মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)
الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار
فضائل کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৯০০ টি
হাদীস নং: ৩২৩৫৫
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٥٦) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس براق لایا گیا جو سفید لمبا جانور ہے، اور وہ اپنی نظر کی انتہاء پر ایک قدم رکھتا ہے، آپ اس کی پیٹھ پر جبرائیل کے ساتھ بیٹھے رہے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گئے، اور ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے اور آپ نے جنت اور دوزخ کو دیکھا، حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس میں آپ نے نماز نہیں پڑھی۔
(۳۲۳۵۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِالْبُرَاقِ وَہُوَ دَابَّۃٌ أَبْیَضُ طَوِیلٌ ، یَضَعُ حَافِرَہُ عِنْدَ مُنْتَہَی طَرْفِہِ ، قَالَ : فَلَمْ یُزَایِلْ ظَہْرَہُ ہُوَ وَجِبْرِیلُ حَتَّی أَتَیَا بَیْتَ الْمَقْدِسِ ، وَفُتِحَتْ لَہُمَا أَبْوَابُ السَّمَائِ ، وَرَأَیَ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ ، قَالَ حذیفۃ : لَمْ یُصَلِّ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ۔ (ترمذی ۳۱۴۷۔ احمد ۳۹۴)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৫৬
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٥٧) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کروائی گئی تو آپ کے پاس ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا، وہ اپنا پاؤں وہاں رکھتا تھا جہاں اس کی نظر کی انتہاء ہوتی اس کا نام براق تھا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کے ایک قافلے کے پاس سے گزرے، وہ اونٹ بدک گئے، وہ کہنے لگے یہ کیا ہے ؟ دوسروں نے جواب دیا کہ ہم کو تو کچھ نظر نہیں آرہا، یہ تو ایک ہوا ہی تھی، یہاں تک کہ آپ بیت المقدس پہنچ گئے، پھر آپ کے پاس دو برتن لائے گئے ، ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا، آپ نے دودھ کو لیا، جبرائیل نے کہا کہ آپ کو ہدایت دی گئی اور آپ کی امت کو بھی ہدایت دی گئی، پھر آپ مصر کی طرف چلے۔
(۳۲۳۵۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : لَمَّا أُسْرِیَ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِدَابَّۃٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ ، یَضَعُ حَافِرَہُ عِنْدَ مُنْتَہَی طَرْفِہِ ، یُقَالُ لَہُ : الْبُرَاقُ ، وَمَرَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعِیرٍ لِلْمُشْرِکِینَ فَنَفَرَتْ ، فَقَالُوا : یَا ہَؤُلاَئِ ، مَا ہَذَا ؟ قَالُوا : مَا نَرَی شَیْئًا ، مَا ہَذِہِ إلاَّ رِیحٌ ، حَتَّی أَتَی بَیْتَ الْمَقْدِسِ ، فَأُتِیَ بِإِنَائَیْنِ فِی وَاحِدٍ خَمْرٌ وَفِی الآخَرِ لَبَنٌ ، فَأَخَذَ اللَّبَنَ ، فَقَالَ لَہُ جِبْرِیلُ : ہُدِیت وَہُدِیَتْ أُمَّتُک۔ ثُمَّ سَارَ إلَی مِصْرَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৫৭
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٥٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب معراج کی رات ہوئی اور میں نے مکہ میں صبح کی تو میں اپنے معاملے میں حیران ہوگیا اور مجھے لگا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے غمزدہ بیٹھ گئے، چنانچہ ابو جہل آپ کے پاس سے گزرا تو آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا، اور آپ سے مذاق کے انداز میں کہا کہ کیا کچھ ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں ! اس نے کہا کیا ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے آج رات معراج کروائی گئی، اس نے کہا کہاں کی ؟ فرمایا بیت المقدس کی، اس نے کہا کہ پھر صبح آپ ہمارے پاس پہنچ گئے ؟ فرمایا جی ہاں ! اس نے تکذیب ظاہر نہ کی اس خوف سے کہ اگر وہ اپنی قوم کو آپ کے پاس بلائے گا تو کہیں آپ انکار نہ کردیں، چنانچہ اس نے کہا اے بنو کعب بن لؤیّ کی جماعت ! آؤ ، چنانچہ مجلس چھٹ گئی اور وہ ان دونوں کے پاس آ کر بیٹھ گئے، اس نے آپ سے کہا کہ اپنی قوم کو بھی وہ بات بیان کیجئے جو آپ نے مجھے بیان کی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج رات مجھے معراج کروائی گئی، انھوں نے کہا کہاں کی ؟ آپ نے فرمایا بیت المقدس کی ، وہ کہنے لگے پھر صبح کے وقت آپ ہمارے پاس پہنچ گئے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں ! کہتے ہیں کہ بعض تالیاں پیٹنے لگے اور بعض نے تعجب سے اپنے سر پر ہاتھ رکھا، اور مجھے کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں مسجد کی صفت بیان کرسکتے ہیں ؟ اور لوگوں میں سے بعض نے اس شہر کا سفر کیا ہوا تھا اور مسجد کو دیکھا ہوا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ان کو صفت بیان کرنے لگا، یہاں تک کہ بعض صفات میں مجھے شک ہوگیا، چنانچہ مسجد کو میرے سامنے لایا گیا جبکہ میں اس کو دیکھ رہا تھا، اور دار عقیل یا دار عقال کے سامنے رکھ دی گئی، میں اس کو دیکھ کر اس کی صفت بیان کرنے لگا، لوگ کہنے لگے کہ صفت تو بخدا بالکل درست ہے۔
(۳۲۳۵۸) حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَمَّا کَانَ لَیْلَۃُ أُسْرِیَ بِی ، وَأَصْبَحْتُ بِمَکَّۃَ ، فَظِعْتُ بِأَمْرِی ، وَعَرَفْتُ أَنَّ النَّاسَ مُکَذِّبِی ، فَقَعَدَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعْتَزِلاً حَزِینًا ، فَمَرَّ بِہِ أَبُو جَہْلٍ فَجَائَ حَتَّی جَلَسَ إلَیْہِ ، فَقَالَ لَہُ کَالْمُسْتَہْزِئِ : ہَلْ کَانَ مِنْ شَیْئٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : وَمَا ہُوَ ؟ قَالَ : إنِّی أُسْرِیَ بِی اللَّیْلَۃَ ، قَالَ : إلَی أَیْنَ ؟ قَالَ : إلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالَ : ثُمَّ أَصْبَحْت بَیْنَ أظْہُرِنَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَلَمْ یُرِہِ أنَّہُ یُکَذِّبُہُ مَخَافَۃَ أَنْ یَجْحَدَ الْحَدِیثَ إنْ دَعَا قَوْمَہُ إلَیْہِ، قَالَ: أَتُحَدِّثُ قَوْمَک مَا حَدَّثْتنِی إنْ دَعَوْتُہُمْ إلَیْک؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ: ہَیَّا یَامَعْشَرَ بَنِی کَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ ہَلُمَّ ، قَالَ : فَتَنَفَّضَتِ الْمَجَالِسُ ، فَجَاؤُوا حَتَّی جَلَسُوا إلَیْہِمَا ، فَقَالَ لَہُ : حَدِّثْ قَوْمَک مَا حَدَّثْتنِی ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی أُسْرِیَ بِی اللَّیْلَۃَ ، قَالُوا : إلَی أَیْنَ ؟ قَالَ : إلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، قَالُوا : ثُمَّ أَصْبَحْت بَیْنَ ظَہْرَانِینَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَبَیْنَ مُصَفِّقٍ وَبَیْنَ وَاضِعٍ یَدَہُ عَلَی رَأْسِہِ مُتَعَجِّبًا لِلْکَذِبِ - زَعَمَ -! وَقَالُوا لِی : أَتَسْتَطِیعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا الْمَسْجِدَ ؟ قَالَ : وَفِی الْقَوْمِ مَنْ قَدْ سَافَرَ إلَی ذَلِکَ الْبَلَدِ وَرَأَی الْمَسْجِدَ ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَذَہَبْت أَنْعَتُ لَہُمْ ، فَمَا زِلْت أَنْعَتُ لَہُمْ وَأَنْعَتُ حَتَّی الْتَبَسَ عَلَیَّ بَعْضُ النَّعْتِ ، فَجِیئَ بِالْمَسْجِدِ وَأَنَا أَنْظُرُ إلَیْہِ حَتَّی وُضِعَ دُونَ دَارِ عَقِیْلٍ - أَوْ دَارِ عِقَاْل - ، فَنَعَتُّہُ وَأَنَا أَنْظُرُ إلَیْہِ ، فَقَالَ : الْقَوْمُ : أَمَّا النَّعْتُ فَوَاللہِ قَدْ أَصَابَ۔ (نسائی ۱۱۲۸۵۔ احمد ۳۰۹)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৫৮
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٥٩) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دوران کہ جبرائیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے اپنے اوپر ٹوٹنے کی آواز سنی، آپ نے سر اٹھایا تو فرمایا کہ آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا، چنانچہ آپ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ آپ کو دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کئے گئے، سورة الفاتحۃ اور سورة البقرہ کی آخری آیات، آپ ان میں سے جس حرف کو پڑھیں گے آپ کو عطا کردیا جائے گا۔
(۳۲۳۵۹) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بَیْنَمَا جِبْرِیلُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذْ سَمِعَ نَقِیضًا مِنْ فَوْقِہِ فَرَفَعَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : لَقَدْ فُتِحَ بَابٌ مِنَ السَّمَائِ مَا فُتِحَ قَطُّ ، قَالَ : فَأَتَاہُ مَلَکٌ ، فَقَالَ : أَبْشِرْ بِنُورَیْنِ أُوتِیتہمَا لَمْ یُعْطَہُمَا مَنْ کَانَ قَبْلَک : فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیمُ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ ، لَمْ تَقْرَأْ مِنْہَا حَرْفًا إلاَّ أُعْطِیتہ۔
(مسلم ۵۵۴۔ حاکم ۵۵۸)
(مسلم ۵۵۴۔ حاکم ۵۵۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৫৯
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٠) عبداللہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں ایک رات حضرت ابو بردہ کے پاس تھا کہ حارث بن أقیش ہمارے پاس آئے، اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں بعض لوگ ایسے ہوں گے جن کی شفاعت سے قبیلہ مضر کے لوگوں سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔
(۳۲۳۶۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، فَدَخَلَ عَلَیْنَا الْحَارِثُ بْنُ أُقَیْشٍ فَحَدَّثَ الْحَارِثُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ مِنْ أُمَّتِی مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِشَفَاعَتِہِ أَکْثَرُ مِنْ مُضَرَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬০
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦١) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں بعض لوگ ایسے ہوں گے جو کسی آدمی اور اس کے اہل بیت کے لیے شفاعت کریں گے اور وہ اس کی شفاعت سے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔
(۳۲۳۶۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَطِیَّۃُ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ مِنْ أُمَّتِی مَنْ یَشْفَعُ لِلرَّجُلِ وَلأَہْلِ بَیْتِہِ فَیَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِشَفَاعَتِہِ۔
(ترمذی ۲۴۴۰۔ احمد ۶۳)
(ترمذی ۲۴۴۰۔ احمد ۶۳)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬১
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٢) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ کے راستے میں اتنی اذیتیں دی گئیں جتنی کسی کو نہیں دی گئیں، اور مجھے اللہ کے بارے میں اتنا ڈرایا گیا جتنا کسی اور کو نہیں ڈرایا گیا، اور ہم پر تیسری رات ایسی آئی کہ میرے اور بلال کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کو کوئی کلیجہ رکھنے والا شخص کھائے، سوائے اس کے جس کو بلال کی بغل چھپالے۔
(۳۲۳۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ أُوذِیت فِی اللہِ وَمَا یُؤْذَی أَحَد ، وَلَقَدْ أُخِفْت فِی اللہِ وَمَا یُخَافُ أَحَد ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَیَّ ثَالِثَۃٌ مَا بَیْنَ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ مَا لِی وَلِبِلاَلٍ طَعَامٌ یَأْکُلُہُ ذُو کَبِدٍ إلاَّ مَا وَارَاہُ إبِطُ بِلاَلٍ۔ (ابن ماجہ ۱۵۱۔ احمد ۱۲۰)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬২
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٣) حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں مکہ میں ایسے پتھر کو پہچانتا ہوں جو مجھے میری بعثت سے پہلے سلام کرتا تھا، میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں۔
(۳۲۳۶۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی إبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنِّی لاَعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّۃَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ ، إنِّی لأعْرِفُہُ الآنَ۔ (مسلم ۱۷۸۲۔ ترمذی ۳۶۲۴)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬৩
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٤) حضرت عبد الرحمن بن سابط فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بہترین صورت میں تجلی فرمائی اور مجھ سے سوال کیا کہ ملأ اعلیٰ کس چیز کے بارے میں جھگڑتے ہیں ، میں نے عرض کیا اے میرے رب ! مجھے اس کا علم نہیں، کہتے ہیں کہ پھر اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں پائی، یا فرمایا کہ اللہ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے کندھوں کے درمیان پائی، اور مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کیا اس کو میں نے جان لیا۔
(۳۲۳۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ اللَّہَ تَجَلَّی لِی فِی أَحْسَنِ صُورَۃٍ فَسَأَلَنِی : فِیمَ اخْتَصَمَ الْمَلاَ الأَعْلَی؟ قَالَ : فَقُلْتُ : رَبِّی لاَ عِلْمَ لِی بِہِ ، قَالَ : فَوَضَعَ یَدَہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَہَا بَیْنَ ثَدْیَیَّ ، أَوْ وَضَعَہَا بَیْنَ ثَدْیَیَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَہَا بَیْنَ کَتِفَیَّ ، فَمَا سَأَلَنِی عَنْ شَیْئٍ إلاَّ عَلِمْتہ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬৪
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٥) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ نے مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آپ کو بلانے کے لیے بھیجا ، چنانچہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا جبکہ آپ لوگوں کے ساتھ تھے، آپ نے مجھے دیکھا تو میں شرمایا، اور میں نے عرض کیا کہ ابو طلحہ کے پاس چلیے، آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو، ابو طلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! میں نے تو صرف آپ کے لیے چیز تیار کی تھی، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ہاتھ لگایا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، اور فرمایا کہ میرے دس صحابہ کو بلاؤ، انھوں نے کھایا یہاں تک کہ سیر ہوگئے، چنانچہ آپ مسلسل دس کو بلاتے اور دس کو فارغ کرتے رہے یہاں تک کہ کوئی نہ بچا جو کھانا کھا کر سیر نہ ہوگیا ہو، پھر آپ نے اس کو برابر کیا تو وہ اتنا ہی تھا جتنا کھانے سے پہلے تھا۔
(۳۲۳۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : بَعَثَنِی أَبُو طَلْحَۃَ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَدْعُوَہُ ، قَالَ : فَأَقْبَلْت وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ ، قَالَ : فَنَظَرَ إلَیَّ فَاسْتَحْیَیْت فَقُلْتُ : أَجِبْ أَبَا طَلْحَۃَ ، فَقَالَ لِلنَّاسِ : قُومُوا ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّمَا صَنَعْت شَیْئًا لَک ، قَالَ : فَمَسَّہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَدَعَا فِیہَا بِالْبَرَکَۃِ ، وَقَالَ : أَدْخِلْ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِی عَشْرَۃً ، فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ، فَمَا زَالَ یُدْخِلُ عَشْرَۃٌ وَیُخْرِجُ عَشْرَۃٌ ، حَتَّی لَمْ یَبْقَ مِنْہُمْ أَحَدٌ إلاَّ دَخَلَ فَأَکَلَ حَتَّی شَبِعَ ، ثُمَّ ہَیَّأَہَا فَإِذَا ہِیَ مِثْلُہَا حِینَ أَکَلُوا مِنْہَا۔
(مسلم ۱۶۱۲۔ احمد ۲۱۸)
(مسلم ۱۶۱۲۔ احمد ۲۱۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬৫
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٦) حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا اور لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا، وہ ایک دوسرے کے بعد صبح سے دوپہر تک آ کر کھاتے رہے ، ایک جماعت اٹھتی اور دوسری بیٹھ جاتی، ایک آدمی نے پوچھا اے سمرہ ! کیا وہ بڑھ رہا تھا ؟ سمرہ نے فرمایا کہ بھلا ہمیں کس چیز پر تعجب ہوتا، وہ تو وہاں سے بڑھ رہا تھا اور انھوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
(۳۲۳۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، عَنْ سَمُرَۃََ بْنِ جُنْدُبٍ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِقَصْعَۃٍ مِنْ ثَرِیدٍ فَوُضِعَتْ بَیْنَ یَدَیَ الْقَوْمِ فَتَعَاقَبُوہَا إلَی الظُّہْرِ مِنْ غَدْوَۃٍ ، یَقُومُ قَوْمٌ وَیَجْلِسُ آخَرُونَ ، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا سَمُرَۃُ أَکَانَتْ تُمَدُّ ؟ قَالَ سَمُرَۃُ : مِنْ أَیِّ شَیْئٍ کُنَّا نَعْجَبُ ؟ مَا کَانَتْ تُمَدُّ إلاَّ مِنْ ہَاہُنَا وَأَشَارَ بِیَدِہِ إلَی السَّمَائِ۔ (ترمذی ۳۶۲۵۔ احمد ۱۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬৬
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٧) ایمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث بیان کریں جو آپ نے ان سے سنی ہو میں اس کو آپ کے حوالے سے روایت کروں گا، حضرت جابر نے فرمایا کہ ہم خندق کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خندق کھود رہے تھے، چنانچہ ہم نے تین دن نہ کچھ کھایا اور نہ اس پر قادر تھے، چنانچہ خندق میں ایک چٹان آڑے آگئی، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ چٹان خندق میں آڑھے آگئی ہے، ہم نے اس پر پانی چھڑکا، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا، آپ نے کدال کو یا پھاوڑے کو پکڑا، پھر تین مرتبہ بسم اللہ پڑھی ، پھر اس پر ضرب لگائی تو وہ ریت کی طرح ہوگیا۔
(٢) جب میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حالت دیکھی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئے، آپ نے مجھے اجازت دی، میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تجھے تیری ماں روئے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر مجھے صبر نہیں آتا، تمہارے پاس کیا ہے ؟ انھوں نے کہا میرے پاس ایک صاع جو اور بکری کا چھ ماہ کا بچہ ہے، کہتے ہیں کہ ہم نے جو کو ٹے اور بکری کو ذبح کیا، اور ہم نے اس کی کھال اتاری اور اس کو ہنڈیا میں ڈال دیا اور جو کا آٹا گوندھا پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور ایک گھڑی ٹھہرا اور پھر آپ سے اجازت طلب کی آپ نے اجازت دے دی، پھر میں آیا تو آٹا تیار تھا، میں نے اس کو روٹیاں پکانے کا کہا اور ہنڈیا کو چولہے پر چڑھایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر سرگوشی کی ، میں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تھوڑا سا کھانا ہے، اگر آپ اور آپ کے ساتھ ایک یا دو آدمی میرے ساتھ شریک آجائیں تو بہتر ہے، آپ نے پوچھا کہ وہ کتنا ہے ؟ میں نے عرض کیا ایک صاع جو اور ایک بکری کا بچہ ہے، آپ نے فرمایا اپنے گھر جاؤ اور گھر والوں سے کہو کہ ہنڈیا کو چولہے سے نہ اتاریں اور روٹیوں کو تنور سے نہ نکالیں یہاں تک کہ میں آ جاؤں۔
(٣) پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جابر کے گھر کی طرف چلو ، کہتے ہیں کہ مجھے ایسی شرم آئی کہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تیری ماں تجھے روئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے گھر تمام صحابہ کے ساتھ آ رہے ہیں، اس نے کہا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم سے کھانے کا پوچھا تھا ؟ میں نے کہا جی ہاں ! اس نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے ان کو اپنا کھانا بتلا دیا ہے، میری پریشانی کم ہوگئی اور میں نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔
(٤) کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور اندر داخل ہوگئے اور آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ہجوم نہ کرو، پھر آپ نے تنور اور ہنڈیا پر برکت کی دعا فرمائی، اور ہم تنور سے روٹی اور ہنڈیا سے گوشت لیتے رہے اور ثرید بنا کر لوگوں کو پیش کرتے رہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک پیالے پر سات یا آٹھ آدمی بیٹھیں ، جب انھوں نے کھالیا تو ہم نے تنور سے پردہ ہٹایا اور ہنڈیا سے ڈھکن اٹھایا، تو وہ پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے تھے، پھر ہم ثرید کرتے اور چمچ بھر کر اس میں ڈالتے اور ان کے قریب کرتے اور ایسا ہی کرتے رہے، جب بھی تنور کھولتے اور ہنڈیا کھولتے ان کو پہلے سے زیادہ بھرا ہوا پاتے، یہاں تک کہ تمام مسلمان سیر ہوگئے ، اور کھانا بھی بچ گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے فرمایا کہ لوگوں کو بھوک لگی ہے اس لیے تم کھاؤ اور کھلاؤ، کہتے ہیں کہ ہم سارا دن کھاتے اور کھلاتے رہے، کہتے ہیں کہ ہم اس وقت آٹھ سو یا تین سو تھے۔
(٢) جب میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حالت دیکھی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئے، آپ نے مجھے اجازت دی، میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تجھے تیری ماں روئے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر مجھے صبر نہیں آتا، تمہارے پاس کیا ہے ؟ انھوں نے کہا میرے پاس ایک صاع جو اور بکری کا چھ ماہ کا بچہ ہے، کہتے ہیں کہ ہم نے جو کو ٹے اور بکری کو ذبح کیا، اور ہم نے اس کی کھال اتاری اور اس کو ہنڈیا میں ڈال دیا اور جو کا آٹا گوندھا پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور ایک گھڑی ٹھہرا اور پھر آپ سے اجازت طلب کی آپ نے اجازت دے دی، پھر میں آیا تو آٹا تیار تھا، میں نے اس کو روٹیاں پکانے کا کہا اور ہنڈیا کو چولہے پر چڑھایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر سرگوشی کی ، میں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تھوڑا سا کھانا ہے، اگر آپ اور آپ کے ساتھ ایک یا دو آدمی میرے ساتھ شریک آجائیں تو بہتر ہے، آپ نے پوچھا کہ وہ کتنا ہے ؟ میں نے عرض کیا ایک صاع جو اور ایک بکری کا بچہ ہے، آپ نے فرمایا اپنے گھر جاؤ اور گھر والوں سے کہو کہ ہنڈیا کو چولہے سے نہ اتاریں اور روٹیوں کو تنور سے نہ نکالیں یہاں تک کہ میں آ جاؤں۔
(٣) پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جابر کے گھر کی طرف چلو ، کہتے ہیں کہ مجھے ایسی شرم آئی کہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تیری ماں تجھے روئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے گھر تمام صحابہ کے ساتھ آ رہے ہیں، اس نے کہا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم سے کھانے کا پوچھا تھا ؟ میں نے کہا جی ہاں ! اس نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے ان کو اپنا کھانا بتلا دیا ہے، میری پریشانی کم ہوگئی اور میں نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔
(٤) کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور اندر داخل ہوگئے اور آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ہجوم نہ کرو، پھر آپ نے تنور اور ہنڈیا پر برکت کی دعا فرمائی، اور ہم تنور سے روٹی اور ہنڈیا سے گوشت لیتے رہے اور ثرید بنا کر لوگوں کو پیش کرتے رہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک پیالے پر سات یا آٹھ آدمی بیٹھیں ، جب انھوں نے کھالیا تو ہم نے تنور سے پردہ ہٹایا اور ہنڈیا سے ڈھکن اٹھایا، تو وہ پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے تھے، پھر ہم ثرید کرتے اور چمچ بھر کر اس میں ڈالتے اور ان کے قریب کرتے اور ایسا ہی کرتے رہے، جب بھی تنور کھولتے اور ہنڈیا کھولتے ان کو پہلے سے زیادہ بھرا ہوا پاتے، یہاں تک کہ تمام مسلمان سیر ہوگئے ، اور کھانا بھی بچ گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے فرمایا کہ لوگوں کو بھوک لگی ہے اس لیے تم کھاؤ اور کھلاؤ، کہتے ہیں کہ ہم سارا دن کھاتے اور کھلاتے رہے، کہتے ہیں کہ ہم اس وقت آٹھ سو یا تین سو تھے۔
(۳۲۳۶۷) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَیْمَنَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قلْت لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : حَدِّثْنِی بِحَدِیثٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعْتہ مِنْہُ أَرْوِیہِ عَنْک ، فَقَالَ جَابِرٌ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فِیہِ فَلَبِثْنَا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ لاَ نَطْعَمُ طَعَامًا ، وَلاَ نَقْدِرُ عَلَیْہِ ، فَعَرَضَتْ فِی الْخَنْدَقِ کُدْیَۃٌ ، فَجِئْت إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَذِہِ کُدْیَۃٌ قَدْ عَرَضَتْ فِی الْخَنْدَقِ ، فَرَشَشْنَا عَلَیْہَا الْمَائَ ، قَالَ : فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَطْنُہُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ ، فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ ، أَوِ الْمِسْحَاۃَ ، ثُمَّ سَمَّی ثَلاَثًا ، ثُمَّ ضَرَبَ ، فَعَادَتْ کَثِیبًا أَہْیَلَ۔
فَلَمَّا رَأَیْت ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ائْذَنْ لِی ، فَأَذِنَ لِی ، فَجِئْت امْرَأَتِی ، فَقُلْتُ : ثَکِلَتْک أُمُّکِ ، قَدْ رَأَیْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا لاَ أَصْبِرُ عَلَیْہِ ، فَمَا عِنْدَکِ ؟ قَالَتْ : عِنْدِی صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ ، وَعَنَاقٌ ، قَالَ : فَطَحَنَّا الشَّعِیرَ ، وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ وَسَلَخْنَاہَا وَجَعَلْنَاہَا فِی الْبُرْمَۃِ ، وَعَجَنَّا الشَّعِیرَ ، ثُمَّ رَجَعْت إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَبِثْت سَاعَۃً ، وَاسْتَأْذَنْتہ فَأَذِنَ لِی ، فَجِئْت فَإِذَا الْعَجِینُ قَدْ أَمْکَنَ ، فَأَمَرْتہَا بِالْخَبْزِ ، وَجَعَلْت الْقِدْرَ عَلَی الأَثَافِیِّ ، ثُمَّ جِئْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتہ ، فَقُلْتُ : إنَّ عِنْدَنَا طُعَیِّمًا لَنَا ، فَإِنْ رَأَیْت أَنْ تَقُومَ مَعِی أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلاَنِ مَعَک فَعَلْت ، قَالَ : وَکَمْ ہُوَ ؟ قُلْتُ : صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ ، وَعَنَاقٌ ، قَالَ : ارْجِعْ إلَی أَہْلِکَ وَقُلْ لَہَا : لاَ تَنْزِعِ الْبُرْمَۃَ مِنَ الأَثَافِیِّ ، وَلاَ تُخْرِجِی الْخُبْزَ مِنَ التَّنُّورِ حَتَّی آتِیَ۔
ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ : قُومُوا إلَی بَیْتِ جَابِرٍ ، قَالَ : فَاسْتَحْیَیْت حَیَائً لاَ یَعْلَمُہُ إلاَّ اللَّہُ ، فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِی ثَکِلَتْک أُمُّک ، جَائَک رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِہِ أَجْمَعِینَ ، فَقَالَتْ : أَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَک عَنِ الطَّعَامِ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ ، فَقَالَتْ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَدْ أَخْبَرْتہ بِمَا کَانَ عِنْدَنَا ، قَالَ : فَذَہَبَ عَنِّی بَعْضُ مَا کُنْت أَجِدُ ، وَقُلْت لَہَا : صَدَقْت۔
قَالَ : فَجَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ ، ثُمَّ قَالَ : لاَصْحَابِہِ : لاَ تَضَاغَطُوا ، ثُمَّ بَرَکَ عَلَی التَّنُّورِ وَعَلَی الْبُرْمَۃِ ، ثُمَّ جَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنَ التَّنُّورِ الْخُبْزَ وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنَ الْبُرْمَۃِ ، فَنَثْرُدُ وَنَغْرِفُ وَنُقَرِّبُ إلَیْہِمْ ، وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِیَجْلِسْ عَلَی الصَّحْفَۃِ سَبْعَۃٌ ، أَوْ ثَمَانِیَۃٌ ، قَالَ : فَلَمَّا أَکَلُوا کَشَفْنَا التَّنُّورَ وَالْبُرْمَۃَ ، فَإِذَا ہُمَا قَدْ عَادَا إلَی أَمْلإِ مَا کَانَا ، فَنَثْرُدُ وَنَغْرِفُ وَنُقَرِّبُ إلَیْہِمْ ، فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ کَذَلِکَ ، کُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَکَشَفْنَا عَنِ الْبُرْمَۃِ وَجَدْنَاہُمَا أَمْلأَ مَا کَانَا ، حَتَّی شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ کُلُّہُمْ وَبَقِیَ طَائِفَۃٌ مِنَ الطَّعَامِ ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْہُمْ مَخْمَصَۃٌ ، فَکُلُوا وَأَطْعِمُوا۔
قَالَ : فَلَمْ نَزَلْ یَوْمَنَا نَأْکُلُ وَنُطْعِمُ ، قَالَ : وَأَخْبَرَنِی أَنَّہُمْ کَانُوا ثَمَانَمِئَۃٍ ، أَوْ ثَلاَثَمَئَۃٍ۔
(بخاری ۴۱۰۲۔ مسلم ۱۶۱۰)
فَلَمَّا رَأَیْت ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ائْذَنْ لِی ، فَأَذِنَ لِی ، فَجِئْت امْرَأَتِی ، فَقُلْتُ : ثَکِلَتْک أُمُّکِ ، قَدْ رَأَیْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا لاَ أَصْبِرُ عَلَیْہِ ، فَمَا عِنْدَکِ ؟ قَالَتْ : عِنْدِی صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ ، وَعَنَاقٌ ، قَالَ : فَطَحَنَّا الشَّعِیرَ ، وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ وَسَلَخْنَاہَا وَجَعَلْنَاہَا فِی الْبُرْمَۃِ ، وَعَجَنَّا الشَّعِیرَ ، ثُمَّ رَجَعْت إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَبِثْت سَاعَۃً ، وَاسْتَأْذَنْتہ فَأَذِنَ لِی ، فَجِئْت فَإِذَا الْعَجِینُ قَدْ أَمْکَنَ ، فَأَمَرْتہَا بِالْخَبْزِ ، وَجَعَلْت الْقِدْرَ عَلَی الأَثَافِیِّ ، ثُمَّ جِئْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتہ ، فَقُلْتُ : إنَّ عِنْدَنَا طُعَیِّمًا لَنَا ، فَإِنْ رَأَیْت أَنْ تَقُومَ مَعِی أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلاَنِ مَعَک فَعَلْت ، قَالَ : وَکَمْ ہُوَ ؟ قُلْتُ : صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ ، وَعَنَاقٌ ، قَالَ : ارْجِعْ إلَی أَہْلِکَ وَقُلْ لَہَا : لاَ تَنْزِعِ الْبُرْمَۃَ مِنَ الأَثَافِیِّ ، وَلاَ تُخْرِجِی الْخُبْزَ مِنَ التَّنُّورِ حَتَّی آتِیَ۔
ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ : قُومُوا إلَی بَیْتِ جَابِرٍ ، قَالَ : فَاسْتَحْیَیْت حَیَائً لاَ یَعْلَمُہُ إلاَّ اللَّہُ ، فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِی ثَکِلَتْک أُمُّک ، جَائَک رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِہِ أَجْمَعِینَ ، فَقَالَتْ : أَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَک عَنِ الطَّعَامِ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ ، فَقَالَتْ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَدْ أَخْبَرْتہ بِمَا کَانَ عِنْدَنَا ، قَالَ : فَذَہَبَ عَنِّی بَعْضُ مَا کُنْت أَجِدُ ، وَقُلْت لَہَا : صَدَقْت۔
قَالَ : فَجَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ ، ثُمَّ قَالَ : لاَصْحَابِہِ : لاَ تَضَاغَطُوا ، ثُمَّ بَرَکَ عَلَی التَّنُّورِ وَعَلَی الْبُرْمَۃِ ، ثُمَّ جَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنَ التَّنُّورِ الْخُبْزَ وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنَ الْبُرْمَۃِ ، فَنَثْرُدُ وَنَغْرِفُ وَنُقَرِّبُ إلَیْہِمْ ، وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِیَجْلِسْ عَلَی الصَّحْفَۃِ سَبْعَۃٌ ، أَوْ ثَمَانِیَۃٌ ، قَالَ : فَلَمَّا أَکَلُوا کَشَفْنَا التَّنُّورَ وَالْبُرْمَۃَ ، فَإِذَا ہُمَا قَدْ عَادَا إلَی أَمْلإِ مَا کَانَا ، فَنَثْرُدُ وَنَغْرِفُ وَنُقَرِّبُ إلَیْہِمْ ، فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ کَذَلِکَ ، کُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَکَشَفْنَا عَنِ الْبُرْمَۃِ وَجَدْنَاہُمَا أَمْلأَ مَا کَانَا ، حَتَّی شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ کُلُّہُمْ وَبَقِیَ طَائِفَۃٌ مِنَ الطَّعَامِ ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْہُمْ مَخْمَصَۃٌ ، فَکُلُوا وَأَطْعِمُوا۔
قَالَ : فَلَمْ نَزَلْ یَوْمَنَا نَأْکُلُ وَنُطْعِمُ ، قَالَ : وَأَخْبَرَنِی أَنَّہُمْ کَانُوا ثَمَانَمِئَۃٍ ، أَوْ ثَلاَثَمَئَۃٍ۔
(بخاری ۴۱۰۲۔ مسلم ۱۶۱۰)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬৭
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٨) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام فوت ہوئے، یا فرمایا کہ شہید ہوئے تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے قرض خواہوں پر مدد چاہی کہ وہ اپنے قرضے سے کچھ چھوڑ دیں، انھوں نے انکار کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنی کھجوروں کی ڈھیریاں لگاؤ اور پھر مجھے بتاؤ، کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور عجوہ کو علیحدہ کیا اور علیحدہ علیحدہ ڈھیریاں لگا دیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا، کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور ان کے اوپر کی طرف یا ان کے درمیان میں بیٹھ گئے پھر فرمایا کہ لوگوں کے لیے وزن کرو، میں نے وزن کیا یہاں تک کہ ان کو پورا پورا دے دیا، اور میری کھجوروں میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔
(۳۲۳۶۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : تُوُفِّیَ - أَوِ اُسْتُشْہِدَ - عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ ، فَاسْتَعَنْتُ بِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی غُرَمَائِہِ أَنْ یَضَعُوا مِنْ دَیْنِہِمْ شَیْئًا ، فَأَبَوْا ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اذْہَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَک أَصْنَافًا ، ثُمَّ أَعْلِمْنِی ، قَالَ : فَفَعَلْت فَجَعَلْتُ الْعَجْوَۃَ عَلَی حدَۃٍ ، وَصَنَّفْتہ أَصْنَافًا ، ثُمَّ أَعْلَمْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَجَائَ فَقَعَدَ عَلَی أَعْلاَہُ ، أَوْ فِی وَسَطِہِ ، ثُمَّ قَالَ : کِلْ لِلْقَوْمِ ، فَکِلْتُ لَہُمْ حَتَّی وَفَّیْتُہُمْ ، وَہِیَ تَمْرِی ، کَأَنَّہُ لَمْ یَنْقُصْ مِنْہُ شَیْئٌ۔ (بخاری ۲۱۲۷۔ احمد ۳۱۳)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬৮
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٦٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس اپنے ساتھیوں کو بلاؤ یعنی اصحاب صفہ کو، میں ایک ایک آدمی کو تلاش کرنے لگا، اور ان کو بیدار کر کے جمع کرنے لگا، پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر آئے اور اجازت چاہی آپ نے اجازت دے دی، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک پیالہ رکھا گیا جس میں ایک مد جو کے بقدر کھانا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اللہ کے نام پر لے لو، ہم نے جتنا چاہا کھایا، پھر ہم نے اپنے ہاتھ اٹھا لیے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جبکہ پیالہ رکھا گیا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے آل محمد میں اس کے علاوہ کوئی کھانا نہیں جو تم دیکھ رہے ہو، حضرت ابوہریرہ سے کہا گیا کہ جب تم فارغ ہوئے اس وقت کتنا بچا ہوا تھا ؟ انھوں نے فرمایا اتنا ہی جتنا رکھتے ہوئے تھا، مگر اس میں انگلیوں کے نشانات تھے۔
(۳۲۳۶۹) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أُنَیْسِ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا ، فَقَالَ : اُدْعُ لِی أَصْحَابَک ، یَعْنِی أَصْحَابَ الصُّفَّۃِ ، فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُہُمْ رَجُلاً رَجُلاً أُوقِظُہُمْ حَتَّی جَمَعْتُہُمْ ، فَجِئْنَا بَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَّا فَأَذِنَ لَنَا ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : وَوُضِعَتْ بَیْنَ أَیْدِینَا صَحْفَۃٌ فِیہَا صَنِیعٌ قَدْرُ مُدَّ مِنْ شَعِیرٍ ، قَالَ : فَوَضَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہُ عَلَیْہَا ، فَقَالَ : خُذُوا بِسْمِ اللہِ ، فَأَکَلْنَا مَا شِئْنَا ، ثُمَّ رَفَعْنَا أَیْدِیَنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ وُضِعَتِ الصَّحْفَۃُ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، مَا أَمْسَی فِی آلِ مُحَمَّدٍ طَعَامٌ غَیْرُ شَیْئٍ تَرَوْنَہُ ، فَقِیلَ لأَبِی ہُرَیْرَۃَ : قَدْرُ کَمْ کَانَتْ حِینَ فَرَغْتُمْ ، قَالَ : مِثْلَہَا حِینَ وُضِعَتْ إلاَّ أَنَّ فِیہَا أَثَرَ الأَصَابِعِ۔ (طبرانی ۲۹۲۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৬৯
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٧٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اھل مجلس سے فرمایا کہ کیا اس پر تم خوش ہو کہ تم اھل جنت کا ایک تہائی ہو ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر کیا تم اس پر خوش ہو کہ تم اہل جنت کا نصف ہو ؟ انھوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ پھر میری امت قیامت کے دن اہل جنت کا دو تہائی ہوگی، لوگ قیامت کے دن ایک سو بیس صفوں میں ہوں گے اور میری امت کی اسّی صفیں ہوں گی۔
(۳۲۳۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی الْجُہَنِیُّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتہ یَقُولُ : قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِجُلَسَائِہِ یَوْمًا : أَیَسُرُّکُمْ أَنْ تَکُونُوا ثُلُثَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟ قَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ: أَفَیَسُرُّکُمْ أَنْ تَکُونُوا نِصْفَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟ قَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : فَإِنَّ أُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُلُثَا أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، إنَّ النَّاسَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِشْرُونَ وَمِئَۃُ صَفٍّ ، وَإِنَّ أُمَّتِی مِنْ ذَلِکَ ، ثَمَانُونَ صَفًّا۔
(مسلم ۲۰۰۔ احمد ۴۵۳)
(مسلم ۲۰۰۔ احمد ۴۵۳)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৭০
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٧١) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، اور اس امت کی اسّی صفیں ہوں گی۔
(۳۲۳۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ضِرَارِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَہْلُ الْجَنَّۃِ عِشْرُونَ وَمِئَۃُ صَفٍّ ، ہَذِہِ الأُمَّۃُ مِنْہَا ثَمَانُونَ صَفًّا۔ (ترمذی ۲۵۴۶۔ احمد ۳۴۷)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৭১
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٧٢) حضرت ابو امامہ باھلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ایسے ستر ہزار کو جنت میں داخل فرمائیں گے کہ ہر ہزار کے ساتھ ایسے ستر ہزار ہوں گے جن پر کوئی حساب ہوگا نہ عذاب، پھر میرے رب کی تین لپیں ہوں گی۔
(۳۲۳۷۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : وَعَدَنِی رَبِّی أَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعِینَ أَلْفًا ، مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا، لاَ حِسَابَ عَلَیْہِمْ ، وَلاَ عَذَابَ، وَثَلاَثُ حَثَیَاتٍ مِنْ حَثَیَاتِ رَبِّی۔ (ترمذی ۲۴۳۷۔ احمد ۲۵۰)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৭২
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٧٣) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے جنت کے ایک چوتھائی حصّے کے بارے میں، کہ تمہارے لیے اس کا ایک چوتھائی اور بقیہ لوگوں کے لیے تین چوتھائی ہو ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، پھر فرمایا کہ پھر جنت کے ایک تہائی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ انھوں نے کہا کہ یہ تو بہت ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ تم نصف کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ انھوں نے کہا کہ یہ تو بہت ہی زیادہ ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت قیامت کے دن ایک سو بیس صفوں میں ہوں گے اور تم اسّی صفوں میں ہو گے۔
(۳۲۳۷۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ حَصِیرَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَیْفَ أَنْتُمْ وَرُبُعُ الْجَنَّۃِ ، لَکُمْ رُبُعُہَا ، وَلِسَائِرِ النَّاسِ ثَلاَثَۃُ أَرْبَاعِہَا ، قَالَ : فَقَالُوا : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : فَکَیْفَ أَنْتُمْ وَثُلُثُہَا ، قَالُوا : فَذَاکَ کَثِیرٌ ، قَالَ : فَکَیْفَ أَنْتُمْ وَالشَّطْرُ ، قَالُوا : فَذَاکَ أَکْثَرُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَہْلُ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِشْرُونَ وَمِئَۃُ صَفٍ ، أَنْتُمْ ثَمَانُونَ صَفًّا۔
(احمد ۴۵۳۔ ابویعلی ۵۳۳۷)
(احمد ۴۵۳۔ ابویعلی ۵۳۳۷)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৭৩
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٧٤) حضرت کعب فرماتے ہیں کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی اور اس امت کی اسّی صفیں ہوں گی۔
(۳۲۳۷۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بُدَیْلٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِیقٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : أَہْلُ الْجَنَّۃِ عِشْرُونَ وَمِئَۃُ صَفٍّ ، ثَمَانُونَ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩২৩৭৪
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٧٥) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب میں سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا تو اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جتنے تھے، اس کا پھل بڑے مٹکوں کی طرح تھا، جب اس کو اللہ کے حکم سے عجیب کیفیت طاری ہوئی تو وہ بدل گیا اور مجھے یاقوت یاد آگیا۔
(۳۲۳۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَمَّا انْتَہَیْت إلَی سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی إذَا وَرَقُہَا أَمْثَالُ آذَانِ الْفِیلَۃِ وَإِذَا نَبْقُہَا أَمْثَالُ الْقِلاَلِ ، فَلَمَّا غَشِیَہَا مِنْ أَمْرِ اللہِ مَا غَشِیَہَا تَحَوَّلَتْ فَذَکَرْت الْیَاقُوتَ۔ (بخاری ۳۲۰۷۔ احمد ۱۲۸)
তাহকীক: