنن ابی داود/المناسک ٧٥ (١٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٩١ (١٩٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عذر کی وجہ سے اجازت خاص طور پر تھی ورنہ ہر شخص کو منیٰ کی دنوں میں یہ ضروری ہے کہ رات منیٰ میں بسر کرے۔
حدیث نمبر: 3065 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ أَيَّامَ مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৬
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ منی کی راتیں مکہ گزارنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (منیٰ کے دنوں میں) کسی کو مکہ میں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی سوائے عباس کے، کیونکہ حاجیوں کو پانی پلانے کا کام ان کے سپرد تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں اسماعیل بن مسلم ضعیف راوی ہے )
حدیث نمبر: 3066 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمْ يُرَخِّصْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَحَدٍ يَبِيتُ بِمَكَّةَ، إِلَّا لِلْعَبَّاسِ مِنْ أَجْلِ السِّقَايَةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৭
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ محصب میں اترنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ابطح میں اترنا سنت نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ صرف اس لیے اترے تھے کہ وہاں سے مدینہ کے لیے روانگی میں آسانی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٨٨) ، و باقی الإسناد وتفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٩٥، ١٧٢٣٣، ١٧٢٨٦، ١٧٣٠٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٧ (١٧٦٥) ، سنن ابی داود/المناسک ٨٧ (٢٠٠٨) ، سنن الترمذی/الحج ٨٢ (٩٢٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 3067 حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، وَعَبْدَةُ، وَوَكِيعٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَاوَكِيعٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، كُلُّهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ نُزُولَ الْأَبْطَحِ لَيْسَ بِسُنَّةٍ، إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَكُونَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৮
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ محصب میں اترنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ روانگی کی رات بطحاء کی طرف سے (مدینہ کے لیے) رات ہی کو چل پڑے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٦٠، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 3068 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ زُرَيْقٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ادَّلَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ النَّفْرِ مِنْ الْبَطْحَاءِ ادِّلَاجًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৯
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ محصب میں اترنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکرو عمر اور عثمان (رض) عنہم ابطح میں اترا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٨ (١٧٦٨) مختصراً ، صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١٠) ، سنن الترمذی/الحج ٨١ (٩٢١) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٩) (صحیح )
حدیث نمبر: 3069 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، يَنْزِلُونَ بِالْأَبْطَحِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭০
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ طواف رخصت۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ لوگ ہر طرف کو جا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٧ (١٣٢٧) ، سنن ابی داود/المناسک ٨٤ (٢٠٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٤ (١٧٥٥) ، مسند احمد (١/٢٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٥ (١٩٧٤) (صحیح )
حدیث نمبر: 3070 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ كُلَّ وَجْهٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَنْفِرَنَّ أَحَدٌ، حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭১
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ طواف رخصت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی کوچ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام خانہ کعبہ کا طواف ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٠٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٧) (صحیح) (سند میں ابراہیم بن یزید الخوزی المکی منکر الحدیث راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے )
حدیث نمبر: 3071 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَنْفِرَ الرَّجُلُ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭২
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حائضہ طواف وداع سے قبل واپس ہوسکتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہوگئیں، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا وہ ہمیں روک لے گی ؟ میں نے کہا : وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں اس کے بعد حائضہ ہوئی ہیں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو پھر چلو روانہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبيبکر بن أبيشیبة تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٥٠) ، وحدیث أبي سلمة أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٧ (٣٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٦٧ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٨) وحدیث عروة أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٦٧ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/المناسک ٨٥ (٢٠٠٣) ، سنن الترمذی/الحیض ٩٩ (٣٩١) ، سنن النسائی/الحیض ٢٣ (٣٩١) ، موطا امام مالک/الحج ٧٥ (٢٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٨، ٣٩، ٨٢، ٩٩، ١٢٢، ١٦٤، ١٧٥، ١٩٣، ٢٠٢، ٢٠٧، ٢١٣، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٣ (١٩٥٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 3072 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَعُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: حَاضَتْ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَحَابِسَتُنَا هِيَ؟، فَقُلْتُ: إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ، ثُمَّ حَاضَتْ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلْتَنْفِرْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭৩
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حائضہ طواف وداع سے قبل واپس ہوسکتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ (رض) کا ذکر کیا تو ہم نے کہا : انہیں حیض آگیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : عقرى حلقى! میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ سے ہمیں رکنا پڑے گا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ دسویں کو طواف افاضہ کرچکی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تب تو پھر ہمیں رکنے کی ضرورت نہیں، اس سے کہو کہ وہ روانہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٥١ (١٧٧١) ، صحیح مسلم/١٧ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢٤، سنن الدارمی/المناسک ٧٣ (١٩٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب حائضہ طواف افاضہ کرچکی ہو تو طواف وداع اس پر لازم نہیں ہے، اور ہم نے عمر (رض) اور ابن عمر رضی اللہ عنہما، اور زید بن ثابت (رض) سے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے طواف وداع کے لیے حائضہ کو ٹھہرنے کا حکم کیا ہے گویا انہوں نے اس کو طواف افاضہ کی طرح واجب سمجھا۔
حدیث نمبر: 3073 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةَ، فَقُلْنَا: قَدْ حَاضَتْ، فَقَالَ: عَقْرَى حَلْقَى، مَا أُرَاهَا إِلَّا حَابِسَتَنَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا قَدْ طَافَتْ يَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ: فَلَا إِذًا مُرُوهَا فَلْتَنْفِرْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭৪
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا مفصل ذکر۔
جعفر الصادق اپنے والد محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس گئے، جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں پوچھا کہ کون لوگ ہیں، یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے پوچھا، میں نے کہا : میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی کھولی پھر اپنی ہتھیلی میری دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھی، میں ان دنوں نوجوان لڑکا تھا، اور کہا : تمہیں خوش آمدید، تم جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے (کچھ باتیں) پوچھیں، وہ نابینا تھے ١ ؎ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، وہ ایک بنی ہوئی چادر جسے جسم پر لپیٹے ہوئے تھے اوڑھ کر کھڑے ہوئے، جب اس کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر ڈالتے تو اس کے دونوں کنارے ان کی جانب واپس آجاتے (کیونکہ چادر چھوٹی تھی) اور ان کی بڑی چادر ان کے پاس ہی میز پر رکھی ہوئی تھی، انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر میں نے ان سے کہا : آپ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے حج کا حال بتائیے، تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو ( ٩ ) کی گرہ بنائی (یعنی خنصر، بنصر اور وسطی کا سرا ہتھیلی سے لگا لیا) اور کہا : رسول اللہ ﷺ نو سال تک (مدینہ میں) ٹھہرے رہے، آپ نے حج نہیں کیا، پھر (ہجرت) کے دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا کہ اس سال آپ حج کو جائیں گے، تو مدینہ میں (اطراف سے) بہت سے لوگ (آپ کے ساتھ حج میں شریک ہونے کے لیے) آگئے، سب کی یہ خواہش تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کریں، اور جو کام آپ کریں وہی وہ بھی کریں، خیر آپ ﷺ نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے، ہم ذو الحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس (رض) کے یہاں محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : غسل کرلو اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام کی نیت کرلو ، پھر رسول اللہ ﷺ نے (ذوالحلیفہ) مسجد میں نماز ادا کی، پھر قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوگئے، یہاں تک کہ جب وہ آپ کو لے کر مقام بیداء میں سیدھی کھڑی ہوئی تو جہاں تک میری نگاہ گئی میں نے آپ کے سامنے سوار اور پاپیادہ لوگوں کو ہی دیکھا، اور دائیں بائیں اور پیچھے بھی ایسے ہی لوگ نظر آ رہے تھے، اور رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تھے ٢ ؎، آپ ﷺ پر قرآن اترتا تھا، آپ اس کے معانی کو سمجھتے تھے، آپ جو کام کرتے تھے ہم بھی وہی کرتے تھے، آپ نے توحید پر مشتمل تلبیہ پکارا لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد وثناء، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، تیرا ان میں کوئی شریک نہیں تو لوگوں نے بھی انہیں الفاظ میں تلبیہ پکارا جن میں آپ پکار رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے کسی الفاظ کی تبدیلی نہیں فرمائی ٣ ؎، آپ یہی تلبیہ پکارتے رہے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، ہم عمرہ جانتے بھی نہ تھے ٤ ؎ (یعنی اس کا سرے سے کوئی خیال ہی نہیں تھا) یہاں تک کہ جب ہم خانہ کعبہ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا، اور طواف میں تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس جا کر کھڑے ہوئے، اور آیت کریمہ : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو پڑھی ٥ ؎، آپ ﷺ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور خانہ کعبہ کے درمیان کیا۔ جعفر کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے تھے : آپ (طواف کی) دونوں رکعتوں میں : قل يا أيها الکافرون، قل هو الله أحد پڑھ رہے تھے ٦ ؎۔ پھر آپ ( ﷺ ) لوٹ کر خانہ کعبہ کے پاس آئے، اور حجر اسود کا استلام کیا، پھر باب صفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب صفا کے قریب ہوئے تو : إن الصفا والمروة من شعائر الله صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں پڑھی اور فرمایا : ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چناچہ آپ ﷺ نے (سعی) صفا سے شروع کی، آپ ﷺ جبل صفا چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آنے لگا تو الله أكبر لا إله إلا الله اور الحمد لله پڑھا، اور فرمایا : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير لا إله إلا الله وحده لا شريك له أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں، ساری بادشاہت اسی کے لیے ہے، اور تمام قسم کی تعریفیں اسی کے لیے سزاوار ہیں، وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا بہت سی جماعتوں کو شکست دی ، پھر آپ ﷺ نے اس کے درمیان دعا فرمائی اور یہ کلمات تین بار دہرائے، پھر آپ (صفا سے) اتر کر مروہ کی طرف چلے، جب آپ ﷺ کے پاؤں وادی کے نشیب میں اترنے لگے تو آپ نے رمل کیا (یعنی مونڈھے ہلاتے ہوئے دوڑ کر چلے) ، پھر جب چڑھائی پر پہنچے تو عام چال چل کر مروہ تک آئے، اور مروہ پر بھی آپ نے ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا، پھر جب آپ کا آخری پھیرا مروہ پر ختم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہوگئی ہوتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں ہدی اپنے ساتھ نہ لاتا، اور حج کو عمرہ میں بدل دیتا، لہٰذا تم میں سے جس آدمی کے ساتھ ہدی (کے جانور) نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اس کو عمرہ میں تبدیل کرلے ، یہ سن کر لوگوں نے احرام کھول دیا، اور بال کتروا لیے سوائے رسول اللہ ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی کے جانور تھے۔ پھر سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) نے کھڑے ہو کر کہا : اللہ کے رسول ! کیا یہ حکم ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ؟ یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں اور دو بار فرمایا : عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہوگیا ہے ، اور فرمایا : صرف اس سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ۔ علی (رض) نبی اکرم ﷺ کے ہدی کے اونٹ (یمن) سے لے کر آئے تو انہوں نے فاطمہ (رض) کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑا پہنے ہوئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، تو اس پر انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا، تو فاطمہ (رض) بولیں : میرے والد نے مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ چناچہ علی (رض) (اپنے ایام خلافت میں) عراق میں فرما رہے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کو فاطمہ (رض) نے کر رکھا تھا، غصہ میں بھرا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس اس چیز کے متعلق پوچھنے کے لیے آیا جو فاطمہ (رض) نے آپ کے متعلق بتائی تھی، اور جس پر میں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، وہ سچ کہتی ہے، ہاں، وہ سچ کہتی ہے ، اور جب تم نے حج کی نیت کی تھی تو تم نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے عرض کیا : میں نے یوں کہا تھا : اے اللہ ! میں وہی تلبیہ پکارتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے پکارا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے ساتھ تو ہدی ہے تو اب تم حلال نہ ہو ۔ جابر (رض) کہتے ہیں : تو قربانی کے وہ اونٹ جو علی (رض) یمن سے لے کر آئے تھے، اور وہ اونٹ جو نبی اکرم ﷺ مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو تھے، پھر سارے لوگ حلال ہوگئے، اور انہوں نے بال کتروا لیے سوائے نبی اکرم ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی کے جانور تھے۔ پھر جب یوم الترویہ (ذی الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو حج کا تلبیہ پکار کر لوگ منیٰ کی طرف چلے۔ رسول اللہ ﷺ بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں، (نوویں ذی الحجہ کو فجر کے بعد) تھوڑی دیر رکے رہے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، اور بال کے خیمے کے متعلق حکم دیا کہ اسے نمرہ میں لگایا جائے، پھر رسول اللہ ﷺ چلے اور قریش کو اس میں شک نہیں تھا کہ آپ مشعر حرام ٧ ؎ یا مزدلفہ کے پاس ٹھہریں گے، جیسا کہ قریش جاہلیت میں کیا کرتے تھے ٨ ؎، لیکن آپ ﷺ اسے پار کر کے عرفات میں جا پہنچے، دیکھا تو خیمہ نمرہ میں لگا ہوا ہے، آپ وہیں اتر پڑے، جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے قصواء (اونٹنی) پر کجاوہ کسے جانے کا حکم دیا، آپ اس پر سوار ہو کر وادی کے نشیب میں آئے، اور خطبہ دیا، اس میں فرمایا : تمہارے خون، تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں، سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے ان دونوں پاؤں کے تلے رکھ کر روند دی گئی، اور جاہلیت کے سارے خون معاف کر دئیے گئے، اور سب سے پہلا خون جس کو میں معاف کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کا خون ہے، وہ بنی سعد میں دودھ پی رہے تھے کہ شیر خوارگی ہی کی حالت میں ہذیل نے انہیں قتل کردیا تھا، اور جاہلیت کے سارے سود بھی معاف کر دئیے گئے اور اپنے سودوں میں سے پہلا سود جس کو میں معاف کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، وہ سب معاف ہے۔ اور عورتوں کے سلسلہ میں تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کے امان اور عہد سے اپنے عقد میں لیا ہے، اور تم نے ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلام سے حلال کیا ہے، لہٰذا تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر اس شخص کو روندنے نہ دیں جن کو تم برا جانتے ہو ٩ ؎، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن ایسی سخت مار نہیں کہ جس سے ہڈی پسلی ٹوٹ جائے، ان کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تم ان کو دستور و عرف کے مطابق روٹی اور کپڑا دو ، میں تم میں وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو گمراہ نہ ہو گے، اور وہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہے، اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو بتاؤ، تم کیا کہو گے ؟ لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا اور ذمہ داری ادا کردی ! اور آپ نے ہماری خیر خواہی کی، یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا پھر آپ اسے لوگوں کی طرف جھکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے : اے اللہ ! گواہ رہ، اے اللہ ! گواہ رہ ، تین بار آپ نے یہ کلمات دہرائے۔ اس کے بعد بلال (رض) نے اذان دی، پھر تکبیر کہی، آپ ﷺ نے ظہر پڑھائی، پھر تکبیر کہی تو عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان آپ نے کوئی اور نماز نہیں پڑھی، پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور اس مقام پر آئے جہاں عرفات میں وقوف کرتے ہیں، اور اپنی اونٹنی کا پیٹ جبل رحمت کی طرف کیا اور جبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ کھڑے ہوئے، اور سورج ڈوبنے تک مسلسل کھڑے رہے یہاں تک کہ تھوڑی زردی بھی جاتی رہی، جب سورج ڈوب گیا تو اسامہ بن زید (رض) کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا، پھر آپ عرفات سے چلے، اور قصواء کی نکیل کو کھینچے رکھا یہاں تک کہ اس کا سر کجاوے کی پچھلی لکڑی سے لگ جایا کرتا تھا، اور اپنے داہنے ہاتھ کے اشارے سے فرما رہے تھے : لوگو ! اطمینان اور آہستگی سے چلو ، جب آپ کسی ریت کے ٹیلے پر آتے تو قصواء کی نکیل تھوڑی ڈھیلی کردیتے یہاں تک کہ وہ چڑھ جاتی، پھر آپ ﷺ مزدلفہ تشریف لائے، اور وہاں ایک اذان اور دو اقامت سے مغرب اور عشاء پڑھی اور ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، پھر آپ ﷺ لیٹے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی، تو آپ نے فجر پڑھی جس وقت صبح پوری طرح واضح ہوگئی، پھر آپ قصواء پر سوار ہوے، اور مشعر حرام (مزدلفہ میں ایک پہاڑ ہے) کے پاس آئے، اور اس پر چڑھے اور اللہ کی تحمید، تکبیر اور تہلیل کرتے رہے، اور وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہوگئی، پھر وہاں سے سورج نکلنے سے پہلے آپ ﷺ چل پڑے، اور سواری پر فضل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، وہ بہت بہترین بال والے گورے اور خوبصورت شخص تھے، جب آپ ﷺ چلے اور اونٹوں پر سوار عورتیں گزرنے لگیں، تو فضل انہیں دیکھنے لگے، آپ ﷺ نے دوسری طرف سے اپنے ہاتھ کا آڑ کرلیا تو فضل اپنا چہرہ پھیر کر دوسری طرف سے انہیں دیکھنے لگے، یہاں تک کہ آپ وادی محسر میں آئے، وہاں آپ نے سواری کو ذرا تیز کیا، پھر آپ اس کے درمیان والے راستہ پر سے چلے جو تمہیں جمرہ عقبہ کی جانب نکالتا ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے، (یعنی جمرہ عقبہ پر) اور سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر آپ تکبیر کہتے تھے، اور کنکریاں ایسی تھی جو دونوں انگلیوں کے سروں کے درمیان آسکیں، وادی کے نشیب سے آپ نے کنکریاں ماریں، پھر آپ نحر کے مقام پر آئے، اور ٦٣ اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر (ذبح) کیے، اور پھر علی (رض) کو دیا، اور باقی اونٹوں کا نحر انہوں نے کیا، انہیں بھی آپ نے اپنی ہدی میں شریک کرلیا، پھر آپ ﷺ نے سارے اونٹوں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لانے کے لیے کہا، چناچہ لا کر اسے ایک ہانڈی میں رکھ کر پکایا گیا، پھر دونوں نے وہ گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا، پھر وہاں سے لوٹ کر آپ ﷺ خانہ کعبہ کے پاس آئے، اور مکہ میں نماز پڑھی ١٠ ؎، پھر خاندان بنی عبدالمطلب میں آئے، دیکھا تو یہ لوگ حاجیوں کو زمزم کا پانی پلا رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : عبدالمطلب کے بیٹو ! نکالو اور پلاؤ ١ ١ ؎، اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تمہارے اس پلانے کے کام میں لوگ تم پر غالب آجائیں گے تو تمہارے ساتھ میں بھی نکالتا پھر لوگوں نے آپ ﷺ کو بھی ایک ڈول دیا آپ نے بھی اس میں سے پیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٩ (١٢١٨) بلفظ : ابدا وھوالصواب، سنن ابی داود/الحج ٥٧ (١٩٠٥، ١٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ٤٦ (٢٧١٣) ، ٥١ (٢٧٤١) ، ٥٢ (٢٧٤٤) ، ٧٣ (٢٨٠٠) ، مسند احمد (٣/٣٢٠، ٣٣١، ٣٣٣، ٣٤٠، ٣٧٣، ٣٨٨، ٣٩٤، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/المناسک ١١ (١٨٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بڑھاپے کی وجہ سے آنکھ کی روشنی ختم ہوچکی تھی۔ ٢ ؎: بعض لوگوں نے یہ تعداد ٩٠ ہزار لکھی ہے اور بعض نے ایک لاکھ تیس ہزار کہا ہے۔ ٣ ؎: زمانہ جاہلیت میں تلبیہ لبيك اللهم لبيك لا شريك لك کے بعد إلا شريكاً لک تملکه بڑھا کر کہا جانا تھا۔ ٤ ؎: یعنی عمرہ کا ارادہ بالکل نہیں تھا یا عمرہ کو حج کے مہینوں میں جائز ہی نہیں سمجھتے تھے۔ ٥ ؎ : اور مقام ابراہیم کو مصلی بنا لو (سورۃ البقرہ : ١٢٥ ) ٦ ؎ : پہلی رکعت میں قل يا أيها الکافرون پڑھی اور دوسری رکعت میں قل هو الله أحد ۔ ٧ ؎ : مشعر حرام مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے اسے قزح بھی کہتے ہیں۔ ٨ ؎ : زمانہ جاہلیت میں قریش مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے، عرفات نہیں جاتے تھے، اور باقی لوگ عرفات جاتے تھے، ان کا خیال تھا کہ نبی اکرم ﷺ بھی قریش کی اتباع کریں گے لیکن آپ وہاں نہیں ٹھہرے اور عرفات چل دیئے۔ ٩ ؎ : یعنی بغیر تمہاری اجازت کے کسی کو اپنے گھر میں آنے نہ دیں اور اس سے میل جول نہ رکھیں۔ ١٠ ؎ : یہی راجح قول ہے اس کے برخلاف ایک روایت آتی ہے جس میں ظہر منیٰ میں پڑھنے کا ذکر ہے، علماء نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زوال سے پہلے طواف افاضہ کیا پھر مکہ میں اول وقت میں نماز پڑھی پھر منیٰ واپس آئے تو وہاں صحابہ کرام کے ساتھ ظہر پڑھی اور بعد والی نماز آپ کی نفل ہوگئی۔ ١ ١ ؎: کیونکہ میں بھی عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں، آپ کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں بھی پانی نکالنے میں لگ جاؤں تو لوگ اس کو بھی حج کا ایک رکن سمجھ لیں گے، اور اس کے لیے بھیڑ لگا دیں گے، اور ہر شخص پانی نکالنا چاہے گا، اور بھیڑ بھاڑ کے ڈر سے تم اس خدمت سے علاحدہ ہوجاؤ گے، کیونکہ تم لوگوں سے لڑ نہیں سکو گے، اور وہ تم پر غالب آجائیں گے۔
حدیث نمبر: 3074 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهِ، سَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ، فَقُلْتُ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَحَلَّ زِرِّي الْأَعْلَى، ثُمَّ حَلَّ زِرِّي الْأَسْفَلَ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ، سَلْ عَمَّا شِئْتَ، فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى، فَجَاءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا، وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَانِبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ، فَصَلَّى بِنَا، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنَا عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بِيَدِهِ فَعَقَدَ تِسْعًا، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ، فَأَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ، فَأَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ؟، قَالَ: اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ، وَأَحْرِمِي، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ، قَالَ جَابِرٌ: نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ بَيْنَ رَاكِبٍ وَمَاشٍ وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلُ ذَلِك وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ، وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ مَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ، قَالَ جَابِرٌ: لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ، لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ، فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ قَامَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَكَانَ أَبِي يَقُولُ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا ذَكَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْبَيْتِ فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَاب: إِلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْ الصَّفَا قَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ، فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ، حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ، فَكَبَّرَ اللَّهَ، وَهَلَّلَهُ، وَحَمِدَهُ، وَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَقَالَ: مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ فَمَشَى حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ رَمَلَ فِي بَطْنِ الْوَادِي، حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا يَعْنِي قَدَمَاهُ مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا، فَلَمَّا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ، قَالَ: لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي، مَا اسْتَدْبَرْتُ، لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً، فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا، إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِعَامِنَا هَذَا، أَمْ لِأَبَدِ الْأَبَدِ؟، قَالَ: فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ فِي الْأُخْرَى، وَقَالَ: دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ هَكَذَامَرَّتَيْنِ، لَا بَلْ لِأَبَدِ الْأَبَدِ، قَالَ: وَقَدِمَ عَلِيٌّ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ فَاطِمَةَ مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا عَلِيٌّ، فَقَالَتْ: أَمَرَنِي أَبِي بِهَذَا، فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ بِالْعِرَاقِ: فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ فِي الَّذِي صَنَعَتْهُ، مُسْتَفْتِيًا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِي ذَكَرَتْ عَنْهُ، وَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ صَدَقَتْ، مَاذَا قُلْتُ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟، قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَإِنَّ مَعِي الْهَدْيَ فَلَا تَحِلَّ، قَالَ: فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي جَاءَ بِهِ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ، وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ مِائَةً، ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ، وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَتَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى أَهَلُّوا بِالْحَجِّ، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ، فَضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ أَوْ الْمُزْدَلِفَةِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ، فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ، فَرَكِبَ حَتَّى أَتَى بَطْنَ الْوَادِي، فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ: إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ، يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ تَحْتَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُهُ دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَانَا رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ، وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَمْ تَضِلُّوا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ عَنِّي، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟، قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ، فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُبُهَا إِلَى النَّاسِ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ إِلَى الصَّخَرَاتِ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ خَلْفَهُ فَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ شَنَقَ الْقَصْوَاءَ بِالزِّمَامِ حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: أَيُّهَا النَّاسُ السَّكِينَةَ، السَّكِينَةَ، كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ، أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ، ثُمَّ أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَرَقِيَ عَلَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا، ثُمَّ دَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعَرِ، أَبْيَضَ وَسِيمًا، فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظُّعُنُ يَجْرِينَ فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا، حَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تُخْرِجُكَ إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ، فَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلِ: حَصَى الْخَذْفِ، وَرَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ، وَأَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا، ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ، فَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُمْ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ، فَقَالَ: انْزَعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ، لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ. فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭৫
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا مفصل ذکر۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے لیے تین صورتوں میں نکلے، ہم میں تین قسم کے لوگ تھے، کچھ لوگوں نے آپ کے ساتھ حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ پکارا، اور کچھ لوگوں نے حج افراد کا، اور کچھ لوگوں نے صرف عمرہ کا، جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا تھا (یعنی قران کیا تھا) وہ حج کے سارے مناسک پورے کرلینے کے بعد حلال ہوئے، اور جس نے حج افراد کا تلبیہ پکارا تھا اس کا بھی یہی حال رہا، وہ بھی اس وقت تک حلال نہیں ہوا جب تک حج کے سارے مناسک پورے نہ کرلیے، اور جس نے صرف عمرہ کا تلبیہ پکارا تھا وہ خانہ کعبہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کر کے حلال ہوگیا، یہاں تک کہ (یوم الترویہ کو) نئے سرے سے حج کا احرام باندھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٨٤) ، وقد أخرجہ : (٦/١٤١) (حسن )
حدیث نمبر: 3075 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَجِّ عَلَى أَنْوَاعٍ ثَلَاثَةٍ: فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ مَعًا، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مُفْرَدَةٍ، فَمَنْ كَانَ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ مَعًا لَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ مِمَّا حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ مَنَاسِكَ الْحَجِّ، وَمَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا لَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ مِمَّا حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ مَنَاسِكَ الْحَجِّ، وَمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مُفْرَدَةٍ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَلَّ مَا حَرُمَ منْهُ حَتَّى يَسْتَقْبِلَ حَجًّا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭৬
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا مفصل ذکر۔
سفیان ثوری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین حج کئے ١ ؎، دو حج ہجرت سے پہلے، اور ایک حج ہجرت کے بعد مدینہ سے آ کر کیا، اس حج کے ساتھ آپ نے عمرہ کو بھی ملایا (یعنی قران کیا) اس حج میں نبی اکرم ﷺ اپنے ساتھ جو اونٹ لے کر آئے تھے، اور جو علی (رض) (یمن سے) لے کر آئے تھے سب ملا کر کل سو اونٹ تھے، جن میں سے ایک اونٹ ابوجہل کا بھی تھا، اس کی ناک میں چاندی کا ایک چھلہ تھا، ان میں سے ٦٣ اونٹوں کو نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے نحر کیا، اور جو باقی رہ گئے انہیں علی (رض) نے نحر کیا، سفیان سے پوچھا گیا کہ یہ حدیث کس نے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا : جعفر صادق نے اپنے والد سے، انہوں نے جابر (رض) سے اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے، حکم نے مقسم سے اور مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث جابر أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٦ (٨١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٦) ، وحدیث ابن عباس تفرد بہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف : ٦٤٨٥، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مقصد عمرہ ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ نے حج ایک بار ہی ادا کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔
حدیث نمبر: 3076 حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ حَجَّاتٍ، حَجَّتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ، وَحَجَّةً بَعْدَ مَا هَاجَرَ مِنْ الْمَدِينَةِ، وَقَرَنَ مَعَ حَجَّتِهِ عُمْرَةً، وَاجْتَمَعَ مَا جَاءَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا جَاءَ بِهِ عَلِيٌّ مِائَةَ بَدَنَةٍ، مِنْهَا جَمَلٌ لِأَبِي جَهْلٍ فِي أَنْفِهِ بُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ، فَنَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ، وَنَحَرَ عَلِيٌّ مَا غَبَرَ، قِيلَ لَهُ: مَنْ ذَكَرَهُ؟، قَالَ: جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭৭
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو شخص حج سے رک جائے بیماری یا عذر کی وجہ سے (احرام کے بعد)
حجاج بن عمرو انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جس حاجی کی ہڈی ٹوٹ جائے، یا لنگڑا ہوجائے، تو وہ حلال ہوجائے (احرام کھول ڈالے) اب اس پر دوسرا حج ہے ١ ؎۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بیان کی تو ان دونوں نے کہا : حجاج نے سچ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٤٤ (١٨٦٢، ١٨٦٣) ، سنن الترمذی/الحج ٩٦ (٩٤٠) ، سنن النسائی/الحج ١٠٢ (٢٨٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٤، ٦٢٤١، ١٤٢٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٧ (١٩٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج و عمرہ کی نیت سے گھر سے نکلنے والے کو اگر اچانک کوئی مرض لاحق ہوجائے تو وہ وہیں پر حلال ہوجائے گا لیکن اگر یہ حج فرض ہو تو آئندہ سال اس کو حج کرنا ہوگا۔
حدیث نمبر: 3077 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ كُسِرَ أَوْ عَرَجَ فَقَدْ حَلَّ، وَعَلَيْهِ حَجَّةٌ أُخْرَى، فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ، فَقَالَا: صَدَقَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭৮
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو شخص حج سے رک جائے بیماری یا عذر کی وجہ سے (احرام کے بعد)
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے غلام عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن عمرو (رض) سے محرم کے رک جانے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی، یا بیمار ہوگیا، یا لنگڑا ہوگیا تو وہ حلال ہوگیا اور اس پر آئندہ سال حج ہے ١ ؎۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بیان کی تو انہوں نے کہا : حجاج نے سچ کہا۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث ہشام صاحب دستوائی کی کتاب میں ملی، تو اسے لے کر میں معمر کے پاس آیا، تو انہوں نے یہ حدیث مجھے پڑھ کر سنائی یا میں نے انہیں پڑھ کر سنائی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٤، ٦٢٤١، ١٤٢٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث کا سماع دونوں طرح سے جائز ہے کہ استاد پڑھے، اور شاگرد سنے یا شاگرد پڑھے اور استاد سنے۔
حدیث نمبر: 3078 حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ حَبْسِ الْمُحْرِمِ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كُسِرَ أَوْ مَرِضَ أَوْ عَرَجَ، فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ، قَالَ عِكْرِمَةُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ، فَقَالَا: صَدَقَ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: فَوَجَدْتُهُ فِي جُزْءِ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتُوَائِيِّ، فَأَتَيْتُ بِهِ مَعْمَرًا، فَقَرَأَ عَلَيَّ، أَوْ قَرَأْتُ عَلَيْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৭৯
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ احصار کا فدیہ۔
عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں مسجد میں کعب بن عجرہ (رض) کے پاس بیٹھا تو میں نے ان سے آیت کریمہ : ففدية من صيام أو صدقة أو نسك (سورۃ البقرہ : ١٩٦ ) کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے، میرے سر میں تکلیف تھی تو مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ جوئیں (میرے سر میں اتنی کثرت سے تھیں کہ) میرے منہ پر گر رہی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اس قدر تکلیف ہوگی، کیا ایک بکری تمہیں مل سکتی ہے ؟ میں نے عرض کیا : نہیں، تب یہ آیت اتری : ففدية من صيام أو صدقة أو نسك یعنی فدیہ ہے صوم کا یا صدقہ کا یا قربانی کا ، تو صوم تین دن کا ہے، اور صدقہ چھ مسکینوں کو کھانا دینا ہے، ہر مسکین کو آدھا صاع، اور قربانی ایک بکری کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر ٥ (١٨١٤) ، ٦ (١٨١٥) ، ٧ (١٨١٦) ، ٨ (١٨١٧) ، المغازي ٣٥ (٤١٥٩) ، تفسیر البقرة ٣٢ (٤٥١٧) ، المرضیٰ ١٦ (٥٦٦٥) ، الطب ١٦ (٥٧٠٣) ، الکفارات ١ (٦٨٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٠ (١٢٠١) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٧ (٩٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٤٣ (١٨٥٦) ، سنن النسائی/الحج ٩٦ (٢٨٥٤) ، موطا امام مالک/الحج ٧٨ (٢٣٧) ، مسند احمد (٤/٢٤٢، ٢٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محرم جب کوئی غلطی کر بیٹھے تو ان تینوں کفارات میں سے جو ادا کرسکے کرے۔
حدیث نمبر: 3079 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: قَعَدْتُ إِلَى كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ كَعْبٌ: فِيَّ أُنْزِلَتْ كَانَ بِي أَذًى مِنْ رَأْسِي، فَحُمِلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ: مَا كُنْتُ أُرَى الْجُهْدَ بَلَغَ بِكَ مَا أَرَى، أَتَجِدُ شَاةً؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ: فَالصَّوْمُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَالصَّدَقَةُ عَلَى سِتَّةِ مَسَاكِينَ لِكُلِّ مِسْكِينٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ طَعَامٍ، وَالنُّسُكُ شَاةٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৮০
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ احصار کا فدیہ۔
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں جس وقت جوؤں نے مجھے پریشان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنا سر منڈوا ڈالوں، اور تین دن روزے رکھوں، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤں، آپ ﷺ جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١١٨) (حسن )
حدیث نمبر: 3080 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ آذَانِي الْقَمْلُ: أَنْ أَحْلِقَ رَأْسِي، وَأَصُومَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أُطْعِمَ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، وَقَدْ عَلِمَ أَنْ لَيْسَ عِنْدِي مَا أَنْسُكُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৮১
حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ محرم کیلئے پچھنے لگوانا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے، اور آپ احرام کی حالت میں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، الطب ١٢ (٥٦٩٥) ، ١٥ (٥٧٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، سنن ابی داود/الحج ٣٦ (١٨٣٥) ، سنن الترمذی/الحج ٢٢ (٨٣٩) ، سنن النسائی/الحج ٩٢ (٢٨٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٢، ٢٣٦، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٦٠، ٢٨٣، ٢٨٦، ٢٩٢، ٣٠٦، ٣١٥، ٣٣٣، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٧٢، ٤، ٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٠ (١٨٦٠) (صحیح )
حدیث نمبر: 3081 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ، وَهُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ.
তাহকীক: