সুনানুদ্দারিমী (উর্দু)
مسند الدارمي (سنن الدارمي)
مقدمہ دارمی - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৬৪৭ টি
হাদীস নং: ৪১
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ عزت افزائی کرنا (یعنی آپ کے ذریعے یہ معجزہ ظاہر کرنا کہ آپ کی انگلیوں میں سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے۔
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن کھڑے ہوا کرتے تھے آپ اپنی پشت مسجد میں موجود ایک تنے سے ٹکا لیتے تھے اور خود لوگوں کو خطبہ دیتے تھے ایک رومی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں آپ کے لیے ایسی چیز نہ بنادوں جس پر آپ تشریف فرما ہوجایا کریں اور یوں ہی ہوگا جیسے آپ کھڑے ہوں اس شخص نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے منبر بنایا جس کی دوسیڑھیاں تھیں اور تیسری سیڑھی پر آپ تشریف فرما ہوجایا کرتے تھے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس منبر پر تشریف فرما ہوئے تو لکڑی کے اس تنے نے بیل کی مانند آواز نکالنا شروع کردی۔ یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدائی کی وجہ سے تھی۔ یہاں تک کہ پوری مسجد میں اس کی آواز گونج گئی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے اور اس کے پاس آئے۔ آپ نے اسے لپٹا لیا وہ رو رہا تھا۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے لپٹا لیا تو اسے سکون آیا۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر میں اسے نہ لپٹاتا تو یہ قیامت تک اسی حالت میں رہتا۔ راوی کہتے ہیں اللہ کے رسول کی جدائی کی وجہ سے ایسا ہوتا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے تحت اس کو دفن کردیا گیا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَيُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَى جِذْعٍ مَنْصُوبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَيَخْطُبُ النَّاسَ فَجَاءَهُ رُومِيٌّ فَقَالَ أَلَا أَصْنَعُ لَكَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَكَأَنَّكَ قَائِمٌ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا لَهُ دَرَجَتَانِ وَيَقْعُدُ عَلَى الثَّالِثَةِ فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمِنْبَرِ خَارَ الْجِذْعُ كَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّى ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمِنْبَرِ فَالْتَزَمَهُ وَهُوَ يَخُورُ فَلَمَّا الْتَزَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَكَنَ ثُمَّ قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْهُ لَمَا زَالَ هَكَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِنَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৪২
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ آپ کے کھانے میں برکت کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بزرگی عطا کی گئی۔
عبدالواحد اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں نے حضرت جابربن عبداللہ سے عرض کی کہ آپ مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنا ہو۔ تاکہ میں اسے آپ کے حوالے سے روایت کرسکوں۔ حضرت جابر نے جواب دیا : غزوہ خندق کے موقع پر ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خندق کھود رہے تھے۔ تین دن تک ہم نے کھانا نہیں کھایا۔ کھانے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ خندق میں ایک سخت پتھر آگیا۔ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ یہ ایک پتھر آگیا ہے جو خندق میں ہے۔ ہم نے اس پر پانی چھڑکا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا آپ نے پھاؤڑے یا شاید کدال کو پکڑا اور تین مرتبہ اللہ کا نام لے کر ضرب لگائی تو وہ ریت کے ٹیلے کی مانند ہوگیا۔ جب میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ کیفیت دیکھی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول۔ آپ اجازت دیں حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں آپ نے مجھے اجازت دی میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تمہاری ماں تمہیں روئے۔ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس عالم میں دیکھا کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا کیا تمہارے پاس کھانا پکانے کے لیے کچھ ہے۔ اس نے جواب دیا۔ میرے پاس جو کا ایک صاع ہے۔ اور ایک بکری کا بچہ ہے حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے اس جو کو پیسا اور اس بکری کو ذبح کیا میں نے اس کی کھال اتاری اور اسے ہنڈیا میں رکھ دیا میں نے اس جو کو گوندھا۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں واپس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کچھ دیر وہاں رہنے کے بعد میں نے آپ سے اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت عطا کردی۔ میں گھر آیا وہ آٹا ٹھہر چکا تھا میں نے اپنی بیوی کو روٹی پکانے کا حکم دیا اور ہنڈیا کو چولہے پر رکھ دیا۔ امام ابوعبدالرحمن کہتے ہیں روایت کا صحیح لفظ اثافی ہے تاہم اس روایت میں یہی منقول ہے۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں پھر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہمارے ہاں تھوڑا سا کھانا موجود ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ میرے ساتھ چلیں آپ کے ساتھ ایک یا دو اور صاحبان ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وہ کھانا کتنا ہے میں نے عرض کیا جو کا ایک صاع اور ایک بکری کا بچہ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم اپنی بیوی کے پاس واپس جاؤ اور اسے یہ ہدایت کردو کہ چولہے سے ہنڈیا نہ اتارنا جب تک میں نہ آجاؤں تندور سے روٹیاں بھی نہ نکالے۔ پھر آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جابر (رض) کے گھر کی طرف چلو۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں مجھے اتنی حیاء محسوس ہوئی کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہوسکتا ہے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہاری ماں تمہیں روئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تمام اصحاب کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں میری بیوی نے مجھ سے دریافت کیا کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تھا کہ کھانا کتنا ہے میں نے جواب دیا ہاں۔ وہ بولی اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ علم رکھتے ہیں۔ تم نے انھیں بتادیا تھا کہ ہمارے پاس کتنا کھانا موجود ہے۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں یہ سن کر میری الجھن کچھ کم ہوئی اور میں نے کہا تم نے ٹھیک کہا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ آپ اندر تشریف لائے۔ پھر آپ نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا ہجوم کی شکل میں نہ آؤ۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندور کے پاس اور ہنڈیا کے پاس بیٹھ گئے اور برکت کی دعا کی۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے تندور میں سے روٹیاں نکالنی شروع کی اور ہنڈیا میں سے گوشت نکالنا شروع کیا اور اس کا ثرید بنانا شروع کردیا اور لوگوں کو ڈال کردینا شروع کردیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ایک پیالے کے اوپر سات یا آٹھ افراد بیٹھ جائیں تو ہم نے تندور سے پردہ ہٹایا اور ہنڈیا سے ڈھکن اٹھایا۔ وہ پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے تھے۔ ہم اسی طرح کرتے رہے جب بھی ہم تندور کھولتے ہنڈیا سے ڈھکن اٹھاتے وہ پہلے سے زیادہ بھرا ہوا پاتے۔ یہاں تک کہ تمام مسلمانوں نے کھانا کھالیا اور کچھ کھانا پھر باقی رہ گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے کہا لوگ فاقہ کشی کا شکار تھے اس لیے میں انھیں اپنے ساتھ لے آیا اب تم کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اس دن کے بعد ہم خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے مجھے بتایا اس وقت ان لوگوں کی تعداد آٹھ سو تھی۔ (راوی کو شک ہے یا شاید) یہ الفاظ ہیں تین سو تھی۔ ایمن نامی راوی کہتے ہیں مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا لفظ منقول تھا۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں پھر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہمارے ہاں تھوڑا سا کھانا موجود ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ میرے ساتھ چلیں آپ کے ساتھ ایک یا دو اور صاحبان ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وہ کھانا کتنا ہے میں نے عرض کیا جو کا ایک صاع اور ایک بکری کا بچہ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم اپنی بیوی کے پاس واپس جاؤ اور اسے یہ ہدایت کردو کہ چولہے سے ہنڈیا نہ اتارنا جب تک میں نہ آجاؤں تندور سے روٹیاں بھی نہ نکالے۔ پھر آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جابر (رض) کے گھر کی طرف چلو۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں مجھے اتنی حیاء محسوس ہوئی کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہوسکتا ہے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہاری ماں تمہیں روئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تمام اصحاب کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں میری بیوی نے مجھ سے دریافت کیا کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تھا کہ کھانا کتنا ہے میں نے جواب دیا ہاں۔ وہ بولی اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ علم رکھتے ہیں۔ تم نے انھیں بتادیا تھا کہ ہمارے پاس کتنا کھانا موجود ہے۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں یہ سن کر میری الجھن کچھ کم ہوئی اور میں نے کہا تم نے ٹھیک کہا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ آپ اندر تشریف لائے۔ پھر آپ نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا ہجوم کی شکل میں نہ آؤ۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندور کے پاس اور ہنڈیا کے پاس بیٹھ گئے اور برکت کی دعا کی۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے تندور میں سے روٹیاں نکالنی شروع کی اور ہنڈیا میں سے گوشت نکالنا شروع کیا اور اس کا ثرید بنانا شروع کردیا اور لوگوں کو ڈال کردینا شروع کردیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ایک پیالے کے اوپر سات یا آٹھ افراد بیٹھ جائیں تو ہم نے تندور سے پردہ ہٹایا اور ہنڈیا سے ڈھکن اٹھایا۔ وہ پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے تھے۔ ہم اسی طرح کرتے رہے جب بھی ہم تندور کھولتے ہنڈیا سے ڈھکن اٹھاتے وہ پہلے سے زیادہ بھرا ہوا پاتے۔ یہاں تک کہ تمام مسلمانوں نے کھانا کھالیا اور کچھ کھانا پھر باقی رہ گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے کہا لوگ فاقہ کشی کا شکار تھے اس لیے میں انھیں اپنے ساتھ لے آیا اب تم کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اس دن کے بعد ہم خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے مجھے بتایا اس وقت ان لوگوں کی تعداد آٹھ سو تھی۔ (راوی کو شک ہے یا شاید) یہ الفاظ ہیں تین سو تھی۔ ایمن نامی راوی کہتے ہیں مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا لفظ منقول تھا۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَيْمَنَ الْمَكِّيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ أَرْوِيهِ عَنْكَ فَقَالَ جَابِرٌ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفُرُهُ فَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ لَا نَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا نَقْدِرُ عَلَيْهِ فَعَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ كُدْيَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ كُدْيَةٌ قَدْ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ فَرَشَشْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ أَوْ الْمِسْحَاةَ ثُمَّ سَمَّى ثَلَاثًا ثُمَّ ضَرَبَ فَعَادَتْ كَثِيبًا أَهْيَلَ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ايْذَنْ لِي قَالَ فَأَذِنَ لِي فَجِئْتُ امْرَأَتِي فَقُلْتُ ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ فَقُلْتُ قَدْ رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَا صَبْرَ لِي عَلَيْهِ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَتْ عِنْدِي صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَعَنَاقٌ قَالَ فَطَحَنَّا الشَّعِيرَ وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ وَسَلَخْتُهَا وَجَعَلْتُهَا فِي الْبُرْمَةِ وَعَجَنْتُ الشَّعِيرَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَبِثْتُ سَاعَةً ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُهُ الثَّانِيَةَ فَأَذِنَ لِي فَجِئْتُ فَإِذَا الْعَجِينُ قَدْ أَمْكَنَ فَأَمَرْتُهَا بِالْخَبْزِ وَجَعَلْتُ الْقِدْرَ عَلَى الْأَثَاثِي قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّمَا هِيَ الْأَثَافِيُّ وَلَكِنْ هَكَذَا قَالَ ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ عِنْدَنَا طُعَيِّمًا لَنَا فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَقُومَ مَعِي أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ مَعَكَ فَقَالَ وَكَمْ هُوَ قُلْتُ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَعَنَاقٌ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ وَقُلْ لَهَا لَا تَنْزِعْ الْقِدْرَ مِنْ الْأَثَافِيِّ وَلَا تُخْرِجْ الْخُبْزَ مِنْ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ قُومُوا إِلَى بَيْتِ جَابِرٍ قَالَ فَاسْتَحْيَيْتُ حَيَاءً لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ قَدْ جَاءَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ فَقَالَتْ أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَكَ كَمْ الطَّعَامُ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَدْ أَخْبَرْتَهُ بِمَا كَانَ عِنْدَنَا قَالَ فَذَهَبَ عَنِّي بَعْضُ مَا كُنْتُ أَجِدُ وَقُلْتُ لَقَدْ صَدَقْتِ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ لَا تَضَاغَطُوا ثُمَّ بَرَّكَ عَلَى التَّنُّورِ وَعَلَى الْبُرْمَةِ قَالَ فَجَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنْ التَّنُّورِ الْخُبْزَ وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنْ الْبُرْمَةِ فَنُثَرِّدُ وَنَغْرِفُ لَهُمْ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَجْلِسْ عَلَى الصَّحْفَةِ سَبْعَةٌ أَوْ ثَمَانِيَةٌ فَإِذَا أَكَلُوا كَشَفْنَا عَنْ التَّنُّورِ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ فَإِذَا هُمَا أَمْلَأُ مَا كَانَا فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ وَجَدْنَاهُمَا أَمْلَأَ مَا كَانَا حَتَّى شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ كُلُّهُمْ وَبَقِيَ طَائِفَةٌ مِنْ الطَّعَامِ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْهُمْ مَخْمَصَةٌ فَكُلُوا وَأَطْعِمُوا فَلَمْ نَزَلْ يَوْمَنَا ذَلِكَ نَأْكُلُ وَنُطْعِمُ قَالَ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُمْ كَانُوا ثَمَانَ مِائَةٍ أَوْ قَالَ ثَلَاثَ مِائَةٍ قَالَ أَيْمَنُ لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا قَالَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৩
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ آپ کے کھانے میں برکت کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بزرگی عطا کی گئی۔
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں حضرت ابوطلحہ نے اپنی اہلیہ ام سلیم کو ہدایت کی کہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کھانا تیار کریں تاکہ آپ اسے کھاسکیں۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں۔ پھر حضرت ابوطلحہ نے مجھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ حضرت ابوطلحہ نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پاس موجود حضرات کو حکم دیا اٹھو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل پڑے۔ آپ کے ساتھ دیگرحاضرین بھی تھے۔ (جب آپ تشریف لائے) تو حضرت ابوطلحہ نے عرض کی ' یا رسول اللہ میں نے تو آپ کے لیے کھانا پکایا تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : تم پریشان نہ ہو۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روانہ ہوئے لوگ بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں جب کھانا لایا گیا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست اقدس اس پر رکھا اور اس پر بسم اللہ پڑھ کر ارشاد فرمایا دس آدمیوں کو اندر آنے دو ۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں حضرت طلحہ نے دس آدمیوں کو اندر آنے دیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو۔ ان لوگوں نے کھانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ سیر ہوگئے اور اٹھ کر چلے گئے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست اقدس رکھ کر وہی عمل کیا جو پہلے کیا تھا اور اس پر اللہ کا نام لیا۔ پھر ارشاد فرمایا دس آدمیوں کوا ندر آنے کے لیے کہو۔ حضرت ابوطلحہ انھیں اندر لے آئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو۔ ان لوگوں نے کھانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ سیر ہوگئے تو اٹھ کر چلے گئے۔ یہاں تک کہ اسی (80) افراد نے کھانا کھالیا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور گھر میں موجود تمام افراد نے بھی وہ کھانا کھایا پھر بھی باقی بچ گیا۔
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَمَرَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ أَنْ تَجْعَلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا يَأْكُلُ مِنْهُ قَالَ ثُمَّ بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ بَعَثَنِي إِلَيْكَ أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ لِلْقَوْمِ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ مَعَهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا صَنَعْتُ طَعَامًا لِنَفْسِكَ خَاصَّةً فَقَالَ لَا عَلَيْكَ انْطَلِقْ قَالَ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ قَالَ فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَسَمَّى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ قَالَ فَأَذِنَ لَهُمْ فَقَالَ كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ قَامُوا ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ كَمَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى وَسَمَّى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَقَالَ كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ قَامُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا قَالَ وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكُوا سُؤْرًا
তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৪
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ آپ کے کھانے میں برکت کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بزرگی عطا کی گئی۔
حضرت ابوعبید بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک ہنڈیا میں کھانا تیار کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا تم ایک پائے کی بوٹی دو ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پائے کی بوٹی پسند تھی۔ حضرت ابوعبید نے پائے کی بوٹی ان کی طرف بڑھا دی۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ایک پائے کی بوٹی مجھے دو ۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی ایک بکری کے کتنے پائے ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اگر تم خاموش رہتے تو جب تک میں تم سے پائے مانگتا رہتاتم دیتے رہتے۔
أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ أَنَّهُ طَبَخَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِدْرًا فَقَالَ لَهُ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ وَكَانَ يُعْجِبُهُ الذِّرَاعُ فَنَاوَلَهُ الذِّرَاعَ ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ فَنَاوَلَهُ ذِرَاعًا ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَكَمْ لِلشَّاةِ مِنْ ذِرَاعٍ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَنْ لَوْ سَكَتَّ لَأُعْطِيتُ أَذْرُعًا مَا دَعَوْتُ بِهِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৫
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ آپ کے کھانے میں برکت کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بزرگی عطا کی گئی۔
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو میرے والد عبداللہ نے کہا اے جابر (رض) تم کو اس میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ تم مدینہ کے مخالفین میں شامل ہو۔ یہاں تک تمہیں اس بات کا پتہ چل جائے کہ ہمارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا اللہ کی قسم اگر میں نے اپنے بعد بیٹیاں نہ چھوڑی ہوتیں تو مجھے یہ بات پسند تھی کہ تم میرے سامنے شہید ہوتے۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں میں مدینہ کے مخالفین میں شامل تھا۔ جب میری پھوپھی میرے والد اور میرے ماموں (کی میت) کے ساتھ آئیں تاکہ انھیں ہمارے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ایک شخص نے یہ اعلان کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ہدایت کی ہے کہ تم مقتولین کو واپس لے جاؤ اور انھیں اسی جگہ پر دفن کرو جہاں وہ شہید ہوئے ہیں۔ ہم ان دونوں کو واپس لے گئے اور ان دونوں حضرات کو وہیں دفن کیا جہاں وہ شہید ہوئے تھے ( حضرت جابر بیان کرتے ہیں) میں حضرت معاویہ بن ابوسفیان کے عہد خلافت میں ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا اے جابر بن عبداللہ حضرت معاویہ کے سرکاری اہلکاروں نے آپ کے والد کی قبر سے مٹی ہٹادی ہے۔ جس سے میت ظاہر ہوئی ہے۔ لوگوں میں سے بہت سے لوگ نکلے میں بھی وہاں گیا تو میں نے انھیں اسی حالت میں پایا جس حالت میں انھیں دفن کیا تھا اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی ' سوائے اس کے کہ قتل کی وجہ سے جو تبدیلی آنی تھی حضرت جابر کہتے ہیں میں نے ان کی قبر کو ڈھانپ دیا۔ میرے والد نے اپنے ذمہ کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا تھا قرض خواہوں نے مجھ سے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والد فلاں موقع پر شہید ہوگئے انھوں نے کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا ہے قرض خواہ مجھ سے شدت سے تقاضا کر رہے ہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے میں میری مدد کیجیے تاکہ قرض خواہ اگلی آنیوالی پیدوار تک میرے ساتھ کچھ نرمی کریں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو میں دوپہر کے قریب کسی وقت تمہارے پاس آؤں گا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں آپ تشریف لائے آپ کے ساتھ آپ کے ساتھی بھی تھے یہ سب حضرات سائے میں بیٹھ گئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی اور پھر آپ اندر تشریف لائے حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے اپنی اہلیہ سے کہا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کے وقت تشریف لائیں گے وہ تمہیں (یعنی تمہاری طرف سے کوئی ناخوشگوار بات) نہ دیکھیں گے اور تم اللہ کے رسول کو کوئی اذیت نہ ہونے دینا اور تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہونے دینا اور ان سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس عورت نے ایک بچھونا بچھا دیا اور ایک تکیہ رکھ دیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنا سر رکھا اور سو گئے۔ میں نے اپنے غلام سے کہا اس بکری کو ذبح کرو۔ یہ موٹی اور صحت مند بکری تھی اور جلدی کرنا تیزی کے ساتھ۔ تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیدار ہونے سے پہلے اس کام سے فارغ ہوجانا میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ہم نے یہ کام کیا یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگئے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت سو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول جب بیدار ہوں گے تو وہ وضو کے لیے پانی مانگیں گے مجھے یہ اندیشہ ہے کہ جب وہ فارغ ہوں گے تو اٹھ کرچلیں جائیں گے۔ لہٰذا وہ جتنی دیر میں وضو کرکے فارغ ہوتے ہیں بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا جائے۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدا ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا اے جابر (رض) وضو کے لیے پانی لاؤ میں نے عرض کیا جی ہاں پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وضو کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا گیا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا تمہیں پتا ہے کہ مجھے گوشت پسند ہے ابوبکر (رض) کو بلاؤ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو بلایا حضرت جابر بیان کرتے ہیں کھانا لا کر رکھ دیا گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک رکھا اور ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کھانا شروع کرو ان حضرات نے کھانا شروع کیا وہ سیر ہوگئے پھر بھی اس میں سے بہت سا گوشت باقی بچ گیا۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم بنوسلمہ کی محفل میں بیٹھے ہوئے لوگ ان کی طرف دیکھ رہے تھے یہ بات ان کے نزدیک ان کی آنکھوں سے زیادہ عزیز تھی وہ آپ کے قریب اس لیے نہیں آتے تھے کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے آپ کے ساتھی بھی کھڑے ہوئے وہ حضرات آپ کے آگے نکلے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے پیچھے والی جگہ فرشتوں کے لیے چھوڑ دیا کرو۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ان کے پیچھے میں بھی آیا۔ یہاں تک کہ جب ہم دروازے کی چوکھٹ تک پہنچے تو میری بیوی نے سر باہر نکال کر کہا حالانکہ وہ پردہ دار عورت تھی اے اللہ کے رسول آپ میرے لیے اور میرے شوہر کے لیے دعائے برکت کریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہارے شوہر پر برکت نازل کرے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا فلاں شخص کو بلا کر لاؤ یہ آپ نے قرض خواہ کے لیے کہا جس نے مجھ سے سختی سے مطالبہ کیا تھا پھر آپ نے حکم دیا تم جابر کو اپنے قرض میں سے کچھ چھوٹ دو جو اس کے والد کے ذمہ واجب الاداء تھا اور یہ چھوٹ اگلی پیدوار تک ہوگی اس نے عرض کیا میں یہ نہیں کرسکوں گا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں اس نے کوئی عذر بیان کیا اور بولا کہ یہ یتیموں کا مال ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا جابر (رضی اللہ عنہ) کہاں ہے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہاں ہوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے ناپ کر دیدو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کھجوروں کو پورا کردے گا پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا سورج ڈھل چکا تھا آپ نے فرمایا ابوبکر (رض) نماز کا وقت ہوگیا ہے پھر یہ حضرات مسجد کی طرف تشریف لے گئے حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قرض خواہ سے کہا تم اپنا برتن آگے لاؤ میں نے اسے ناپ کر عجوہ کھجور دیدیں تو اللہ نے ان کھجوروں کو وہیں پورا کردیا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں ڈرتا ہوا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مسجد میں آیا یوں جیسے کوئی شعلہ ہوتا ہے میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں نے اپنے قرض خواہ کو ناپ کر اس کی کھجوریں دے دیں ہیں۔ اللہ نے انھیں پورا کردیا تھا پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کہ عمر بن خطاب کہاں ہیں حضرت جابر (رض) کہتے ہیں وہ تیزی سے چلتے ہوئے آئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جابر (رض) سے اس کے قرض خواہ اور کھجوروں کا معاملہ دریافت کرو۔ حضرت عمر نے عرض کی میں یہ نہیں پوچھوں گا۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اللہ انھیں پورا کردے گا یہ اسی وقت پتا چل گیا تھا جب آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ اس کو پورا کردے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی اور حضرت عمر نے ہر مرتبہ یہی کہا کہ میں نہیں پوچھوں گا پھر انھوں نے دریافت کیا کہ تمہارے قرض خواہ اور کھجوروں کا کیا معاملہ ہوا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں میں نے بتایا اللہ نے انھیں پورا کردیا تھا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں اپنی اہلیہ کے پاس واپس آیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کے ساتھ کلام نہیں کرو گی وہ عورت بولی کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ اللہ اپنے نبی کو ہمارے ہاں لائے اور پھر وہ واپس تشریف لے جائیں اور میں ان سے اپنے بارے میں اور اپنے شوہر کے بارے میں دعائے رحمت کے لیے نہ کہوں۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں میں مدینہ کے مخالفین میں شامل تھا۔ جب میری پھوپھی میرے والد اور میرے ماموں (کی میت) کے ساتھ آئیں تاکہ انھیں ہمارے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ایک شخص نے یہ اعلان کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ہدایت کی ہے کہ تم مقتولین کو واپس لے جاؤ اور انھیں اسی جگہ پر دفن کرو جہاں وہ شہید ہوئے ہیں۔ ہم ان دونوں کو واپس لے گئے اور ان دونوں حضرات کو وہیں دفن کیا جہاں وہ شہید ہوئے تھے ( حضرت جابر بیان کرتے ہیں) میں حضرت معاویہ بن ابوسفیان کے عہد خلافت میں ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا اے جابر بن عبداللہ حضرت معاویہ کے سرکاری اہلکاروں نے آپ کے والد کی قبر سے مٹی ہٹادی ہے۔ جس سے میت ظاہر ہوئی ہے۔ لوگوں میں سے بہت سے لوگ نکلے میں بھی وہاں گیا تو میں نے انھیں اسی حالت میں پایا جس حالت میں انھیں دفن کیا تھا اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی ' سوائے اس کے کہ قتل کی وجہ سے جو تبدیلی آنی تھی حضرت جابر کہتے ہیں میں نے ان کی قبر کو ڈھانپ دیا۔ میرے والد نے اپنے ذمہ کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا تھا قرض خواہوں نے مجھ سے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والد فلاں موقع پر شہید ہوگئے انھوں نے کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا ہے قرض خواہ مجھ سے شدت سے تقاضا کر رہے ہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے میں میری مدد کیجیے تاکہ قرض خواہ اگلی آنیوالی پیدوار تک میرے ساتھ کچھ نرمی کریں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو میں دوپہر کے قریب کسی وقت تمہارے پاس آؤں گا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں آپ تشریف لائے آپ کے ساتھ آپ کے ساتھی بھی تھے یہ سب حضرات سائے میں بیٹھ گئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی اور پھر آپ اندر تشریف لائے حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے اپنی اہلیہ سے کہا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کے وقت تشریف لائیں گے وہ تمہیں (یعنی تمہاری طرف سے کوئی ناخوشگوار بات) نہ دیکھیں گے اور تم اللہ کے رسول کو کوئی اذیت نہ ہونے دینا اور تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہونے دینا اور ان سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس عورت نے ایک بچھونا بچھا دیا اور ایک تکیہ رکھ دیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنا سر رکھا اور سو گئے۔ میں نے اپنے غلام سے کہا اس بکری کو ذبح کرو۔ یہ موٹی اور صحت مند بکری تھی اور جلدی کرنا تیزی کے ساتھ۔ تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیدار ہونے سے پہلے اس کام سے فارغ ہوجانا میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ہم نے یہ کام کیا یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگئے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت سو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول جب بیدار ہوں گے تو وہ وضو کے لیے پانی مانگیں گے مجھے یہ اندیشہ ہے کہ جب وہ فارغ ہوں گے تو اٹھ کرچلیں جائیں گے۔ لہٰذا وہ جتنی دیر میں وضو کرکے فارغ ہوتے ہیں بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا جائے۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدا ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا اے جابر (رض) وضو کے لیے پانی لاؤ میں نے عرض کیا جی ہاں پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وضو کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا گیا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا تمہیں پتا ہے کہ مجھے گوشت پسند ہے ابوبکر (رض) کو بلاؤ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو بلایا حضرت جابر بیان کرتے ہیں کھانا لا کر رکھ دیا گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک رکھا اور ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کھانا شروع کرو ان حضرات نے کھانا شروع کیا وہ سیر ہوگئے پھر بھی اس میں سے بہت سا گوشت باقی بچ گیا۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم بنوسلمہ کی محفل میں بیٹھے ہوئے لوگ ان کی طرف دیکھ رہے تھے یہ بات ان کے نزدیک ان کی آنکھوں سے زیادہ عزیز تھی وہ آپ کے قریب اس لیے نہیں آتے تھے کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے آپ کے ساتھی بھی کھڑے ہوئے وہ حضرات آپ کے آگے نکلے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے پیچھے والی جگہ فرشتوں کے لیے چھوڑ دیا کرو۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ان کے پیچھے میں بھی آیا۔ یہاں تک کہ جب ہم دروازے کی چوکھٹ تک پہنچے تو میری بیوی نے سر باہر نکال کر کہا حالانکہ وہ پردہ دار عورت تھی اے اللہ کے رسول آپ میرے لیے اور میرے شوہر کے لیے دعائے برکت کریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہارے شوہر پر برکت نازل کرے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا فلاں شخص کو بلا کر لاؤ یہ آپ نے قرض خواہ کے لیے کہا جس نے مجھ سے سختی سے مطالبہ کیا تھا پھر آپ نے حکم دیا تم جابر کو اپنے قرض میں سے کچھ چھوٹ دو جو اس کے والد کے ذمہ واجب الاداء تھا اور یہ چھوٹ اگلی پیدوار تک ہوگی اس نے عرض کیا میں یہ نہیں کرسکوں گا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں اس نے کوئی عذر بیان کیا اور بولا کہ یہ یتیموں کا مال ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا جابر (رضی اللہ عنہ) کہاں ہے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہاں ہوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے ناپ کر دیدو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کھجوروں کو پورا کردے گا پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا سورج ڈھل چکا تھا آپ نے فرمایا ابوبکر (رض) نماز کا وقت ہوگیا ہے پھر یہ حضرات مسجد کی طرف تشریف لے گئے حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قرض خواہ سے کہا تم اپنا برتن آگے لاؤ میں نے اسے ناپ کر عجوہ کھجور دیدیں تو اللہ نے ان کھجوروں کو وہیں پورا کردیا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں ڈرتا ہوا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مسجد میں آیا یوں جیسے کوئی شعلہ ہوتا ہے میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں نے اپنے قرض خواہ کو ناپ کر اس کی کھجوریں دے دیں ہیں۔ اللہ نے انھیں پورا کردیا تھا پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کہ عمر بن خطاب کہاں ہیں حضرت جابر (رض) کہتے ہیں وہ تیزی سے چلتے ہوئے آئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جابر (رض) سے اس کے قرض خواہ اور کھجوروں کا معاملہ دریافت کرو۔ حضرت عمر نے عرض کی میں یہ نہیں پوچھوں گا۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اللہ انھیں پورا کردے گا یہ اسی وقت پتا چل گیا تھا جب آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ اس کو پورا کردے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی اور حضرت عمر نے ہر مرتبہ یہی کہا کہ میں نہیں پوچھوں گا پھر انھوں نے دریافت کیا کہ تمہارے قرض خواہ اور کھجوروں کا کیا معاملہ ہوا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں میں نے بتایا اللہ نے انھیں پورا کردیا تھا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں میں اپنی اہلیہ کے پاس واپس آیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کے ساتھ کلام نہیں کرو گی وہ عورت بولی کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ اللہ اپنے نبی کو ہمارے ہاں لائے اور پھر وہ واپس تشریف لے جائیں اور میں ان سے اپنے بارے میں اور اپنے شوہر کے بارے میں دعائے رحمت کے لیے نہ کہوں۔
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ لِيُقَاتِلَهُمْ فَقَالَ أَبِي عَبْدُ اللَّهِ يَا جَابِرُ لَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ فِي نَظَّارِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَتَّى تَعْلَمَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُنَا فَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي أَتْرُكُ بَنَاتٍ لِي بَعْدِي لَأَحْبَبْتُ أَنْ تُقْتَلَ بَيْنَ يَدَيَّ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي النَّظَّارِينَ إِذْ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي وَخَالِي لِتَدْفِنَهُمَا فِي مَقَابِرِنَا فَلَحِقَ رَجُلٌ يُنَادِي إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَرُدُّوا الْقَتْلَى فَتَدْفِنُوهَا فِي مَضَاجِعِهَا حَيْثُ قُتِلَتْ فَرَدَدْنَاهُمَا فَدَفَنَّاهُمَا فِي مَضْجَعِهِمَا حَيْثُ قُتِلَا فَبَيْنَا أَنَا فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ فَقَالَ يَا جَابِرُ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ لَقَدْ أَثَارَ أَبَاكَ عُمَّالُ مُعَاوِيَةَ فَبَدَا فَخَرَجَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي دَفَنْتُهُ لَمْ يَتَغَيَّرْ إِلَّا مَا لَمْ يَدَعْ الْقَتِيلَ قَالَ فَوَارَيْتُهُ وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ فَاشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي التَّقَاضِي فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أُصِيبَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا وَإِنَّهُ تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ وَإِنَّهُ قَدْ اشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي الطَّلَبِ فَأُحِبُّ أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ لَعَلَّهُ أَنْ يُنْظِرَنِي طَائِفَةً مِنْ تَمْرِهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ قَالَ نَعَمْ آتِيكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَرِيبًا مِنْ وَسَطِ النَّهَارِ قَالَ فَجَاءَ وَمَعَهُ حَوَارِيُّوهُ قَالَ فَجَلَسُوا فِي الظِّلِّ وَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْنَا قَالَ وَقَدْ قُلْتُ لِامْرَأَتِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائِيَّ الْيَوْمَ وَسَطَ النَّهَارِ فَلَا يَرَيَنَّكِ وَلَا تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ وَلَا تُكَلِّمِيهِ فَفَرَشَتْ فِرَاشًا وَوِسَادَةً وَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ فَقُلْتُ لِمَوْلًى لِي اذْبَحْ هَذِهِ الْعَنَاقَ وَهِيَ دَاجِنٌ سَمِينَةٌ فَالْوَحَى وَالْعَجَلَ افْرُغْ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَسْتَيْقِظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَكَ فَلَمْ نَزَلْ فِيهَا حَتَّى فَرَغْنَا مِنْهَا وَهُوَ نَائِمٌ فَقُلْتُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَسْتَيْقِظُ يَدْعُو بِطَهُورِهِ وَأَنَا أَخَافُ إِذَا فَرَغَ أَنْ يَقُومَ فَلَا يَفْرُغَ مِنْ طُهُورِهِ حَتَّى يُوضَعَ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ قَالَ يَا جَابِرُ ايْتِنِي بِطَهُورٍ قَالَ نَعَمْ فَلَمْ يَفْرُغْ مِنْ وُضُوئِهِ حَتَّى وُضِعَتْ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَقَالَ كَأَنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ حُبَّنَا اللَّحْمِ ادْعُ أَبَا بَكْرٍ ثُمَّ دَعَا حَوَارِيِّيهِ قَالَ فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوُضِعَ قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ كُلُوا فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَفَضَلَ مِنْهَا لَحْمٌ كَثِيرٌ وَقَالَ وَاللَّهِ إِنَّ مَجْلِسَ بَنِي سَلَمَةَ لَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِمْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ أَعْيُنِهِمْ مَا يَقْرَبُونَهُ مَخَافَةَ أَنْ يُؤْذُوهُ ثُمَّ قَامَ وَقَامَ أَصْحَابُهُ فَخَرَجُوا بَيْنَ يَدَيْهِ وَكَانَ يَقُولُ خَلُّوا ظَهْرِي لِلْمَلَائِكَةِ قَالَ فَاتَّبَعْتُهُمْ حَتَّى بَلَغْتُ سَقُفَّةَ الْبَابِ فَأَخْرَجَتْ امْرَأَتِي صَدْرَهَا وَكَانَتْ سَتِيرَةً فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى زَوْجِكِ ثُمَّ قَالَ ادْعُوا لِي فُلَانًا لِلْغَرِيمِ الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيَّ فِي الطَّلَبِ فَقَالَ أَنْسِ جَابِرًا طَائِفَةً مِنْ دَيْنِكَ الَّذِي عَلَى أَبِيهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ قَالَ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ قَالَ وَاعْتَلَّ وَقَالَ إِنَّمَا هُوَ مَالُ يَتَامَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ جَابِرٌ قَالَ قُلْتُ أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كِلْ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا الشَّمْسُ قَدْ دَلَكَتْ قَالَ الصَّلَاةُ يَا أَبَا بَكْرٍ قَالَ فَانْدَفَعُوا إِلَى الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ لِغَرِيمِي قَرِّبْ أَوْعِيَتَكَ فَكِلْتُ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَجِئْتُ أَسْعَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِهِ كَأَنِّي شَرَارَةٌ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كِلْتُ لِغَرِيمِي تَمْرَهُ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ فَجَاءَ يُهَرْوِلُ قَالَ سَلْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَتَمْرِهِ قَالَ مَا أَنَا بِسَائِلِهِ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ إِذْ أَخْبَرْتَ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَدَّدَ عَلَيْهِ وَرَدَّدَ عَلَيْهِ هَذِهِ الْكَلِمَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ مَا أَنَا بِسَائِلِهِ وَكَانَ لَا يُرَاجَعُ بَعْدَ الْمَرَّةِ الثَّالِثَةِ فَقَالَ مَا فَعَلَ غَرِيمُكَ وَتَمْرُكَ قَالَ قُلْتُ وَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَرَجَعْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ أَلَمْ أَكُنْ نَهَيْتُكِ أَنْ تُكَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَقَالَتْ تَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُورِدُ نَبِيَّهُ فِي بَيْتِي ثُمَّ يَخْرُجُ وَلَا أَسْأَلُهُ الصَّلَاةَ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي
তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৬
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں بیشک اللہ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انبیاء پر فضیلت عطا کی اور آسمان کی جملہ مخلوقات پر فضیلت عطاکی لوگوں نے دریافت کیا اے حضرت ابن عباس (رض) ! اللہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمان والوں پر کیسے فضیلت عطا کی ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا اللہ نے آسمان والوں سے یہ ارشاد فرمایا آیت (ترجمہ) " اور ان میں سے جو یہ کہے کہ اس کی بجائے میں معبود ہوں تو ہم اس کی جزا جہنم کردیں گے۔ ظلم کرنے والوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ " جب کہ اللہ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ارشاد فرمایا آیت۔ " بیشک ہم نے تمہیں واضح فتح عطا کی تاکہ اللہ تمہارے گزشتہ اور آئندہ گناہوں کی مغفرت کردے۔
لوگوں نے دریافت کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انبیاء پر فضیلت کیا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے۔ آیت۔ " ہم نے جو بھی رسول مبعوث کیا اسے اس کی قوم کی زبان کے ہمراہ مبعوث کیا تاکہ وہ اس قوم کے لیے واضح طور پر اللہ کے احکام بیان کردے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ارشاد فرمایا۔ آیت۔ اور ہم نے تمہیں تمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث کیا ہے۔
لوگوں نے دریافت کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انبیاء پر فضیلت کیا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے۔ آیت۔ " ہم نے جو بھی رسول مبعوث کیا اسے اس کی قوم کی زبان کے ہمراہ مبعوث کیا تاکہ وہ اس قوم کے لیے واضح طور پر اللہ کے احکام بیان کردے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ارشاد فرمایا۔ آیت۔ اور ہم نے تمہیں تمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث کیا ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَ مُحَمَّدًا عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَعَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ فَقَالُوا يَا ابْنَ عَبَّاسٍ بِمَ فَضَّلَهُ عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِأَهْلِ السَّمَاءِ وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ الْآيَةَ وَقَالَ اللَّهُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالُوا فَمَا فَضْلُهُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ قَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ الْآيَةَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ فَأَرْسَلَهُ إِلَى الْجِنِّ وَالْإِنْسِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৭
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ صحابہ بیٹھے ہوئے آپ کا انتظار کر رہے تھے آپ تشریف لائے جب آپ ان کے قریب ہوئے تو انھیں کسی موضوع پر گفتگو کرتے سنا آپ نے ان کی بات پر غور کیا تو ان میں سے ایک صاحب یہ کہہ رہے تھے یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ایک کو خلیل بنایا ہے۔ حضرت ابراہیم اس کے خلیل ہیں اور ایک صاحب بولے اس سے زیادہ حیران کن بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کو شرف ہم کلامی عطا کیا ہے ایک صاحب اور بولے حضرت عیسیٰ اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں ایک اور صاحب بولے اللہ نے حضرت آدم کو چن لیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو سلام کیا اور ارشاد فرمایا میں نے تمہاری گفتگو اور حیرانی کا اظہارسنا ہے بیشک حضرت ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور حضرت موسیٰ اس کے نجی ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور حضرت عیسیٰ اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں اور حضرت آدم کو اللہ نے منتخب کرلیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنا میں اللہ کا حبیب ہوں اور یہ بات فخر سے نہیں کہہ رہا قیامت کے دن لواء حمد میں اٹھاؤں گا حضرت آدم اور دیگر سب لوگ اس کے نیچے ہوں گے اور یہ بات فخر سے نہیں کہہ رہا قیامت کے دن سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہوگی اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا سب سے پہلے جنت کے دروازے کی زنجیر کو میں حرکت دوں گا اور یہ بات فخر سے نہیں کہہ رہا اور اللہ تعالیٰ اسے کھول دے گا اور مجھے جنت میں داخل کرے گا میرے ساتھ غریب مسلمان ہوں گے اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا اللہ کے نزدیک میں تمام پہلے والوں اور سب بعد والوں کے مقابلے میں زیادہ باعزت ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر میں تم لوگوں سے نہیں کہہ رہا۔
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْتَظِرُونَهُ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَتَسَمَّعَ حَدِيثَهُمْ فَإِذَا بَعْضُهُمْ يَقُولُ عَجَبًا إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلًا فَإِبْرَاهِيمُ خَلِيلُهُ وَقَالَ آخَرُ مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ فَعِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ وَقَالَ آخَرُ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَسَلَّمَ وَقَالَ قَدْ سَمِعْتُ كَلَامَكُمْ وَعَجَبَكُمْ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَمُوسَى نَجِيُّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ وَعِيسَى رُوحُهُ وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ تَعَالَى وَهُوَ كَذَلِكَ أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَهُ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ بِحَلَقِ الْجَنَّةِ وَلَا فَخْرَ فَيَفْتَحُ اللَّهُ فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ عَلَى اللَّهِ وَلَا فَخْرَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৮
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے میں اپنی قبر سے نکلوں گا جب وہ لوگ وفد کی شکل میں آئیں گے تو میں ان کی قیادت کروں گا جب وہ لوگ خاموش ہوں گے تو ان کی طرف سے میں خطبہ دوں گا جب انھیں محبوس کرلیا جائے گا تو میں ان کی طرف سے شفاعت طلب کروں گا۔ جب وہ مایوس ہوجائیں گے تو میں انھیں خوش خبری سناؤں گا۔ اس دن بزرگی اور چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گے۔ اپنے پروردگار کے نزدیک سب سے زیادہ میں معزز ہوں سفید موتیوں جیسے ایک ہزار خادم میرے گرد چکر لگائیں گے۔
(راوی کو شک ہے یا شاید) پروئے ہوئے موتیوں جیسے (خادم چکر لگائیں گے)
(راوی کو شک ہے یا شاید) پروئے ہوئے موتیوں جیسے (خادم چکر لگائیں گے)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوجًا وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوا وَأَنَا خَطِيبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوا وَأَنَا مُسْتَشْفِعُكُمْ إِذَا حُبِسُوا وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوا الْكَرَامَةُ وَالْمَفَاتِيحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي يَطُوفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ كَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَكْنُونٌ أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُورٌ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৪৯
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا اور تمام انبیاء کا (کی آمد کے سلسلے کو) ختم کرنے والا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا اور جس کی شفاعت قبول کی جائے گی وہ شخص میں ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْمِصْرِيُّ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ صَالِحٍ هُوَ ابْنُ عَطَاءِ بْنِ خَبَّابٍ مَوْلَى بَنِي الدُّئِلِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫০
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا سب سے پہلے میں جنت کے دروازے کی کنڈی کو پکڑوں گا اور اسے کھٹکھٹاؤں گا۔ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک کے ذریعے اشارہ کیا تھا راوی کا بیان ہے میرے استاد نے بھی مجھے اسی طرح اشارہ کرکے یہ بات بتائی۔ ابوعبداللہ نامی راوی نے بھی اپنی انگلیوں کو اکٹھا کیا اور انھیں حرکت دی راوی کا بیان ہے ثابت نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے ہاتھ کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک کو چھوا ہے ؟ انھوں نے جواب دیاہاں۔ ثابت نے کہا آپ ہاتھ میری طرف بڑھائیں تاکہ میں اسے بوسہ دوں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ هُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا قَالَ أَنَسٌ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهَا وَصَفَ لَنَا سُفْيَانُ كَذَا وَجَمَعَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَصَابِعَهُ وَحَرَّكَهَا قَالَ وَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ مَسِسْتَ يَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَعْطِنِيهَا أُقَبِّلْهَا
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫১
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت کے بارے میں سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ فِي الْجَنَّةِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫২
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا کیونکہ میرے ہی سرہانے کی طرف سے زمین کو شق کیا جائے گا (یعنی سب سے پہلے میں قبر سے نکلوں گا) اور یہ بات میں فخر کے طور پر نہیں کہتا اور مجھے " لواء حمد '' عطا کیا جائے گا اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا قیامت کے دن میں تمام لوگوں کا سردار ہوں گا اور یہ بات میں فخر کے طور پر نہیں کہتا قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو جنت میں داخل ہوگا اور یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا میں جنت کے دروازے پر آؤں گا اس کی کنڈی کو پکڑوں گا لوگ دریافت کریں گے یہ کون شخص ہے میں جواب دوں گا میں محمد ہوں وہ لوگ میرے لیے دروازہ کھولیں گے میں اندر داخل ہوجاؤں گا میں اپنے سامنے اللہ کا خاص جلوہ پاؤں گا تو اس کی بارگاہ میں سجدے میں چلا جاؤں گا وہ ارشاد فرمائے گا اے محمد اپنا سر اٹھاؤ اور بات کرو تمہاری بات سنی جائے گی بولو قبول کیا جائے گا شفاعت کرو شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت کو بخش دے میری امت کو بخش دے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اپنی امت کے پاس جاؤ اور میں سے جس کے دل میں جو کے دانے کے وزن کے برابر ایمان ہو اسے جنت میں داخل کردو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آؤں اور جس کے دل میں اتنے وزن جتنا ایمان پاؤں گا اسے میں جنت میں داخل کردوں گا پھر میں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں جاؤں گا اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں گا اور وہ ارشاد فرمائے گا اے محمد اپنا سر اٹھاؤ اور بات کرو بات سنی جائے گی بولو قبول کیا جائے گا شفاعت کرو شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں عرض کروں گا اے میر پروردگار میری امت کو بخش دے میری امت کو بخش دے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اپنی امت کے پاس جاؤ اور ان میں سے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو اسے جنت میں داخل کردو میں جاؤں گا جس کے دل میں اتنے وزن جتنا ایمان ہوگا اسے جنت میں داخل کردوں گا لوگوں کا حساب ختم ہوجائے گا اور میری امت سے تعلق رکھنے والے بقیہ افراد اہل جہنم کے ساتھ جہنم میں چلے جائیں گے پہلے جہنمی کہیں گے تم لوگ جو اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے اور کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے آج تمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اللہ ارشاد فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی قسم ہے میں ان لوگوں کو ضرور جہنم سے آزاد کردوں گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف فرشتوں کو بھیجے گا ان لوگوں کو جہنم سے نکالا جائے گا وہ بالکل کوئلہ ہوچکے ہوں گے انھیں جنت کی نہر حیات میں ڈالا جائے گا تو وہ اس میں یوں پھوٹ پڑیں گے جیسے سیلاب کی گزرگاہ میں کوئی دانہ پھوٹ کر پودا بن جاتا ہے ان لوگوں کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہی لکھ دیا جائے گا یہ اللہ کی طرف سے آزاد کئے ہوئے لوگ ہیں پھر ان لوگوں کو لایا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا اہل جنت ان سے کہیں گے یہ جہنمی لوگ ہیں اللہ فرمائے گا نہیں بلکہ یہ جبار یعنی اللہ کی طرف سے آزاد کردہ ہیں۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَزِيدُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْ جُمْجُمَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأُعْطَى لِوَاءَ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَآتِي بَابَ الْجَنَّةِ فَآخُذُ بِحَلْقَتِهَا فَيَقُولُونَ مَنْ هَذَا فَأَقُولُ أَنَا مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُونَ لِي فَأَدْخُلُ فَأَجِدُ الْجَبَّارَ مُسْتَقْبِلِي فَأَسْجُدُ لَهُ فَيَقُولُ ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَتَكَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْكَ وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ فَيَقُولُ اذْهَبْ إِلَى أُمَّتِكَ فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ شَعِيرٍ مِنْ الْإِيمَانِ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ فَأَذْهَبُ فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَلِكَ أَدْخَلْتُهُمْ الْجَنَّةَ فَأَجِدُ الْجَبَّارَ مُسْتَقْبِلِي فَأَسْجُدُ لَهُ فَيَقُولُ ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَتَكَلَّمْ يُسْمَعْ مِنْكَ وَقُلْ يُقْبَلْ مِنْكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ فَيَقُولُ اذْهَبْ إِلَى أُمَّتِكَ فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ الْإِيمَانِ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ فَأَذْهَبُ فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَلِكَ أَدْخَلْتُهُمْ الْجَنَّةَ وَفُرِغَ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ وَأُدْخِلَ مَنْ بَقِيَ مِنْ أُمَّتِي فِي النَّارِ مَعَ أَهْلِ النَّارِ فَيَقُولُ أَهْلُ النَّارِ مَا أَغْنَى عَنْكُمْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُونَ بِهِ شَيْئًا فَيَقُولُ الْجَبَّارُ فَبِعِزَّتِي لَأَعْتِقَنَّهُمْ مِنْ النَّارِ فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ فَيَخْرُجُونَ مِنْ النَّارِ وَقَدْ امْتُحِشُوا فَيُدْخَلُونَ فِي نَهَرِ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ فِيهِ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي غُثَاءِ السَّيْلِ وَيُكْتَبُ بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ فَيُذْهَبُ بِهِمْ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ هَؤُلَاءِ الْجَهَنَّمِيُّونَ فَيَقُولُ الْجَبَّارُ بَلْ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الْجَبَّارِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫৩
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
ابن غنم بیان کرتے ہیں حضرت جبرائیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے انھوں نے آپ کے پیٹ کو چیر دیا پھر جبرائیل نے کہا یہ بہت زبردست دل ہے۔ اس میں دو کان ہیں جو سن لیتے ہیں اور دو آنکھیں ہیں جو دیکھ لیتی ہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں یہ سب سے آخر میں تشریف لائے ہیں یہی حشر کرنے والے ہیں اے محمد آپ کے اخلاق مضبوط ہیں آپ کی زبان سچی ہے اور آپ کا نفس مطمئن ہے۔ امام بومحمد دارمی فرماتے ہیں اس حدیث میں استعمال ہونے والا لفظ وکیع کا مطلب شدید اور زبردست ہے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ ابْنِ غَنْمٍ قَالَ نَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَقَّ بَطْنَهُ ثُمَّ قَالَ جِبْرِيلُ قَلْبٌ وَكِيعٌ فِيهِ أُذُنَانِ سَمِيعَتَانِ وَعَيْنَانِ بَصِيرَتَانِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ الْمُقَفِّي الْحَاشِرُ خُلُقُكَ قَيِّمٌ وَلِسَانُكَ صَادِقٌ وَنَفْسُكَ مُطْمَئِنَّةٌ قَالَ أَبُو مُحَمَّد وَكِيعٌ يَعْنِي شَدِيدًا
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫৪
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فضیلت عطا کی گئی۔
حضرت عمرو بن قیس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ میرے ذریعے رحمت کے انتہائی حصے کو ظاہر کرے گا اور میرے لیے ہی اختصار کرے گا ہم سب سے آخری لوگ ہیں لیکن قیامت کے دن ہم سب سے پہلے ہوں گے میں جو کہہ رہا ہوں یہ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔ حضرت ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں۔ حضرت موسیٰ اللہ کے صفی ہیں اور میں اللہ کا حبیب ہوں قیامت کے دن " لواء حمد " میرے پاس ہوگا بیشک اللہ نے میری امت کے بارے میں مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے اور انھیں تین چیزوں سے امان عطا کردی ہے ان پر قحط سالی نازل نہیں ہوگی دشمن انھیں سرے سے ختم نہیں کرے گا اور وہ لوگ گمراہی پر متفق نہیں ہوں گے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَيْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ أَدْرَكَ بِيَ الْأَجَلَ الْمَرْحُومَ وَاخْتَصَرَ لِيَ اخْتِصَارًا فَنَحْنُ الْآخِرُونَ وَنَحْنُ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ اللَّهِ وَمُوسَى صَفِيُّ اللَّهِ وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَمَعِي لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَنِي فِي أُمَّتِي وَأَجَارَهُمْ مِنْ ثَلَاثٍ لَا يَعُمُّهُمْ بِسَنَةٍ وَلَا يَسْتَأْصِلُهُمْ عَدُوٌّ وَلَا يَجْمَعُهُمْ عَلَى ضَلَالَةٍ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫৫
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ آسمان سے کھانے کے نزول کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو عزت افزائی کی گئی۔
مسلمہ سکونی بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کے پاس آسمان سے بھی کوئی کھانا آتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ہاں کچھ کھانا آتا ہے اس شخص نے جواب دیا اے للہ کے نبی کیا اس میں کوئی فضیلت ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ہاں اس شخص نے عرض کی پھر اس کے ساتھ کیا کیا گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسے آسمان کی طرف اٹھالیا گیا اور میری طرف یہ وحی کی گئی میں تمہارے درمیان تھوڑا عرصہ رہوں گا پھر تم لوگ رہو گے یہاں تک کہ تم لوگ یہ کہو گے قیامت کب آئے گی پھر تم لوگ متفرق گروہوں کی شکل میں آؤ گے تم میں سے ایک دوسرے کو فنا کردے گا قیامت کے قریب دو شدید قتل عام ہوں اس کے بعد کچھ سال تک زلزلے آتے رہیں گے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ سَمِعْتُ مَسْلَمَةَ السَّكُونِيَّ وَقَالَ غَيْرُ مُحَمَّدٍ سَلَمَةَ السَّكُونِيَّ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ أُتِيتَ بِطَعَامٍ مِنْ السَّمَاءِ قَالَ نَعَمْ أُتِيتُ بِطَعَامٍ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَلْ كَانَ فِيهِ مِنْ فَضْلٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا فُعِلَ بِهِ قَالِ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ وَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنِّي غَيْرُ لَابِثٍ فِيكُمْ إِلَّا قَلِيلًا ثُمَّ تَلْبَثُونَ حَتَّى تَقُولُوا مَتَى مَتَى ثُمَّ تَأْتُونِي أَفْنَادًا يُفْنِي بَعْضُكُمْ بَعْضًا بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ مُوتَانٌ شَدِيدٌ وَبَعْدَهُ سَنَوَاتُ الزَّلَازِلِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫৬
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ آسمان سے کھانے کے نزول کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو عزت افزائی کی گئی۔
حضرت سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ثرید کا ایک پیالہ پیش کیا گیا اس پیالے کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا لوگ صبح سے لے کر ظہر تک یکے بعد دیگرے اسے کھاتے رہے ایک گروہ اٹھ کرجاتا تو دوسرا آکر بیٹھ جاتا۔ ایک شخص نے سمرہ بن جندب سے کہا کیا وہ کھانا بڑھتا رہا تو حضرت سمرہ نے جواب دیا کہ تمہیں کس بات کی حیرانی ہو رہی ہے اس میں اضافہ وہاں سے ہوتا تھا (راوی بیان کرتے ہیں) حضرت سمرہ نے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔
أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقَصْعَةٍ مِنْ ثَرِيدٍ فَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ الْقَوْمِ فَتَعَاقَبُوهَا إِلَى الظُّهْرِ مِنْ غُدْوَةٍ يَقُومُ قَوْمٌ وَيَجْلِسُ آخَرُونَ فَقَالَ رَجُلٌ لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَمَا كَانَتْ تُمَدُّ فَقَالَ سَمُرَةُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَعْجَبُ مَا كَانَتْ تُمَدُّ إِلَّا مِنْ هَا هُنَا وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫৭
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسن مبارک۔
حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چاندنی رات میں دیکھا آپ نے اس وقت سرخ حلہ پہن رکھا تھا میں کبھی آپ کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی چاند کی طرف دیکھتا تھا حضرت جابر بن سمرہ بیان فرماتے ہیں میری نظر میں آپ چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانَ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَإِلَى الْقَمَرِ قَالَ فَلَهُوَ كَانَ أَحْسَنَ فِي عَيْنِي مِنْ الْقَمَرِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫৮
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسن مبارک۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کے دو دانتوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ کشادہ تھی اور جب آپ گفتگو کرتے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ کے دونوں دانتوں کے درمیان میں سے نور نکل رہا ہو۔
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ الزُّهْرِيُّ حَدَّثَنِي إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنُ أَخِي مُوسَى عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْلَجَ الثَّنِيَّتَيْنِ إِذَا تَكَلَّمَ رُئِيَ كَالنُّورِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ ثَنَايَاهُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৫৯
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسن مبارک۔
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ سخی دلیر، خوبصورت کوئی اور نہیں دیکھا۔
57. أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا مِسْعَرٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَنْجَدَ وَلَا أَجْوَدَ وَلَا أَشْجَعَ وَلَا أَضْوَأَ وَأَوْضَأَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬০
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسن مبارک۔
ابوعبیدہ بیان کرتے ہیں میں نے ربیع بنت معوذ سے کہا کہ آپ ہمارے سامنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حسن و جمال کا تذکرہ کریں انھوں نے جواب دیا اے میرے بیٹے اگر تم ان کو دیکھ لیتے تو تم یہ محسوس کرتے گویا تم سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ قُلْتُ لِلرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ صِفِي لَنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ لَوْ رَأَيْتَهُ رَأَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً
তাহকীক: