কানযুল উম্মাল (উর্দু)
كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال
حج اور عمرۃ کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১১৭০ টি
হাদীস নং: ১২৯০১
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حج کے بارے میں
12901 ابو مالک الاشجعی سے مروی ہے کہ حسن بن حارث الجدلی نے ان کو خبر دی کہ امیر مکہ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے عہد لیا تھا کہ ہم چاند دیکھنے پر حج شروع کریں گے ۔ اگر اس کو نہ دیکھ پائیں اور دو گواہ شہادت دیدیں تو تب ہم ان کی شہادت پر حج شروع کریں گے۔ میں نے حسن بن الحارث سے پوچھا : امیر مکہ کون تھے ؟ فرمایا : وہ حارث بن حاطب تھے محمد بن حاطب کے بھائی۔ ابونعیم
12901- عن أبي مالك الأشجعي أن الحسن بن الحارث الجدلي أخبره أن أمير مكة خطبهم فقال: عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ننسك للرؤية، فإن لم نره وشهد شاهدا عدل نسكنا لشهادتهما، فسألت الحسن بن الحارث من أمير مكة؟ قال: هو الحارث بن حاطب أخو محمد بن حاطب. "أبو نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯০২
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جامع النسک۔۔۔حج کے مکمل احوال
12902 (مسند عمر (رض)) ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو عرفہ کا خطبہ دیا اور لوگوں کو مناسک حج کے بارے میں تعلیم دی اور فرمایا : انشاء اللہ جب صبح ہوگی تو تم لوگ مزدلفہ سے نکلو گے اور پھر جمرہ قصویٰ کی رمی سے جو عقبہ کے ساتھ ہے، اس کو سات کنکریاں ماریں، پھر اس سے لوٹ کر اپنی ہدی کو قربان کریں اگر ساتھ ہوں پھر حلق یا قصر کرائیں جس نے یہ کرلیا اس کے لیے حلال ہوگئے وہ افعال جو حج کی وجہ سے حرام ہوگئے تھے۔ سوائے خوشبو اور عورتوں کے کوئی خوشبو چھوئے اور نہ عورتوں کو چھوئے جب تک کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرلے۔ مالک السنن للبیہقی
12902- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عمر قال: خطب عمر الناس بعرفة فخبرهم عن مناسك الحج قال فيما يقول: إذا كان بالغداة إن شاء الله تعالى فدفعتم من جمع فمن رمى الجمرة القصوى التي عند العقبة بسبع حصيات، ثم انصرف فنحر هديا إن كان له ثم حلق أو قصر فقد حل له ما حرم عليه من شأن الحج إلا طيبا ونساء، ولا يمس أحد طيبا ولا نساء حتى يطوف بالبيت. "مالك ق"
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯০৩
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جامع النسک۔۔۔حج کے مکمل احوال
12903 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ میں کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :
یہ موقف (کھڑے ہونے کی جگہ) ہے اور عرفہ (میدان عرفات) سارا ہی موقف ہے۔ پھر سورج غروب ہونے کے بعد وہاں سے آپ واپس ہوئے اور اسامہ (رض) کو اپنا ردیف بنالیا اور اپنے اونٹ پر چوڑے چوڑے قدم بھرنے لگے۔ جبکہ لوگ دائیں بائیں اپنی اپنی سواریوں کو تیز تیز دوڑا رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرماتے تھے : اے لوگو ! سکینہ (صبر کے ساتھ چلو) پھر حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ تشریف لائے اور لوگوں کو مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں پھر رات بسر فرمائی حتیٰ کہ صبح کی اور پھر مقام قزح پر تشریف لائے اور فرمایا : یہ موقف ہے اور مزدلفہ سارا ہی موقف ہے۔ پھر وہاں سے چل کروادی محسر پہنچے اور وہاں کھڑے ہوگئے پھر اپنی سواری کو تیز دوڑایا حتیٰ کہ اس وادی کو پار کرلیا۔ پھر سواری کو روک لیا اور وہاں سے فضل کو اپنا ردیف بنایا اور چل پڑے حتیٰ کہ جمرہ پر پہنچے اور اس کی رمی فرمائی پھر قربان گاہ پہنچے اور ارشاد فرمایا : یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ سارا ہی قربان گاہ ہے (وہاں) قبلہ حثعم کی ایک باندی نے فتویٰ پوچھا، عرض کیا : میرے والد بوڑھے آدمی ہیں اور (چلنے پھرنے سے معذور ہو کر) بیٹھے رہ گئے ہیں اور ان پر اللہ کا فرض یعنی حج لازم ہوچکا ہے، کیا ان کی طرف سے میرا حج کرنا کافی ہوسکتا ہے ؟ ارشاد فرمایا : جی ہاں۔ اپنے والد کی طرف سے (حج) ادا کرو اور اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل (رض) کی گردن موڑ دی تھی۔ حضرت عباس (رض) نے آپ سے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ نے اپنے چچازاد کی گردن کیوں پھیر دی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے نوجوان مرد اور نوجوان عورت کو دیکھا تو شیطان پر ان کے متعلق بھروسہ نہ کیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دوسرا شخص حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے حلق کرائے بغیر افاضہ کرلیا (منیٰ سے واپسی کرلی) ہے ؟ ارشاد فرمایا : حلق یا قصر کرالو اور کوئی حرج نہیں ۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ تشریف لائے اور اس کا طواف کیا پھر زمزم تشریف لائے اور عرض کیا : اے بنی عبدالمطلب تم پانی پلاؤ، اگر لوگوں کے رش کردینے کا خوف (دامن گیر) نہ ہوتا تو میں خود (بھی ڈول بھر کر) نکالتا۔ مسند احمد ، مسند ابی یعلی، ابن ابی شیبہ
اس کا کچھ حصہ ابن وھب نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔
ابن داؤد الترمذی، حسن صحیح، ابن خزیمہ، ابن الجارود، ابن جریر، السنن للبیہقی
یہ موقف (کھڑے ہونے کی جگہ) ہے اور عرفہ (میدان عرفات) سارا ہی موقف ہے۔ پھر سورج غروب ہونے کے بعد وہاں سے آپ واپس ہوئے اور اسامہ (رض) کو اپنا ردیف بنالیا اور اپنے اونٹ پر چوڑے چوڑے قدم بھرنے لگے۔ جبکہ لوگ دائیں بائیں اپنی اپنی سواریوں کو تیز تیز دوڑا رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرماتے تھے : اے لوگو ! سکینہ (صبر کے ساتھ چلو) پھر حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ تشریف لائے اور لوگوں کو مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں پھر رات بسر فرمائی حتیٰ کہ صبح کی اور پھر مقام قزح پر تشریف لائے اور فرمایا : یہ موقف ہے اور مزدلفہ سارا ہی موقف ہے۔ پھر وہاں سے چل کروادی محسر پہنچے اور وہاں کھڑے ہوگئے پھر اپنی سواری کو تیز دوڑایا حتیٰ کہ اس وادی کو پار کرلیا۔ پھر سواری کو روک لیا اور وہاں سے فضل کو اپنا ردیف بنایا اور چل پڑے حتیٰ کہ جمرہ پر پہنچے اور اس کی رمی فرمائی پھر قربان گاہ پہنچے اور ارشاد فرمایا : یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ سارا ہی قربان گاہ ہے (وہاں) قبلہ حثعم کی ایک باندی نے فتویٰ پوچھا، عرض کیا : میرے والد بوڑھے آدمی ہیں اور (چلنے پھرنے سے معذور ہو کر) بیٹھے رہ گئے ہیں اور ان پر اللہ کا فرض یعنی حج لازم ہوچکا ہے، کیا ان کی طرف سے میرا حج کرنا کافی ہوسکتا ہے ؟ ارشاد فرمایا : جی ہاں۔ اپنے والد کی طرف سے (حج) ادا کرو اور اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل (رض) کی گردن موڑ دی تھی۔ حضرت عباس (رض) نے آپ سے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ نے اپنے چچازاد کی گردن کیوں پھیر دی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے نوجوان مرد اور نوجوان عورت کو دیکھا تو شیطان پر ان کے متعلق بھروسہ نہ کیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دوسرا شخص حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے حلق کرائے بغیر افاضہ کرلیا (منیٰ سے واپسی کرلی) ہے ؟ ارشاد فرمایا : حلق یا قصر کرالو اور کوئی حرج نہیں ۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ تشریف لائے اور اس کا طواف کیا پھر زمزم تشریف لائے اور عرض کیا : اے بنی عبدالمطلب تم پانی پلاؤ، اگر لوگوں کے رش کردینے کا خوف (دامن گیر) نہ ہوتا تو میں خود (بھی ڈول بھر کر) نکالتا۔ مسند احمد ، مسند ابی یعلی، ابن ابی شیبہ
اس کا کچھ حصہ ابن وھب نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔
ابن داؤد الترمذی، حسن صحیح، ابن خزیمہ، ابن الجارود، ابن جریر، السنن للبیہقی
12903- عن علي قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فقال: هذا الموقف وعرفة كلها موقف، وأفاض حيث غابت الشمس وأردف أسامة فجعل يعنق على بعيره والناس يضربون الإبل يمينا وشمالا لا يلتفت إليهم ويقول: السكينة أيها الناس، ثم أتى جمعا فصلى بهم الصلاتين المغرب والعشاء، ثم بات حتى أصبح، ثم أتى قزح، فقال: هذا الموقف وجمع كلها موقف، ثم سار حتى أتى محسرا فوقف عليه فقرع ناقته فخبت حتى جاز الوادي، ثم حبسها، ثم أردف الفضل وسار حتى أتى الجمرة فرماها حتى أتى المنحر، فقال: هذا المنحر ومنى كلها منحر واستفتته جارية من خثعم فقالت: إن أبي شيخ كبير قد أقعد وقد أدركته فريضة الله في الحج هل يجزئ عنه أن اؤدي عنه؟ قال: نعم، فأدى عن أبيك ولوى عنق الفضل، فقال له العباس: يا رسول الله لم لويت عنق ابن عمك؟ قال: رأيت شابا وشابة فلم آمن الشيطان عليهما ثم جاءه رجل آخر فقال: يا رسول الله، إني أفضت قبل أن أحلق؟ قال: احلق أو قصر ولا حرج، ثم أتى إلى البيت فطاف به، ثم أتى زمزم فقال: يا بني عبد المطلب سقايتكم ولولا أن يغلبكم الناس عليها لنزعت1 "حم ع ش وروى بعضه. "ابن وهب" في مسنده د ت وقال حسن صحيح وابن خزيمة وابن الجارود وابن جرير ق"
وخببا وخبيبا. إذا راوح بين يديه ورجليه، أي قام على إحداهما مرة وعلى الأخرى مرة. انتهى."1/117" الصحاح للجوهري. ب.
وخببا وخبيبا. إذا راوح بين يديه ورجليه، أي قام على إحداهما مرة وعلى الأخرى مرة. انتهى."1/117" الصحاح للجوهري. ب.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯০৪
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اذکار المناسک۔۔۔دوران حج کی دعا
12904 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ صفاومروہ ، میدان عرفات، جمر تین کے درمیان اور طواف کے دوران یہ دعا پڑھتے تھے :
اللھم اعصمنی بدینک وطواعیتک وطواعیۃ رسولک، اللھم جنبنی حدودک، اللھم اجعلنی ممن یحبک ویحب ملائکتک ویحب رسلک، ویحب عبادک الصالحین، اللھم حبنی الیک والی ملائکتک والی رسلک والی عبادک الصالحین اللھم یسرنی للیسری وجنبنی العسری واغفرلی فی الآخرۃ والاولیٰ ، واجعلنی من ائمۃ المتقین ، اللھم انک قلت، ادعونی استجب لکم، وانک لاتخلف المیعاد اللھم اذھدیتنی للاسلام فلا تنز عنی منہ ولا تنزعہ منی حتیٰ تقبضنی وانا علیہ۔
اے اللہ ! میری حفاظت فرما اپنے دین کے ساتھ، اپنی اطاعتوں کے ساتھ اور اپنے رسول کی اطاعتوں کے ساتھ، اے اللہ ! مجھے اپنی منع کردہ حدود (میں پڑنے) سے محفوظ رکھ، اے اللہ ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اور تیرے ملائکہ سے محبت رکھتے ہیں اور تیرے رسولوں سے محبت رکھتے اور تیرے نیک بندوں سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ مجھے اپنا محبوب بنا، اپنے ملائکہ کا محبوب بنا، اپنے رسولوں اور اپنے نیک بندوں کا محبوب بنا۔ اے اللہ نیکی کو میرے لیے آسان کردے اور بدی کو مجھ سے دور کردے اور دنیا و آخرت میں میری مغفرت فرما اور مجھے نیک لوگوں کا پیش روبنا۔ اے اللہ تو نے ارشاد فرمایا ہے : مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور بیشک تو وعدہ خلافی نہیں فرماتا۔ اے اللہ ! جب تو نے مجھے اسلام کی ہدایت نصیب فرمادی ہے تو مجھے اس سے نہ نکال اور نہ اس کو مجھ سے نکال حتیٰ کہ آپ مجھے اسی (اسلام) پر اٹھائیں اور میں اسی پر قائم رہوں۔ حلیۃ الاولیاء
اللھم اعصمنی بدینک وطواعیتک وطواعیۃ رسولک، اللھم جنبنی حدودک، اللھم اجعلنی ممن یحبک ویحب ملائکتک ویحب رسلک، ویحب عبادک الصالحین، اللھم حبنی الیک والی ملائکتک والی رسلک والی عبادک الصالحین اللھم یسرنی للیسری وجنبنی العسری واغفرلی فی الآخرۃ والاولیٰ ، واجعلنی من ائمۃ المتقین ، اللھم انک قلت، ادعونی استجب لکم، وانک لاتخلف المیعاد اللھم اذھدیتنی للاسلام فلا تنز عنی منہ ولا تنزعہ منی حتیٰ تقبضنی وانا علیہ۔
اے اللہ ! میری حفاظت فرما اپنے دین کے ساتھ، اپنی اطاعتوں کے ساتھ اور اپنے رسول کی اطاعتوں کے ساتھ، اے اللہ ! مجھے اپنی منع کردہ حدود (میں پڑنے) سے محفوظ رکھ، اے اللہ ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اور تیرے ملائکہ سے محبت رکھتے ہیں اور تیرے رسولوں سے محبت رکھتے اور تیرے نیک بندوں سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ مجھے اپنا محبوب بنا، اپنے ملائکہ کا محبوب بنا، اپنے رسولوں اور اپنے نیک بندوں کا محبوب بنا۔ اے اللہ نیکی کو میرے لیے آسان کردے اور بدی کو مجھ سے دور کردے اور دنیا و آخرت میں میری مغفرت فرما اور مجھے نیک لوگوں کا پیش روبنا۔ اے اللہ تو نے ارشاد فرمایا ہے : مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور بیشک تو وعدہ خلافی نہیں فرماتا۔ اے اللہ ! جب تو نے مجھے اسلام کی ہدایت نصیب فرمادی ہے تو مجھے اس سے نہ نکال اور نہ اس کو مجھ سے نکال حتیٰ کہ آپ مجھے اسی (اسلام) پر اٹھائیں اور میں اسی پر قائم رہوں۔ حلیۃ الاولیاء
12904- عن ابن عمر أنه كان يدعو بهذا الدعاء على الصفا والمروة وبعرفات وبين الجمرتين وفي الطواف: اللهم اعصمني بدينك وطواعيتك وطواعية رسولك، اللهم جنبني حدودك، اللهم اجعلني ممن يحبك ويحب ملائكتك، ويحب رسلك، ويحب عبادك الصالحين، اللهم حببني إليك وإلى ملائكتك وإلى رسلك وإلى عبادك الصالحين، اللهم يسرني لليسرى وجنبني العسرى واغفر لي في الآخرة والأولى، واجعلني من أئمة المتقين، اللهم إنك قلت: ادعوني أستجب لكم وأنك لا تخلف الميعاد، اللهم إذ هديتني للإسلام فلا تنزعني منه ولا تنزعه مني حتى تقبضني وأنا عليه. "حل".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯০৫
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12905 جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج میں ارشاد فرمایا : جانتے ہو کون سا دن سب سے زیادہ محترم ہے ؟ ہم نے عرض کیا : یہ دن (عرفہ کا) آپ نے فرمایا : جانتے ہو کون سا شہر سب سے زیادہ محترم ہے ؟ ہم نے عرض کیا : یہ شہر۔ پھر فرمایا : اور کون سا مہینہ سب سے زیادہ احترام والا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : یہی مہینہ۔ پھر ارشاد فرمایا : تمہارے خون، تمہارے اموال، تمہاری عزت وآبرو تمہارے لیے زیادہ احترام والی ہیں اس دن کی حرمت سے، اس ماہ میں اور اس شہر میں۔ ابن ابی عاصم فی الدیات
12905- عن جابر بن عبد الله قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم في حجته: أتدرون أي يوم أعظم حرمة؟ قلنا يومنا هذا، قال: أفتدرون أي بلد أعظم حرمة؟ قلنا: بلدنا هذا قال: فأي شهر أعظم حرمة؟ قلنا: شهرنا هذا، قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا. "ابن أبي عاصم في الديات".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯০৬
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12906 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج میں ارشاد فرمایا : جانتے ہو کونسا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : ہمارا یہ (عرفہ کا) دن۔ پھر پوچھا : جانتے ہو کونسا شہر سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : ہمارا یہ شہر (مکہ) پوچھا : کون سا ماہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ ہم نے کہا : ہمارا یہ ماہ (ذی الحجہ) تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے خون، تمہارے اموال تم پر حرمت والے ہیں اس دن کی حرمت کی طرح اس شہر میں اور اس ماہ میں۔ ابن ابی شیبہ
12906- عن جابر قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم في حجته: أتدرون أي يوم أعظم حرمة؟ فقلنا: يومنا هذا قال: فأي بلد أعظم حرمة؟ فقلنا: بلدنا هذا، قال: فأي شهر أعظم حرمة؟ قلنا: شهرنا هذا، قال: فإن دماءكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا. "ش".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯০৭
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12907 یحییٰ بن زرارۃ کریم بن الحارث سے مروی ہے کہ مجھے میرے والد نے اپنے دادا حارث بن عمرو سے نقل کیا : حارث بن عمرو کہتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عضبانامی اونٹنی پر سوار تھے۔ میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یارسول اللہ ! میرے لیے اللہ سے مغفرت مانگ دیجئے۔ آپ نے دعا فرمائی : اللہ تمہاری سب کی مغفرت کرے۔ پھر میں دوسری طرف سے گیا اس امید سے کہ شاید خاص میرے لیے دعا کردیں اور میں نے عرض کیا میرے لیے استغفار فرما دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر اسی طرح دعا دی : اللہ تم سب کی مغفرت کرے۔ ایک آدمی نے عرض کیا : رسول اللہ ! فرع اور عتیرہ کا کیا حکم ہے ؟ (فرع مشرکین اور مسلمان شروع زمانہ کو اسلام میں اونٹنی کے پہلے بچے کو اپنے معبودوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ رجب میں بکری ذبح کرتے تھے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو چاہے فرع کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اور جو چاہے عتیرہ کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اور ہاں قربانی جانوروں کی عیدالاضحی کو ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : خبردار ! تمہارے خون، تمہارے اموال تم پر حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن تمہارے اس شہر اور اس ماہ میں محترم ہے۔ ابونعیم
12907- عن يحيى بن زرارة بن كريم بن الحارث حدثني أبي عن جده الحارث بن عمرو أنه لقي النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو على ناقته العضباء فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله، استغفر لي، فقال: غفر الله لكم ثم استدرت إلى الشق الآخر رجاء أن يخصني، فقلت: استغفر لي فقال: غفر الله لكم، فقال رجل: يا رسول الله الفرائع والعتائر1 فقال: من شاء فرع ومن شاء لم يفرع، ومن شاء عتر ومن شاء لم يعتر وفي الغنم أضحيتها، ثم قال: ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا وبلدكم هذا وشهركم هذا. "أبو نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯০৮
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12908 عتبہ بن عبدالملک السہمی سے مروی ہے فرماتے ہیں : مجھے زرارۃ بن کریم بن الحارث بن عمرو السہمی نے بیان کیا کہ ان کو حارث بن عمرو نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں منیٰ میں یا عرفات میں حاضر ہوا۔ آپ کے پاس اعراب (عربی بدو) آجا رہے تھے۔ جب وہ آپ کے چہرے مبارک کو دیکھتے تو کہتے یہی چہرہ وہ مبارک چہرہ ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے لیے استغفار کر دیجئے ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! ہم سب کی مغفرت فرما۔ میں دوسری طرف سے گھوم کر گیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے لیے استغفار کر دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ہم سب کے لیے مغفرت فرما دیجئے۔ میں پھر گھوم کر دوسری طرف گیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! (خاص) میرے لیے استغفار کر دیجئے ! آپ نے پھر وہی دعا فرمائی : اے اللہ ! ہماری مغفرت فرمادے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوکنے لگے تو اس کو اپنے ہاتھ پر تھوکا اور اپنے جوتے پر مسل لیا اس احتیاط سے کہ کہیں کسی کے اوپر نہ گرجائے پھر ارشاد فرمایا : اے لوگو ! یہ کون سا دن ہے اور کونسا ماہ ہے ؟ بیشک تمہارے خون ۔۔۔الخ ۔ پھر پچھلی حدیث کے مثل ذکر فرمایا۔ ابونعیم
12908- عن عتبة بن عبد الملك السهمي قال: حدثني زرارة بن كريم بن الحارث بن عمرو السهمي أن الحارث بن عمرو حدثه قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بمنى أو بعرفات وتجيء الأعراب فإذا رأوا وجهه قالوا: هذا وجه مبارك، قلت: يا رسول الله؛ استغفر لي قال: اللهم اغفر لنا فدرت، فقلت: يا رسول الله، استغفر لي فقال: اللهم اغفر لنا فدرت فقلت: يا رسول الله، استغفر لي فقال: اللهم اغفر لنا، فذهب يبزق فقال بيده فأخذ بزاقه فمسح بها نعله كره أن يصيب به أحدا ممن حوله ثم قال: أيها الناس، أي يوم هذا وأي شهر هذا إن دماءكم فذكر نحوه. "أبو نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯০৯
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12909 سہل بن حسین الباہلی کہتے ہیں : مجھے زرارۃ نے حارث سہمی سے نقل کیا کہ وہ (حارث) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیچے ہو کر ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا جس کی وجہ آخر عمر تک ان کے چہرے پر تروتازگی رہی۔ ابونعیم
12909- عن سهل بن حسين الباهلي حدثني زرارة عن الحارث السهمي أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم مثله فأهوى نبي الله صلى الله عليه وسلم فمسح وجهه فما زالت نضرة1 عن وجهه حتى هلك. "أبو نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১০
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12910 ابی مخشی بن حجیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیا اور فرمایا : اے لوگو ! یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے کہا : شہر حرام۔ پوچھا : کونسا ماہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : ماہ حرام۔ پوچھا : کونسا دن ہے ؟ لوگوں نے کہا : یوم النحر۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے (ایک دوسرے کے) خون، تمہارے اموال ، تمہاری عزتیں اور آبروئیں تم ایک دوسرے پر حرام ہیں جس طرح یہ دن اس ماہ کے اندر (اور اس مقدس شہر کے اندر) پس تمہارے حاضرین تمہارے غائبین کو (یہ بات) پہنچا دیں، میرے بعد تم کفار نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ ابونعیم
12910- عن أبي مخشي بن حجير عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم خطب في حجة الوداع فقال: أيها الناس أي بلد هذا؟ قالوا: بلد حرام قال: فأي شهر هذا؟ قالوا: شهر حرام قال: فأي يوم هذا؟ قالوا يوم النحر قال: ألا إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا كحرمة شهركم هذا فيبلغ شاهدكم غائبكم لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض. "أبو نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১১
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12911 ابو الطفیل عامر بن واثلۃ حضرت حذیفہ بن اسید غفار سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو اپنے اصحاب کو وادی بطحاء میں جو قریب قریب درخت ہیں اولاً ان کے نیچے ٹھہرنے سے منع فرمایا۔ پھر کسی کو بھیجا کہ ان درختوں کے نیچے صفائی کردے اور درختوں کی شاخیں (نیچے لٹکنے والی) کتر دے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (قوم کے ساتھ) ان کے نیچے گئے پھر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! مجھے لطیف وخبیر ذات نے خبر دی ہے کہ کوئی نبی اپنے سے پہلے نبی کی عمر کی نصف عمر سے زیادہ عمر نہیں پاسکا اور میرا خیال ہے میں جلد کوچ کرنے والا ہوں۔ مجھے بلایا جائے گا تو مبں لبیک کہوں گا۔ اور مجھ سے سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال ہوگا ؟ پس تم کیا کہنے والے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے رسالت ہم تک پہنچا دی اور ہماری خوب خیرخواہی کی پس اللہ آپ کو اچھا بدلہ دے۔ آپ نے فرمایا : کیا تم یہ شہادت نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنت حق ہے ، جہنم حق ہے، موت حق ہے، قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ پاک قبروں والوں کو دوبارہ اٹھائیں گے۔ لوگوں نے کہا : ہم اس کی شہادت دیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! گواہ رہنا ۔ پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنوں کا مولیٰ ہوں اور میں مومنوں کے لیے زیادہ مہربان ہوں ان کی جانوں سے، پس جس کا میں مولیٰ ہوں علی اس کا مولیٰ ہے، اے اللہ ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ۔ جو اسی سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔ پھر ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں تم سے آگے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس حوض پر آنے والے ہو۔ اس حوض کی چوڑائی بصریٰ اور صنعاء شہروں کے درمیان جتنی ہے۔ اس میں ستاروں کی بقدر چاندی کے پیالے ہیں۔ اور جب تم میرے پاس حوض پر آؤ گے تو میں تم سے دو اہم بھاری چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا پس خیال رکھنا کہ تم میرے پیچھے ان کے ساتھ کیا سلوک رکھتے ہو، سب سے بھاری ایک چیز تو کتاب اللہ ہے، یہ اللہ کی رسی ہے اس کا ایک سر اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں تھما ہوا ہے۔ پس اس کی مضبوطی سے تھامے رکھو نہ گمراہ ہو اور نہ کوئی تبدیلی کرو۔ دوسری اہم (بھاری شے) میرا خاندان اور میرے گھر والے ہیں اور مجھے لطیف وخبیر ذات نے خبر دی ہے یہ دونوں چیزیں ہرگز جدا نہ ہوں گی۔ حتیٰ کہ دونوں حوض پر مجھ سے آملیں گی۔ ابن جریر
اے لوگو ! مجھے لطیف وخبیر ذات نے خبر دی ہے کہ کوئی نبی اپنے سے پہلے نبی کی عمر کی نصف عمر سے زیادہ عمر نہیں پاسکا اور میرا خیال ہے میں جلد کوچ کرنے والا ہوں۔ مجھے بلایا جائے گا تو مبں لبیک کہوں گا۔ اور مجھ سے سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال ہوگا ؟ پس تم کیا کہنے والے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے رسالت ہم تک پہنچا دی اور ہماری خوب خیرخواہی کی پس اللہ آپ کو اچھا بدلہ دے۔ آپ نے فرمایا : کیا تم یہ شہادت نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنت حق ہے ، جہنم حق ہے، موت حق ہے، قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ پاک قبروں والوں کو دوبارہ اٹھائیں گے۔ لوگوں نے کہا : ہم اس کی شہادت دیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! گواہ رہنا ۔ پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنوں کا مولیٰ ہوں اور میں مومنوں کے لیے زیادہ مہربان ہوں ان کی جانوں سے، پس جس کا میں مولیٰ ہوں علی اس کا مولیٰ ہے، اے اللہ ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ۔ جو اسی سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔ پھر ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں تم سے آگے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس حوض پر آنے والے ہو۔ اس حوض کی چوڑائی بصریٰ اور صنعاء شہروں کے درمیان جتنی ہے۔ اس میں ستاروں کی بقدر چاندی کے پیالے ہیں۔ اور جب تم میرے پاس حوض پر آؤ گے تو میں تم سے دو اہم بھاری چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا پس خیال رکھنا کہ تم میرے پیچھے ان کے ساتھ کیا سلوک رکھتے ہو، سب سے بھاری ایک چیز تو کتاب اللہ ہے، یہ اللہ کی رسی ہے اس کا ایک سر اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں تھما ہوا ہے۔ پس اس کی مضبوطی سے تھامے رکھو نہ گمراہ ہو اور نہ کوئی تبدیلی کرو۔ دوسری اہم (بھاری شے) میرا خاندان اور میرے گھر والے ہیں اور مجھے لطیف وخبیر ذات نے خبر دی ہے یہ دونوں چیزیں ہرگز جدا نہ ہوں گی۔ حتیٰ کہ دونوں حوض پر مجھ سے آملیں گی۔ ابن جریر
12911- عن أبي الطفيل عامر بن واثلة عن حذيفة بن أسيد الغفاري قال: لما صدر رسول الله صلى الله عليه وسلم من حجة الوداع نهى أصحابه عن شجرات بالبطحاء متقاربات أن ينزلوا تحتهن، ثم بعث إليهن فقم ما تحتهن1 من الشوك وشذبن2 عن رؤس القوم، ثم عمد إليهن فصلى تحتهن ثم قام فقال: أيها الناس إنه قد نبأني اللطيف الخبير أنه لم يعمر نبي إلا مثل نصف عمر النبي الذي من قبله، وإني لأظن أني موشك وأن أدعي فأجيب، وأني مسؤول وأنكم مسئولون فماذا أنتم قائلون؟ قالوا: نشهد أنك قد بلغت ونصحت فجزاك الله خيرا قال: ألستم تشهدون أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله، وأن جنته حق وناره حق، وأن الموت حق وأن الساعة آتية لا ريب فيها وأن الله يبعث من في القبور، قالوا: نشهد بذلك، قال: اللهم اشهد ثم قال: أيها الناس، إن الله مولاي وأنا مولى المؤمنين وانا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه ثم قال: أيها الناس إني فرطكم وأنتم واردون على الحوض، حوض عرضه ما بين بصرى وصنعاء فيه عدد النجوم قدحان1 من فضة وإني سائلكم حين تردون علي عن الثقلين فانظروا كيف تخلفوني فيهما، الثقل2 الأكبر كتاب الله سبب طرفه بيد الله وطرف بأيديكم، فتمسكوا به لا تضلوا ولا تبدلوا، وعترتي أهل بيتي وإنه قد نبأني اللطيف الخبير أنهما لن يفترقا حتى يردا على الحوض. "ابن جرير".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১২
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12912 موسیٰ بن زیاد بن حذیم اپنے والد کے واسطہ اپنے داد حذیم بن عمروسعدی سے روایت کرتے ہیں، حذیم کہتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ارشاد فرما رہے تھے : آگاہ رہو ! تمہارے (ایک دوسرے کے) خون تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں (ایک دوسرے پر) یوں حرام (ومحترم) ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے اس (مقدس) ماہ کے اندر اور اس مقدس شہر کے اندر ، پھر پوچھا : کیا میں نے تم کو (پیغام رسالت) پہنچا دیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللھم نعم، اللہ جانتا ہے بےشک۔ ابونعیم
12912- عن موسى بن زياد بن حذيم عن أبيه عن جده حذيم بن عمرو السعدي أنه شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو يقول: ألا إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليه حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت قالوا: اللهم نعم. "أبو نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১৩
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12913 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو بھیجا تو انھوں نے لوگوں کو حج کرایا، پھر آئندہ سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع خود کرایا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ اور ابوبکر خلیفہ چنے گئے پھر ابوبکر (رض) نے عمر (رض) کو بھیجا اور انھوں نے لوگوں کو حج کرایا پھر آئندہ سال ابوبکر (رض) نے خود حج کرایا پھر عمر بن خطاب خلیفہ منتخب ہوئے، انھوں نے عبدالرحمن بن عوف کو حج کرانے بھیجا ، پھر حضرت عمر (رض) نے اپنی ساری خلافت میں خود حج کرایا۔ ابن عساکر
12913- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث أبا بكر فأقام للناس حجهم، ثم حج رسول الله صلى الله عليه وسلم، من العام المقبل حجة الوداع، ثم قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، واستخلف أبو بكر فبعث أبو بكر عمر ابن الخطاب فحج بالناس، ثم حج أبو بكر من العام المقبل، ثم استخلف عمر بن الخطاب فبعث عبد الرحمن بن عوف، ثم حج عمر إمارته كلها. "كر".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১৪
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12914 ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں اپنی اونٹنی پر ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپ نے پہلے حضرت علی (رض) کے شانے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا اے اللہ ! گواہ رہنا، اے اللہ میں نے اپنے اس بھائی کو، اپنے اس چچا کے بیٹے کو اپنے داماد کو اور اپنی اولاد کے باپ کو (پیغام رسالت) پہنچا دیا۔ اے اللہ جو اس سے دشمنی رکھے تو اس کو اوندھا جہنم میں گرادے۔ ابن النجار
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں (ضعیف راوی) اسماعیل بن یحییٰ ہے۔
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں (ضعیف راوی) اسماعیل بن یحییٰ ہے۔
12914- عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع وهو على ناقته فضرب على منكب علي وهو يقول: اللهم اشهد، اللهم قد بلغت هذا أخي وابن عمي وصهري وأبو ولدي، اللهم كب من عاداه في النار. "ابن النجار" وفيه إسماعيل بن يحيى.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১৫
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12915 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ہم حجۃ الوداع میں آپس میں بات چیت کرتے رہتے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان موجود ہوتے تھے اور ہمیں کوئی علم نہ تھا کہ کیا ہے حجۃ الوداع (وہ تو جب اس حج کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے رخصت ہوئے تب معلوم ہوا کہ وہ آپ کا وداعی حج تھا) ۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی حمدوثناء کی پھر مسیح دجال کا ذکر کیا اور اس کا خوب زیادہ ذکر کیا اور فرمایا :
اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس نے اپنی امت کو اس دجال سے ڈرایا، نوح اور ان کے بعد کے سارے نبیوں نے ڈرایا، نیز فرمایا : وہ تمہارے درمیان نکلے گا تم پر اس کی حالت پوشیدہ نہ رہنی چاہیے، یاد رکھو اس کی داہنی آنکھ کافی ہے اس کی آنکھ گویا وہ پھولا ہوا انگور کا دانہ ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم پر تمہارے خونوں اور تمہارے اموال کو حرام کردیاجس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے اس شہر میں اور اس ماہ محترم میں۔ کیا میں نے تم کو پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ تب آپ نے عرض کیا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پھر ارشاد فرمایا : ہلاکت ہو تمہاری، دیکھو میرے بعد کافر بن کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ اڑانے لگ جانا۔ ابن عساکر
اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس نے اپنی امت کو اس دجال سے ڈرایا، نوح اور ان کے بعد کے سارے نبیوں نے ڈرایا، نیز فرمایا : وہ تمہارے درمیان نکلے گا تم پر اس کی حالت پوشیدہ نہ رہنی چاہیے، یاد رکھو اس کی داہنی آنکھ کافی ہے اس کی آنکھ گویا وہ پھولا ہوا انگور کا دانہ ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم پر تمہارے خونوں اور تمہارے اموال کو حرام کردیاجس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے اس شہر میں اور اس ماہ محترم میں۔ کیا میں نے تم کو پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ تب آپ نے عرض کیا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پھر ارشاد فرمایا : ہلاکت ہو تمہاری، دیکھو میرے بعد کافر بن کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ اڑانے لگ جانا۔ ابن عساکر
12915- عن ابن عمر قال: كنا نتحدث في حجة الوداع ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين أظهرنا لا ندري ما حجة الوداع، فحمد الله ورسوله صلى الله عليه وسلم وأثنى عليه، ثم ذكر المسيح الدجال فأطنب في ذكره ثم قال: ما بعث الله من نبي إلا قد أنذره أمته لقد أنذره نوح والنبيون من بعده، وأنه يخرج فيكم فما خفي عليكم من شأنه فلا يخفى عليكم أنه أعور عين اليمنى كأنها عنبة طافية ثم قال: إن الله تبارك وتعالى حرم عليكم دماءكم وأموالكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم
هذا ألا هل بلغت؟ قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد، ثم قال: ويلكم أو قال: ويحكم انظروا ولا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض. " كر".
هذا ألا هل بلغت؟ قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد، ثم قال: ويلكم أو قال: ويحكم انظروا ولا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض. " كر".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১৬
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12916 عن معمر عن مطر (بن طہمان) الوراق عن شہر بن حوشب عن عمرو بن خارجۃ، عمرو بن خارجہ کہتے ہیں : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے حج کے موقع پر حاضر ہوا، میں آپ کی اونٹنی کے منہ کے نیچے تھا اور وہ جگالی کررہی تھی اور وہ جگالی کرتی تھی تو اس کا تھوک میرے کندھوں پر گرتا تھا ۔ میں نے آپ کو مقام منیٰ میں ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دیدیا ہے اب کسی وارث کے لیے وصیت کا اختیار باقی نہ رہا۔ آگاہ رہو ! اولاد صاحب بستر کی ہے اور بدکار کے لیے پتھر ہیں۔ جس نے غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب کیا یا غیر حاصل شدہ نعمت کا اظہار کیا۔ اور دوسرے الفاظ روایت میں یا غیر آقاؤں کی طرف اپنی نسبت کی تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اور ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کا کوئی فرمان قبول ہے اور نہ نفل۔ السنن لسعید بن منصور، ابن جریر، الجامع لعبد الرزاق
اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دیدیا ہے اب کسی وارث کے لیے وصیت کا اختیار باقی نہ رہا۔ آگاہ رہو ! اولاد صاحب بستر کی ہے اور بدکار کے لیے پتھر ہیں۔ جس نے غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب کیا یا غیر حاصل شدہ نعمت کا اظہار کیا۔ اور دوسرے الفاظ روایت میں یا غیر آقاؤں کی طرف اپنی نسبت کی تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اور ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کا کوئی فرمان قبول ہے اور نہ نفل۔ السنن لسعید بن منصور، ابن جریر، الجامع لعبد الرزاق
12916- عن معمر عن مطر [بن طهمان] الوراق عن شهر بن حوشب عن عمرو بن خارجة قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجته فكنت تحت جران ناقته وإنها لتقصع2 بجرتها وإن لعابها ليسيل على كتفي فسمعته وهو يخطب بمنى: إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه، وإنه ليس لوارث وصية ألا وإن الولد للفراش وللعاهر الحجر، من ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير ما أنعم الله به عليه - وفي لفظ - إلى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل3 "ص وابن جرير عب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১৭
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12917 ثوری (رح) شہر بن حوشب سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں : مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا اور (اس وقت) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کا لعاب اس کی ران پر گررہا تھا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر تشریف فرما اور اسی حالت میں لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا :
خاندان نبوت کے لیے صدقہ حلال نہیں
صدقہ میرے لیے حلال نہیں اور میرے گھر والوں کے لئے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹنی کے پشت سے تھوڑا سا اون لے کر ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! اس کے برابر بھی (صدقہ ہمارے لیے حلال نہیں) اور اس کے برابر بھی اگر شخص غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب کرے گا یا غیر آقاؤں کی طرف غلام اپنے کو منسوب کرے گا تو اللہ اس پر بھی لعنت کرے گا۔ اولاد صاحب بستر کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ بیشک اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے پس کسی وارث کے لیے وصیت نہیں رہی۔ الجامع لعبد الرزاق
خاندان نبوت کے لیے صدقہ حلال نہیں
صدقہ میرے لیے حلال نہیں اور میرے گھر والوں کے لئے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹنی کے پشت سے تھوڑا سا اون لے کر ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! اس کے برابر بھی (صدقہ ہمارے لیے حلال نہیں) اور اس کے برابر بھی اگر شخص غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب کرے گا یا غیر آقاؤں کی طرف غلام اپنے کو منسوب کرے گا تو اللہ اس پر بھی لعنت کرے گا۔ اولاد صاحب بستر کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ بیشک اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے پس کسی وارث کے لیے وصیت نہیں رہی۔ الجامع لعبد الرزاق
12917- عن الثوري عن شهر بن حوشب قال: أخبرني من سمع النبي صلى الله عليه وسلم وأن لعاب ناقة النبي صلى الله عليه وسلم يسيل على فخذه قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على ناقته فقال: إن الصدقة لا تحل لي ولا لأهل بيتي وأخذ وبرة من كاهل ناقته فقال: لا والله ولا ما يساوي هذا وما يزن هذا لعن الله من ادعى إلى غير أبيه أو تولى إلى غير مواليه، الولد للفراش وللعاهر الحجر إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث. "عب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১৮
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12918 قیس بن کلاب کلابی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں سن رہا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹنی کی کمر پر سوار آپ نے لوگوں کو تین مرتبہ پکارا : اے لوگو ! اللہ نے تمہارے خونوں کو، تمہارے مالوں کو اور تمہاری اولادوں کو ایک دوسرے کے لیے ایسے محترم کردیا ہے جس طرح یہ دن اس مہینہ میں اور یہ مہینہ اس سال میں محترم ہے۔ اے اللہ ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا۔ اے اللہ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا۔ ابن النجار
12918- عن قيس بن كلاب الكلابي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على ظهر الثنية ينادي الناس ثلاثا، يا ايها الناس إن الله قد حرم دماءكم وأموالكم وأولادكم كحرمة هذا اليوم من الشهر كحرمة هذا الشهر من السنة، اللهم هل بلغت اللهم هل بلغت. "ابن النجار".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯১৯
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12919 وابصۃ بن معبد (رض) سے مروی ہے کہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ارشاد فرما رہے تھے : اے لوگو ! کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : یہ دن اور وہ یوم النحر تھا۔ پھر پوچھا کونسا ماہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ ماہ۔ پوچھا : کونسا شہر سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہی شہر (مکہ) تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے خون ، تمہارے اموال اور تمہاری عزت وآبروئیں سب ایک دوسرے پر حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن اس ماہ (محترم) میں اور اس (محترم) شہر (مکہ) میں اپنے رب سے ملنے تک محترم ہے۔ پھر پوچھا : کیا میں نے تم کو پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کیا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پھر ارشاد فرمایا : شاہد غائب کو پہنچادے۔ مسند ابی یعلی ، ابن عساکر
12919- عن وابصة بن معبد قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو يقول: أيها الناس أي يوم أحرم؟ قال الناس: هذا اليوم وهو يوم النحر، قال: أي شهر أحرم؟ قال الناس: هذا الشهر قال أي بلد أحرم؟ قالوا: هذه البلدة قال: فإن دماءكم وأموالكم واعراضكم محرمة عليكم كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم
تلقونه ألا هل بلغت؟ قال الناس: نعم فرفع يديه إلى السماء اللهم اشهد يقولها ثلاثا ثم قال: ليبلغ الشاهد الغائب. "ع كر".
تلقونه ألا هل بلغت؟ قال الناس: نعم فرفع يديه إلى السماء اللهم اشهد يقولها ثلاثا ثم قال: ليبلغ الشاهد الغائب. "ع كر".
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৯২০
حج اور عمرۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع
12920 وابصہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو عرفہ کے دن خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں نہیں سمجھتا کہ میں اور تم آئندہ کبھی اس مجلس اکٹھے ہوسکیں گے پھر پوچھا : یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : عرفہ کا دن ہے۔ پوچھا : یہ کونسا شہر ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : شہر حرام۔ پوچھا : یہ کونسا ماہ ہے ؟ لوگوں نے کہا : ماہ حرام۔
پھر ارشاد فرمایا : تمہارے (ایک دوسرے کے) خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں (ایک دوسرے پر) اس طرح محترم اور حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے اس شہر میں اور اس ماہ حرام میں۔ پھر پوچھا : کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ ابن عساکر
پھر ارشاد فرمایا : تمہارے (ایک دوسرے کے) خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں (ایک دوسرے پر) اس طرح محترم اور حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے اس شہر میں اور اس ماہ حرام میں۔ پھر پوچھا : کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ ابن عساکر
12920- عن وابصة أن النبي صلى الله عليه وسلم خطبهم يوم عرفة فقال: يا أيها الناس، إني لا أراني وإياكم نجتمع في هذا المجلس أبدا فأي يوم هذا؟ قالوا: عرفة قال: فأي بلد هذا؟ قالوا: البلد الحرام قال: فأي شهر هذا؟ قالوا: الشهر الحرام قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا هل بلغت؟ اللهم اشهد. "كر".
তাহকীক: