সুনানুদ্দারিমী (উর্দু)

مسند الدارمي (سنن الدارمي)

مقدمہ دارمی - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৬৪৭ টি

হাদীস নং: ৬৪১
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ ایک شخص جب کوئی فتوی دے اور پھر اسے نبی اکرم کے حوالے سے کسی حدیث کا پتہ چلے تو اسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ایوب بیان کرتے ہیں جب تمہیں کسی تعلیم دینے والے کی غلطی کا پتا چلے تو اٹھ کر کسی اور کی محفل میں چلے جاؤ۔
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ كَانَ سَلَّامٌ يَذْكُرُ عَنْ أَيُّوبَ قَالَ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْرِفَ خَطَأَ مُعَلِّمِكَ فَجَالِسْ غَيْرَهُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬৪২
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ ایک شخص جب کوئی فتوی دے اور پھر اسے نبی اکرم کے حوالے سے کسی حدیث کا پتہ چلے تو اسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ایوب بیان کرتے ہیں ہم مکہ میں ایک ایسے شخص کا ذکر کررہے تھے جو فوت ہوچکا تھا میں نے کہا اس کی بیوی کی عدت اس دن سے شروع ہوگی جب اس شخص کی وفات کی اطلاع ملے گی کیونکہ حسن بصری قتادہ اور ہمارے مشائخ کی یہی رائے ہے۔ ایوب بیان کرتے ہیں پھر میری ملاقات طلق بن حبیب عنزی سے ہوئی تو وہ بولے آپ مجھ پر بڑے مہربان ہیں آپ اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی طرف لوگوں کی نظریں تیزی سے جاتی ہیں اور میں آپ کے بارے میں امن میں نہیں ہوں اس نے یہ بھی کہا کہ آپ نے یہاں ایک بات کی ہے جو اس شہر کے اہل علم کے قول کے خلاف ہے اس لیے میں مطمئن نہیں ہوں میں نے دریافت کیا اس کے بارے میں اختلاف ہے اس نے جواب دیا جی ہاں۔ اس عورت کی عدت اس دن سے شروع ہوگئی جب وہ شخص فوت ہوا تھا کیونکہ میری ملاقات حضرت سعید بن جبیر سے ہوئی تھی اور میں نے یہی سوال ان سے کیا تھا تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ اس عورت کی عدت اس دن سے شروع ہوگی جب وہ مرد فوت ہوا تھا پھر میں نے مجاہد (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا۔ پھر میں نے عطاء بن ابی رباح سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا، پھر میں نے ابوقلابہ سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ وفات کے دن سے ہوگی پھر میں نے محمد بن سیرین سے سوال کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ وفات کے دن سے ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ نافع نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے بھی یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اس دن سے شروع ہوگی جس دن اس کے مرد کا انتقال ہوا ہے۔ میں نے عکرمہ کو اور حضرت جابر بن زید کو اور حضرت ابن عباس (رض) کو بھی یہی فتوی دیتے سنا ہے کہ وفات کے دن سے آغاز ہوگا۔ حماد بیان کرتے ہیں میں نے لیث کو حکم کے حوالے سے یہ بات بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ وفات کے دن سے آغاز ہوگا۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں حضرت علی (رض) نے یہ ارشاد فرمایا جس دن اس کی وفات کی خبر آئے گی اس دن سے آغاز ہوگا۔ عبداللہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں تو میں نے بھی یہی فتوی دیا کہ وفات کے دن سے حساب شمار ہوگا۔
أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ قَالَ تَذَاكَرْنَا بِمَكَّةَ الرَّجُلَ يَمُوتُ فَقُلْتُ عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ يَأْتِيهَا الْخَبَرُ لِقَوْلِ الْحَسَنِ وَقَتَادَةَ وَأَصْحَابِنَا قَالَ فَلَقِيَنِي طَلْقُ بْنُ حَبِيبٍ الْعَنَزِيُّ فَقَالَ إِنَّكَ عَلَيَّ كَرِيمٌ وَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِ بَلَدٍ الْعَيْنُ إِلَيْهِمْ سَرِيعَةٌ وَإِنِّي لَسْتُ آمَنُ عَلَيْكَ وَإِنَّكَ قُلْتَ قَوْلًا هَا هُنَا خِلَافَ قَوْلِ أَهْلِ الْبَلَدِ وَلَسْتُ آمَنُ فَقُلْتُ وَفِي ذَا اخْتِلَافٌ قَالَ نَعَمْ عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ يَمُوتُ فَلَقِيتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ وَسَأَلْتُ مُجَاهِدًا فَقَالَ عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ وَسَأَلْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ فَقَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ وَسَأَلْتُ أَبَا قِلَابَةَ فَقَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ فَقَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ و سَمِعْت عِكْرِمَةَ يَقُولُ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ وَقَالَ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ حَمَّادٌ وَسَمِعْتُ لَيْثًا حَدَّثَ عَنْ الْحَكَمِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ قَالَ تُوُفِّيَ عَلِيٌّ مِنْ يَوْمِ يَأْتِيهَا الْخَبَرُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَقُولُ مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬৪৩
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ جو شخص کوئی فتوی دے اور پھر دوسری رائے مناسب سمجھے
حکم بیان کرتے ہیں ہم ایک مشترکہ چیز کے بارے میں حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے ہمیں اس کا شریک قرار نہیں دیا پھر ہم اگلے سال ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے ہمیں حصہ قرار دیدیا ہم نے ان سے اس بارے میں کہا تو انھوں نے جواب دیا پہلے وہ حکم تھا جو ہمیں پہلے سمجھ میں آیا اور یہ وہ حکم ہے جو اب ہمارے نزدیک بہتر ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَتَيْنَا عُمَرَ فِي الْمُشَرَّكَةِ فَلَمْ يُشَرِّكْ ثُمَّ أَتَيْنَاهُ الْعَامَ الْمُقْبِلَ فَشَرَّكَ فَقُلْنَا لَهُ فَقَالَ تِلْكَ عَلَى مَا قَضَيْنَا وَهَذِهِ عَلَى مَا قَضَيْنَا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬৪৪
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ علم کی تعظیم
ابن منبہ بیان کرتے ہیں گزشتہ زمانے میں اہل علم اپنے علم کی وجہ سے دنیا داروں کے معاملے میں بخیل ہوتے تھے تو اہل دنیا ان کے علم کی وجہ سے ان کی طرف راغب ہوتے تھے اور اپنا دنیاوی مال و دولت ان پر خرچ کرتے تھے آج کے اہل علم اپنا علم دنیا والوں پر خرچ کرتے ہیں لیکن اہل دنیا ان کے علم سے بےنیاز ہیں اور اپنی دنیاوی مال و دولت کے معاملے میں ان سے بخل کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الْأَسْوَدُ قَالَ قَالَ ابْنُ مُنَبِّهٍ كَانَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا مَضَى يَضَنُّونَ بِعِلْمِهِمْ عَنْ أَهْلِ الدُّنْيَا فَيَرْغَبُ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ فَيَبْذُلُونَ لَهُمْ دُنْيَاهُمْ وَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ الْيَوْمَ بَذَلُوا عِلْمَهُمْ لِأَهْلِ الدُّنْيَا فَزَهِدَ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ فَضَنُّوا عَلَيْهِمْ بِدُنْيَاهُمْ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬৪৫
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ علم کی تعظیم
ضحاک بن موسیٰ بیان کرتے ہیں سلیمان بن عبدالملک کا گزر مدینہ سے ہوا وہ مکہ جانا چاہتے تھے اس نے کچھ دن مدینہ میں قیام کیا اور دریافت کیا کہ کیا مدینہ میں کوئی ایسے صاحب موجود ہیں جنہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا زمانہ پایا ہو لوگوں نے انھیں بتایا کہ ابوحازم ہیں سلیمان نے انھیں پیغام بھجوایا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو سلیمان نے ان سے کہا اے ابوحازم یہ زیادتی ہے ابوحازم نے دریافت کیا اے امیرالمومنین آپ نے میری طرف سے کون سی زیادتی دیکھی ہے سلیمان نے کہا میرے پاس مدینے کئے تمام سر کردہ لوگ آئے ہیں لیکن آپ میرے پاس تشریف نہیں لائے۔ ابوحازم نے جواب دیا اے امیرالمومنین میں اس بارے میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتاہوں کہ آپ وہ بات کریں جو نہیں ہوئی آج کے دن سے پہلے آپ مجھ سے واقف نہیں تھے اور میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا تو میں کیوں آپ کے پاس آتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر سلیمان، محمد بن شہاب زہری کی طرف متوجہ ہوا اور بولا یہ بزرگ ٹھیک کہہ رہے ہیں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ سلیمان نے کہا اے ابوحازم ہم موت کو ناپسند کیوں کرتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت خراب کی ہوئی ہے اور دنیا کو آباد کیا ہوا ہے اس لیے آپ اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ کسی بسی ہوئی چیز سے کسی تباہ حال کی طرف جائیں۔ سلیمان نے کہا اے ابوحازم آپ نے ٹھیک کہا ہے کل ہم اللہ کی بارگاہ میں کیسے حاضر ہوں گے ؟ ابوحازم نے جواب دیا نیک آدمی تو یوں آئے گا جیسا کہ گھر سے غیر موجود شخص اپنے گھر واپس آتا تھا۔ اور گناہ گار یوں آئے گا جیسے کوئی مفرور غلام اپنے آقا کے پاس آتا ہے۔ سلیمان رو پڑا اور بولا ہائے افسوس۔ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ابوحازم نے کہا آپ اپنے عمل اللہ کی کتاب پر پیش کریں۔ سلیمان نے دریافت کیا کیا میں کسی جگہ انھیں پاسکتا ہوں ؟ ابوحازم نے کہا بیشک نیک لوگ جنت میں ہوں گے اور گناہ گار لوگ جہنم میں ہوں گے۔ سلیمان نے دریافت کیا اے ابوحازم اللہ کی رحمت کہاں ہوگی۔ ابوحازم نے جواب دیا اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے پاس ہوگی۔ سلیمان نے ان سے کہا اے ابوحازم اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے ؟ انھوں نے جواب دیا جو مروت اور سمجھ کا مالک ہو۔ سلیمان نے ان سے کہا سب سے افضل عمل کون سا ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا حرام چیزوں سے اجتناب کرنے کے ہمراہ فرائض ادا کرنا۔ سلیمان نے پوچھا کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جس شخص کے ساتھ احسان کیا گیا وہ اپنے محسن کے لیے جو دعا کرتا ہے۔ سلیمان نے دریافت کیا کون سا صدقہ افضل ہے ؟ ابوحازم نے جواب دیا جو مصیبت زدہ شخص کو دیا جائے اور جو کوئی غریب شخص دے جس میں احسان نہ جتایا جائے اور تکلیف نہ دی جائے۔ سلیمان نے پوچھا کون سی بات عدل کے زیادہ قریب ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جس بات سے تم خوف زدہ ہو یا جب تمہیں کوئی امید ہو اس وقت حق بیان کرنا۔ سلیمان نے پوچھا سب سے زیادہ عقل مند کون سا مومن ہے ؟ ابوحازم نے جواب دیا جو شخص اللہ کی کتاب پر عمل کرے اور لوگوں کی اس طرف رہنمائی کرے۔ سلیمان نے پوچھا کون سا مومن سب سے زیادہ احمق ہے۔ ابوحازم نے جواب دیا جو شخص اپنے بھائی کی نفسانی خواہش میں شریک ہو کر ظلم کا ارتکاب کرے یوں وہ دوسرے شخص کی دنیا کے عوض میں اپنی آخرت کو فروخت کردے۔ سلیمان نے ان سے کہا آپ نے ٹھیک کہا ہے ہم جس حال میں ہیں اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہو۔ ابوحازم نے جواب دیا اے امیرالمومنین کیا آپ مجھ سے درگزر کریں گے۔ سلیمان نے ان سے کہا نہیں یہ ایک نصیحت ہوگی جو آپ کی طرف سے مجھ تک آئے گی۔ ابوحازم نے کہا اے امیرالمومنین آپ کے آباء و اجداد نے تلواروں کے ذریعے لوگوں کو مغلوب کیا ہے انھوں نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں کی اس میں کوئی رضامندی نہیں تھی انھوں نے بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور بہت سے لوگ ان کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں کاش آپ جان سکتے کہ انھوں نے کیا کہا اور ان سے کیا کہا گیا۔ راوی بیان کرتے ہیں حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا اے ابوحازم آپ نے بہت غلط بات کہی ہے۔ ابوحازم نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو بیشک اللہ نے علماء سے یہ پختہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کو واضح طور پر بیان کریں گے اور ان سے چھپائیں گے نہیں۔ سلیمان نے کہا ہم اب اس چیز کو کیسے ٹھیک کرسکتے ہیں ؟ ابوحازم نے کہا آپ لوگ تکبر کو چھوڑ دیں اور مروت کو اختیار کریں اور برابری کی بنیاد پر تقسیم کریں۔ سلیمان نے ان سے کہا ٹیکس وصول کرنے کے بارے میں ہمارے لیے کتنی گنجائش ہے ؟ ابوحازم نے جواب دیا آپ اسے مناسب طور پر وصول کرسکتے ہیں اور اس کے مستحق لوگوں پر خرچ کرسکتے ہیں۔ سلیمان نے ان سے دریافت کیا اے ابوحازم کیا یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں یوں ہمیں آپ سے فائدہ ہوگا اور ہم بھی آپ کو کچھ فائدہ پہنچا دیں گے۔ ابوحازم نے جواب دیا میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ سلیمان نے ان سے کہا ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔ ابوحازم نے جواب دیا مجھے یہ ڈر ہے کہ آپ کی طرف میں تھوڑا سا جھکوں گا جس کے نتیجے میں اللہ مجھے زندگی میں اور مرنے کے بعد دگنا عذاب دے گا۔ سلیمان نے ان سے کہا اپنی ضروریات ہمارے سامنے پیش کریں۔ ابوحازم نے جواب دیا آپ مجھے جہنم سے نجات دلوا کر جنت میں داخل کروا دیں۔ سلیمان نے کہا یہ تو میں نہیں کرسکتا۔ ابوحازم نے کہا پھر آپ سے مجھے کوئی کام نہیں۔ سلیمان نے کہا آپ میرے لیے دعا کریں۔ ابوحازم نے دعا کی اے اللہ اگر سلیمان تیرا دوست ہے تو اسے دنیا اور آخرت میں بھلائی کے ذریعے خوش کردے اور اگر یہ تیرا دوست نہیں تو اس کی پیشانی پکڑ کر اسے اس طرف لے جا جس سے تو راضی ہوجائے اور جو تجھے پسند ہو۔ سلیمان نے ان سے کہا بس اتناہی ؟ ابوحازم بولے میں نے مختصر الفاظ میں وسیع مفہوم رکھنے والی دعا کردی اگر تم اس کے اہل ہوئے اور اگر تم اس کے اہل نہ ہوئے تو مجھے کیا فائدہ ہوگا اگر میں کمان کے ذریعے کوئی ایسا تیر پھینکوں جس پر پھل ہی نہ لگا ہو ؟ سلیمان نے ان سے کہا آپ مجھے کوئی وصیت کریں۔ ابوحازم بولے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اور مختصر الفاظ میں کروں گا تم اپنے پروردگار کو عظیم سمجھو اور اسے اس بات سے پاک رکھو کہ وہ تمہیں کسی ایسے معاملے میں دیکھے جس سے اس نے تمہیں منع کیا ہے یا کسی ایسی جگہ پر تمہیں غیرموجود پائے جس کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔ جب سلیمان ان کے ہاں سے اٹھ کر گیا تو ان کی خدمت میں سو دینار بھیجے اور ساتھ ہی یہ تحریر بھیجی آپ انھیں خرچ کیجیے میری طرف سے آپ کو ان جیسے اور بہت ملیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں ابوحازم نے وہ انھیں واپس کردیئے اور جوابی خط میں لکھا اے امیر المومنین میں آپ کو اس بات سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں کہ آپ نے مذاق کے طور پر مجھ سے کچھ مانگیں یا آپ تذلیل کے طور پر کوئی چیز واپس لیں جس چیز پر میں آپ کے لیے راضی نہیں ہوں اس سے اپنے لیے کیسے راضی ہوسکتا ہوں۔

ابوحازم نے سلیمان کو خط میں لکھا حضرت موسیٰ جب مدین کے چشمے پر آئے تو وہاں انھوں نے کچھ لوگوں کو بکریوں کو پانی پلاتے ہوئے دیکھا دو لڑکیاں ان سے کچھ ہٹ کر کھڑی ہوئی تھیں حضرت موسیٰ نے ان دونوں سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا ہم اس وقت تک پانی حاصل نہیں کرسکتے جب تک یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا لیتے۔ کیونکہ ہمارے والد عمر رسیدہ آدمی ہیں حضرت موسیٰ نے ان دونوں کو پانی لا کردیا اور پھر سائے میں آکر بیٹھ گئے اور بولے اے میرے رب تو میری طرف جو بھلائی نازل کرے گا میں اس کا محتاج ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھوک کے عالم میں تھے اور خوف زدہ بھی۔ کیونکہ وہ امن کی حالت میں نہیں تھے لیکن انھوں نے اپنے پروردگار سے مانگا۔ انھوں نے لوگوں سے سوال نہیں کیا۔ بکریوں کے چرواہوں کو اس بات کا پتہ نہیں چل سکا لیکن وہ دونوں لڑکیاں یہ بات سمجھ گئیں جب وہ دونوں اپنے والد کے پاس واپس گئیں اور انھیں یہ ماجرا سنایا اور ان کی بات کے بارے میں بتایا تو ان کے والد نے جو حضرت شعیب تھے یہ کہا وہ شخص بھوکا ہوگا پھر انھوں نے ایک لڑکی سے کہا تم جاؤ اور اسے بلا کر لاؤ جب وہ لڑکی ان کے پاس آئی تو انھیں تعظیم پیش کی اور اپنا چہرہ چھپالیا۔ اور یہ بولی کہ میرے والد نے آپ کو بلایا ہے تاکہ آپ نے ہمیں جو پانی لا کردیا ہے اس کا بدلہ آپ کو دیں۔ جب اس لڑکی نے یہ بات کہ جو آپ نے پانی پلایا ہے اس کا بدلہ آپ کو دیں تو حضرت موسیٰ کو اس سے بہت تکلیف ہوئی لیکن اس وقت ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس لڑکی کے پیچھے چلے جائیں کیونکہ وہ اس وقت پہاڑی سلسلے کے درمیان تھے بھوکے تھے وحشت کا شکار تھے اس لیے وہ اس کے پیچھے چل پڑے جب وہ اس کے پیچھے چلے تو ہوا چل پڑی جس کے نتیجے میں اس کی پشت کی جانب سے کپڑے ہلنے لگے جس کی وجہ سے بےپردگی کے آثار پیدا ہوئے وہ صحت مند جسم کی مالک لڑکی تھی حضرت موسیٰ کبھی نگاہ دوسری طرف پھیر لیتے تھے اور کبھی نگاہ جھکا دیتے تھے جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو اس نے بلند آواز سے کہا اے لڑکی اللہ کی کنیز تم میرے پیچھے آجاؤ اور مجھے زبانی طور پر راستے کے بارے میں بتاؤ۔

جب حضرت موسیٰ حضرت شعیب کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت رات کا کھانا تیار تھا حضرت شعیب نے ان سے کہا اے نوجوان بیٹھ جاؤ اور کھانا کھاؤ حضرت موسیٰ نے ان سے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں حضرت شعیب نے ان سے کہا وہ کیوں کیا تم بھوکے نہیں ہو۔ حضرت موسیٰ نے جواب دیا جی ہاں۔ لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ اس چیز کا معاوضہ ہے جو میں نے ان دو لڑکیوں کو پانی لا کردیا تھا۔ میں اسے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں جس کے لوگ تمام روئے زمین کے برابر سونے کے عوض میں بھی اپنی نیکی فروخت نہیں کرتے۔ حضرت شعیب نے ان سے کہا نہیں اے نوجوان لیکن میری اور میرے آباء و اجداد کی یہ عادت ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے ہیں۔ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو حضرت موسیٰ بیٹھ گئے اور انھوں نے کھانا کھالیا۔ ابوحازم نے سلیمان کو لکھا کہ آپ نے جو سو دینار بھیجے ہیں اگر تو یہ اس چیز کا معاوضہ ہے جو میں نے آپ سے باتیں کی تھیں تو مردار، خون اور گوشت سور کا، اضطرار کی حالت میں اس سے زیادہ حلال ہے اور اگر یہ بیت المال کے حق کی وجہ سے ہے تو اس کے بہت سے مستحق ہیں اگر تو آپ ہم سب میں برابر تقسیم کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْكُمَيْتِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ وَهْبٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مُوسَى قَالَ مَرَّ سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُرِيدُ مَكَّةَ فَأَقَامَ بِهَا أَيَّامًا فَقَالَ هَلْ بِالْمَدِينَةِ أَحَدٌ أَدْرَكَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا لَهُ أَبُو حَازِمٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ لَهُ يَا أَبَا حَازِمٍ مَا هَذَا الْجَفَاءُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَأَيُّ جَفَاءٍ رَأَيْتَ مِنِّي قَالَ أَتَانِي وُجُوهُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَلَمْ تَأْتِنِي قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ تَقُولَ مَا لَمْ يَكُنْ مَا عَرَفْتَنِي قَبْلَ هَذَا الْيَوْمِ وَلَا أَنَا رَأَيْتُكَ قَالَ فَالْتَفَتَ سُلَيْمَانُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ فَقَالَ أَصَابَ الشَّيْخُ وَأَخْطَأْتُ قَالَ سُلَيْمَانُ يَا أَبَا حَازِمٍ مَا لَنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ قَالَ لِأَنَّكُمْ أَخْرَبْتُمْ الْآخِرَةَ وَعَمَّرْتُمْ الدُّنْيَا فَكَرِهْتُمْ أَنْ تُنْقَلُوا مِنْ الْعُمْرَانِ إِلَى الْخَرَابِ قَالَ أَصَبْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ فَكَيْفَ الْقُدُومُ غَدًا عَلَى اللَّهِ قَالَ أَمَّا الْمُحْسِنُ فَكَالْغَائِبِ يَقْدُمُ عَلَى أَهْلِهِ وَأَمَّا الْمُسِيءُ فَكَالْآبِقِ يَقْدُمُ عَلَى مَوْلَاهُ فَبَكَى سُلَيْمَانُ وَقَالَ لَيْتَ شِعْرِي مَا لَنَا عِنْدَ اللَّهِ قَالَ اعْرِضْ عَمَلَكَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ وَأَيُّ مَكَانٍ أَجِدُهُ قَالَ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ قَالَ سُلَيْمَانُ فَأَيْنَ رَحْمَةُ اللَّهِ يَا أَبَا حَازِمٍ قَالَ أَبُو حَازِمٍ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنْ الْمُحْسِنِينَ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ يَا أَبَا حَازِمٍ فَأَيُّ عِبَادِ اللَّهِ أَكْرَمُ قَالَ أُولُو الْمُرُوءَةِ وَالنُّهَى قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ فَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ أَدَاءُ الْفَرَائِضِ مَعَ اجْتِنَابِ الْمَحَارِمِ قَالَ سُلَيْمَانُ فَأَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ قَالَ أَبُو حَازِمٍ دُعَاءُ الْمُحْسَنِ إِلَيْهِ لِلْمُحْسِنِ قَالَ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ لِلسَّائِلِ الْبَائِسِ وَجُهْدُ الْمُقِلِّ لَيْسَ فِيهَا مَنٌّ وَلَا أَذًى قَالَ فَأَيُّ الْقَوْلِ أَعْدَلُ قَالَ قَوْلُ الْحَقِّ عِنْدَ مَنْ تَخَافُهُ أَوْ تَرْجُوهُ قَالَ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ قَالَ رَجُلٌ عَمِلَ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَدَلَّ النَّاسَ عَلَيْهَا قَالَ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَحْمَقُ قَالَ رَجُلٌ انْحَطَّ فِي هَوَى أَخِيهِ وَهُوَ ظَالِمٌ فَبَاعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ أَصَبْتَ فَمَا تَقُولُ فِيمَا نَحْنُ فِيهِ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَوَ تُعْفِينِي قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ لَا وَلَكِنْ نَصِيحَةٌ تُلْقِيهَا إِلَيَّ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ آبَاءَكَ قَهَرُوا النَّاسَ بِالسَّيْفِ وَأَخَذُوا هَذَا الْمُلْكَ عَنْوَةً عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَلَا رِضَاهُمْ حَتَّى قَتَلُوا مِنْهُمْ مَقْتَلَةً عَظِيمَةً فَقَدْ ارْتَحَلُوا عَنْهَا فَلَوْ أُشْعِرْتَ مَا قَالُوا وَمَا قِيلَ لَهُمْ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ قَالَ أَبُو حَازِمٍ كَذَبْتَ إِنَّ اللَّهَ أَخَذَ مِيثَاقَ الْعُلَمَاءِ لَيُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا يَكْتُمُونَهُ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ فَكَيْفَ لَنَا أَنْ نُصْلِحَ قَالَ تَدَعُونَ الصَّلَفَ وَتَمَسَّكُونَ بِالْمُرُوءَةِ وَتَقْسِمُونَ بِالسَّوِيَّةِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ كَيْفَ لَنَا بِالْمَأْخَذِ بِهِ قَالَ أَبُو حَاَزِمٍ تَأْخُذُهُ مِنْ حِلِّهِ وَتَضَعُهُ فِي أَهْلِهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ هَلْ لَكَ يَا أَبَا حَازِمٍ أَنْ تَصْحَبَنَا فَتُصِيبَ مِنَّا وَنُصِيبَ مِنْكَ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ وَلِمَ ذَاكَ قَالَ أَخْشَى أَنْ أَرْكَنَ إِلَيْكُمْ شَيْئًا قَلِيلًا فَيُذِيقَنِي اللَّهُ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ ارْفَعْ إِلَيْنَا حَوَائِجَكَ قَالَ تُنْجِينِي مِنْ النَّارِ وَتُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ قَالَ سُلَيْمَانُ لَيْسَ ذَاكَ إِلَيَّ قَالَ أَبُو حَازِمٍ فَمَا لِي إِلَيْكَ حَاجَةٌ غَيْرُهَا قَالَ فَادْعُ لِي قَالَ أَبُو حَازِمٍ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ سُلَيْمَانُ وَلِيَّكَ فَيَسِّرْهُ لِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَإِنْ كَانَ عَدُوَّكَ فَخُذْ بِنَاصِيَتِهِ إِلَى مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ قَطُّ قَالَ أَبُو حَازِمٍ قَدْ أَوْجَزْتُ وَأَكْثَرْتُ إِنْ كُنْتَ مِنْ أَهْلِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ مِنْ أَهْلِهِ فَمَا يَنْفَعُنِي أَنْ أَرْمِيَ عَنْ قَوْسٍ لَيْسَ لَهَا وَتَرٌ قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ أَوْصِنِي قَالَ سَأُوصِيكَ وَأُوجِزُ عَظِّمْ رَبَّكَ وَنَزِّهْهُ أَنْ يَرَاكَ حَيْثُ نَهَاكَ أَوْ يَفْقِدَكَ حَيْثُ أَمَرَكَ فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ بَعَثَ إِلَيْهِ بِمِائَةِ دِينَارٍ وَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ أَنْفِقْهَا وَلَكَ عِنْدِي مِثْلُهَا كَثِيرٌ قَالَ فَرَدَّهَا عَلَيْهِ وَكَتَبَ إِلَيْهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ يَكُونَ سُؤَالُكَ إِيَّايَ هَزْلًا أَوْ رَدِّي عَلَيْكَ بَذْلًا وَمَا أَرْضَاهَا لَكَ فَكَيْفَ أَرْضَاهَا لِنَفْسِي وَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ لَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهَا رِعَاءً يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمْ جَارِيَتَيْنِ تَذُودَانِ فَسَأَلَهُمَا فَقَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ وَذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ جَائِعًا خَائِفًا لَا يَأْمَنُ فَسَأَلَ رَبَّهُ وَلَمْ يَسْأَلْ النَّاسَ فَلَمْ يَفْطِنْ الرِّعَاءُ وَفَطِنَتْ الْجَارِيتَانِ فَلَمَّا رَجَعَتَا إِلَى أَبِيهِمَا أَخْبَرَتَاهُ بِالْقِصَّةِ وَبِقَوْلِهِ فَقَالَ أَبُوهُمَا وَهُوَ شُعَيْبٌ هَذَا رَجُلٌ جَائِعٌ فَقَالَ لِإِحْدَاهُمَا اذْهَبِي فَادْعِيهِ فَلَمَّا أَتَتْهُ عَظَّمَتْهُ وَغَطَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَشَقَّ عَلَى مُوسَى حِينَ ذَكَرَتْ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا وَلَمْ يَجِدْ بُدًّا مِنْ أَنْ يَتْبَعَهَا إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ الْجِبَالِ جَائِعًا مُسْتَوْحِشًا فَلَمَّا تَبِعَهَا هَبَّتْ الرِّيحُ فَجَعَلَتْ تَصْفِقُ ثِيَابَهَا عَلَى ظَهْرِهَا فَتَصِفُ لَهُ عَجِيزَتَهَا وَكَانَتْ ذَاتَ عَجُزٍ وَجَعَلَ مُوسَى يُعْرِضُ مَرَّةً وَيَغُضُّ أُخْرَى فَلَمَّا عِيلَ صَبْرُهُ نَادَاهَا يَا أَمَةَ اللَّهِ كُونِي خَلْفِي وَأَرِينِي السَّمْتَ بِقَوْلِكِ ذَا فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى شُعَيْبٍ إِذَا هُوَ بِالْعَشَاءِ مُهَيَّأً فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ اجْلِسْ يَا شَابُّ فَتَعَشَّ فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَعُوذُ بِاللَّهِ فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ لِمَ أَمَا أَنْتَ جَائِعٌ قَالَ بَلَى وَلَكِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ هَذَا عِوَضًا لِمَا سَقَيْتُ لَهُمَا وَإِنَّا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ لَا نَبِيعُ شَيْئًا مِنْ دِينِنَا بِمِلْءِ الْأَرْضِ ذَهَبًا فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ لَا يَا شَابُّ وَلَكِنَّهَا عَادَتِي وَعَادَةُ آبَائِي نُقْرِي الضَّيْفَ وَنُطْعِمُ الطَّعَامَ فَجَلَسَ مُوسَى فَأَكَلَ فَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْمِائَةُ دِينَارٍ عِوَضًا لِمَا حَدَّثْتُ فَالْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ فِي حَالِ الِاضْطِرَارِ أَحَلُّ مِنْ هَذِهِ وَإِنْ كَانَ لِحَقٍّ لِي فِي بَيْتِ الْمَالِ فَلِي فِيهَا نُظَرَاءُ فَإِنْ سَاوَيْتَ بَيْنَنَا وَإِلَّا فَلَيْسَ لِي فِيهَا حَاجَةٌ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬৪৬
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ علم کی تعظیم
زید بیان کرتے ہیں ایک عالم نے یہ بات بیان کی۔ اے صاحب علم اپنے علم پر عمل کرو اور اپنا اضافی مال مستحق لوگوں کو دے دو اور فضول گفتگو نہ کرو۔ صرف وہی بات کرو جو تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں تمہیں فائدہ پہنچائے۔ اے صاحب علم جس چیز کا تم نے علم حاصل کیا ہے پھر اس پر عمل نہیں کیا جب تم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوگے تو وہ چیز تمہاری حجت کو توڑ دے گی اور تمہاری معذرت کو ختم کردے گی۔ اے صاحب علم۔ تمہیں اللہ کی جب عبادت کا حکم دیا گیا ہے وہ تمہیں اس کی اس نافرمانی سے روکے گی جس سے تمہیں منع کیا گیا ہے اے صاحب علم تم دوسروں کی طرف سے عمل کرنے میں طاقت ور ہو اور اپنی ذات کے طرف سے عمل کرنے میں کمزور نہ ہوجانا۔ اے صاحب علم تم علماء کی تعظیم کرو ان کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ ان کی باتیں غور سے سنو اور ان سے بحث نہ کرو۔ اے صاحب علم ! علماء کو ان کے علم کی وجہ سے عظیم سمجھو اور جہلاء کو ان کی جہالت کی وجہ سے کم سمجھو لیکن ان سے دوری اختیار نہ کرو۔ بلکہ ان کے قریب رہو اور ان کو تعلیم دو ۔ اے صاحب علم کسی محفل میں اس وقت تک کوئی بات نہ کرو جب تک تمہیں اس بات کی سمجھ نہ آجائے اور کسی بھی شخص کی بات کا اس وقت تک جواب نہ دو جب تک یہ جان نہ لو کہ اس نے تم سے کیا کہا۔ اے صاحب علم۔ اللہ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہونا اور لوگوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہونا۔ اللہ کے بارے میں غلط فہمی یہ ہے کہ اس کے حکم کو چھوڑ دیا جائے اور لوگوں کے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ ان کی نفسانی خواہشات کی پیروی کی جائے اور اللہ کے بارے میں ہر اس چیز سے بچو جس کے بارے میں بچنے کی اس نے تلقین کی ہے اور لوگوں کے حوالے سے فتنے سے بچو۔ اے صاحب علم ہر مسافر کے پاس زاد راہ موجود ہوتا ہے کیونکہ بہت جلد اسے اس سامان کی ضرورت پیش آجاتی ہے اسی طرح ہر عمل کرنے والا شخص آخرت میں اپنے عمل کی ضرورت محسوس کرے گا جو عمل اس نے دنیا میں کیا ہوگا۔ اے صاحب علم جب اللہ اس بات کا ارادہ کرے کہ وہ اپنی عبادت کی تمہیں ترغیب دے تو یہ بات جان لو کہ اس نے اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ اپنی بارگاہ میں تمہاری بزرگی کو تمہارے سامنے ظاہر کردے۔ اس لیے تم اس کے علاوہ کسی اور کی طرف نہ جانا ورنہ بزرگی بےعزتی میں تبدیل ہوجائے گی۔ اے اہل علم تمہارا پتھر اور لوہا منتقل کرنا تمہارے نزدیک اس بات سے زیادہ آسان ہونا چاہیے کہ تم کوئی ایسی بات بیان کرو جس کی تمہیں خود بھی سمجھ نہ ہو۔ جو شخص کوئی ایسی بات بیان کرتا ہے جس کی اسے خود سمجھ نہ ہو۔ اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو مردے کو مخاطب کرتا ہے اور قبرستان والوں کے سامنے دسترخوان رکھ دیتا ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقَسْمَلِيِّ أَخْبَرَنَا زَيْدٌ الْعَمِّيُّ عَنْ بَعْضِ الْفُقَهَاءِ أَنَّهُ قَالَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ اعْمَلْ بِعِلْمِكَ وَأَعْطِ فَضْلَ مَالِكَ وَاحْبِسْ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِكَ إِلَّا بِشَيْءٍ مِنْ الْحَدِيثِ يَنْفَعُكَ عِنْدَ رَبِّكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّ الَّذِي عَلِمْتَ ثُمَّ لَمْ تَعْمَلْ بِهِ قَاطِعٌ حُجَّتَكَ وَمَعْذِرَتَكَ عِنْدِ رَبِّكَ إِذَا لَقِيتَهُ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّ الَّذِي أُمِرْتَ بِهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ لَيَشْغَلُكَ عَمَّا نُهِيتَ عَنْهُ مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تَكُونَنَّ قَوِيًّا فِي عَمَلِ غَيْرِكَ ضَعِيفًا فِي عَمَلِ نَفْسِكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا يَشْغَلَنَّكَ الَّذِي لِغَيْرِكَ عَنْ الَّذِي لَكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ جَالِسْ الْعُلَمَاءَ وَزَاحِمْهُمْ وَاسْتَمِعْ مِنْهُمْ وَدَعْ مُنَازَعَتَهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ عَظِّمْ الْعُلَمَاءَ لِعِلْمِهِمْ وَصَغِّرْ الْجُهَّالَ لِجَهْلِهِمْ وَلَا تُبَاعِدْهُمْ وَقَرِّبْهُمْ وَعَلِّمْهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تُحَدِّثْ بِحَدِيثٍ فِي مَجْلِسٍ حَتَّى تَفْهَمَهُ وَلَا تُجِبْ امْرَأً فِي قَوْلِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مَا قَالَ لَكَ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ لَا تَغْتَرَّ بِاللَّهِ وَلَا تَغْتَرَّ بِالنَّاسِ فَإِنَّ الْغِرَّةَ بِاللَّهِ تَرْكُ أَمْرِهِ وَالْغِرَّةَ بِالنَّاسِ اتِّبَاعُ أَهْوَائِهِمْ وَاحْذَرْ مِنْ اللَّهِ مَا حَذَّرَكَ مِنْ نَفْسِهِ وَاحْذَرْ مِنْ النَّاسِ فِتْنَتَهُمْ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّهُ لَا يَكْمُلُ ضَوْءُ النَّهَارِ إِلَّا بِالشَّمْسِ كَذَلِكَ لَا تَكْمُلُ الْحِكْمَةُ إِلَّا بِطَاعَةِ اللَّهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّهُ لَا يَصْلُحُ الزَّرْعُ إِلَّا بِالْمَاءِ وَالتُّرَابِ كَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ الْإِيمَانُ إِلَّا بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ كُلُّ مُسَافِرٍ مُتَزَوِّدٌ وَسَيَجِدُ إِذَا احْتَاجَ إِلَى زَادِهِ مَا تَزَوَّدَ وَكَذَلِكَ سَيَجِدُ كُلُّ عَامِلٍ إِذَا احْتَاجَ إِلَى عَمَلِهِ فِي الْآخِرَةِ مَا عَمِلَ فِي الدُّنْيَا يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَحُضَّكَ عَلَى عِبَادَتِهِ فَاعْلَمْ أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يُبَيِّنَ لَكَ كَرَامَتَكَ عَلَيْهِ فَلَا تَحَوَّلَنَّ إِلَى غَيْرِهِ فَتَرْجِعَ مِنْ كَرَامَتِهِ إِلَى هَوَانِهِ يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِنْ تَنْقُلْ الْحِجَارَةَ وَالْحَدِيدَ أَهْوَنُ عَلَيْكَ مِنْ أَنْ تُحَدِّثَ مَنْ لَا يَعْقِلُ حَدِيثَكَ وَمَثَلُ الَّذِي يُحَدِّثُ مَنْ لَا يَعْقِلُ حَدِيثَهُ كَمَثَلِ الَّذِي يُنَادِي الْمَيِّتَ وَيَضَعُ الْمَائِدَةَ لِأَهْلِ الْقُبُورِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬৪৭
مقدمہ دارمی
পরিচ্ছেদঃ ابوعتبہ عباد خواص شامی کا خط۔
ابو عتبہ عباد بن عباد خواص شامی تحریر کرتے ہیں امابعد۔ یہ بات جان لو کہ عقل بڑی نعمت ہے کچھ عقل مند ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان چیزوں میں غور کرتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا ذہن غافل ہوجاتا ہے اور جس چیز کی انھیں ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے نفع حاصل نہیں کرسکتے یہاں تک کہ وہ اس چیز سے غافل ہوجاتے ہیں آدمی کی عقل کی فضیلت یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ اس کے بارے میں غور و فکر نہ کرے تاکہ اس کی عقل کی فضیلت اس کے لیے وبال کا باعث نہ بن جائے۔ کہ اس نے ان لوگوں پر گرفت نہیں کی جو اعمال میں ان سے کم تھے یا وہ شخص جس کا دل بدعت میں مبتلا ہوجائے اور وہ اپنے گلے میں اس دین کا ہار پہنا لے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا نہیں تھا یا وہ اپنی رائے پر اکتفا کرتے ہوئے یہی سمجھے کہ صرف وہی ہدایت ہے اور اس کے اپنے نظریے کو ترک کرنا ہی گمراہی ہے وہ یہ سمجھے کہ اس نے یہ نظریہ قرآن سے حاصل کیا ہے حالانکہ وہ قرآن سے الگ کرنے والا ہوگیا اس شخص سے اور اس کے ساتھیوں سے پہلے قرآن کے ماہر نہیں تھے۔ جو قرآن کے محکم پر عمل کرتے تھے اور اس کے متشابہ پر ایمان رکھتے تھے اور وہ لوگ اس واضح طریقے پر گامزن تھے قرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیشوا تھا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کے پیشوا تھے اور ان کے ساتھی بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے پیشوا تھے جن سے ہر شخص واقف تھا اور وہ ہر شہر میں موجود تھے۔ یہ لوگ آپس میں فقہی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے لیکن بدمذہب لوگوں کی تردید کے بارے میں ان کے درمیان اتفاق پایا جاتا تھا ان بدمذہب لوگوں کو ان کی رائے نے مختلف راستوں پر ڈال دیا ہے جو میانہ روی سے دور ہے اور صراط مستقیم سے الگ ہے ان کے پیشواؤں نے ان لوگوں کو گمراہی کے میدان میں تھکا دیا ہے یہ لوگ انھیں میدانوں میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں جب بھی ان کی گمراہی کے لیے شیطان کوئی نئی بدعت ایجاد کرتا ہے یہ ایک سے دوسری طرف منتقل ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ سابقہ زمانے کے لوگوں کے نشانات کی تلاش نہیں کرتے اور ہجرت کرنے والے صحابہ کی پیروی نہیں کرتے۔ حضرت عمر کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے زیاد سے یہ کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ کون سی چیز اسلام کو منہدم کردیتی ہے عالم شخص کی پھسلن، منافق شخص کا قرآن کے بارے میں بحث کرنا اور گمراہ کرنے والے پیشوا، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اس چیز کے بارے میں جو تمہارے علماء اور تمہارے مساجد والوں کے درمیان غیبت اور چغل خوری اور لوگوں کے ساتھ دوغلے چہرے اور دوغلی زبانوں کے ساتھ ملنا آچکا ہے یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ جو شخص دنیا میں دوغلے چہرے کا مالک ہوگا وہ جہنم میں دوغلے چہرے کا مالک ہوگا۔ غیبت کرنے والا شخص تم سے ملاقات کرتا ہے اور تمہارے سامنے اس شخص کی غیبت کرتا ہے جس کی غیبت کو تم پسند کرتے ہو پھر وہ تمہارے مخالف کے پاس آجاتا ہے اور اس کے سامنے تمہارے بارے میں وہی حرکت کرتا ہے جو تمہارے ساتھ کی تھی اس طرح وہ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس سے اپنا مقصد حاصل کرلیتا ہے اور دونوں میں سے ہر ایک سے وہ بات پوشیدہ رکھتا ہے جو اس نے دوسرے فریق کے سامنے پیش کی تھی وہ جس شخص کے پاس موجود ہوتا ہے اس کے پاس بھائیوں کی طرح موجود ہوتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اس کے بارے میں دشمنوں کا سا رویہ رکھتا ہے، جس کے پاس اس کے زیر اثر ہوتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اس کا اس کے نزدیک کوئی احترام نہیں ہوتا۔ وہ جس شخص کے پاس موجود ہوتا ہے اسے تزکیہ کے حوالے سے آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اسے غیبت کے حوالے سے برا بنا دیتا ہے۔ اور اے اللہ کے بندو کیا تمہارے اندر کوئی بھی سمجھدار نہیں ہے اور کوئی بھی ایسا اصلاح پسند نہیں ہے جو ان لوگوں کے فریب کا قلع قمع کردے اور اپنے مسلمان بھائی کی عزت کو واپس لوٹا دے بلکہ ان لوگوں کی خواہش کو سمجھ کر وہ لوگ جس طرف لے کے جا رہے ہیں انھیں وہیں رہنے دے اور ان سے ان کی ضرورت پوری کرلے یوں وہ اپنے دین کے ہمراہ ان کے دین کو بھی محفوظ کرلے گا۔

اے اللہ کے بندو ! کیا تمہارے درمیان کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو سمجھ دار ہو اور ان لوگوں کی اصلاح کرے اور ان کے فریب کو ختم کرے اور اسے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی خلاف ورزی کرنے سے باز رکھے بلکہ وہ یہ جان لے کہ ان کی خواہش کیا ہے اس چیز کے بارے میں جسے وہ ساتھ لے کر ان کی طرف گیا ہے پھر اس نے ان لوگوں سے اپنی ضرورت نکالی تو انھوں نے اس کی ضرورت پوری کردی یوں اس شخص نے ان لوگوں کے دین کے ہمراہ اپنے دین کو بھی خراب کرلیا ہے۔ اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو۔ اپنے غیر موجود لوگوں کے احترام کے حوالے سے بچو اور ان کے بارے میں اپنی زبان سے صرف اچھی بات استعمال کرو اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں اللہ کی خیرخواہی اختیار کرو اگر تم کتاب وسنت کے عالم ہو بیشک کتاب خود بات نہیں کرتی جب تک اس کی بات بیان نہ کی جائے اور سنت خود عمل نہیں کرتی جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے جب عالم خاموش رہے گا تو ناواقف شخص کیسے علم حاصل کرے گا اگر وہ ظاہر ہونے والی چیز کا انکار نہ کرے اور جس چیز کو ترک کیا گیا ہے اس کا حکم نہ دے تو پھر کیا ہوگا جبکہ اللہ نے ان لوگوں کو جنہیں کتاب دی گئی ان سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اسے واضح طور پر بیان کریں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں۔ اللہ سے ڈرو۔ کیونکہ تم ایک ایسے زمانے میں ہو جس میں پرہیزگاری کمزور ہوگئی ہے اور عاجزی کم ہوگئی ہے علم کے حاصل کرنے والے لوگ وہ ہیں جو اس میں فساد پیدا کرتے ہیں اور یہ بات پسند کرتے ہیں کہ عالم کے طور پر ان کی پہچان ہو اور وہ یہ بات ناپسند کرتے ہیں علم کے ضائع کرنے کے حوالے سے ان کی شناخت ہوجائے وہ علم کے بارے میں اپنی خواہش نفس کے مطابق وہ بات بیان کرتے ہیں جو اس میں انھوں نے غلط شامل کردی ہے اور وہ کلمات میں تحریف کے حق کو چھوڑ کر اس باطل کی طرف لے جاتے ہیں جس پر وہ عمل کرتے ہیں ان کے گناہ ایسے ہیں کہ ان کی مغفرت نہیں کی جاسکتی اور ان کی غلطیاں ایسی ہیں جن کا اعتراف نہیں کیا جاسکتا۔ دلیل حاصل کرنے والا اور ہدایت حاصل کرنے والا کیسے ہدایت حاصل کرسکتا ہے جبکہ دلیل ہی بھٹکانے والی ہو۔ یہ لوگ دنیا کو پسند کرتے ہیں اور یہ بات ناپسند کرتے ہیں اہل دنیا کی تعظیم کریں۔ یہ لوگ زندگی میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں لیکن باتوں کے حوالے سے ان سے الگ رہتے ہیں اور اپنی طرف سے اس بات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے عمل کی طرف انھیں منسوب کیا جائے۔ لہٰذا جس چیز کی نفی کرنا چاہتے ہیں اس سے بری نہیں ہوتے اور جس چیز کی طرف منسوب یہ خود کو کرتے ہیں اس میں یہ داخل نہیں ہوتے اس لیے کہ حق کے اوپر عمل کرنے والا شخص بول رہا ہو یا خاموش ہو اس کی ایک ہی حیثت ہوتی ہے یہ بات مذکور ہے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے میں ہر دانا شخص کی ہر بات کو قبول نہیں کرتا بلکہ میں اس کی خواہش اور ارادے کی طرف دیکھتا ہوں اگر اس کی خواہش اور ارادہ میرے لیے ہو تو میں اس کی خاموشی کو بھی اپنے لیے حمد وثناء سمجھتاہوں اگرچہ اس نے کوئی بات کہی ہو یا نہ۔ " وہ لوگ جنہیں توراۃ کا علم دیا گیا اور پھر انھوں نے اس کا علم حاصل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی طرح ہے جو کتابوں کا بنڈل لاد لیتا ہے۔ اور اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے ہم نے جو تمہیں دیا ہے اسے قوت سے حاصل کرلو۔ یعنی جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرو لہٰذا کسی بھی حدیث پر صرف زبانی طور پر عمل کئے بغیر اکتفا نہ کرو کیونکہ حدیث پر عمل کئے بغیر صرف زبانی طور پر اسے بیان کرنا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے اور علم کو ضائع کرنے کے مترادف ہے، اہل بدعت کی برائی اس لیے بیان نہ کرو کہ ان کی برائی بیان کرنے سے تمہیں شہرت ملے گی اس لیے کہ اہل بدعت کا فاسد ہونا تمہاری بہتری میں کوئی اضافہ نہیں کرے گا اور ان کی برائی بیان کرتے ہوئے زیادتی نہ کرو چونکہ یہ زیادتی تمہارے نفس کا فساد ہوگی۔ کسی طبیب کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ بیمار کا علاج کسی ایسی دوائی کے ذریعے کرے جو اسے ٹھیک نہ کرے بلکہ اور بیمار کردے کیونکہ جب وہ شخص بیمار ہوگا تو وہ اپنی بیماری میں مشغول ہونے کی وجہ سے دوسروں کو دوا دینے سے دینے سے باز آجائے گا، اس لیے اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ پہلے اپنی ذات کے لیے صحت کا خیال رکھے تاکہ اس کی بدولت بیمار لوگوں کے علاج کے قابل ہوسکے۔ اس لیے تمہارا معاملہ یہ ہونا چاہیے کہ تم اپنے بھائیوں کی جس بات کا انکار کرتے ہو اس میں تم اپنے آپ کا بھی جائزہ لو اور اپنی طرف سے اپنے رب کے لیے خیر خواہی اختیار کرو یہ تمہاری طرف سے تمہارے بھائیوں کے لیے شفقت ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رکھو کہ دوسروں کے عیوب کے مقابلے میں تمہیں اپنے عیوب کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، ایک شخص دوسرے کے لیے خیرخواہی چاہتا ہے اور اس شخص کا تمہارے نزدیک حصہ ہونا چاہیے جو تمہارے لیے خیر خواہی کرتا ہے یا تمہاری طرف سے خیر خواہی کو قبول کرتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ارشاد فرماتے ہیں اللہ اس شخص پر رحم کرے جو میری خامیوں سے مجھے آگاہ کرتا ہے کہ کیا تم لوگ یہ بات پسند کرتے ہو کہ تم لوگ کوئی بات بیان کرو تو اسے برداشت کیا جائے اور تم نے جو بات بیان کی ہے اگر اسی جیسی تم سے کہی جائے تو تم ناراض ہوجاؤ تم ان لوگوں کو اس حال میں پاتے ہو جس کا تم انکار کرتے ہو اور خود وہی کام سر انجام دیتے ہو کیا تم لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اس بارے میں تم سے مواخذہ کیا جائے۔ تم اپنی رائے اور اپنے زمانے کے لوگوں کی رائے پر الزام لگاؤ اور بات کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرو اور عمل کرنے سے پہلے علم حاصل کرو کیونک عنقریب وہ زمانہ آجائے گا جس میں حق و باطل مشتبہ ہوجائیں گے اس زمانے میں نیکی گناہ بن جائے گی اور گناہ نیکی بن جائے گا اللہ کے قرب کے طلب گار کتنے ہی لوگ ہوں جو درحقیقت اللہ سے دور ہو رہے ہوں گے اور اللہ کی محبت کے کتنے ہی طلب گار ہیں جو اپنے بارے میں اللہ کی ناراضگی میں اضافہ کر رہے ہوں گے اللہ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جس کے لیے اس کے عمل کی برائی کو سجادیا گیا ہے وہ شخص اسے نیکی سمجھتا ہے۔ شبہات سے بچنا تم پر لازم ہے یہاں تک کہ شہادت کے ذریعے واضح حق تمہارے سامنے نمودار ہوجائے گا اس لیے کہ جو شخص علم کے بغیر اس چیز میں داخل ہوتا ہے جس کا اسے علم نہیں ہے وہ شخص گناہ گار ہوتا ہے اور جو شخص اللہ کے لیے کسی بات کا جائزہ لیتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کا جائز لیتا ہے

تم پر قرآن پڑھنالازم ہے تم اسے اپنا پیشوا بناؤ اور اس سے ہدایت حاصل کرو اور گزرے ہوئے لوگوں کے آثار کی تلاش کرو اس لیے کہ اگر مذہی پیشوا اور رہنما اپنے مراتب کے زوال سے نہ ڈریں اور اپنے اعمال میں کتاب قائم کرنے کے ذریعے اپنی قدر و منزلت کے فساد سے نہ ڈریں اور انھوں نے جو تحریف کی ہے اسے واضح نہ کریں اور اسے نہ چھپائیں لیکن وہ لوگ جب وہ اپنے اعمال کے ذریعے کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں تو وہ ایسی چیز تلاش کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ قوم کو دھوکا دے سکیں اس چیز کے بارے میں جو انھوں نے کیا ہے انھیں یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ اپنی حثییت خراب کر جائیں گے وہ لوگوں کے سامنے اس کے فساد کو بیان کرتے ہیں اور کتاب کے مفہوم میں تحریف کردیتے ہیں اور جہاں وہ تحریف نہیں کرسکتے وہاں اسے چھپالیتے ہیں اور اپنی حثییت کو برقرار رکھنے کے لیے خود جو حرکت کی ہوتی ہے اس پر خاموش رہتے ہیں اور اس بات پر بھی خاموش رہتے ہیں جو لوگوں نے انھیں بچانے کے لیے کیا ہوتا ہے تحقیق اللہ نے جن لوگوں کو کتاب دی ان سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے واضح طور پر اسے بتائیں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں بلکہ وہ لوگ تو خود اس کی طرف جھک گئے ہیں اور اس بارے میں انھوں نے لوگوں کے ساتھ نرمی کی ہے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سُلَيْمَانَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْطَاكِيُّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْخَوَّاصِ الشَّامِيِّ أَبِي عُتْبَةَ قَالَ أَمَّا بَعْدُ اعْقِلُوا وَالْعَقْلُ نِعْمَةٌ فَرُبَّ ذِي عَقْلٍ قَدْ شُغِلَ قَلْبُهُ بِالتَّعَمُّقِ عَمَّا هُوَ عَلَيْهِ ضَرَرٌ عَنْ الِانْتِفَاعِ بِمَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ حَتَّى صَارَ عَنْ ذَلِكَ سَاهِيًا وَمِنْ فَضْلِ عَقْلِ الْمَرْءِ تَرْكُ النَّظَرِ فِيمَا لَا نَظَرَ فِيهِ حَتَّى لَا يَكُونَ فَضْلُ عَقْلِهِ وَبَالًا عَلَيْهِ فِي تَرْكِ مُنَافَسَةِ مَنْ هُوَ دُونَهُ فِي الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ أَوْ رَجُلٍ شُغِلَ قَلْبُهُ بِبِدْعَةٍ قَلَّدَ فِيهَا دِينَهُ رِجَالًا دُونَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ اكْتَفَى بِرَأْيِهِ فِيمَا لَا يَرَى الْهُدَى إِلَّا فِيهَا وَلَا يَرَى الضَّلَالَةَ إِلَّا بِتَرْكِهَا يَزْعُمُ أَنَّهُ أَخَذَهَا مِنْ الْقُرْآنِ وَهُوَ يَدْعُو إِلَى فِرَاقِ الْقُرْآنِ أَفَمَا كَانَ لِلْقُرْآنِ حَمَلَةٌ قَبْلَهُ وَقَبْلَ أَصْحَابِهِ يَعْمَلُونَ بِمُحْكَمِهِ وَيُؤْمِنُونَ بِمُتَشَابِهِهِ وَكَانُوا مِنْهُ عَلَى مَنَارٍ كَوَضَحِ الطَّرِيقِ فَكَانَ الْقُرْآنُ إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ إِمَامًا لِأَصْحَابِهِ وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ رِجَالٌ مَعْرُوفُونَ مَنْسُوبُونَ فِي الْبُلْدَانِ مُتَّفِقُونَ فِي الرَّدِّ عَلَى أَصْحَابِ الْأَهْوَاءِ مَعَ مَا كَانَ بَيْنَهُمْ مِنْ الِاخْتِلَافِ وَتَسَكَّعَ أَصْحَابُ الْأَهْوَاءِ بِرَأْيِهِمْ فِي سُبُلٍ مُخْتَلِفَةٍ جَائِرَةٍ عَنْ الْقَصْدِ مُفَارِقَةٍ لِلصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ فَتَوَّهَتْ بِهِمْ أَدِلَّاؤُهُمْ فِي مَهَامِهَ مُضِلَّةٍ فَأَمْعَنُوا فِيهَا مُتَعَسِّفِينَ فِي تِيهِهِمْ كُلَّمَا أَحْدَثَ لَهُمْ الشَّيْطَانُ بِدْعَةً فِي ضَلَالَتِهِمْ انْتَقَلُوا مِنْهَا إِلَى غَيْرِهَا لِأَنَّهُمْ لَمْ يَطْلُبُوا أَثَرَ السَّالِفِينَ وَلَمْ يَقْتَدُوا بِالْمُهَاجِرِينَ وَقَدْ ذُكِرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ لِزِيَادٍ هَلْ تَدْرِي مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ زَلَّةُ عَالِمٍ وَجِدَالُ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ وَأَئِمَّةٌ مُضِلُّونَ اتَّقُوا اللَّهَ وَمَا حَدَثَ فِي قُرَّائِكُمْ وَأَهْلِ مَسَاجِدِكُمْ مِنْ الْغِيبَةِ وَالنَّمِيمَةِ وَالْمَشْيِ بَيْنَ النَّاسِ بِوَجْهَيْنِ وَلِسَانَيْنِ وَقَدْ ذُكِرَ أَنَّ مَنْ كَانَ ذَا وَجْهَيْنِ فِي الدُّنْيَا كَانَ ذَا وَجْهَيْنِ فِي النَّارِ يَلْقَاكَ صَاحِبُ الْغِيبَةِ فَيَغْتَابُ عِنْدَكَ مَنْ يَرَى أَنَّكَ تُحِبُّ غِيبَتَهُ وَيُخَالِفُكَ إِلَى صَاحِبِكَ فَيَأْتِيهِ عَنْكَ بِمِثْلِهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ أَصَابَ عِنْدَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا حَاجَتَهُ وَخَفِيَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا مَا أُتِيَ بِهِ عِنْدَ صَاحِبِهِ حُضُورُهُ عِنْدَ مَنْ حَضَرَهُ حُضُورُ الْإِخْوَانِ وَغَيْبَتُهُ عَلَى مَنْ غَابَ عَنْهُ غَيْبَةُ الْأَعْدَاءِ مَنْ حَضَرَ مِنْهُمْ كَانَتْ لَهُ الْأَثَرَةُ وَمَنْ غَابَ مِنْهُمْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حُرْمَةٌ يَفْتِنُ مَنْ حَضَرَهُ بِالتَّزْكِيَةِ وَيَغْتَابُ مَنْ غَابَ عَنْهُ بِالْغِيبَةِ فَيَا لَعِبَادَ اللَّهِ أَمَا فِي الْقَوْمِ مِنْ رَشِيدٍ وَلَا مُصْلِحٍ يَقْمَعُ هَذَا عَنْ مَكِيدَتِهِ وَيَرُدُّهُ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ بَلْ عَرَفَ هَوَاهُمْ فِيمَا مَشَى بِهِ إِلَيْهِمْ فَاسْتَمْكَنَ مِنْهُمْ وَأَمْكَنُوهُ مِنْ حَاجَتِهِ فَأَكَلَ بِدِينِهِ مَعَ أَدْيَانِهِمْ فَاللَّهَ اللَّهَ ذُبُّوا عَنْ حُرَمِ أَغْيَابِكُمْ وَكُفُّوا أَلْسِنَتَكُمْ عَنْهُمْ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ وَنَاصِحُوا اللَّهَ فِي أُمَّتِكُمْ إِذْ كُنْتُمْ حَمَلَةَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فَإِنَّ الْكِتَابَ لَا يَنْطِقُ حَتَّى يُنْطَقَ بِهِ وَإِنَّ السُّنَّةَ لَا تَعْمَلُ حَتَّى يُعْمَلَ بِهَا فَمَتَى يَتَعَلَّمُ الْجَاهِلُ إِذَا سَكَتَ الْعَالِمُ فَلَمْ يُنْكِرْ مَا ظَهَرَ وَلَمْ يَأْمُرْ بِمَا تُرِكَ وَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ اتَّقُوا اللَّهَ فَإِنَّكُمْ فِي زَمَانٍ رَقَّ فِيهِ الْوَرَعُ وَقَلَّ فِيهِ الْخُشُوعُ وَحَمَلَ الْعِلْمَ مُفْسِدُوهُ فَأَحَبُّوا أَنْ يُعْرَفُوا بِحَمْلِهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُعْرَفُوا بِإِضَاعَتِهِ فَنَطَقُوا فِيهِ بِالْهَوَى لَمَّا أَدْخَلُوا فِيهِ مِنْ الْخَطَإِ وَحَرَّفُوا الْكَلِمَ عَمَّا تَرَكُوا مِنْ الْحَقِّ إِلَى مَا عَمِلُوا بِهِ مِنْ بَاطِلٍ فَذُنُوبُهُمْ ذُنُوبٌ لَا يُسْتَغْفَرُ مِنْهَا وَتَقْصِيرُهُمْ تَقْصِيرٌ لَا يُعْتَرَفُ بِهِ كَيْفَ يَهْتَدِي الْمُسْتَدِلُّ الْمُسْتَرْشِدُ إِذَا كَانَ الدَّلِيلُ حَائِرًا أَحَبُّوا الدُّنْيَا وَكَرِهُوا مَنْزِلَةَ أَهْلِهَا فَشَارَكُوهُمْ فِي الْعَيْشِ وَزَايَلُوهُمْ بِالْقَوْلِ وَدَافَعُوا بِالْقَوْلِ عَنْ أَنْفُسِهِمْ أَنْ يُنْسَبُوا إِلَى عَمَلِهِمْ فَلَمْ يَتَبَرَّءُوا مِمَّا انْتَفَوْا مِنْهُ وَلَمْ يَدْخُلُوا فِيمَا نَسَبُوا إِلَيْهِ أَنْفُسَهُمْ لِأَنَّ الْعَامِلَ بِالْحَقِّ مُتَكَلِّمٌ وَإِنْ سَكَتَ وَقَدْ ذُكِرَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ إِنِّي لَسْتُ كُلَّ كَلَامِ الْحَكِيمِ أَتَقَبَّلُ وَلَكِنِّي أَنْظُرُ إِلَى هَمِّهِ وَهَوَاهُ فَإِنْ كَانَ هَمُّهُ وَهَوَاهُ لِي جَعَلْتُ صَمْتَهُ حَمْدًا وَوَقَارًا لِي وَإِنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا لَمْ يَعْمَلُوا بِهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا كُتُبًا وَقَالَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ قَالَ الْعَمَلُ بِمَا فِيهِ وَلَا تَكْتَفُوا مِنْ السُّنَّةِ بِانْتِحَالِهَا بِالْقَوْلِ دُونَ الْعَمَلِ بِهَا فَإِنَّ انْتِحَالَ السُّنَّةِ دُونَ الْعَمَلِ بِهَا كَذِبٌ بِالْقَوْلِ مَعَ إِضَاعَةِ الْعَمَلِ وَلَا تَعِيبُوا بِالْبِدَعِ تَزَيُّنًا بِعَيْبِهَا فَإِنَّ فَسَادَ أَهْلِ الْبِدَعِ لَيْسَ بِزَائِدٍ فِي صَلَاحِكُمْ وَلَا تَعِيبُوهَا بَغْيًا عَلَى أَهْلِهَا فَإِنَّ الْبَغْيَ مِنْ فَسَادِ أَنْفُسِكُمْ وَلَيْسَ يَنْبَغِي لِلطَّبِيبِ أَنْ يُدَاوِيَ الْمَرْضَى بِمَا يُبَرِّئُهُمْ وَيُمْرِضُهُ فَإِنَّهُ إِذَا مَرِضَ اشْتَغَلَ بِمَرَضِهِ عَنْ مُدَاوَاتِهِمْ وَلَكِنْ يَنْبَغِي أَنْ يَلْتَمِسَ لِنَفْسِهِ الصِّحَّةَ لِيَقْوَى بِهِ عَلَى عِلَاجِ الْمَرْضَى فَلْيَكُنْ أَمْرُكُمْ فِيمَا تُنْكِرُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ نَظَرًا مِنْكُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَنَصِيحَةً مِنْكُمْ لِرَبِّكُمْ وَشَفَقَةً مِنْكُمْ عَلَى إِخْوَانِكُمْ وَأَنْ تَكُونُوا مَعَ ذَلِكَ بِعُيُوبِ أَنْفُسِكُمْ أَعْنَى مِنْكُمْ بِعُيُوبِ غَيْرِكُمْ وَأَنْ يَسْتَطْعِمَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا النَّصِيحَةَ وَأَنْ يَحْظَى عِنْدَكُمْ مَنْ بَذَلَهَا لَكُمْ وَقَبِلَهَا مِنْكُمْ وَقَدْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَهْدَى إِلَيَّ عُيُوبِي تُحِبُّونَ أَنْ تَقُولُوا فَيُحْتَمَلَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمْ مِثْلُ الَّذِي قُلْتُمْ غَضِبْتُمْ تَجِدُونَ عَلَى النَّاسِ فِيمَا تُنْكِرُونَ مِنْ أُمُورِهِمْ وَتَأْتُونَ مِثْلَ ذَلِكَ فَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يُوجَدَ عَلَيْكُمْ اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ وَرَأْيَ أَهْلِ زَمَانِكُمْ وَتَثَبَّتُوا قَبْلَ أَنْ تَكَلَّمُوا وَتَعَلَّمُوا قَبْلَ أَنْ تَعْمَلُوا فَإِنَّهُ يَأْتِي زَمَانٌ يَشْتَبِهُ فِيهِ الْحَقُّ وَالْبَاطِلُ وَيَكُونُ الْمَعْرُوفُ فِيهِ مُنْكَرًا وَالْمُنْكَرُ فِيهِ مَعْرُوفًا فَكَمْ مِنْ مُتَقَرِّبٍ إِلَى اللَّهِ بِمَا يُبَاعِدُهُ وَمُتَحَبِّبٍ إِلَيْهِ بِمَا يُغْضِبُهُ عَلَيْهِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا الْآيَةَ فَعَلَيْكُمْ بِالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ حَتَّى يَبْرُزَ لَكُمْ وَاضِحُ الْحَقِّ بِالْبَيِّنَةِ فَإِنَّ الدَّاخِلَ فِيمَا لَا يَعْلَمُ بِغَيْرِ عِلْمٍ آثِمٌ وَمَنْ نَظَرَ لِلَّهِ نَظَرَ اللَّهُ لَهُ عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَأْتَمُّوا بِهِ وَأُمُّوا بِهِ وَعَلَيْكُمْ بِطَلَبِ أَثَرِ الْمَاضِينَ فِيهِ وَلَوْ أَنَّ الْأَحْبَارَ وَالرُّهْبَانَ لَمْ يَتَّقُوا زَوَالَ مَرَاتِبِهِمْ وَفَسَادَ مَنْزِلَتِهِمْ بِإِقَامَةِ الْكِتَابِ وَتِبْيَانِهِ مَا حَرَّفُوهُ وَلَا كَتَمُوهُ وَلَكِنَّهُمْ لَمَّا خَالَفُوا الْكِتَابَ بِأَعْمَالِهِمْ الْتَمَسُوا أَنْ يَخْدَعُوا قَوْمَهُمْ عَمَّا صَنَعُوا مَخَافَةَ أَنْ تَفْسُدَ مَنَازِلُهُمْ وَأَنْ يَتَبَيَّنَ لِلنَّاسِ فَسَادُهُمْ فَحَرَّفُوا الْكِتَابَ بِالتَّفْسِيرِ وَمَا لَمْ يَسْتَطِيعُوا تَحْرِيفَهُ كَتَمُوهُ فَسَكَتُوا عَنْ صَنِيعِ أَنْفُسِهِمْ إِبْقَاءً عَلَى مَنَازِلِهِمْ وَسَكَتُوا عَمَّا صَنَعَ قَوْمُهُمْ مُصَانَعَةً لَهُمْ وَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ بَلْ مَالَئُوا عَلَيْهِ وَرَقَّقُوا لَهُمْ فِيهِ
tahqiq

তাহকীক: