মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
হজ্ব অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৩৯ টি
হাদীস নং: ১৮৩৮
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وصیت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے وصیت کی حالت میں انتقال کیا (یعنی اس حالت میں جس کا انتقال ہوا کہ اپنی مالیت اور معاملات وغیرہ کے بارے میں جو وصیت اس کو کرنی چاہئے تھی وہ اس نے کی اور صحیح اور لوجہ اللہ کی) تو اس کا انتقال ٹھیک راستہ پر اور شریعت پر چلتے ہوئے ہوا اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہو گئی ۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث میں وصیت کرنے کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں ۔
تشریح
اس حدیث میں وصیت کرنے کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں ۔
کتاب الحج
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ مَاتَ عَلَى وَصِيَّةٍ مَاتَ عَلَى سَبِيلٍ وَسُنَّةٍ وَمَاتَ عَلَى تُقًى وَشَهَادَةٍ وَمَاتَ مَغْفُورًا لَهُ. (رواه ابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৩৯
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وصیت
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ (سخت مریض ہوا) تو رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور میں اس بات کو بہت برا سمجھتا تھا کہ میری موت مکہ کی اس سرزمین میں ہو جس سے میں ہجرت کر چکا ہوں (اور جس کو اللہ کے لئے ہمیشہ کے واسطے چھوڑ چکا ہوں) تو رسول اللہ ﷺ نے (دعا کے طور پر مجھے تسلی دینے کے لئے) ارشاد فرمایا کہ اللہ رحمت فرمائے عفراء کے بیٹے (سعد) پر (حضرت سعد کی والدہ کا نام یا لقب عفراء تھا) میں نے آپ ﷺ سے (بطور استفسار کے عرض کیا کہ (حضرت کی کیا رائے ہے) میں اپنی ساری دولت کو (فی سبیل اللہ اور مصارف خیر) صرف کرنے کی وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نیہں (ایسا نہ کرو) میں نے عرض کیا کہ پھر آدھی دولت کے بارے میں یہ وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں (اتنا بھی نہیں) میں نے عرض کیا کہ تو پھر تہائی کے لئے وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں تہائی کی وصیت کر دو ، اور تہائی بھی بہت ہے ۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ) تمہارے لئے یہ بات کہ تم اپنے وارثوں کو خوش حال چھوڑ کے جاؤ ، اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلسی اور تنگ دستی کی حالت میں چھوڑ کے جاؤ کہ وہ (اپنی ضروریات کے لئے) دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ۔ اور تم جو کچھ بھی (لوجہ اللہ اور ثواب کی نیت سے) خرچ کرو گے (اگرچہ وہ خرچ اپنے عزیزوں ، قریبوں اور وارثوں پر ہو) تو وہ تمہاری طرف سے “صدقہ” ہو گا حتیٰ کہ جو لقمہ تم اپنے ہاتھ سے اٹھا کے اپنی بیوی کے منہ میں دو گے (وہ بھی عن اللہ تمہارا صدقہ ہو گا) آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی امید ہے کہ وہ تم کو اس مرض سے صحت و شفاء دے کر) مستقبل میں تم کو بلند مرتبہ پر پہنچائے پھر تم سے بہت سے بندگانِ خاد کو نفع پہنچے گا اور بہت لوگوں کو نقصان (اس حدیث کو حضڑت سعد سے روایت کرنے والے(ان کے صاحبزادے عامر بن سعد) کہتے ہیں کہ جس زمانہ کا یہ واقعہ ہے) اس زمانے میں حضرت سعد کے صرف ایک بیٹی تھیں (اس کے علاوہ کوئی اولاد نہیں تھی) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ حجۃ الوداع کے سفر میں یہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، مکہ معظمہ میں یہ سخت بیمار پڑے ، اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں “اشفيت على الموت” یعنی میں گویا موت کے کنارہ پہنچ گیا تھا اور چونکہ وہ مہاجرین میں سے تھے اس لئے یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ جس مکہ کو وہ اللہ کے لئے چھوڑ چکے ہیں اور ہجرت کر چکے ہیں وہاں ان کا انتقال ہو اور اس کی سرزمین میں دفن ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ جب ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور ان کی یہ فکر اور پریشانی آپ ﷺ کے علم میں آئی تو آپ ﷺ نے “يرحم الله ابن عفراء” کہہ کر ان کے لئے دعا کی اور تسلی دی ، پھر حضرت سعد نے (جو دولت مند صحابہ میں سے تھے) آپ ﷺ سے اپنے مال و دولت کے بارے میں وصیت ہے متعلق دریافت کیا (اس حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے صراحت کے ساتھ حضور ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ کی دی ہوئی میرے پاس بہت دولت ہے اور میری صرف ایک بیٹی ہے) میں اپنی آخرت بہتر بنانے کے لئے سوچتا ہوں کہ اپنی ساری دولت کے لئے وصیت کر جاؤں کہ وہ فی سبیل اللہ مصارفِ خیر میں صرف کی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی ، پھر آدھی دولت کے لئے ایسی وصیت کرنے کی بھی اجازت نہیں دی ، صرف تہائی کی اجازت دی اور فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔ ” اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کو یہ بھی بتلایا کہ عنداللہ اور تمہاری آخرت کے لئے یہی بہتر ہے کہ تم تہائی سے زیادہ کی وصیت نہ کرو ۔ عزیزوں ، قریبوں پر خرچ کرنا اور وارثوں کے لئے چھوڑنا بھی عنداللہ صدقہ ہے ۔ (بشرطیکہ رضائے الہی اور ثواب کی نیت ہو ، اس حدیث کی بعض روایات میں اس شرط کی صراحت ہے) اسی سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ حتی کہ اس نیت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دینے میں بھی تمہارے لئے ثواب ہے حالانکہ اس میں حظِ نفس بھی ہے ۔
سب سے آخر میں آپنے فرمایا کہ “عسى الله ان يرفعك الخ” یہ حضرت سعد کے حق میں ایسی پیشن گوئی تھی جس کا اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ابھی تم سے بہت کام لینا ہے ، تم ان شاء اللہ اس مرض سے صحت یاب ہو کر اُٹھ جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تم کو ایسے بلند مرتبہ پر پہنچائے گا کہ تمہارے ہاتھوں قوموں کی تقدیر بنیں گی اور بگڑیں گی۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ۱۰ھ میں ایسی حالت میں ارشاد فرمائی تھی کہ حضرت سعدؓ اپنے کو موت کے کنارے پر سمجھ رہے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی اس طرف پوری ہوئی حضرت سعدؓ اس کے بعد قریبا آدھی صدی تک اس دنیا میں رہے اور اللہ نے ان کو یہ بلند مرتبہ بخشا کہ حکومت فارس کے قریبا سارے زیر اقتدار علاقے انہی کی قیادت میں فتح ہوکر اسلامی قلمرو میں شامل ہوئے اور اللہ کے لاکھوں بندوں کو اسلام کی دولت نصیب ہوئی پھر وہ عراق کے حاکم بھی رہے اور ۵۵ء میں اور ایک روایت کے مطابق ۵۸ء میں ان کی وفات ہوئی ۔ حضرت سعد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی اور اسکا اس طرح ظہور میں آنا بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے۔
اس حدیث میں “وصیت” کے بارے میں یہ اصولی حق معلوم ہوا کہ جس شخص کے وارث ہوں اس کو فی سبیل اللہ اور مصارف خیر کے لیے بھی اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنی جائز نہیں اس پر امت کے ائمہ و علماء کا تقریبا اتفاق ہے۔ ہاں اپنی زندگی میں فی سبیل اللہ اور مصارف خیر میں جو کچھ خرچ کرنا چاہے کر سکتا ہے تہائی کی یہ قید موت کے بعد سے متعلق وصیت ہی کے بارے میں ہے۔
جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا یہ واقعہ حجۃ الوداع کے سفر کا ہے جو ۱۰ھ کے اواخر میں ہو تھا صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متعدد روایات میں اس کی صراحت ہے لیکن ترمذی کی ایک روایت میں اس کو فتح مکہ والے سفر کا واقعہ بتلایا گیا ہے جو ۸ھ میں ہوا تھا۔ محدثین کا اس پر تقریبا اتفاق ہے کہ ترمذی کی روایت میں ایک رائے راوی کو سہو ہوا ہے جس کو محدثین کی اصطلاح میں “وہم” کہا جاتا ہے۔
تشریح
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ حجۃ الوداع کے سفر میں یہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، مکہ معظمہ میں یہ سخت بیمار پڑے ، اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں “اشفيت على الموت” یعنی میں گویا موت کے کنارہ پہنچ گیا تھا اور چونکہ وہ مہاجرین میں سے تھے اس لئے یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ جس مکہ کو وہ اللہ کے لئے چھوڑ چکے ہیں اور ہجرت کر چکے ہیں وہاں ان کا انتقال ہو اور اس کی سرزمین میں دفن ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ جب ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور ان کی یہ فکر اور پریشانی آپ ﷺ کے علم میں آئی تو آپ ﷺ نے “يرحم الله ابن عفراء” کہہ کر ان کے لئے دعا کی اور تسلی دی ، پھر حضرت سعد نے (جو دولت مند صحابہ میں سے تھے) آپ ﷺ سے اپنے مال و دولت کے بارے میں وصیت ہے متعلق دریافت کیا (اس حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے صراحت کے ساتھ حضور ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ کی دی ہوئی میرے پاس بہت دولت ہے اور میری صرف ایک بیٹی ہے) میں اپنی آخرت بہتر بنانے کے لئے سوچتا ہوں کہ اپنی ساری دولت کے لئے وصیت کر جاؤں کہ وہ فی سبیل اللہ مصارفِ خیر میں صرف کی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی ، پھر آدھی دولت کے لئے ایسی وصیت کرنے کی بھی اجازت نہیں دی ، صرف تہائی کی اجازت دی اور فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔ ” اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کو یہ بھی بتلایا کہ عنداللہ اور تمہاری آخرت کے لئے یہی بہتر ہے کہ تم تہائی سے زیادہ کی وصیت نہ کرو ۔ عزیزوں ، قریبوں پر خرچ کرنا اور وارثوں کے لئے چھوڑنا بھی عنداللہ صدقہ ہے ۔ (بشرطیکہ رضائے الہی اور ثواب کی نیت ہو ، اس حدیث کی بعض روایات میں اس شرط کی صراحت ہے) اسی سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ حتی کہ اس نیت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دینے میں بھی تمہارے لئے ثواب ہے حالانکہ اس میں حظِ نفس بھی ہے ۔
سب سے آخر میں آپنے فرمایا کہ “عسى الله ان يرفعك الخ” یہ حضرت سعد کے حق میں ایسی پیشن گوئی تھی جس کا اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ابھی تم سے بہت کام لینا ہے ، تم ان شاء اللہ اس مرض سے صحت یاب ہو کر اُٹھ جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تم کو ایسے بلند مرتبہ پر پہنچائے گا کہ تمہارے ہاتھوں قوموں کی تقدیر بنیں گی اور بگڑیں گی۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ۱۰ھ میں ایسی حالت میں ارشاد فرمائی تھی کہ حضرت سعدؓ اپنے کو موت کے کنارے پر سمجھ رہے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی اس طرف پوری ہوئی حضرت سعدؓ اس کے بعد قریبا آدھی صدی تک اس دنیا میں رہے اور اللہ نے ان کو یہ بلند مرتبہ بخشا کہ حکومت فارس کے قریبا سارے زیر اقتدار علاقے انہی کی قیادت میں فتح ہوکر اسلامی قلمرو میں شامل ہوئے اور اللہ کے لاکھوں بندوں کو اسلام کی دولت نصیب ہوئی پھر وہ عراق کے حاکم بھی رہے اور ۵۵ء میں اور ایک روایت کے مطابق ۵۸ء میں ان کی وفات ہوئی ۔ حضرت سعد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی اور اسکا اس طرح ظہور میں آنا بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے۔
اس حدیث میں “وصیت” کے بارے میں یہ اصولی حق معلوم ہوا کہ جس شخص کے وارث ہوں اس کو فی سبیل اللہ اور مصارف خیر کے لیے بھی اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنی جائز نہیں اس پر امت کے ائمہ و علماء کا تقریبا اتفاق ہے۔ ہاں اپنی زندگی میں فی سبیل اللہ اور مصارف خیر میں جو کچھ خرچ کرنا چاہے کر سکتا ہے تہائی کی یہ قید موت کے بعد سے متعلق وصیت ہی کے بارے میں ہے۔
جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا یہ واقعہ حجۃ الوداع کے سفر کا ہے جو ۱۰ھ کے اواخر میں ہو تھا صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متعدد روایات میں اس کی صراحت ہے لیکن ترمذی کی ایک روایت میں اس کو فتح مکہ والے سفر کا واقعہ بتلایا گیا ہے جو ۸ھ میں ہوا تھا۔ محدثین کا اس پر تقریبا اتفاق ہے کہ ترمذی کی روایت میں ایک رائے راوی کو سہو ہوا ہے جس کو محدثین کی اصطلاح میں “وہم” کہا جاتا ہے۔
کتاب الحج
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهْوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا قَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ. قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: لاَ. قُلْتُ فَالشَّطْرُ؟ قَالَ: لاَ. قُلْتُ الثُّلُثُ؟ قَالَ: فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَكَ فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ. وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلاَّ ابْنَتَهُ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪০
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وصیت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے (اپنی کتاب پاک میں وارثوں میں سے) ہر صاحب حق کو اس کا حصہ عطا فرما دیا ہے۔ لہذا اب کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے کے بعد جب معاشرت وغیرہ سے متعلق احکام کا نزول شروع ہوا تو ابتدا سورت بقرہ کی آیت ۱۸۰ (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ الآية) کے ذریعے یہ حکم دیا گیا تھا کہ جس شخص کے پاس کچھ مال و دولت ہو اس کو چاہیے کہ مرنے سے پہلے اپنے ماں باپ اور دوسرے قریبی عزیزوں کے لئے وہ مناسب طریقہ پر وصیت کر جائے اسکے کچھ مدت بعد اللہ تعالی کی طرف سے وراثت کا مفصل قانون سورہ نساء میں نازل فرما دیا گیا اس طرح وصیت کا پہلا حکم کم ازکم شرعی وارثوں کے حق میں منسوخ ہوگیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں جہاں اور بہت سے ضروری احکام کا اعلان فرمایا وہاں یہ اعلان بھی فرمایا کہ اللہ تعالی نے وراثت کا قانون نازل فرما کر سب وارثوں کا حق مقرر فرما دیا ہے لہذا اب کسی وارث کے لیے وصیت نہ کی جائے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہٗ نے اس حدیث میں اسی کا ذکر فرمایا اور مشکاۃ المصابیح میں حضرت ابو امامہؓ کی مندرجہ بالا حدیث سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد آخر میں یہ اضافہ ہے۔
وَفِىْ رِوَايَةِ الدَّارَ قُطْنِىْ قَالَ لاَ تَجُوزُ الْوَصِيَّةُ لِوَارِثٍ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ الْوَرَثَةُ
اور دارقطنی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ فرمایا کیا اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز (اور نافذ) نہیں الا یہ کہ دوسرے وارث چاہیں اور راضی ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے شرعی وارث اس پر راضی ہو جائیں گے کہ مورث کسی وارث کے حق میں (اس کے شرعی حصے کے علاوہ مزید کی) وصیت کر دے اور ان کو اس پر اعتراض نہ ہو تو یہ وصیت جائز اور نافذ ہو جائے گی (بشرطیکہ یہ دوسرے وارث عاقل بالغ ہوں)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے کے بعد جب معاشرت وغیرہ سے متعلق احکام کا نزول شروع ہوا تو ابتدا سورت بقرہ کی آیت ۱۸۰ (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ الآية) کے ذریعے یہ حکم دیا گیا تھا کہ جس شخص کے پاس کچھ مال و دولت ہو اس کو چاہیے کہ مرنے سے پہلے اپنے ماں باپ اور دوسرے قریبی عزیزوں کے لئے وہ مناسب طریقہ پر وصیت کر جائے اسکے کچھ مدت بعد اللہ تعالی کی طرف سے وراثت کا مفصل قانون سورہ نساء میں نازل فرما دیا گیا اس طرح وصیت کا پہلا حکم کم ازکم شرعی وارثوں کے حق میں منسوخ ہوگیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں جہاں اور بہت سے ضروری احکام کا اعلان فرمایا وہاں یہ اعلان بھی فرمایا کہ اللہ تعالی نے وراثت کا قانون نازل فرما کر سب وارثوں کا حق مقرر فرما دیا ہے لہذا اب کسی وارث کے لیے وصیت نہ کی جائے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہٗ نے اس حدیث میں اسی کا ذکر فرمایا اور مشکاۃ المصابیح میں حضرت ابو امامہؓ کی مندرجہ بالا حدیث سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد آخر میں یہ اضافہ ہے۔
وَفِىْ رِوَايَةِ الدَّارَ قُطْنِىْ قَالَ لاَ تَجُوزُ الْوَصِيَّةُ لِوَارِثٍ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ الْوَرَثَةُ
اور دارقطنی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ فرمایا کیا اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز (اور نافذ) نہیں الا یہ کہ دوسرے وارث چاہیں اور راضی ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے شرعی وارث اس پر راضی ہو جائیں گے کہ مورث کسی وارث کے حق میں (اس کے شرعی حصے کے علاوہ مزید کی) وصیت کر دے اور ان کو اس پر اعتراض نہ ہو تو یہ وصیت جائز اور نافذ ہو جائے گی (بشرطیکہ یہ دوسرے وارث عاقل بالغ ہوں)
کتاب الحج
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حِجَّةِ الْوَدَاعِ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ. (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪১
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وصیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (کبھی ایسا ہوتا ہے) کوئی مرد یا کوئی عورت 60 سال تک اللہ تعالی کی فرمانبرداری والی زندگی گزارتے رہتے ہیں پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (حقداروں کو) نقصان پہنچا دیتے ہیں (تو اس ظلم اور حقدار بندوں کی اس حق تلفی کی وجہ سے) ان کے لیے دوزخ واجب ہو جاتی ہے۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کے شرعی وارث موجود ہیں جو اللہ کے مقرر کیے ہوئے قانون کے مطابق اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ کے حقدار ہوں گے تو یہ آدمی کسی ناراضی وغیرہ کی وجہ سے ان کو محروم کرنے کے لئے کسی غیر آدمی کے حق میں یا کسی خاص مصرف کیلئے وصیت کر دیتا ہے یا کوئی اور ایسی تدبیر کرتا ہے جس سے وہ وارث محروم ہوجائیں تو یہ (اس حدیث کے مطابق) اتنا بڑا گناہ اور ایسا ظلم ہے کہ اس کی وجہ سے ساٹھ سالہ اطاعت و فرماں برداری برباد ہو جاتی ہے اور آدمی عذاب دوزخ کا مستحق ہو جاتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوچکا ہے کہ ہر شخص کو اپنی ایک تہائی دولت کے بارے میں وصیت کرنے کی اجازت ہے لیکن نیک نیتی کی شرط ہے۔ وارثوں اور حقداروں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بہرحال گناہ اور ظلم ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کے شرعی وارث موجود ہیں جو اللہ کے مقرر کیے ہوئے قانون کے مطابق اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ کے حقدار ہوں گے تو یہ آدمی کسی ناراضی وغیرہ کی وجہ سے ان کو محروم کرنے کے لئے کسی غیر آدمی کے حق میں یا کسی خاص مصرف کیلئے وصیت کر دیتا ہے یا کوئی اور ایسی تدبیر کرتا ہے جس سے وہ وارث محروم ہوجائیں تو یہ (اس حدیث کے مطابق) اتنا بڑا گناہ اور ایسا ظلم ہے کہ اس کی وجہ سے ساٹھ سالہ اطاعت و فرماں برداری برباد ہو جاتی ہے اور آدمی عذاب دوزخ کا مستحق ہو جاتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوچکا ہے کہ ہر شخص کو اپنی ایک تہائی دولت کے بارے میں وصیت کرنے کی اجازت ہے لیکن نیک نیتی کی شرط ہے۔ وارثوں اور حقداروں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بہرحال گناہ اور ظلم ہے۔
کتاب الحج
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪২
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نظام عدالت: عادل اور غیر عادل حاکم و قاضی
حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اہل حکومت اور ارباب اقتدار میں سے) عدل و انصاف کرنے والے بندے اللہ تعالی کے ہاں (یعنی آخرت میں) نور کے منبروں پر ہونگے اللہ تعالی کے داہنی جانب۔ اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کے معاملات میں اور اپنے اختیارات کے استعمال کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔(صحیح مسلم)
تشریح
لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے مختلف قسم کے نزاعات و خصومات کا فیصلہ کرنے اور حق داروں کو ان کا حق دلوانے میں تعزیر و سزا کے مستحق چوروں ڈاکوؤں جیسے مجرموں کو سزا دینے کے لئے پر محکمہ قضا یعنی نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاملات کے دوسرے ابواب کی طرح اس باب میں بھی اپنے طرز عمل اور ارشادات سے پوری رہنمائی فرمائی ہے۔ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ کی زندگی میں تو اس کا سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ہجرت کرکے مدینہ منورہ آ بسے اور یہاں اجتماعیت کی ایک شکل پیدا ہوگی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی و رسول ہونے کے ساتھ قاضی اور حاکم عدالت بھی تھے۔ نزاعی معاملات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا فیصلہ فرماتے حدود جاری کرتے یعنی سزا کے مستوجب مجرمین کو قانون خداوندی کے مطابق سزائیں دلواتے۔ قرآن مجید میں براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے۔
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ (المائده آيت : 49)
(اے پیغمبر!) آپ لوگوں (کے نزاعات و معاملات) کا فیصلہ اللہ کی نازل کی ہوئی ہدایت اور اس کے قانون کے مطابق کیا کریں۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا:
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ (النساء آيت : 105)
ہم نے نازل کی آپ کی طرف کتاب حق (کی ہدایت) کے ساتھ تاکہ آپ لوگوں کے باہمی معاملات کا فیصلہ کریں اللہ کی رہنمائی کے مطابق۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزاعات و خصومات کے فیصلے خود فرماتے تھے نیز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مدینہ طیبہ میں قاضی کی حیثیت سے مقدمات کے فیصلے فرماتے تھے اور جب یمن کا علاقہ بھی اسلامی اقتدار کے دائرہ میں آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہما کو بھی وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو کسی علاقہ میں عدل و انصاف کے ذمہ دار (قاضی) بنائے جائیں سخت تاکید فرمائی کہ وہ اس ذمہ داری کو اپنے مکان اور اپنی فہم و فکر کی آخری حد تک عدل و انصاف اور خدا ترسی کے ساتھ انجام دینے کی پوری کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی مدد اور رہنمائی کی اورآخرت میں عظیم انعامات اور بلند درجہ کی بشارت سنائیں اور یہ بھی فرمایا کہ اگر بالفرض ایسے لوگوں سے نادانستہ اجتہادی غلطی بھی ہو جائے گی تو اس پر مواخذہ نہیں ہو گا بلکہ اپنی نیک نیتی اور حق سمجھنے کی محنت و کوشش کا ان کو اجر و ثواب ملے گا۔ اور اس کے بالمقابل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والے حاکموں کو اللہ تعالی کے قہر و غضب سے ڈرایا اور سخت وعید سنائیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حاکم اور قاضی ایسے بندگان خدا کو بنایا جائے جو اس منصب اور عہدہ کے خواہشمند نہ ہوں اور جو لوگ اس کے طالب اور خواہشمند ہوں ان کو ہرگز یہ منصب اور عہدہ نہ دیا جائے۔ قضاء اور عدالت کے طریقہ کار کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرمائی اور اس کے لئے کچھ بنیادی اصول بھی تعلیم فرمائے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیث میں پڑھی جائیں۔
اس حدیث میں ان اہل حکومت اور ارباب اختیار کو جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اختیارات کے استعمال اور سارے معاملات میں عدل و انصاف کا اہتمام اور اس کی پابندی کریں یہ عظیم بشارت سنائی گئی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالی کی طرف سے ان کا یہ اعزاز و اکرام ہو گا کہ وہ اس کے داہنی جانب نور کے منبروں پر بِٹھائے جائیں گے۔ اس دنیا کے شاہی درباروں میں کسی کی کرسی کا تخت شاہی کے داہنی جانب ہونا اس کے خاص الخاص اعزاز و اکرام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر اس حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہوگا کہ جو بندے برسر حکومت اور صاحب اختیار ہونے کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کی پوری پابندی کریں تو آخرت میں اللہ تعالی کے دربار میں ان کے ساتھ ایسا ہی خاص الخاص اعزاز و اکرام ہوگا ان کی نورانی نشست گاہیں (ممبر کہیے یا کرسیاں) اللہ تعالی کی داہنی جانب ہونگی۔
حدیث کے لفظ “عن يمين الرحمن” (خداوند رحمن کے داہنی جانب) سے شبہ ہوسکتا تھا کہ جس طرح ہم لوگوں کے داہنے ہاتھ کے ساتھ دوسرا بایاں ہاتھ ہوتا ہے (جو داہنے ہاتھ کے مقابلے میں کمزور اور کم تر ہوتا ہے) اسی طرح خداوند رحمن کا بھی دوسرا بایاں ہاتھ ہوگا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وضاحت سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ اس حدیث میں یا اس طرح کی دوسری احادیث یا قرآنی آیات میں اللہ تعالی کے لیے جو “یمین” یا “ید” (ہاتھ کیا داہنے ہاتھ) کے الفاظ میں کہیں استعمال ہوئے ہیں ان سے ہمارے جیسے ہاتھ مراد نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے“ليس كمثله شيئ” (کوئی چیز بھی اللہ کی مثل یا مثال نہیں ہے) رہی یہ بات کہ پھر “ید” جیسے الفاظ سے کیا مراد ہے؟ تو اس کے بارے میں ائمہ سلف کے اس مسئلہ میں زیادہ سلامتی اور احتیاط ہے کہ ہم اس کا اعتراف اور اقرار کریں کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات کی نوعیت اور حقیقت کی دریافت سے ہم عاجز ہیں۔
حدیث کے آخری الفاظ ہیں “الذين يعدلون فى حكمهم واهليهم وما ولوا” یعنی یہ بشارت ان عادل و منصف بندوں کے لئے ہے جو اپنے عدالتی اور حکومتی فیصلوں میں انصاف کریں اور اپنے اہل و عیال اور اہل تعلق کے ساتھ بھی ان کا رویہ عادلانہ اور منصفانہ ہو اور اگر وہ کسی کے ولی اور سرپرست ہوں یا کسی جائیداد یا ادارے کے متولی اور ذمہ دار ہوں تو اس کے معاملات میں بھی عدل وانصاف کے تقاضوں کی پابندی کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کا حکم اور اس پر بشارت کا تعلق صرف ارباب حکومت اور حاکمان عدالت ہی سے نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں ہر شخص اس کا مکلف ہے۔
تشریح
لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے مختلف قسم کے نزاعات و خصومات کا فیصلہ کرنے اور حق داروں کو ان کا حق دلوانے میں تعزیر و سزا کے مستحق چوروں ڈاکوؤں جیسے مجرموں کو سزا دینے کے لئے پر محکمہ قضا یعنی نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاملات کے دوسرے ابواب کی طرح اس باب میں بھی اپنے طرز عمل اور ارشادات سے پوری رہنمائی فرمائی ہے۔ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ کی زندگی میں تو اس کا سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ہجرت کرکے مدینہ منورہ آ بسے اور یہاں اجتماعیت کی ایک شکل پیدا ہوگی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی و رسول ہونے کے ساتھ قاضی اور حاکم عدالت بھی تھے۔ نزاعی معاملات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا فیصلہ فرماتے حدود جاری کرتے یعنی سزا کے مستوجب مجرمین کو قانون خداوندی کے مطابق سزائیں دلواتے۔ قرآن مجید میں براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے۔
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ (المائده آيت : 49)
(اے پیغمبر!) آپ لوگوں (کے نزاعات و معاملات) کا فیصلہ اللہ کی نازل کی ہوئی ہدایت اور اس کے قانون کے مطابق کیا کریں۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا:
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ (النساء آيت : 105)
ہم نے نازل کی آپ کی طرف کتاب حق (کی ہدایت) کے ساتھ تاکہ آپ لوگوں کے باہمی معاملات کا فیصلہ کریں اللہ کی رہنمائی کے مطابق۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزاعات و خصومات کے فیصلے خود فرماتے تھے نیز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مدینہ طیبہ میں قاضی کی حیثیت سے مقدمات کے فیصلے فرماتے تھے اور جب یمن کا علاقہ بھی اسلامی اقتدار کے دائرہ میں آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہما کو بھی وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو کسی علاقہ میں عدل و انصاف کے ذمہ دار (قاضی) بنائے جائیں سخت تاکید فرمائی کہ وہ اس ذمہ داری کو اپنے مکان اور اپنی فہم و فکر کی آخری حد تک عدل و انصاف اور خدا ترسی کے ساتھ انجام دینے کی پوری کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی مدد اور رہنمائی کی اورآخرت میں عظیم انعامات اور بلند درجہ کی بشارت سنائیں اور یہ بھی فرمایا کہ اگر بالفرض ایسے لوگوں سے نادانستہ اجتہادی غلطی بھی ہو جائے گی تو اس پر مواخذہ نہیں ہو گا بلکہ اپنی نیک نیتی اور حق سمجھنے کی محنت و کوشش کا ان کو اجر و ثواب ملے گا۔ اور اس کے بالمقابل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والے حاکموں کو اللہ تعالی کے قہر و غضب سے ڈرایا اور سخت وعید سنائیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حاکم اور قاضی ایسے بندگان خدا کو بنایا جائے جو اس منصب اور عہدہ کے خواہشمند نہ ہوں اور جو لوگ اس کے طالب اور خواہشمند ہوں ان کو ہرگز یہ منصب اور عہدہ نہ دیا جائے۔ قضاء اور عدالت کے طریقہ کار کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرمائی اور اس کے لئے کچھ بنیادی اصول بھی تعلیم فرمائے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیث میں پڑھی جائیں۔
اس حدیث میں ان اہل حکومت اور ارباب اختیار کو جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اختیارات کے استعمال اور سارے معاملات میں عدل و انصاف کا اہتمام اور اس کی پابندی کریں یہ عظیم بشارت سنائی گئی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالی کی طرف سے ان کا یہ اعزاز و اکرام ہو گا کہ وہ اس کے داہنی جانب نور کے منبروں پر بِٹھائے جائیں گے۔ اس دنیا کے شاہی درباروں میں کسی کی کرسی کا تخت شاہی کے داہنی جانب ہونا اس کے خاص الخاص اعزاز و اکرام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر اس حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہوگا کہ جو بندے برسر حکومت اور صاحب اختیار ہونے کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کی پوری پابندی کریں تو آخرت میں اللہ تعالی کے دربار میں ان کے ساتھ ایسا ہی خاص الخاص اعزاز و اکرام ہوگا ان کی نورانی نشست گاہیں (ممبر کہیے یا کرسیاں) اللہ تعالی کی داہنی جانب ہونگی۔
حدیث کے لفظ “عن يمين الرحمن” (خداوند رحمن کے داہنی جانب) سے شبہ ہوسکتا تھا کہ جس طرح ہم لوگوں کے داہنے ہاتھ کے ساتھ دوسرا بایاں ہاتھ ہوتا ہے (جو داہنے ہاتھ کے مقابلے میں کمزور اور کم تر ہوتا ہے) اسی طرح خداوند رحمن کا بھی دوسرا بایاں ہاتھ ہوگا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وضاحت سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ اس حدیث میں یا اس طرح کی دوسری احادیث یا قرآنی آیات میں اللہ تعالی کے لیے جو “یمین” یا “ید” (ہاتھ کیا داہنے ہاتھ) کے الفاظ میں کہیں استعمال ہوئے ہیں ان سے ہمارے جیسے ہاتھ مراد نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے“ليس كمثله شيئ” (کوئی چیز بھی اللہ کی مثل یا مثال نہیں ہے) رہی یہ بات کہ پھر “ید” جیسے الفاظ سے کیا مراد ہے؟ تو اس کے بارے میں ائمہ سلف کے اس مسئلہ میں زیادہ سلامتی اور احتیاط ہے کہ ہم اس کا اعتراف اور اقرار کریں کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات کی نوعیت اور حقیقت کی دریافت سے ہم عاجز ہیں۔
حدیث کے آخری الفاظ ہیں “الذين يعدلون فى حكمهم واهليهم وما ولوا” یعنی یہ بشارت ان عادل و منصف بندوں کے لئے ہے جو اپنے عدالتی اور حکومتی فیصلوں میں انصاف کریں اور اپنے اہل و عیال اور اہل تعلق کے ساتھ بھی ان کا رویہ عادلانہ اور منصفانہ ہو اور اگر وہ کسی کے ولی اور سرپرست ہوں یا کسی جائیداد یا ادارے کے متولی اور ذمہ دار ہوں تو اس کے معاملات میں بھی عدل وانصاف کے تقاضوں کی پابندی کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کا حکم اور اس پر بشارت کا تعلق صرف ارباب حکومت اور حاکمان عدالت ہی سے نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں ہر شخص اس کا مکلف ہے۔
کتاب الحج
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ابْنُ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪৩
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نظام عدالت: عادل اور غیر عادل حاکم و قاضی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والے حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبوب اور پیارے ہونگے اور ان کو اللہ تعالی کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا۔ اور (اس کے برعکس) وہ ارباب حکومت قیامت کے دن اللہ کو سب سے زیادہ مبغوض اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے اور بے انصافی کے ساتھ حکومت کریں گے۔ (جامع ترمذی)
کتاب الحج
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَقْرَبَهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ وَإِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَشَدَّهُمْ عَذَابًا إِمَامٌ جَائِرٌ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪৪
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نظام عدالت: عادل اور غیر عادل حاکم و قاضی
حضرت عبداللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی (یعنی حاکم عدالت) کے ساتھ اللہ تعالی ہوتا ہے (یعنی اس کی مدد اور توفیق اس کی رفیق رہتی ہے) جب تک وہ عدل و انصاف کا پابند رہے پھر جب وہ (عدل و انصاف کی پابندی چھوڑ کے) بے انصافی کا رویہ اختیار کر لیتا ہے تو اللہ اس سے الگ اور بے تعلق ہو جاتا ہے (یعنی اس کی مدد اور رہنمائی اس کو حاصل نہیں رہتی) اور پھر شیطان اسکا ہمدم اور رفیق ہو جاتا ہے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ حاکم اور قاضی کی نیت اور کوشش جب تک یہ رہے کہ میں حق و انصاف ہی کے مطابق فیصلہ کرو اور مجھ سے بے انصافی سرزد نہ ہو تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کی مدد اور رہنمائی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جب خود اس کی نیت خراب ہوجائے اور ظلم و بےانصافی کا راستہ اختیار کر لے تو اللہ تعالی اس کو اپنی مدد اور رہنمائی سے محروم فرما دیتا ہے۔ اور پھر شیطان ہی اس کا رفیق اور رہنما بن جاتا ہے اور وہ اس کو جہنم کی طرف لے جانے والے راستہ پر چلاتا ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ حاکم اور قاضی کی نیت اور کوشش جب تک یہ رہے کہ میں حق و انصاف ہی کے مطابق فیصلہ کرو اور مجھ سے بے انصافی سرزد نہ ہو تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کی مدد اور رہنمائی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جب خود اس کی نیت خراب ہوجائے اور ظلم و بےانصافی کا راستہ اختیار کر لے تو اللہ تعالی اس کو اپنی مدد اور رہنمائی سے محروم فرما دیتا ہے۔ اور پھر شیطان ہی اس کا رفیق اور رہنما بن جاتا ہے اور وہ اس کو جہنم کی طرف لے جانے والے راستہ پر چلاتا ہے۔
کتاب الحج
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الْقَاضِي مَا لَمْ يَجُرْ فَإِذَا جَارَ تَخَلَّى عَنْهُ وَلَزِمَهُ الشَّيْطَانُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪৫
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قاضی اور حاکم سے اگر اجتہادی غلطی ہو جائے
حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاص اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے دونوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب حاکم (کسی معاملہ میں) فیصلہ کرنا چاہیے اور (حق کے مطابق اور صحیح فیصلہ کرنے کے لئے) غور و فکر اور کوشش کرے اور صحیح فیصلہ کردے تو اس کو دہرا اجر ملے گا (ایک صحیح فیصلہ کرنے کی نیت اور کوشش و محنت کا اور دوسرا صحیح فیصلہ کرنے کا) اور اگر اس نے حقیقت کو جاننے سمجھنے اور صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کی اور اس کے باوجود فیصلہ غلط کر دیا تو بھی اس کو ایک اجر و ثواب ملے گا (یعنی حق کے مطابق فیصلہ کرنے کی نیت اور محنت کا)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کے مطلب کی بقدر ضرورت تشریح ترجمہ کے ساتھ کردی گئی ہے۔
اس حدیث سے ایک بڑی اہم اصولی بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر حاکم اور مجتہد کسی معاملہ اور مسئلہ میں حق و صواب کو جاننے سمجھنے کی امکان بھر کوشش کرے تو اگر وہ صحیح نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تب بھی وہ عند اللہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا کیوں کے اس کی نیت حق و صواب کو سمجھنے کی تھی اور اس کے لیے اس نے غور و فکر اور محنت و کوشش بھی کی۔ اور وہ اسی کامکلف تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا تعلق انہی لوگوں سے ہے جو اس کے اہل ہوں۔ نااہلوں کو اجتہاد کی اجازت تو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ جس شخص نے قدیم یا جدید طب کا فن ہی حاصل نہیں کیا وہ اگر مطب کھول کر بیٹھ جائے اور بیماروں کا علاج کرنے لگے تو مجرم اور جیل خانہ کا مستحق ہوگا۔ ہماری زبان کی صحیح مثل ہے “نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ” ایمان آگے درج ہونے والی حدیث میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص ضروری درجہ کے علم اور اہلیت کے بغیر فیصلہ کرے وہ دوزخ کا مستحق ہے۔
تشریح
حدیث کے مطلب کی بقدر ضرورت تشریح ترجمہ کے ساتھ کردی گئی ہے۔
اس حدیث سے ایک بڑی اہم اصولی بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر حاکم اور مجتہد کسی معاملہ اور مسئلہ میں حق و صواب کو جاننے سمجھنے کی امکان بھر کوشش کرے تو اگر وہ صحیح نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تب بھی وہ عند اللہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا کیوں کے اس کی نیت حق و صواب کو سمجھنے کی تھی اور اس کے لیے اس نے غور و فکر اور محنت و کوشش بھی کی۔ اور وہ اسی کامکلف تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا تعلق انہی لوگوں سے ہے جو اس کے اہل ہوں۔ نااہلوں کو اجتہاد کی اجازت تو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ جس شخص نے قدیم یا جدید طب کا فن ہی حاصل نہیں کیا وہ اگر مطب کھول کر بیٹھ جائے اور بیماروں کا علاج کرنے لگے تو مجرم اور جیل خانہ کا مستحق ہوگا۔ ہماری زبان کی صحیح مثل ہے “نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ” ایمان آگے درج ہونے والی حدیث میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص ضروری درجہ کے علم اور اہلیت کے بغیر فیصلہ کرے وہ دوزخ کا مستحق ہے۔
کتاب الحج
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَمْرٍو وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪৬
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جنتی و دوزخی قاضی حاکم
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قاضی (حاکمان عدالت) تین قسم کے ہیں۔ ان میں سے ایک جنت کا مستحق اور دو دوزخ کے مستحق ہیں۔ جنت کا مستحق وہ حاکم عدالت ہے جس نے حق کو سمجھا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ اور جس حاکم نے حق کو سمجھنے کے باوجود ناحق فیصلہ کیا وہ دوزخ کا مستحق ہے۔ اور اسی طرح وہ حاکم بھی دوزخ کا مستحق ہے جو بے علم اور ناواقف ہونے کے باوجود فیصلے کرنے کی جرات کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
کتاب الحج
عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْقُضَاةُ ثَلاَثَةٌ وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ وَاثْنَانِ فِي النَّارِ فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ فَهُوَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ. (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪৭
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رشوت لینے اور دینے والے مستحق لعنت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سلم نے لعنت فرمائی رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر۔
(سنن ابی داود وسنن ابن ماجہ ۔۔۔۔۔ اور امام ترمذی نے اس کو حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے علاوہ حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی روایت کیا ہے)
تشریح
حاکمانِ عدالت کو حق و انصاف کے خلاف فیصلہ پر آمادہ کرنے والے اسباب میں ایک بڑا سبب رشوت کی طمع ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے کو موجب لعنت گناہ بتلایا ہے۔
تشریح .....کسی مجرم کے لئے اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے لعنت اس سے انتہائی ناراضی و بیزاری کا اعلان اور نہایت سنگین سزا ہے۔ اللہ کی طرف سے کسی پر لعنت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خداوند رحمن و رحیم نے اس مجرم کو اپنی وسیع رحمت سے محروم کر دینے کا فیصلہ فرما دیا ہے۔ اور اللہ کے رسول یا فرشتوں کی طرف سے لعنت کا مطلب اس شخص سے بیزاری اور اس کے قابل لعنت ہونے کا اعلان اور اس کی رحمت سے محروم کر دیئے جانے کی بددعا ہوتی ہے۔ اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والوں اور رشوت دینے والوں سے اپنی انتہائی ناراضی وبیزای کا اظہار فرمایا اور ان کے لئے بد دعا فرمائی کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے محروم کردے۔ اللہ کی پناہ! رحمت اللعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم جس بد نصیب سے بیزاری کا اعلان فرمایا اور اس کے لیے رحمت خداوندی سے محروم کیے جانے کی بد دعا فرمائیں اس بدبخت کا کہاں ٹھکانا!
اس حدیث کی بعض روایتوں میں ایک لفظ “والرائش” کا اضافہ بھی ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ رشوت لینے اور دینے والے کیا علاوہ اس درمیانی آدمی (دلال) پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی جو رشوت کے لین دین کا ذریعہ اور واسطہ بنے۔
(سنن ابی داود وسنن ابن ماجہ ۔۔۔۔۔ اور امام ترمذی نے اس کو حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے علاوہ حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی روایت کیا ہے)
تشریح
حاکمانِ عدالت کو حق و انصاف کے خلاف فیصلہ پر آمادہ کرنے والے اسباب میں ایک بڑا سبب رشوت کی طمع ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے کو موجب لعنت گناہ بتلایا ہے۔
تشریح .....کسی مجرم کے لئے اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے لعنت اس سے انتہائی ناراضی و بیزاری کا اعلان اور نہایت سنگین سزا ہے۔ اللہ کی طرف سے کسی پر لعنت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خداوند رحمن و رحیم نے اس مجرم کو اپنی وسیع رحمت سے محروم کر دینے کا فیصلہ فرما دیا ہے۔ اور اللہ کے رسول یا فرشتوں کی طرف سے لعنت کا مطلب اس شخص سے بیزاری اور اس کے قابل لعنت ہونے کا اعلان اور اس کی رحمت سے محروم کر دیئے جانے کی بددعا ہوتی ہے۔ اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والوں اور رشوت دینے والوں سے اپنی انتہائی ناراضی وبیزای کا اظہار فرمایا اور ان کے لئے بد دعا فرمائی کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے محروم کردے۔ اللہ کی پناہ! رحمت اللعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم جس بد نصیب سے بیزاری کا اعلان فرمایا اور اس کے لیے رحمت خداوندی سے محروم کیے جانے کی بد دعا فرمائیں اس بدبخت کا کہاں ٹھکانا!
اس حدیث کی بعض روایتوں میں ایک لفظ “والرائش” کا اضافہ بھی ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ رشوت لینے اور دینے والے کیا علاوہ اس درمیانی آدمی (دلال) پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی جو رشوت کے لین دین کا ذریعہ اور واسطہ بنے۔
کتاب الحج
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي. (رواه ابوداؤد وابن ماجه ورواه الترمذى عن ابى هريرة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪৮
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حاکم اور قاضی بننا بڑی آزمائش اور بہت خطرناک
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قاضی (حاکم عدالت) بنایا گیا تا کہ لوگوں کے مقدمات نزاعات کا فیصلہ کرے وہ بغیر ذبح کیا گیا۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
ظاہر ہے قاضی اور حاکم بن جانے کے بعد اس کے بہت امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ آدمی کی نیت اور اس کے اخلاق میں فساد آجائے اور وہ ایسے کام کرنے لگے جن سے اس کا دین و ایمان برباد اور آخرت خراب ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اس سے بہت ڈرایا ہے اور حتی الوسع اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حکومتی عہدے اور عدالتی مناصب ان لوگوں کے کو نہ دیے جائیں جو ان کے طالب اور خواہشمند ہوں بلکہ ایسے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کی جائے جو اس کے طالب نہ ہو۔
جس آدمی کو چھری سے ذبح کیا جائے وہ دو چار منٹ میں ختم ہو جائے گا لیکن اگر کسی کو چھری کے بغیر ذبح کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے اس جلدی کام تمام نہ ہوسکے گا اور اس کی تکلیف طویل المیعاد ہوگی۔ حدیث کا مدعا اور مقصد یہ ہے کہ قاضی اور حاکم عدالت بننا اپنے کو بڑی آزمائش اور مصیبت میں مبتلا کرنا ہے۔ اور اس منصب اور ذمہ داری کے قبول کرنے والے کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ سر پہ کانٹوں کا تاج رکھ رہا ہے۔
تشریح
ظاہر ہے قاضی اور حاکم بن جانے کے بعد اس کے بہت امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ آدمی کی نیت اور اس کے اخلاق میں فساد آجائے اور وہ ایسے کام کرنے لگے جن سے اس کا دین و ایمان برباد اور آخرت خراب ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اس سے بہت ڈرایا ہے اور حتی الوسع اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حکومتی عہدے اور عدالتی مناصب ان لوگوں کے کو نہ دیے جائیں جو ان کے طالب اور خواہشمند ہوں بلکہ ایسے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کی جائے جو اس کے طالب نہ ہو۔
جس آدمی کو چھری سے ذبح کیا جائے وہ دو چار منٹ میں ختم ہو جائے گا لیکن اگر کسی کو چھری کے بغیر ذبح کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے اس جلدی کام تمام نہ ہوسکے گا اور اس کی تکلیف طویل المیعاد ہوگی۔ حدیث کا مدعا اور مقصد یہ ہے کہ قاضی اور حاکم عدالت بننا اپنے کو بڑی آزمائش اور مصیبت میں مبتلا کرنا ہے۔ اور اس منصب اور ذمہ داری کے قبول کرنے والے کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ سر پہ کانٹوں کا تاج رکھ رہا ہے۔
کتاب الحج
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৪৯
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حاکم اور قاضی بننا بڑی آزمائش اور بہت خطرناک
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ تم لوگ حکومت اور اس کے عہدوں کی حرص کرو گے اور وہ قیامت کے دن ندامت و پشیمانی کا باعث ہوگی۔ بڑی اچھی لگتی ہے حکومت کی آغوش میں لے کر دودھ پلانے والی۔ اور بہت بری لگتی ہے دودھ چھڑانے والی۔ (صحیح بخاری)
تشریح
اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منکشف فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں حکومت اور اس کے عہدے حاصل کرنے کا شوق اور اس کی حرص پیدا ہوگی۔ ایسے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہی دی کہ یہ حکومت قیامت میں سخت ندامت اور پشیمانی کا باعث ہوگی جب ان کو اللہ تعالی کے حضور میں حکومت کا حساب دینا ہوگا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکومت جب کسی کو ملتی ہے تو بڑی اچھی لگتی ہے جیسے بچہ کو دودھ پلانے والی دایہ اچھی لگتی ہے اور جب وہ ہاتھ سے جاتی ہے (یا موت کے وقت یا زندگی ہی میں اس سے محروم یا دستبردار رہنا پڑے) تو بہت بری لگتی ہیں جیسے کہ دودھ چھڑانے والی دایہ بچہ کو بہت بری لگتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکومت کے شوقین اور طالبوں کو اس کے اخروی انجام سے غافل نہ ہونا چاہیے قیامت میں ان کو اپنے زیر حکومت لاکھوں کروڑوں بندگان خدا کے حقوق کے بارے میں جوابدہی کرنی ہوگی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کا یہ اثر پڑا تھا کہ بہت سے صحابہ کرامؓ حکومتی اور عدالتی عہدوں سے دور رہنا چاہتے تھے۔ امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو قاضی بنانا چاہا لیکن وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے۔
تشریح
اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منکشف فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں حکومت اور اس کے عہدے حاصل کرنے کا شوق اور اس کی حرص پیدا ہوگی۔ ایسے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہی دی کہ یہ حکومت قیامت میں سخت ندامت اور پشیمانی کا باعث ہوگی جب ان کو اللہ تعالی کے حضور میں حکومت کا حساب دینا ہوگا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکومت جب کسی کو ملتی ہے تو بڑی اچھی لگتی ہے جیسے بچہ کو دودھ پلانے والی دایہ اچھی لگتی ہے اور جب وہ ہاتھ سے جاتی ہے (یا موت کے وقت یا زندگی ہی میں اس سے محروم یا دستبردار رہنا پڑے) تو بہت بری لگتی ہیں جیسے کہ دودھ چھڑانے والی دایہ بچہ کو بہت بری لگتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکومت کے شوقین اور طالبوں کو اس کے اخروی انجام سے غافل نہ ہونا چاہیے قیامت میں ان کو اپنے زیر حکومت لاکھوں کروڑوں بندگان خدا کے حقوق کے بارے میں جوابدہی کرنی ہوگی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کا یہ اثر پڑا تھا کہ بہت سے صحابہ کرامؓ حکومتی اور عدالتی عہدوں سے دور رہنا چاہتے تھے۔ امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو قاضی بنانا چاہا لیکن وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے۔
کتاب الحج
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الإِمَارَةِ، وَسَتَكُونُ نَدَامَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَنِعْمَ الْمُرْضِعَةُ وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَةُ. (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৫০
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حکومت کے طالب اللہ کی مدد و رہنمائی سے محروم
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے لیے حکومت کا عہدہ طلب مت کرو اگر تمہارے طلب کرنے پر تم کو حکومت کی ذمہ داری سپرد کی گئی تو تم اس کے حوالے کر دیئے جاؤ گے۔ (اللہ انکی طرف سے تمہاری کوئی مدد اور رہنمائی نہیں ہوگی) اور تمہاری طلب کے بغیر تم کو کوئی حکومتی ذمہ داری سپرد کی گئی تو اللہ کی طرف سے اس میں تمھاری مدد ہوگی۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب الحج
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ لِيْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَسْأَلِ الإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৫১
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حکومت کے طالب اللہ کی مدد و رہنمائی سے محروم
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی منصب قضا کا طالب ہوگا اور درخواست کر کے اس کو حاصل کرے گا تو اس کو اس کے نفس اور اس کی ذات کے حوالے کردیا جائے گا۔ (کہ وہ خود ہی اس کی ذمہ داریوں سے نمٹے جو بہت مشکل اور بڑا خطرناک کام ہے) اور جس شخص کو مجبور کرکے قاضی اور حاکم عدالت بنایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی کیلیے خاص فرشتہ نازل فرمائے گا جو اس کو ٹھیک ٹھیک چلائے گا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
دونوں حدیثوں کا مدعا اور مطلب یہی ہے کہ حکومتی عہدہ یا عدالتی منصب اپنے نفس کی خواہش سے نہیں لینا چاہیے جوکوئی اس طرح حاصل کرے گا اس کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کی کوئی مدد نہ ہوگی اور جس کو بغیر اس کی ذاتی خواہش کہ یہ ذمہ داری سپرد کی جائے وہ متوکلا علی اللہ اس کو قبول کر لے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے بندوں کی مدد اور رہنمائی فرمائی جائے گی۔
تشریح
دونوں حدیثوں کا مدعا اور مطلب یہی ہے کہ حکومتی عہدہ یا عدالتی منصب اپنے نفس کی خواہش سے نہیں لینا چاہیے جوکوئی اس طرح حاصل کرے گا اس کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کی کوئی مدد نہ ہوگی اور جس کو بغیر اس کی ذاتی خواہش کہ یہ ذمہ داری سپرد کی جائے وہ متوکلا علی اللہ اس کو قبول کر لے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے بندوں کی مدد اور رہنمائی فرمائی جائے گی۔
کتاب الحج
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ ابْتَغَى الْقَضَاءَ وَسَأَلَ وُكِلَ إِلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أُكْرِهَ عَلَيْهِ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ مَلَكًا يُسَدِّدُهُ. (رواه والترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৫২
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قاضی بنا کر یمن کے لئے روانہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ اور قضیہ پیش ہوگا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی کتاب (قرآن مجید کی ہدایت) کے مطابق فیصلہ کروں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں تمہیں (اس کے بارے میں کوئی حکم اور ہدایت) نہ ملے؟ (تو کیا کرو گے) انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ کے رسول کی سنت سے فیصلہ کروں گا آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت میں تمہیں (اس بارے میں) حکم اور ہدایت نہ ملے (تو کیا کرو گے؟) انہوں نے عرض کیا تو پھر میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لوں گا اور اجتہاد کروں گا اور اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھوں گا۔ یہ جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ ٹھونکتےہوئے شاباشی دی اور فرمایا حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے اپنے رسول کے فرستادہ کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داود ، مسند دارمی)
تشریح
مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ کرنے والے کا قاضیوں اور حاکموں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رہنما اصول مقرر فرمایا اور جو ہدایات دیں ان کے لئے مندرجہ ذیل حدیث پڑھی جائیں۔
تشریح .....حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ممتاز صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو اپنے طالب علمانہ مزاج اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت اور خصوصی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں کتاب و سنت کے علم اور تفقہ فی الدین میں امتیازی مقام حاصل تھا۔ اسی سلسلہ معارف الحدیث میں پہلے بھی متعدد حدیثوں میں اس کا ذکر آچکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں ان کو یمن کا قاضی اور حاکم بنا کر بھیجا تھا ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی تعلیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کے مسلسل مطالعہ سے ان کو یہ اصول معلوم ہو چکا تھا کہ جب کوئی فیصلہ طلب معاملہ پیش آئے تو اس کے بارے میں ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اگر وہاں سے ہدایت نہ مل سکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے وہاں بھی نہ ملے تو کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد و قیاس کیا جائے۔ تو جب آنحضرت نے ان کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تو امتحان کے طورپر ان سے دریافت کیا کہ تمہارے سامنے جو معاملات اور مقدمات آئیں گے تم ان کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ انہوں نے اس کا وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہوا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ان کو شاباش دی ان کا سینہ ٹھوکا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور منشاء کے مطابق جواب دیا جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور صحبت سے اچھا استفادہ کیا ہے۔
اس حدیث کی اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت ہے کہ دین و شریعت میں اجتہاد و قیاس کی یہ سب سے زیادہ واضح بنیاد ہے اور امت کے ہر دور کے فقہاء و مجتہدین نے اسی حدیث کو بنیاد بنا کر اجتہاد و قیاس سے کام لیا ہے اور ان ہزاروں مسائل و معاملات کا فیصلہ کیا ہے جن کے بارے میں واضح ہدایت اور حکم کتاب وسنت میں نہیں ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرات محدثین کے مقررہ معیار کے لحاظ سے اس حدیث کی سند کوئی نہیں ہے بلکہ اس میں ضعف ہے (جس کی تفصیل شروح حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے) لیکن اس کے باوجود امت کے ائمہ و فقہاء نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کی بنیاد پر قیاس و اجتہاد کا سلسلہ چلا ہے شیخ ابن القیم وغیرہ محققین نے لکھا ہے کہ ائمہ فقہاء کے اس کو قبول کر لینے کے بعد اس کی صحت کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی معاملہ اور مسئلہ میں قیاس و اجتہاد کی گنجائش جب ہی ہے جبکہ اس کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی حکم و ہدایت نہ مل سکے۔
تشریح
مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ کرنے والے کا قاضیوں اور حاکموں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رہنما اصول مقرر فرمایا اور جو ہدایات دیں ان کے لئے مندرجہ ذیل حدیث پڑھی جائیں۔
تشریح .....حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ممتاز صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو اپنے طالب علمانہ مزاج اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت اور خصوصی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں کتاب و سنت کے علم اور تفقہ فی الدین میں امتیازی مقام حاصل تھا۔ اسی سلسلہ معارف الحدیث میں پہلے بھی متعدد حدیثوں میں اس کا ذکر آچکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں ان کو یمن کا قاضی اور حاکم بنا کر بھیجا تھا ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی تعلیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کے مسلسل مطالعہ سے ان کو یہ اصول معلوم ہو چکا تھا کہ جب کوئی فیصلہ طلب معاملہ پیش آئے تو اس کے بارے میں ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اگر وہاں سے ہدایت نہ مل سکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے وہاں بھی نہ ملے تو کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد و قیاس کیا جائے۔ تو جب آنحضرت نے ان کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تو امتحان کے طورپر ان سے دریافت کیا کہ تمہارے سامنے جو معاملات اور مقدمات آئیں گے تم ان کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ انہوں نے اس کا وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہوا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ان کو شاباش دی ان کا سینہ ٹھوکا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور منشاء کے مطابق جواب دیا جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور صحبت سے اچھا استفادہ کیا ہے۔
اس حدیث کی اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت ہے کہ دین و شریعت میں اجتہاد و قیاس کی یہ سب سے زیادہ واضح بنیاد ہے اور امت کے ہر دور کے فقہاء و مجتہدین نے اسی حدیث کو بنیاد بنا کر اجتہاد و قیاس سے کام لیا ہے اور ان ہزاروں مسائل و معاملات کا فیصلہ کیا ہے جن کے بارے میں واضح ہدایت اور حکم کتاب وسنت میں نہیں ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرات محدثین کے مقررہ معیار کے لحاظ سے اس حدیث کی سند کوئی نہیں ہے بلکہ اس میں ضعف ہے (جس کی تفصیل شروح حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے) لیکن اس کے باوجود امت کے ائمہ و فقہاء نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کی بنیاد پر قیاس و اجتہاد کا سلسلہ چلا ہے شیخ ابن القیم وغیرہ محققین نے لکھا ہے کہ ائمہ فقہاء کے اس کو قبول کر لینے کے بعد اس کی صحت کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی معاملہ اور مسئلہ میں قیاس و اجتہاد کی گنجائش جب ہی ہے جبکہ اس کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی حکم و ہدایت نہ مل سکے۔
کتاب الحج
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ قَالَ: كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ. قَالَ أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ. قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللَّهِ. قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ. قَالَ أَجْتَهِدُ بِرَأْيِي وَلاَ آلُو. فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَدْرَهُ وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي بِهِ رَسُولَ اللَّهِ. (رواه الترمذى وابوداؤد والدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৫৩
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مقدمہ کے دونوں فریق حاکم کے سامنے بیٹھے۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ حاکم کو چاہیے کہ مقدمہ کے دونوں فریقوں (مدعی اور مدعا علیہ) کے ساتھ اس کا برتاؤ مساویانہ ہو کسی فریق کی کسی خصوصیت یا تعلق کی وجہ سے اس کے ساتھ ترجیحی سلوک نہ ہو قاضی کے سامنے دونوں کی نشست یکساں ہو۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ حاکم کو چاہیے کہ مقدمہ کے دونوں فریقوں (مدعی اور مدعا علیہ) کے ساتھ اس کا برتاؤ مساویانہ ہو کسی فریق کی کسی خصوصیت یا تعلق کی وجہ سے اس کے ساتھ ترجیحی سلوک نہ ہو قاضی کے سامنے دونوں کی نشست یکساں ہو۔
کتاب الحج
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْخَصْمَيْنِ يَقْعُدَانِ بَيْنَ يَدَيِ الْحَاكِمِ. (رواه احمد وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৫৪
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا جب تمہارے پاس دو آدمی (کوئی نزاعی معاملہ اور مقدمہ لے کر) فیصلہ کرانے آئیں تو تم پہلے ہی فرید گی بات سن کر فیصلہ نہ دے دو جب تک کے دوسرے کا بیان نہ سن لو ایسا کرو گے تو تم سمجھ لو گے اور جان لو گے کہ تم کس طرح اور کیسا فیصلہ کرو حضرت علی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں برابر قاضی رہا ہوں۔ (جامع ترمذی)
تشریح
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ کو قاضی بنا کر یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت میری عمر بہت کم ہے اور میں مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ کرنا نہیں جانتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اطمینان دلایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد اور راہنمائی فرمائے گا اور تم سے صحیح فیصلہ کرائے گا اور ساتھ ہی یہ اصولی ہدایت فرمائی کہ جب کوئی قضیہ تمہارے سامنے آئے تو جب تک تم دونوں فریقوں کا بیان نہ سن لو اس وقت تک کوئی رائے قائم نہ کرو اور نہ فیصلہ دو۔ جب دونوں کی بات سننے کے بعد معاملہ پر غور کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ہو گی اور صحیح فیصلہ کی توفیق ملے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں جو فرمایا تھا اس کا ظہور اس طرح ہوا کہ مقدمات و نزاعات کے فیصلہ کے باب میں طبقہ صحابہؓ میں آپؓ کو خصوصی امتیاز حاصل تھا اور آپؓ کا فیصلہ آخری فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔
تشریح
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ کو قاضی بنا کر یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت میری عمر بہت کم ہے اور میں مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ کرنا نہیں جانتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اطمینان دلایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد اور راہنمائی فرمائے گا اور تم سے صحیح فیصلہ کرائے گا اور ساتھ ہی یہ اصولی ہدایت فرمائی کہ جب کوئی قضیہ تمہارے سامنے آئے تو جب تک تم دونوں فریقوں کا بیان نہ سن لو اس وقت تک کوئی رائے قائم نہ کرو اور نہ فیصلہ دو۔ جب دونوں کی بات سننے کے بعد معاملہ پر غور کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ہو گی اور صحیح فیصلہ کی توفیق ملے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں جو فرمایا تھا اس کا ظہور اس طرح ہوا کہ مقدمات و نزاعات کے فیصلہ کے باب میں طبقہ صحابہؓ میں آپؓ کو خصوصی امتیاز حاصل تھا اور آپؓ کا فیصلہ آخری فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔
کتاب الحج
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا تَقَاضَى إِلَيْكَ رَجُلاَنِ فَلاَ تَقْضِ لِلأَوَّلِ حَتَّى تَسْمَعَ كَلاَمَ الآخَرِ فَسَوْفَ تَدْرِي كَيْفَ تَقْضِي. قَالَ عَلِيٌّ فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا بَعْدُ هَذَا. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৫৫
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ کوئی قاضی اور حاکم (کسی معاملہ کا فیصلہ) ایسی حالت میں ہرگز نہ کرے کہ وہ غصہ کی حالت میں ہو۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
غصہ کی حالت میں آدمی کا ذہنی توازن صحیح نہیں ہوتا اس لیے رسول اللہ نے تاکید فرمائی کہ ایسی حالت میں کوئی حاکم عدالت کسی مقدمہ اور قضیہ کا فیصلہ نہ کرے ایسے وقت غور فکر کر کے رائے قائم کرے اور فیصلہ کرے جب دماغ ٹھنڈا اور اعتدال و سکون کی حالت میں ہو۔ (اور اگر حاکم کو غصہ مقدمہ کہ کسی فریق پر ہو تو اس کا بھی خطرہ ہے کہ فیصلہ میں ناانصافی ہو جائے)۔
تشریح
غصہ کی حالت میں آدمی کا ذہنی توازن صحیح نہیں ہوتا اس لیے رسول اللہ نے تاکید فرمائی کہ ایسی حالت میں کوئی حاکم عدالت کسی مقدمہ اور قضیہ کا فیصلہ نہ کرے ایسے وقت غور فکر کر کے رائے قائم کرے اور فیصلہ کرے جب دماغ ٹھنڈا اور اعتدال و سکون کی حالت میں ہو۔ (اور اگر حاکم کو غصہ مقدمہ کہ کسی فریق پر ہو تو اس کا بھی خطرہ ہے کہ فیصلہ میں ناانصافی ہو جائے)۔
کتاب الحج
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لاَ يَقْضِيَنَّ حَكَمٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهْوَ غَضْبَانُ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৫৬
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوے کے لیے دلیل اور ثبوت ضروری
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اگر محض دعوے پر لوگوں کے حق میں فیصلہ کر دیا جایا کرے تو لوگ دوسروں کے خلاف (بے باکی سے) خون یا مال کے (جھوٹے سچے) دعوے کرنے لگیں گے۔ لیکن (محض کسی کے دعوے پر اس کے حق میں فیصلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ثبوت طلب کیا جائے گا اور ثبوت و شہادت نہ ہونے کی صورت میں) مدعا علیہ سے حلفیہ انکاری بیان لیا جائے گا۔(صحیح مسلم)
تشریح
اگر کوئی شخص حاکم اور قاضی کی عدالت میں کسی دوسرے آدمی کے خلاف کوئی دعویٰ یا شکایت کرے تو خواہ دعویٰ کرنے والا کیسا ہی ثقہ صالح اور کتنا ہی بلند مرتبہ کیوں نہ ہو محض اس کے دعوے کی بنیاد پر قاضی اس کے حق میں فیصلہ نہیں کر سکے گا اسلامی قانون میں ہر دعوے کے لئے ضابطہ کے مطابق ثبوت اور شہادت ضروری ہے اگر مدعی شہادت اور ثبوت پیش نہ کر سکے تو مدعا علیہ کہا جائے گا کہ اگر اسکو دعویٰ تسلیم نہیں ہے تو وہ حلف کے ساتھ کہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔ اگر مدعا علیہ اس طرح کے حلف سے انکار کرے تو دعویٰ صحیح سمجھ کے ڈگری کردیا جائے گا اور اگر وہ حلف کے ساتھ مدعی کے دعوے کو غلط قرار دے تو دعویٰ خارج کر دیا جائے گا اور مدعی علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا جائے گا۔ یہ عدالتی قانون اور ضابطہ ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی اور جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار بھی تھا۔
تشریح .....صحیح مسلم کی اس روایت کے الفاظ میں مدعی سے ثبوت و شہادت طلب کرنے کا ذکر نہیں ہے صرف مدعا علیہ سے حلفیہ انکاری بیان لینے کا ذکر ہے لیکن صحیح مسلم کے شارح امام نووی نے اپنی شرح مسلم میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی اس حدیث کو امام بیہقی نے بھی حسن یا صحیح سند سے روایت کیا ہے اور اس میں پہلے مدعی سے ثبوت و شہادت طلب کرنے کا ذکر ہے اس کے آخری الفاظ یہ ہیں۔ “الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ” امام نووی کا یہ کلام صحیح مسلم کی اس حدیث کے ساتھ ہی مشکاۃالمصابیح میں بھی نقل کیا گیا ہے اسی لئے حدیث کے ترجمہ میں ہم نے قوسین میں اس کا اضافہ کردیا ہے۔ متعدد دوسرے صحابہ کرامؓ سے بھی اس مضمون کی حدیثیں مروی ہیں۔
تشریح
اگر کوئی شخص حاکم اور قاضی کی عدالت میں کسی دوسرے آدمی کے خلاف کوئی دعویٰ یا شکایت کرے تو خواہ دعویٰ کرنے والا کیسا ہی ثقہ صالح اور کتنا ہی بلند مرتبہ کیوں نہ ہو محض اس کے دعوے کی بنیاد پر قاضی اس کے حق میں فیصلہ نہیں کر سکے گا اسلامی قانون میں ہر دعوے کے لئے ضابطہ کے مطابق ثبوت اور شہادت ضروری ہے اگر مدعی شہادت اور ثبوت پیش نہ کر سکے تو مدعا علیہ کہا جائے گا کہ اگر اسکو دعویٰ تسلیم نہیں ہے تو وہ حلف کے ساتھ کہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔ اگر مدعا علیہ اس طرح کے حلف سے انکار کرے تو دعویٰ صحیح سمجھ کے ڈگری کردیا جائے گا اور اگر وہ حلف کے ساتھ مدعی کے دعوے کو غلط قرار دے تو دعویٰ خارج کر دیا جائے گا اور مدعی علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا جائے گا۔ یہ عدالتی قانون اور ضابطہ ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی اور جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار بھی تھا۔
تشریح .....صحیح مسلم کی اس روایت کے الفاظ میں مدعی سے ثبوت و شہادت طلب کرنے کا ذکر نہیں ہے صرف مدعا علیہ سے حلفیہ انکاری بیان لینے کا ذکر ہے لیکن صحیح مسلم کے شارح امام نووی نے اپنی شرح مسلم میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی اس حدیث کو امام بیہقی نے بھی حسن یا صحیح سند سے روایت کیا ہے اور اس میں پہلے مدعی سے ثبوت و شہادت طلب کرنے کا ذکر ہے اس کے آخری الفاظ یہ ہیں۔ “الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ” امام نووی کا یہ کلام صحیح مسلم کی اس حدیث کے ساتھ ہی مشکاۃالمصابیح میں بھی نقل کیا گیا ہے اسی لئے حدیث کے ترجمہ میں ہم نے قوسین میں اس کا اضافہ کردیا ہے۔ متعدد دوسرے صحابہ کرامؓ سے بھی اس مضمون کی حدیثیں مروی ہیں۔
کتاب الحج
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لاَدَّعَى نَاسٌ دِمَاءَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَهُمْ وَلَكِنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮৫৭
হজ্ব অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوے کے لیے دلیل اور ثبوت ضروری
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک زمین میری اور ایک یہودی کی مشترکہ ملکیت تھی اس نے میری ملکر سے انکار کردیا اور تنہا اس کا مالک بن بیٹھا میں اس یہودی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا (اور اپنا مقدمہ آپ کے سامنے پیش کیا) آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے پاس اپنے دعوے کی کوئی دلیل (یعنی گواہ شاہد ہے؟) میں نے عرض کیا کوئی گواہ شاہد تو نہیں ہے آپ نے یہودی سے فرمایا کہ (اگر تمہیں اس سے انکار ہے تو) تم قسم کھاؤ (کہ زمین میں مدعی کا کوئی حصہ نہیں ہے تنہا میری ہے) اشعث کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت یہ یہودی (جھوٹی) قسم کھا لے گا اور میرا مال یعنی میری جائیداد ہڑپ کر لے گا ...... تو اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی “إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ ...... وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ” (جو لوگ اللہ کے عہد و پیمان کو توڑ کر) اور اپنی (جھوٹی) قسموں کے ذریعہ “ثمن قلیل” یعنی دنیا کا تھوڑا سا نفع حاصل کرتے ہیں آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی بات نہ فرمائے گا اور وہ اس کی نگاہ کرم سے بھی محروم رہیں گے اور وہ ان کو پاک صاف بھی نہ کرے گا اور ان کو نہایت دردناک عذاب ہوگا۔(سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قضیہ میں مدعی مسلم اور مدعا علیہ غیر مسلم ہو تب بھی اس قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی اور مدعی کے پاس ثبوت شہادت نہ ہونے کی صورت میں اگر غیر مسلم مدعاعلیہ کے ساتھ انکاری بیان دے گا تو اس کو قبول کر لیا جائے گا۔ اور اگر فی الواقع اس نے بددیانتی کی ہے اور جھوٹا حلفیہ بیان دیا ہے تو آخرت میں وہ اس کی سخت ترین سزا پائے گا۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قضیہ میں مدعی مسلم اور مدعا علیہ غیر مسلم ہو تب بھی اس قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی اور مدعی کے پاس ثبوت شہادت نہ ہونے کی صورت میں اگر غیر مسلم مدعاعلیہ کے ساتھ انکاری بیان دے گا تو اس کو قبول کر لیا جائے گا۔ اور اگر فی الواقع اس نے بددیانتی کی ہے اور جھوٹا حلفیہ بیان دیا ہے تو آخرت میں وہ اس کی سخت ترین سزا پائے گا۔
کتاب الحج
عَنِ الأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَلَكَ بَيِّنَةٌ. قُلْتُ لاَ. قَالَ لِلْيَهُودِيِّ: احْلِفْ. قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذًا يَحْلِفَ وَيَذْهَبَ بِمَالِي. فَأَنْزَلَ اللَّهُ: { إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } إِلَى آخِرِ الآيَةِ.
তাহকীক: