মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

کتاب الحج - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ১৩৯ টি

হাদীস নং: ১৭৯৮
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت کا معاملہ فسخ کرنے کا اختیار
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : معاملہ بیع کے دونوں فریقوں کو (فسخ کرنے کا) اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں ، سوائے خیار شرط والی بیع کے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
خرید و فروخت کے معاملہ میں اگر دونوں فریق (بیچنے والا اور خریدنے والا) یا دونوں میں سے کوئی ایک یہ شرط کر لے کہ ایک دن یا دو تین دن تک مجھے اختیار ہو گا کہ میں چاہوں تو اس معاملہ کو فسخ کر دوں تو شرعاً جائز ہے ۔ اور شرط کرنے والے فریق کو فسخ کر دینے کا اختیار ہو گا ۔ فقہ کی اور شریعت کی اصطلاح میں اس کو “خیار شرط” کہا جاتا ہے ، اس کا ھدیث میں صراحۃً ذکر ہے اور اس پر فقہا کا اتفاق ہے ۔ امام شافعیؒ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک اس طرح کی شرط اور قرارداد کے بغیر بھی فریقین کو معاملہ فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ دونوں اسی جگہ رہیں جہاں سودا طے ہوا ہے ۔ لیکن اگر کوئی ایک بھی اس جگہ سے ہٹ جائے اور علیحدہ ہو جائے تو یہ اختیار ختم ہو جائے گا ۔ اس کو فقہ کی زبان میں “خیار مجلس” کہا جاتا ہے ، امام ابو حنیفہؒ اور بعض دوسرے ائمہ اس “خیار مجلس” کے قائل نہیں ہیں ۔ اس بارے میں ان کا مسلک یہ ہے کہ خرید و فروخت کی بات جب فریقین کی طرف سے بالکل طے ہو گئی اور سودا پکا ہو گیا اور لین دین بھی ہو گیا تو اگر پہلے سے کسی فریق نے بھی فسخ کے اختیار کی شرط نہیں لگائی ہے تو اب کوئی فریق بھی یک طرفہ طور پر معاملہ فسخ نہیں کر سکتا ، ہاں باہمی رجامندی سے معاملہ فسخ کیا جا سکتا ہے جس کو شریعت کی اور فقہ کی زبان میں “اقالہ” کہا جاتا ہے ۔

تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اگر کسی فریق کی طرف سے بھی فسخ کرنے کے اختیار کی شرط نہیں لگائی گئی ہے تو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار صرف اس وقت تک ہے جب تک دونوں فریق جدا نہ ہوں ۔
امام شافعیؒ اور ان کے ہم خیال ائمہ نے اس حدیث کے لفظ “مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا” سے خیار مجلس سمجھا ہے ۔ اور امام ابو حنیفہؒ وغیرہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک بات بالکل ختم اور طے نہ ہو جائے اس وقت تک ہر فریق کو اختیار ہے کہ وہ اپنی پیش کش واپس لے لے ، اس کے بعد کسی کو فسخ کرنے کا اختیار نہ رہے گا ۔ وہ “تفرق” سے مکانی علیحدگی نہیں بلکہ معاملاتی اور قولی علیحدگی و جدائی مراد لیتے ہیں ، جیسا کہ قرآن مجید میں یہی لفظ اس معنی میں آیت “ وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ” میں طلاق کے سلسلہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «المُتَبَايِعَانِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالخِيَارِ عَلَى صَاحِبِهِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، إِلَّا بَيْعَ الخِيَارِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯৯
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت کا معاملہ فسخ کرنے کا اختیار
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خرید اور فروخت کرنے والے دونوں فریقوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک باہم جدا نہ ہوں (اس کے بعد اختیار نہیں) سوائے اس صورت کے کہ (شرط لگا کے) اختیار کر لیا گیا ہو ۔ دونوں میں سے کسی کے ئے جائز نہیں ہے کہ اقالہ اور واپسی کے خطرہ کی وجہ سے دوسرے سے جدا ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)

تشریح
اس حدیث کا مدعا بھی وہی ہے جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث کا ہے کہ معاملہ بیع کے دونوں فریقوں (بائع و مشتری) کو اس وقت تک معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ متفرق اور جدا نہ ہوں ۔ جدا ہونے کے بعد صرف اسی صورت میں فسخ کا اختیار ہو گا جب شرط کے طور پر یہ طے کر لیا گیا ہو ۔ اس کے آگے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت بھی ہے کہ فریقین میں سے کوئی بھی اس خطرہ کی وجہ سے الگ اور جدا نہ ہو کہ وہ اپنی بات واپس لے کر معاملہ فسخ نہ کر دے ”۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمَرَو ابْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ» (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০০
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ خیار عیب ، یعنی عیب کی وجہ سے معاملہ فسخ کرنے کا اختیار
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی دوسرے سے ایک غلام خریدا ، اور وہ (کچھ دن) جتنے اللہ نے چاہا اس کے پاس رہا ، پھر اسے معلوم ہوا کہ غلام میں ایک عیب ہے ، تو وہ شخص اس معاملہ کو لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور آپ ﷺ سے فیصلہ چاہا ، تو آپ ﷺ نے (اس عیب کی بنیاد پر) غلام واپس کر دینے کا فیصلہ فرما دیا ۔ مدعا علیہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس بھائی نے (اتنے دن تک) میرے غلام سے کام لیا ہے اور فائدہ اٹھایا ہے (لہٰذا مجھے اس کا معاوضہ بھی ملنا چاہئے) آپ ﷺ نے ارشاد فریاما “الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ” (یعنی نفع کا مستحق وہی ہے جو نقصان کا ضامن ہے) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
خرید و فروخت کا معاملہ فسخ کرنے کی اختیار کی دو صورتوں کا ذکر مندرجہ بالا حدیثوں میں آ چکا ہے ایک “خیارِ شرط” دوسرے “خیار مجلس” ایک تیسری شکل یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز میں کوئی عیب معلوم ہو جائے جو پہلے معلوم نہیں تھا ، اس صورت میں بھی خریدار کو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہو گا ، اس کی ایک مثال وہ ہے جو حضرت عائشہؓ کی مندرجہ ذیل حدیث میں ذکر کی گئی ہے ۔

تشریح ..... حدیث کے آخر میں آپ ﷺ کا ارشاد “الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ” شریعت کے ان اصولی قواعد میں سے ہے جن سے فقہاء نے سینکڑوں مسئلوں کا حکم نکالا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ منفعت کا مستحق وہی ہوتا ہے جو نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اگر بالفرض غلام خریدنے والے کے پاس یہ مر جاتا یا کسی حادثہ سے اس کا کوئی عضو ٹوٹ پھوٹ جاتا تو یہ نقصان خریدنے والے ہی کا ہوتا ۔ اس لئے ان دونوں میں جو فائدہ خریدنے والے نے غلام سے اٹھایا وہ اس کا حق تھا لہذا اس کے معاوضے کا کوئی سوال نہیں ۔
یہاں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے جس کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں نقل کیا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنا ایک غلام آٹھ سو درہم میں کسی شخص کے ہاتھ بیچا اور یہ وضاحت کر دی کہ اس غلام میں کوئی عیب نہیں ہے ۔ بعد میں غلام خریدنے والے نے کہا کہ اس کو فلاں بیماری ہے جس کے بارے میں آپ نے بتلایا نہیں تھا (حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے غالبا کہا کہ یہ بیماری اس کو میرے ہاں نہیں تھی) بہرحال یہ مقدمہ خلیفہ وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوا ۔ آپؓ نے معاملہ سن کے (اور یہ دیکھ کے کہ خریدار اس بات کے گواہ پیش نہیں کر سکتا کہ غلام کو یہ بیماری پہلے سے تھی) قانونِ شریعت کے مطابق حضرت ابنِ عمرؓ سے کہا کہ آپ قسم کے ساتھ یہ بیان دے دیں کہ غلام کو یہ مرض آپ کے ہاں نہیں تھا ۔ حضرت ابنِ عمرؓ نے قسم کے ساتھ یہ بیان دینے سے معذرت کر دی اور اپنا غلام واپس لے لیا ۔ پھر اللہ نے کیا کہ بیماری کا اثر ختم ہو کے غلام بالکل صحیح تندرست ہو گیا اور اس کے بعد وہی غلام حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے پندرہ سو درہم میں فروکت کیا ۔
ائمہ فقہاء کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ اگر خریدی ہوئی چیز میں کوئی عیب نکل آئے (جس کی وجہ سے اس کی قیمت اور حیثیت کم ہو جائے) تو یہ ثابت ہو جانے پر کہ یہ عیب خرید و فروخت کے معاملے سے پہلے کا ہے ، خریدار کو معاملہ فسخ کر دینے اور خریدی ہوئی چیز واپس کر کے اپنی ادا کی ہوئی قیمت واپس لینے کا اختیار ہے ۔ اسی کو “خیار عیب” کہا جاتا ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا، ابْتَاعَ غُلَامًا فَأَقَامَ عِنْدَهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يُقِيمَ، ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا فَخَاصَمَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّهُ عَلَيْهِ فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدِ اسْتَغَلَّ غُلَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ» (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى وابن ماجة)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০১
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ اِقالہ یعنی بیع کا معاملہ مکمل ہو جانے کے بعد فسخ اور واپسی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اقالہ کا معاملہ کرے (یعنی اس کی بیچی یا خریدی ہوئی چیز کی واپسی پر راضی ہو جائے) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی غلطیاں (یعنی اس کے گناہ) بخش دے گا ۔ (سنن ابو داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان کسی چیز کی بیع کا معاملہ ہوا اور فریقین کی طرف سے بات بالکل ختم ہو گئی لین دین بھی ہو گیا ، اس کے بعد کسی ایک نے اپنی مصلحت سے معاملہ فسخ کرنا چاہا ، مثلاً خریدار نے جو چیز خریدی تھی اس کو واپس کرنا چاہا یا بیچنے والے نے اپنی چیز واپس لینی چاہی تو اگرچہ قانونِ شریعت کی رو سے دوسرا فریق مجبور نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے راضی ہو لیکن رسول اللہ ﷺ نے اخلاقی انداز میں اس کی اپیل کی ہے اور اس کو بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے ۔ شریعت کی زبان میں اسی کو “اقالہ” کہا جاتا ہے ۔

تشریح ..... کسی چیز کو خرید کر یا بیچ کر آدمی واپس کرنا یا واپس لینا جب ہی چاہتا ہےجب محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ، میں اس معاملہ میں نقصان اور خسارہ میں رہا اور دوسرا فریق نفع میں رہا ۔ اس صورت میں دوسرے فریق کا معاملہ فسخ کر کے واپسی پر راضی ہو جانا بلاشبہ ایثار ہو گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد میں اس ایثار ہی کی ترغیب دی ہے اور ایسا کرنے والے کو بشارت سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت میں اس کے قٓصوروں اور گناہوں سے دَرگزر فرمائے گا ۔ بلاشبہ بڑا نفع بخش ہے یہ سودا ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০২
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ سودا گروں کو قسمیں کھانے کی ممانعت
حضرت ابو قتادہپ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : بیع و فروخت میں زیادہ قسمیں کھانے سے بہت بچو کیونکہ اس سے (اگر بالفعل) دکانداری خوب چل جاتی ہے لیکن بعد میں یہ برکت کھو دیتی ہے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
بعض سودا گر اور دکاندار اپنا سودا بیچنے کے لئے بہت قسمیں کھاتے ہیں اور قسموں کے ذریعے گاہک کو خریداری پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کے نام پاک کا بہت بےجا استعمال ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اس سے منع فرمایا اور اس کو بےبرکتی کا موجب بتلایا ہے ۔

تشریح ..... اس حدیث میں سودا گروں ، دکانداروں کو زیادہ قسمیں کھانے کی بری عادت سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اور اس کو بےبرکتی کا موجب بتلایا گیا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ سودا بیچنے کے لئے کثرت سے قسم کھانا اگرچہ وہ قسم جھوٹی نہ ہو سچی ہو ، اللہ تعالیٰ کے باعظمت نام کا بہت نامناسب استعمال ہے ۔ اور جھوٹی قسم کھانا تو ایک دفعہ بھی گناہِ عظیم ہے ۔ صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو سودا گر جھوٹی قسم کھا کر اپنا کاروبار چلاتا ہے وہ ان مجرمین میں شامل ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ “لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ” (یعنی قیامت میں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی ہم کلامی کی لذت و عزت سے اور نگاہِ رحمت و نظر عنایت سے محروم رکھے گا اور فسقق و فجور کی نجاست سے ان کو پاک نہیں کیا جائے گا ، ان کا حصہ بس خدا کا درد ناک عذاب ہو گا ۔
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَلِفِ فِي الْبَيْعِ؛ فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ، ثُمَّ يَمْحَقُ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০৩
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ دکانداری میں قسمیں کھانے اور دوسری نامناسب باتوں کا کفارہ
قیس بن غزرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :“اے معشر تجار” (اے سودا گرو !) بیع مین لغو اور بےفائدہ باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور قسم بھی کھائی جاتی ہے تو (اس کے علاج اور کفارہ کے طور پر) اس کے ساتھ صدقہ ملا دیا کرو ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
یہ واقعہ ہے کہ اپنا سودا بیچنا اور گاہک کو خریداری پر آمادہ کرنے کے لئے بہت سے دکاندار قسمیں بھی کھاتے ہیں اور اس کے علاوہ اور بھی ایسی باتیں کرتے ہین جو اللہ کے نزدیک لغو و لایعنی اور ناپسندیدہ ہوتی ہیں اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد میں ہدایت فرمائی کہ اس کے کفارہ کے طور پر تاجر لوگ صدقہ (یعنی فی سبیل اللہ غربا اور مساکین وغیرہ کی خدمت و اعانت) کو اپنے کاروبا ر میں شامل کر لیں ، یہ ان شاء اللہ حُبِ مال کی اس بیماری کا علاج بھی ہو گا جو کاروباری لوگوں سے ناپسندیدہ باتیں اور غلط کام کراتی ہے ۔
عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ وَالْحَلْفُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ» (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى وابن ماجة)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০৪
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ اگر تجارت نیکی سچائی اور تقوے کے ساتھ نہیں تو حشر بہت خراب
حضرت رفاعہ بن رافع انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تاجر لوگ سوائے ان کے جنہوں نے (اپنی تجارت میں) تقویٰ اور نیکی اور سچائی کا رویہ اختیار کیا ۔ قیامت میں فاجر اور بدکار اٹھائے جائیں گے ۔

تشریح
اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید اور آگاہی ہے خوفِ خدا ، احکام شریعت اور سچائی و نیکوکاری سے آزاد ہو کر تجارت اور سوداس گری کرتے ہیں اور جھوٹ سچ ، جس طرح بھی ہو سکے بس اپنی دولت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ان کا حشر “فاجروں” یعنی بدکار مجرموں کی حیثیت سے ہو گا اور اسی حیثیت سے بارگاہِ خداوندی میں ان کی پیشی ہو گی ۔ اللہ کی پناہ ؟ اس کے برخلاف جو تجارت پیشہ بندے اپنی تجارت اور کاروبار میں آخرت کے انجام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سچائی اور دیانت داری کی پابندی کے ساتھ تجارت اور کاروبار کریں ان کو رسول اللہ ﷺ نے خوش خبری سنائی ہے کہ :
“وہ قیامت میں انبیاء علیہم السلام ، صدیقین اور شہداء کرام کے ساتھ ہوں گے” ۔
یہ حدیث جامع ترمذی اور سنن دارمی وغیرہ کے حوالہ سے (اسی سلسلہ معارف الحدیث میں) کچھ ہی پہلے درج ہو چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح بھی کی جا چکی ہے ۔
عَنْ رِفَاعَةَ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «التُّجَّارُ يُحْشَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَى وَبَرَّ وَصَدَقَ» (رواه والترمذى وابن ماجة والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০৫
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ مکان وغیرہ جائیداد کی فروخت کے بارے میں ایک مشفقانہ ہدایت
حضرت سعید بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ تم میں سے جو کوئی اپنا گھر یا جائداد بیچے تو سزاوار ہے کہ اس کے اس عمل میں برکت و فائدہ نہ ہو ۔ البتہ اگر وہ اس کی قیمت کو اسی طرھ کی کسی جائداد میں لگا دے تو پھر ٹھیک ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)

تشریح
مکان باغ یا کاشت کی زمین جیسی غیر منقولہ چیزوں کی یہ خصوصیت ہے کہ نہ ان کو کوئی چرا سکتا ہے نہ ان پر اس طرح کے دوسرے حادثے آ سکتے ہیں جو اموالِ منقولہ پر آتے ہیں دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بغیر کسی خاص ضرورت اور مصلحت کے ان چیزوں کو فروخت نہ کیا جائے اور اگر فروخت کیا جائے تو بہتر یہ ہو گا کہ اس قیمت سے کوئی غیر منقولہ جائیداد ہی خریدی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ کو امت کے حال پر شفقت تھی اس کی بناء پر آپ ﷺ نے اس طرھ کے مشورے بھی دئیے ہیں ۔ مندرجہ ذیل حدیث اسی قبیل سے ہے ۔

تشریح ..... جیسا کہ اوپر تمہید میں عرض کیا گیا کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد کی حیثیت ایک مشفقانہ ہدایت اور مشورہ کی ہے ۔ یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو حضور ﷺ کے اس طرح کے مشفقانہ مشوروں ، بلکہ اشاروں پر بھی چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
عَنْ سَعِيدِ بْنِ حُرَيْثٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ بَاعَ مِنْكُمْ دَارًا أَوْ عَقَارًا، قَمِنٌ أَنْ لَا يُبَارَكَ لَهُ إِلَّا أَنْ يَجْعَلَهُ فِي مِثْلِهِ» (رواه ابن ماجة والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০৬
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ کاروبار میں شرکت کا جواز اور دیانت داری کی تاکید
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ عز وجل ارشاد فرماتا ہے کہ جو دو آدمی شرکت میں کاروبار کریں تو تیسرا میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں (یعنی میری رحمت اور برکت ان کے ساتھ ہوتی ہے) جب تک ان میں سے کوئی اپنے ساجھے دار کے حق میں خیانت اور بددیانتی نہ کر لے ۔ پھر جب کسی شریک کی طرف سے خیانت اور بددیانتی کا صدور ہوتا ہے تو میں ان سے الگ ہو جاتا ہوں (اور وہ میری معیت کی برکت سے محروم ہو جاتے ہیں) ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
لماء و مصنفین کی اصطلاح کے مطابق یہ “حدیث قدسی” ہے کیوں کہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل فرمایا ہے ۔ اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہو گیا کہ تجارت اور کاروبار میں شرکت جائز ہے ۔ بلکہ باعثِ برکت بھی ہے ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تجارت اور کاروبار کی شرکت ہی کے باب میں زہرہ بن معبد تابعی کی روایت سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ میرے دادا عبداللہ بن ہشام کو ان کے بچپن ہی میں ، ان کی والدہ (زینب بنت حمید) حضور ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ حضرت میرے اس بچے کو بیعت فرما لیں ، آپ ﷺ نے فریاما کہ “هو صغير” یعنی یہ ابھی بہت کم عمر ہے ، اور آپ نے ان کے سر پر اپنا دَست مبارک پھیرا اور ان کے لئے دعا فرمائی (آگے زہرہ بن معبد بیان کرتے ہیں کہ) پھر میرے یہ دادا عبداللہ بن ہشام جب تجارت اور کاروبار کرنے لگے تو میں ان کے ساتھ بازار اور منڈی جایا کرتا تھا تو بسا اوقات ایسا ہوتا کہ وہ تجارت کے لئے غلہ کی خریداری کرتے تو حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر (دونوں بزرگ صحابی) ان کو ملتے اور ان سے کہتے کہ ہم کو بھی شریک کر لو اور حصہ دار بنا لو کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہارے لئے برکت کی دعا فرمائی تھی (تو اس دعا کی برکت سے ان شاء اللہ خوب نفع ہو گا) تو میرے داد عبداللہ بن ہشام سودے میں ان دونوں صاحبوں کو بھی شریک کر لیتے تھے ، تو بسا اوقات اتنا نفع ہوتا کہ پورا ایک اونٹ بھر غلہ نفع سے بچ جاتا جس کو وہ اپنے گھر بھیج دیتے ۔ (صحیح بخاری کتاب الشرکۃ)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: أَنَا ثَالِثُ الشَّرِيكَيْنِ مَا لَمْ يَخُنْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَإِذَا خَانَهُ خَرَجْتُ مِنْ بَيْنِهِمَا " (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০৭
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ تجارت اور کاروبار میں کسی کو وکیل بنانا بھی جائز ہے
عروہ بن ابی الجعد بارقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس مقصد سے ایک دینار دیا کہ وہ آپ کے لئے ایک بکری خرید لائیں وہ گئے اور انہوں نے اس ایک دینار کی دو بکریاں خرید لیں ۔ پھر ان میں سے ایک ، ایک ، دینار کی بیچ دی اور واپس آ کر حضور ﷺ کی خدمت میں ایک بکری بھی پیش کر دی اور ایک دینار بھی (اور واقعہ بتلا دیا) تو آپ ﷺ نے ان کے واسطے (خاص طور سے) خرید و فروخت میں یعنی تجارت میں برکت کی دعا فرمائی ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دعا کی برکت سے ان کا حال یہ تھا کہ اگر مٹی بھی خرید لیتے تو اس میں بھی ان کو نفع ہو جاتا ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
عروہ بن ابی الجعد بارقی نے بکریوں کی یہ خرید و فروخت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے آپ کے وکیل کی حیثیت سے کی تھی اس سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنا جائز ہے ۔ اور چونکہ پہلے خریدی ہوئی دو بکریوں میں سے ایک حضور ﷺ سے اجازت لئے بغیر فروخت کر دی اور حضور ﷺ نے ان کے اس فعل کو غلط اور خلافِ شریعت قرار نہیں دیا بلکہ شاباشی اور دعا دی تو اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وکیل اپنے موکل کی چیز اس کی اجازت کے بغیر بھی فروخت کر سکتا ہے اور موکل اگر اس کو قبول کر لے تو وہ بیع جائز اور نافذ ہو گی ۔
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْبَارِقِىّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ دِينَارًا لِيَشْتَرِيَ شَاةً، فَاشْتَرَى لَهُ شَاتَيْنِ فَبَاعَ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ وَأَتَاهُ بِشَاةٍ وَدِينَارٍ، فَدَعَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْعِهِ بِالْبَرَكَةِ، فَكَانَ لَوِ اشْتَرَى تُرَابًا لَرَبِحَ فِيهِ. (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০৮
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ تجارت اور کاروبار میں کسی کو وکیل بنانا بھی جائز ہے
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک دینار دے کر اس کام کے لئے بھیجا کہ وہ آپ کے لئے قربانی کا جانور خرید لائیں ۔ تو انہوں نے اس دینار سے ایک مینڈھا (یا دنبہ) خرید لیا اور پھر وہیں اس کو (کسی خریدار کے ہاتھ) دو دینار میں فروخت کر دیا ، پھر لوٹے اور ان میں سے ایک دینار میں قربانی کا جانور خرید لیا اور آ کر حضور ﷺ کی خدمت میں قربانی کے جانور کے ساتھ وہ دینار بھی پیش کر دیا جو دوسرا جانور (یعنی پہلا خریدا ہوا مینڈھا یا دنبہ) فروخت کر کے بچا لیا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے وہ دینار صدقہ کر دیا اور حکیم بن حزام کے لئے تجارت اور کاروبار میں برکت کی دعا فرمائی ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
حکیم بن حزام کی اس حدیث کا مضمون بھی قریب قریب وہی ہے جو اس سے پہلے والی حضرت عروہ بارقیؓ کی حدیث کا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعے ہیں اور دونوں ہی سے وہ مسئلہ معلوم ہو جاتا ہے جو اس سے پہلے والی حدیث کی تشریح میں ذکر کیا گیا ۔
عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَهُ بِدِينَارٍ لِيَشْتَرِي لَهُ بِهِ أُضْحِيَّةً، فَاشْتَرَاهَا كَبْشًا بِدِينَارٍ، وَبَاعَهُ بِدِينَارَيْنِ، فَرَجَعَ فَاشْتَرَى لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، فَجَاءَ بِهَا وَبِالدِّينَارِ الَّذِىْ اِسْتَفْضَلَ مِنَ الْاُخْرَى فَتَصَدَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدِّينَارِ فَدَعَا لَهُ أَنْ يُبَارَكَ لَهُ فِي تِجَارَتِهِ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮০৯
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ اجارہ (یعنی مزدوری اور کرایہ داری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے سب نے بکریاں چرائی ہیں ، صحابہؓ نے عرض کیا اور حضرت آپ نے ؟ فرمایا کہ ہاں میں نے بھی بکریاں چرائی ہیں ، میں چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
کسی کو اجرت اور مزدوری دے کر اپنا کام کرانا ، یا استعمال کے لئے کسی کو اپنی چیز دے کر اس کا کرایہ لینا ۔ شریعت اور فقہ کی زبان میں اس کو “اجارہ” کہا جاتا ہے اور یہ ان معاملات میں سے ہے جن ر انسانی تمدن کی بنیاد قائم ہے ۔ اس موضوع سے متعلق چند حدیثیں ذیل میں درج کی جا رہی ہیں ۔

تشریح ..... حضور ﷺ نے اس حدیث میں چند قیراط مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں چرانے کا اپنا جو واقعہ بیان فرمایا ہے یہ غالباً ابتدائی عمر کا ہے جب آپ ﷺ اپنے چچا خواجہ ابو طالب کے ساتھ رہتے تھے تو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں چراتے تھے جس کے عوض آپ ﷺ کو چند قیراط مل جاتے تھے ۔ یہی اس زمانہ میں آپ ﷺ کا ذریعہ معاش تھا ۔ ایک قیراط ، درہم کا قریباً بارہواں حصہ ہوتا تھا ۔
بکریاں چرانا بڑا صبر آزما کام ہے اور اگر آدمی میں صلاحیت ہو تو اس سے اس کی بڑی تربیت ہوتی ہے ۔ غرور اور تکبر جیسے رزائل کا علاج ہوتا ہے ، صبر کی اور غصہ پینے کی عادت پڑتی ہے اور شفقت و ترحم کی مشق ہوتی ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سب پیغمبروں نے یہ کورس پورا کیا ہے ۔ ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس طرح کی مزدوری نہ صرف جائز بلکہ سنتِ انبیاء ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الغَنَمَ»، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ» (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১০
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ اجارہ (یعنی مزدوری اور کرایہ داری)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دیا کرو ۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اجر اور مزدور جب تمہارا کام پورا کر دے تو اس کی مزدوری فوراً ادا کر دی جائے تاخیر بالکل نہ کی جائے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ، قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ» (رواه وابن ماجة)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১১
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ لگان یا بٹائی پر زمین دینا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (فتحِ خبیر کے بعد) خیبر کی زمین وہاں کے یہودیوں کے سپرد کر دی اور اس شرط پر کہ وہ محنت کریں اور کاشت کریں اور پیداوار کا نصف حصہ ان کا ہو ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اجارہ ہی کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی زمین کسی کو دی جائے کہ وہ اس سے کاشت کرے اور طے شدہ کرایہ نقد کی شکل میں ادا کرے جس کو زرِ لگان کہا جاتا ہے یا بجائے نقد لگان کے بٹائی طے ہو جائے کہ پیداوار کا اتنا حصہ زمین کے مالک کو دیا جائے ۔ مندرجہ ذیل حدیثوں کا تعلق ان دونوں صورتوں سے ہے ۔

تشریح ..... یہ حدیث الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح مسلم میں بھی ہے اس میں صراحت کے ساتھ اس کا بھی ذکر ہے کہ کاشت والی زمینوں کے علاوہ خیبر کے نخلستان بھی رسول اللہ ﷺ نے اس شرط پر وہاں کے یہودیوں کے سپر کر دئیے تھے کہ ان کی پیداوار کا نصف ان کو ملے گا ۔ یہ گویا بٹائی والا معاملہ تھا ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ اليَهُودَ أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا، وَلَهُمْ شَطْرُ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا» (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১২
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ لگان یا بٹائی پر زمین دینا
عمرو بن دینار تابعی نے فرمایا کہ میں نے جناب طاؤس (تابعی) سے ایک بار کہا کہ آپ بٹائی (یا لگان) پر زمین اُٹھانا چھوڑ دیتے تو اچھا ہوتا ، کیوں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا تھا ، تو انہوں نے فرمایا کہ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں کاشت کاروں کو کاشت کے لئے زمین بھی دیتا ہوں اور اس کے علاوہ بھی ان کی مدد کرتا ہوں ۔ اور امت کے بڑے عالم یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ کو بتلایا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کو بٹائی یا لگان پر اٹھانے سے منع نہیں فرمایا تھا ۔ البتہ یہ فرمایا تھا کہ اپنی زمین اپنے دوسرے بھائی کو کاشت کے لئے (بغیر کسی معاوضہ کے) دے دینا اس سے بہتر ہے کہ اس پر کوئی مقررہ لگان وصول کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
عمرو بن دینار کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ صحابہ و تابعین کے زمانہ میں کچھ حضرات کا خیال تھا کہ اپنی مملوکہ زمین کی بٹائی یا لگان پر اٹھانا درست نہیں ۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد اور فیض یافتہ طاؤس نے حضرت ابنِ عباسؓ سے یہ وضاحت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو ناجائز قرار نہیں دیا تھا بلکہ اخلاقی طور پر فرمایا تھا کہ اپنے کسی بھائی کو مقررہ لگان یا بٹائی پر زمین دینے سے بہتر یہ ہے کہ للہ بغیر کسی معاضہ کے اس کو کاشت کے لئے زمین دے دی جائے ۔ طاؤس حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اس وضاحت اور فتوے کی روشنی میں اپنی زمینیں بٹائی یا لگان پر اُٹھاتے تھے اور ان کاشتکاروں کی کاشت کے اخراجات وغیرہ میں مزید امداد و اعانت بھی کرتے تھے ۔
عَنْ عَمْرٍو قَالَ : قُلْتُ لِطَاوُسٍ: لَوْ تَرَكْتَ المُخَابَرَةَ فَإِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ، قَالَ: أَيْ عَمْرُو إِنِّي وَأُعْطِيهِمْ وَأُغْنِيهِمْ وَإِنَّ أَعْلَمَهُمْ، أَخْبَرَنِي يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ عَنْهُ وَلَكِنْ، قَالَ: «أَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهِ خَرْجًا مَعْلُومًا» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১৩
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ دم کرنے اور جھاڑنے پر معاوضہ لینا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت ایک بستی پر گزری تو بستی کا ایک آدمی ملا اور اس نے کہا کہ کیا تم لوگوں میں کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے ؟ ہماری بستی میں ایک آدمی کو سانپ نے کاٹ لیا ہے یا کہا کہ بچھو نے کاٹ لیا ہے ۔ (غالباً یہ راوی کا شک ہے) تو جماعت صحابہ میں سے ایک آدمی اُٹھ کر چل دیا اور بستی میں جا کر کچھ بکریاں بطور معاوضہ مقرر کر کے اس کاٹے ہوئے آدمی پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ بالکل اچھا ہو گیا تو صاحب ٹھہرائی ہوئی بکریاں ساتھ لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آ گئے ۔ تو ان حضرات نے اس کو برا سمجھا اور ان سے کہا کہ تم نے اللہ کی کتاب پڑھنے کا معاوضہ لے لیا ۔ یہاں تک کہ یہ سب حضرات مدینہ آ گئے ۔ لوگوں نے مسئلہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ ہمارے فلاں ساتھی نے کتاب اللہ (سورہ فاتحہ) پڑھ کر معاوضہ لے لیا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کتاب اللہ اس کی زیادہ مستحق ہے کہ اس پر معاوضہ لیا جائے”۔ (صحیح بخاری) اور اس حدیث کی صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ تم نے ٹھیک کیا ، ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور میرا بھی حصہ لگاؤ ۔

تشریح
اپنے عمل اور اپنی محنت کا معاوضہ لینا اجارہ ہے اور اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی مریض وغیرہ پر قرآن شریف یا کوئی دعا پڑھ کر دم کیا جائے یا تعویذ لکھا جائے اور اس کا معاوضہ لیا جائے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں اور صحابہ کرامؓ نے دم کرنے کا معاوضہ لیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز اور طیب قرار دیا ہے ۔

تشریح .....صحیح بخاری میں یہ واقعہ اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے ۔ اور اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں بھی روایت کیا گیا ہے جس میں مذکور ہے کہ اسی طرح کے ایک سفر میں ایک دیوانے اور پاگل پر لوگوں نے دم کرایا ، ایک صحابی نے سورہ فاتحہ پڑھ کر صبح شام تین دن دم کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل اچھا ہو گیا ۔ انہوں نے بھی معاوضہ وصول کیا ۔ لیکن ان صحابی کو خود تردد ہو گیا کہ میرا معاوضہ لینا جائز ہے یا ناجائز ۔ چنانچہ واپسی پر حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے اس کو صحیح اور جائز قرار دیا ۔
انہی حدیثوں کی روشنی میں علماء و فقہا کا اس پر قریباً اتفاق ہے کہ اس طرح دم کرنے یا تعویز لکھنے پر معاوضہ لینا جائز ہے جس طرح طبیبوں اور ڈاکٹروں کے لئے علاج کی فیس لینا جائز ہے ۔ ہاں اگر بغیر معاوضہ فی سبیل اللہ بندگانِ خدا کی خدمت کی جائے تو وہ بلند درجہ کی بات ہے اور انبیاء علیہم السلام سے نیابت کی نسبت رکھنے والوں کا طریقہ یہی ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ، فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ، فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ المَاءِ، فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ، إِنَّ فِي المَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا، فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ عَلَى شَاءٍ، فَبَرَأَ، فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَكَرِهُوا ذَلِكَ وَقَالُوا: أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، حَتَّى قَدِمُوا المَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ» (رواه البخارى) وفى رواية اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১৪
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ عاریت (منگنی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (کسی شبہ کی بناء پر) مدینہ میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی (غالباً دشمن کے لشکر کی آمد کا شبہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے مدینہ طیبہ کے عوام میں گھبراہٹ اور خطرہ کے احساس کی کیفیت پیدا ہو گئی) تو رسول اللہ ﷺ نے ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کا گھوڑا عاریتاً مانگا جس کو “مندوب” کہا جاتا تھا (جس کے معنی ہیں سست رفتار اور مٹھا) اور آپ ﷺ اس پر سوار ہو کر (اس جانت تشریف لے گئے جدھر سے خطرہ کا شبہ تھا) جب آپ واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے کچھ نہیں دیکھا (یعنی کوئی خطرہ والی بات نظر نہیں آئی لہذا لوگوں کو مطمئن ہو جانا چاہئے ، اس کے ساتھ آپ ﷺ نے ابو طلحہ کے اس گھوڑے کے بارے میں فرمایا کہ) ہم نے اس کو بحر رواں پایا ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
تمدنی زندگی میں اس کی بھی ضرورت پڑتی ہے کہ وقتی ضرورت کے لئے کسی سے کوئی چیز (بغیر اُجرت اور معاوضہ) کے استعمال کے لئے مانگ لی جائے اور ضرورت پوری ہو جانے پر واپس کر دی جائے ، اسی کو “عاریت” کہا جاتا ہے ، یہ ایک طرح کی اعانت اور امداد ہے اور بلاشبہ کسی ضرورت مند کو عاریت پر اپنی چیز دینے والا اجر و ثواب کا مستحق ہے ۔ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی ضرورت کے موقعوں پر بعض چیزیں بطورِ عاریت کے لے کر استعمال فرمائی ہیں اور اس کے بارے میں ہدایات بھی دی ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے معلوم ہو گا ۔

تشریح .....اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا عاریتاً لے کر اس پر سواری کی ۔ نیز اس واقعہ سے رسول اللہ ﷺ کی شجاعت اور احساس ذمہ داری کی صفت بھی سامنے آئی کہ خطرہ کے موقع پر تحقیق و تجسس کے لئے تن تنہا تشریف لے گئے اور واپسو آ کر لوگوں کو مطمئن کر دیا تا کہ وہ بےخوف ہو کر اپنے کاموں میں لگیں ۔ ضمنی طور پر اس حدیثسے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابو طلحہؓ کا وہ گھوڑا جو اتنا سست رفتار اور مزاج کا مَٹھا تھا کہ اس کا نام ہی لوگوں نے “مندوب”(مٹھا)رکھ دیا تھا ، رسول اللہ ﷺ کی سواری میں آ کر ایسا تیز روا اور سبک رفتار ہو گیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے تو اس کو “ بحر رواں” پایا (بہترین تیز رفتار گھوڑے کو “بحر” کہا جاتا تھا)
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ، فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا مِنْ أَبِي طَلْحَةَ يُقَالُ لَهُ المَنْدُوبُ، فَرَكِبَ، فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: «مَا رَأَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১৫
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ عاریت (منگنی)
حضرت امیہ بن صفوان اپنے والد صفوان بن امیہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ حنین کے موقع پر ان کی زرہیں ان سے مانگیں (یعنی آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنی زرہیں جنگ میں استعمال کے لئے ہم کو دے دو) تو صفوان نے (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کہا کہ کیا (میری زرہیں) غصب کے طور پر لینا چاہتے ہو ؟ (یعنی چونکہ تم فاتح ہو اور قوت و اقتدار تمہارے ہاتھ میں ہے اس لئے زبردستی لے لینا چاہتے ہو ؟) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ عاریت کے طور پر (لینا چاہتا ہوں) جس کی واپسی کی ذمہ داری ہے ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ صفوان بن امیہ قریش مکہ کے سردار اور رسول اللہ ﷺ کے سخت دشمنوں میں تھے ، ۸؁ھ میں جب مکہ فتح ہو گیا اور وہاں رسول اللہ ﷺ کا اور اسلام کا اقتدار قائم ہو گیا تو یہ صفوان اس دن مکہ مکرمہ سے فرار ہو گئے ۔ ان سے تعلق رکھنے والے بعض صحابہ نے ان کے لئے رسول اللہ ﷺ سے اَمان کی درخواست کی ، آپ ﷺ نے قبول فرما لی ، وہ ان کی تلاش میں نکلے اور یہ مل گئے تو وہ ان کو واپس لے آئے لیکن یہ اپنے کفر پر قائم رہے ۔ پھر جب رسول اللہ ﷺنے فتح مکہ سے فارغ ہو کر حنین کا قصد کیا تو مکہ تو مکہ کے ایسے بہت سے لوگ بھی آپ کی اجازت سے اس سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ ہو گئے جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ، ان میں یہ صفوان بن امیہ بھی تھے ۔ اسی موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے آہنی زرہیں عاریتاً مانگی تھیں ، تو ان کو یہ شبہ ہوا شاید اب میری یہ زرہیں غصب اور ضبط کر لی جائیں گی اور مجھے واپس نہیں ملیں گی ، انہوں نے صفائی سے اپنے شبہ کا اظہار بھی کر دیا ، آپ نے ان کو اطمینان دلایا کہ “یہ زرہیں تم سے صرف عاریت کے طور پر مانگی جا رہی ہیں ان کی واپسی کی ذمہ داری ہے” ۔ تو انہوں نے وہ زرہیں آپ کے حوالہ کر دیں ۔
اسی غزوہ حنین کے سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہ کر اور آپ کے طور طریقوں اور خاص کر اپنے جیسے قدیمی اور خون کے پیاسے دشمن کے ساتھ آپ کا غیر معمولی حسنِ سلوک دیکھ کر آپ ﷺ کے نبی صادق ہونے کا ان کو یقین ہو گیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ بہرحال یہ صحابی ہیں اور ان سے اس واقعہ کے نقل کرنے والے ان کے بیٹے امیہ بن صفوان بھی صحابی ہیں ۔ رضى الله عنهما وعن سائر الصحابة اجمعين۔
عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَارَ مِنْهُ أَدْرَعَهُ يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَقَالَ: أَغَصْبًا يَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ: «بَلْ عَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ؟» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১৬
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ عاریت (منگنی)
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ نے سے سنا آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے کہ عاریت (والی چیز لازماً) واپس کی جائے ۔ اور منحہ (یعنی جو چیز فائدہ اٹھانے کے لئے دی گئی ہو وہ عرف کے مطابق فائدہ اُٹھا کر مالک کو) لوٹائی جائے گی ۔ اور قرض (حسب قرار داد) ادا کرنا ہو گا ۔ اور کفالت کرنے والا ادائیگی کا ذمہ دار ہو گا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث میں شریعت کے چار حکم بیان کئے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر اپنی ضرورت اور استعمال کے لئے کسی کی کوئی چیز عاریت کے طور پر لی جائے تو اس کا واپس کرنا لازم ہے ، اس میں تساہل نہیں کرنا چاہیے ۔
دوسرا حکم یہ بیان فرمایا گیا کہ “منحہ” کا لوٹانا ضروری ہے ۔ عرب میں رواج تھا کہ فیاض اور فراخ حوصلہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی توفیق دیتا اپنی ملکیت کی کوئی چیز صرف فائدہ اٹھانے اور استعمال کرنے کے لئے دوسرے کسی بھائی کو دے دیتے ۔ مثلاً اپنا اونٹ سواری کے لئے یا اونٹنی یا بکری دودھ پینے کے لئے دے دیتے تھے کہ اس کو اپنے پاس رکھو اور کھلاؤ پلاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ ، یا پھلوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنا باغ یا کاشت کے لئے اپنی زمین بغیر کسی معاوضہ کے دے دیتے ۔ اس کو “منحہ”کہا جاتا تھا۔ تو اس کے بارے میں حکم دیا گیا کہ جس شخص کو “منحہ” کے طور پر کوئی چیز دی گئی وہ اس کو اپنی مِلک نہ بنا لے بلکہ عرف کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا کے اصل مالک کو واپس کر دے ۔ بلاشبہ بڑا مبارک تھا یہ رواج اور کچھ دن پہلے تک ہمارے علاقوں میں بھی یہ رواج تھا ۔ لیکن اب اس طرح کی ساری خوبیاں اور نیکیاں اٹھتی اور مٹتی جا رہی ہیں ، خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور دورہ ہے ۔ فالى الله المشتكى
تیسرا حکم اس حدیث میں یہ بیان فرمایا گیا کہ جس کسی نے اللہ کے کسی بندہ سے قرض لیا ہو وہ اس کے ادا کرنے کا اہتمام کرے ۔ (قرض کی ادائیگی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے سخت تاکیدی ارشادات اور شدید وعیدیں ، اسی سلسلہ معارف الحدیث میں قرض کے زیر عنوان پہلے ذخر کی جا چکی ہیں) ۔
چوتھا حکم یہ بیان فرمایا گیا کہ کسی شخص کے ذمہ اگر کسی دوسرے کا قرض یا کسی قسم کا مالی حق ہو اور کوئی اس کا کفیل اور ضامن بن جائے تو وہ ادائیگی کا ذمہ دار ہے ، یعنی اگر بالفرض اصل مدیون ادا نہ کرے تو اس کفیل اور ضامن کو ادا کرنا پڑے گا ۔
عَنْ أَبِيْ أُمَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ وَالدَّيْنَ مَقْضِيٌّ وَالزَّعِيمَ غَارِمٌ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১৭
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس شخص نے کسی دوسرے کی کچھ بھی زمین ناحق لے لی تو قیامت کے دن وہ اس زمین کی وجہ سے (اور اس کی سزا میں) زمین کے ساتوں طبق تک دھنسایا جائے گا ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اگر کسی کی کوئی چیز قیمت دے کر لی جائے تو شریعت اور عرف میں اس کو بیع و شراء (خرید و فروخت) کہا جاتا ہے اور اگر اجرت اور کرایہ معاوضہ دے کر کسی کی چیز استعمال کی جائے تو شریعت اور عرف میں وہ “اجارہ” ہے اور اگر بغیر کسی معاوضہ اور کرایہ کے کسی کی چیز وقتی طور پر استعمال کے لئے لی جائے اور استعمال کے بعد واپس کر دی جائے تو وہ “عاریت” ہے ۔ یہ سب صورتیں جائز اور صحیح ہیں اور ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات و ارشادات گزشتہ صفحات میں ناظرین کی نظر سے گزر چکے ہیں ۔
کسی دوسرے کی چیز لے لینے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اسی کی مرضی کے بغیر زبردستی اور ظالمانہ طور پر اس کی مملوکہ چیز لے لی جائے ۔ شریعت کی زبان میں اس کا “غصب” کہا اتا ہے اور یہ حرام اور سخت ترین گناہ ہے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل چند ارشادات ناظرین کرام پڑھ لیں ۔

تشریح ..... یہ مضمون رسول اللہ ﷺ سے ایک دو لفظوں کے فرق کے ساتھ متعدد صحابہ کرامؓ سے مروی ہے ۔ حضور ﷺ کےک اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے کی زمین کا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا بھی ناحق غصب کیا (ایک روایت میں ہے کہ اگر صرف بالشت بھر بھی غصب کیا) تو قیامت کے دن اس گناہ کی سزا میں وہ زمین میں دھنسایا جائے گا اور آخری حد تک گویا تحت الثریٰ تک دھنسایا جائے گا ...... اللہ کی پناہ !
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ایک بڑا عبرت آموز واقعہ زمین کے غضب ہی کے بارے میں روایت کیا گیا ہے ۔جس کا تعلق اس حدیث ہی سے ہے اور وہ یہ کہ ایک عورت نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے خلاف (جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں) مدینہ کے اس وقت کے حاکم مروان کی عدالت میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے میری فلاں زمین دبا لی ہے ۔حضرت سعید رضی اللہ عنہ کو اس جھوٹے الزام سے بڑا صدمہ پہنچا انہوں نے مروان سے کہا کہ میں اس عورت کی زمین دباؤں گا اور غصب کروں کروں گا ؟ میں نے تو رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں یہ سخت وعید سنی ہے ....... (یہ بات حضرت سعیدؓ نے دل کے کچھ ایسے تاثر کے ساتھ اور ایسے انداز سے کہی کہ خود مروان بہت متاثر ہوا) اور اس نے کہا کہ اب میں آپ سے کوئی دلیل اور ثبوت نہیں مانگتا ۔ اس کے بعد حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے (دُکھے دل سے) بددعا کی کہ اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ اس عورت نے مجھ پر یہ جھوٹا الزام لگایا ہے تو اس کو آنکھوں کی روشنی سے محروم کر دے اور اس کی زمین ہی کو قبر بنا دے ۔ (واقعہ کے راوی حضرت عروہ کہتے ہیں کہ) پھر ایسا ہی ہوا ۔ میں نے خود اس عورت کو دیکھا ، وہ آخر عمر میں نابینا ہو گئی اور خود کہا کرتی تھی کہ سعید بن زید کی بددعا سے میرا یہ حال ہوا ہے ، اور پھر ایسا ہوا کہ وہ ایک دن اپنی زمین ہی میں چلی جا رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گر پڑی اور بس وہ گڑھا ہی اس کی قبر بن گیا ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اللہ تعالیٰ اس واقعہ سے سبق لینے کی توفیق دے ۔
عَنْ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَخَذَ مِنَ الْأَرْضِ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ» (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক: