মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

کتاب الحج - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ১৩৯ টি

হাদীস নং: ১৮১৮
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی کی کوئی چیز چھین لی اور لوٹ لی وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اگر دل میں ایمان کا ذرہ ہو تو یہ وعید انتہائی سخت وعید ہے کہ کسی کی چیز کا چھیننے والا اور غصب کرنے والا رسول اللہ ﷺ کی جماعت اور آپ ﷺ کے لوگوں میں سے نہیں ہے جس کو آپ ﷺ نے اپنے سے الگ اور دور کر دیا وہ بڑا محروم اور بدبخت ہے ۔
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا» (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮১৯
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
سائب بن یزید اپنے والد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے دوسرے بھائی کی لکڑی اور چھڑی بھی نہ لے نہ ہنسی مذاق میں اور نہ لینے کے ارادہ سے ۔ پس اگر لے لیوے تو اس کو واپس لوٹائے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی بھائی کی لکڑی اور چھڑی کی طرح کی حقیر اور معمولی چیز بھی بغیر اس کی مرضی اور اجازت کے نہ لی جائے ، ہنسی مذاق میں بھی نہ لی جائی اور اگر غفلت یا غلطی سے لی گئی ہو تو واپس ضرور لوٹائی جائے ۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ایسی معمولی چیز کا واپس کرنا کیا ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کی ان ہدایات کی اہمیت محسوس کرنے کی توفیق دے ۔
عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَأْخُذْ أَحَدُكُمْ عَصَا أَخِيهِ لَاعِبًا أَوْ جَادًّا، فَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيهِ فَلْيَرُدَّهَا إِلَيْهِ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২০
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو ! خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی ، مجتبی للدار قطنی)
عَنْ أَبِي حُرَّةَ الرَّقَاشِيِّ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بطِيْبِ نَفْسٍ مِنْهُ» (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২১
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے چند اصحاب و رفقاء کا گزر ایک خاتون کی طرف سے ہوا اور اس نے آپ ﷺ سے کھانا تناول فرمانے کی درخواست کی ۔ آپ ﷺ نے قبول فرما لیا) ۔ تو اس نے ایک بکری ذبح کی اور کھانا تیا رکیا (اور آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے رفقاء کے سامنے حاضر کر دیا) آپ ﷺ نے اس میں سے ایک لقمہ لیا مگر اس کو آپ ﷺ حلق سے نہیں اتار سکے ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے) یہ بکری اصل مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر لی گئی ہے ۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ ہم لوگ (اپنے پڑوسی) معاذ کے گھر والوں سے کوئی تکلف نہیں کرتے ہم ان کی چیز لے لیتے ہیں اور اسی طرح وہ ہماری چیز لے لیتے ہیں ۔ (مسند احمد)

تشریح
جیسا کہ دعوت کرنے والی خاتون کے جواب سے معلوم ہوا واقعہ یہی تھا کہ وہ بکری جو ذبح کی گئی تھی پڑوس کے ایک گھرانے آل معاذ کی تھی اور باہمی اعتماد و تعلق اور رواج و چلن کی وجہ سے ان سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور بکری ذبح کر کے اور کھانا تیار کر کے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے رفقاء کے سامنے پیش کر دیا گیا ، لیکن آپ ﷺ نے جب پہلا ہی لقمہ اس میں سے لیا تو آپ ﷺ کی طبیعت مبارک نے اس کو قبول نہیں کیا اور وہ حلق سے اتر ہی نہیں سکا اور آپ ﷺ پر یہ منکشف کر دیا گیا کہ یہ بکری اصل مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر لی گئی ۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں عام انسانوں کو ایک ذوق اور احساس دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کڑوی کسیلی چیزوں کا کھانا اور حلق سے اتارنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنے بعض خاص بندوں کو جن کو وہ ناجائز غذاؤں سے حفاظت فرمانا چاہتا ہے ایسا ذوق عطا فرمادیتا ہے کہ ناجائز غذا نہ ان سے کھائی جا سکتی ہےاور نہ حلق سے اتاری جا سکتی ہے ۔
مذکورہ بالا واقعہ میں رسول اللہ ﷺ کا لقمہ منہ میں لے لینے کے باوجود نہ کھا سکنا اللہ تعالیٰ کی اسی خاص الخاص عنایت کا ظہور تھا ۔ امت کے بعض اولیاء اللہ سے بھی اسی طرح کے واقعات منقول ہیں ۔ ذالك فضل الله يوتيه من يشاء.
اس واقعہ میں یہ بات خاص طور سے قابلِ غور ہے کہ بکری نہ چرائی گئی تھی ، نہ غصب کی گئی تھی ، بلکہ باہمی اعتماد و تعلق اور رواج و چلن کی وجہ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی تھی اور ذبح کر لی گئی تھی ، اس کے باوجود اس میں ایسی خباثت اور خرابی پیدا ہو گئی کہ حضور ﷺ اس کو نہیں کھا سکے اور حلق سے نہیں اُتار سکے ۔ اس میں سبق ہے کہ دوسروں کی چیز بغیر اجازت لے لینے اور استعمال کرنے کے بارے میں کس قدر احتیاط کرنی چاہئے ۔
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَرُّوا بِأَصْحَابِهِ، فَذَبَحَتْ لَهُمْ شَاةً، وَاتَّخَذَتْ لَهُمْ طَعَامًا، فَأَخَذَ لُقْمَةً، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُسِيغَهَا، فَقَالَ: «هَذِهِ شَاةٌ ذُبِحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ أَهْلِهَا» ، فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّا لَا نَحْتَشِمُ مِنْ آلِ مُعَاذٍ، نَأْخُذُ مِنْهُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَّا. (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২২
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ ہدیہ تحفہ دینا لینا: ہدیہ دِلوں کی کدورت دور کر کے محبت پیدا کرتا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :“آپس میں ہدیے تحفے بھیجا کرو ، ہدیے تحفے دِلوں کے کینے ختم کر دیتے ہیں” ۔ (جامع ترمذی)
عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَهَادَوْا، فَإِن الْهَدِيَّة تذْهب (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২৩
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ ہدیہ تحفہ دینا لینا: ہدیہ دِلوں کی کدورت دور کر کے محبت پیدا کرتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : آپس میں ہدیے تحفے دیا کرو ، ہدیہ سینوں کی کدورت و رنجش دور کر دیتا ہے اور ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے ہدیہ کے لئے بکری کے گھر کے ایک ٹکڑے کو بھی حقیر اور کمتر نہ سمجھے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
تمدنی زندگی میں لین دین کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اپنی کوئی چیز ہدیہ اور تحفہ کے طور پر کسی کو پیش کر دی جائے ۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے ارشادات میں اس کی بڑی ترغیب دی ہے ۔ اس کی یہ حکمت بھی بتلائی ہے کہ اس سے دِلوں میں محبت و اُلفت اور تعلقات میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے جو اس دنیا مٰں بڑی نعمت اور بہت سی آفتوں سے حفاظت اور عافیت و سکون حاصل ہونے کا وسیلہ ہے ۔
ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے اور اس کے ساتھ اپنا تعلق خاطر ظاہر کرنے کے لئے دیا جائے اور اس کے ذریعے رجائے الہی مطلوب ہو ۔ یہ عطیہ اور تحفہ اگر اپنے کسی چھوٹے کو دیا جائے تو اس کے ساتھ اپنی شفقت کا اظہار ہے ، اگر کسی دوست کو دیا جائے تو یہ ازدیادِ محبت کا وسیلہ ہے ، اگر کسی ایسے شخص کو دیا جائے جس کی حالت کمزور ہے تو یہ اس کی خدمت کے ذریعہ اس کی تطییب خاطر کا ذریعہ ہے اور اگر اپنے کسی بزرگ اور محترم کو پیش کیا جائے تو ان کا اکرام ہے اور “نذرانہ” ہے ۔
اگر کسی کو ضرورت مند سمجھ کر اللہ کے واسطے اور ثواب کی نیت سے دیا جائے تو یہ ہدیہ نہ ہو گا صدقہ ہو گا ۔ ہدیہ جب ہی ہو گا جب کہ اس کے ذریعہ اپنی محبت اور اپنے تعلق خاطر کا اظہار مقصود ہو اور اس کے ذریعہ رضائے الہی مطلوب ہو ۔
ہدیہ اگر اخلاص کے ساتھ دیا جائے تو اس کا ثواب صدقہ سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات زیادہ ہو گا ۔ ہدیہ اور صدقہ کے اس فرق کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ شکریہ اور دعا کے ساتھ قبول فرماتے اور اس کو خود بھی استعمال فرماتے تھے ۔ اور صدقہ کو بھی اگرچہ شکریہ کے ساتھ قبول فرماتے اور اس پر دعائیں بھی دیتے لیکن خود استعمال نہیں فرماتے تھے ، دوسروں ہی کو مرحمت فرما دیتے تھے ۔
افسوس ہے کہ امت میں باہم مخلصانہ ہدیوں کی لین دین کا رواج بہت ہی کم ہو گیا ہے ۔ بعض خاص حلقوں میں بس اپنے بزرگوں ، عالموں ، مرشدوں کو ہدیہ پیش کرنے کا تو کچھ رواج ہے لیکن اپنے عزیزوں ، قریبوں ، پڑوسیوں وغیرہ کے ہاں ہدیہ بھیجنے کا رواج بہت ہی کم ہے حالانکہ قلوب میں محبت و الفت اور تعلقات میں خوشگواری اور زندگی میں چین و سکون پیدا کرنے اور اسی کے ساتھ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے یہ رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا “نسخہ کیمیا” تھا ۔ اس تمہید کے بعد ہدیہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل چند ارشادات پڑھئے !

تشریح ..... ہدیے تحفے دینے سے باہمی رنجشون اور کدورتوں کا دور ہونا ، دِلوں میں جوڑ تعلقات میں خوشگواری پیدا ہونا بدیہی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس زریں ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث میں جو یہ اضافہ ہے کہ ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے لئے بکری کے گھر کے ٹکڑے کے ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھے ۔ اس سے حضور ﷺ کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ ہدیہ دینے کے لئے ضروری نہیں کہ بہت بڑھیا ہی چیز ہو ، اگر اس کی پابندی اور اس کا اہتمام کیا جائے گا تو ہدیہ دینے کی نوبت بہت کم آئے گی ۔ اس لئے بالفرض اگر گھر میں بکری کے پائے پکے ہیں تو پڑوسن کو بھیجنے کے لئے اس کے ایک ٹکڑے کو بھی حقیر نہ سمجھا جائے وہی بھیج دیا جائے ۔
(واضح رہے کہ یہ ہدایت اس حالت میں ہے جب اطمینان ہو کہ پڑوسن خوشی کے ساتھ قبول کرے گی اور اس کو اپنی توہین و تذلیل نہ سمجھے گی ، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ماحول ایسا ہی تھا) ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَهَادَوْا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ وَلاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ شِقَّ فِرْسِنِ شَاةٍ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২৪
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ ہدیہ کا بدلہ دینے کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول اور آپ ﷺ کی ہدایت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول و دستور تھا کہ آپ ﷺ ہدیہ تحفہ قبول فرماتے تھے اور اس کے جواب میں خود بھی عطا فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کو جب کوئی محب و مخلص ہدیہ پیش کرتا تو آپ ﷺ خوشی سے قبول فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد “هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ” کے مطابق اس ہدیہ دینے والے کو خود بھی ہدیے اور تحفے سے نوازتے تھے (خواہ اسی وقت عنایت فرماتے یا دوسرے وقت) آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ آپ ﷺ نے امت کو بھی اس طرز عمل کی ہدایت فرمائی اور بلاشبہ مکارم اخلاق کا تقاضا یہی ہے لیکن افسوس ہے کہ امت میں بلکہ خواص امت میں بھی اس کریمانہ سنت کا اہتمام بہت کم نظر آتا ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيْهَا. (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২৫
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ ہدیہ کا بدلہ دینے کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول اور آپ ﷺ کی ہدایت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس شخص کو ہدیہ تحفہ دیا جائے تو اگر اس کے پاس بدلہ میں دینے کے لئے کچھ موجود ہو تو وہ اس کو دے دے اور جس کے پاس بدلہ میں تحفہ دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو وہ (بطور شکریہ کے) اس کی تعریف کرے اور اس کے حق میں کلمہ خیر کہے ، جس نے ایسا کیا اس نے شکریہ کا حق ادا کر دیا اور جس نے ایسا نہیں کیا اور احسان کے معاملہ کو چھپایا تو اس نے ناشکری کی ۔ اور جو کوئی اپنے کو آراستہ دکھائے اس صفت سے جو اس کو عطا نہیں ہوئی تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جو دھوکے فریب کے دو کپڑے پہنے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس کو کسی محب کی طرف سے ہدیہ تحفہ دیا جائے تو اگر ہدیہ پانے والا اس حال میں ہو کہ اس کے جواب اور صلہ میں ہدیہ تحفہ دے سکے تو ایسا ہی کرے اور اگر اس کی مقدرت نہ ہو تو اس کے حق میں کلمہ خیر کہے اور اس کے اس احسان کا دوسروں کے سامنے بھی تذکرہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو بھی شکر سمجھا جائے گا ۔ (اور آگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہو گا کہ “جزاک اللہ” کہنے سے بھی یہ حق ادا ہو جاتا ہے) اور جو شخص ہدیہ تحفہ پانے کے بعد اس کا اخفا کرے ، زبان سے ذکر تک نہ کرتے “جزاک اللہ” جیسا کلمہ بھی نہ کہے تو وہ کفرانِ نعمت اور ناشکری کا مرتکب ہو گا ۔
حدیث کے آخری جملے “ومن تخلى الخ” کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ جو شخص اپنی زبان یا طرز عمل یا خاص قسم کے لباس وغیرہ کے ذریعے اپنے اندر وہ کمال (مثلا عالمیت یا مشخیت) ظاہر کرے جو اس م یں نہیں ہے تو تو وہ اس دھوکہ باز اور فریبی بہروپئیے کی طرح ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے باعزت اور باوقار لوگوں کا لباس پہنے ۔ بعض شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ عرب میں کوئی شخص تھا جو نہایت گھٹیا اور ذلیل درجہ کا آدمی تھا لیکن وہ باعزت اور باوقار لوگوں کے سے نفیس اور شاندار کپڑے پہنتا تھا تا کہ اس کو معززین میں سمجھا جائے اور اس کی گواہی پر اعتبار کیا جائے ، حالانکہ وہ جھوٹی گواہیاں دیتا تھا ۔ اسی کو “لابس ثوبى زور” کہا گیا ہے ۔ ہدیہ تحفہ سے متعلق مذکورہ بالا ہدایت کے ساتھ اس آخری جملہ کے فرمانے سے حضور ﷺ کا مقصد غالباً یہ ہے کہ کہ کوئی شخص جس میں وہ کمالات اور وہ اوصاف نہ ہوں جن کی وجہ سے لوگ ہدیہ وغیرہ پیش کرنا سعادت سمجھتے ہیں ۔ ایسا شخص اگر لوگوں کے ہدیے تحفے حاصل کرنے کے لئے اپنی باتوں اور اپنے لباس اور اپنے طرز زندگی سے وہ کمالات اور اوصاف اپنے لئے ظاہر کر دے تو یہ فریب اور بہروپیا پن ہو گا اور یہ آدمی اس روایتی “ لابس ثوبى زور” کی طرح مکار اور دھوکے باز ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ فَإِنَّ مَنْ أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَ وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَهُ كَانَ كَلاَبِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২৬
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ محسنوں کا شکریہ اور ان کے لئے دعائے خیر
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس نے احسان کرنے والے بندہ کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کیا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی)

تشریح
بظاہر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ جس بندے کے ہاتھ سے کوئی ہدیہ تحفہ ، کوئی نعمت ملے یا وہ کسی طرح کا بھی احسان کرے تو اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کے لئے کلمہ خیر کہا جائے ، تو جس نے ایسا نہیں کیا اس نے خدا کی بھی ناشکری اور نافرمانی کی ۔ بعض شارحین نے اس حدیث کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ جو احسان کرنے والے بندوں کا شکر گزار نہ ہو گا وہ ناشکری کی اس عادت کی وجہ سے اللہ کا بھی شکر گزار نہ ہو گا ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ. (رواه احمد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২৭
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ محسنوں کا شکریہ اور ان کے لئے دعائے خیر
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی پر کسی نے کوئی احسان کیا اور اس نے اس محسن کے لئے یہ کہہ کے دعا کی کہ “جزاک اللہ خیرا” (اللہ تعالیٰ تم کو اس کا بہتر بدلہ اور صلہ عطا فرمائے) تو اس نے (اس دعائیہ کلمہ ہی کے ذریعہ) اس کی پوری تعریف بھی کر دی ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
“جزاک اللہ خیرا” بظاہر صرف دعائیہ کلمہ ہے لیکن اللہ کا بندہ کسی احسان کرنے والے کے لئے ان الفاظ میں دعا کرتا ہے تو گویا وہ اس کا اظہار و اعتراف کرتا ہے کہ میں اس کا بدلہ دینے سے عاجز ہوں بس میرا کریم پروردگار ہی تم کو اس کا اچھا بدلہ دے سکتا ہے میں اس سے عرض و استدعا کرتا ہوں کہ تمہارے اس احسان کا وہ اپنی شانِ عالی کے مطابق بہتر بدلہ عطا فرمائے ۔ اس طرح اس دعائیہ کلمہ میں اس احسان کرنے والے کی تعریف اور اس کے احسان کی قدر شناسی بھی مضمر ہے ۔
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২৮
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ محسنوں کا شکریہ اور ان کے لئے دعائے خیر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے (اور مہاجرین نے انصار کی میزبانی اور ان کے ایثار کا تجربہ کیا) ت ایک دن مہاجرین نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم نے کہیں ایسے لوگ نہیں دیکھے جیسے یہ لوگ ہیں جن کے ہاں آگے ہم اُترتے ہیں (یعنی انصارِ مدینہ) زیادہ ہو تو اس کو (فراخ حوصلگی اور دریا دِلی سے ہماری میزبانی پر)خوب خرچ کرنے والے اور (کسی کے پاس)تھوڑا ہو تو اس سے بھی ہماری غم خواری اور مدد کرنے والے ، انہوں نے محنت مشقت کی ساری ذمہ داری ہماری طرف سے بھی اپنے ذمہ لے لی ہے اور منفعت میں ہم کو شریک کر لیا ہے (ان کے اس غیر معمولی ایثار سے)ہم کو اندیشہ ہے کہ سارا اجر و ثواب انہی کے حصہ میں آ جائے (اور آخرت میں ہم خالی ہاتھ رہ جائیں) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ، ایسا نہیں ہو گا جب تک اس احسان کے عوض تم ان کے حق میں دعا کرتے رہو گے اور ان کے لئے کلمہ خیر کہتے رہو گے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
جب رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ پاک تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ مہاجرین کی بھی اچھی خاصی جماعت تھی جو آپ ﷺ سے پہلے یا آپ ﷺ کے بعد اپنے اپنے گھر چھوڑ کے مدینہ طیبہ آئے تو جیسا کہ معلوم ہے ابتدائی ایام میں ان سب کو مدینہ طیبہ کے انصار نے للہ فی اللہ اپنا مہمان بنا لیا ۔ کھیتی باڑی اور دوسرے کاموں میں خود محنت کرتے اور جو کچھ حاصل ہوتا اس میں مہاجرین کو شریک کر لیتے ۔ ان انصار میں اچھے دولت مند بھی تھے اور نادار غربا بھی لیکن اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مہاجرین کی خدمت میں سب حصہ لیتے ، جو دولت مند تھے وہ پوری دریا دلی سے مہاجرین پر اپنی دولت بےدریغ خرچ کرتے اور غربا تھے وہ بھی اپنا پیٹ کاٹ کے ان کی خدمت اور مہمان داری کرتے تھے ۔ اس صورت حاس سے مہاجرین کے دلوں میں یہ خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انصار کے اس غیر معمولی ایثار و احسان کی وجہ سے ہماری ہجرت اور عبادات وغیرہ کا ثواب بھی ہمارے انہی محسن میزبانوں کے حصہ میں آ جائے اور ہم خسارہ میں رہیں ۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں اپنا یہ خدشہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے اطمینان دلایا کہ ایسا نہ ہو گا ، شرط یہ ہے کہ تم ان کے اس احسان کے عوض ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور دل و زبان سے ان کے احسان کا اعتراف اور شکر گزاری کرتے رہو ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اتنے ہی عمل کو ان کے احسان کے بدلے اور شکریے کے طور پر قبول فرما لے گا اور تمہاری طرف سے ان کے اس احسان و ایثار کا پورا بدلہ اپنے خزانہ کرم سے عطا فرمائے گا ۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلاَ أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَإِ حَتَّى خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالأَجْرِ كُلِّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮২৯
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ وہ چیزیں جن کا ہدیہ قبول ہی کرنا چاہیے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس کسی کو ہدیہ کے طور پر خوشبودار پھول پیش کیا جائے تو اس کو چاہیھ کہ وہ اس کو بھی قبول ہی کرے رَد نہ کرے کیوں کہ وہ بہت ہلکی اور کم قیمت چیز ہے اور اس کی خوشبو باعثِ فرحت ہے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
پھول جیسی کم قیمت چیز قبول کرنے سے اگر انکار کیا جائے تو اس کا بھی اندیشہ ہے کہ بےچارے پیش کرنے والے کو خیال ہو کہ میری چیز کم قیمت ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کی گئی اور اس سے اس کی دل شکنی ہو ۔ اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ “جس کو خوشبودار پھول کا ہدیہ دیا جائے وہ واپسی نہ کرے کیوں کہ خوشبودار پھول جنت کا تحفہ ہے اور صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے خود حضور ﷺ کا یہ معمول بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ خوشبو کا ہدیہ واپس نہیں فرماتے تھے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ عُرِضَ عَلَيْهِ رَيْحَانٌ فَلاَ يَرُدُّهُ فَإِنَّهُ خَفِيفُ الْمَحْمِلِ طَيِّبُ الرِّيحِ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৩০
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ وہ چیزیں جن کا ہدیہ قبول ہی کرنا چاہیے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تین چیزیں (بالخصوص) ایسی ہیں جن کو رد نہیں کرنا چاہئے ، قبول ہی کر لینا چاہئے تکیہ اور تیل اور دودھ ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
ان تینوں چیزوں کی خصوصیت یہی ہے کہ دینے والے پر ان کا زیادہ بار نہیں پڑتا اور جس کو دی جائیں وہ ان کو استعمال کر کے ان سے فائدہ اٹھاتا ہے جس سے دینے والے کا جی خوش ہوتا ہے ۔ اور بھی جو چیزیں اس حیثیت کی ہوں ان کو بھی انہی پر قیاس کر لینا چاہئے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلاَثٌ لاَ تُرَدُّ الْوَسَائِدُ وَالدُّهْنُ وَاللَّبَنُ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৩১
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ ہدیہ دے کر واپس لینا بڑی مکروہ بات
حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا : کسی آدمی کے لئے یہ جائز اور درست نہیں ہے کہ وہ کسی کو کوئی چیز عطیہ کے طور پر دے دے پھر اس کو واپس لے ۔ ہاں اگر باپ اپنی اولاد کو کچھ دے تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے (یعنی اس کے لئے واپسی کی گنجائش ہے ۔ کیوں کہ اولاد پر باپ کا ہر طرح کا حق ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہدیہ اور عطیہ کی واپسی کی قباحت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) جو شخص ہدیہ اور عطیہ دے کر واپس لے اس کی مثال اس کتے کی سی ہے کہ اس نے ایک چیز کھائی یہاں تک کہ جب خوب پیٹ بھر گیا تو اس کو قے کر کے نکال دیا ، پھر اپنی اسی قے ہی کو کھانے لگا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
ہدیہ دے کر واپس لینے کے لئے اس سے زیادہ صحیح اور موثر کوئی مثال نہیں ہو سکتی ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً ثُمَّ يَرْجِعَ فِيهَا إِلاَّ الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ. (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৩২
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ کن لوگوں کا ہدیہ لینا منع ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : امام وقت (یعنی حاکم اور فرمانروا) کے ہدیے “غلول” (یعنی ایک طرح کی خیانت اور رشوت اور ناجائز استحصال کے قبیل سے) ہیں ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَدَايَا الْإِمَامِ غُلُولٌ» (رواه الطبرانى فى الاوسط)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৩৩
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ کن لوگوں کا ہدیہ لینا منع ہے
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس نے کسی شخص کے لئے (کسی معاملہ میں) سفارش کی تو اگر اس شخص نے اس سفارش کرنے والے کو کوئی ہدیہ پیش کیا اور اس نے وہ ہدیہ قبول کر لیا تو وہ سود کی ایک بڑی خراب قسم کے گناہ کا مرتکب ہوا ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
حضرت جابر اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما کی ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ہدیہ وہی قابلِ قبول ہے جو اخلاص کے ساتھ ہو اور غلط قسم کے اغراض کا شبہ اور شائبہ بھی نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو توفیق دے کہ رسول اللہ ﷺ کی لین دین کے سلسلہ کی ان تمام ہدایات کی روح کو سمجھیں اور ان کی پابندی اور پیروی کو اپنی زندگی کا اصول بنائیں ۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ شَفَعَ لِأَحَدٍ شَفَاعَةً فَأَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً عَلَيْهَا فَقَبِلَهَا فَقَدْ أَتَى بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৩৪
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ وقف فی سبیل اللہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ میرے والد ماجد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی ہے (وہ نہایت نفیس اور قیمتی ہے) اس سے بہتر کوئی مالیت میں نے نہیں پائی ، آپ ﷺ س بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو تو ایسا کرو کہ اصل زمین کو محفوظ (یعنی وقف) کر دو اور (س کی پیداوار اور آمدنی کو) صدقہ قرار دے دو ۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس کو (اسی طرح وقف کر دیا اور) فی سبیل اللہ صدقہ قرار دے دیا اور طے فرما دیا کہ یہ زمین نہ کبھی بیچی جائے ، نہ ہبہ کی جائے نہ اس میں وراثت جاری ہو ، اور اس کی آمدنی اللہ کے واسطے خرچ ہو فقیروں ، مسکینوں اور اہلِ قرابت پر اور غلاموں کو آزاد کرانے کی مد میں اور جہاد کے سلسلہ میں اور مسافروں اور مہمانوں کی خدمت میں ۔ اور جو شخص اس کا متولی اور منتظم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ مناسب حد تک اس میں سے خود کھائے اور کھلائے بشرطیکہ اس کے ذریعہ مال جوڑنے اور مالدار بننے والا نہ ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ہدیہ اور صدقہ و خیرات جیسے باعثِ ثواب مالی معاملات و تصرفات میں سے ایک وقف بھی ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عرب کے لوگ رسول اللہ ﷺ سے پہلے وقف کے تصور اور طریقہ سے واقف نہیں تھے ، آپ ﷺ ہی نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی سے اس کی تعلیم و ترغیب دی ۔ وقف کی حقیقت یہ ہے کہ جائیداد جیسی باقی رہنے والی اپنی کوئی مالیت ، جس کا نفع جاری رہنے والا ہو اپنی طرف سے مصارف خیر کے لئے محفوظ کر دی جائے ۔ اس کی پیداوار یا آمدنی وقف کرنے والے کی منشاء کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ مصارف خیر میں صرف ہوتی رہے ، اور خود وقف کرنے والا اپنے مالکانہ حق تصرف سے ہمیشہ کے لئے دَست بردار ہو جائے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھی جائیں ۔

تشریح ..... یہ حدیث وقف کے باب میں اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ۷؁ھ میں خیبر جنگ کے نتیجہ میں فتح ہوا تھا ، وہاں کی زمین عام طور سے بڑی زرخیز تھی ، فتح کے بعد اس کی زمینوں کا قریبا نصف حصہ رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین میں تقسیم کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حصہ میں جو قطعہ زمین آیا انہوں نے محسوس کیا کہ میری ساری مالیت میں وہ نہایت قیمتی اور گرانقدر چیز ہے ۔ اور قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ “لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ” (تم نیکی اور مقبولیت کا مقام اس وقت تک حاصل نہیں سکو گے جب تک کہ اپنی محبوب و مرغوب چیزیں راہِ خدا میں صرف نہ کر دو گے) اس بناء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ آیا کہ خیبر کی یہ جائیداد جو میرے حصہ میں آئی ہے اور س سے بہتر قیمتی کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے میں اس کو فی سبیل اللہ خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور سعادت حاصل کر لوں ۔ لیکن خود فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس کے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی میرے لئے سب سے بہتر صورت کیا ہے ۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے بارے میں رہنمائی چاہی ۔ تو آپ ﷺ نے ان کو وقف کرنے کا مشورہ دیا تا کہ وہ صدقہ جاریہ رہے ۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس کو وقف کر دیا اور اس کے مصارف بھی متعین فرما دئیے ۔ یہ مصارف قریب قریب وہی ہیں جو قرآن پاک میں زکوٰۃ کے بیان مٰں فرمائے گئے ہیں ۔ (سورہ توبہ ، آیت ۶۰)
آخر میں وقف کے متولی اور اس کا انتظام و اہتمام کرنے والے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے تو اس میں سے کچھ نہ لے لیکن کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال اور مہمانوں وغیرہ کو کھلانے کے لئے اس میں سے بحد مناسب لے سکتا ہے ، یہ اس کے لئے جائز ہے ۔
(شریعت کے دوسرے ابواب کی طرح وقف کے مسائل بھی کتب فقہ میں دیکھے جائیں)
عَنِ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالاً قَطُّ هُوَ أَنْفَسُ عِنْدِي مِنْهُ فَمَا تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا. قَالَ فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لاَ يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ. وَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَفِي الْقُرْبَى وَفِي الرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৩৫
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ وقف فی سبیل اللہ
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں میں عرض کیا کہ حضرت ! میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ، (میں ان کے لئے کچھ صدقہ کرنا چاہتا ہوں) تو کون سا صدقہ زیادہ بہتر اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی (یعنی کہیں کنواں بنوا دینا اور اس کو وقفِ عام کر دینا جس سے اللہ کے بندے اپنی پینے وغیرہ کی ضرورتوں کے لئے پانی حاصل کرتے رہیں) چنا نچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوا اور بنوا دیا اور کہا کہ یہ میری والدہ ام سعد کے لئے ہے (کہ اس کا ثواب ان کو پہنچتا رہے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)

تشریح
اس واقعہ کی بعض روایات میں یہ تفصیل ذکر کی گئی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کا جب انتقال ہوا تو وہ سفر تو وہ سفر میں تھے ، سفر سے واپسی پر وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری دعدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا ، میرا خیال ہے کہ اگر میں موجود ہوتا تو وہ اپنی آخرت کے لئے صدقہ وغیرہ کی وصیت کریں ۔ اب میں ان کے ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرنا چاہتا ہوں تو کس طرح کا صدقہ بہتر اور ان کے حق میں زیادہ ثواب کا باعث ہو گا ؟ آپ ﷺ نے ان کو کنواں بنوا دینے کا مشورہ دیا ، چنانچہ انہوں نے ایسی جگہ پر جہاں اس کی ضرورت تھی ، کنواں بنوایا اور اپنی والدہ کے نام پر یعنی ان کے ایصال ثواب کے لئے اس کو وقف کر دیا ۔ بعض روایات میں باغ وقف کرنے کا بھی ذکر ہے ، ہو سکتا ہے کہ سی باغ میں کنواں بنوایا ہو ۔
حضور ﷺ کے زمانہ میں اور آپ ﷺ کی ہدایت پر وقف کی یہ دوسری مثال ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کسی مرنے والے کو ثواب پہنچانے کی نیت سے کوئی نیک کام کرنا صحیح ہے اور ایصالِ ثواب کا نظریہ برحق ہے اور اصولی درجہ میں اس پر ائمہ اہل سنت کا اتفاق ہے ۔
عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّيْ مَاتَتْ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ. قَالَ فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ هَذِهِ لأُمِّ سَعْدٍ. (رواه ابوداؤد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৩৬
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ وقف فی سبیل اللہ
ثمامہ بن حزن قشیری (تابعی) نے بیان کیا کہ میں اس وقت حضرت رضی اللہ عنہ کے گھر کے قریب موجود تھا(جب بایوں کے لشکر نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا) تو انہوں نے مکان کے اوپر سے ان کو دیکھا اور مجمع سے مخاطب ہو کر کہا ، میں تم کو اللہ اور اسلام کا واسطہ دیتا ہوں اور تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بات تمہارے علم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو “بیر رومہ” کے علاوہ میٹھے پانی کا کوئی کنواں نہیں تھا (اور وہ کسی شخص کی ملکیت) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی ہے اللہ کا بندہ جو بیر رومہ کو خرید کے عام مسلمانوں کے لئے وقف کر دے کہ اس کی طرح عام مسلمانوں کو اس سے پانی لینے کا حق ہو اور اللہ تعالیٰ جنت میں اس کو اس سے بہتر دے ، تو میں نے اپنی ذاتی رقم سے اس کو خرید لیا (اور وقف عام کر دیا) اور آج تم مجھے اس کا پانی بھی نہیں پینے دیتے اور مجبور کرتے ہو کہ سمندر کا ساکھاری پانی پیئوں ۔ لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں خداوندا ! (ہم کو اس کا علم ہے) اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں تم کو اللہ کا اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ مسجد نبوی نمازیوں کے لئے بہت تنگ ہو گئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ اللہ کا کوئی بندہ ہے جو فلاں گھرانے کی زمین کا قطعہ (جو مسجد کے قریب ہے) خرید کے مسجد میں شامل کر دے ، تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ جنت میں اس سے بہتر اس کو عطا فرمائے ، تو میں نے اپنی ذاتی رقم سے اس کو خرید لیا تھا (اور مسجد میں شامل کر دیا تھا) اور آج تم لوگ مجھے اس میں دو رکعت نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے ہو ۔ تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ خداوندا ! یہ بھی ہمارے علم میں ہے ، اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ کیا تم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ (رسول اللہ ﷺ کی ترغیب و ایماء پر) تبوک کے لشکر کا ساز و سامان میں نے اپنی ذاتی رقم سے کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ خداوندا یہ بھی ہمارے علم میں ہے ۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں خدا کا اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ واقعہ تمہارے علم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر اور عمر تھے اور میں بھی تھا تو پہاڑ ملنے لگا یہاں تک کہ کچھ پتھر اس کے نیچے گر گئے تو آپ ﷺ نے اس پر اپنے قدم شریف سے ضرب لگائی اور فرمایا ثبیر ساکن ہو جا ! تیرے اوپر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں ۔ (حضرت عثمانؓ کی اس بات کے جواب میں بھی) لوگوں نے کہا کہ خداوند ا! ہاں ہم کو اس کا بھی علم ہے ۔ اس وقت حضرت عثمانؓ نے کہا “اللہ اکبر ! ربِ کعبہ کی قسم یہ لوگ بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں شہید ہوں” ۔ یہ بات حضرت عثمانؓ نے تین دفعہ فرمائی ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی)

تشریح
اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دو وقفوں کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ترغیب اور اپیل پر آپؓ نے کئے ۔ پہلے بیر رومہ کا وقف جو غالباً اسلام میں سب سے پہلا وقف ہو گا کیوں کہ وہ اس وقت عمل میں آیا جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے ، اس سے پہلے مکہ معظمہ میں کسی وقف کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ دوسرا وقف اس زمین کا جو انہوں نے خرید کر مسجد نبوی میں شامل کی ۔
یہ حدیث جیسا کہ ظاہر ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب کے باب کی ہے اور اکثر کتب حدیث میں اسی باب کے تحت درج کی گئی ہے لیکن چونکہ اس میں حضرت عثمانؓ کے دو وقفوں کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ترغیب پر کئے گئے تھے اس لئے یہاں اس کا درج کرنا مناسب سمجھا گیا ۔
اس حدیث میں عبرت کا بڑا سامان ہے ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ان فضائل و مناقب اور ان کارناموں سے اور ن بشارتوں سے جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق میں دی تھیں ۔ ان کے زمانہ کے لوگ عام طور سے واقف تھے ۔ اور یہ باتیں ایسی مشہور و مسلم تھیں کہ کسی کو انکار کی مجال نہیں تھی لیکن جن لوگوں پر شیطان سوار تھا اور جن کے لئے شقاوت مقدر ہو چکی تھی انہوں نے اس سب کے باوجود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نہایت ظالمانہ طریقہ سے شہید کیا ۔ اور پھر امت پر اس کااجتماعی عذاب یہ آیا کہ باہم قتل و قتال کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ۔
عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ قَالَ أَنْشُدُكُمْ اللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ فَقَالَ: مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ. فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ. قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ. فَقَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلاَنٍ فَيَزِيدُهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ. فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهَا رَكْعَتَيْنِ. فَقَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ حَتَّى تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيضِ قَالَ فَرَكَضَهُ بِرِجْلِهِ قَالَ: اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ. قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ شَهِدُوا لِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ أَنِّي شَهِيدٌ ثَلاَثًا. (رواه الترمذى والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৩৭
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ وصیت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : کسی ایسے مسلمان بندے کے لئے جس کے پاس کوئی ایسی چیز (جائیداد یا سرمایہ یا امانت اور قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہئے تو درست نہیں کہ وہ دو راتیں کزار دے ، مگر اس حال میں کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا ، اس کے پاس ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مالی معاملات و تصرفات کے ابواب میں سے ایک “وصیت” کا باب بھی ہے ۔ وصیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص جس کے پاس جائیداد یا کسی شکل میں سرمایہ ہو ، وہ یہ طے کر دے کہ میری فلاں جائیداد یا سرمایا کا اتنا حصہ میرے انتقال کے بعد فلاں مصرف خیر میں صرف کیا جائے یا فلاں شخص کو دے دیا جائے ۔ شریعت میں اس طرح کی وصیت کو قانونی حیثیت حاصل ہے ، اور اس کے خاص شرائط اور احکام ہیں جن میں سے بعض ذیل میں درج ہونے والی حدیثوں سے بھی معلوم ہوں گے اور مزید تفصیلی احکام کتب فقہ میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اپنے متروکہ مال کے بارے میں اس طرح کی وصیت اگر لوجہ اللہ اور ثواب آخرت کی نیت سے کی گئی ہے تو ایک طرح کا صدقہ ہے اور شریعت میں اس کی ترغیب دی گئی ہے ۔ اور اگر کسی کے پاس کسی کی کوئی چیا امانت کے طور پر رکھی ہے ، یا اس پر کسی شخص کا قرض ہے یا کسی طرح کا حق ہے تو اس کی واپسی اور ادائیگی کی وصیت کرنا واجب ہے اور جو بھی وصیت ہو اس کو لکھ کر محفوظ کر دینا چاہئے ۔ اس باب کی چند حدیثیں ذیل میں مطالعہ کی جائیں ۔

تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ وصیت کرنے اور وصیت نامہ لکھنے یا لکھانے کے اس کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ جب موت قریب نظر آئے گی اس وقت وصیت کر دیں گے ۔ بلکہ ہر مرد مومن کو چاہئے کہ وہ ہر وقت موت کو قریب سمجھے اور اپنا وصیت نامہ تیار رکھے ، دو دن بھی ایسے گزرنے نہیں چاہیئں کہ وصیت نامہ موجود نہ ہو ۔
مطلب یہ ہے کہ اس معاملہ میں سستی اور تاخیر نہ کی جائے ۔ معلوم نہیں کہ موت کا فرشتہ کس وقت آ جائے ۔ حضرت ابنِ عمرؓ سے اس حدیث کی روایت کرنے والے ان کے خادم نافع کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد سننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ میرا وصیت نامہ میرے پاس نہ ہو ۔
افسوس ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کا رواج امت میں اب بہت ہی کم ہے ۔ بس خواص بلکہ اخص الخواص کو اس کی توفیق ہوتی ہے ، حالانکہ اس میں دنیوی لحاظ سے بھی بہت بڑی خیر ہے ، وصیت نامہ کے ذریعہ عزیزوں ، قریبوں اور وارثوں کے درمیان بعد میں اٹھنے والے بہت سے نزاعات اور جھگڑوں کا بھی انسداد ہو سکتا ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شيءٌ يُوصَي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক: