আলমুসনাদ - ইমাম আহমদ রহঃ (উর্দু)
مسند امام احمد بن حنبل
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২৯৮ টি
হাদীস নং: ৩৫৮
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) حجر اسود کے پاس آئے اور اس سے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر انہوں نے اسے بوسہ دیا۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَتَى الْحَجَرَ فَقَالَ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ قَالَ ثُمَّ قَبَّلَهُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
سوید بن غفلہ (رح) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حجر اسود کو چمٹ کر اسے بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے ابوالقاسم ﷺ کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبَّلَهُ وَالْتَزَمَهُ ثُمَّ قَالَ رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَ حَفِيًّا يَعْنِي الْحَجَرَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬০
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب رات یہاں سے آجائے اور دن وہاں سے چلا جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَهُنَا وَذَهَبَ النَّهَارُ مِنْ هَهُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬১
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا صدقہ دے کر دوبارہ اس کی طرف رجوع کرنے والا اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو اپنے منہ سے قئی کر کے اس کو چاٹ لے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِي يَعُودُ فِي صَدَقَتِهِ كَمَثَلِ الَّذِي يَعُودُ فِي قَيْئِهِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬২
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو نبی ﷺ نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے جبکہ نماز فجر اسفار کر کے پڑھنے والوں کی مقدار کے تناسب سے پڑھی جاسکتی تھی۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى يَقُولُوا أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ فَكَانَ يَدْفَعُ مِنْ جَمْعٍ مِقْدَارَ صَلَاةِ الْمُسْفِرِينَ بِصَلَاةِ الْغَدَاةِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৩
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت کو اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِي مَعْرُوفٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ لِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৪
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دوران سفر جناب رسول اللہ ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ فِي السَّفَرِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৫
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ (پانچ چیزوں سے) اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، بخل سے، بزدلی سے، دل کے فتنہ سے، عذاب قبر سے اور بری عمر سے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ وَفِتْنَةِ الصَّدْرِ قَالَ وَكِيعٌ فِتْنَةُ الصَّدْرِ أَنْ يَمُوتَ الرَّجُلُ وَذَكَرَ وَكِيعٌ الْفِتْنَةَ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৬
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
عبداللہ بن بریدہ (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں نبی ﷺ بھی بیٹھتے تھے اور وہاں سے جنازے گذرتے تھے، وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسرے جنازہ پر بھی ایسا ہی ہوا، جب چوتھا جنازہ گذرا تو لوگوں نے کہا یہ سب سے بڑا جھوٹا تھا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا وہ ہوتا ہے جو اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھتا ہے، اس کے بعد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے جسم میں موجود روح پر جھوٹ باندھتے ہیں، لوگوں نے کہا یہ بتائیے کہ اگر کسی مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، لوگوں نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں ؟ تو فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، اگر میں ایک کے متعلق پوچھ لیتا تو یہ میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا، کسی شخص نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا کہ یہ بات آپ اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں یا آپ نے نبی ﷺ سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں، بلکہ میں نے نبی ﷺ سے سنی ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْوَلِيدِ الشَّنِّيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ جَلَسَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَجْلِسًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُهُ تَمُرُّ عَلَيْهِ الْجَنَائِزُ قَالَ فَمَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَأَثْنَوْا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَأَثْنَوْا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَقَالُوا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَقَالُوا هَذَا كَانَ أَكْذَبَ النَّاسِ فَقَالَ إِنَّ أَكْذَبَ النَّاسِ أَكْذَبُهُمْ عَلَى اللَّهِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ مَنْ كَذَبَ عَلَى رُوحِهِ فِي جَسَدِهِ قَالَ قَالُوا أَرَأَيْتَ إِذَا شَهِدَ أَرْبَعَةٌ قَالَ وَجَبَتْ قَالُوا أَوْ ثَلَاثَةٌ قَالَ وَثَلَاثَةٌ وَجَبَتْ قَالُوا وَاثْنَيْنِ قَالَ وَجَبَتْ وَلَأَنْ أَكُونَ قُلْتُ وَاحِدًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ قَالَ فَقِيلَ لِعُمَرَ هَذَا شَيْءٌ تَقُولُهُ بِرَأْيِكَ أَمْ شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৭
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
عبایہ بن رفاعہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق (رض) کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے اپنے لئے ایک محل تعمیر کروایا ہے جہاں فریادیوں کی آوازیں پہنچنا بند ہوگئی ہیں، تو انہوں نے فورا حضرت محمد بن مسلمہ (رض) کو روانہ فرمایا : انہوں نے وہاں پہنچ کر چقماق نکال کر اس سے آگ سلگائی، ایک درہم کی لکڑیاں خریدیں اور انہیں آگ لگادی۔ کسی نے جا کر حضرت سعد (رض) سے کہا کہ ایک آدمی ایسا ایسا کر رہا ہے، انہوں نے فرمایا کہ وہ محمد بن مسلمہ ہیں، یہ کہہ کر وہ ان کے پاس آئے اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے محمد بن مسلمہ کہنے لگے کہ ہمیں تو جو حکم ملا ہے، ہم وہی کریں گے، اگر آپ نے کوئی پیغام دینا ہو تو وہ بھی پہنچا دیں گے، یہ کہہ کر انہوں نے اس محل کے دروازے کو آگ لگادی۔ پھر حضرت سعد (رض) نے انہیں زاد راہ کی پیشکشی کی لیکن انہوں نے اسے بھی قبول نہ کیا اور واپس روانہ ہوگئے، حضرت عمر (رض) کے پاس جس وقت وہ پہنچے وہ دوپہر کا وقت تھا اور اس آنے جانے میں ان کے کل انیس دن صرف ہوئے تھے، حضرت عمر (رض) نے انہیں دیکھ کر فرمایا اگر آپ کے ساتھ حسن ظن نہ ہوتا تو ہم یہ سمجھتے کہ شاید آپ نے ہمارا پیغام ان تک نہیں پہنچایا۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں ! اس کے جواب میں انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا ہے اور معذرت کی ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ انہوں نے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی ہے، حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ کیا انہوں نے آپ کو زادراہ دیا ؟ عرض کیا میں نے خود ہی نہیں لیا، فرمایا پھر اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئے ؟ عرض کیا کہ مجھے یہ چیز اچھی نہ لگی کہ میں انہیں آپ کا کوئی حکم دوں، وہ آپ کے لئے تو ٹھنڈے رہیں اور میرے لئے گرم ہوجائیں، پھر میرے اردگرد اہل مدینہ آباد ہیں جنہیں بھوک نے مار رکھا ہے اور میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو چھوڑ کر خود سیراب نہ ہوتا پھرے۔ حدیث السقیفہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ قَالَ بَلَغَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ سَعْدًا لَمَّا بَنَى الْقَصْرَ قَالَ انْقَطَعَ الصُّوَيْتُ فَبَعَثَ إِلَيْهِ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ فَلَمَّا قَدِمَ أَخْرَجَ زَنْدَهُ وَأَوْرَى نَارَهُ وَابْتَاعَ حَطَبًا بِدِرْهَمٍ وَقِيلَ لِسَعْدٍ إِنَّ رَجُلًا فَعَلَ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ ذَاكَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ مَا قَالَهُ فَقَالَ نُؤَدِّي عَنْكَ الَّذِي تَقُولُهُ وَنَفْعَلُ مَا أُمِرْنَا بِهِ فَأَحْرَقَ الْبَابَ ثُمَّ أَقْبَلَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ أَنْ يُزَوِّدَهُ فَأَبَى فَخَرَجَ فَقَدِمَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهَجَّرَ إِلَيْهِ فَسَارَ ذَهَابَهُ وَرُجُوعَهُ تِسْعَ عَشْرَةَ فَقَالَ لَوْلَا حُسْنُ الظَّنِّ بِكَ لَرَأَيْنَا أَنَّكَ لَمْ تُؤَدِّ عَنَّا قَالَ بَلَى أَرْسَلَ يَقْرَأُ السَّلَامَ وَيَعْتَذِرُ وَيَحْلِفُ بِاللَّهِ مَا قَالَهُ قَالَ فَهَلْ زَوَّدَكَ شَيْئًا قَالَ لَا قَالَ فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تُزَوِّدَنِي أَنْتَ قَالَ إِنِّي كَرِهْتُ أَنْ آمُرَ لَكَ فَيَكُونَ لَكَ الْبَارِدُ وَيَكُونَ لِي الْحَارُّ وَحَوْلِي أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَدْ قَتَلَهُمْ الْجُوعُ وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَشْبَعُ الرَّجُلُ دُونَ جَارِهِ آخِرُ مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدِيثُ السَّقِيفَةِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৮
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے اپنی زندگی میں جو آخری حج کیا، یہ اس زمانے کی بات ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اپنی سواری کے پاس واپس آئے، میں انہیں پڑھایا کرتا تھا، انہوں نے مجھے اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا، اس وقت ہم لوگ منیٰ میں تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف آتے ہی کہنے لگے کہ حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ فلاں شخص یہ کہتا ہے کہ اگر حضرت عمر (رض) فوت ہوگئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کرلوں گا۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ آج رات کو میں کھڑا ہو کر لوگوں کو اس گروہ سے بچنے اور احتیاط کرنے کی تاکید کروں گا جو خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہیں، لیکن میں نے ان سے عرض کیا امیرالمومنین ! آپ ایسا نہ کیجئے، کیونکہ حج میں ہر طرح سے لوگ شامل ہوتے ہیں، شرپسند بھی ہوتے ہیں اور گھٹیا سوچ رکھنے والے بھی، جب آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہیں گے تو یہ آپ پر غالب آجائیں گے، مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اگر کوئی بات کہیں گے تو یہ لوگ اسے اڑا لے جائیں گے، صحیح طرح اسے یاد نہ رکھ سکیں گے اور صحیح محل پر اسے محمول نہ کرسکیں گے، البتہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے جائیں، جو کہ دارالہجرۃ اور دارالسنۃ ہے اور خالصۃ علماء اور معززین کا گہوارہ ہے، تب آپ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیں اور خوب اعتماد سے کہیں، وہ لوگ آپ کی بات کو سمجھیں گے بھی اور اسے صحیح محل پر بھی محمول کریں گے، حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا اگر میں مدینہ منورہ صحیح سالم پہنچ گیا تو سب سے پہلے لوگوں کے سامنے یہی بات رکھوں گا۔ ذی الحجہ کے آخر میں جب ہم مدینہ منورہ پہنچے توجمعہ کے دن میں اندھوں سے ٹکراتا ہوا صبح ہی مسجد میں پہنچ گیا، راوی نے اندھوں سے ٹکرانے کا مطلب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق (رض) کسی خاص وقت کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی گرمی سردی وغیرہ کو خاطر میں لاتے تھے (جب دل چاہتا آکر منبر پر رونق افروز ہوجاتے) بہرحال ! میں نے منبر کی دائیں جانب حضرت سعید بن زید (رض) کو بیٹھے ہوئے پایا جو مجھ سے سبقت لے گئے تھے، میں بھی ان کے برابر جا کر بیٹھ گیا اور میرے گھٹنے ان کے گھٹنے سے رگڑ کھا رہے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ حضرت عمر فاروق (رض) تشریف لاتے ہوئے نظر آئے، میں نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ آج یہ اس منبر سے ایسی بات کہیں گے جو اس سے پہلے انہوں نے کبھی نہ کہی ہوگی، حضرت سعید بن زید (رض) نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ کوئی ایسی بات کہیں جو اب سے پہلے نہ کہی ہو، اسی اثناء میں حضرت عمر فاروق (رض) آکر منبر پر تشریف فرما ہوگئے۔ جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو سب سے پہلے کھڑے ہو کر انہوں نے اللہ کی حمدوثناء کی، پھر امابعد کہہ کر فرمایا لوگو ! میں آج ایک بات کہنا چاہتا ہوں جسے کہنا میرے لئے ضروری ہوگیا ہے، کچھ خبر نہیں کہ شاید یہ میری موت کا پیش خیمہ ہو، اس لئے جو شخص اسے یاد رکھ سکے اور اچھی طرح سمجھ سکے، اسے چاہیے کہ یہ بات وہاں تک لوگوں کو پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری جاسکتی ہو اور جو شخص اسے یاد نہ رکھ سکے، اس کے لئے مجھ پر جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حق کے ساتھ بھیجا، ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور ان پر نازل ہونے والے احکام میں رجم کی آیت بھی شامل تھی، جسے ہم نے پڑھا اور یاد کیا، نیز نبی ﷺ نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی اور ان کے بعد ہم نے بھی یہ سزا جاری کی، مجھے خطرہ ہے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہمیں تو کتاب اللہ میں رجم کی آیت نہیں ملتی اور وہ اللہ کے نازل کردہ ایک فریضے کو ترک کر کے گمراہ ہوجائیں۔ یاد رکھو ! اگر کوئی مرد یا عورت شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ بھی موجود ہوں، یا عورت حاملہ ہو، یا وہ اعتراف جرم کرلے تو کتاب اللہ میں اس کے لئے رجم کا ہونا ایک حقیقت ہے، یاد رکھو ! ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے آباؤ اجداد سے اعراض کر کے کسی دوسرے کی طرف نسبت نہ کرو کیونکہ ایسا کرنا کفر ہے۔ یاد رکھو ! جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، مجھے اس طرح مت بڑھانا، میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں، اس لئے تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہی کہو۔ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ لوگوں میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب عمر مرجائے گا تو ہم فلاں شخص کی بیعت کرلیں گے، کوئی شخص اس بات سے دھوکہ میں نہ رہے کہ حضرت صدیق اکبر (رض) کی بیعت اچانک اور جلدی میں ہوئی تھی، ہاں ! ایسا ہی ہوا تھا، لیکن اللہ نے اس کے شر سے ہماری حفاظت فرمائی، لیکن اب تم میں حضرت صدیق اکبر (رض) جیسا کوئی شخص موجود نہیں ہے جس کی طرف گردنیں اٹھ سکیں۔ ہمارا یہ واقعہ بھی سن لو کہ جب نبی ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا تو حضرت علی، حضرت زبیر (رض) ، حضرت فاطمہ (رض) کے گھر میں رہے، جبکہ انصار سب سے کٹ کر مکمل طور پر سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور مہاجرین حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس آکر اکٹھے ہونے لگے، میں نے حضرت صدیق اکبر (رض) سے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ انصاری بھائیوں کی طرف چلیے۔ چناچہ ہم ان کے پیچھے روانہ ہوئے، راستے میں ہمیں دو نیک آدمی ملے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ لوگوں نے کیا کیا ہے ! اور ہم سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ آپ ان کے پاس نہ جائیں تو بہتر ہے، آپ اپنا معاملہ خود طے کرلیجئے، میں نے کہا کہ نہیں ! ہم ضروران کے پاس جائیں گے۔ چناچہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچ گئے، وہاں تمام انصار اکٹھے تھے اور ان کے درمیان میں ایک آدمی چادر اوڑھے ہوئے بیٹھا ہوا تھا، میں نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) ہیں، میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہوا ؟ لوگوں نے بتایا کہ بیمار ہیں۔ بہرحال ! جب ہم بیٹھ گئے تو ان کا ایک مقرر کھڑا ہوا اور اللہ کی حمدوثنا کرنے کے بعد کہنے لگا کہ ہم اللہ کے انصار و مددگار ہیں اور اسلام کا لشکر ہیں اور اے گروہ مہاجرین ! تم ہمارا ایک گروہ ہو، لیکن اب تم ہی میں سے کچھ ہماری جڑیں کاٹنے لگے ہیں، وہ ہماری اصل سے سے جدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہمیں خلافت سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا تو میں نے بات کرنا چاہی کیونکہ میں اپنے دل میں ایک بڑی عمدہ تقریر سوچ کر آیا تھا، میرا ارادہ یہ تھا کہ حضرت صدیق اکبر (رض) کے کچھ کہنے سے پہلے میں اپنی بات کہہ لوں، میں نے اس میں بعض سخت باتیں بھی شامل کر رکھی تھیں لیکن حضرت صدیق اکبر (رض) مجھ سے زیادہ حلیم اور باوقار تھے، انہوں نے مجھے روک دیا، میں نے انہیں ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ وہ مجھ سے بڑے عالم اور زیادہ پروقار تھے۔ بخدا ! میں نے میں نے اپنے ذہن میں جو تقریر سوچ رکھی تھی، حضرت صدیق اکبر (رض) نے اس کا ایک کلمہ بھی نہ چھوڑا اور فی البدیہ وہ سب کچھ بلکہ اس سے بہتر کہہ دیا جو میں کہنا چاہتا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تقریر ختم کرلی، اس تقریر کے دوران انہوں نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے اپنی جو نیکیاں ذکر کی ہیں، آپ ان کے اہل اور حقدار ہیں، لیکن خلافت کو پورا عرب قریش کے اسی قبیلے کا حق سمجھتا ہے کیونکہ پورے عرب میں حسب نسب اور جگہ کے اعتبار سے یہ لوگ مرکز شمار ہوتے ہیں، میں آپ کے لئے ان دو میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں، آپ جس کو مرضی منتخب کرلیں، یہ کہہ کر انہوں نے میرا اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے حضرت ابوبکر (رض) کی پوری تقریر میں یہ بات اچھی نہ لگی، بخدا ! میں یہ سمجھتا تھا کہ اگر مجھے آگے بڑھایا جائے تو میری گردن اڑا دی جائے، مجھے یہ بہت بڑا گناہ محسوس ہوتا تھا کہ میں ایک ایسی قوم کا حکمران بنوں جس میں حضرت صدیق اکبر (رض) جیسا شخص موجود ہو، البتہ اب موت کے وقت آکر میرا مزاج بدل گیا ہے (یہ کسر نفسی کے طور پر فرمایا گیا ہے) انصار کے ایک آدمی نے کہا کہ مجھے ان معاملات کا خوب تجربہ ہے اور میں اس کے بہت سے پھلوں کا بوجھ لادے رہاہوں، اے گروہ قریش ! ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا، اس پر شور و شغب بڑھ گیا، آوازیں بلند ہونے لگیں اور مجھے خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں جھگڑا نہ ہوجائے، یہ سوچ کر میں نے فورا کہا ابوبکر ! اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان کی بیعت کرلی، یہ دیکھ کر مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور انصار نے بھی بیعت کرلی اور ہم وہاں سے کود کر آگئے اور حضرت سعد بن عبادہ (رض) وہیں رہ گئے۔ کسی نے کہا کہ تم نے سعد بن عبادہ (رض) کو مار ڈالا، میں نے کہا اللہ نے ایسا کیا ہوگا (ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ ) اس کے بعد حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا بخدا ! آج ہمیں حضرت صدیق اکبر (رض) کی بیعت کے واقعے سے زیادہ مضبوط حالات کا سامنا نہیں ہے، ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر لوگ جدا ہوگئے اور اس وقت کوئی خلیفہ نہ ہوا تو وہ کسی سے بیعت کرلیں گے، اب یا تو ہم کچھ ناپسندیدہ فیصلوں پر انہیں اپنے اتباع پر قائم کریں، یا پھر ہم ان کی مخالفت میں احکام جاری کریں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں فساد ہوگا۔ اس لئے یاد رکھو ! جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے گا اس کی بیعت کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی وہ اس شخص کے ہاتھ پر صحیح ہوگی جس سے بیعت لی گئی ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ دونوں قتل نہ ہوجائیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَجَعَ إِلَى رَحْلِهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَكُنْتُ أُقْرِئُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَنْتَظِرُهُ وَذَلِكَ بِمِنًى فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ إِنَّ فُلَانًا يَقُولُ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَايَعْتُ فُلَانًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي قَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أَمْرَهُمْ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ وَإِنَّهُمْ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى مَجْلِسِكَ إِذَا قُمْتَ فِي النَّاسِ فَأَخْشَى أَنْ تَقُولَ مَقَالَةً يَطِيرُ بِهَا أُولَئِكَ فَلَا يَعُوهَا وَلَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا وَلَكِنْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ وَتَخْلُصَ بِعُلَمَاءِ النَّاسِ وَأَشْرَافِهِمْ فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا فَيَعُونَ مَقَالَتَكَ وَيَضَعُونَهَا مَوَاضِعَهَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَئِنْ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ سَالِمًا صَالِحًا لَأُكَلِّمَنَّ بِهَا النَّاسَ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عَقِبِ ذِي الْحِجَّةِ وَكَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ صَكَّةَ الْأَعْمَى فَقُلْتُ لِمَالِكٍ وَمَا صَكَّةُ الْأَعْمَى قَالَ إِنَّهُ لَا يُبَالِي أَيَّ سَاعَةٍ خَرَجَ لَا يَعْرِفُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ وَنَحْوَ هَذَا فَوَجَدْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ عِنْدَ رُكْنِ الْمِنْبَرِ الْأَيْمَنِ قَدْ سَبَقَنِي فَجَلَسْتُ حِذَاءَهُ تَحُكُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ طَلَعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا رَأَيْتُهُ قُلْتُ لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ مَقَالَةً مَا قَالَهَا عَلَيْهِ أَحَدٌ قَبْلَهُ قَالَ فَأَنْكَرَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ذَلِكَ فَقَالَ مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ أَحَدٌ فَجَلَسَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنِّي قَائِلٌ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي فَمَنْ وَعَاهَا وَعَقَلَهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ وَمَنْ لَمْ يَعِهَا فَلَا أُحِلُّ لَهُ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ فَقَرَأْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا وَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ قَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ أَوْ الْحَبَلُ أَوْ الِاعْتِرَافُ أَلَا وَإِنَّا قَدْ كُنَّا نَقْرَأُ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ أَلَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللَّهِ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ يَقُولُ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَايَعْتُ فُلَانًا فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ يَقُولَ إِنَّ بَيْعَةَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَتْ فَلْتَةً أَلَا وَإِنَّهَا كَانَتْ كَذَلِكَ أَلَا وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَقَى شَرَّهَا وَلَيْسَ فِيكُمْ الْيَوْمَ مَنْ تُقْطَعُ إِلَيْهِ الْأَعْنَاقُ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلَا وَإِنَّهُ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلِيًّا وَالزُّبَيْرَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُمَا تَخَلَّفُوا فِي بَيْتِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَخَلَّفَتْ عَنَّا الْأَنْصَارُ بِأَجْمَعِهَا فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْنَا نَؤُمُّهُمْ حَتَّى لَقِيَنَا رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَكَرَا لَنَا الَّذِي صَنَعَ الْقَوْمُ فَقَالَا أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْتُ نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَا لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ وَاقْضُوا أَمْرَكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى جِئْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَإِذَا هُمْ مُجْتَمِعُونَ وَإِذَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ رَجُلٌ مُزَمَّلٌ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقُلْتُ مَا لَهُ قَالُوا وَجِعٌ فَلَمَّا جَلَسْنَا قَامَ خَطِيبُهُمْ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ وَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ مِنَّا وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْكُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَيَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ فَلَمَّا سَكَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَدْ كُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ وَهُوَ كَانَ أَحْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى رِسْلِكَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ وَكَانَ أَعْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَهَا فِي بَدِيهَتِهِ وَأَفْضَلَ حَتَّى سَكَتَ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَا ذَكَرْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ أَهْلُهُ وَلَمْ تَعْرِفْ الْعَرَبُ هَذَا الْأَمْرَ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ أَيَّهُمَا شِئْتُمْ وَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا وَكَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ إِلَى إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَّا أَنْ تَغَيَّرَ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ فَقُلْتُ لِمَالِكٍ مَا مَعْنَى أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ قَالَ كَأَنَّهُ يَقُولُ أَنَا دَاهِيَتُهَا قَالَ وَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ حَتَّى خَشِيتُ الِاخْتِلَافَ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَايَعَهُ الْأَنْصَارُ وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ قَتَلْتُمْ سَعْدًا فَقُلْتُ قَتَلَ اللَّهُ سَعْدًا وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا أَمْرًا هُوَ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ أَنْ يُحْدِثُوا بَعْدَنَا بَيْعَةً فَإِمَّا أَنْ نُتَابِعَهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى وَإِمَّا أَنْ نُخَالِفَهُمْ فَيَكُونَ فِيهِ فَسَادٌ فَمَنْ بَايَعَ أَمِيرًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةِ الْمُسْلِمِينَ فَلَا بَيْعَةَ لَهُ وَلَا بَيْعَةَ لِلَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا قَالَ مَالِكٌ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ لَقِيَاهُمَا عُوَيْمِرُ بْنُ سَاعِدَةَ وَمَعْنُ بْنُ عَدِيٍّ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ الَّذِي قَالَ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬৯
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کیا میں تمہیں انصار کے بہترین گھروں کا پتہ نہ بتاؤں ؟ بنونجار، پھر بنو عبد الاشہل، پھر حارث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ اور فرمایا کہ انصار کے ہر گھر میں خیر ہی خیر ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَخْبَرَنِي مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنِي النَّجَّارِ ثُمَّ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ ثُمَّ بَلْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ ثُمَّ بَنِي سَاعِدَةَ وَقَالَ فِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭০
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) جب تک جدا نہ ہوجائیں، انہیں اختیار ہے یا یہ فرمایا کہ وہ بیع ہی خیار پر قائم ہوگی۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَبَايِعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ يَكُونُ الْبَيْعُ خِيَارًا
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭১
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حاملہ جانور کے حمل سے پیدا ہونے والے بچے کی جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہے، پیٹ میں ہی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭২
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے دور باسعادت میں ہم لوگ خریدوفروخت کرتے تھے، بعض اوقات نبی ﷺ ہمارے پاس یہ پیغام بھیجتے تھے کہ کسی چیز کو بیچنے سے پہلے ہم ایک چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نَتَبَايَعُ الطَّعَامَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْعَثُ عَلَيْنَا مَنْ يَأْمُرُنَا بِنَقْلِهِ مِنْ الْمَكَانِ الَّذِي ابْتَعْنَاهُ فِيهِ إِلَى مَكَانٍ سِوَاهُ قَبْلَ أَنْ نَبِيعَهُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৩
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص غلہ خریدے، اسے اس وقت تک آگے نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرلے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৪
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی غلام کو اپنے حصے کے بقدر آزاد کردیتا ہے تو وہ غلام کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا چناچہ اب اس غلام کی قیمت لگائی جائے گی، باقی شرکاء کو ان کے حصے کی قیمت دے دی جائے گی اور غلام آزاد ہوجائے گا، ورنہ جتنا اس نے آزاد کیا ہے اتنا ہی رہے گا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ فَكَانَ لَهُ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ فَإِنَّهُ يُقَوَّمُ قِيمَةَ عَدْلٍ فَيُعْطَى شُرَكَاؤُهُ حَقَّهُمْ وَعَتَقَ عَلَيْهِ الْعَبْدَ وَإِلَّا فَقَدْ أَعْتَقَ مَا أَعْتَقَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৫
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
سعید بن مسیب (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے لعان کرنے والے کے متعلق مسئلہ پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایسے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرادی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا، اگر میں نے نبی ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلٌ لَاعَنَ امْرَأَتَهُ فَقَالَ فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا وَذَكَرَ الْحَدِيثَ
তাহকীক: