কানযুল উম্মাল (উর্দু)
كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال
قیامت کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৪৭১ টি
হাদীস নং: ৩৯৭৪৭
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دھنساؤ وبگڑاؤ
٣٩٧٣٤۔۔۔ عبدالرحمن بن ضحار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قبائل کو دھنسائے بغیر قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک آدمی سے کہا جائے گا : فلاں کی اولاد سے اتنے دھنس گئے فرماتے ہیں میں سمجھ گیا کہ عرب اپنے قبائل کی طرف منسوب کرکے اور عجم اپنے دیہاتوں شہروں کی طرف منسوب کرکے بلائے جاتے (رواہ ابن ابی شیبہ)
39734- عن عبد الرحمن بن صخار عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تقوم الساعة حتى يخسف بقبائل حتى يقال للرجل: من نبي فلان؛ قال فعرفت أن العرب تدعى إلى قبائلها وأن العجم تدعى إلى قراها." ش".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৪৮
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دھنساؤ وبگڑاؤ
٣٩٧٣٥۔۔۔ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا :(قیامت کے) قریب مختلف قسم کی معدنیات نکلیں گی انھیں سونے کافر عون اور یا فرعون کا سونا کہا جائے گا لوگ اس کا روخ کریں گے وہ اس کان میں کام کررہے ہوں گے اچانک انھیں سونانظر آئے گا جوا نہیں اچھا لگے گا پھر اس میں اور انھیں دھنسا دیا جائے گا۔ (رواہ ابونعیم)
39735- عن عبد الله بن عمر قال: "تخرج معادن مختلفة قريب يقال لها: فرعون ذهب يذهب إليه شرار الناس، وبينما هم يعملون فيه إذ خسر لهم عن الذهب فأعجبهم معتملة إذ خسف به وبهم." نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৪৯
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دھنساؤ وبگڑاؤ
39736 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ ایک گھر کو دوسرے گھر کے ساتھ اور گھر سمیت دوسرے گھر کو ضرور دھنسایا جائے گا۔ رواہ ابن ابی شیبہ۔
39736- عن عبد الله بن عمر قال، "ليخسفن بالدار إلى جنب الدار وبالدار إلى جنب الدار." ش".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫০
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دھنساؤ وبگڑاؤ
39737 ۔۔۔ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دھنساؤبگڑاؤ اور زلزلہ ضرور آئے گا لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اس امت میں ؟ فرمایا : ہاں ! جب گانے والیاں رکھ لیں گے زنا کو حلال سمجھ لیں گے لوگ سودکھائیں اور حرم میں شکارکھیلنا حلال رکھیں گے، مرد مردوں سے عورتیں عورتوں سے لطف اندوز ہونے لگیں۔ (رواہ ابن النجار)
39737- عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا بد من خسف ومسخ ورجف! قالوا: يا رسول الله! في هذه الأمة قال: نعم، إذا اتخذوا القيان، واستحلوا الزنا، وأكلوا الربا واستحلوا الصيد في الحرم، ولبس الحرير، واكتفى الرجال بالرجال والنساء بالنساء." ابن النجار".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫১
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دھنساؤ وبگڑاؤ
٣٩٧٣٨۔۔۔ ابن شوذب سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جب زمین میں کوئی ایماندار نہیں ہوگا اس وقت دابۃ الارض نکلے گا۔ (نعیم بن جماد)
39738- عن ابن شوذب قال قال عمر: "لا تخرج دابة الأرض حتى لا يبقى في الأرض مؤمن." نعيم بن حماد".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫২
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دھنساؤ وبگڑاؤ
٣٩٧٣٩۔۔۔ (ازمسند حذیفہ ابن ایس الغفاری) دابۃ کا زمانہ میں تین مرتبہ نکلنا ہوگا ایک مرتبہ یمن کے اخری حصے میں نکلے گا اس وقت اس کا ذکردیہاتیوں میں عام ہوجائے گا شہروں یعنی مکہ میں نہیں پہنچے گا پھر کافی عرصہ گزرے گا تو دوسری مرتبہ مکہ کے قریب سے نکلے گا اس وقت اس کا ذکر دیہاتیوں میں اور مکہ میں پھیل جائے گا اس کے بعد پھر کافی عرصہ ایسے ہی گزرے گا ایک دفعہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم حرمت و عظمت والی مسجد میں یعنی مسجد حرام میں ہوں گے کہ وہ رکن ومقام ابراہیم کے درمیان باپ یعنی مخزوم کی جانب مسجد کی باہر کی جانب چیخ کر اپنے سر سے مٹی جھاڑ رہا ہوگا تو لوگ اکٹھے اور تنہا اس سے بھاگیں گے ایمان والوں کی ایک جمات اس کے لیے ٹھہر جائے گی اور وہ جان جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے وہ ان کے سامنے آجائے گا ان کے چہرے روشن ہوجائیں گے یہاں تک کہ انھیں ستاروں کی طرح کردے گا اس کے بعد وہ زمین میں نکل جائے گا نہ کوئی طلبگار اسے پاسکے گا اور نہ کوئی بھاگنے والا اسے قتل کرسکے گا یوں کہ ایک شخص نماز کے ذریعہ اس سے پناہ مانگ رہا ہوگا وہ اس کے پیچھے سے آکر کہے گا ارے فلا نے ! ابھی تو نماز پڑھنے لگا ہے پھر اس کی طرف آکر اسے نشان لگائے گا اور چلا جائے گا لوگ اپنے گھروں اور سفروں میں (معمول کے مطابق) شروع ہوجائیں گے مالی لین دین میں شریک ہوں گے شہروں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے یہاں تک کہ کافر مومن کی پہچان ہوگی مومن کافر سے کہے گا : کافر ہمارا حق اداکر، اور کافر مومن سے کہا : مومن ! میرا حق اداکر۔ (ابوداؤد طیالسی طبرانی فی الکبیر حاکم وتعقب بیھقی فی البعث وعبدبن حمدی فی تفیرہ عن ابی الطفیل عن حذیفۃ بن اسیدالغفاری)
39739- "من مسند حذيفة بن أسيد الغفاري "الدابة تكون لها ثلاث خرجات من الدهر: فتخرج خرجة من أقصى اليمن حتى ينشر ذكرها في أهل البادية ولا يدخل ذكرها القرية يعني مكة، ثم تمكث زمانا طويلا بعد ذلك، ثم تخرج خرجة أخرى قريبا من مكة فينتشر ذكرها في أهل البادية وينشر ذكرها بمكة ثم تكمن زمانا طويلا، ثم بينما الناس يوما بأعظم المساجد على الله حرمة وخيرها وأكرمها على الله المسجد الحرام لم يرعهم إلا وهي في ناحية المسجد ترغو ما بين الركن والمقام إلى باب بني مخزوم على الخارج الخارج من المسجد تنفض عن رأسها التراب فارفض الناس عنها شتى ومعا، وتثبت لها عصابة من المؤمنين وعرفوا أنهم لن يعجزوا الله، فبدت بهم فجلت وجوههم حتى تجعلها كأنها الكواكب الدرية، ثم ولت في الأرض لا يدركها طالب ولا يعجزها هارب حتى أن الرجل ليقوم يتعوذ منها بالصلاة فتأتيه من خلفه فتقول يا فلان الآن تصلي! فيقبل عليها بوجهه فتسمه في وجهه ثم تذهب، ويتجاور الناس في دورهم وفي أسفارهم ويشتركون في الأموال ويصطحبون في الأمصار ويعرف المؤمن من الكافر، حتى أن المؤمن ليقول للكافر يا كافر! أقضني حقي، وحتى أن الكافر ليقول للمؤمن -: يا مؤمن أقضني حقي." ط، طب، ك وتعقب، ق، في البعث، وعبد بن حميد في تفسيره - عن أبي الطفيل عن حذيفة بن أسيد الغفاري".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫৩
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دھنساؤ وبگڑاؤ
٣٩٧٤٠۔۔۔ عاصم بن حبیب بن صہبان سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں حضرت علی (رض) کو منبر پر فرماتے سنا : کہ دابۃ الارض منہ سے کھائے گا اور دبر سے گوزمارے گا تو ایک شخص آپ سے کہے لگا : میں گواہی دیتاہوں کہ وہ دابہ آپ ہی ہیں تو حضرت علی (رض) اسے سخت ست کہا۔ (عقیلی فی الغعفاء)
39740- عن عاصم بن حبيب بن صبهان قال: سمعت عليا على المنبر يقول: إن دابة الأرض تأكل بفيها وتحدث من إستها؛ فقال له رجل: أشهد أنك تلك الدابة! فقال له علي قولا شديدا."عق".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫৪
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زردہوا
٣٩٧٤١۔۔۔ عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے : قیامت کے سے پہلے غباروالی ہوا بھیجی جائے گی جوہر مومن کی روح قبض کرلے گی۔ (لوگوں میں یہ عام ہوجائے گی) کہا جانے لگے گا فلاں کی روح مسجد سے قبض ہوئی فلاں بازار میں تھا اس کی روح قبض ہوئی۔ (رواہ ابونعیم)
39741- عن عبد الله بن عمرو قال: "يبعث ريحا غبراء قبل يوم القيامة فتقبض روح كل مؤمن فيقال: فلان قبض روحه وهو في المسجد، وفلان قبض روحه وهو في سوقه." نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫৫
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بضمن علامت
٣٩٧٤٢۔ (ازمسند بریدۃ بن الخصیب) بریدہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : سو سال کے آغاز ایک خوشبودار ٹھنڈی ہوا بھیجی جائے گی جس میں ہر مسلمان کی روح قبض کرلی جائے گی (رواہ ابونعیم)
39742- "من مسند بريدة بن الخصيبْ" عن بريدة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "رأس مائة سنة تبعث ريح طيبة باردة يقبض فيها روح كل مسلم." أبو نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫৬
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صور کی پھونک
٣٩٧٤٣۔ (ازمسند ابن عباس) جب آیت ” پس جب صور میں پھونک ماری جائے نازل ہوئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں کیسے مزے سے رہوں جب کہ صوروالے نے صور منہ میں کے ساتھ لگاکر اپنی پیشانی جھکالی حکم کا منتظر ہے کہ کب اسے حکم ملے اور وہ پھونک مارے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ہم کیسے کہا کریں ؟ آپ نے فرمایا : کہا کرو اللہ ہی ہمیں کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے اللہ پر ہی ہمارا بھروسا ہے (ابن ابی شیبہ طبرانی فی البکری ابن مردویہ وھوحسن)
39743- "من مسند ابن عباس" لما نزلت {فإذا نقر في الناقور} قال النبي صلى الله عليه وسلم: "كيف أنعم وصاحب القرن قد التقم القرن وحنى جبهته ينتظر متى يؤمر فينفخ ! فقال أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم : فكيف نقول ؟ قال قولوا : حسبنا الله ونعم الوكيل ! على الله توكلنا (ش ، طب وابن مردويه ، وهو حسن).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫৭
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صور کی پھونک
٣٩٧٤٤۔۔۔ ارقم بن ارقم سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں کیسے مزے کی زندگی گزاروں جب کہ صور والے نے صور منہ میں رکھ پیشانی جھکا کر کان لگاکر انتظار کررہا ہے کہ کب حکم ہو اور وہ پھونک مارے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے سناتو ان پر بڑا گراں گزراعرض کیا : یارسول اللہ ہم کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا : کہا کرو اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (الباوردی وقال کذافی کتابی فلاں ادری منی اوصمن حدثنی ! وقال ایوب زیدبن ارقم)
39744 عن الارقم بن الارقم قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كيف أنعم وصاحب الصور قد التقم القرن وحنى الجبهة وأصغى السمع ينتظر متى يؤمر ! فلما سمعه أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اشتد ذلك عليهم وقالوا : يا رسول الله ! كيف نصنع ؟ قال : قولوا : حسبنا الله ونعم الوكيل (البارودي ، وقال : كذا في كتابي فلا أدري مني أو ممن حدثني ! وقال أيوب : زيد بن أرقم).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫৮
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بعث وحشر
٣٩٧٤٥۔۔۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یارسول اللہ ! قیامت کے روز لوگ کہاں ہوں گے ؟ فرمایا : اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور محبوب زمین شام میں اور وہ فلسطین اور سکندریہ کی بہترین زمین ہے وہاں قتل ہونے والو کو اللہ تعالیٰ دوسری زمین میں سے نہیں اٹھائے گا وہ اس میں قتل ہوئے اور اسی سے اٹھا کر جمع کیے جائیں گے اور وہیں سے جنت میں داخل ہوں گے۔ (ابن عساکر وسندہ ضعیف)
39745- عن أنس قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله! أين الناس يوم القيامة؟ قال: "في خير أرض الله وأحبها إليه الشام وهي أرض فلسطين والإسكندرية من خير الأرضين، المقتولون فيها لا يبعثهم الله إلى غيرها، فيها قتلوا ومنها يبعثون ومنها يحشرون ومنها يدخلون الجنة." كر - وسنده ضعيف".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৫৯
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بعث کے بعد پیش آنے والے امورحساب
٣٩٧٤٦۔۔۔ (ازمسند بریدہ بن الخصیب لاسلمی) بریدہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر ایک سے رب العالمین پوچھے گا اس کا اور بندے کے درمیان نہ کوئی پردہ ہوگا اور نہ کوئی ترجمان۔ (رواہ ابونعیم)
39746- "من مسند بريدة بن الخصيب الأسلمي" عن بريدة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما من أحد إلا سيسأله رب العالمين ليس بينه وبينه حجاب ولا ترجمان." أبو نعيم".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৬০
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بعث کے بعد پیش آنے والے امورحساب
٣٩٧٤٧۔۔۔ سلیمان بن عامر فرماتے ہیں : کہ ہم سے حضرت مقدادبن الاسود (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : قیامت کے روزسورج لوگوں کے اتنے نزدیک کردیا جائے گایہاں تک کہ وہ ایک سلائی کے برابر قریب پہنچ جائے گا : سلیمان بن عامر فرماتے ہیں اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں آپ نے میل سے مسافت والا میل مراد لیا یاسرمہ کی سلائی والاپھر لوگ اپنے اعمال کے لحاظ سے پیسنے میں مبتلاہوں گے کوئی گھٹنوں تک کوئی کوکھ تک کسی کو پیسنے کی مضبوط لگام پڑی ہوگی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا۔ (مسلم، ترمذی کتاب الجنۃ رقم ٢٨٦٤)
39747- عن سليمان بن عامر حدثنا مقداد بن الأسود قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "تدنى الشمس يوم القيامة من الخلق حتى تكون منهم مقدار ميل - قال سليمان بن عامر: فوالله ما أدري ما يعني بالميل المسافة أم الميل الذي يكحل به العين - فيكون الناس على قدر أعمالهم في العرق، فمنهم من يكون إلى ركبتيه، ومنهم من يكون إلى حقويه، ومنهم من يلجمه العرق إلجاما - وأشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى فمه." م ت كتاب الجنة رقم 2864".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৬১
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بعث کے بعد پیش آنے والے امورحساب
٣٩٧٤٨۔۔۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے فرمایا : قیامت کے روزبندے کو لایا جائے گا پھر رب تعالیٰ اس پر لوگوں کو درمیان پردہ ڈالادے گا اس کی اچھائی دیکھ کر فرمائیں گے میں نے قبول کیا اور برائی دیکھ کر فرمائیں گے میں نے بخش دیاتو وہ شخص خیر و شر کے وقت سجدہ ریز ہوگا تو لوگ کہیں گے : اس بندے کے لیے بڑی خوشی ہے جس نے کبھی کوئی برائی نہیں کی۔ (بیھقی فی البعث وقال : ھذا موقوف والا یقولہ الا توقیفا)
39748- عن أبي موسى قال: "يؤتى بالعبد يوم القيامة فيستره ربه بينه وبين الناس فيرى خيرا فيقول: قد قبلت، ويرى سيئا فيقول: قد غفرت، فيسجد عند الخير والشر، فيقول الناس: طوبى لهذا العبد الذي لم يعمل شرا قط." ق في البعث؛ وقال: هذا موقوف ولا يقوله إلا توقيفا".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৬২
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بعث کے بعد پیش آنے والے امورحساب
٣٩٧٤٨۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : ایک دیہاتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکرکہنے لگا یارسول اللہ ! قیامت کے روز مخلوق کا حساب کون لے گا ؟ تو اس نے کہا : بخشش کرنے والا جب قادر ہوتا ہے تو معاف کردیتا ہے۔ (رواہ ابن النجار)
39749- عن أبي هريرة قال: "جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: من يحاسب الخلق يوم القيامة يا رسول الله؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عز وجل، فقال الأعرابي: نجونا ورب الكعبة! فقال: وكيف يا أعرابي؟ فقال: إن الكريم إذا قدر عفا." ابن النجار".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৬৩
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شفاعت
٣٩٧٥٠۔۔۔ (مسند الصدیق) ابوھیندہ ابراء بن نوفل والان عدوی سے وہ حذیفہ سے آپ حضرت ابوبکر (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا : ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز پڑھی توبیٹھ گئے جب چاشت کا وقت ہوا آپ مسکرائے اور اپنی جگہ بیٹھے رہے اور وہیں ظہر اور مغرب کی نمازیں پر ھیں ان میں کسی سے کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے گھر چلے گئے لوگوں نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا : کیا آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھتے ہیں کہ ان کی کیا حالت ہے کہ آج آپ نے ایسا کچھ کیا جو پہلے کبھی نہیں کیا ؟ چنانچہ انھوں نے آپ سے پوچھا آپ نے فرمایا : آج مجھے دنیا و آخرتکی ہونے والی ہر (اہم) چیز دکھادی گئی پہلے اور پچھلے ایک کھلی وادی میں جمع ہوں گے لوگ گھبرائے ہوں گے بالاخر آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے پسینہ انھیں لگام ڈالے ہوگا کہیں گے : اے آدم ! آپ انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو برگزیدہ کیا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کریں وہ فرمائیں گے : جو حالت تمہاری ہے وہی حالت میرا بھی وہی حال ہے اپنے داد کے بعد اپنے باپ نوح کے پاس جاؤ، بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم نوح آل ابراہیم اور آل عمران کو جہاں والوں پر فضیلت بخشی۔ چنانچہ وہ لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس جاکر کہیں گے : ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں اللہ تعالیٰ نے آپ کو چنا اور آپ کی دعاقبول کی اور زمین پر کوئی کافر بستا ہوا نہیں چھوڑاوہ فرمائیں گے : میں یہ کام نہیں کرسکتا ابراہیم کے پاس جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں خلیل بنایا ہے چنانچہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے وہ فرمائیں گے میں اس کام کا نہیں البتہ تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے حقیقت میں کلام کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے میں یہ کام نہیں کرسکتا تم لوگ عیسیٰ ابن مریم کے پاس جاؤ کیونکہ وہ مادرزاد اندھے کو اور برص والے کو ٹھیک کرتے تھے اور مردوں کو زندہ کرتے تھے تو عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے : میں اس کا اہل نہیں تم حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کے سردار کے پاس جاؤ کیونکہ قیامت کے روز سب سے پہلے ان کی قبر کھلے گی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ تاکہ وہ تمہارے رب سے تمہارے لیے سفارش کریں چنانچہ وہ جائیں گے پھر جبرائیل (علیہ السلام) اپنے رب کے پاس جاکر کہیں گے رب تعالیٰ فرمائیں گے : انھیں اجازت ہے اور جنت کی خوشخبری سناؤ پھر جبرائیل (علیہ السلام) انھیں لے کر جائیں گے تو پھر جمعہ کی مدت سجدہ ریزہ ہوں گے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : اپنا سراٹھاؤ کہو تمہاری بات سنی جائے گی شفاعت کروشفاعت قبول کی جائے گی چنانچہ آپ سراٹھائیں گے جب اپنے رب کو دیکھیں گے تو پھر جمعہ کی مدت تک سجدہ ریزہوں جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : اپنا سر اٹھاؤ کہو تمہاری بات سنی جائے گی شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی تو آپ پھر سجدہ میں جانے لگے گے توجبرائیل آپ کو دونوں کندھوں سے تھام لیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی دعائیں الہام کرے گا جو کسی بشر کو نہیں سکھائیں تو آپ فرمائیں گے : میرے رب ! مجھے آپ نے اولاد آدم کا سردار بناکرپیدا کیا مگر میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا، قیامت کے روز سب سے پہلے میری قبر کھلی مجھے کوئی فخر میں یہاں تک کہ حوض پر صنعاء سے ایلہ تک علاقے سے زیادہ لوگ آئیں گے۔
پھر کہا جائے گا : صدیقین کو بلاؤ تاکہ وہ شفاعت کریں اس کے بعد کہا جائے گا انبیاء کو بلاؤچنانچہ انبیاء آئیں گے کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت ہوگی کسی نبی کے ہمراہ پانچ چھ آدمی اور کسی نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوگا پھر کہا جائے گا : شہداکوبلاؤ کہ جس کی پاس شفاعت کریں جب شہدا بھی شفاعت کرلیں گے : اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : میں ارحم الرحمین ہوں جو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتا تھا اسے میری جنت میں داخل کرو، چنانچہ وہ جنت میں داخل ہوں جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جہنم میں دیکھو جو تمہیں ایساشخص ملے جس نے کبھی کوئی بھلائی کا کام کیا ہے ؟ تو انھیں ایک شخص ملے گا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے : کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی کی ؟ وہ عرض کرے گا نہیں البتہ میں لوگوں کے ساتھ خریدو فروخت میں چشم پوشی کردیتا تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جس طرح میرا بندہ میرے بندوں سے رعایت کرتا تھا تم بھی اس کے ساتھ رعایت والامعاملہ کرو۔ اس کے بعد وہ جہنم سے ایک شخص نکالیں گے اللہ تعالیٰ اسے فرمائیں گے : کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی کا کام کیا ہے ؟ وہ عرض کرے گا نہیں البتہ میں نے اپنی اولاد کو یہ حکم دیا تھا کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے آگ میں جلانامیری ہڈیوں کی راکھ بنانا جیسا سرمہ ہوتا ہے اس کے بعد مجھے سمندر میں ہوا کے دوش پر بکھیر دینا۔ (شاید اس طرح) اللہ کی قسم رب العالمین مجھ پر کبھی بھی قدرت پاسکے۔ (میں نے یہ اپنے علم کے مطابق کیا) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے ایساکیوں کہا : وہ عرض کرے گا : تیرے خوف سے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : سوچو تمہیں کوئی بادشاہت جو سب سے بڑے بادشاہ کی ہو یاد ہے تمہارے لیے اسی بادشاہت سمیت دس بادشاہتیں ہیں وہ عرض کرے گا آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کیوں کرتے ہیں اسی وجہ سے میں چاشت کے وقت ہنسا تھا۔ (مسنداحمد وابن المدینی فی کتاب تعلیل الاحادیث المندۃ والدارمی وابن راھویہ والحارث والبذاروقالع تفردبہ البراء بن نوفل عن والان ولانعلمھا رویا الاھذا الحدیث ودبن ابی عاصم فی السۃ ابویعلی والشاشی ابوعواناوابن خذیمد وقال فی اولہ : ان صح الخجر تم قال فی آخرہ انمااسنشیت صحۃ النجر فی الباب لانی فی الوقت الذی ت وجمت الباب لم اکن احنظ عن والان خبراغیر ھذا ولارویا غیرالبراء ثم وحدت لہ خبراثانیا، وردویا آخر قدروی منہ مالک بن عمر الخفی، ابن حبان دارقطنی فی العلیل وقال : والان لجھول والحدیث غیر ثابت والاصبھانی فی الحجۃ الضیاء)
کلام :۔۔۔ المتناھیۃ ١٥٣٩۔
پھر کہا جائے گا : صدیقین کو بلاؤ تاکہ وہ شفاعت کریں اس کے بعد کہا جائے گا انبیاء کو بلاؤچنانچہ انبیاء آئیں گے کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت ہوگی کسی نبی کے ہمراہ پانچ چھ آدمی اور کسی نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوگا پھر کہا جائے گا : شہداکوبلاؤ کہ جس کی پاس شفاعت کریں جب شہدا بھی شفاعت کرلیں گے : اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : میں ارحم الرحمین ہوں جو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتا تھا اسے میری جنت میں داخل کرو، چنانچہ وہ جنت میں داخل ہوں جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جہنم میں دیکھو جو تمہیں ایساشخص ملے جس نے کبھی کوئی بھلائی کا کام کیا ہے ؟ تو انھیں ایک شخص ملے گا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے : کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی کی ؟ وہ عرض کرے گا نہیں البتہ میں لوگوں کے ساتھ خریدو فروخت میں چشم پوشی کردیتا تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جس طرح میرا بندہ میرے بندوں سے رعایت کرتا تھا تم بھی اس کے ساتھ رعایت والامعاملہ کرو۔ اس کے بعد وہ جہنم سے ایک شخص نکالیں گے اللہ تعالیٰ اسے فرمائیں گے : کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی کا کام کیا ہے ؟ وہ عرض کرے گا نہیں البتہ میں نے اپنی اولاد کو یہ حکم دیا تھا کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے آگ میں جلانامیری ہڈیوں کی راکھ بنانا جیسا سرمہ ہوتا ہے اس کے بعد مجھے سمندر میں ہوا کے دوش پر بکھیر دینا۔ (شاید اس طرح) اللہ کی قسم رب العالمین مجھ پر کبھی بھی قدرت پاسکے۔ (میں نے یہ اپنے علم کے مطابق کیا) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے ایساکیوں کہا : وہ عرض کرے گا : تیرے خوف سے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : سوچو تمہیں کوئی بادشاہت جو سب سے بڑے بادشاہ کی ہو یاد ہے تمہارے لیے اسی بادشاہت سمیت دس بادشاہتیں ہیں وہ عرض کرے گا آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کیوں کرتے ہیں اسی وجہ سے میں چاشت کے وقت ہنسا تھا۔ (مسنداحمد وابن المدینی فی کتاب تعلیل الاحادیث المندۃ والدارمی وابن راھویہ والحارث والبذاروقالع تفردبہ البراء بن نوفل عن والان ولانعلمھا رویا الاھذا الحدیث ودبن ابی عاصم فی السۃ ابویعلی والشاشی ابوعواناوابن خذیمد وقال فی اولہ : ان صح الخجر تم قال فی آخرہ انمااسنشیت صحۃ النجر فی الباب لانی فی الوقت الذی ت وجمت الباب لم اکن احنظ عن والان خبراغیر ھذا ولارویا غیرالبراء ثم وحدت لہ خبراثانیا، وردویا آخر قدروی منہ مالک بن عمر الخفی، ابن حبان دارقطنی فی العلیل وقال : والان لجھول والحدیث غیر ثابت والاصبھانی فی الحجۃ الضیاء)
کلام :۔۔۔ المتناھیۃ ١٥٣٩۔
39750- "مسند الصديق" عن أبي هنيدة البراء بن نوفل عن والان العدوي عن حذيفة عن أبي بكر رضي الله عنه قال: "أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم فصلى الغداة ثم جلس حتى إذا كان من الضحى ضحك ثم جلس مكانه حتى صلى الأولى والعصر والمغرب كل ذلك لا يتكلم حتى صلى العشاء الآخرة ثم قام إلى أهله، فقال الناس لأبي بكر: ألا تسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شأنه صنع اليوم شيئا لم يصنعه قط؟ فسأله فقال: نعم، عرض علي ما هو كائن من أمر الدنيا وأمر الآخرة، يجمع الأولون والآخرون بصعيد واحد ففظع الناس بذلك حتى انطلقوا إلى آدم والعرق يكاد يلجمهم فقالوا: يا آدم! أنت أبو البشر، وأنت اصطفاك الله، اشفع لنا إلى ربك! قال: لقد لقيت مثل الذي لقيتم فانطلقوا إلى أبيكم بعد أبيكم إلى نوح {إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين} فينطلقون إلى نوح فيقولون: اشفع لنا إلى ربك فأنت اصطفاك الله واستجاب لك دعائك ولم يدع على الأرض من الكافرين ديارا، فيقول: ليس ذاكم عندي، انطلقوا إلى إبراهيم فإن الله اتخذه خليلا فينطلقون إلى إبراهيم فيقول: ليس ذاكم عندي ولكن انطلقوا إلى موسى فإن الله كلمه تكليما، فيقول موسى: ليس ذاكم عندي ولكن انطلقوا إلى عيسى ابن مريم، فإنه يبريء الأكمه والأبرص ويحيي الموتى، فيقول عيسى: ليس ذاكم عندي ولكن انطلقوا إلى سيد ولد آدم، فإنه أول من تنشق الأرض عنه يوم القيامة، انطلقوا إلى محمد فيشفع لكم إلى ربكم فينطلق، فيأتي جبريل ربه عز وجل فيقول الله تعالى: ائذن له وبشره بالجنة! فينطلق به جبريل فيخر ساجدا قدر جمعة، ويقول الله تعالى: ارفع رأسك وقل يسمع واشفع تشفع فيرفع رأسه، فإذا نظر إلى ربه خر ساجدا قدر جمعة أخرى، فيقول الله تعالى له: ارفع رأسك وقل تسمع واشفع تشفع! فيذهب ليقع ساجدا فيأخذ جبريل بضبعيه فيفتح الله عليه من الدعاء شيئا لم يفتحه على بشر قط، فيقول: أي رب! خلقتني سيد ولد آدم ولا فخر وأول من تنشق عنه الأرض يوم القيامة ولا فخر، حتى أنه ليرد على الحوض أكثر مما بين صنعاء وأيلة، ثم يقال: ادعوا الصديقين، فيشفعون، ثم يقال: ادعوا الأنبياء، فيجيء النبي ومعه العصابة، والنبي ومعه الخمسة والستة، والنبي وليس معه أحد، ثم يقال: ادعوا الشهداء، فيشفعون لمن أرادوا، فإذا فعلت الشهداء ذلك يقول الله: أنا أرحم الراحمين! أدخلوا جنتي من كان لا يشرك بي شيئا! فيدخلون الجنة، ثم يقول الله عز وجل: انظروا في النار هل تلقون من أحد عمل خيرا قط؟ فيجدون في النار رجلا، فيقول له: هل عملت خيرا قط؟ فيقول: لا، غير أني كنت أسامح الناس في البيع فيقول الله: أسمحوا لعبدي كاسماحه إلى عبيدي! ثم يخرجون من النار رجلا، فيقول له: هل عملت خيرا قط؟ فيقول: لا، غير أني قد أمرت ولدي: إذا مت فأحرقوني بالنار ثم اطحنوني حتى إذا كنت مثل الكحل فاذهبوا بي إلى البحر فاذروني في الريح فوالله لا يقدر علي رب العالمين أبدا! فقال الله: لم فعلت ذلك؟ قال: من مخافتك، فيقول الله تعالى: انظر إلى ملك أعظم ملك فإن لك مثله وعشرة أمثاله! فيقول: لم تستخر بي وأنت الملك! وذلك الذي ضحكت منه من الضحى." حم، وابن المديني في كتابه تعليل الأحاديث المسندة والدارمي، وابن راهويه، والحارث، والبزار وقال: تفرد به البراء بن نوفل عن والان ولا نعلمهما رويا إلا هذا الحديث، وابن أبي عاصم في السنة، ع، والشاشي، وأبو عوانة، وابن خزيمة وقال في أوله: إن صح الخبر، ثم قال في آخره: إنما استثنيت صحة الخبر في الباب لأني في الوقت الذي ترجمت الباب لم أكن أحفظ عن والان خبرا غير هذا ولا راويا غير البراء ثم وجدت له خبرا ثانيا وراويا آخر قد روى عنه مالك بن عمر الحنفي، حب، قط في العلل وقال: والان مجهول والحديث غير ثابت، والأصبهاني في الحجة، ض".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৬৪
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شفاعت
٣٩٧٥١۔۔۔ (ازمسند جابربن عبداللہ) جعفربن محمد اپنے والد سے وہ جابربن عبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر کے لیے ہے میں نے عرض کیا، جابر یہ کیا بات ہوئی ؟ فرمایا، ہاں محمد ! بات یہ ہے کہ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں وہ تو بغیر حساب وکتاب جنت میں جائے گا اور جس کی اچھائیاں اور برائیں برابر ہوئیں اس سے آسان حساب لیا جائے گا پھر جنت میں بھیج دیا جائے گا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت تو اس کے لیے جس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا یا اپنی پیٹھ ہر گناہ کا بوجھ لادا۔ (بیھقی فی البعث ابن عساکر ابن ماجہ)
39751- "من مسند جابر بن عبد الله" عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "شفاعتي لأهل الكبائر من أمتي. قلت ما هذا يا جابر؟ قال: نعم يا محمد! إنه من زادت حسناته فذاك الذي يدخل الجنة بغير حساب، ومن استوت حسناته وسيئاته فذاك الذي يحاسب حسابا يسيرا ثم يدخل الجنة، وإنما شفاعة رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن أوبق نفسه وأثقل ظهره." ق في البعث، كر، هـ".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৬৫
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شفاعت
٣٩٧٥٢۔۔۔ عوف بن مالک (رض) سے رویت ہے فرماتے ہیں ایک رات ہم لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راہ پڑاؤ کیا ہر انسان نے اپنی سواری کے گٹھنے کو سرہانابنالیا رات کے کسی وقت میری جو آنکھ کھلی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے نظر نہ آئے میں گھبراکررسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے لگا اتنے میں مجھے معاذبن جبل اور ابوموسیٰ اشعری (رض) بھی مل گئے وہ بھی اسی پریشانی میں تھے ہم لوگ اسی تک ودو میں تھے کہ ہم نثروادی کے بالائی حصے سے ایسی آواز سنی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے تو ہم نے آپ کو اپنی کیفیت سے آگاہ کیا تو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج رات میرے پاس میرے رب کا فرشتہ آیا جس نے مجھے شفاعت اور میری آدھی امت جنت میں جائے دونوں باتوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کو کہا تو میں شفاعت اختیار کی میں نے عرض کیا : اے میرے نبی میں آپ کو اللہ تعالیٰ اور معیت کا واسطہ دیتاہوں آپ نے ہمیں اپنی شفاعت والوں میں کیوں نہیں شامل کیا آپ نے فرمایا : تم میری شفاعت والوں میں سے ہوپھرہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل پڑے اور لوگوں کے پاس پہنچ گئے تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی کی وجہ سے گھبراگئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ میرے پاس میرے رب کا فرشتہ آیا اور مجھے شفاعت اور میری امت کا نصف حصہ جنت میں جائے ان میں سے ایک کو اختیار کرنے کو کہا تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا وہ عرض کرنے لگے : ہم آپ کو اللہ تعالیٰ اور صحبت و مصیبت کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں اپنی شفاعت والوں میں سے کیوں نہیں بنایاجب وہ آپ کے پاس جمع ہوگئے تو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو میں گواہی دیتاہوں کہ حاضرین میں سے میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کے کسی چیز کو شریک نہیں کرتے۔ (البغوی ابن عساکر)
39752- عن عوف بن مالك قال؛ عرس بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فتوسد كل إنسان منا ذراع راحلته، فانتبهت في بعض الليل، فإذا أنا لا أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم عند راحلته، فأفزعني ذلك، فانطلقت التمس رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا انا بمعاذ بن جبل وأبي موسى الأشعري وإذا هما قد أفزعهما ما أفزعني، نحن كذلك إذ سمعنا هزيزا بأعلى الوادي كهزيز الرحى، فأخبرناه بما كان من أمرنا، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: "أتاني الليلة آت من ربي عز وجل فخيرني بين الشفاعة وبين أن يدخل نصف أمتي الجنة، فاخترت الشفاعة؛ فقلت: أنشدك الله يا نبي الله والصحبة لما جعلتنا من أهل شفاعتك! قال: فإنكم من أهل شفاعتي فانطلقنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتهينا إلى الناس، فإذا هم قد فزعوا حين فقدوا نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: أتاني آت من ربي فخيرني بين الشفاعة وبين أن يدخل نصف أمتي الجنة، فاخترت الشفاعة؛ فقالوا ننشدك الله والصحبة لما جعلتنا من أهل شفاعتك! فلما انضموا عليه قال نبي الله صلى الله عليه وسلم، فإني أشهد من حضر أن شفاعتي لمن مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا." البغوي، كر".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯৭৬৬
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شفاعت
٣٩٧٥٣۔۔۔ (مسند عبداللہ بن بسرانصری والد عبدالواحد) ابن عساکر فرماتے ہیں وہ صحابی ہیں اور انھیں روایت کی فضیلت بھی حاصل ہے ان سے ان کے بیٹے عبدالواد اور عمروبن روبہ روایت کرتے ہیں اوزاعی عبدالواحد بن بسر سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے فرمایا : ایک دفعہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحن میں بیٹھے تھے کہ اچانک آپ کھلکھلاتے ہنس مکھ چہرے کے ساتھ باہر تشریف لائے ہم لوگ کھڑے ہوگئے ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ آپ کو خوش رکھے ! آپ ہشاش بشاش طبیعت اور خندہ پیشانی سے کس قدر خوشی ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابھی میرے پاس جبرائیل آئے انھوں نے مجھے خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاعت عطاکی ہے ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! صرف بنی ہاشم کے لیے خاص طورپر ؟ آپ نے فرمایا کیا : نہیں ہم نے عرض کیا : قریش کے لیے عام طورپر ؟ فرمایا : ہیں ہم نے عرض کیا : آپ کی امت کے لیے ؟ فرمایا : میری امت میں سے گناہوں کی امت کی بوجھ سے لائے لوگوں کے لیے (طبرانی فی الکبیرابن عساکر
39753- "مسند عبد الله بن بسر النصري والد عبد الواحد" قال كر: له صحبة ورواية، عنه ابنه عبد الواحد وعمرو بن روبة عن الأوزاعي عن عبد الواحد بن عبد الله بن بسر قال حدثني أبي قال:بينما نحن بفناء رسول الله صلى الله عليه وسلم جلوس إذ خرج علينا مشرق الوجه يتهلل فقمنا في وجهه فقلنا: يا رسول! سرك الله! إنه ليسرنا ما نرى من إشراق وجهك وتطلقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إمن جبريل أتاني آنفا فبشرني أن الله قد أعطاني الشفاعة، فقلنا: يا رسول الله! أفي بني هاشم خاصة؟ قال: لا، فقلنا: أفي قريش عامة؟ قال: لا، قلنا: في أمتك؟ قال: هي في أمتي للمذنبين المثقلين." طب، كر".
তাহকীক: