মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

হজ্ব অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ১৩৯ টি

হাদীস নং: ১৮৫৮
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوے کے لیے دلیل اور ثبوت ضروری
علقمہ بن وائل نے اپنے والد وائل کی روایت سے بیان کیا کہ ایک شخص حضرموت کے رہنے والے اور ایک قبیلہ کندہ (اپنا مقدمہ لے کر) کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرمی نے (جو مدعی تھا) عرض کیا کہ یارسول اللہ اس کندی نے میری ایک زمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ کندی نے (جو مدعا علیہ تھا) جواب میں کہا کہ وہ زمین فی الواقع میری ہی ملکیت ہے اور میرے قبضہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی حضرمی سے فرمایا کہ کیا تمھارے پاس دعوے کی دلیل (گواہ شاہد) ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ گواہ شاہد تو نہیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو تم کو صرف یہ حق ہے کہ اپنے مدعا علیہ کندی سے قسم لے لو۔ حضرمی نے عرض کیا کہ حضرت یہ آدمی تو فاجر (بدکار و بد چلن اور بددیانت) ہے اس کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ کس بات کی قسم کھا رہا ہے اور کسی بھی (بری) بات سے اس کو پرہیز نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (کچھ بھی ہو جب تمہارے پاس دعوے کے گواہ شاہد نہیں ہیں تو) تم کو بس یہی حق ہے کہ اس آدمی سے قسم لے لو! تو جب وہ کندی حلف اٹھانے کے لیے دوسری طرف کوچلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کو آگاہی دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ اگر اس نے حضرمی کا مال ظالمانہ اور ناجائز طور پر ہڑپ کرنے کے لئے جھوٹی قسم کھائی تو اللہ کے حضور میں یہ اس حال میں پیش ہوگا کہ اللہ تعالی کا غضب و ناراضی کی وجہ سے) اس کی طرف سے روخ پھیر لیں گے۔(صحیح مسلم)

تشریح
بلاشبہ آخرت میں کسی بندے کی یہ انتہائی بد بختی اور بدنصیبی ہوگی کہ اللہ تعالی غضب و ناراضی کی وجہ سے اس کی طرف سے رخ پھیر لیں یہ اس کے مردود بارگاہ اور ناقابل معافی ہونے کی علامت ہوگی۔ اس سے پہلے اشعث بن قیس کی حدیث میں ایسے لوگوں کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے جو آیت تلاوت فرمائی تھی۔ (أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ ....... وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) وائل کی اس حدیث میں وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ اسی کی اجمالی تعبیر ہے اور آیت کا مضمون گویا اس کی تفصیل ہے۔
صحیح مسلم کی اس حدیث میں ایک جملہ یہ تھا “فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ الخ” جس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ جب وہ کندی حلف اٹھانے کے لیے دوسری طرف چلا رسول اللہ وسلم نے فرمایا غالبا اس کندی سے کہا گیا ہوگا کہ مسجد چل کر نماز کے بعد سب کے سامنے قسم کھاؤ یا یہ کہ منبر کے پاس کھڑے ہوکر قسم کھاؤ۔ تو جب وہ قسم کھانے کے لیے ادھر کو چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آگاہی دی کہ جو کوئی جھوٹی قسم کھا کر پرایا مال ناجائز طور پر حاصل کرے گا آخرت میں اس کا یہ انجام ہوگا۔ صحیح مسلم کی اس حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ پھر اس شخص نے قسم کھائ یا قسم کھانے سے باز آگیا۔ لیکن سنن ابی داود میں حضرمی اور کندی کے اسی مقدمہ سے متعلق اشعث بن قیس کی ایک حدیث ہے اس کے آخر میں یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے آخرت کے برے انجام کی وعید سنائ تو کندی قسم کھانے سے رک گیا اور اس نے اقرار کر لیا کہ وہ زمین مدعی حضرمی ہی کی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے مطابق فیصلہ فرما دیا۔
کتاب الحج
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي، فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي وَفِي يَدِي لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ: «أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَلَكَ يَمِينُهُ»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَى مَا حَلَفَ عَلَيْهِ، وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: «لَيْسَ لَكَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِكَ»، فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ: «أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالِهِ لِيَأْكُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ اللهَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৫৯
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جھوٹے دعوے اور جھوٹی قسم والوں کا ٹھکانہ جہنم
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو کوئی ایسی چیز پر دعوے کرے جو فی الحقیقت اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے (یعنی ہمارا آدمی اور ہمارا ساتھی) نہیں ہے اور اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔(صحیح مسلم)

تشریح
جیسا کہ معلوم ہے تمام انبیاء علیہم السلام کی عموما اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصا اصل حیثیت نبی و رسول اور بشیر و نذیر کی ہے۔(1) ...... وہ اللہ کے حکم سے اس کے بندوں کو ایمان اور اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی دعوت و ترغیب دیتے اور ان پر خداوندی فضل و انعام اور رحمت و جنت کی بشارت سناتے ہیں۔ اور کفر و شرک اور بداعمالیوں و بد اخلاقیوں اور جرائم سے بندگان خدا کو روکتے ان کو برے انجام سے آگاہی دیتے اور خدا کے غضب و عذاب سے ڈراتے ہیں یہی ان کی دعوت و ہدایت کی بنیاد اور یہی ان کا سب سے کارگر ہتھیار اور یہی ان کی اصل طاقت ہوتی ہے۔
عدالت میں جھوٹا دعویٰ کرنا اور اسی طرح ناجائز طور پر کسی کی چیز حاصل کرنے یا اس کو نقصان پہنچانے کے لئے جھوٹی قسم کھانا بدترین اور شدید ترین گناہوں میں سے ہے۔ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ذیل میں پڑھے جائیں۔

تشریح .....اپنے کو مسلمان کہنے اور مسلمانوں میں شمار کرنے والے شخص کے لیے اس سے زیادہ سخت شدید وعید کیا ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں فرما دیں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے ہماری جماعت سے خارج ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ کی پناہ!
کتاب الحج
عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنِ ادَّعَى مَا ليْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬০
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جھوٹے دعوے اور جھوٹی قسم والوں کا ٹھکانہ جہنم
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا کوئی حق مارا (اور عدالتی فیصلے سے اسکی کوئی چیز حاصل کرلی) تو اللہ نے اس شخص کے لئے دوزخ واجب کردی ہے اور جنت حرام۔ ایک شخص نے سوال کیا یارسول اللہ اگرچہ وہ چیز بالکل معمولی اور تھوڑی سی ہو (تب بھی یہی سزا ہوگی؟)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگرچہ)(جنگلی درخت) پیلو کی ایک ٹہنی ہی ہو۔(صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے عدالت میں جھوٹی قسم کھا کے کسی دوسرے بندے کی بالکل معمولی اور بے قیمت چیز بھی حاصل کی تو اس نے بھی اتنا بڑا گناہ کیا جس کی سزا میں اس کو دوزخ کا عذاب ضرور بھگتنا ہوگا اور مومنین صالحین والی جنت سے محروم رہے گا۔
حدیث میں “مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ” فرمایا گیا یہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ کا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہی تھا اور آپ صلی اللہ وسلم کے سامنے عموما مسلمانوں ہی کے باہمی مقدمات آتے تھے ورنہ کسی غیر مسلم کی چیز بھی جھوٹی قسم کھا کر حاصل کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی چیز حاصل کرنا۔ اس کی واضح دلیل قرآن پاک کی وہ آیت ہے جس کا حوالہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک حدیث میں جو پہلے سے درج ہو چکی ہیں) جھوٹی قسم کے عذاب ہی کے سلسلہ میں دیا ہے۔ یعنی “إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ” (آل عمران 77)
کتاب الحج
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ» فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «وَإِنْ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬১
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے بھی دوسرے کی چیز حلال نہیں ہو سکتی
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک بشر ہوں اور تم لوگ میرے پاس اپنے نزاعات اور مقدمات لاتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے ایک زیادہ اچھا بولنے والا اور بہتر انداز میں تقریر کرکے اپنی دلیل پیش کرنے والا ہو دوسرے سے" اور پھر میں اس کی بات سن کر اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ دے دوں تو اس طرح میں جس کے لیے اس کے بھائی کی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس کو ہرگز نہ لے (اس کے جھوٹے دعوے یا جھوٹی قسم کے نتیجہ میں) اس کو جو دیتا ہوں وہ (انجام کے لحاظ سے) اس کے واسطے دوزخ کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چالاک مقدمہ باز آدمی دوسرے کی چیز پر جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اور اسکا ایسا ثبوت پیش کرتا ہے کہ قاضی اس کو بر حق سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہے۔ اور اسی طرح کبھی کوئی جھوٹا مدعا علی اپنی چرب زبانی سے اور جھوٹی قسم کھا کر اپنی سچائی کا قاضی کو یقین دلا دیتا ہے اور وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے توقاضی شریعت کے اس فیصلے سے وہ چیز اس جھوٹے مدعی یا مدعا علیہ کے لیے حلال و جائز نہیں ہو جاتی حرام ہی رہتی ہے اور جھوٹا مقدمہ لڑانے اور جھوٹی قسم کھانے سے وہ جہنمی بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں بھی ایک بشر ہوں اور کسی مقدمہ باز کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر مجھ سے بھی ایسا فیصلہ ہوسکتا ہے تو میرے فیصلہ سے بھی وہ چیز اس کے لئے حلال نہ ہوگی حرام ہی رہے گی۔ حدیث یہ ہے:

تشریح .....مطلب یہ ہے کہ ایک انسان اور بندہ ہو عالم الغیب نہیں ہوں" ہوسکتا ہے کہ کسی مدعی یا مدعا علیہ کی تقریر و استدلال سے متاثر ہوکر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور فی الواقع وہ اس کا حق نہ ہو تو میرے فیصلہ سے بھی دوسرے فریق کی چیز اس کے لئے حلال اور جائز نہ ہوگی بلکہ وہ اس کے حق میں دوزخ ہو گی۔
کتاب الحج
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِشَيْئٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ فَلاَ يَأْخُذْنَهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬২
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جھوٹی قسم شدید ترین گناہ کبیرہ
حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے (اور سب سے خبیث) گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ اور ماں باپ کی نافرمانی۔ اور (حاکم کے سامنے) جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا۔ اور عدالت میں جو قسم کھانے والا قسم کھائے اور اس میں مچھر کے پر کے برابر گڑبڑ کرے (یعنی ذرہ برابر بھی جھوٹ یاخیانت شامل کرے) تو (اللہ تعالی کی طرف سے) اس کے دل میں قیامت تک کے لئے ایک داغ بنا دیا جاتا ہے۔ (یعنی اس کا وبال قیامت میں ظاہر ہوگا)۔ (جامع ترمذی)
کتاب الحج
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُنَيْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الكَبَائِرِ الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَاليَمِينُ الغَمُوسُ، وَمَا حَلَفَ بِاللَّهِ حَالِفُ يَمِينٍ صَبْرٍ، فَأَدْخَلَ فِيهَا مِثْلَ جَنَاحِ بَعُوضَةٍ إِلاَّ جُعِلَتْ نُكْتَةً فِي قَلْبِهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬৩
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جھوٹی قسم شدید ترین گناہ کبیرہ
خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) صبح کی نماز پڑھی جب آپ فارغ ہوئے تو (اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کر دی گئی۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ ارشاد فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(قرآن پاک کی) یہ آیت پڑھی: “فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ” (اے لوگو! بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی گواہی سے بچو یکسوئی کے ساتھ بس اللہ ہی کے ہو کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہ ہو) (سنن ابی داود)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیت اس خطاب میں تلاوت فرمائی اس میں شرک و بت پرستی کے ساتھ “قول زور” سے بچنے اور پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اور دونوں کے لیے امر کا ایک ہی صیغہ اور ایک ہی کلمہ “اجتنبوا” استعمال فرمایا گیا ہے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا اور مخاطبین کو سمجھایا کہ شہادت زور (جھوٹی شہادت) ایسا ہی گندہ اور خبیث گناہ ہے جیسا کہ شرک و بت پرستی اور ایمان والوں کو اس سے ایسا ہی پرہیز کرنا چاہیے جتنا کے شرک و بت پرستی سے۔
کتاب الحج
عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ: «عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالْإِشْرَاكِ بِاللَّهِ» ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَرَأَ {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ} (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬৪
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کن لوگوں کی گواہی معتبر نہیں
عمرو بن شعیب نے اپنے والد شعیب سے نقل کیا اور انہوں نے اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کی خیانت کرنے والے کسی مرد اور (اسی طرح) خیانت کرنے والی کسی عورت کی شہادت درست نہیں (یعنی قابل قبول نہیں) اور کسی زانی اور زانیہ کی شہادت بھی قابل قبول نہیں) اور کسی دشمنی رکھنے والے کی شہادت بھی اس بھائی کے خلاف جس سے اسکی دشمنی ہو قابل قبول نہیں اور جو شخص (اپنی روزی اور ضروریات زندگی کے لئے) کسی گھرانے سے وابستہ ہوکر پڑ گیا ہو اس گھر والوں کے حق میں اس کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ ھو علیہ وسلم نے ناقابل قبول قرار دیا۔ (سنن ابی داود)

تشریح
اس حدیث میں پہلے خیانت اور زنا کا ارتکاب کرنے والے مردوں اور عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی شہادت قابل قبول نہیں۔ ان دونوں گناہوں کو بطور مثال کے سمجھنا چاہیے اصول اور قانون یہ ہو گا کہ جو شخص ایسے کبائر اور فواحش کا مرتکب ہو دوسرے لفظوں میں فاسق وفاجر ہو اس کی شہادت قبول نہ ہوگی کیونکہ ایسے گناہوں کا ارتکاب اس کی دلیل ہے کہ اس کے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے اس لیے اس کی سچائی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ کسی دشمنی رکھنے والے کی مخالفانہ گواہی کے قابل قبول نہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے۔ اسی طرح جو آدمی کسی گھرانے سے وابستہ ہو اسکا رہناسہنا کھانا پینا انہی کے ساتھ ہو وہ گویا اسی گھرانے کا ایک فرد ہے اس لئے اس گھرانے کے حق میں اس کی شہادت بھی قبول نہیں کی جائے گی اس سے معلوم ہو گیا کہ گھر والوں کی بدرجہ اولی قابل رد ہوگی۔
کتاب الحج
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، « عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَجُوْزُ شَهَادَةُ ْخَائِنٍ، وَلَا ْخَائِنَةٍ ولا زانٍ ولا زانيةٍ وَلَا ذِي غِمْرٍ عَلَى أَخِيهِ، وَرَدَّ شَهَادَةَ الْقَانِعِ لِأَهْلِ الْبَيْتِ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬৫
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نظام حکومت......... خلافت وامارت: عوام کو امیر کی اطاعت اور امیر کو تقوی اور عدل کی ہدایت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی فرماں برداری کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ اورامام (یعنی اسلامی حکومت کا سربراہ) سپر اور ڈھال ہیں قتال کیا جاتا ہے اس کے پیچھے سے اور اس کے ذریعہ بچاو کیا جاتا ہے پس اگر وہ خدا ترسی اور پرہیزگاری کا حکم کرے اور عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرے تو اس کے لیے اس کا بڑا اجر و ثواب ہے اور اگر وہ اس کے خلاف بات کرے تو اس پر اس کا وبال و عذاب پڑے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
جیساکہ معلوم ہے اسلام انسانی زندگی کے سارے ہی شعبوں پر حاوی ہے وہ عقائد و ایمانیات عبادات اخلاق آداب معاشرت اور معاملات کی طرح نظام حکومت کے بارے میں بھی اپنے پیروؤں کی رہنمائی کرتا اور احکام و ہدایات دیتا ہے بلکہ سلطنت و حکومت کا شعبہ اس کا اہم ترین شعبہ ہے کیونکہ دوسرے بہت سے شعبوں کا وجود اس سے وابستہ اور اسی پر موقوف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل اور ارشادات اس شعبہ کے بارے میں بھی امت کی پوری رہنمائی فرمائی ہے۔ ہجرت کے بعد جب مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کی اجتماعیت کی ایک شکل پیدا ہوگئی تو غیر رسمی طور پر ایک چھوٹی سی حکومت بھی قائم ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی و رسول ہونے کے ساتھ اس حکومت کے سربراہ اور فرمانروا بھی تھے ہجرت کے بعد قریبا دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رہے اس مدت میں اس حکومت کا دائرہ اقتدار برابر وسیع ہوتا رہا اور تیزی سے وسیع ہوا یہاں تک کہ حیات مبارک کے آخری دور میں پورا عرب بلکہ یمن اور بحرین کے علاقے بھی اس حکومت کے زیر اقتدار آگئے۔ ان دس سالوں میں اس دور کے معیار کے مطابق وہ سب ہی کام اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ہاتھوں سے کرائے جو حکومت کے سربراہوں ہی کے کرنے کے ہوتے ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلاء کلمۃ اللہ اور اللہ کے بندوں پر اللہ ہی کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے اس کے راستے میں روکاوٹ ڈالنے والے دشمن طاقتوں سے جہاد بھی کیا اس سلسلے میں فوجی مہمیں اور فوجی دستے بھی بھیجے۔ صلح کے معاہدے بھی کئے جزیہ اور خراج اور زکوۃ کی وصولی کا نظام بھی قائم فرمایا۔ زیر اقتدار آ جانے والے علاقوں میں قاضی" والی اور عامل بھی مقرر کیے اور ان سب کاموں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات میں اسلامی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کے لیے اصولی درجہ میں پوری رہنمائی موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ خواص و اصحاب ورفقاء میں سے جو چار حضرات کے یکے بعد دیگرے اس حکومتی نظام کو چلانے میں آپ صلی اللہ وسلم کے جانشین ہوئے۔ (حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق حضرت عثمان ذی النورین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم) انہوں نے اپنے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے امکان بھر اس کی کوشش کی کہ حکومت سے متعلق سارے معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی پوری پابندی اور پیروی کی جائے ان کا یہی وہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے ان کو “خلفائے راشدین” کہا جاتا ہے “خلافت راشدہ” وہی حکومت ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی حتی الامکان پوری پابندی و پیروی کی جائے۔
اس تمہید کے بعد نظام حکومت و امارات سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات ذیل میں پڑھے جائیں۔ انہیں سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اسلامی حکومت اور اس کے سربراہ کی کیا خاص ذمہ داریاں ہیں اور عام مسلمانوں کا رویہ ان کے ساتھ کیسا رہناچاہئے۔

تشریح .....قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے “مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ” (جس نے اللہ کے رسول کی فرماں برداری کی اس نے اللہ کی فرماں برداری کی) کیوں کہ اللہ کے رسول جو احکام دیتے ہیں وہ اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہوتے ہیں اور خود اللہ تعالی کی طرف سے اس کی فرمابرداری کا حکم ہے اس لئے ان کے احکام کی تعمیل اللہ تعالی کے احکام اور ان کی نافرمانی اللہ تعالی کی نافرمانی ہے۔ پھر چونکہ اللہ ہی کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ ہے کے امیر کی اطاعت کی جائے اور اس کا حکم مانا جائے (بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو) تو امیر کی اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہوگی اور اس کی نافرمانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوگی) ملحوظ رہے کہ عربی میں خاص کر قرآن وحدیث کی زبان میں امیر کے معنیٰ حکمران کے ہیں۔
بظاہر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا خاص مقصد ومدعا امیر (حاکم وقت) کی اطاعت فی المعروف کی اہمیت جتلانا ہے کہ اس کی فرماں برداری اور نافرمانی اللہ کے رسول کی اور بالواسطہ خود اللہ تعالی کی فرماں برداری اور نافرمانی ہے۔ آگے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ امیر بمنزلہ سپر اور ڈھال کے ہے سپر اور ڈھال کے ذریعہ اپنی حفاظت اور دشمن کے حملہ سے بچاؤ کیا جاتا ہے اسی طرح امام وقت (اسلامی حکومت کا سربراہ) مسلمانوں کا اور دین کا محافظ اور پاسبان ہے یہ حفاظت اور دفاع اس کی خاص ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں جہاد و قتال کی نوبت آئے گی۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کی وفاداری اور اطاعت کریں اس کے حکم کو مانیں اس کے بغیر وہ دفاع اور حفاظت کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔
اگر میں ان امراء (اصحاب حکومت) کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ وہ تقوی اور عدل و انصاف کو لازم پکڑیں یعنی ہمیشہ یہ بات ان کے پیش نظر رہے کہ خدا ہر وقت اور ہر حال میں ہم کو دیکھ رہا ہے اور قیامت میں اس کے حضور میں پیشی ہوگی اور امیر و حاکم کی حیثیت سے جو کچھ ہم نے یہاں کیا ہوگا اس کا بڑا سخت محاسبہ ہوگا اس سے کبھی غافل نہ ہوں اور عدل و انصاف پر قائم رہنے کی پوری کوشش کریں۔ اگر ایسا کریں گے تو آخرت میں بڑا اجر پائینگے اور اگر اس کے خلاف چلیں گے تو اسکا شدید عذاب و وبال بھگتنا پڑے گا۔
کتاب الحج
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَطَاعَنِي، فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي، فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ يُطِعِ الأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ يَعْصِ الأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي، وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ، فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ، فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا وَإِنْ قَالَ بِغَيْرِهِ فَإِنَّ عَلَيْهِ مِنْهُ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬৬
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عوام کو امیر کی اطاعت اور امیر کو تقوی اور عدل کی ہدایت
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اے معاویہ! اگر تم کو حاکم مقرر کیا جائے تو خوف خدا اور عدل و انصاف کو اپنا شعار بنانا۔ معاویہؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے مجھے برابر یہ خیال رہا کہ غالبا میں حکومت کی لائن کے کام میں مبتلا کیا جاؤں گا یہاں تک کہ منجانب اللہ اس میں مبتلا کیا گیا۔ (مسند احمد)

تشریح
پہلی حدیث کی طرح اصحاب حکومت کو اس حدیث کا پیغام بھی یہی ہے کہ وہ خدا ترسی اور عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالبا یہ منکشف ہوگیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ معاویہؓ صاحب آمر اور حاکم ہونگے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وہ شام کے گورنر رہے۔ اس کے بعد حضرت حسنؓ سے صلح کے بعد ایک وقت آیا کہ وہ پوری اسلامی مملکت کے امیر و سربراہ تسلیم کر لیے گئے ۔
کتاب الحج
عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مُعَاوِيَةُ، إِنْ وُلِّيتَ أَمْرًا فَاتَّقِ اللَّهَ وَاعْدِلْ» ، قَالَ: فَمَازِلْتُ أَظُنُّ أَنِّي مُبْتَلًى بِعَمَلٍ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ابْتُلِيتُ. (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬৭
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عوام کو امیر کی اطاعت اور امیر کو تقوی اور عدل کی ہدایت
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے بندوں میں سب سے افضل اللہ کے نزدیک نرم خو رحم دل اور عادل و منصف حکومت ہوگے اور بدترین درجہ میں سخت دل اور ظالم و غیر منصف سربراہ حکومت ہوں گے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خلیفہ اور امیر کو خدا ترس اور عادل و منصف ہونے کے ساتھ نرم خو اور رحم دل بھی ہونا چاہیے جیسے کہ حکومت کے معاملہ میں خود رسول اللہ صلی وسلم کا رویہ تھا۔
کتاب الحج
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَفْضَلَ عِبَادِ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِمَامٌ عَادِلٌ وَإِنَّ شَرَّ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِمَامٌ جَائِرٌ، خَرِقٌ» (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬৮
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ امیر کو عوام کی خیرخواہی کی تاکید
حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے ثنا فرماتے تھے کہ جس بندہ کو اللہ کسی رعیت کا راعی (یعنی حاکم و نگران) بنائے اور وہ اس کی خیر خواہی پوری پوری نہ کرے تو وہ حاکم جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امیر اور حکمران کا فرض ہے کہ جو لوگ اس کے زیر حکومت ہیں ان کی خیرخواہی اور خیراندیشی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے اگر عوام کی خیر خواہی میں کوتاہی کرے گا تو جنت سے بلکہ اس کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔
اس حدیث میں اس کے علاوہ بعض حدیثوں میں بھی امیر یعنی صاحب حکومت کو “راعی” اور اس کے زیر حکومت عوام کو “رعیت” کہا گیا ہے۔ اصل عربی زبان میں راعی کے معنی چرواہے اور نگہبان کے ہیں اور “رعیت” وہ ہے جس کو وہ چرائے اور جس کی حفاظت و نگہبانی اس کے ذمہ ہو۔ صرف یہ دو لفظ یہ بتلانے کے لئے کافی ہیں کہ اسلام میں حکومت وامارت کا کیا تصور ہے اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ فرض شناس چرواہے ان جانوروں کو جن چرانا اور جن کی نگہبانی ان کے ذمہ ہوتی ہے سرسبز چراگاہوں میں لے جاتے ہیں درندوں اور چوروں رہزنوں سے ان کی حفاظت کرتے ہیں اور شام کو گھر واپس لاتے ہیں اس طرح ان کو کھلانا پلانا اور ان کی دیکھ بھال ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ ان حدیثوں نے بتلایا کہ اسلام میں یہی حیثیت خلیفہ اور حکمران کی ہے وہ عوام کا محافظ اور رکھوالہ ہے اور ان کی ضروریات کی فکر اس کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ اس سلسلہ میں بے پرواہی برتے گا تو اللہ کے نزدیک مجرم ہوگا۔
کتاب الحج
عَنِ مَعْقِلِ بْنَ يَسَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৬৯
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اہل حاجت کے لیے امیر کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے
حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہؓ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فرماتے ہیں کہ جو حکمران ضرورت مندوں اور کمزور بندوں کے لیے اپنا دروازہ بند کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجت اسکی ضرورت اور اس کی مسکینی کے وقت آسمان کے دروازے بند کر لے گا (یعنی اس کی ضرورت مند ی کے وقت اللہ تعالی کی طرف سے اس کی مدد نہیں ہوگی)۔

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاۓراشدین کا بھی طریقہ یہ تھا کہ اصحاب حاجت بلا روک ٹوک پہنچ کر مل سکتے تھے اور اپنے مسئلے پیش کر سکتے تھے ان کے لیے دروازہ بند نہیں رہتا تھا لیکن جب خوارج کی طرف سے خفیہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ انکے ہاتھوں شہید ہوئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے لوگوں کی آمدورفت پر پابندی لگا دی ، اسی موقع پر حدیث کے راوی حضرت عمرو بن مرہؓ نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا: اسی روایت میں آگے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سننے کے بعد حضرت معاویہؓ نے دروازہ پر ایک خاص آدمی مقرر کردیا جو لوگوں کی حاجات وضروریات معلوم کرکے حضرت معاویہؓ تک پہنچاتا تھا۔
کتاب الحج
عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ لِمُعَاوِيَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ إِمَامٍ يُغْلِقُ بَابَهُ دُونَ ذَوِي الحَاجَةِ، وَالخَلَّةِ، وَالمَسْكَنَةِ إِلاَّ أَغْلَقَ اللَّهُ أَبْوَابَ السَّمَاءِ دُونَ خَلَّتِهِ، وَحَاجَتِهِ، وَمَسْكَنَتِهِ (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৭০
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ امیر کا حکم اگر خلاف شریعت نہیں ہے تو بہرحال اس کی اطاعت کی جائے لیکن معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کے اصحاب امر کے احکام سنا اور ماننا ہر مرد مومن کے لئے ضروری ہے ان امور میں بھی جو پسند ہو اور ان امور میں بھی جو ناپسندیدہ ہوں جب تک کہ کسی گناہ کا حکم نہ دیا جائے لیکن جب کوئی صاحب امر کسی خلاف شریعت بات کا حکم دے تو پھر سمع و اطاعت (سننے اور ماننے) کا حکم نہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ھے کہ اگر کسی ایسی بات کا حکم دے جو آپکی طبیعت یا آپ کی ذاتی رائے کے خلاف ہو لیکن شریعت کے خلاف نہ ہو تو اپنی طبیعت کے رجحان اور رائے کو نظرانداز کرکے اس کی اطاعت کرنی ضروری ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو ظاہر ہے کہ قدم قدم پر اختلاف و انتشار ہو گا۔ ہاں اگر شریعت کے خلاف امیر کوئی حکم دے تو اسکی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اللہ کا اور اس کی شریعت کا حکم مقدم اور سب سے بالا ہے۔
کتاب الحج
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «السَّمْعُ، وَالطَّاعَةُ عَلَى المَرْءِ المُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَةَ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৭১
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل الجہاد ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل الجہاد ہے۔ (جامع ترمذی،سنن ابی داؤد،سنن ابن ماجہ)

تشریح
کافر دشمنوں سے قتال کرنے میں اگرچہ شکست اور اپنی موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے لیکن فتح اور کامیابی کی امید بھی ہوتی ہے۔ مگر ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے میں اپنی جان کا یا کم سے کم سزا کا خطرہ ہی ہوتا ہے غالبا اسی وجہ سے اس کو افضل الجہاد فرمایا گیا ہے۔
کتاب الحج
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ الْجِهَادِ: كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ " (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৭২
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عورت کو سربراہ حکومت بنانا صحیح نہیں
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ وسلم کو خبر پہنچی کے اہل فارس نے کسری شاہ فارس کی بیٹی کو اپنا بادشاہ فرمانروا بنا لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قوم فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے ایک عورت ذات کو اپنا حکمران اور فرمانروا بنایا ہے۔ (صحیح بخاری)

تشریح
مرد اور عورت کی خلقت اور فطرت میں جو کھلا ہوا فرق ہے وہ اس کی روشن دلیل ہے کہ عورت کی تخلیق و ملک و قوم پر حکمرانی جیسے کاموں کیلئے نہیں ہوئی اگر کہیں کہیں اس کے خلاف عمل میں آتا ہے تو وہ یقینا فطرت کے خلاف ہے اور ان خلاف فطرت کاموں میں سے ہے جو دنیا میں ہوتے رہے ہیں اور ہورہے ہیں۔
کتاب الحج
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ، قَدْ مَلَّكُوا عَلَيْهِمْ بِنْتَ كِسْرَى، قَالَ: «لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً» (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৭৩
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خلیفہ اپنا جانشین نامزد بھی کرسکتا ہے اور اہل حل و عقد کے انتخاب پر بھی چھوڑ سکتا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں مجھ سے فرمایا کہ (اے عائشہ!) اپنے والد ابو بکر اور اپنے بھائی (عبد الرحمن بن ابی بکر) کو میرے پاس بلوا دو تاکہ میں (خلافت کے بارے میں) تحریر لکھوا دوں مجھے اندیشہ ہے کہ (خلافت کی) تمنا رکھنے والا کوئی آدمی اس کی تمنا کرے اور کوئی کہنے والا کہے کہ میں ہوں اس کا مستحق اور وہ نہیں ہوگا مستحق" اور اللہ تعالی کو اور مومنین کو ابوبکر کے سوا کوئی منظور نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
دور حاضر کے مغربی نظام جمہوریت سے مرعوبیت کے نتیجہ میں جو کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا ہے کہ “اسلامی نظام” میں استخلاف (یعنی سربراہ حکومت کی طرف سے اپنے جانشین کی نامزدگی) کی گنجائش نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ نظریہ صرف مرعوبیت کی پیداوار ہے۔ استخلاف اور نامزدگی کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا انحصار حالات اور اشخاص پر ہے اگر خلیفہ وقت (موجودہ سربراہ حکومت) کسی شخص کے بارے میں پوری دیانتداری کے ساتھ سو فیصدی مطمئن ہے کہ اس منصب کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی اس میں زیادہ صلاحیت ہے اور عوام بھی اس کی سربراہی کو بخوشی قبول کرلیں گے تو اس صورت میں خلافت کےلئے اس کی نامزدگی نہ صرف جائز بلکہ بہتر ہوگی۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے اپنے بعد کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایسی ہی صورت حال میں خلیفہ نامزد کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں صدیق اکبر کی نامزدگی کا ارادہ فرمایا تھا لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انکشاف و یقین ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ وسلم کے خلیفہ اور جانشین صدیق اکبر ہی ہوں گے یہی اللہ تعالی کی مشیت ہے اور یہی مسلمانوں کا فیصلہ ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو باضابطہ نامزد نہیں کیا۔ اگرچہ اپنے مرض وفات میں اپنی جگہ انہیں کو امام نماز بنا کر اس طرف کھلا اشارہ فرمادیا۔
الغرض اگر خلیفہ برحق دین اور امت کے حق میں کسی اہل کی نامزدگی کو بہتر سمجھے تو اس کو اس کا حق ہے اور اس طرح وہ نامزد شخص خلیفہ برحق ہوگا۔ اور اگر خود نامزد کرنے کے بجائے ارباب حل و عقد کی ایک مجلس کو انتخاب کا اختیار دینا مناسب سمجھے اور ایسا کرے تو یہ بھی صحیح ہوگا جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ اور اگر کسی وقت انتخاب کے دائرہ کو امت کے عام اہل دین و فہم کی حد تک وسیع کرنا مناسب سمجھا جائے تو ایسا کرنا بھی درست ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کے طرز عمل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اصل قابل لحاظ چیز مقصد ہے استخلاف اور انتخاب ‏امیر کا کوئی خاص طریقہ اور ضابطہ متعین نہیں ہے اور وہ دینی مقاصد اور شرعی حدود و احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے حالات کے مطابق تجویز کیا جاسکتا ہے۔

تشریح .....اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں یہ ارادہ فرمایا تھا کہ اپنے بعد خلیفہ کی حیثیت سے ابوبکر صدیق کو نامزد فرمادیں اور “خلافت نامہ” تحریر کرادیں اور اس کی تکمیل کے لئے حضرت ابوبکرؓ اور انکے صاحبزادے عبد الرحمن بن ابی بکر کو بلوانا بھی چاہا تھا لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ انکشاف و یقین ہوگیا کہ مشیت الہی میں یہی طے ہو چکا ہے اور میرے بعد اہل ایمان ابو بکر کے سوا کسی کو خلیفہ منتخب نہیں کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت نہیں سمجھی اور یہی مناسب سمجھا کہ میری نامزدگی کے بغیر ہی اہل ایمان کے انتخاب سے وہ خلیفہ ہوں۔ چناچہ ایسا ہوا۔ بہرحال اس حدیث سے یہ معلوم ہو گیا کہ استخلاف اور نامزدگی بھی ایک طریقہ ہے جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا تھا اور اس کا اظہار فرما دیا تھا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے جب اپنے بعد کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو خلیفہ نامزد کیا تو غالبا ان کے سامنے دلیل کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارادہ تھا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد کے لیے خلیفہ نامزد کرنے کے بجائے مسئلہ کو ایک مجلس شوریٰ کے سپرد کیا تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے روشنی حاصل کی۔ الغرض اسی ایک حدیث سے معلوم ہوا کہ استخلاف و نامزدگی بھی درست ہے اور انتخاب بھی۔
کتاب الحج
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي مَرَضِهِ " ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ، أَبَاكِ، وَأَخَاكِ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ وَيَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَى، وَيَأْبَى اللهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ " (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৭৪
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خلافت علی منھاج النبوة صرف تیس سال
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت النبوہ (یعنی نبوی اصول و طریق کار کی پابندی کے ساتھ نظام حکومت کی سربراہی) صرف تیس سال تک رہے گی اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا بادشاہت دے گا۔ (سنن ابی داود)

تشریح
اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات منکشف کر دی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت علی منہاج النبوہ یعنی حد تک آپ صلی اللہ وسلم کے اصول اور طور طریقوں کے ساتھ نظام حکومت صرف تیس سال تک چلے گا۔ اس کے بعد بادشاہی اور حکمرانی کا دور آ جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ٹھیک تیسویں سال حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہٗ کی شہادت ہوئی۔ آپؓ کے بعد آپؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ آپؓ کے جانشین اور خلیفہ ہوئے لیکن انہوں نے چند ہی مہینے بعد مسلمانوں کی خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ حضرت حسنؓ کی خلافت کے یہ چند مہینے شامل کر لیے جائیں تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ خلافت علی منہاج نبوت اور خلافت راشدہ جس کو اس حدیث میں خلافت النبوہ کہا گیا ہےبس اس تیس سالوں تک رہی۔ اس کے بعد طور طریقوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا اور شدہ شدہ خلافت علی منھاج النبوہ کی جگہ بادشاہت کا رنگ آ گیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری پیشنگوئیوں کی طرح یہ حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو کچھ ہونے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اطلاع دی اور وہی وقوع میں آیا۔ ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم اللہ تعالی کی وحی کے ہی ذریعہ ہوا تھا۔
کتاب الحج
عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৭৫
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بادشاہوں اور حکمرانوں کو نصیحت کا صحیح طریقہ
حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی صاحب حکومت کو کسی بات کی نصیحت کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ اعلانیہ (اور دوسروں کے سامنے) نصیحت نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تنہائی میں اپنی بات اس کے سامنے رکھے۔ پھر اگر وہ اس کو قبول کر لے اور مان لے تو فبہا (یعنی مقصد حاصل ہوگیا) اور اگر اس نے نصیحت قبول نہ کی تو اس نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ (مسند احمد)

تشریح
بےشک حکمت نصیحت کا تقاضہ یہی ہے کہ خاص کر اہل حکومت اور اصحاب وجاہت کو نصیحت ان سے تنہائی میں ملاقات کرکے کی جائے یہ طرز عمل مخاطب کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے کہ نصیحت کرنے والا مخلص اور میرا خیرخواہ ہے اور اگر اچھی بات کے قبول کرنے کی صلاحیت سے اس کا دل بالکل خالی اور محروم نہیں ہیں تو قبول کرنے کی پوری امید ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اعلانیہ اور دوسروں کے سامنے نصیحت میں وہ اپنی توہین محسوس کر سکتا ہے اور اسکا رد عمل بہت برا بھی ہو سکتا ہے۔ رازدارانہ خط و کتاب کے ذریعہ نصیحت کرنا بھی تنہائی کی ملاقات ہی کے حکم میں ہے۔
کتاب الحج
عَنْ عِيَاضِ بْنُ غَنْمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْصَحَ لِذِىْ سُلْطَانٍ بِأَمْرٍ، فَلَا يُبْدِ لَهُ عَلَانِيَةً، وَلَكِنْ لِيَأْخُذْ بِيَدِهِ، فَيَخْلُوَ بِهِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْهُ فَذَالِكَ، وَإِلَّا كَانَ قَدْ أَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ» (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৭৬
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حکمرانوں کا ظلم و تشدد ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ اور خدا کا عذاب ہوتا ہے لہذا ارباب حکومت کو کوسنے کے بجائے خدا کی طرف رجوع ہو اور اس سے دعا کرو!
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ میں ہی ہوں میرے سواکوئی معبود مالک نہیں میں حکمرانوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں بادشاہان عالم کے دل میرے ہاتھ میں ہیں (اور میرا قانون ہے کہ) جب میرے بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حکمرانوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کے ساتھ ان بندوں پر متوجہ کر دیتا ہوں اور جب بندے میری نافرمانی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں تو میں ان کے حکمرانوں کے قلوب کو خفگی اور عذاب کے ساتھ ان بندوں کی طرف موڑ دیتا ہوں پھر وہ ان کو سخت تکلیفیں پہنچاتے ہیں پس تم اپنے کو حکمرانوں کے لئے بد دعا میں مشغول نہ کرو بلکہ اپنے کو میری یاد میں اور میری بارگاہ میں الحاح و زاری میں" تاکہ تمھارے لیے کافی ہو جاؤں حکمرانوں کے عذاب سے نجات دینے کے لیے۔ (حلیہ الاولیاء لابی نعیم)

تشریح
اس دنیا میں جو اچھے برے حالات آتے ہیں تو ان کے کچھ تو ظاہری اسباب ہوتے ہیں جن کو دنیا کی عام سمجھ رکھنے والے سمجھ لیتے ہیں اور کچھ غیبی اور باطنی اسباب ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خداوند تعالیٰ کی طرف سے بیان فرمایا ہے کہ بندوں پر دنیا میں جو اچھے برے حالات ان کے حکمرانوں کی طرف سے آتے ہیں وہ دراصل ان کے اعمال کے نتائج ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے میں بادشاہوں کا بادشاہ اور سب حاکموں کا حاکم ہوں۔ سب حکمرانوں کے قلوب میرے قبضہ میں ہیں اور میرا یہ قانون و دستور ہے کہ جب بندوں کی عام زندگی اطاعت و فرماں برداری کی ہوتی ہے تو میں ان کے حاکموں کے قلوب میں ان کے لئے رحمت و شفقت ڈال دیتا ہوں تو ان کا برتاؤ رحمت و شفقت کا ہوتا ہے اور اگر ان کی زندگی نافرمانی و بدکرداری کی ہوتی ہے اور معصیت کا غلبہ ہوتا ہے تو میں ان کے حکاموں کے قلوب میں ان کے لئے غصہ اور تکلیفیں دینے کا جذبہ ڈال دیتا ہوں پھر وہ ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے ہیں اور ستاتے ہیں تو دراصل یہ میرا عذاب ہوتا ہے تمہارے حکام صرف اعلی کار ہوتے ہیں آخر میں فرمایا گیا کہ جب حاکموں سے تم کو تکلیفیں پہنچیں تو ان کے لئے بد دعائیں نہ کرو ان کو نہ کوسو اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مجھے یاد کرو معصیتوں کی زندگی سے توبہ کرکے میری فرمابرداری والی زندگی اختیار کرو آہ و زاری کے ساتھ میری طرف رجوع ہو اس طرح تم حاکموں کے مظالم سے نجات پا سکو گے۔
جب نادر شاہ نے دلی کو تاراج کیا اور دلی والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے تو اس وقت کہ عارف حضرت مرزا مظہر جان جاناں نے فرمایا تھا:
“شامت اعمال ما صورت نادر گرفت”
کتاب الحج
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، مَالِكُ الْمُلُوكِ وَمَلِكُ الْمُلُوكِ، قُلُوبُ الْمُلُوكِ فِي يَدِي، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا أَطَاعُونِي حَوَّلْتُ قُلُوبَ مُلُوكِهِمْ عَلَيْهِمْ بِاالرَّحْمَةِ وَالرَّأْفَةِ، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا عَصَوْنِي حَوَّلْتُ قُلُوبَهُمْ عَلَيْهِمْ بِالسَّخْطَةِ وَالنِّقْمَةِ فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ، فَلَا تَشْغَلُوا أَنْفُسَكُمْ بِالدُّعَاءِ عَلَى الْمُلُوكِ، وَلَكِنِ اشْتَغِلُوا اَنْفُسَكُمْ بِالذِّكْرِ وَالتَّضَرُّعِ كَىْ أَكْفِيْكُمْ مُلُوكَكُمْ» (رواه ابو نعيم فى الحلية)
tahqiq

তাহকীক: