মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)
الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار
فضائل کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৯০০ টি
হাদীস নং: ৩২৩১৫
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣١٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، اور میرا منبر میرے حوض پر ہوگا۔
(۳۲۳۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ خبیبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا بَیْنَ قَبْرِی وَمِنْبَرِی رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ ، وَمِنْبَرِی عَلَی حَوْضِی۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩১৬
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣١٧) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حوض پر تمہارے لیے تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں۔
(۳۲۳۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْض۔ (بخاری ۶۵۷۵۔ مسلم ۱۷۹۶)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩১৭
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣١٨) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں حوض پر تمہارے لیے تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں۔
(۳۲۳۱۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ، قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ہَذَا الْمِنْبَرِ یَقُولُ : إنِّی لَکُمْ سَلَفٌ عَلَی الْکَوْثَرِ۔
(مسلم ۱۷۹۵۔ احمد ۲۹۷)
(مسلم ۱۷۹۵۔ احمد ۲۹۷)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩১৮
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣١٩) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوثر جنت کی نہر ہے ، اس کے کنارے سونے کے ہیں اور اس کے بہنے کی جگہ یاقوت اور موتی پر ہے، اس کی مٹی مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے، اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اور برف سے زیادہ سفید ہے۔
(۳۲۳۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْکَوْثَرُ نَہْرٌ فِی الْجَنَّۃِ حَافَتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ ، وَمَجْرَاہُ عَلَی الْیَاقُوتِ وَالدُّرِ ، تُرْبَتُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْک ، وَمَاؤُہُ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ وَأَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ الثَّلْجِ۔ (ترمذی ۳۳۶۱۔ دارمی ۲۸۳۷)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩১৯
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٠) حضرت جند ب فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں تمہارے لیے حوض پر پہلے پہنچنے والا ہوں۔
(۳۲۳۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ جُنْدُبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔ (مسلم ۱۷۹۲۔ احمد ۳۱۳)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২০
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢١) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک تمہارے سامنے ایسا حوض ہے جو ’ جربائ ‘ اور ’ اذرح ‘ کی درمیانی مسافت کے برابر ہے۔
(۳۲۳۲۱) حَدَّثَنَا محمد بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ أَمَامَکُمْ حَوْضًا کَمَا بَیْنَ جَرْبَائَ وَأَذْرُحَ۔ (مسلم ۳۴۔ ابوداؤد ۴۷۱۲)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২১
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٢) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے، اور ہم مسجد میں تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر پر پٹی باندھ رکھی تھی، اس مرض میں جس میں آپ کی وفات ہوئی، آپ منبر کی طرف چلے ، ہم آپ کے پیچھے چلے گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے میں اس وقت گویا کہ حوض پر کھڑا ہوں۔
(۳۲۳۲۲) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أنیس بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْماً وَنَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ وَہُوَ عَاصِبٌ رَأْسَہُ بِخِرْقَۃٍ فِی الْمَرَضِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، فَأَہْوَی قِبَلَ الْمِنْبَرِ فَاتَّبَعنَاہُ ، فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إنِّی لَقَائِمٌ عَلَی الْحَوْضِ السَّاعَۃَ۔
(دارمی ۷۷۔ ابویعلی ۱۱۵۰)
(دارمی ۷۷۔ ابویعلی ۱۱۵۰)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২২
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٣) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بہت سے لوگ میرے حوض پر آئیں گے لیکن مجھ سے دور روک دیے جائیں گے۔
(۳۲۳۲۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیَرِدَنَّ عَلَی حَوْضِی أَقْوَامٌ فَیُخْتَلَجُونَ دُونِی۔ (بخاری ۶۵۷۶۔ احمد ۴۷۳)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২৩
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٤) مُرّہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی سے نقل فرماتے ہیں، فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حوض پر تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں۔
(۳۲۳۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُرَّۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : قامَ فِینَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنِّی فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২৪
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٥) حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حوض پر تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں، جو میرے پاس آئے گا اس میں سے پی لے گا، اور جو اس سے پی لے گا اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔
(۳۲۳۲۵) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ، مَنْ وَرَدَ عَلَیَّ شَرِبَ مِنْہُ وَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا۔ (بخاری ۶۵۸۵۔ مسلم ۱۷۹۳)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২৫
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٦) حضرت اسید بن حضیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عنقریب تم میرے بعد ترجیح دیکھو گے ، پس صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملو۔
(۳۲۳۲۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أُسَیْدَ بْنِ الحُضَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً ، فَاصْبِرُوا حَتَّی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔
(بخاری ۳۷۹۲۔ احمد ۳۵۱)
(بخاری ۳۷۹۲۔ احمد ۳۵۱)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২৬
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٧) حضرت عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا کہ تم عنقریب میرے بعد ترجیح دیکھو گے، پس صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملو۔
(۳۲۳۲۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلأَنْصَارِ : إِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً ، فَاصْبِرُوا حَتَّی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔ (بخاری ۴۳۳۰۔ مسلم ۷۳۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২৭
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ میں حوض پر پانی پینے کے لیے آنے والوں کا منتظر ہوں گا۔
(۳۲۳۲۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنِّی عَلَی الْحَوْضِ أَنْتَظِرُ مَنْ یَرِدُ عَلَیَّ الْحَوْضَ۔
(مسلم ۱۷۹۴۔ ابویعلی ۴۴۳۷)
(مسلم ۱۷۹۴۔ ابویعلی ۴۴۳۷)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২৮
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٢٩) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! حوض کے برتن کیسے ہوں گے ؟ فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس کے برتن آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں، اور اس کے ستاروں سے مراد صاف آسمان والی رات کے ستارے ہیں، جس نے اس سے پی لیا وہ پیاسا نہ ہوگا، اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کی طرح عمان سے أیلہ کی درمیانی مسافت جتنی ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔
(۳۲۳۲۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّیُّ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : قلْت : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا آنِیَۃُ الْحَوْضِ ؟ قَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لاَنِیَتُہُ أَکْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَائِ وَکَوَاکِبِہَا فِی اللَّیْلَۃِ الْمُظْلِمَۃِ الْمُصْحِیَۃِ ، مَنْ شَرِبَ مِنْہَا لَمْ یَظْمَا ، عَرْضُہُ مِثْلُ طُولِہِ مَا بَیْنَ عُمَانَ إلَی أَیْلَۃَ ، مَاؤُہُ أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ۔ (مسلم ۱۷۹۸۔ احمد ۱۴۹)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩২৯
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٣٠) حضرت ثوبان، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اپنے حوض کے پانی پینے کی جگہ ہوں گا، اور اہل یمن کے لیے لوگوں کو دور ہٹاؤں گا یہاں تک کہ لوگ چھٹ جائیں گے، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حوض کی وسعت کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ وہ میری اس جگہ سے عمّان کی درمیانی مسافت تک ہے، ان دونوں علاقوں کے درمیان ایک ماہ یا اس کے قریب مسافت ہے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے پانی کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس میں جنت سے دو پرنالے گریں گے جن کا بہاؤ جنت سے ہوگا، ایک پرنالہ چاندی کا اور دوسرا سونے کا ہوگا۔
(۳۲۳۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ الْیَعْمُرِیِّ ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنَا عِنْدَ عُقْرِ حَوْضِی أَذُودُ عَنْہُ النَّاسَ لأَہْلِ الْیَمِینِ إنِّی لاَضْرِبُہُمْ بِعَصَایَ حَتَّی تَرْفَضَّ ، قَالَ : فَسُئِلَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ سِعَۃِ الْحَوْضِ ؟ فَقَالَ : ہُوَ مَا بَیْنَ مَقَامِی ہَذَا إلَی عَمَّانَ ، مَا بَیْنَہُمَا شَہْرٌ أَوْ نَحْوُ ذَلِکَ، فَسُئِلَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شَرَابِہِ ؟ فَقَالَ : أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ ، یَصُبُّ فِیہِ مِیزَابَانِ مِدَادُہُ ، أَوْ مِدَادُہُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ أَحَدُہُمَا وَرِقٌ وَالآخَرُ ذَہَبٌ۔ (مسلم ۱۷۹۹۔ احمد ۲۷۵)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৩০
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٣١) حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے حوض پر بہت سے لوگ آئیں گے جو میرے ساتھ رہے ہوں گے اور انھوں نے مجھے دیکھا ہوگا ، یہاں تک کہ جب وہ میری طرف اٹھائے جائیں گے تو ان کو مجھ سے روک دیا جائے گا، میں کہوں گا کہ اے میرے رب ! یہ میرے ساتھی ہیں، اللہ فرمائیں گے کہ آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا بدعات جاری کی ہیں۔
(۳۲۳۳۱) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ الْحَوْضَ رِجَالٌ مِمَّنْ صَحِبَنِی وَرَآنِی حَتَّی إذَا رُفِعُوا إلَیَّ اخْتُلِجُوا دُونِی فَلأَقُولَنَّ : رَبِ أَصْحَابِی ، فَلَیُقَالُنَّ : إنَّک لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَک۔ (احمد ۴۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৩১
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٣٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دن گوشت لایا گیا، آپ کو اس کا بازو کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو پسند تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے ایک مرتبہ نوچا پھر فرمایا میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا، اور تم جانتے ہو کہ یہ کس طرح ہوگا ؟ اللہ قیامت کے دن اولین و آخرین کو ایک میدان میں جمع فرمائیں گے، پس ایک پکارنے والے کی پکار ان کو سنوائیں گے اور ان کی نظریں تیز ہوجائیں گی، اور سورج قریب ہوجائے گا اور لوگوں کو اتنی تکلیف اور غم ہوگا کہ جس کی ان کے اندر طاقت نہ ہوگی، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ کیا تم کوئی ایسا شخص نہیں دیکھتے جو تمہارے رب کی طرف تمہاری سفارش کرے ؟
(٢) چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں، وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے آدم ! آپ انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، اور آپ کے اندر اپنی جانب سے روح پھونکی، اور ملائکہ کو حکم دیا کہ آپ کو سجدہ کریں، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ ہماری مصیبت کو نہیں دیکھتے ؟ وہ فرمائیں گے کہ میرے رب آج ایسے غصہ میں ہیں کہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھے، اور اس کے بعد کبھی نہ ہوں گے، اور اللہ نے مجھے درخت کے پاس جانے سے منع فرمایا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، مجھے تو اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ،
(٣) چنانچہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، اور کہیں گے اے نوح ! آپ زمین والوں کی طرف پہلے رسول ہیں، اور اللہ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کیجیے ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ نوح (علیہ السلام) ان سے فرمائیں گے کہ میرے رب آج ایسے غصے میں ہیں کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھے اور کبھی آج کے بعد نہ ہوں گے، اور میرے پاس ایک دعا کا اختیار تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کردی، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٤) چنانچہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے ابراہیم ! آپ اللہ کے نبی اور زمین والوں میں سے اس کے خلیل ہیں، ہمارے لیے اپنے رب کے ہاں سفارش فرمائیں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم پر کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ ابراہیم (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ میرا رب آج ایسے غصے میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھا، اور نہ کبھی اس کے بعد اس جیسے غصے میں ہوگا، اور وہ اپنے جھوٹ ذکر فرمائیں گے، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٥) چنانچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے ، اور کہیں گے اے موسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور ہم کلامی کے ذریعے فضیلت بخشی ، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھا او کبھی اس کے بعد نہ ہوگا، اور میں نے ایک ایسی جان کو قتل کیا تھا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں تھا، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٦) چنانچہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ نے لوگوں سے پنگھوڑے میں بات کی، اور آپ اللہ کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف القاء کیا تھا، اور اس کی روح ہیں، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ میرا رب آج ایسے غصے میں ہے کہ اس سے پہلے ایسے غصے میں نہیں تھا اور نہ اس کے بعد ایسے غصے میں ہوگا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا کوئی گناہ ذکر نہیں فرمایا، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس چلے جاؤ، تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلے جاؤ۔
(٧) چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمائے ہیں ، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کیجیے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ میں عرش کے نیچے جاؤں گا اور اپنے رب کو سجدہ کرنے کے لیے گر جاؤں گا، پھر اللہ میرا سینہ کھولیں گے ، اور مجھے اپنی حمدو ثناء القاء فرمائیں گے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے کسی کو القاء نہیں فرمائی ہوگی، پھر کہا جائے گا اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، سوال کیجیے، آپ کو عطا کیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول ہوگی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور کہوں گا اے میرے رب ! میری امت ! میری امت ! کئی مرتبہ ایسا کہوں گا ، پھر کہا جائے گا اے محمد ! آپ اپنی امت میں سے جنت میں ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے دائیں دروازے سے داخل کریں جن پر کوئی حساب نہیں، اور دوسرے دروازوں میں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل ہونے میں شریک ہوں گے۔
پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، بیشک جنت کے دو کو اڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ھَجَر کے درمیان، یا جتنا مکہ اور بصریٰ کے درمیان۔
(٢) چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں، وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے آدم ! آپ انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، اور آپ کے اندر اپنی جانب سے روح پھونکی، اور ملائکہ کو حکم دیا کہ آپ کو سجدہ کریں، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ ہماری مصیبت کو نہیں دیکھتے ؟ وہ فرمائیں گے کہ میرے رب آج ایسے غصہ میں ہیں کہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھے، اور اس کے بعد کبھی نہ ہوں گے، اور اللہ نے مجھے درخت کے پاس جانے سے منع فرمایا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، مجھے تو اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ،
(٣) چنانچہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، اور کہیں گے اے نوح ! آپ زمین والوں کی طرف پہلے رسول ہیں، اور اللہ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کیجیے ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ نوح (علیہ السلام) ان سے فرمائیں گے کہ میرے رب آج ایسے غصے میں ہیں کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھے اور کبھی آج کے بعد نہ ہوں گے، اور میرے پاس ایک دعا کا اختیار تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کردی، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٤) چنانچہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے ابراہیم ! آپ اللہ کے نبی اور زمین والوں میں سے اس کے خلیل ہیں، ہمارے لیے اپنے رب کے ہاں سفارش فرمائیں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم پر کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ ابراہیم (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ میرا رب آج ایسے غصے میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھا، اور نہ کبھی اس کے بعد اس جیسے غصے میں ہوگا، اور وہ اپنے جھوٹ ذکر فرمائیں گے، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٥) چنانچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے ، اور کہیں گے اے موسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور ہم کلامی کے ذریعے فضیلت بخشی ، ہمارے لیے اپنے رب کی طرف سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے نہ تھا او کبھی اس کے بعد نہ ہوگا، اور میں نے ایک ایسی جان کو قتل کیا تھا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں تھا، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے، تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٦) چنانچہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ نے لوگوں سے پنگھوڑے میں بات کی، اور آپ اللہ کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف القاء کیا تھا، اور اس کی روح ہیں، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ میرا رب آج ایسے غصے میں ہے کہ اس سے پہلے ایسے غصے میں نہیں تھا اور نہ اس کے بعد ایسے غصے میں ہوگا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا کوئی گناہ ذکر نہیں فرمایا، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے ، تم کسی اور کے پاس چلے جاؤ، تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلے جاؤ۔
(٧) چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمائے ہیں ، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کیجیے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیا مصیبت آ پڑی ہے ؟ میں عرش کے نیچے جاؤں گا اور اپنے رب کو سجدہ کرنے کے لیے گر جاؤں گا، پھر اللہ میرا سینہ کھولیں گے ، اور مجھے اپنی حمدو ثناء القاء فرمائیں گے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے کسی کو القاء نہیں فرمائی ہوگی، پھر کہا جائے گا اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، سوال کیجیے، آپ کو عطا کیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول ہوگی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور کہوں گا اے میرے رب ! میری امت ! میری امت ! کئی مرتبہ ایسا کہوں گا ، پھر کہا جائے گا اے محمد ! آپ اپنی امت میں سے جنت میں ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے دائیں دروازے سے داخل کریں جن پر کوئی حساب نہیں، اور دوسرے دروازوں میں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل ہونے میں شریک ہوں گے۔
پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، بیشک جنت کے دو کو اڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ھَجَر کے درمیان، یا جتنا مکہ اور بصریٰ کے درمیان۔
(۳۲۳۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَیَّانَ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا بِلَحْمٍ فَرَفَعْت إلَیْہِ الذِّرَاعَ ، وَکَانَتْ تُعْجِبُہُ ، فَنَہَسَ مِنْہَا نَہْسَۃً ، ثُمَّ قَالَ : أَنَا سَیِّدُ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَہَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاکَ یَجْمَعُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ ، فَیُسْمِعہُمَ الدَّاعِی وَیَنْفُذُہُمَ الْبَصَرُ ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ ، فَیَبْلُغُ النَّاسُ مِنَ الْغَمِّ وَالْکَرْبِ مَا لاَ یُطِیقُونَ ، وَلاَ یَحْتَمِلُونَ ، فَیَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ : أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَکُمْ ، أَلاَ تَنْظُرُونَ مَنْ یَشْفَعُ لَکُمْ إلَی رَبِّکُمْ۔
فَیَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضہم : أَبُوکُمْ آدَم ، فَیَأْتُونَ آدَمَ فَیَقُولُونَ : یَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ ، خَلَقَکَ اللَّہُ بِیَدِہِ، وَنَفَخَ فِیک مِنْ رُوحِہِ ، وَأَمَرَ الْمَلاَئِکَۃَ فَسَجَدُوا لَک ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی إلَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ : إنَّ رَبِّی قَد
غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلَنْ یَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنَّہُ نَہَانِی عَنِ الشَّجَرَۃِ فَعَصَیْتہ ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی نُوحٍ۔
فَیَأْتُونَ نُوحًا فَیَقُولُونَ : یَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إلَی أَہْلِ الأَرْضِ ، وَسَمَّاک اللَّہُ عَبْدًا شَکُورًا ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِیہِ ، أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغْنَا إِلَیْہ ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلَنْ یَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنَّہُ قَدْ کَانَتْ لِی دَعْوَۃٌ دَعَوْت بِہَا عَلَی قَوْمِی ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی إبْرَاہِیمَ۔
فَیَأْتُونَ إبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ : یَا إبْرَاہِیمُ ، أَنْتَ نَبِیُّ اللہِ وَخَلِیلُہُ مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ إبْرَاہِیمُ : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَذَکَرَ کِذَبَاتِہِ ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی مُوسَی۔
فَیَأْتُونَ مُوسَی فَیَقُولُونَ : یَا مُوسَی ، أَنْتَ رَسُولُ اللہِ ، فَضَّلَک اللَّہُ بِرِسَالَتِہِ وَبِتَکْلِیمِہِ ، عَلَی النَّاسِ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی إلَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ مُوسَی : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنِّی قَتَلْت نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِہَا ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی عِیسَی۔
فَیَأْتُونَ عِیسَی ، فَیَقُولُونَ : یَا عِیسَی، أَنْتَ رَسُولُ اللہِ ، وَکَلَّمْت النَّاسَ فِی الْمَہْدِ ، وَکَلِمَتُہُ أَلْقَاہَا إلَی مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِنْہُ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ عِیسَی : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ - وَلَمْ یَذْکُرْ لَہُ ذَنْبًا - نَفْسِی نَفْسِی، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
فَیَأْتُونِی فَیَقُولُونَ : یَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللہِ وَخَاتَمُ الأَنْبِیَائِ ، وَغَفَرَ اللَّہُ لَک مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَأَنْطَلِقُ فَآتِی تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّی ، ثُمَّ یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیَّ وَیُلْہِمُنِی مِنْ مَحَامِدِہِ ، وَحُسْنِ الثَّنَائِ عَلَیْہِ شَیْئًا لَمْ یَفْتَحْہُ لأَحَدٍ قَبْلِی ، ثُمَّ قِیلَ : یَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَک ، سَلْ تُعْطَہُ ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَقُولُ : یَا رَبِّ أُمَّتِی ، یَا رَبِّ أُمَّتِی ، مَرَّاتٍ ، فَیُقَالُ : یَا مُحَمَّدُ ، أَدْخِلَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِکَ مَنْ لاَ حِسَابَ عَلَیْہِمْ مِنَ الْبَابِ الأَیْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ وَہُمْ شُرَکَائُ النَّاسِ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنَ الأَبْوَابِ۔
ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، إنَّ مَا بَیْنَ الْمِصْرَاعَیْنِ مِنْ مَصَارِعِ الْجَنَّۃِ لَکَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَہَجَرَ ، أَوْ کَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَبُصْرَی۔ (بخاری ۳۳۴۰۔ مسلم ۱۸۴)
فَیَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضہم : أَبُوکُمْ آدَم ، فَیَأْتُونَ آدَمَ فَیَقُولُونَ : یَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ ، خَلَقَکَ اللَّہُ بِیَدِہِ، وَنَفَخَ فِیک مِنْ رُوحِہِ ، وَأَمَرَ الْمَلاَئِکَۃَ فَسَجَدُوا لَک ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی إلَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ : إنَّ رَبِّی قَد
غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلَنْ یَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنَّہُ نَہَانِی عَنِ الشَّجَرَۃِ فَعَصَیْتہ ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی نُوحٍ۔
فَیَأْتُونَ نُوحًا فَیَقُولُونَ : یَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إلَی أَہْلِ الأَرْضِ ، وَسَمَّاک اللَّہُ عَبْدًا شَکُورًا ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِیہِ ، أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغْنَا إِلَیْہ ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلَنْ یَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنَّہُ قَدْ کَانَتْ لِی دَعْوَۃٌ دَعَوْت بِہَا عَلَی قَوْمِی ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی إبْرَاہِیمَ۔
فَیَأْتُونَ إبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ : یَا إبْرَاہِیمُ ، أَنْتَ نَبِیُّ اللہِ وَخَلِیلُہُ مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ إبْرَاہِیمُ : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَذَکَرَ کِذَبَاتِہِ ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی مُوسَی۔
فَیَأْتُونَ مُوسَی فَیَقُولُونَ : یَا مُوسَی ، أَنْتَ رَسُولُ اللہِ ، فَضَّلَک اللَّہُ بِرِسَالَتِہِ وَبِتَکْلِیمِہِ ، عَلَی النَّاسِ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی إلَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ مُوسَی : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ ، وَإِنِّی قَتَلْت نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِہَا ، نَفْسِی نَفْسِی ، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی عِیسَی۔
فَیَأْتُونَ عِیسَی ، فَیَقُولُونَ : یَا عِیسَی، أَنْتَ رَسُولُ اللہِ ، وَکَلَّمْت النَّاسَ فِی الْمَہْدِ ، وَکَلِمَتُہُ أَلْقَاہَا إلَی مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِنْہُ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَیَقُولُ لَہُمْ عِیسَی : إنَّ رَبِّی قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضَبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ ، وَلاَ یَغْضَبُ بَعْدَہُ مِثْلَہُ - وَلَمْ یَذْکُرْ لَہُ ذَنْبًا - نَفْسِی نَفْسِی، اذْہَبُوا إلَی غَیْرِی ، اذْہَبُوا إلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
فَیَأْتُونِی فَیَقُولُونَ : یَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللہِ وَخَاتَمُ الأَنْبِیَائِ ، وَغَفَرَ اللَّہُ لَک مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ ، اشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّکَ ، أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ؟ أَلاَ تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَأَنْطَلِقُ فَآتِی تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّی ، ثُمَّ یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیَّ وَیُلْہِمُنِی مِنْ مَحَامِدِہِ ، وَحُسْنِ الثَّنَائِ عَلَیْہِ شَیْئًا لَمْ یَفْتَحْہُ لأَحَدٍ قَبْلِی ، ثُمَّ قِیلَ : یَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَک ، سَلْ تُعْطَہُ ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَقُولُ : یَا رَبِّ أُمَّتِی ، یَا رَبِّ أُمَّتِی ، مَرَّاتٍ ، فَیُقَالُ : یَا مُحَمَّدُ ، أَدْخِلَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِکَ مَنْ لاَ حِسَابَ عَلَیْہِمْ مِنَ الْبَابِ الأَیْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ وَہُمْ شُرَکَائُ النَّاسِ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنَ الأَبْوَابِ۔
ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، إنَّ مَا بَیْنَ الْمِصْرَاعَیْنِ مِنْ مَصَارِعِ الْجَنَّۃِ لَکَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَہَجَرَ ، أَوْ کَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَبُصْرَی۔ (بخاری ۳۳۴۰۔ مسلم ۱۸۴)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৩২
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٣٣) حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سورج کو دس سال کی گرمی دے دی جائے گی، پھر اس کو لوگوں کے سروں کے قریب کردیا جائے گا یہاں تک کہ دو کمانوں کے درمیانی فاصلے کی دوری پر ہوگا، چنانچہ لوگوں کو پسینہ آئے گا یہاں تک کہ پسینہ زمین میں قد آدم ہوجائے گا، پھر بلند ہوگا یہاں تک کہ آدمی ” غر غر “ کہے گا ، سلمان فرماتے ہیں کہ یہاں تک کہ آدمی غر غر کہنے لگے گا، جب وہ اپنی حالت دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو کہیں گے کہ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ تم کس حالت میں ہو ؟ اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کہ وہ تمہارے لیے تمہارے رب کی طرف سفارش کرے ، چنانچہ وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے ہمارے باپ ! آپ ہی ہیں جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، اور آپ میں روح پھونکی، اور آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا، اٹھیے اور ہمارے لیے سفارش کیجئے، کیا آپ ہماری حالت کو دیکھ رہے ہیں، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، اور میں اس مرتبہ کا نہیں، تو میں ایسا کس طرح کروں ؟ وہ کہیں گے کہ پھر آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم فرماتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اس بندے کے پاس جاؤ جس کو اللہ نے شکر گزار قرار دیا ہے۔
(٢) چنانچہ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ کے نبی ! آپ ہی ہیں جن کو اللہ نے شکر گزار قرار دیا ہے ، اور آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، اٹھیے اور ہمارے لیے سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میرا یہ مرتبہ نہیں، پس میں یہ کیسے کروں، وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اللہ کے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٣) چنانچہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے خلیل ! آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، اور میں اس مرتبے کا نہیں، میں کیسے یہ کام کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم موسیٰ کے پاس جاؤ، جن کو اللہ نے اپنی رسالت اور اپنی ہم کلامی کے لیے چنا تھا۔
(٤) چنانچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، اور کہیں گے کہ آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میں اس مرتبے کا نہیں، میں ایسا کیسے کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اللہ کے کلمہ اور اس کی روح عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٥) چنانچہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے کلمہ اور اے روح اللہ ! آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میں اس مرتبے کا نہیں، ایسا کیسے کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم فرماتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اس بندے کے پاس جاؤ جس کے ذریعے اللہ نے کھولا اور جس کے ذریعے مہر لگائی، اور اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے ، اور وہ اس دن امن کے ساتھ آئیں گے۔
(٦) چنانچہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے نبی 5! آپ ہی ہیں جس کے ذریعے اللہ نے کھولا اور جس کے ذریعے مہر لگائی، اور آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمائے، اور اس دن آپ امن کے ساتھ آئے، اور آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، پس ہمارے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ چنانچہ آپ لوگوں کو ہٹاتے ہوئے نکلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے پر آئیں گے، اور درواز میں لگے ہوئے سونے کے حلقے کو پکڑیں گے اور دروازہ کھٹکھٹائیں گے ، پس کہا جائے گا یہ کون ہے ؟ جواب دیا جائے گا کہ یہ محمد ہیں، کہتے ہیں کہ پھر آپ کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا، پھر آپ آئیں گے اور اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ، اور سجدے کی اجازت چاہیں گے، اور آپ کو اجازت دی جائے گی تو آپ سجدہ کریں گے، چنانچہ آپ کو پکارا جائے گا اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، سوال کیجئے ، آپ کو دیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، اور دعا کیجئے آپ کی دعا قبول کی جائے گی، کہتے ہیں کہ پھر اللہ آپ کے دل پر ایسی حمدو ثناء القاء فرمائیں گے جو مخلوقات میں کسی کو القاء نہیں ہوئی ہوگی، آپ فرمائیں گے اے رب ! میری اُمت، میری امت، پھر سجدے کی اجازت مانگیں گے، پھر آپ کو اجازت دی جائے گی اور آپ سجدہ کریں گے ، پھر اللہ آپ کے دل میں ایسی حمد وثناء القاء فرمائیں گے جو مخلوقات میں سے کسی کو القاء نہیں ہوئی ہوگی، اور پکارا جائے گا اے محمد ! اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے، مانگیے آپ کو دیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، اور دعا کیجئے آپ کی دعا قبول کی جائے گی، آپ اپنا سر اٹھائیں گے اور فرمائیں گے اے رب ! میری امت، میری امت، دو یا تین مرتبہ، حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ آپ کی سفارش ہر اس آدمی کے بارے میں قبول کی جائے گی جس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، یا ایک جو کے وزن کے برابر ایمان ہوگا، یا ایک رائی کے وزن کے بقدر ایمان ہوگا، یہی مقام محمود ہے۔
(٢) چنانچہ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ کے نبی ! آپ ہی ہیں جن کو اللہ نے شکر گزار قرار دیا ہے ، اور آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، اٹھیے اور ہمارے لیے سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میرا یہ مرتبہ نہیں، پس میں یہ کیسے کروں، وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اللہ کے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٣) چنانچہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے خلیل ! آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، اور میں اس مرتبے کا نہیں، میں کیسے یہ کام کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم موسیٰ کے پاس جاؤ، جن کو اللہ نے اپنی رسالت اور اپنی ہم کلامی کے لیے چنا تھا۔
(٤) چنانچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، اور کہیں گے کہ آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میں اس مرتبے کا نہیں، میں ایسا کیسے کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اللہ کے کلمہ اور اس کی روح عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔
(٥) چنانچہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے کلمہ اور اے روح اللہ ! آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں پس ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کر دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں اور میں اس مرتبے کا نہیں، ایسا کیسے کروں ؟ وہ کہیں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس جانے کا حکم فرماتے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ تم اس بندے کے پاس جاؤ جس کے ذریعے اللہ نے کھولا اور جس کے ذریعے مہر لگائی، اور اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے ، اور وہ اس دن امن کے ساتھ آئیں گے۔
(٦) چنانچہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے اللہ کے نبی 5! آپ ہی ہیں جس کے ذریعے اللہ نے کھولا اور جس کے ذریعے مہر لگائی، اور آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمائے، اور اس دن آپ امن کے ساتھ آئے، اور آپ ہماری حالت دیکھ رہے ہیں، پس ہمارے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ چنانچہ آپ لوگوں کو ہٹاتے ہوئے نکلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے پر آئیں گے، اور درواز میں لگے ہوئے سونے کے حلقے کو پکڑیں گے اور دروازہ کھٹکھٹائیں گے ، پس کہا جائے گا یہ کون ہے ؟ جواب دیا جائے گا کہ یہ محمد ہیں، کہتے ہیں کہ پھر آپ کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا، پھر آپ آئیں گے اور اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ، اور سجدے کی اجازت چاہیں گے، اور آپ کو اجازت دی جائے گی تو آپ سجدہ کریں گے، چنانچہ آپ کو پکارا جائے گا اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، سوال کیجئے ، آپ کو دیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، اور دعا کیجئے آپ کی دعا قبول کی جائے گی، کہتے ہیں کہ پھر اللہ آپ کے دل پر ایسی حمدو ثناء القاء فرمائیں گے جو مخلوقات میں کسی کو القاء نہیں ہوئی ہوگی، آپ فرمائیں گے اے رب ! میری اُمت، میری امت، پھر سجدے کی اجازت مانگیں گے، پھر آپ کو اجازت دی جائے گی اور آپ سجدہ کریں گے ، پھر اللہ آپ کے دل میں ایسی حمد وثناء القاء فرمائیں گے جو مخلوقات میں سے کسی کو القاء نہیں ہوئی ہوگی، اور پکارا جائے گا اے محمد ! اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے، مانگیے آپ کو دیا جائے گا، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، اور دعا کیجئے آپ کی دعا قبول کی جائے گی، آپ اپنا سر اٹھائیں گے اور فرمائیں گے اے رب ! میری امت، میری امت، دو یا تین مرتبہ، حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ آپ کی سفارش ہر اس آدمی کے بارے میں قبول کی جائے گی جس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، یا ایک جو کے وزن کے برابر ایمان ہوگا، یا ایک رائی کے وزن کے بقدر ایمان ہوگا، یہی مقام محمود ہے۔
(۳۲۳۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : تُعْطَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَرَّ عَشْرِ سِنِینَ ، ثُمَّ تُدْنَی مِنْ جَمَاجِمِ النَّاسِ حَتَّی تَکُونَ قَابَ قَوْسَیْنِ فَیَعْرَقُونَ حَتَّی یَرْشَحَ الْعَرَقُ قَامَۃً فِی الأَرْضِ ، ثُمَّ یَرْتَفِعُ حَتَّی یُغَرْغِرُ الرَّجُلُ ، قَالَ سَلْمَانُ : حَتَّی یَقُولَ الرَّجُلُ : غَرْ غَرْ ، فَإِذَا رَأَوْا مَا ہُمْ فِیہِ قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ : أَلاَ تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِیہِ ، ائْتُوا أَبَاکُمْ آدَمَ فَلْیَشْفَعْ لَکُمْ إلَی رَبِّکُمْ ، فَیَأْتُونَ آدَمَ فَیَقُولُونَ : یَا أَبَانَا ، أَنْتَ الَّذِی خَلَقَک اللَّہُ بِیَدِہِ وَنَفَخَ فِیک مِنْ رُوحِہِ وَأَسْکَنَک جَنَّتَہُ ، قُمْ فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا فَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہناک وَلَسْت بِذَاکَ فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا فَیَقُولُ : ائْتُوا عَبْدًا جَعَلَہُ اللَّہُ شَاکِرًا۔
فَیَأْتُونَ نُوحًا فَیَقُولُونَ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، أَنْتَ الَّذِی جَعَلَک اللَّہُ شَاکِرًا وَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ قُمْ فَاشْفَعْ لَنَا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا خَلِیلَ الرَّحْمَن إبْرَاہِیمَ۔ فَیَأْتُونَ إبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ : یَا خَلِیلَ الرَّحْمَان قَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا مُوسَی عَبْدًا اصْطَفَاہُ اللہ بِرِسَالتِہِ وَبِکَلامِہِ۔
فَیَأْتُونَ مُوسَی فَیَقُولُونَ : قَدْ تَرَی مَا نَحْن فِیہِ ، فَاشْفَع لَنَا إِلیَ رَبِّنَا ، فَیَقُول : لَسْتُ ہُنَاکَ ، وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا کَلِمَۃَ اللہِ وَرُوحَہُ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ۔
فَیَأْتُونَ عِیسَی فَیَقُولُونَ : یَا کَلِمَۃَ اللہِ وَرُوحَہُ ، قَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ، فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ ، وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا عَبْدًا فَتَحَ اللَّہُ بِہِ وَخَتَمَ ، وَغَفَرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ ، وَیَجیء فِی ہَذَا الْیَوْمِ آمِنًا۔
فَیَأْتُونَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَیَقُولُونَ : یَا نَبِیَّ اللہِ أنت الذی فَتَحَ اللَّہُ بِکَ وَخَتَمَ ، وَغَفَرَ لَک مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ ، وَجِئْت فِی ہَذَا الْیَوْمِ آمِنًا ، وَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا ، فَیَقُولُ : أَنَا صَاحِبُکُمْ ، فَیَخْرُجُ یَحُوشُ النَّاسِ حَتَّی یَنْتَہِیَ إلَی بَابِ الْجَنَّۃِ ، فَیَأْخُذَ بِحَلْقَۃٍ فِی الْبَابِ مِنْ ذَہَبٍ ، فَیَقْرَعُ الْبَابَ ، فَیُقَالُ : مَنْ ہَذَا ؟ فَیُقَالُ : مُحَمَّدٌ ، قَالَ : فَیُفْتَحُ لَہُ ، فَیَجِیئُ حَتَّی یَقُومَ بَیْنَ یَدَیَ اللہِ ، فَیَسْتَأْذِنُ فِی السُّجُودِ فَیُؤْذَنُ لَہُ فَیَسْجُدُ ، فَیُنَادِی : یَا مُحَمَّدُ ! ارْفَعْ رَأْسَک ، سَلْ تُعْطَہُ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، وَادْعُ تُجَبْ ، قَالَ : فَیَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیْہِ مِنَ الثَّنَائِ وَالتَّحْمِیدِ وَالتَّمْجِیدِ مَا لَمْ یُفْتَحْ لأَحَدٍ مِنَ الْخَلاَئِقِ ، قَالَ : فَیَقُولُ : رَبِّ أُمَّتِی أُمَّتِی ، ثُمَّ یَسْتَأْذِنُ فِی السُّجُودِ فَیُؤْذَنُ لَہُ فَیَسْجُدُ فَیَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیْہِ مِنَ الثَّنَائِ وَالتَّحْمِیدِ وَالتَّمْجِیدِ مَا لَمْ یُفْتَحْ لأَحَدٍ مِنَ الْخَلاَئِقِ ، وَیُنَادَی : یَا مُحَمَّدُ ! یَا مُحَمَّدُ ! ارْفَعْ رَأْسَک سَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَادْعُ تُجَبْ ، فَیَرْفَعُ رَأْسَہُ فَیَقُولُ : یَا رَبِ أُمَّتِی أُمَّتِی مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا۔
قَالَ سَلْمَانُ : فَیَشْفَعُ فِی کُلِّ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ حِنْطَۃٍ مِنْ إیمَانٍ ، أَوْ مِثْقَالُ شَعِیرَۃٍ مِنْ إیمَانٍ ، أَوْ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إیمَانٍ ، فَذَلِکُمَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ۔
فَیَأْتُونَ نُوحًا فَیَقُولُونَ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، أَنْتَ الَّذِی جَعَلَک اللَّہُ شَاکِرًا وَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ قُمْ فَاشْفَعْ لَنَا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا خَلِیلَ الرَّحْمَن إبْرَاہِیمَ۔ فَیَأْتُونَ إبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ : یَا خَلِیلَ الرَّحْمَان قَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا مُوسَی عَبْدًا اصْطَفَاہُ اللہ بِرِسَالتِہِ وَبِکَلامِہِ۔
فَیَأْتُونَ مُوسَی فَیَقُولُونَ : قَدْ تَرَی مَا نَحْن فِیہِ ، فَاشْفَع لَنَا إِلیَ رَبِّنَا ، فَیَقُول : لَسْتُ ہُنَاکَ ، وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا کَلِمَۃَ اللہِ وَرُوحَہُ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ۔
فَیَأْتُونَ عِیسَی فَیَقُولُونَ : یَا کَلِمَۃَ اللہِ وَرُوحَہُ ، قَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ ، فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکَ ، وَلَسْت بِذَاکَ ، فَأَیْنَ الْفَعْلَۃُ ؟ فَیَقُولُونَ : إلَی مَنْ تَأْمُرُنَا ؟ فَیَقُولُ : ائْتُوا عَبْدًا فَتَحَ اللَّہُ بِہِ وَخَتَمَ ، وَغَفَرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ ، وَیَجیء فِی ہَذَا الْیَوْمِ آمِنًا۔
فَیَأْتُونَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَیَقُولُونَ : یَا نَبِیَّ اللہِ أنت الذی فَتَحَ اللَّہُ بِکَ وَخَتَمَ ، وَغَفَرَ لَک مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ ، وَجِئْت فِی ہَذَا الْیَوْمِ آمِنًا ، وَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِیہِ فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا ، فَیَقُولُ : أَنَا صَاحِبُکُمْ ، فَیَخْرُجُ یَحُوشُ النَّاسِ حَتَّی یَنْتَہِیَ إلَی بَابِ الْجَنَّۃِ ، فَیَأْخُذَ بِحَلْقَۃٍ فِی الْبَابِ مِنْ ذَہَبٍ ، فَیَقْرَعُ الْبَابَ ، فَیُقَالُ : مَنْ ہَذَا ؟ فَیُقَالُ : مُحَمَّدٌ ، قَالَ : فَیُفْتَحُ لَہُ ، فَیَجِیئُ حَتَّی یَقُومَ بَیْنَ یَدَیَ اللہِ ، فَیَسْتَأْذِنُ فِی السُّجُودِ فَیُؤْذَنُ لَہُ فَیَسْجُدُ ، فَیُنَادِی : یَا مُحَمَّدُ ! ارْفَعْ رَأْسَک ، سَلْ تُعْطَہُ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، وَادْعُ تُجَبْ ، قَالَ : فَیَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیْہِ مِنَ الثَّنَائِ وَالتَّحْمِیدِ وَالتَّمْجِیدِ مَا لَمْ یُفْتَحْ لأَحَدٍ مِنَ الْخَلاَئِقِ ، قَالَ : فَیَقُولُ : رَبِّ أُمَّتِی أُمَّتِی ، ثُمَّ یَسْتَأْذِنُ فِی السُّجُودِ فَیُؤْذَنُ لَہُ فَیَسْجُدُ فَیَفْتَحُ اللَّہُ عَلَیْہِ مِنَ الثَّنَائِ وَالتَّحْمِیدِ وَالتَّمْجِیدِ مَا لَمْ یُفْتَحْ لأَحَدٍ مِنَ الْخَلاَئِقِ ، وَیُنَادَی : یَا مُحَمَّدُ ! یَا مُحَمَّدُ ! ارْفَعْ رَأْسَک سَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَادْعُ تُجَبْ ، فَیَرْفَعُ رَأْسَہُ فَیَقُولُ : یَا رَبِ أُمَّتِی أُمَّتِی مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا۔
قَالَ سَلْمَانُ : فَیَشْفَعُ فِی کُلِّ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ حِنْطَۃٍ مِنْ إیمَانٍ ، أَوْ مِثْقَالُ شَعِیرَۃٍ مِنْ إیمَانٍ ، أَوْ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إیمَانٍ ، فَذَلِکُمَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৩৩
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٣٤) عبداللہ غالب روایت کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اولاد آدم کے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں گے۔
(۳۲۳۳۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ غَالِبٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسلم ۱۷۸۲۔ احمد ۳۸۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৩৪
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٣٥) حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن مؤمنین جمع ہوں گے اور کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے سامنے سفارشی پیش کریں۔ ” اس بات کا ان کو القاء ہوگا “ تو اللہ ہمیں اس جگہ راحت عطا فرما دیں گے، چنانچہ وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے اے آدم ! آپ انسانوں کے باپ ہیں اور اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے، اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے، آپ ہمارے لیے ہمارے رب سے سفارش کریں، کہ وہ اس جگہ سے ہمیں آرام بخشیں، وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ، اور ان سے شکایت ذکر کریں گے یا اپنی غلطی بیان کریں گے جو آپ سے سرزد ہوئی تھی، اور اپنے رب سے شرمائیں گے ، لیکن تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کہ وہ سب سے پہلے رسول ہیں جن کو اہل زمین کی طرف بھیجا گیا، چنانچہ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، لیکن وہ کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ، اور وہ اپنے رب سے اس سوال کا ذکر کریں گے جس کا ان کو علم نہیں تھا، اور اپنے رب سے شرمائیں گے لیکن تم ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ، وہ ان کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام فرمایا اور ان کو توراۃ عطا فرمائی، وہ ان کے پاس جائیں گے لیکن وہ کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں، اور ان سے بغیر کسی جان کے عوض کے ایک جان کو قتل کرنے کا ذکر فرمائیں گے اور اس وجہ سے اپنے رب سے شرمائیں گے، لیکن تم اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور اس کے کلمہ اور روح اللہ کے پاس جاؤ، وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ میں اس کام کے لیے نہیں ، اور میرا یہ مقام نہیں ، لیکن تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ جن کے پچھلے اور اگلے گناہ اللہ نے معاف فرما دیے ہیں ، حسن فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر میں مؤمنین کی دو قطاروں کے درمیان چلوں گا، ” حسن کا قول ختم ہوگیا۔ ‘ ‘ پھر اپنے رب سے اجازت مانگوں گا اور مجھے اجازت دے دی جائے گی، جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر جاؤں گا، اللہ تعالیٰ جتنا عرصہ چاہیں گے مجھے اس حال میں چھوڑیں گے ، پھر کہا جائے گا ، یا پھر کہیں گے کہ اپنا سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، اور مانگو تمہیں دیا جائے گا، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی ایسی حمد کروں گا جو مجھے اللہ سکھائیں گے، پس میری شفاعت قبول کی جائے گی، اللہ مجھے ایک حد بیان فرمائیں گے اور میں اتنے لوگوں کو جنت میں داخل کر دوں گا، پھر میں دوبارہ واپس آؤں گا، جب اپنے رب کو دیکھوں گا سجدے میں گر جاؤں گا، اللہ مجھے کافی عرصہ اس حال میں رکھیں گے، پھر پہلے کی طرح فرمائیں گے کہ کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور ایسی حمد کروں گا جو اللہ مجھے سکھائیں گے، پھر کہا جائے گا مانگیے آپ کو دیا جائے گا ، اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا، پھر اللہ میرے لیے ایک حد قائم فرمائیں گے اور میں ان کو جنت میں داخل کروں گا، پھر میں چوتھی مرتبہ اللہ کی طرف لوٹ کر آؤں گا اور کہوں گا اے میرے رب ! ان لوگوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا جن کو قرآن نے روک لیا ہے۔
(۳۲۳۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَقُولُونَ : لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إلَی رَبِّنَا وَیُلْہَمُونَ ذَلِکَ فَأَرَاحَنَا مِنْ مَکَانِنَا ہَذَا ، فَیَأْتُونَ آدَم فَیَقُولُونَ لَہُ : یَا آدَم أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ ، وَخَلَقَک اللَّہُ بِیَدِہِ ، وَنَفَخَ فِیک مِنْ رُوحِہِ ، وَعَلَّمَک أَسْمَائَ کُلِّ شَیْئٍ ، فَاشْفَعْ لَنَا إلَی رَبِّنَا یُرِحْنَا مِنْ مَکَانِنَا ہَذَا ، قَالَ : لَسْتُ ہُنَاکُمْ ، وَیَشْکُو إلَیْہِمْ ، أَوْ یَذْکُرُ خَطِیئَتَہُ الَّتِی أَصَابَ ، فَیَسْتَحِی رَبَّہُ ، وَلَکِنِ ائْتُوا نُوحًا فَإِنَّہُ أَوَّلُ رَسُولٍ أُرْسِلَ إلَی أَہْلِ الأَرْضِ ، فَیَأْتُونَ نُوحًا ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکُمْ ، وَیَذْکُرُ سُؤَالَہُ رَبَّہُ مَا لَیْسَ لَہُ بِہِ عِلْمٌ ، فَیَسْتَحِی رَبَّہُ ، وَلَکِنِ ائْتُوا إبْرَاہِیمَ خَلِیلَ الرَّحْمَن ، فَیَأْتُونَہُ ، فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکُمْ ، وَلَکِنِ ائْتُوا مُوسَی عَبْدًا کَلَّمَہُ اللَّہُ وَأَعْطَاہُ التَّوْرَاۃَ ، فَیَأْتُونَہُ فَیَقُولُ : لَسْتُ ہُنَاکُمْ ، وَیَذْکُرُ لَہُمْ قَتْلَ النَّفْسِ بِغَیْرِ نَفْسٍ ، فَیَسْتَحِی رَبَّہُ مِنْ ذَلِکَ ، وَلَکِنِ ائْتُوا عَبْدَ اللہِ وَرَسُولَہُ وَکَلِمَۃَ اللہِ وَرُوحَہُ ، فَیَأْتُونَ عِیسَی فَیَقُولُ :
لَسْت لِذَاکُمْ وَلَسْت ہُنَاکُمْ ، وَلَکِنِ ائْتُوا مُحَمَّدًا عَبْدًا غَفَرَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔
قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : قَالَ : فَأَنْطَلِقُ فَأَمْشِی بَیْنَ سِمَاطَیْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ، انْقَطَعَ قَوْلُ الْحَسَنِ ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّی فَیُؤْذَنُ لِی ، فَإِذَا رَأَیْت رَبِّی وَقَعْت سَاجِدًا ، فَیَدَعُنْی مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَدَعَنِی فَیُقَالُ أَوْ یَقُولُ : ارْفَعْ رَأْسَک ، قُلْ تُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَہُ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَحْمَدُہُ تَحْمِیدًا یُعَلِّمُنِیہِ فَأُشَفَّعُ ، فَیَحُدُّ لِی حَدًّا فَأُدْخِلُہُمَ الْجَنَّۃَ ، ثُمَّ أَعُودُ إلَیْہِ الثَانِیَۃً ، فَإِذَا رَأَیْت رَبِّی وَقَعْت سَاجِدًا ، فَیَدَعُنِی مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَدَعَنِی ، ثُمَّ یَقُولُ مِثْلَ قَوْلِہِ الأَوَّلِ : قُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَحْمَدُہُ تَحْمِیدًا یُعَلِّمُنِیہِ ، فَیُقَالُ : سَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَیَحُدُّ لِی حَدًّا فَأُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ ، ثُمَّ أَعُودُ إلَیْہِ فِی الرَّابِعَۃِ فَأَقُولُ: یَا رَبِّ ، مَا بَقِیَ إلاَّ مَنْ حَبَسَہُ الْقُرْآنُ۔
لَسْت لِذَاکُمْ وَلَسْت ہُنَاکُمْ ، وَلَکِنِ ائْتُوا مُحَمَّدًا عَبْدًا غَفَرَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔
قَالَ : قَالَ الْحَسَنُ : قَالَ : فَأَنْطَلِقُ فَأَمْشِی بَیْنَ سِمَاطَیْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ، انْقَطَعَ قَوْلُ الْحَسَنِ ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّی فَیُؤْذَنُ لِی ، فَإِذَا رَأَیْت رَبِّی وَقَعْت سَاجِدًا ، فَیَدَعُنْی مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَدَعَنِی فَیُقَالُ أَوْ یَقُولُ : ارْفَعْ رَأْسَک ، قُلْ تُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَہُ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَحْمَدُہُ تَحْمِیدًا یُعَلِّمُنِیہِ فَأُشَفَّعُ ، فَیَحُدُّ لِی حَدًّا فَأُدْخِلُہُمَ الْجَنَّۃَ ، ثُمَّ أَعُودُ إلَیْہِ الثَانِیَۃً ، فَإِذَا رَأَیْت رَبِّی وَقَعْت سَاجِدًا ، فَیَدَعُنِی مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَدَعَنِی ، ثُمَّ یَقُولُ مِثْلَ قَوْلِہِ الأَوَّلِ : قُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِی فَأَحْمَدُہُ تَحْمِیدًا یُعَلِّمُنِیہِ ، فَیُقَالُ : سَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَیَحُدُّ لِی حَدًّا فَأُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ ، ثُمَّ أَعُودُ إلَیْہِ فِی الرَّابِعَۃِ فَأَقُولُ: یَا رَبِّ ، مَا بَقِیَ إلاَّ مَنْ حَبَسَہُ الْقُرْآنُ۔
তাহকীক: