সুনানুদ্দারিমী (উর্দু)
مسند الدارمي (سنن الدارمي)
مقدمہ دارمی - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৬৪৭ টি
হাদীস নং: ৮১
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیماری کے دوران یہ بات ارشاد فرمائی میرے اوپر سات مشکیزوں کے ذریعے سات مختلف کنوؤں کا پانی بہاؤ تاکہ میں لوگوں کے پاس جا کر ان سے عہد لے سکوں۔ راوی بیان کرتے ہیں ہم نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بڑے ٹب میں جو سیدہ حفصہ کا تھا اس میں بٹھایا اور آپ پر پانی بہایا۔ (یہاں حدیث کے ان الفاظ میں محمد بن اسحق نامی راوی کو شک ہے) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افاقہ محسوس ہوا آپ باہر تشریف فرما ہوئے منبر پر تشریف لائے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر آپ نے شہدائے احد کے لیے دعائے مغفرت کی اور ان کے لیے دعا کی پھر ارشاد فرمایا۔ اما بعد ! انصار میرے قریبی ساتھی ہیں جن کی طرف میں نے پناہ حاصل کی تم ان میں سے معزز لوگوں کا احترام کرو اگر کوئی غلطی کرے تو اس سے درگزر کرو۔ البتہ حد کا معاملہ مختلف ہے یہ بات یاد رکھو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو دنیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں موجود نعمتوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو بندے نے اللہ کے پاس موجود نعمتوں کو اختیار کیا راوی بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر (رض) رو پڑے اور وہ یہ سمجھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بارے میں یہ بات کی ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ابوبکر (رض) اطمینان رکھو۔ پھر آپ نے حکم دیا مسجد کی طرف آنے والے تمام دروازوں کو بند کردیا جائے صرف ابوبکر (رض) کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے کیونکہ میرے نزدیک ساتھ کے اعتبار سے ابوبکر (رض) سے افضل کوئی اور نہیں۔
أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُخْتَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ صُبُّوا عَلَيَّ سَبْعَ قِرَبٍ مِنْ سَبْعِ آبَارٍ شَتَّى حَتَّى أَخْرُجَ إِلَى النَّاسِ فَأَعْهَدَ إِلَيْهِمْ قَالَتْ فَأَقْعَدْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ فَصَبَبْنَا عَلَيْهِ الْمَاءَ صَبًّا أَوْ شَنَنَّا عَلَيْهِ شَنًّا الشَّكُّ مِنْ قِبَلِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ فَوَجَدَ رَاحَةً فَخَرَجَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَاسْتَغْفَرَ لِلشُّهَدَاءِ مِنْ أَصْحَابِ أُحُدٍ وَدَعَا لَهُمْ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْأَنْصَارَ عَيْبَتِي الَّتِي أَوَيْتُ إِلَيْهَا فَأَكْرِمُوا كَرِيمَهُمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ إِلَّا فِي حَدٍّ أَلَا إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللَّهِ قَدْ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَظَنَّ أَنَّهُ يَعْنِي نَفْسَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ سُدُّوا هَذِهِ الْأَبْوَابَ الشَّوَارِعَ إِلَى الْمَسْجِدِ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ امْرَأً أَفْضَلَ عِنْدِي يَدًا فِي الصُّحْبَةِ مِنْ أَبِي بَكْرٍ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮২
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کے دوران آپ کو نماز کے لیے بلوایا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ابوبکر (رض) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ پھر آپ پر مدہوشی طاری ہوگئی جب افاقہ ہوا تو آپ نے پھر ارشاد فرمایا کیا تم نے ابوبکر (رض) سے کہہ دیا ہے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ (سیدہ عائشہ (رض) نے عرض کیا) ابوبکر (رض) نرم دل کے آدمی ہیں۔ حضرت عمر کو ہدایت کریں ( تو یہ مناسب ہوگا) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم بھی یوسف کے زمانے کے عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر (رض) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ بہت سے لوگ یہ تمنا رکھتے ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان ابوبکر (رض) سے ہی راضی ہیں۔
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أُوذِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ فِي مَرَضِهِ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ قَالَ هَلْ أَمَرْتُنَّ أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَقُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ فَقَالَ أَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَرُبَّ قَائِلٍ مُتَمَنٍّ وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৩
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
عکرمہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصال پیر کے دن ہوا آپ کو اس دن کے بقیہ حصے میں رات تک اور اگلے دن تک رکھا گیا یہاں تک کہ بدھ کی شام کو آپ کو دفن کیا گیا۔ بعض لوگوں نے یہ بات کہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا بلکہ ان کی روح کو اوپر لے جایا گیا جیسے حضرت موسیٰ کی روح کو اوپر لے جایا گیا تھا حضرت عمر اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے بیشک اللہ کے رسول کا انتقال نہیں ہوا بلکہ ان کی روح کو اسی طرح سے اوپر لے جایا گیا جیسے حضرت موسیٰ کی روح کو اوپر لے جایا گیا اللہ کی قسم اللہ کے رسول انتقال نہیں کریں گے۔ جب تک کفار کی اقوام کے ہاتھ اور زبانیں کاٹ نہ دیئے جائیں۔ حضرت عمر یہی بات کہتے رہے یہاں تکہ ان کے دھمکانے اور بولنے کی وجہ سے ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اس وقت حضرت عباس کھڑے ہوئے اور بولے بیشک اللہ کے رسول انتقال کرچکے ہیں وہ ایک انسان تھے اور اسی طرح بوڑھے ہوئے جیسے انسان بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ اے لوگو اپنے آقا کو دفن کردو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بات سے زیادہ برگزیدہ ہیں کہ اللہ انھیں دو مرتبہ موت میں مبتلا کرے کیا اللہ تم میں سے کسی کو ایک موت میں مبتلا کرے گا اور انھیں دو مرتبہ موت میں مبتلا کرے گا۔ جب کہ اللہ کے نزدیک وہ زیادہ برگزیدہ بندے ہیں۔ اے لوگو اپنے آقا کو دفن کردو۔ اگر وہ ایسے ہیں جیسے تم کہہ رہے ہو تو اللہ کے لیے یہ بات مشکل نہیں ہے کہ ان سے مٹی کو ہٹادے بیشک اللہ کے رسول نے اللہ کی قسم اس وقت تک انتقال نہیں کیا جب تک انھوں نے راستے کو واضح کردیا آپ نے حلال کو بھی واضح نہیں کردیا۔ حرام کو حرام قرار دیا آپ نے نکاح بھی کیا طلاق بھی دی جنگ بھی کی اور امن کی حالت میں بھی رہے بکریوں کا کوئی بھی چرواہا جس کے پیچھے بکریاں جاتی ہیں اور جو پہاڑوں کے سروں پر جاتا ہے اور درختوں سے اپنی لاٹھی کے ذریعے پتے جھاڑتا ہے اور ان بکریوں کے لیے اپنے ہاتھ سے حوض درست کرتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ محنتی اور کوشش کرنے والا نہیں تھا جیسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان رہے اے لوگو اپنے آقاکو دفن کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں سیدہ ام ایمن رونے لگی ان سے کہا گیا اے ام ایمن کیا آپ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے رو رہی ہیں انھوں نے جواب دیا اللہ کی قسم میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے نہیں رو رہی کیونکہ مجھے اس بات کا پتہ ہے کہ آپ ایسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جو آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے مجھے اس بات پر رونا آرہا ہے کہ اب آسمان سے وحی کے نزول کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حماد بیان کرتے ہیں جب ایوب نامی راوی نے یہ بات بیان کی تو ان کی آواز یوں پھنس کر رہ گئی جیسے ان کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو۔
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ فَحُبِسَ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَلَيْلَتَهُ وَالْغَدَ حَتَّى دُفِنَ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ وَقَالُوا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى وَاللَّهِ لَا يَمُوتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْطَعَ أَيْدِيَ أَقْوَامٍ وَأَلْسِنَتَهُمْ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ حَتَّى أَزْبَدَ شِدْقَاهُ مِمَّا يُوعِدُ وَيَقُولُ فَقَامَ الْعَبَّاسُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَإِنَّهُ لَبَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْسُنُ كَمَا يَأْسُنُ الْبَشَرُ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ فَإِنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَهُ إِمَاتَتَيْنِ أَيُمِيتُ أَحَدَكُمْ إِمَاتَةً وَيُمِيتُهُ إِمَاتَتَيْنِ وَهُوَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ فَإِنْ يَكُ كَمَا تَقُولُونَ فَلَيْسَ بِعَزِيزٍ عَلَى اللَّهِ أَنْ يَبْحَثَ عَنْهُ التُّرَابَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا مَاتَ حَتَّى تَرَكَ السَّبِيلَ نَهْجًا وَاضِحًا فَأَحَلَّ الْحَلَالَ وَحَرَّمَ الْحَرَامَ وَنَكَحَ وَطَلَّقَ وَحَارَبَ وَسَالَمَ مَا كَانَ رَاعِي غَنَمٍ يَتَّبِعُ بِهَا صَاحِبُهَا رُءُوسَ الْجِبَالِ يَخْبِطُ عَلَيْهَا الْعِضَاهَ بِمِخْبَطِهِ وَيَمْدُرُ حَوْضَهَا بِيَدِهِ بِأَنْصَبَ وَلَا أَدْأَبَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِيكُمْ أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ قَالَ وَجَعَلَتْ أُمُّ أَيْمَنَ تَبْكِي فَقِيلَ لَهَا يَا أُمَّ أَيْمَنَ تَبْكِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَبْكِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَّا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ ذَهَبَ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ الدُّنْيَا وَلَكِنِّي أَبْكِي عَلَى خَبَرِ السَّمَاءِ انْقَطَعَ قَالَ حَمَّادٌ خَنَقَتْ الْعَبْرَةُ أَيُّوبَ حِينَ بَلَغَ هَا هُنَا
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৪
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
مکحول بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے جب تم میں سے کسی ایک شخص کو مصیبت لاحق ہو تو میری مصیبت کو یاد کرلے کیونکہ وہی سب سے عظیم مصیبت ہے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي يَعِيشُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৫
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
عطا روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی ایک شخص کو مصیبت لاحق ہو تو مجھے لاحق ہونے والی مصیبت کو یاد کرلے کیونکہ وہی سب سے عظیم مصیبت ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا فِطْرٌ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَذْكُرْ مُصَابَهُ بِي فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৬
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
عمر بن محمد اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو جب کبھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا وہ ہمیشہ رو دیا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَا سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَذْكُرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِلَّا بَكَى
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৭
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ نے کہا اے انس (رض) تم لوگوں نے یہ کیسے گوارا کیا کہ تم لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مٹی ڈالو سیدہ فاطمہ نے یہ بھی کہا اے ابا جان۔ آپ اپنے پروردگار کے کتنے قریب ہیں۔ اے اباجان جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہے اے اباجان حضرت جبرائیل نے آپ کی وفات کی خبر دی تھی۔ اے اباجان آپ نے اپنے پروردگار کے بلاوے پر لبیک کہا۔ حماد بیان کرتے ہیں ثابت نے جب یہ حدیث بیان کی تو وہ رونے لگے ثابت بیان کرتے ہیں حضرت انس (رض) نے جب حدیث بیان کی تو وہ بھی رونے لگے تھے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ يَا أَنَسُ كَيْفَ طَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ وَقَالَتْ يَا أَبَتَاهْ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهْ وَا أَبَتَاهْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ وَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ وَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهْ قَالَ حَمَّادٌ حِينَ حَدَّثَ ثَابِتٌ بَكَى و قَالَ ثَابِتٌ حِينَ حَدَّثَ أَنَسٌ بَكَى
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৮
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تھے اس وقت وہاں موجود تھا اور جب ہمارے پاس تشریف لائے تھے تو اس سے زیادہ اچھا اور روشن دن میں نے کوئی نہیں دیکھا اور جس دن آپ کا وصال ہوا اس وقت بھی میں وہاں موجود تھا اس سے زیادہ برا دن اور اس سے زیادہ تاریک دن جس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ يَا أَنَسُ كَيْفَ طَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ وَقَالَتْ يَا أَبَتَاهْ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهْ وَا أَبَتَاهْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ وَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ وَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهْ قَالَ حَمَّادٌ حِينَ حَدَّثَ ثَابِتٌ بَكَى و قَالَ ثَابِتٌ حِينَ حَدَّثَ أَنَسٌ بَكَى
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮৯
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
حضرت عبداللہ بن سلام نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ ہم قیامت کے دن آپ کو اپنے پروردگار کے پاس کھڑا ہوا پائیں گے اور آپ کے رخسار سرخ ہوں گے اور آپ اپنے پروردگار سے اس بات پر حیاء کر رہے ہوں گے جو آپ کی امت نے آپ کے بعد دین میں نئی باتیں داخل کرلی تھیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ أَبِي عَبْدِ الْجَلِيلِ عَنْ أَبِي حَرِيزٍ الْأَزْدِيِّ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَجِدُكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَائِمًا عِنْدَ رَبِّكَ وَأَنْتَ مُحْمَارَّةٌ وَجْنَتَاكَ مُسْتَحْيٍ مِنْ رَبِّكَ مِمَّا أَحْدَثَتْ أُمَّتُكَ مِنْ بَعْدِكَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯০
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جب یہ سورت نازل ہوئی " جب اللہ کی مدد اور فتح آگئی اور تم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں " تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس میں سے لوگ فو در فوج اسی طرح نکلیں گے جس طرح فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الْقُرَشِيِّ عَنْ أَبِي قُرَّةَ مَوْلَى أَبِي جَهْلٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ هَذِهِ السُّورَةَ لَمَّا أُنْزِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَخْرُجُنَّ مِنْهَا أَفْوَاجًا كَمَا دَخَلُوهُ أَفْوَاجًا
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯১
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا بیان
خالد بن معدان بیان کرتے ہیں عبداللہ بن اہتم عمر بن عبدالعزیز کے پاس آئے ان کے ساتھ چند لوگ بھی تھے جیسے ہی وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس پہنچے ساتھ ہی گفتگو چھیڑ لی انھوں نے اللہ کی حمد وثناء بیان کرتے کے بعد یہ کہا امابعد ! بیشک اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے حالانکہ وہ ان کی اطاعت سے بےنیاز ہے اور ان کے گناہوں سے محفوظ ہے۔ لوگ اس وقت حیثیت اور عقل مندی میں ایک دوسرے سے مختلف تھے عرب اس وقت سب سے زیادہ برے حال میں تھے جھونپڑوں اور ڈیروں میں رہتے تھے اور شہد کی مکھیاں پالتے تھے دنیا کی تمام تر پاکیزہ اور عیش و عشرت کا سامان ان سے دور تھا۔ وہ اللہ سے اجتماعی طور پر کچھ نہیں مانگتے تھے۔ اور نہ ہی اس کی کوئی کتاب پڑھتے تھے ان کے مرحومین جہنم میں گئے اور ان کے زندہ لوگ اندھے تھے اور ناپاک تھے اس کے علاوہ ان میں بہت سی خامیاں اور بری باتیں پائی جاتی تھیں جب اللہ نے ان پر اپنی رحمت پھیلانے کا ارادہ کیا تو ان کی طرف انہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کے نزدیک تمہارا مشقت میں مبتلا ہونا بہت دشوار تھا وہ تمہاری بھلائی کے لیے بہت زیادہ حریص تھے اللہ اس پر درود نازل کرے اور سلام نازل کرے اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں لیکن اس کے باوجود عرب اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم مبارک کو زخمی کیا آپ کے نام کے ساتھ منفی لقب کا اضافہ کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ اللہ کی کتاب موجود تھی جو حکم دینے والی تھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم کے تحت ہر کام کرتے تھے اور اسی کیا اجازت سے آپ نے ہجرت کی جب آپ کو فرائض کا حکم دیا گیا اور جہاد کی ترغیب دی گئی تو اللہ کے حکم کی بدولت آپ کی حکومت پھیل گئی۔ اللہ نے آپ کی حجت ظاہر کی آپ کے کلمے کو غالب کیا اور آپ کی دعوت کو عام کیا آپ نے پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے علیحدگی اختیار کی۔
آپ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) مسلمانوں کے خلیفہ بنے آپ کی سنت پر عمل کیا آپ کے راستے کو اپنایا بعض عرب مرتد ہوگئے تھے یا ان میں سے جس نے بھی یہ حرکت کی اللہ کے رسول کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے ایسے لوگوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور صرف اسی کو قبول کیا جو قبول کرنے کے لائق تھا تلواریں میانوں سے باہر آگئیں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے حضرت ابوبکر (رض) نے اہل حق کی مدد سے اہل باطل کو نقصان پہنچایا اس وقت تک ان کے اعضاء کاٹتے رہے اور زمین کو ان کے خون سے سیراب کرتے رہے جب تک انھیں واپس وہیں نہیں پہنچادیا گیا جہاں سے وہ نکلے تھے اور انھیں وہیں قائم کیا جہاں سے وہ بارہ آئے تھے تو اللہ کے مال میں سے حضرت ابوبکر (رض) کو ایک اونٹ ملا جس پر پانی لاد کر لایا جاتا تھا ایک حبشی کنیز ملی جوان کے بچے کو دودھ پلاتی تھی موت کے وقت حضرت ابوبکر (رض) نے اس بات کو اپنے لیے الجھن کا باعث سمجھا اس لیے انھوں نے یہ چیزیں اپنے بعد والے خلیفہ کے سپرد کردیں اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے بالکل اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے۔
اس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے انھوں نے شہر بسائے نرمی کے ہمراہ شدت کو ملا دیا اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھالیں اور اپنی پنڈلیوں سے دامن سمیٹ لیا اور تمام امور کے لیے مناسب لوگوں کا انتظام کیا جنگ کے لیے آلات کا انتظام گیا جب مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے ان پر حملہ کیا تو آپ نے ابن عباس (رض) کو ہدایت کی وہ لوگوں سے دریافت کریں کیا لوگوں نے ان کے قتل کرنے والے کی تحقیق کی ہے تو جب انھیں بتایا گیا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام ہے (جوغیر مسلم ہے) تو انھوں نے بلند آواز سے اپنے پروردگار کی تعریف کی کہ مال غنیمت میں سے کسی حق دار نے ان پر حملہ نہیں کیا جو ان کے خلاف کوئی حجت پیش کرتا کہ حضرت عمر نے اس کا جو حق دبایا تھا اس کی خاطر انھوں نے ان کا خون بہایا تھا۔ حضرت عمر نے اللہ کے مال میں سے اسی ہزار سے کچھ زیادہ درہم وصول کئے تھے۔ اس کی خاطر انھوں نے اپنے مکان کو فروخت کردیا اور یہ ناپسند کیا کہ ان کی اولاد اس رقم کو دینے کی پابند ہو۔ انھوں نے یہ رقم اپنے بعد آنے والے خلیفہ کے سپرد کی اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں اپنے دونوں پیش رو حضرات کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
عبداللہ بن اہتم نے کہا اے عمربن عبدالعزیز پھر اس کے بعد تم ہو دنیا کے بادشاہوں کی اولاد نے تمہیں جنم دیا ہے اسی نے تمہیں دودھ پلایا انہی لوگوں میں تمہاری پرورش ہوئی انھیں جگہوں پر تم انھیں تلاش کرتے رہے لیکن جب تم حکومت کے مالک بنے تو تم نے اسے وہیں رکھا جہاں اللہ نے اسے رکھا تھا تم نے اس سے لاتعلقی اختیار کی اور اس سے جفا کی اور اسے بڑا سمجھا ماسوائے اس چیز کے جس کی تمہارے لیے ضرورت ہو اور ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے ہے جس نے تمہاری وجہ سے ہماری حاجات کو پورا کیا اور تمہاری وجہ سے ہماری پریشانی کو ختم کیا تم چلتے رہو اور ادھر ادھر توجہ نہ دو کیونکہ حق سے زیادہ عزت دار کوئی چیز نہیں ہے اور باطل سے زیادہ ذلیل کوئی اور چیز نہیں ہے میں نے یہ بات ختم کی اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمام اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ ابوایوب بیان کرتے ہیں عمربن عبدالعزیز جب بھی کسی چیز کے بارے میں کچھ کہتے تھے یہ بات فرماتے مجھے ابن اہتم نے بتائی ہے اور یہی کہتے کہ تھے کہ چلتے رہو ادھر ادھر توجہ نہ دو ۔
آپ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) مسلمانوں کے خلیفہ بنے آپ کی سنت پر عمل کیا آپ کے راستے کو اپنایا بعض عرب مرتد ہوگئے تھے یا ان میں سے جس نے بھی یہ حرکت کی اللہ کے رسول کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے ایسے لوگوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور صرف اسی کو قبول کیا جو قبول کرنے کے لائق تھا تلواریں میانوں سے باہر آگئیں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے حضرت ابوبکر (رض) نے اہل حق کی مدد سے اہل باطل کو نقصان پہنچایا اس وقت تک ان کے اعضاء کاٹتے رہے اور زمین کو ان کے خون سے سیراب کرتے رہے جب تک انھیں واپس وہیں نہیں پہنچادیا گیا جہاں سے وہ نکلے تھے اور انھیں وہیں قائم کیا جہاں سے وہ بارہ آئے تھے تو اللہ کے مال میں سے حضرت ابوبکر (رض) کو ایک اونٹ ملا جس پر پانی لاد کر لایا جاتا تھا ایک حبشی کنیز ملی جوان کے بچے کو دودھ پلاتی تھی موت کے وقت حضرت ابوبکر (رض) نے اس بات کو اپنے لیے الجھن کا باعث سمجھا اس لیے انھوں نے یہ چیزیں اپنے بعد والے خلیفہ کے سپرد کردیں اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے بالکل اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے۔
اس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے انھوں نے شہر بسائے نرمی کے ہمراہ شدت کو ملا دیا اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھالیں اور اپنی پنڈلیوں سے دامن سمیٹ لیا اور تمام امور کے لیے مناسب لوگوں کا انتظام کیا جنگ کے لیے آلات کا انتظام گیا جب مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے ان پر حملہ کیا تو آپ نے ابن عباس (رض) کو ہدایت کی وہ لوگوں سے دریافت کریں کیا لوگوں نے ان کے قتل کرنے والے کی تحقیق کی ہے تو جب انھیں بتایا گیا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام ہے (جوغیر مسلم ہے) تو انھوں نے بلند آواز سے اپنے پروردگار کی تعریف کی کہ مال غنیمت میں سے کسی حق دار نے ان پر حملہ نہیں کیا جو ان کے خلاف کوئی حجت پیش کرتا کہ حضرت عمر نے اس کا جو حق دبایا تھا اس کی خاطر انھوں نے ان کا خون بہایا تھا۔ حضرت عمر نے اللہ کے مال میں سے اسی ہزار سے کچھ زیادہ درہم وصول کئے تھے۔ اس کی خاطر انھوں نے اپنے مکان کو فروخت کردیا اور یہ ناپسند کیا کہ ان کی اولاد اس رقم کو دینے کی پابند ہو۔ انھوں نے یہ رقم اپنے بعد آنے والے خلیفہ کے سپرد کی اور پرہیزگاری اور پاکیزگی کے عالم میں اپنے دونوں پیش رو حضرات کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
عبداللہ بن اہتم نے کہا اے عمربن عبدالعزیز پھر اس کے بعد تم ہو دنیا کے بادشاہوں کی اولاد نے تمہیں جنم دیا ہے اسی نے تمہیں دودھ پلایا انہی لوگوں میں تمہاری پرورش ہوئی انھیں جگہوں پر تم انھیں تلاش کرتے رہے لیکن جب تم حکومت کے مالک بنے تو تم نے اسے وہیں رکھا جہاں اللہ نے اسے رکھا تھا تم نے اس سے لاتعلقی اختیار کی اور اس سے جفا کی اور اسے بڑا سمجھا ماسوائے اس چیز کے جس کی تمہارے لیے ضرورت ہو اور ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے ہے جس نے تمہاری وجہ سے ہماری حاجات کو پورا کیا اور تمہاری وجہ سے ہماری پریشانی کو ختم کیا تم چلتے رہو اور ادھر ادھر توجہ نہ دو کیونکہ حق سے زیادہ عزت دار کوئی چیز نہیں ہے اور باطل سے زیادہ ذلیل کوئی اور چیز نہیں ہے میں نے یہ بات ختم کی اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمام اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ ابوایوب بیان کرتے ہیں عمربن عبدالعزیز جب بھی کسی چیز کے بارے میں کچھ کہتے تھے یہ بات فرماتے مجھے ابن اہتم نے بتائی ہے اور یہی کہتے کہ تھے کہ چلتے رہو ادھر ادھر توجہ نہ دو ۔
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ الْمِصْرِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ أَبِي أَيُّوبَ الْخُزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيِّ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ الْمَكِّيِّ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَهْتَمِ عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مَعَ الْعَامَّةِ فَلَمْ يُفْجَأْ عُمَرُ إِلَّا وَهُوَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَتَكَلَّمُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ غَنِيًّا عَنْ طَاعَتِهِمْ آمِنًا لِمَعْصِيَتِهِمْ وَالنَّاسُ يَوْمَئِذٍ فِي الْمَنَازِلِ وَالرَّأْيِ مُخْتَلِفُونَ فَالْعَرَبُ بِشَرِّ تِلْكَ الْمَنَازِلِ أَهْلُ الْحَجَرِ وَأَهْلُ الْوَبَرِ وَأَهْلُ الدَّبَرِ يُحْتَازُ دُونَهُمْ طَيِّبَاتُ الدُّنْيَا وَرَخَاءُ عَيْشِهَا لَا يَسْأَلُونَ اللَّهَ جَمَاعَةً وَلَا يَتْلُونَ لَهُ كِتَابًا مَيِّتُهُمْ فِي النَّارِ وَحَيُّهُمْ أَعْمَى نَجِسٌ مَعَ مَا لَا يُحْصَى مِنْ الْمَرْغُوبِ عَنْهُ وَالْمَزْهُودِ فِيهِ فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَنْشُرَ عَلَيْهِمْ رَحْمَتَهُ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَلَمْ يَمْنَعْهُمْ ذَلِكَ أَنْ جَرَحُوهُ فِي جِسْمِهِ وَلَقَّبُوهُ فِي اسْمِهِ وَمَعَهُ كِتَابٌ مِنْ اللَّهِ نَاطِقٌ لَا يُقَدَّمُ إِلَّا بِأَمْرِهِ وَلَا يُرْحَلُ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَلَمَّا أُمِرَ بِالْعَزْمَةِ وَحُمِلَ عَلَى الْجِهَادِ انْبَسَطَ لِأَمْرِ اللَّهِ لَوْثُهُ فَأَفْلَجَ اللَّهُ حُجَّتَهُ وَأَجَازَ كَلِمَتَهُ وَأَظْهَرَ دَعْوَتَهُ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا ثُمَّ قَامَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ فَسَلَكَ سُنَّتَهُ وَأَخَذَ سَبِيلَهُ وَارْتَدَّتْ الْعَرَبُ أَوْ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُمْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الَّذِي كَانَ قَابِلًا انْتَزَعَ السُّيُوفَ مِنْ أَغْمَادِهَا وَأَوْقَدَ النِّيرَانَ فِي شُعُلِهَا ثُمَّ رَكِبَ بِأَهْلِ الْحَقِّ أَهْلَ الْبَاطِلِ فَلَمْ يَبْرَحْ يُقَطِّعُ أَوْصَالَهُمْ وَيَسْقِي الْأَرْضَ دِمَاءَهُمْ حَتَّى أَدْخَلَهُمْ فِي الَّذِي خَرَجُوا مِنْهُ وَقَرَّرَهُمْ بِالَّذِي نَفَرُوا عَنْهُ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ مِنْ مَالِ اللَّهِ بَكْرًا يَرْتَوِي عَلَيْهِ وَحَبَشِيَّةً أَرْضَعَتْ وَلَدًا لَهُ فَرَأَى ذَلِكَ عِنْدَ مَوْتِهِ غُصَّةً فِي حَلْقِهِ فَأَدَّى ذَلِكَ إِلَى الْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا عَلَى مِنْهَاجِ صَاحِبِهِ ثُمَّ قَامَ بَعْدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَمَصَّرَ الْأَمْصَارَ وَخَلَطَ الشِّدَّةَ بِاللِّينِ وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ وَشَمَّرَ عَنْ سَاقَيْهِ وَأَعَدَّ لِلْأُمُورِ أَقْرَانَهَا وَلِلْحَرْبِ آلَتَهَا فَلَمَّا أَصَابَهُ قَيْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَمَرَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَسْأَلُ النَّاسَ هَلْ يُثْبِتُونَ قَاتِلَهُ فَلَمَّا قِيلَ قَيْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ اسْتَهَلَّ يَحْمَدُ رَبَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ أَصَابَهُ ذُو حَقٍّ فِي الْفَيْءِ فَيَحْتَجَّ عَلَيْهِ بِأَنَّهُ إِنَّمَا اسْتَحَلَّ دَمَهُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ حَقِّهِ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ مِنْ مَالِ اللَّهِ بِضْعَةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا فَكَسَرَ لَهَا رِبَاعَهُ وَكَرِهَ بِهَا كَفَالَةَ أَوْلَادِهِ فَأَدَّاهَا إِلَى الْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَفَارَقَ الدُّنْيَا تَقِيًّا نَقِيًّا عَلَى مِنْهَاجِ صَاحِبَيْهِ ثُمَّ إِنَّكَ يَا عُمَرُ بُنَيُّ الدُّنْيَا وَلَّدَتْكَ مُلُوكُهَا وَأَلْقَمَتْكَ ثَدْيَيْهَا وَنَبَتَّ فِيهَا تَلْتَمِسُهَا مَظَانَّهَا فَلَمَّا وُلِّيتَهَا أَلْقَيْتَهَا حَيْثُ أَلْقَاهَا اللَّهُ هَجَرْتَهَا وَجَفَوْتَهَا وَقَذِرْتَهَا إِلَّا مَا تَزَوَّدْتَ مِنْهَا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَلَا بِكَ حَوْبَتَنَا وَكَشَفَ بِكَ كُرْبَتَنَا فَامْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ فَإِنَّهُ لَا يَعِزُّ عَلَى الْحَقِّ شَيْءٌ وَلَا يَذِلُّ عَلَى الْبَاطِلِ شَيْءٌ أَقُولُ قَوْلِي وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ قَالَ أَبُو أَيُّوبَ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ فِي الشَّيْءِ قَالَ لِيَ ابْنُ الْأَهْتَمِ امْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد اللہ نے آپ کو جو بزرگی عطا کی۔
ابو جوزاء اوس بن عبداللہ بیان کرتے ہیں۔ اہل مدینہ شدیدقحط میں مبتلا ہوگئے انھوں نے سیدہ عائشہ (رض) سے شکایت کی سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور آسمان کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ بنادو کہ آپ کی قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ ہو راوی بیان کرتے ہیں لوگوں نے ایسا کیا اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ گھاس اگ گئی اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے وہ پھول گئے اس سال کو عام الفتق (بارش کا سال) قرار دیا گیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطًا شَدِيدًا فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ قَالَ فَفَعَلُوا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتْ الْإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنْ الشَّحْمِ فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৩
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد اللہ نے آپ کو جو بزرگی عطا کی۔
سعید بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں واقعہ حرہ کے دوران نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں تین دن تک اذان نہیں ہوئی اور نہ ہی اقامت کہی گئی اس دوران حضرت سعید بن مسیب مسجد میں ہی رہے انھیں نماز کے اوقات کا اس طرح سے پتہ چلتا تھا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک سے ہلکی سی آواز آیا کرتی تھی۔
أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ لَمَّا كَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ مِنْ الْمَسْجِدِ وَكَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৪
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد اللہ نے آپ کو جو بزرگی عطا کی۔
نبیہ بن وہب بیان کرتے ہیں حضرت کعب سیدہ عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ چھیڑا تو حضرت کعب نے کہا : روزانہ ستر ہزار فرشتے نیچے اترتے ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں وہ اپنے پر اس کے ساتھ مس کرتے ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں۔ یہاں تک کہ شام کے وقت وہ اوپر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے نیچے اترتے ہیں اور وہ بھی یہی عمل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر (قیامت کے دن) کشادہ ہوگی آپ ستر ہزار فرشتوں کے جلو میں تشریف لائیں گے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي خَالِدٌ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ أَنَّ كَعْبًا دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ كَعْبٌ مَا مِنْ يَوْمٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ الْمَلَائِكَةِ حَتَّى يَحُفُّوا بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْرِبُونَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ فَصَنَعُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِينَ أَلْفًا مِنْ الْمَلَائِكَةِ يَزِفُّونَهُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৫
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی کرنا
حضرت عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اس کے بعد آپ نے ہمیں ایک بلیغ وعظ کہا جس کے نتیجے میں لوگوں کی آنکھوں آنسوں جاری ہوگئے اور ان کے دل تڑپ اٹھے ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ یہ الوداعی وعظ محسوس ہو رہا ہے آپ ہمیں کوئی نصیحت کریں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور (حاکم وقت) کی اطاعت اور فرمان برداری کی وصیت کرتا ہوں خواہ کوئی حبشی غلام ہو میرے بعد جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا تم پر لازم ہے کہ میری سنت اختیار کرو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت اختیار کرو اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھو اور نت نئے پیدا ہونے والے امور سے اجتناب کرو کیونکہ ہر نئی پیدا ہونے والی چیز بدعت ہے۔
ابو اصم نامی راوی نے ایک مرتبہ یہ الفاظ روایت کئے ہیں اور نئے پیدا ہونے والے امور سے بچتے رہنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
ابو اصم نامی راوی نے ایک مرتبہ یہ الفاظ روایت کئے ہیں اور نئے پیدا ہونے والے امور سے بچتے رہنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ ثُمَّ وَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسَنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَالْمُحْدَثَاتِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ و قَالَ أَبُو عَاصِمٍ مَرَّةً وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৬
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی کرنا
زہری بیان کرتے ہیں ہمارے جو علماء گزر چکے ہیں وہ کہا کرتے تھے سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہی نجات ہے اور علم کو بڑی تیزی سے قبض کرلیا جائے گا علم کو برقرار رکھنا دین اور دنیا کو ثابت رکھنے کے مترادف ہے اور علم کی رخصتی میں ان سب (دین ودنیا کی نعمتوں) کی رخصتی ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ عُلَمَائِنَا يَقُولُونَ الِاعْتِصَامُ بِالسُّنَّةِ نَجَاةٌ وَالْعِلْمُ يُقْبَضُ قَبْضًا سَرِيعًا فَنَعْشُ الْعِلْمِ ثَبَاتُ الدِّينِ وَالدُّنْيَا وَفِي ذَهَابِ الْعِلْمِ ذَهَابُ ذَلِكَ كُلِّهِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৭
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی کرنا
عبداللہ بن دیلمی بیان کرتے ہیں مجھے یہ بات پتہ چلی ہے کہ دین میں سب سے زیادہ سنت کو ترک کرنا آئے گا ایک ایک سنت کر کے دین اس طرح رخصت ہوگا جیسے کوئی رسی ایک ایک دھاگہ کرکے ٹوٹ جاتی ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ أَوَّلَ الدِّينِ تَرْكًا السُّنَّةُ يَذْهَبُ الدِّينُ سُنَّةً سُنَّةً كَمَا يَذْهَبُ الْحَبْلُ قُوَّةً قُوَّةً
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی کرنا
حسان بیان کرتے ہیں جو بھی قوم اپنے دین میں نئی بدعت ایجاد کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان میں سے اس بدعت جیسی سنت کو اٹھالیتا ہے اور پھر اسے دوبارہ ان لوگوں کے پاس قیامت تک نہیں لوٹاتا۔
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ حَسَّانَ قَالَ مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِي دِينِهِمْ إِلَّا نَزَعَ اللَّهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا ثُمَّ لَا يُعِيدُهَا إِلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی کرنا
حضرت ابوقلابہ بیان کرتے ہیں جو شخص بدعت ایجاد کرتا ہے وہ (اپنے اوپر حملے کے لئے) تلوار کو حلال کردیتا ہے۔
95. أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ مَا ابْتَدَعَ رَجُلٌ بِدْعَةً إِلَّا اسْتَحَلَّ السَّيْفَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی کرنا
ابوقلابہ بیان کرتے ہیں خواہشات کے پروردگار گمراہ لوگ ہیں اور میرے نزدیک ان کا ٹھکانا صرف جہنم ہے تم ان کا تجربہ کرلو ان میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اپنی بات یا حدیث میں سے تلوار سے کم کسی بات پر باز آجائے (یعنی تلوار کے زور پر انھیں روکنا پڑتا ہے)
نفاق کی کئی قسمیں ہیں۔
(راوی بیان کرتے ہیں) پھر حضرت ابوقلابہ نے مختلف آیات کی تلاوت کی۔
" ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا کہ اگر اس نے ہمیں فضیلت عطا کی تو ہم صدقہ بھی کریں گے اور نیک لوگوں میں سے ہوجائیں گے "۔
ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں تم پر الزام لگاتے ہیں اگر ان صدقات میں سے انھیں دے دیا جائے تو وہ راضی رہیں گے اگر انھیں نہ دیا تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں "۔
اور ان میں سے بعض لوگ وہ ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں "۔
ابو قلابہ کہتے ہیں ان لوگوں کے اقوال مختلف ہیں۔ لیکن شک اور تکذیب کے حوالے سے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں ان لوگوں کی باتیں مختلف ہیں لیکن تلوار کے معاملے میں سب ایک جیسے ہیں اور میرے نزدیک ان کا ٹھکانا صرف جہنم ہے۔
حماد بیان کرتے ہیں پہلے والی روایت نقل کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں وہ یعنی ابوقلابہ سمجھدار فقہاء میں سے ایک ہیں۔
نفاق کی کئی قسمیں ہیں۔
(راوی بیان کرتے ہیں) پھر حضرت ابوقلابہ نے مختلف آیات کی تلاوت کی۔
" ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا کہ اگر اس نے ہمیں فضیلت عطا کی تو ہم صدقہ بھی کریں گے اور نیک لوگوں میں سے ہوجائیں گے "۔
ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں تم پر الزام لگاتے ہیں اگر ان صدقات میں سے انھیں دے دیا جائے تو وہ راضی رہیں گے اگر انھیں نہ دیا تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں "۔
اور ان میں سے بعض لوگ وہ ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں "۔
ابو قلابہ کہتے ہیں ان لوگوں کے اقوال مختلف ہیں۔ لیکن شک اور تکذیب کے حوالے سے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں ان لوگوں کی باتیں مختلف ہیں لیکن تلوار کے معاملے میں سب ایک جیسے ہیں اور میرے نزدیک ان کا ٹھکانا صرف جہنم ہے۔
حماد بیان کرتے ہیں پہلے والی روایت نقل کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں وہ یعنی ابوقلابہ سمجھدار فقہاء میں سے ایک ہیں۔
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ إِنَّ أَهْلَ الْأَهْوَاءِ أَهْلُ الضَّلَالَةِ وَلَا أَرَى مَصِيرَهُمْ إِلَّا النَّارَ فَجَرِّبْهُمْ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَنْتَحِلُ قَوْلًا أَوْ قَالَ حَدِيثًا فَيَتَنَاهَى بِهِ الْأَمْرُ دُونَ السَّيْفِ وَإِنَّ النِّفَاقَ كَانَ ضُرُوبًا ثُمَّ تَلَا وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ وَمِنْهُمْ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ فَاخْتَلَفَ قَوْلُهُمْ وَاجْتَمَعُوا فِي الشَّكِّ وَالتَّكْذِيبِ وَإِنَّ هَؤُلَاءِ اخْتَلَفَ قَوْلُهُمْ وَاجْتَمَعُوا فِي السَّيْفِ وَلَا أَرَى مَصِيرَهُمْ إِلَّا النَّارَ قَالَ حَمَّادٌ ثُمَّ قَالَ أَيُّوبُ عِنْدَ ذَا الْحَدِيثِ أَوْ عِنْدَ الْأَوَّلِ وَكَانَ وَاللَّهِ مِنْ الْفُقَهَاءِ ذَوِي الْأَلْبَابِ يَعْنِي أَبَا قِلَابَةَ
তাহকীক: