মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

کتاب الحج - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ১৩৯ টি

হাদীস নং: ১৭৭৮
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سود اگرچہ کتناہی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا آخری انجام قلت اور کمی ہے ۔
(مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
اگرحدیث کے لفظ عاقبۃ سے اخروی انجاممراد لیا جائے تو ظاہر ہے کہ کسی صاحبِ ایمان کو اس میں شک شبہ نہیں ہو گا ، عالم آخرت میں پہنچ کر ہم سب دیکھ لیں گے کہ جن لوگوں نے سود کے ذریعہ اپنی دولت میں اضافہ کیا اور یہاں وہ لکھ پتی کروڑ پتی ہو گئے ، آخرت میں وہ بالکل مفلس کوڑی کوڑی کے محتاج ہوں گے اور ان کی وہ دولت ہی ان کے لئے وبال اور عذاب ہو گی ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اطلاع دی ہے ۔ اور اگر حدیث کا مطلب یہ لیا جائے کہ سود کے ذریعہ دولت خواہ کتنی ہی بڑھ جائے لیکن آخر کار دنیا میں بھی اس پر زوال آئے گا تو طاہر نبیوں کو تو اس میں شک اور کلام ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جن کو حقائق دیکھنے والی نگاہ دی ہے انہیں اس میں بھی کوئی شک شبہ نہ ہو گا ۔ بکثرت ایسے واقعات مشہور ہیں کہ ایک شخص سود کے ذریعہ اپنی دولت میں اضافہ کرتا رہا اور وہ اپنے وقت کا قارون بن گیا ، پھر کبھی اس شخص کی زندگی ہی میں اور کبھی اس کے بعد کوئی ایسا حادثہ رونما ہوا اور ایسی کوئی آفت آئی جس نے سارا حساب برابر کر دیا اور کبھی کبھی تو وہ لکھ پتی اور کروڑ پتی دیوالیہی اور محتاج ہو کر رہ گیا ۔ اور یہ بات سو فیصدی مشاہدہ اور تجربہ میں ہے کہ سود خور لوگ اس حقیقی راحت اور عزت و احترام سے یکسر محروم رہتے ہیں جو دولت کا اصل مقصد اور ثمرہ ہے ، اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ کوئی سود خور سودی کاروبار کے ذریعہ خواہ کتنی ہی دولت پیدا کر لے وہ دولت کے حقیقی لطف و ثمرہ سے ہمیشہ محروم ہی رہتا ہے ، اس حساب سے وہ دولت مند ہونے کے باوجود مفلس اور تہی دست ہی ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا ” (ربا اور سود سے کمائی ہوئی دولت کو اللہ تعالیٰ برکت سے محروم رکھتا ہے اور اس پر دیر سویر بربادی آتی ہے) حضرت ابن مسعودؓ کی اس حدیث میں اسی ارشادِ خداوندی کی ترجمانی کی گئی ہے ۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « إِنَّ الرِّبَا وَإِنْ كَثُرَ، فَإِنَّ عَاقِبَتَهُ تَصِيرُ إِلَى قُلٍّ» (رواه احمد وابن ماجه والبيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৭৯
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ہر شخص سود کھانے والا ہو گا ، (کوئی بھی اس سے محفوظ نہ ہو گا اگر خود سود نہ بھی کھاتا ہو گا تو اس کے بخارات یا اس کا غبار ضرور اس کے اندر پہنچے گا) ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس ارشاد سے حضور ﷺ کا مقصد مستقبل کے بارے میں صرف ایک پیشن گوئی کرنا نہیں ہے بلکہ اصل مقصد امت کو خبردار کرنا ہے کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب سود کی وباء عام ہو جائے گی اور اس سے محفوظ رہنا بہت ہی دشوار ہو گا ۔ لہذا چاہیے کہ ہر صاحبِ ایمان اور صاحبِ تقویٰ اس بارے میں چوکنا رہے اور اپنے کو اس لعنت سے محفوظ رکھنے کی فکر اور کوشش کرتا رہے ۔ یقیناً ہمارا زمانہ بھی وہی زمانہ ہے ، اللہ کے جو بندے سود کو لعنت سمجھتے اور بتوفیق خداوندی اس سے پرہیز کرتے ہین وہ بھی اپنا غذائی سامان یا پہننے کا کپڑا جن دکانداروں سے خریدتے ہیں ان کے کاروبار کا رشتہ بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی نہ کسی سودی سلسلہ سے ضرور ہے ، آج کل کسی کاروباری سلسلہ کا اس سے محفوظ رہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا جنگل کے کسی درخت کا ہوا سے محفوظ رہنا ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى أَحَدٌ إِلَّا أَكَلَ الرِّبَا، فَإِنْ لَمْ يَأْكُلْهُ أَصَابَهُ مِنْ بُخَارِهِ» وَيُرْوَى « مِنْ غُبَارِهِ» (رواه احمد وابوداؤد والنسائى وابن ماجة)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮০
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سونے کی بیع سونے کے بدلے اور چاندی کی چاندی کے بدلے اور گیہوں کی گیہوں کے بدلےاور جَو کی جَو کے بدلے اور کھجوروں کی کھجوروں کے بدلے اور نمک کی نمک کے بدلے یکساں اور برابر اور دست بدست ہونی چاہئے ، اور جب اجناس مختلف ہوں تو جس طرح چاہو فروخت کرو بشرطیکہ لین دین دست بدست ہو۔ (صحیح مسلم)
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَجْنَاسُ، فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ، إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮১
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : سونا سونے کے عوض اور چاندی چاندی کے عوضاور گیہوں گیہوں کے عوض اور جَو جَو کے عوض اور کھجوریں کھجوروں کے عوض دست بدست برابر سرابر بیچا خریدا جائے ۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا تو اس نے سود کا معاملہ کیا (اور وہ سود کے گناہ کا مرتکب ہوا) اس میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس مضمون کی حدیثیں اس حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری کے علاوہ حضرت عمر ، حضرت عبادہ بن صامت حضرت ابو بکرہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ اور بھی متعدد صحابہ کرام سے مروی ہیں ۔ ان کا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ جن چھ چیزوں کا اس حدیث میں ذکر کیا ہے (یعنی سونا ، چاندی ، گیہوں ، جَو ، کھجور ، نمک) اگر ان میں سے کسی جنس کا اسی جنس سے تبادلہ کیا جائے (مثلاً گیہوں دے کر اس کے بدلے میں گیہوں لئے جائیں) تو یہ معاملہ جب جائز ہو گا جب برابر برابر اور دست بدست لیا جائے ۔ اگر کمی بیشی ہوئی یا لین دین دست بدست (ہاتھ کے ہاتھ) نہ ہوا بلکہ قرض ادھار کی بات ہوئی تو جائز نہ ہو گا بلکہ یہ ایک طرح کا سود کا معاملہ ہو جائے گا اور دونوں فریق سود کے مرتکب اور گنہگار ہوں گے ۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے “حجۃ اللہ البالغہ” میں ان حدیثوں کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اور اس سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جس ربا (سود) کا رواج تھا اور جس کو “ربا” کہا جاتا تھا وہ قرض ادھار والا ہی سود تھا جس کی صورت (جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا) یہ تھی کہ جو سرمایہ دار مہاجن سودی کاروبار کرتے تھے ، ضرورت مند لوگ ان سے قرض لیتے تھے اور طے ہو جاتا تھا کہ اتنے اضافہ کے ساتھ فلاں وقت تک وہ یہ قرض ادا کر دیں گے ، پھر اگر مقررہ میعاد پر وہ ادا نہ کر سکتے تو اور مہلت لے لیتے اور اس مہلت کے حساب میں سود کی رقم میں اور اضافہ طے ہو جاتا (شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ) اسی سودی کاروبار کا رواج تھا اور اسی کو “ربا” کہا جاتا تھا ، قرآن مجید میں براہ راست اسی کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے خرید و فروخت کی بعض صورتوں کے بھی ربوا کے حکم میں داخل ہونے کا اعلان فرمایا اور ان سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی ۔ ان حدیثوں مٰں اسی کا اعلان فرمایا گیا ہے ۔ اور مقصد و مدعا یہ ہے کہ جن چھ چیزوں کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ان میں کسی جنس کا بھی اگر اسی جنس سے تبادلہ کیا جائے تو کسی طرف کمی بیشی نہ ہو بلکہ برابر برابر ہو اور لین دین ہاتھ کے ہاتھ ہو اگر تبادلہ میں کمی بیشی ہوئی یا لین دین ہاتھ کے ہاتھ نہ ہوا تو یہ ربوا اور سود کی ایک قسم ہو گی اور دونوں فریق گنہگار ہوں گے ۔
حضرت شاہ صاحبؒ نے اپنے معمول کے مطابق اس حکم کی جو حکمت بیان فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تعیش اور “رفاہیت بالغہ” یعنی زیادہ بلند معیار اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی پسند نہیں فرماتا کیاں کہ جو شخص بہت اونچے معیار کی تعیش کی زندگی گزارے گا وہ لازمی طور پر طلب دنیا میں زیادہ منہمک ہو گا اور آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے اور روح کے تزکیہ کی فکر سے وہ اسی حساب سے غافل ہو گا ، علاوہ ازیں معاشرہ میں زیادہ اونچ نیچ سے جو طرح طرح کے مفاسد پیدا ہوتے ہیں وہ بھی پیدا ہوں گے اور تعیش اور اعلیٰ معیار زندگی ہی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز بڑھیا سے بڑھیا اور اعلیٰ معیار کی استعمال کی جائے ، گیہوں اعلیٰ قسم ہی کا کھایا جائے ، کھجوریں اعلیٰ قسم ہی کی کھائی جائیں ، سونا اور چاندی اعلیٰ معیار ہی کی استعمال کی جائیں جس کی عملی صورت اکثر یہی ہوتی تھی کہ اگر اپنے پاس اعلیٰ درجہ کی چیز نہیں ہے بلکہ معمولی درجہ کی ہے تو وہ زیادہ مقدار میں دے کر ان کے بدلے میں اعلیٰ معیار کی تھوڑی مقدار میں لے لی جائے ، بہرحال کمی بیشی کے ساتھ ایک جنس کا اسی جنس سے تبادلہ عموماً تعیش اور اعلیٰ معیار زندگی کے تقاضے سے ہی کیا جاتا تھا تو اس کی ممانعت کے ذریعہ اس کے راستہ میں رکاوٹ ڈالی گئی اور ایک حد تک اس کا سد باب کیا گیا ۔ والله اعلم باسرار احكامه.
حدیث میں صرف مذکورہ بالا چھ چیزوں کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے لیکن امت کے فقہا مجتہدین کا اس پر قریبا اتفاق ہے کہ ان چھ چیزوں کے علاوہ بھی جو چیزیں اس نوعیت کی ہیں ان کا حکم بھی یہی ہے اگرچہ تفصیلات میں فقہا کی رایوں میں کچھ فرق و اختلاف ہے ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ اسْتَزَادَ، فَقَدْ أَرْبَى، الْآخِذُ وَالْمُعْطِي فِيهِ سَوَاءٌ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮২
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بہت اچھی قسم کی (برنی) کھجوریں لائے ۔ حضور ﷺ نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجوریں تھیں میں نے وہ دو صاع دے کر یہ برنی ایک صاع خرید لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اوہو ! یہ تو عین ربا ہوا ، آئندہ ایسا کبھی نہ کرو ، جب تم (کھجوروں سے) کھجوریں خریدنی چاہو تو پہلے اپنی کھجوریں بیچ دے ۔ پھر ان کی قیمت سے دوسری کھجوریں خرید لو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ (جو یقینا اس سے ناواقف نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ربوا کو حرام قرار دیا ہے) انہوں نے جس طرح کھجوریں خریدی تھیں اس کو انہوں نے ربوا نہیں سمجھا تھا وہ “ربوا” قراض والے سود ہی کو سمجھتے تھے ۔ جس کو عام طور سے ربوا کہا جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بتلایا کہ کمی بیشی کے ساتھ کھجوروں کا تبادلہ بھی ربوا کے حکم میں ہے ، بقول حضرت شاہ ولی اللہ قرض والا ربوا “حقیقی ربوا” ہے اور حضرت ابو سعیدؓ وغیرہ کی حدیثوں میں جس کو ربوا قرار دیا گیا ہے وہ “حکمی ربوا” ہے یعنی ربوا کے حکم میں ہے ۔
عَنْ أَبِىْ سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَ بِلاَلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنْ أَيْنَ هَذَا؟»، قَالَ بِلاَلٌ: كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ، فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ، فَقَالَ: «أَوَّهْ، عَيْنُ الرِّبَا، لاَ تَفْعَلْ، وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِبِهِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮৩
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
عطا بن یسار تابعی سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہؓ نے سونے یا چاندی کا ایک پیالہ (یا جگ) اسی جنس کے اس سے زیادہ وزن کے عوض فروخت کیا ، تو حضرت ابو الدارداء نے ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ۔ آپ ﷺ اس طرح کی بیع فروح سے منع فرماتے تھے ۔ الا یہ کہ برابر برابر ہو ، تو حضرت معاویہؓ نے کہا میرے نزدیک ترو اس میں کوئی مضائقہ اور گناہ کی بات نہیں ہے ۔ حضرت ابو الدرداء نے (سخت رنجیدہ ہو کر) کہا کہ مجھے معاویہؓ کے بارے میں معذور سمجھا جائے ۔ میں ان کو رسول اللہ ﷺ کا حکم بتاتا ہوں اور وہ مجھے اپنی رائے بتاتے ہیں ۔ (اس کے بعد خود حضرت معاویہؓ سے کہا کہ) میں تمہارے ساتھ اس سرزمین میں نہیں رہوں گا ، جہاں تم ہو گے ۔ اس کے بعد حضرت ابو الدرداءؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ آئے اور آپؓ سے اس واقعہ کا ذکر کیا ، تو حضرت عمرؓ نے حضرت معاویہؓ کو لکھا کہ اس طرح کی بیع فروخت نہ کرو ، سونا ، چاندی وغیرہ کا اسی جنس سے تبادلہ صرف اس صورت میں جائز ہے کہ دونوں طرف وزن یکساں اور برابر برابر ہو ۔ (موطا امام مالک ، سنن نسائی)

تشریح
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت معاویہؓ علاقہ شام کے حاکم (گورنر) تھے ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا قیام بھی وہیں تھا اسی زمانہ میں حضرت معاویہؓ نے سونے یا چاندی سے بنا ہوا پانی کا ایک برتن (پیالہ یا جگ) بطور قیمت اسی جنس سے وزن میں کچھ زیادہ لے کر فروخت کیا اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ، حضرت ابو الدرداءؓ نے ان سے ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی بیع سے منع فرمایا ہے ، حکم یہ ہے کہ سونے یا چاندی کی کوئی چیز اگر اسی جنس کے عوض بیچی یا خریدی جائے تو وزن میں کمی بیشی نہ ہونی چاہئے وزن برابر برابر ہونا چاہئے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خیال غالبا یہ تھا کہ سونے یا چاندی سے بنی ہوئی چیز (زیور یا برتن) اگر فروخت کیا جائے تو بنوائی کی اجرت کا لحاظ کر کے کچھ زیادہ لینا ناجائز نہ ہو گا ، اس بناء پر انہوں نے کہا کہ “میرے نزدیک تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے” ۔
لیکن حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہؓ کی یہ بات سخت ناگوار ہوئی کیوں کہ انہوں نے حضور ﷺ سے جو کچھ سنا تھا وہ اس کی روشنی میں اس رائے یا اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں سمجھتے تھے ۔ بہرحال وہ ناراض ہو کر وہاں کی سکونت ترک کر کے مدینہ چلے آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے واقعہ بیان کیا ، آپؓ نے حضرت معاویہؓ کو لکھا کہ شرعی حکم وہی ہے جو ابو الدرداء نے بتلایا لہذا ایسی خرید و فروخت نہ کی جائے ۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ ربا (سود) کی اس دوسری قسم (ربائے حکمی) کے بارے میں بھی صحابہ کرامؓ میں کتنی شدت تھی اور اس بارے میں کسی کی اجتہادی غلطی بھی ان کے لئے قابلِ برداشت نہیں تھی ۔
عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ؛ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، بَاعَ سِقَايَةً مِنْ ذَهَبٍ، أَوْ وَرِقٍ بِأَكْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا. فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم، يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هذَا إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ. فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: مَا أَرَى بِمِثْلِ هذَا بَأْساً. فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مَنْ يَعْذِرُ لِي مِنْ مُعَاوِيَةَ؟. أَنَا أُخْبِرُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم. وَهُوَ يُخْبِرُنِي عَنْ رَأْيِهِ. لاَ أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ أَنْتَ بِهَا. ثُمَّ قَدِمَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. فَذَكَرَ لَهُ ذلِكَ. فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، إِلَى مُعَاوِيَةَ: أَنْ لاَ يَبِيعَ ذلِكَ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ وَزْناً بِوَزْنٍ. (رواه مالك فى الموطا والنسائى فى سننه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮৪
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت کے متعلق احکامات: پھلوں کی فصل تیاری سے پہلے نہ بیچی ، خریدی جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا پھلوں کی بیع سے اس وقت تک کہ ان میں پختگی آ جائے ۔ آپ ﷺ نے بیچنے والے کو بھی منع فرمایا اور خریدنے والے کو بھی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اور اسی حدیث کی صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا کھجوروں کی فصل کی بیع سے جب تک ان پر سرخی نہ آ جائے اور کھیت کی بالوں کی بیع سے جب تک ان پر سفیدی نہ آ جائے اور تباہی کا خطرہ نہ رہے ۔

تشریح
جس طرح ہمارے ملک اور ہمارے علاقوں میں آم کے باغوں کی فصل آم تیار ہونے سے پہلے ، بہت پہلے بھی فروخت کر دی جاتی ہے اسی طرح مدینہ منورہ وغیرہ عرب کے پیداواری علاقوں میں کھجور یا انگور کے باغات اور درختوں کے پھل تیاری سے پہلے فروخت کر دئیے جاتے تھے اور کھیتوں میں پیدا ہونے والا غلہ بھی تیاری سے پہلے فروخت کر دیا جاتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ۔ کیوں کہ اس میں خطرہ اور امکان ہے کہ فصل پر کوئی آفت آ جائے مثلاً تیز آندھیاں یا آسمان سے گرنے والے اولے غلہ کو یا پھلوں کو ضائع کر دیں یا ان میں کوئی خرابی اور بیماری پیدا ہو جائے تو بےچارے خریدنے والے کو بہت نقصان پہنچ جائے گا ، پھر اس کا بھی خطرہ ہے کہ قیمت کی ادائیگی کے بارے میں فریقین میں نزاع اور جھگڑا پیدا ہو ۔ بہرحال اس بیع فروخت میں یہ کھلے ہوئے مفاسد اور خطرات ہیں ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ۔ آگے درج ہونے والی حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: « نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ» (رواه البخارى ومسلم)
وَفِىْ رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ نَهَى عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ حَتَّى يَزْهُوَ، وَعَنِ السُّنْبُلِ حَتَّى يَبْيَضَّ، وَيَأْمَنَ الْعَاهَةَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮৫
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت کے متعلق احکامات: پھلوں کی فصل تیاری سے پہلے نہ بیچی ، خریدی جائے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا تھا تا آنکہ ان پر رونق آ جائے ، عرض کیا گیا کہ رونق آ جانے سے کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فریاما مطلب یہ ہے کہ سرخی آ جائے ۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فریاما کہ بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھل عطا نہ فرمائے (یعنی بحکم خداوندی کسی آفت سے پھل تیار ہونے سے پہلے ضائع ہو جائیں) تو بیچنے والا کس چیز کے عوض میں (خریدنے والے) اپنے بھائی سے مال وصول کرے گا ۔ (صحیح بخاری و مسلم)

تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ اگر پھل میں ایسا نقصان ہو گیا ہے کہ خریدار کو کچھ بھی نہیں بچا ، سب برباد ہو گیا تو باغ فروخت کرنے والے کو چاہئے کہ قیمت بالکل نہ لے اور لے چکا ہے تو واپس کر دے اور اگر نہیں بلکہ کچھ نقصان ہو گیا ہے تو اس کا لحاظ کر کے قیمت میں تخفیف اور کمی کر دے ۔ ان احکام کی روح یہ ہے کہ ہر ایک کی خیر خواہی اور مناسب حد تک ہر ایک کے مفاد کی حفاطت کی جائے ۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَزْهِيَ، فَقِيلَ لَهُ: وَمَا تَزْهِيَ؟ قَالَ: حَتَّى تَحْمَرَّ. وَقَالَ: «أَرَأَيْتَ إِذَا مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ، بِمَا يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مَالَ أَخِيهِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮৬
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ چند سالوں کے لئے باغوں کی فصل کا ٹھیکہ نہ دیا جائے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا (باغ کو) چند سالوں کے واسطے فروخت کرنے سے اور آپ ﷺ نے حکم دیا ناگہانی آفات (کے نقصان) کو وضع کر دینے کا ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
باغ کی فصل کوئی سال کے لئے فروخت کرنے سے اسی لئے منع فرمایا گیا کہ معلوم نہیں کہ پھل آئے گا بھی یا نہیں ، اور باقی رہے گا یا خدانخواستہ کسی ناگہانی حادثہ کا شکار ہو جائے گا ۔ ایسی صورت میں بےچارے خریدار کو سخت نقصان پہنچے گا اور وہ قیمت ادا کرنا نہ چاہے گا جس سے نزاع اور جھگڑا پیدا ہو گا جو سو خرابیوں کی جڑ ہے ۔ دوسرا حکم اس حدیث میں یہ دیا گیا کہ اگر باغ کی فصل فروخت کی گئی اور پھلوں پر کوئی آفت آ گئی تو باغ کے مالک کو چاہئے کہ نقصان کا لحاظ کر کے قیمت میں کمی اور تخفیف کر دے ۔
ظاہر ہے کہ ان سب احکام کا مقصد اہلِ معاملہ کی خیر خواہی اور ان کو باہمی اختلاف و نزاع سے بچانا اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور غم خواری اور ایثار و قربانی کا عادی بنانا ہے ۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ السِّنِينَ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮৭
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ جو چیز فی الحال اپنے پاس نہ ہو اس کی بیع نہ کی جائے
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس سے منع فرمایا کہ جو چیز میرے پاس موجود نہیں ہے میں اس کی بیع فروخت کا کسی سے معاملہ کروں ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
کاروباری دنیا میں حضور ﷺ کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا اور ہمارے زمانہ میں بھی ہوتا ہے کہ تاجر کے پاس ایک چیز موجود نہیں ہے لیکن اس کے طالب خریدار سے وہ اس کا سودا اس امید پر کر لیتا ہے کہ میں کہیں سے خرید کر اس کو دے دوں گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی بیع سے بھی منع فرمایا ہے کیوں کہ اس کا امکان ہے کہ وہ چیز فراہم نہ ہو سکے یا فراہم ہو جائے مگر خریدار اس کو پسند نہ کرے ، اس صورت میں فریقین میں نزاع اور جھگڑا ہو سکتا ہے ۔
تشریح ..... یہ حکیم بن حزام ایک دولت مند تاجر تھے ، سنن نسائی اور سنن ابی داؤد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا تھا کہ بعض اوقات کسی چیز کا خریدار میرے پاس آتا ہے اور وہ چیز میرے پاس موجود نہیں ہوتی تو میں اس سے معاملہ کر لیتا ہوں اور بازار سے وہی چیز خرید کے اس کو دے دیتا ہوں ۔ تو آپ ﷺ نے فریاما کہ جو چیز تمہارے پاس موجود نہیں ہے اس کی بیع فروخت نہ کرو ۔
عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: " نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮৮
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ اگر غلہ وغیرہ خریدا جائے تو اُٹھا لینے سے پہلے اس کو فروخت نہ کیا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جو شخص غلہ (وغیرہ) خریدے تو جب تک اس کو اپنے قبضہ میں نے لے لے اس وقت تک کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت نہ کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حکم کا مقصد بھی یہی ہے کہ کوئی جھگڑا ٹنٹا پیدا نہ ہو ۔ اس حدیث میں اگرچہ صرف طعام (یعنی غلہ) کا ذکر ہے لیکن تمام اموال منقولہ کا یہی حکم ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ ابْتَاعَ طَعَاماً، فَلاَ يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৮৯
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ مضطر (سخت ضرورتمند) سے خرید و فروخت کی ممانعت
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا “مضطر” کی خرید و فروخت سے ، اور ایسی چیز کی بیع سے جس کا ملنا یقینی نہ ہو اور پھلوں کی تیاری سے پہلے ا ن کی بیع فروخت سے ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
بعض اوقات آدمی فقر و فاقہ یا کسی حادثہ کی وجہ سے یا کسی ناگہانی پریشانی میں گِھر جانے کی وجہ سے اپنی کوئی چیز بیچنے کے لئے یا کھانا وغیرہ کوئی چیز خریدنے کے لئے سخت مجبور اور “مضطر” ہوتا ہے ۔ ایسے وقت بےدرد تاجر اس شخص کی مجبوری اور اضطراری حالت سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ مندرجہ ذیل حدیث میں اسی کو “بیع مضطر” کہا گیا ہے اور اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے ۔

تشریح .....“مضطر کی بیع”کی تشریح اوپر کی جا چکی ہے ، اس کی ممانعت کا مقصد یہ ہے کہ ایسے مجبور و مضطر آدمی سے خرید و فروخت کا تاجرانہ معاملہ نہ کیا جائے بلکہ اس بھائی کی خدمت اور اعانت کی جائے ۔ دوسری چیز جس سے اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے “ بیع غرر” ہے یعنی ایسی چیز کی بیع جو فروخت کرنے والے کے ہاتھ میں نہیں ہے اور اس کا ملنا یقینی نہیں ہے ، جیسے کہ کوئی جنگل کے ہرن کی یا کسی پرند کی یا دریا کی مچھلی کی اس امید پر بیع کرے کہ شکار کر کے فراہم کر دوں گا ۔ یہ “ بیع غرر” ہے اور اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے ، کیوں کہ بیچی جانے والی چیز نہ بائع کے پاس موجود ہے اور نہ اس کا ملنا یقینی ہے اور مل بھی جائے تو نوعیت کے بارے میں نزع و اختلاف کا خطرہ ہے ۔ تیسری چیز جس کی اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے تیار ہونے سے پہلے پھلوں کی فصل کی فروخت ہے ۔ اس کی تشریح اوپر کی جا چکی ہے ۔
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: « نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّ، وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ، وَعَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ أَنْ تُدْرِكَ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯০
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ فروختنی چیز کا عیب چھپانے کی سخت ممانعت اور وعید
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے (جو ایک دکاندار کا تھا) آپ ﷺ نے اپناہاتھ اس ڈھیر کے اندر داخل کر دیا تو آپ ﷺ ی انگلیوں نے گیلا پن محسوس کیا ، آپ ﷺ نے اس غلہ فروش دکاندار سے فرمایا کہ (تمہارے ڈھیر کے اندر) یہ تری و کیل کیسی ہے ؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ غلہ پر بارش کی بوندیں پڑ گئی تھیں (تو میں نے اوپر کا بھیگ جانے والا غلہ نیچے کر دیا) آپ ﷺ نے فریاما کہ اس بھیگے ہوئے غلہ کو تم نے ڈھیر کے اوپر کیوں نہیں رہنے دیا تا کہ خریدنے والے لوگ اس کو دیکھ سکتے ۔ (سن لو) جو آدمی دھوکے بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اور طبرانی نے معجم کبیر و معجم صغیر میں یہی واقعہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے ۔ “ وَالْمَكْرُ وَالْخِدَاعُ فِى النَّارِ” (یعنی اس طرح کی دغا بازی اور فریب کا انجام جہنم ہے) ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا فَقَالَ: «مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟» قَالَ أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّا» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯১
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ فروختنی چیز کا عیب چھپانے کی سخت ممانعت اور وعید
حضرت واثلہ بن الاسقع سے روایت ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس شخص نے کوئی عیب والی چیز کسی کے ہاتھ فروخت کی ، اور خریدار کو وہ عیب بتلا نہیں دیا تو اس پر ہمیشہ کا عذاب رہے گا ...... یا آپ ﷺ نے یہ فریاما ........ کہ اللہ کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے رہیں گے ۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
بعض اوقات حدیث کے کسی راوی کو حضور ﷺ کے الفاظ کے بارے میں یہ شبہ ہو جاتا ہے تو از راہِ احتیاط وہ روایت کے وقت اس شبہ کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ اس حدیث کی روایت میں بھی راوی کو شک ہو گیا ہے ۔ کہ حضور ﷺ نے “لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ اللَّهِ” فرمایا تھا یا “لَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ” فرمایا تھا ۔ حدیث کے ترجمہ میں اس شک کو ظاہر کر دیا گیا ہے ۔
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ بَاعَ عَيْبًا وَلَمْ يُبَيِّنْهُ، لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ اللَّهِ، وَلَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ» (رواه ابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯২
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ بیچنے والے یا خریدنے والے کی ناواقفی سے ناجائز فائدہ اُٹھانے اور ہر طرح کے دھوکے فریب کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غلہ وغیرہ لانے والے قافلہ سے مال خریدنے کے لئے آگے جا کے نہ ملو ، جس تاجر نے آگے جا کر راستہ ہی میں سودا کیا اور خرید لیا تو مال کا مالک جب بازار پہنچے تو اس کو اختیار ہو گا (کہ چاہے تو وہ معاملہ فسخ کر دے) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوگ غلہ وغیرہ ضروریات کی چیزیں باہر سے لا کر شہروں کے بازاروں میں فروخت کرتے تھے اور یہ چھوٹے چھوٹے قافلوں کی شکل میں آتے تھے ، (ان تجارتی قافلوں کو “حلب” کہا جاتا تھا) چالاک تاجر ایسا کرتے تھے کہ بازار اور منڈی پہنچنے سے پہلے راستہ ہی میں ان کے پاس پہنچ کر مال کا سودا کر لیتے تھے اس میں اس کا بہت امکان ہوتا تھا کہ بازار کے بھاؤ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے بارہ سے مال لانے والے اپنا مال ان تاجروں کے ہاتھ سستے داموں بیچ دیں اور اس سے ان کو نقصان پہنچے ۔ اور اس سے بڑی دوسری خرابی اس طریقہ میں یہ تھی کہ باہر سے آنے والا سارا غلہ اور دیگر سامان ان چالاک سرمایہ دار تاجروں کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا پھر یہ اس کو عام صارفین کے ہاتھ من مانے داموں پر بیچتے اور زیادہ سے زیادہ نفع کماتے ۔ اگر مال بازار میں آ کر بکتا تو لانے والوں کو بھی مناسب قیمت ملتی اور عام ضرورت مند بھی مناسب داموں پر خرید سکتے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ہدایت فرمائی کہ غلہ وغیرہ لانے والوں سے بازار پہنچنے سے پہلے راستے میں جا کر خریداری نہ کی جائے اور اگر اس طرح کسی نے کوئی سودا کیا تو مال لانے والا اگر بازار پہنچ کر محسوس کرے کہ بازار کے بھاؤ سے بےخبری کی وجہ سے اس کو دھوکا اور نقصان ہو گیا تو اس کو معاملہ فسخ کر دینے کا اختیار ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَلَقَّوْا الْجَلَبَ، فَمَنْ تَلَقَّاهُ فَاشْتَرَى مِنْهُ، فَإِذَا أَتَى سَيِّدُهُ السُّوقَ، فَهُوَ بِالْخِيَارِ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯৩
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ بیچنے والے یا خریدنے والے کی ناواقفی سے ناجائز فائدہ اُٹھانے اور ہر طرح کے دھوکے فریب کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : غلہ وغیرہ لانے والے قافلہ والوں سے مال خریدنے کے لئے آگے جا کے نہ ملو ، اور تم میں سے کوئی اپنے دوسرے بھائی کے بیع کے معاملہ میں اپنے معاملہ بیع سے مداخلت نہ کرے اور (کسی سودے کے نمائشی خریدار بن کر اس کی قیمت بڑھانے کا کام نہ کرو ، اور شہری تاجر بدویون کا مال اپنے پاس رکھ کر بیچنے کا کام نہ کریں ۔ اور (بیچنے کے لئے) اونٹنی یا بکری کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو ۔ اگر کسی نے ایسی اونٹنی یا بکری خریدی تو اس کا دودھ دوہنے کے بعد اس کو اختیار ہے اگر پسند ہو تو اپنے پاس رکھے اور اگر ناپسند ہو تو واپس کر دے اور (جانور کے مالک کو) ایک صاع (قریباً ۴ سیر) کھجوریں بھی دے دے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں تجارت اور خرید و فروخت سے متعلق چند ہدایتیں دی گئی ہیں پہلی ہدایت تو وہی ہے جو اس سے اوپر والی حدیث میں دی گئی تھی ، کہ غلہ وغیرہ ضروریات باہر سے لانے والے تجارتی قافلوں سے بازار اور منڈی میں ان کے پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں جا کر ان سے مال نہ خریدا جائے بلکہ جب وہ بازار اور منڈی میں مال لے آئیں تو ان سے خرید و فروخت کا معاملہ کیا جائے ۔ اس ہدایت کی حکمت اور مصلحت بھی لکھی جا چکی ہے ۔
دوسری ہدایت کے الفاظ یہ ہیں “ وَلاَ يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ” اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی خریدار ایک دکاندار سے کوئی چیز خرید رہا ہے تو دوسرے دکاندار کو نہ چاہئے کہ وہ معاملہ میں مداخلت کرے اور خریدار سے کہے کہ یہی چیز تم مجھ سے خرید لو ، ظاہر ہے کہ اس سے دکانداروں میں باہم عداوت اور ایک دوسرے کی بدخواہی پیدا ہو گی جو شر و فساد کی جڑ ہے ۔
تیسری ہدایت کے الفاظ ہیں “وَلاَ تَنَاجَشُوا” بازار کی دنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی دکاندار سے کوئی چیز خریدنے کی بات چیت کر رہا ہے تو کوئی صاحب اسی چیز کے صرف نمائشی خریدار بن کے کھڑے ہو گئے اور زیادہ قیمت لگا دی تا کہ جو اصلی اور واقعی خریدار ہے وہ زیادہ قیمت دینے پر آمادہ ہو جائے ، ظاہر ہے کہ بےچارے خریدار کے ساتھ یہ ایک طرح کا فریب ہے “لاَ تَنَاجَشُوا” میں اسی کی ممانعت فرمائی گئی ہے ۔
چوتھی ہدایت کے الفاظ ہیں “لاَ يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ” اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر کے تاجروں کو چاہئے کہ دیہات کے لوگ جو سامان غلہ وغیرہ فروخت کرنے کے لئے لائیں تو ان کا وہ مال اپنے پاس اس غرض سے نہ رکھیں کہ جب دام زیادہ اُٹھیں گے اس وقت فروخت کریں گے ، بلکہ دیہات کے لوگ جب مال لائیں تو اس کو فروخت ہو جانا چاہئے ۔ اس صورت میں ان اشیاء کی قلت نہیں ہو گی ، عوام کے لئے قیمتیں نہیں چڑھیں گی اور گرانی نہیں بڑھے گی ۔ اور دیہات سے مال لانے والوں کو جب کہ دن کے دن اور ہاتھ کے ہاتھ اپنے مال کی قیمت مل جائے گی تو جلد ہی وہ بازار میں دوسرا مال لا سکیں گے اس طرح ان کی تجارت بڑھ جائے گی اور نفع بھی بڑھے گا ۔
پانچویں اور آخری ہدایت ہے “لاَ تُصَرُّوا الْاِبِلَ وَالغَنَمَ الخ” اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا نہ کرے کہ جب اس کو اپنا دودھ دینے والا جانور (اونٹنی ، بکری وغیرہ بیچنا ہو تو ایک دو وقت پہلے سے اس کا دودھ دوہنا چھوڑ دے تا کہ خریدار اس کے بھرے ہوئے تھن دیکھ کر سمجھے کہ جانور بہت دودھ دینے والا ہے ، اور زیادہ قیمت میں خریچ لے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک طرح کا دھوکا فریب ہے ۔ آگے اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی نے ایسا جانور خریدا تو اس کو اختیار ہے کہ اپنے گھر پر دوہنے کے بعد اگر جانور کو ناپسند کرے تو واپس کر دے اور پسن کرے تو اپنے پاس رکھ لے ۔ اور واپس کرنے کی صورت میں ایک صاع (قریبا ً ۴ سیر) کھجوریں بھی جانور کے مالک کو پیش کر دے ۔ صحیح مسلم کی اس حدیث کی روایت میں الفاظ ہیں “فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ” جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا جانور خریدنے والے کو تین دن تک واپسی کا اختیار رہے گا ۔ (اس کے بعد واپسی کا ھق نہ ہو گا) ۔ نیز “مسلم” کی اس روایت میں “ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ” کے بجائے “صَاعًا مِنْ طَعَامٍ لَا سَمْرًا” کے الفاظ ہیں ان کی بناء پر ایک صاع کھجوروں کی جگہ گیہوں کے علاوہ ایک صاع کوئی غلہ (جَو وغیرہ) دینا بھی صحیح ہو گا ۔ جانور کی واپسی کی صورت میں اس کے مالک کو ایک صاع کھجور وغیرہ پیش کرنے کی ہدایت کی حکمت و مصلحت شاید یہ ہو کہ خریدنے والے نے ایک دن یا دو دن یا تین دن (جب تک جانور کو اپنے پاس رکھا) اس کا دودھ دوہا اور استعمال کیا ، ساتھ ہی اس کے کھلانے پلانے پر خرچ بھی کیا ، اس طرح حساب گویا برابر ہو گیا ۔ پھر بھی جو کسر رہی ہو اور واپسی سے جانور کے مالک کی جو دل شکنی ہوئی ہو اس کی مکافات اور واپسی کے معاملہ کی ناخوشگواری ختم کرنے یا کم کرنے کے لئے یہ ہدایت دی گئی ہو ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَلَقَّوُا الرُّكْبَانَ، وَلاَ يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلاَ تَنَاجَشُوا، وَلاَ يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلاَ تُصَرُّوا الْاِبِلَ وَالغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَهَا بَعْدَ ذَالِكَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْتَلِبَهَا، إِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯৪
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ نیلام کے طریقہ پر خرید و فروخت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (بچھانے کا) ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ اس طرح فروخت کیا کہ آپ نے (مجلس کے حاضرین کومخاطب کر کے) فرمایا کہ یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدنا چاہتا ہے (وہ بولی بولے) ایک شخص نے عرض کیا کہ میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں ..... آپ ﷺ نے فریاما کون ایک درہم سے زیادہ دینے کو تیار ہے ؟ تو ایک دوسرے صاحب نے آپ کو دو درہم پیش کر دئیے تو آپ نے وہ دونوں چیزیں اُنکے ہاتھ بیچ دیں ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیلام کے طریقہ پر خرید و فروخت جائز ہے اور خود آنحضرتﷺ نے ایسا کیا ہے ۔ نیلام کے جس واقعہ کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ذکر ہے وہ پوری تفصیل کے ساتھ سننن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ..... کہ ایک نہایت مفلس اور مفلوک الحال انصاری صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی حاجت مندی کا حال بیان کیا اور آپ ﷺ سے امداد و اعانت کی درخواست کی ۔ آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر کہ وہ محنت کر کے کمانے کے قابل ہیں) ان سے پوچھا کہ تمہارے گھر میں کچھ سامان ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں ہے ، بس ایک ٹاٹ ہے جس کا کچھ حصہ ہم (بطور فرش کے) بچھا لیتے ہیں اور کچھ حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ بس ایک پیالہ ہے جو پانی پینے کے کام آتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فریاما کہ یہ دونوں چیزیں لے آؤ ، وہ لے آئے ، آپ ﷺ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں بکتی ہیں ، آپ لوگوں میں سے کون ان کا خریدار ہے ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں ایک درہم میں دونوں چیزیں لے سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فریاما “ من يزيد ”
(یعنی جو کوئی اس سے زیادہ قیمت میں خریدنے والا ہو ، وہ بولے !) ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ یہ بات آپ ﷺ نے ۲ ، ۳ دفعہ فرمائی تو ایک صاحب نے دو درہم نکال کر حضور ﷺ کو پیش کر دئیے تو آپ ﷺ نے دونوں چیزیں ان کو دے دیں ۔ اور جو دو درہم انہوں نے دئیے تھے وہ آپ ﷺ نے ان انصاری صحابی کو دئیے اور فرمایا کہ ان میں سے ایک درہم کا تو کھانے پینے کا کچھ سامان خرید کے اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خرید کے میرے پاس لے آؤ ، انہوں نے ایسا ہی کیا اور کلہاڑی خرید کے حضور ﷺ کی خدمت میں لے آئے ، آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ لگایا اور ان سے کہا کہ یہ کلہاڑی لے کے جنگل نکل جاؤ ، لکڑیاں لاؤ اور بیچو ! حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو یہ بھی تاکید فرمائی کہ اب ۱۵ دن تک ہرگز میرے پاس نہ آؤ (یعنی زیادہ وقت محنت اور کمائی ہی میں صرف کرو) انہوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ اس محنت اور کمائی کے نتیجہ میں ان کے پاس دس درہم جمع ہو گئے اس سے انہوں نے گھر والوں کے لئے غذائی سامان اور کچھ کپڑا وغیرہ خریدا اس کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہ محنت کر کے گزارا کرنا تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ سائل بن کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ اور قیامت میں تمہارے چہرے پر اس کا داغ اور نشان ہو ۔
اس حدیث میں امت کے لئے کتنی عظیم رہنمائی ہے ، کاش ہم اس سے سبق لیتے ۔
عَنْ أَنَسِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا، وَقَالَ: «مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الحِلْسَ وَالقَدَحَ»، فَقَالَ رَجُلٌ: أَخَذْتُهُمَا بِدِرْهَمٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ، مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ؟»، فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ: فَبَاعَهُمَا مِنْهُ. (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯৫
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ زیادہ نفع کمانے کے لئے ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
حضرت معمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو تاجر احتکار کرے (یعنی غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کا ذخیرہ عوام کی ضرورت کے باوجود مہنگائی کے لئے محفوظ رکھے) وہ خطاکار گنہگار ہے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جس طرح ہمارے زمانہ میں بہت سے تاجر غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں مہنگائی اور گرانی بڑھ جاتی ہے اور عام صارفین پر بوجھ پڑتا ہے اور ان کے لئے گزارہ دشوار ہو جاتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی کچھ تاجر ایسا کرتے تھے (اور غالباً اس کو کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے) لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کو سختی سے منع فرمایا اور گناہ قرار دیا ۔ عربی زبان میں اس کو “احتکار” کہا جاتا ہے ۔
عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ احْتَكَرَ فَهُوَ خَاطِئٌ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯৬
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ زیادہ نفع کمانے کے لئے ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جالب (یعنی غلہوغیرہ باہر سے لا کر بازار میں بیچنے والا تاجر) مرزوق ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کے رزق کا کفیل ہے) اور محتکر (یعنی مہنگائی کے لئے ذخیرہ اندوزی کرنے والا) ملعون ہے (یعنی اللہ کی طرف سے پھٹکارا ہوا اور اس ی رحمت و برکت سے محروم ہے) ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا رُخ یہ ہے کہ معاشی نظام ایسا ہو جس میں عوام خاص کر غربا یعنی کم آمدنی والوں کو زندگی گزارنا دشوار نہ ہو ، تجارت پیشہ اور دولت مند طبقہ زیادہ نفع اندوزی اور اپنی دولت میں اضافہ کے بجائے عوام کی سہولت کو پیش نظر رکھے اور اس مقصد کے لئے کم نفع پر قناعت کر کے اللہ کی رضا و رحمت اور آخرت کا اجر حاصل کرے ۔ اگر ایمان و یقین نصیب ہو تو بلاشبہ یہ تجارت بڑی نفع بخش ہے ۔
عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ، وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ» (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৭৯৭
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ “تَسْعِيْر” یعنی قیمتوں پر کنٹرول کا مسئلہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ) مہنگائی بڑھ گئی ، تو لوگوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حضرت (ﷺ) آپ نرخ مقرر فرما دیں (اور تاجروں کو اس کا پابند کر دیں) تو آپ ﷺ نے فریاما : کہ نرخ کم و بیش کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، وہی تنگی یا فراخی کرنے والا ہے ، وہی سب کا روزی رساں ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان و مال کے ظلم اور حق تلفی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)

تشریح
کبھی حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ غذا جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں پر حکومت کی طرف سے یا کسی بااختیار ادارہ کی طرف سے کنٹرول کیا جائے اور تاجروں کو من مانے طریقہ پر زیادہ نفع خوری کی اجازت نہ دی جائے ، تاکہ عوام خاص کر غربا کو زیادہ تکلیف نہ پہنچے ۔ اسی کو عربی زبان میں تسعیر کہا جاتا ہے ۔ یہاں اسی سے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ایک ارشاد درج کیا جا رہا ہے ۔

تشریح .....اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بعض صحابہ کی طرف سے مہنگائی کی شکایت اور تسعیر (یعنی قیمتوں پر کنٹرول) کی درخواست کرنے کے باوجود اپنے لئے اس کو مناسب نہیں سمجھا اور اندیشہ ظاہر فرمایا کہ اس طرح کے حکم سے کسی پر زیادتی اور کسی کی حق تلفی نہ ہو جائے ۔
یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ غلہ وغیرہ کی گرانی اور مہنگائی کبھی قحط اور پیداوار کی کمی جیسے قدرتی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی تاجر اور کاروباری لوگ زیادہ نفع کمانے کے لئے مصنوعی قلت کی صورت پیدا کر کے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں حضور ﷺ کا جو جواب ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی گرانی قدرتی اسباب کی پیدا کی ہوئی تھی ، تاجروں کی نفع اندوزی کا اس میں دخل نہیں تھا اس لئے آپ ﷺ نے کنٹرول نافذ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور آپ ﷺ کو خطرہ ہوا کہ تاجروں پر زیادتی نہ ہو جائے ۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر حاکم وقوت یقین کے ساتھ محسوس کرے کہ تاجروں کی طرف سے عام صارفوں پر زیادتی ہو رہی ہے اور افہام تفہیم اور نصیحت سے تاجر اپنے رویہ کی اصلاح نہیں کرتے تو وہ قیمتیں مقرر کر کے کنٹرول نافذ کر سکتا ہے ۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہؒ تاجروں کو ظالمانہ نفع اندوزی کی چھوٹ دینا تو فساد فى الارض اور اللہ کی مخلوق پر تباہی لانا ہے ۔ (1) ....... لیکن بہرحال حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا مقتضی یہی ہے کہ حتی الوسع اس سے بچا جائے اور یہ قدم اسی وقت اٹھایا جائے جب تاجروں کی طرف سے نفع اندوزی کے جذبہ کے تحت عوام کے ساتھ کھلی زیادتی ہو رہی ہو اور تسعیر کی کارروائی ناگزیر ہو جائے ۔
امام مالک نے مؤطا میں حضرت سعید بن المسیب تابعی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے بازار میں حاطب بن ابی بلتعہ صحابی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ خشک انگور (یعنی منقی) ایسے نرخ پر فروخت کر رہے ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک نامناسب حد تک گراں ہے ، تو آپ نے ان سے فرمایا :
إِمَّا أَنْ تَزِيدَ فِي السِّعْرِ، وَإِمَّا أَنْ تَرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا (2)
یا تو تم بھاؤ بڑھاؤ (یعنی قیمت مناسب حد تک کم کرو) یا پھر اپنا مال ہمارے بازار سے اُٹھا لو ۔
شریعت کے عام قواعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر ہی کی روشنی میں علماء محققین نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اگر حالات کا تقاضا ہو تو عوام کو تاجروں کے استحصال سے بچانے کے لئے حکومت کی طرف سے ضروری اشیاء کی قیمتیں مقرر کر دینی چاہئیں اور کنٹرول نافذ کر دینا چاہئے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اپنے بعض رسائل میں یہی رائے ظاہر کی ہے ۔
عَنْ أَنَسِ قَالَ: غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ، الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي بِدَمٍ وَلَا مَالٍ» (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক: