মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
کتاب الحج - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৩৯ টি
হাদীস নং: ১৭৫৮
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کا کسی دوسرے بھائی پر کوئی حق (قرضہ وغیرہ) واجب الادا ہو اور وہ اس مقروض کو ادا کرنے کے لیے دیر تک مہلت دے دی تو اس کو ہر دن کے عوض صدقہ کا ثواب ملے گا۔ (مسند احمد)
تشریح
ان سب حدیثوں کا مضمون اور پیغام بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
تشریح
ان سب حدیثوں کا مضمون اور پیغام بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ، فَمَنْ أَخَّرَهُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৫৯
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض کی فضیلت اوراس سے متعلق ہدایات
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ایک آدمی جنت میں داخل ہوا تو اس نے جنت کے دروازہ پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا اجر و ثواب دس گنا ہے اور قرض دینے کا اٹھارہ گنا۔ (معجم کبیر طبرانی)
تشریح
ظاہر ہے کہ حاجت مند اور ضرورت مند کو قرض دینا اس کی مدد ہے اور بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اجر و ثواب صدقہ سے بھی زیادہ ہے۔ اسی کے ساتھ قرض کے بارے میں سخت وعیدیں بھی ہیں۔
تشریح .....حدیث میں اس کا کوئی اشارہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کس آدمی کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت میں داخل ہوا تو اس نے اس کے دروازے پر مندرجہ بالا جملہ لکھا دیکھا ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ کسی مرد صالح کے خواب کا واقعہ بیان فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خود آپ صلی اللہ وسلم کا مشاہدہ یا مکاشفہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز میں اس کو بیان فرمایا ہو اس دوسرے احتمال کی کسی قدر تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ:
مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ (جمع الفوائد)
میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ قرض میں کیا خاص بات ہے کہ وہ صدقہ سے افضل ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ سائل (جس کو صدقہ دیا جاتا ہے) اس حالت میں بھی سوال کرتا اور صدقہ لے لیتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا قرض جب ہی مانگتا ہے جب وہ محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا ایک غریب مگر شریف وعفیف بندہ انتہائی حاجت مند اور گویا اضطرار کی حالت میں ہوتا ہے لیکن نہ وہ کسی سے سوال کرنا چاہتا ہے اور نہ صدقہ خیرات لینے کے لئے اس کا دل آمادہ ہوتا ہے ہاں وہ اپنی ضرورت پوری کرنے اور بچوں کا فاقہ توڑنے کے لیے قرض چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اس کو قرض دینا صدقہ سے افضل ہوگا۔ نیز خود راقم السطور کا تجربہ ہے کہ بہت سے لوگ کسی ضرورت مند کی زکات خیرات سے مدد کرنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اس کو قرض دینے پر ان کا دل آمادہ نہیں ہوتا اس لئے اس حدیث میں خاصہ سبق ہے۔ حدیث کے اس آخری حصہ سے (جو ابن ماجہ کے حوال سے درج کیا گیا ہے) یہ بھی اشارہ ملا کے صدقہ کے مقابلہ میں وہی قرض افضل ہے جو کسی حاجت مند کو اس کی حاجت رفع کرنے کے لئے دیا جائے۔
تشریح
ظاہر ہے کہ حاجت مند اور ضرورت مند کو قرض دینا اس کی مدد ہے اور بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اجر و ثواب صدقہ سے بھی زیادہ ہے۔ اسی کے ساتھ قرض کے بارے میں سخت وعیدیں بھی ہیں۔
تشریح .....حدیث میں اس کا کوئی اشارہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کس آدمی کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت میں داخل ہوا تو اس نے اس کے دروازے پر مندرجہ بالا جملہ لکھا دیکھا ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ کسی مرد صالح کے خواب کا واقعہ بیان فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خود آپ صلی اللہ وسلم کا مشاہدہ یا مکاشفہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز میں اس کو بیان فرمایا ہو اس دوسرے احتمال کی کسی قدر تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ:
مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ (جمع الفوائد)
میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ قرض میں کیا خاص بات ہے کہ وہ صدقہ سے افضل ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ سائل (جس کو صدقہ دیا جاتا ہے) اس حالت میں بھی سوال کرتا اور صدقہ لے لیتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا قرض جب ہی مانگتا ہے جب وہ محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا ایک غریب مگر شریف وعفیف بندہ انتہائی حاجت مند اور گویا اضطرار کی حالت میں ہوتا ہے لیکن نہ وہ کسی سے سوال کرنا چاہتا ہے اور نہ صدقہ خیرات لینے کے لئے اس کا دل آمادہ ہوتا ہے ہاں وہ اپنی ضرورت پوری کرنے اور بچوں کا فاقہ توڑنے کے لیے قرض چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اس کو قرض دینا صدقہ سے افضل ہوگا۔ نیز خود راقم السطور کا تجربہ ہے کہ بہت سے لوگ کسی ضرورت مند کی زکات خیرات سے مدد کرنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اس کو قرض دینے پر ان کا دل آمادہ نہیں ہوتا اس لئے اس حدیث میں خاصہ سبق ہے۔ حدیث کے اس آخری حصہ سے (جو ابن ماجہ کے حوال سے درج کیا گیا ہے) یہ بھی اشارہ ملا کے صدقہ کے مقابلہ میں وہی قرض افضل ہے جو کسی حاجت مند کو اس کی حاجت رفع کرنے کے لئے دیا جائے۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلَ رَجُلٌ الْجَنَّةَ فَرَأَى عَلَى بَابِهَا مَكْتُوبًا الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ " (رواه الطبرانى فى الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬০
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت ابو موسی اشعری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان کبیرہ گناہوں کے بعد جن سے اللہ تعالی نے سختی سے منع فرمایا ہے (جیسے شرک اور زنا وغیرہ) سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اس حال میں مرے کہ اس پر قرض ہو اور اس کی ادائیگی کا سامان چھوڑ نہ گیا ہو۔ (مسنداحمد سنن ابی داود)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو اصحاب وسعت کو ترغیب دی کہ وہ ضرورت مند بھائیوں کو قرض دیں اور اس کی ادائیگی کے لیے مقروض کو مہلت دی کہ جب سہولت ہو ادا کرے اور نادار مفلس ہو تو قرضہ کا کل یاجز معاف کر دیں اور اس کا بڑا اجر و ثواب بیان فرمایا اور دوسری طرف قرض لینے والوں کو آگاہی دی کہ وہ جلد سے جلد قرض کے ادا کرنے اور اس کے بوجھ سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اگر خدانخواستہ قرض ادا کیے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو آخرت میں اس کا انجام ان کے حق میں بہت برا ہوگا کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنگین ترین اور ناقابل معافی گناہ بتلایا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی میت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو اس نے ادا نہیں کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آخری درجہ کی تنبیہ تھی۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو اصحاب وسعت کو ترغیب دی کہ وہ ضرورت مند بھائیوں کو قرض دیں اور اس کی ادائیگی کے لیے مقروض کو مہلت دی کہ جب سہولت ہو ادا کرے اور نادار مفلس ہو تو قرضہ کا کل یاجز معاف کر دیں اور اس کا بڑا اجر و ثواب بیان فرمایا اور دوسری طرف قرض لینے والوں کو آگاہی دی کہ وہ جلد سے جلد قرض کے ادا کرنے اور اس کے بوجھ سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اگر خدانخواستہ قرض ادا کیے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو آخرت میں اس کا انجام ان کے حق میں بہت برا ہوگا کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنگین ترین اور ناقابل معافی گناہ بتلایا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی میت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو اس نے ادا نہیں کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آخری درجہ کی تنبیہ تھی۔
عَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ أَعْظَمَ الذُّنُوبِ عِنْدَ اللَّهِ أَنْ يَلْقَاهُ بِهَا عَبْدٌ بَعْدَ الْكَبَائِرِ الَّتِي نَهَى اللَّهُ عَنْهَا، أَنْ يَمُوتَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، لَا يَدَعُ لَهُ قَضَاءً» (رواه احمد وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬১
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ کی روح اس کے قرضہ کی وجہ سے بیچ میں معلق اور رکی رہتی ہے جب تک وہ قرضہ ادا نہ کر دیا جائے جو اس پر ہے۔ (مسند شافعی ، جامع ترمذی ، سنن ابی داود ، مسند دارمی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ ایسی حالت میں دنیا سے گیا جسکو ایمان بھی نصیب ہے اور اعمال صالحہ بھی اس کے اعمال میں ہیں جو نجات اور جنت کا وسیلہ بنتے ہیں لیکن اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو وہ ادا کرکے نہیں گیا اور اس معاملہ میں اس نے غفلت اور کوتاہی کی تو جب تک اس کی طرف سے قرضہ ادا نہ ہو جائے وہ راحت و رحمت کی اس منزل اور مقام تک نہیں پہنچ سکے گا جو مومنین صالحین کے لیے موعود ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ ایسی حالت میں دنیا سے گیا جسکو ایمان بھی نصیب ہے اور اعمال صالحہ بھی اس کے اعمال میں ہیں جو نجات اور جنت کا وسیلہ بنتے ہیں لیکن اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو وہ ادا کرکے نہیں گیا اور اس معاملہ میں اس نے غفلت اور کوتاہی کی تو جب تک اس کی طرف سے قرضہ ادا نہ ہو جائے وہ راحت و رحمت کی اس منزل اور مقام تک نہیں پہنچ سکے گا جو مومنین صالحین کے لیے موعود ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ» (رواه احمد والترمذى وابن ماجة والدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬২
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ شہید ہونے والے مرد مومن کے سارے گناہ (راہ خدا میں جان کی قربانی دینے کی وجہ سے) بخش دئیے جاتے ہیں بجز قرض کے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ راہ خدا میں شہید ہونا ایسا مقبول عمل ہے کہ وہ آدمی کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور اس کی برکت سے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے اور بخش دیئے جاتے ہیں لیکن اس پر کسی بندہ کا قرضہ تھا تو اس کے حساب میں وہ گرفتار بلا رہے گا کیونکہ وہ حق العبد ہے اس سے نجات اور رہائی کی صورت یہی ہے کہ وہ قرضہ ادا کیا جائے۔ (یا جس کا قرضہ ہے وہ لوجہ اللہ معاف کر دے) آگے درج ہونے والی دو حدیثوں سے یہ بات اور زیادہ صراحت سے معلوم ہوگی کہ اس معاملہ میں اللہ کا قانون کس قدر بے لاگ اور سخت ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ راہ خدا میں شہید ہونا ایسا مقبول عمل ہے کہ وہ آدمی کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور اس کی برکت سے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے اور بخش دیئے جاتے ہیں لیکن اس پر کسی بندہ کا قرضہ تھا تو اس کے حساب میں وہ گرفتار بلا رہے گا کیونکہ وہ حق العبد ہے اس سے نجات اور رہائی کی صورت یہی ہے کہ وہ قرضہ ادا کیا جائے۔ (یا جس کا قرضہ ہے وہ لوجہ اللہ معاف کر دے) آگے درج ہونے والی دو حدیثوں سے یہ بات اور زیادہ صراحت سے معلوم ہوگی کہ اس معاملہ میں اللہ کا قانون کس قدر بے لاگ اور سخت ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬৩
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے بتلائے کہ اگر میں اللہ کے راستہ میں صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ اور اللہ کی رضا اور ثواب آخرت کی طلب ہی میں جہاد کروں اور مجھے اس حالت میں شہید کردیا جائے کہ میں پیچھے نہ ہٹ رہا ہوں بلکہ پیش قدمی کر رہا ہوں تو کیا میری اس شہادت اور قربانی کی وجہ سے اللہ تعالی میرے سارے گناہ معاف کر دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب فرمایا ہاں (اللہ تمھارے سارے گناہ معاف فرما دے گا) پھر جب وہ آدمی آپ سے یہ جواب پاکر) لوٹنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھر پکارا اور فرمایا ہاں (تمہارے سب گناہ معاف ہو جائیں گے) سوائے قرضہ کہ یہ بات اللہ کے فرشتہ جبرئیل امین نے اسی طرح بتلائی ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ بات کے شہید ہونے سے بندے کے سارے گناہ تو معاف ہوجاتے ہیں لیکن اگر کسی کے قرضہ کا بار لے کر گیا ہے تو اسکی وجہ سے گرفتار رہے گا۔ میں خدا کی وحی کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو جبرئیل امین نے مجھے پہنچائی ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ بات کے شہید ہونے سے بندے کے سارے گناہ تو معاف ہوجاتے ہیں لیکن اگر کسی کے قرضہ کا بار لے کر گیا ہے تو اسکی وجہ سے گرفتار رہے گا۔ میں خدا کی وحی کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو جبرئیل امین نے مجھے پہنچائی ہے۔
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْبِرٍ، يُكَفِّرُ اللَّهُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» فَلَمَّا أَدْبَرَ، نَادَاهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ، إِلَّا الدَّيْنَ، كَذَلِكَ قَالَ جِبْرِيلُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬৪
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک دن مسجد کے باہر کے میدان میں جہاں جنازے لاکر رکھے جاتے ہیں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ مبارک آسمان کی طرف اٹھائی اور کچھ دیکھا۔ پھر نگاہ نیچی فرمالی اور (ایک خاص فکر مندانہ انداز میں) اپنا ہاتھ پیشانی مبارک پر رکھ کر بیٹھ گئے اور اسی حالت میں فرمایا ۔ “سبحان الله سبحان الله” (اللہ پاک ہے اس کا ہر حکم اور فیصلہ برحق) کس قدر سخت وعید اور سنگین فرمان نازل ہوا ہے حدیث کے راوی محمد ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ اس دن اور اس رات ہم سب خاموش رہے (اور منتظر رہے کہ کیا ظہور میں آتا ہے مگر) خیریت ہی رہی تو اگلے دن صبح کو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت وہ کیا سخت اور بھاری چیز تھی جو کل نازل ہوئی تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نہایت سخت وعید اور بھاری فرمان قرضہ کے بارے میں نازل ہوا ہے (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خداوندی فرمان اوروعید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا) قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر کوئی آدمی راہ خدا میں یعنی جہاد میں شہید ہو اور وہ شہادت کے بعد پھر زندہ ہو جائے اور پھر جہاد میں شہید ہو اور اس کے بعد پھر زندہ ہو جائے اور پھر راہ خدا میں شہید ہو اور پھر زندہ ہو اور اس کے ذمہ قرض ہو تو جنت میں اس وقت تک نہ جا سکے گا جب تک اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔
تشریح
بظاہر ان سب حدیثوں اور وعیدوں کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ قرضہ کے ادا نہ کرنے میں بدنیتی اور غفلت و لاپروائی کا دخل ہو اگر ادا کرنے کی نیت تھی اور فکرمند بھی تھا لیکن بیچارہ ادا کرنے پر قادر نہ ہوسکا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ عند اللہ معذور ہوگا جیسا کہ عنقریب ہی درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہوگا۔ واللہ اعلم۔
اس حدیث سے ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے دور میں جنازوں کی نماز مسجد سے باہر میدان میں ہوتی تھی حنفیہ کے نزدیک یہی بہتر ہے۔
تشریح
بظاہر ان سب حدیثوں اور وعیدوں کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ قرضہ کے ادا نہ کرنے میں بدنیتی اور غفلت و لاپروائی کا دخل ہو اگر ادا کرنے کی نیت تھی اور فکرمند بھی تھا لیکن بیچارہ ادا کرنے پر قادر نہ ہوسکا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ عند اللہ معذور ہوگا جیسا کہ عنقریب ہی درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہوگا۔ واللہ اعلم۔
اس حدیث سے ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے دور میں جنازوں کی نماز مسجد سے باہر میدان میں ہوتی تھی حنفیہ کے نزدیک یہی بہتر ہے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا بِفِنَاءِ الْمَسْجِدِ حَيْثُ يُوضَعُ الْجَنَائِزُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَنَظَرَ، ثُمَّ طَأْطَأَ بَصَرَهُ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا نَزَلَ مِنَ التَّشْدِيدِ؟» قَالَ: فَسَكَتْنَا يَوْمَنَا وَلَيْلَتَنَا، فَلَمْ نَرَ إِلَّا خَيْرًا حَتَّى أَصْبَحْنَا. قَالَ مُحَمَّدٌ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا التَّشْدِيدُ الَّذِي نَزَلَ؟ قَالَ: «فِي الدَّيْنِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ عَاشَ، ثُمَّ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ عَاشَ، ثُمَّ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ عَاشَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَقْضِيَ دَيْنَهُ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬৫
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک میت کا جنازہ لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ حضرت اس کی نماز جنازہ پڑھا دیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ہے کہ کیا اس آدمی پر کچھ قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض نہیں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازے کی نماز پڑھادی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس میت پر کسی کا قرضہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں اس پر قرض ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے؟ (جس سے قرض ادا ہو جائے) لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے تین دینار چھوڑے ہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ وسلم نے اس کے بارے میں بھی دریافت فرمایا کہ کیا اس مرنے والے پر کچھ قرضہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں اس پر تین دینار کا قرضہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے (جس سے قرض ادا ہو سکے) لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ نہیں چھوڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین صحابہ سے فرمایا کہ اپنے اس ساتھی کی نمازجنازہ تم لوگ پڑھ لو۔ تو ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور! اس کی نماز پڑھادیں اور اس پر جو قرضہ ہے وہ میں نے اپنے ذمہ لے لیا (میں ادا کروں گا) تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازہ کی بھی نماز پڑھادی۔ (صحیح بخاری)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل بظاہر زندوں کو تنبیہ کے لیے تھا کہ وہ قرضوں کے ادا کرنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں اور ہر شخص کی یہ کوشش ہو کہ اگر اس پر کسی کا قرضہ ہے تو وہ اس سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اور دنیا سے اس حال میں جائے کہ اس کے ذمہ کسی کا کچھ مطالبہ نہ ہو۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث اسی بارے میں مروی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرزعمل (کے قرضدار میت کی نماز جنازہ سے خود معذرت فرما دیتے اور صحابہ کرامؓ سے فرما دیتے کہ تم لوگ پڑھ لو) ابتدائی دور میں تھا بعد میں جب اللہ تعالی کی طرف سے فتوحات کا دروازہ کھل گیا اور افلاس و ناداری کا دور ختم ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ اگر کوئی مسلمان اس حال میں انتقال کر جائے کہ اس پر قرض ہو (اور ادائیگی کا سامان نہ چھوڑا ہو) تو وہ قرض میرے ذمہ ہے میں اس کو ادا کروں گا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ کسی مسلمان کے ذمہ کسی دوسرے کا حق باقی نہ رہ جائے۔
بہرحال ان سب حدیثوں سے معلوم ہوا کہ قرض ادا نہ کرنا اور اس حال میں دنیا سے چلا جانا بڑا سنگین گناہ ہے اور اس کا انجام بہت ہی خطرناک ہے۔ اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے سبق لینے کی ہم سب کو توفیق دے اور دنیا سے اس حال میں اٹھائے گئے کہ کسی بندہ کا قرض اور کوئی حق ہمارے ذمہ نہ ہو۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل بظاہر زندوں کو تنبیہ کے لیے تھا کہ وہ قرضوں کے ادا کرنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں اور ہر شخص کی یہ کوشش ہو کہ اگر اس پر کسی کا قرضہ ہے تو وہ اس سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اور دنیا سے اس حال میں جائے کہ اس کے ذمہ کسی کا کچھ مطالبہ نہ ہو۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث اسی بارے میں مروی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرزعمل (کے قرضدار میت کی نماز جنازہ سے خود معذرت فرما دیتے اور صحابہ کرامؓ سے فرما دیتے کہ تم لوگ پڑھ لو) ابتدائی دور میں تھا بعد میں جب اللہ تعالی کی طرف سے فتوحات کا دروازہ کھل گیا اور افلاس و ناداری کا دور ختم ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ اگر کوئی مسلمان اس حال میں انتقال کر جائے کہ اس پر قرض ہو (اور ادائیگی کا سامان نہ چھوڑا ہو) تو وہ قرض میرے ذمہ ہے میں اس کو ادا کروں گا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ کسی مسلمان کے ذمہ کسی دوسرے کا حق باقی نہ رہ جائے۔
بہرحال ان سب حدیثوں سے معلوم ہوا کہ قرض ادا نہ کرنا اور اس حال میں دنیا سے چلا جانا بڑا سنگین گناہ ہے اور اس کا انجام بہت ہی خطرناک ہے۔ اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے سبق لینے کی ہم سب کو توفیق دے اور دنیا سے اس حال میں اٹھائے گئے کہ کسی بندہ کا قرض اور کوئی حق ہمارے ذمہ نہ ہو۔
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ، فَقَالُوا: صَلِّ عَلَيْهَا، فَقَالَ: «هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟»، قَالُوا: لاَ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ: «هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟» قِيلَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟»، قَالُوا: ثَلاَثَةَ دَنَانِيرَ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ، فَقَالَ: «هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟» قَالُوا: ثَلاَثَةُ دَنَانِيرَ، قَالَ: «هَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟» قَالُوا: لاَ، قَالَ: «صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ»، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ صَلِّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ، فَصَلَّى عَلَيْهِ. (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬৬
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض اداکرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ ادا کرا ہی دے گا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی لوگوں سے(قرض ادھار) مال لے اور اسکی نیت اور ارادہ ادا کرنے کا ہو تو اللہ تعالی اس سے ادا کردے گا (یعنی ادائیگی میں اس کی مدد فرمائے گا اور اگر زندگی میں وہ ادا نہ کر سکا تو آخرت میں اس کی طرف سے ادا فرما کر اس کو سبکدوش فرما دے گا) اور جو کوئی کسی سے (قرض ادھار) لے اور اس کا ارادہ ہی مار لینے کا ہو تو اللہ تعالی اس کو تلف اور تباہ ہی کرا دے گا (یعنی دنیا میں بھی وہ اس بدنیت آدمی کو لینا نہ ہو گا اور آخرت میں اس کے لیے وبال عظیم ہوگا)۔ (صحیح بخاری)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلاَفَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬৭
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض اداکرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ ادا کرا ہی دے گا
حضرت عمران بن حصینؓ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا آپ صلی اللہ فرماتے تھے کہ جو کوئی بندہ قرض لے اور اللہ کے علم میں ہو کہ اس کی نیت اور ارادہ ادا کرنے کا ہے تو اللہ تعالی اس کا وہ قرضہ دنیا ہی میں ادا کردے گا۔ (سنن نسائی)
تشریح
حضرت عمران بن حصین کی اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بہت قرض لیا کرتی تھیں (غالبا مصارف خیر میں صرف کرنے کے لیے لیتی ہوں گی) تو ان کے خاص اعزہ اور متعلقین نے اس بارے میں ان سے بات کی (اور اس معاملہ میں احتیاط کا مشورہ دیا) تو آپؓ نے صاف فرما دیا کہ میں اس کو نہیں چھوڑوں گی اور ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارشاد سنایا مطلب یہ تھا کہ حضور صلی اللہ وسلم کے اس ارشاد کی بنا پر مجھے کامل یقین ہے کہ میں جو کچھ قرض لیتی رہوں گی اس کی پائی پائی اللہ تعالی دنیا ہی میں ادا کرا دے گا مجھے اس کی ضمانت اور کفالت پر پورا اعتماد اور بھروسا ہے۔ بے شک ایسے اصحاب یقین کے لیے یہ طرز عمل درست ہے۔
تشریح
حضرت عمران بن حصین کی اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بہت قرض لیا کرتی تھیں (غالبا مصارف خیر میں صرف کرنے کے لیے لیتی ہوں گی) تو ان کے خاص اعزہ اور متعلقین نے اس بارے میں ان سے بات کی (اور اس معاملہ میں احتیاط کا مشورہ دیا) تو آپؓ نے صاف فرما دیا کہ میں اس کو نہیں چھوڑوں گی اور ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارشاد سنایا مطلب یہ تھا کہ حضور صلی اللہ وسلم کے اس ارشاد کی بنا پر مجھے کامل یقین ہے کہ میں جو کچھ قرض لیتی رہوں گی اس کی پائی پائی اللہ تعالی دنیا ہی میں ادا کرا دے گا مجھے اس کی ضمانت اور کفالت پر پورا اعتماد اور بھروسا ہے۔ بے شک ایسے اصحاب یقین کے لیے یہ طرز عمل درست ہے۔
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ خَلِيلِي وَصَفِيِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَدَّانُ دَيْنًا فَيَعْلَمُ اللَّهُ أَنَّهُ يُرِيدُ قَضَاءَهُ إِلَّا أَدَّاهُ اللَّهُ عَنْهُ فِي الدُّنْيَا» (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬৮
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض اداکرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ ادا کرا ہی دے گا
حضرت عبداللہ ابن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی مقروض کے ساتھ ہیں جب تک کہ اس کا قرضہ ادا ہو بشرط یہ کہ یہ قرضہ کسی برے کام کے لیے نہ لیا گیا ہو۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو بندہ اپنی صحیح ضرورت و حاجت یا کسی نیک کام کے لیے قرض لے اور وہ اس کی ادائیگی کی نیت اور فکر رکھتا ہو تو قرضہ ادا ہونے تک اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور مدد اس کے ساتھ رہے گی ۔ سنن ابنِ ماجہ کی اس روایت میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حدیث کے راوی عبداللہ بن جعفرؓ اس حدیث کی بناء پر ہمیشہ مقروض رہتے تھے ، فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا کوئی دن اور کوئی رات ایسی نہ گزرے جس میں اللہ تعالیٰ کی “معیت” یعنی خاص عنایت مجھے نصیب نہ ہو ۔
ان کے حالات میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ بہت سخی تھے اس لئے بھی ہمیشہ مقروض رہتے تھے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو بندہ اپنی صحیح ضرورت و حاجت یا کسی نیک کام کے لیے قرض لے اور وہ اس کی ادائیگی کی نیت اور فکر رکھتا ہو تو قرضہ ادا ہونے تک اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور مدد اس کے ساتھ رہے گی ۔ سنن ابنِ ماجہ کی اس روایت میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حدیث کے راوی عبداللہ بن جعفرؓ اس حدیث کی بناء پر ہمیشہ مقروض رہتے تھے ، فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا کوئی دن اور کوئی رات ایسی نہ گزرے جس میں اللہ تعالیٰ کی “معیت” یعنی خاص عنایت مجھے نصیب نہ ہو ۔
ان کے حالات میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ بہت سخی تھے اس لئے بھی ہمیشہ مقروض رہتے تھے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ مَعَ الدَّائِنِ حَتَّى يَقْضِيَ دَيْنَهُ، مَا لَمْ يَكُنْ فِيمَا يَكْرَهُ» (رواه ابن ماجة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৬৯
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض لینے اور ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرا رسول اللہ ﷺ پر کچھ قرض تھا تو آپ ﷺ نے جب وہ ادا فرمایا تو (میری واجبی رقم سے) زیادہ عطا فرمایا ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کو بھی قرض لینے کی ضرورت پڑتی تھی اور آپ ﷺ قرض لیتے تھے اسی سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ آپ ﷺ غیر مسلموں یہودیوں سے بھی قرض لیتے تھے اور اس میں جو عظیم دینی مصلحتیں اور حکمتیں تھیں وہ بھی وہاں بیان کی جا چکی ہیں ۔ یہاں اس سلسلہ میں صرف تین حدیثیں درج کی جاتی ہیں ۔
تشریح ..... قرض دار کا ادائیگی کے وقت اپنی طرف سے کچھ زیادہ ادا کرنا جائز بلکہ مستحب اور سنت ہے ۔ چونکہ یہ کسی شرط اور معاہدہ کی بناء پر نہیں ہوتا اس لئے یہ “ربوا” (سود) نہیں بلکہ تبرع اور احسان ہے ۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جس کو بتلانے اور رواج دینے کی ضرورت ہے ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ کو بھی قرض لینے کی ضرورت پڑتی تھی اور آپ ﷺ قرض لیتے تھے اسی سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ آپ ﷺ غیر مسلموں یہودیوں سے بھی قرض لیتے تھے اور اس میں جو عظیم دینی مصلحتیں اور حکمتیں تھیں وہ بھی وہاں بیان کی جا چکی ہیں ۔ یہاں اس سلسلہ میں صرف تین حدیثیں درج کی جاتی ہیں ۔
تشریح ..... قرض دار کا ادائیگی کے وقت اپنی طرف سے کچھ زیادہ ادا کرنا جائز بلکہ مستحب اور سنت ہے ۔ چونکہ یہ کسی شرط اور معاہدہ کی بناء پر نہیں ہوتا اس لئے یہ “ربوا” (سود) نہیں بلکہ تبرع اور احسان ہے ۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جس کو بتلانے اور رواج دینے کی ضرورت ہے ۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ لِىْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ فَقُضِيَ لِي وَزَادَنِي. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৭০
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض لینے اور ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے قرضہ کا تقاضا کیا اور سخت کلامی کی تو آپ ﷺ کے اصحابِ کرامؓ نے (جو اس وقت موجود تھے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا) ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا “اس کو چھوڑ دو کچھ نہ کہو کیاں کہ صاحبِ حق کو کہنے کا حق ہے اور اس کا قرض ادا کرنے کے واسطے ایک اونٹ خرید لاؤ اور اس کو دے دو” ۔ انہوں نے واپس آ کر کہا (اس شخص کا اونٹ جس حیثیت کا تھا اس طرح کا اونٹ نہیں مل رہا ہے) صرف ایسا اونٹ ملتا ہے جو اس کے اونٹ سے زیادہ عمر کا اور زیادہ بڑھیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا وہی خرید لاؤ اور اس کو وہی دے دو ، کیوں کہ وہ آدمی زیادہ اچھا ہے جو بہتر اور برتر ادا کرے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بلکہ اس سے پہلے سے عرب میں یہ عام رواج تھا کہ ایک آدمی اپنی ضرورت کے لئے دوسرے آدمی سے اونٹ قرض لے لیتا اور یہ معاملہ روپیہ پیسے کے حساب سے نہ ہوتا بلکہ یہ طے ہو جاتا کہ اس عمر اور اس حیثیت کا دوسرا اونٹ اس کے بدلے مقررہ مدت تک دے دیا جائے گا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس رواج کے مطابق کسی وقت کسی شخص سے اونٹ قرض لیا تھا ۔ غالباً مقررہ وقت آ جانے پر وہ تقاضا کرنے آیا اور اس نے ادن و تمیز کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا ، صحابہ کرامؓ میں سے جو حضرات اس وقت حاضر و موجود تھے انہوں نے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اس کو کچھ نہ کہو ، اس کا ہم پر حق ہے اور صاحبِ حق کو سخت سست کہنے کا حق ہے ۔ ہاں تم یہ کرو کہ جس عمر کا اور جس حیثیت کا اس شخص کا اونٹ تھا ویسا ہی خرید کر لاد دو اور اس کو ادا کر دو ۔ صحابہ کرامؓ نے ویسا اونٹ تلاش کیا ، لیکن کہیں نہیں ملا ، ہاں عمر اور حیثیت کے لحاظ سے اس سے بڑا اور بڑھیا اونٹ ملتا تھا ، انہوں نے واپس آ کر حضور سے یہی عرض کر دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بڑا اور بڑھیا مل رہا ہے وہی خرید لاؤ اور اس کو وہی دے دو ۔ ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ جو آدمی زیادہ بہتر اور برتر ادا کرتا ہے وہی زیادہ اچھا ہے ۔ اس حدیث میں امت کے لئے جو سبق ہے وہ کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں ۔
کسی ذریعہ سے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ شخص جس کا اس حدیث میں ذکر ہے اور جس نے تقاضا کرنے میں ادب و تمیز کے خلاف رویہ اختیار کیا تھا ، کون تھا ، غالب گمان یہی ہے کہ کوئی غیر مسلم یہودی وغیرہ ہو گا ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث میں اس حدیث کی تشریح میں جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضور ﷺ کی وفات ہوئی اتو آپ ﷺ کی زرہ مبارک ۳۰ صاع جو کے عوض ایک یہودی کے یہاں رہن رکھی ہوئی تھی) تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضور ﷺ یہودیوں وغیرہ غیر مسلموں سے بھی قرض لے لیتے تھے اور وہیں اس کی حکمتیں و مصلحتیں بھی بیان کی گئی ہیں ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بلکہ اس سے پہلے سے عرب میں یہ عام رواج تھا کہ ایک آدمی اپنی ضرورت کے لئے دوسرے آدمی سے اونٹ قرض لے لیتا اور یہ معاملہ روپیہ پیسے کے حساب سے نہ ہوتا بلکہ یہ طے ہو جاتا کہ اس عمر اور اس حیثیت کا دوسرا اونٹ اس کے بدلے مقررہ مدت تک دے دیا جائے گا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس رواج کے مطابق کسی وقت کسی شخص سے اونٹ قرض لیا تھا ۔ غالباً مقررہ وقت آ جانے پر وہ تقاضا کرنے آیا اور اس نے ادن و تمیز کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا ، صحابہ کرامؓ میں سے جو حضرات اس وقت حاضر و موجود تھے انہوں نے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اس کو کچھ نہ کہو ، اس کا ہم پر حق ہے اور صاحبِ حق کو سخت سست کہنے کا حق ہے ۔ ہاں تم یہ کرو کہ جس عمر کا اور جس حیثیت کا اس شخص کا اونٹ تھا ویسا ہی خرید کر لاد دو اور اس کو ادا کر دو ۔ صحابہ کرامؓ نے ویسا اونٹ تلاش کیا ، لیکن کہیں نہیں ملا ، ہاں عمر اور حیثیت کے لحاظ سے اس سے بڑا اور بڑھیا اونٹ ملتا تھا ، انہوں نے واپس آ کر حضور سے یہی عرض کر دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بڑا اور بڑھیا مل رہا ہے وہی خرید لاؤ اور اس کو وہی دے دو ۔ ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ جو آدمی زیادہ بہتر اور برتر ادا کرتا ہے وہی زیادہ اچھا ہے ۔ اس حدیث میں امت کے لئے جو سبق ہے وہ کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں ۔
کسی ذریعہ سے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ شخص جس کا اس حدیث میں ذکر ہے اور جس نے تقاضا کرنے میں ادب و تمیز کے خلاف رویہ اختیار کیا تھا ، کون تھا ، غالب گمان یہی ہے کہ کوئی غیر مسلم یہودی وغیرہ ہو گا ۔ اس سلسلہ معارف الحدیث میں اس حدیث کی تشریح میں جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضور ﷺ کی وفات ہوئی اتو آپ ﷺ کی زرہ مبارک ۳۰ صاع جو کے عوض ایک یہودی کے یہاں رہن رکھی ہوئی تھی) تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضور ﷺ یہودیوں وغیرہ غیر مسلموں سے بھی قرض لے لیتے تھے اور وہیں اس کی حکمتیں و مصلحتیں بھی بیان کی گئی ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَغْلَظَ لَهُ، فَهَمَّ أَصْحَابُهُ فَقَالَ: دَعُوهُ «فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا»، «وَاشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ» قَالُوا: لاَ نَجِدُ إِلَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ، قَالَ: «اشْتَرُوهُ، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৭১
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ قرض لینے اور ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
حضرت عبداللہ بن ابی ربیعہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار قرض لیا پھر آپ کے پاس سرمایہ آ گیا تو آپ نے مجھے عطا فرما دیا اور ساتھ ہی مجھے دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاے اہل و عیال اور مال میں برکت دے ۔ قرض کا بدلہ یہ ہے کہ ادا کیا جائے اور (قرض دینے والے کی) تعریف اور شکریہ ادا کیا جائے ۔ (سنن نسائی)
تشریح
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قرض بھی لیتے تھے اور ادائیگی کے وقت “هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ” کے اصول پر حق واجب سے زیادہ اور بہتر ادا فرماتے تھے اور دعائے خیر سے بھی نوازتے تھے ۔ آخری حدیث میں چالیس ہزار قرض لینے کا ذکر ہے ۔ بطاہر اس سے مراد چالیس ہزار درہم ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات آپ بڑی بڑی رقمیں بھی قرض لیتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ ایسے قرضے آپ ﷺ جہاد وغیرہ دینی مہمات ہی کے لئے لیتے ہوں گے ، ورنہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اہل و عیال کی معیشت کا ھال تو یہ تھا کہ بقول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کبھی دو دن متواتر پیٹ بھر کے جو کی روٹی بھی نہیں کھائی اور بسا اوقات فاقوں کی نوبت آتی تھی اور مہینوں گھر میں چولہا گرم نہیں ہوتا تھا صرف پانی اور کھجور پر گزارہ ہوتا تھا ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
تشریح
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قرض بھی لیتے تھے اور ادائیگی کے وقت “هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ” کے اصول پر حق واجب سے زیادہ اور بہتر ادا فرماتے تھے اور دعائے خیر سے بھی نوازتے تھے ۔ آخری حدیث میں چالیس ہزار قرض لینے کا ذکر ہے ۔ بطاہر اس سے مراد چالیس ہزار درہم ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات آپ بڑی بڑی رقمیں بھی قرض لیتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ ایسے قرضے آپ ﷺ جہاد وغیرہ دینی مہمات ہی کے لئے لیتے ہوں گے ، ورنہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اہل و عیال کی معیشت کا ھال تو یہ تھا کہ بقول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کبھی دو دن متواتر پیٹ بھر کے جو کی روٹی بھی نہیں کھائی اور بسا اوقات فاقوں کی نوبت آتی تھی اور مہینوں گھر میں چولہا گرم نہیں ہوتا تھا صرف پانی اور کھجور پر گزارہ ہوتا تھا ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، قَالَ: اسْتَقْرَضَ مِنِّي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ أَلْفًا، فَجَاءَهُ مَالٌ فَدَفَعَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ: «بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، إِنَّمَا جَزَاءُ السَّلَفِ الْحَمْدُ وَالْأَدَاءُ» (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৭২
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ساتھ مہلک اور تباہ کن گناہوں سے بچو ، صحابہ نے عرض یا یا رسول اللہ! وہ کون سے سات گناہ ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ کے ساتھ (اس کی عبادت یا صفات یا افعال میں کسی کو) شریک کرنا ، اور جادو کرنا ، اور ناحق کسی آدمی کو قتل کرنا اور سود کھانا ، اور یتیم کا مال کھانا اور (اپنی جان بچانے کے لئے) جہاد میں لشکر اسلام کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جانا اور اللہ کی پاک دامن بھولی بھالی بندیوں پر زنا کی تہمت لگانا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
دنیا کے دوسرے ملکوں اور قوموں کی طرح عربوں میں بھی سودی لین دین کا رواج تھا ، اور ہمارے یہاں کے دود خور مہاجنوں کی طرح وہاں بھی کچھ سرمایہ دار یہ کاروبار کرتے تھے جس کی عام مروج و معروف صورت یہی تھی کہ ضرورت مند لوگ ان سے قرض لیتے اور طے ہو جاتا کہ یہ رقم وہ فلاں وقت تک اتنے اضافے کے ساتھ ادا کر دیں گے ۔ پھر مقررہ وقت پر قرض لینے والا ادا نہ کر سکتا تو مزید مہلت لے لیتا اور اس مہلت کے حساب میں سود کی رقم میں اضافہ طے ہو جاتا ۔ اس طرح غریب قرض داروں کا بوجھ بڑھتا رہتا اور سود خور مہاجن ان کا خون چوستے رہتے ۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے بالکل خلاف تھی ۔ اسلام کی تعلیم اور ہدایت تو اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ غریبوں کی مدد کی جائے ، کمزوروں کو سہارا دیا جائے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے اور یہ سب اپنی کسی دنیوی مصلحت و منفعت کے لئے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت کے ثواب کے لئے کیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں جس طرح ام الخبائث شراب سے لوگوں کو بچانے کے لئے تدریجی رویہ اختیار فرمایا اسی طرح سود کے ظالمانہ اور لعنتی کاروبار کے رواج کو ختم کرنے کے لئے بھی اسی حکمت عملی کو استعمال کیا گیا ۔ شروع میں طویل مدت تک صرف مثبت انداز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اپنی دولت فی سبیل اللہ خرچ کرو ، غریبوں کی مدد کرو ، کمزوروں کو سہارا دو ، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرو ۔ رحم ، سخاوت اور ایثار جیسے اخلاق کو اپناؤ ، بتلایا گیا کہ تم بھی فانی ہو ، تمہاری دولت بھی فنا ہو جانے والی ہے ۔ اس لئے اس دولت کے ذریعہ آخر کی ابدیفلاح اور جنت کماؤ ، قارون جیسے پرستارانِ دولت کے انجام سے سبق حاصل کرو ۔
اس تعلیم و ہدایت اور اس کے مطابق عمل نے معاشرہ کا مزاج ایسا بنا دیا ، اور فضا اس کے لئے ایسی سازگار ہو گئی کہ اس ظالمانہ اور انسانیت کش کاروبار (ربوا ۔ سود) کی قطعی حرمت کا قانون نافذ کر دیا جائے ۔ چنانچہ اواخر سورہ بقرہ کی ۲۷۵ سے ۲۸۰ تک کی وہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں واضح طور پر ربوا (سود) کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یعنی “الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا” سے لے کر “وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ” تک ۔
ان آیتوں میں یہ بھی صراحت کر دی گئی اگر پچھلے لین دین کے سلسلے میں کسی کی کوئی سودی رقم کسی مقروض کے ذمے باقی ہے تو وہ بھی اب نہیں لی دی جائے گی ۔ انہی آیتوں میں یہ بھی اعلان فرما دیا گیا کہ سودہ کاروبار کی حرمت کے اس اعلان کے بعد بھی جو لگ باز نہ آئیں اور خداوندی قانون کی نافرمانی کریں ان کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے (فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ)
اللہ کی پناہ ! یہ وعید (یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کی وعید) سودی کاروبار کے سوا زنا شراب ، خونِ ناحق وغیرہ کسی بھی بڑے سے بڑے گناہ کے بارے میں قرآن مجید میں وارد نہیں ہوئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں یہ گناہ دوسرے سب گناہوں سے زیادہ شدید و غلیظ ہے ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود خوری کو انتہائی درجہ کے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے ۔ اور سود لینے والوں کے ساتھ اس کے دینے والوں یہاں تک کہ سودی دستاویز لکھنے والوں اور سودی معاملے کے گواہ بننے والوں کو بھی مستحق لعنت قرار دیا ہے ۔ اور بعض روایات میں سود کا گناہ زنا سے ستر گنا زیادہ بتلایا گیا ہے ۔
اس تمہید کے بعد اس باب کی مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :
تشریح ..... اس حدیث میں جن گناہوں سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے یہ شدید ترین اور خبیث ترین کبیرہ گناہ ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ان کو “موبقات” فرمایا ہے (یعنی آدمی کو اور اس کی ایمانی روح کو ہلاک و برباد کر دینے والے) ان میں آپ ﷺ نے شرک اور سحر اور قتلِ ناحق کے بعد اکل ربا (سود لینے اور کھانے) کا ذکر فرمایا اور اس کو روحِ ایمانی کے لئے قاتل اور مہلک بتلایا ہے ۔ جس طرح اطبا اور ڈاکٹر اپنے تحقیقی علم و فن اور تجربہ کی بناء پر اس دنیا میں زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں ، دواؤں ، غذاؤں وغیرہ کے خواص بیان کرتے ہیں کہ فلاں چیز میں یہ خاصیت اور تاثیر ہے اور یہ آدمی کے فلاں مرض کے لئے مفید یا مضر ہے ، اسی طرح انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے ہوئے علم کی بنیاد پر انسانوں کے عقائد و افکار اور اعمال و اخلاق کے خواص اور نتائج بتلاتے ہیں کہ فلاں ایمانی عقیدہ اور فلاں نیک عمل اور فلاں اچھی خصلت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور دنیا میں قلب و روح کا سکون ہے اور فلاں کافرانہ و مشرکانہ عقیدے اور فلاں ظلم و معصیت کا انجام اللہ کی لعنت اور دوزخ کا عذاب اور دنیا میں طرح طرح کی بےچینیاں اور پریشانیاں ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی تحقیق اور غور و فکر میں غلطی کا امکان ہے اور کبھی کبھی غلطی کا تجربہ بھی ہو جاتا ہے ۔ لیکن انبیاء علیہم السلام کی بنیاد خالق کائنات اور علیم کل اللہ تعالیٰ کی وحی پر ہوتی ہے اس میں کسی بھول چوک یا غلطی کا احتمال اور کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ۔ مگر عجب معاملہ ہے کہ حکیموں ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی دواؤں کو سب بلا چون و چرا کے اعتماد پر استعمال کرتے ہیں ، پرہیز کے بارے میں وہ جو ہدایت دیں اس کی بھی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ اور اسی کو عقل کا تقاضا سمجھا جاتا ہے اور کسی مریض کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ کہے کہ میں دواجب استعمال کروں گا جب اس کی تاثیر کا فلسفہ مجھے سمجھا دیا جائے ۔ لیکن اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے رسولِ برحق خاتم الانبیاء ﷺ مثلاً سود کے بارے میں فرمائیں کہ وہ شدید و خبیث کبیرہ گناہ اور “موبقات” میں سے ہے ۔ خدا کی لعنت و غضب کا موجب اور روح ایمان کے لئے قاتل ہے اور سود خوروں کے لئے آخرت میں لرزہ خیز عذاب ہے تو بہت سے مدعیانِ عقل و ایمان کے لئے یہ کافی نہ ہوا اور وہ اس کا “فلسفہ” معلوم کرنا ضروری سمجھیں ۔ اللہ دلوں کو ایمان و یقین نصیب فرمائے ۔
تشریح
دنیا کے دوسرے ملکوں اور قوموں کی طرح عربوں میں بھی سودی لین دین کا رواج تھا ، اور ہمارے یہاں کے دود خور مہاجنوں کی طرح وہاں بھی کچھ سرمایہ دار یہ کاروبار کرتے تھے جس کی عام مروج و معروف صورت یہی تھی کہ ضرورت مند لوگ ان سے قرض لیتے اور طے ہو جاتا کہ یہ رقم وہ فلاں وقت تک اتنے اضافے کے ساتھ ادا کر دیں گے ۔ پھر مقررہ وقت پر قرض لینے والا ادا نہ کر سکتا تو مزید مہلت لے لیتا اور اس مہلت کے حساب میں سود کی رقم میں اضافہ طے ہو جاتا ۔ اس طرح غریب قرض داروں کا بوجھ بڑھتا رہتا اور سود خور مہاجن ان کا خون چوستے رہتے ۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے بالکل خلاف تھی ۔ اسلام کی تعلیم اور ہدایت تو اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ غریبوں کی مدد کی جائے ، کمزوروں کو سہارا دیا جائے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے اور یہ سب اپنی کسی دنیوی مصلحت و منفعت کے لئے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت کے ثواب کے لئے کیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں جس طرح ام الخبائث شراب سے لوگوں کو بچانے کے لئے تدریجی رویہ اختیار فرمایا اسی طرح سود کے ظالمانہ اور لعنتی کاروبار کے رواج کو ختم کرنے کے لئے بھی اسی حکمت عملی کو استعمال کیا گیا ۔ شروع میں طویل مدت تک صرف مثبت انداز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اپنی دولت فی سبیل اللہ خرچ کرو ، غریبوں کی مدد کرو ، کمزوروں کو سہارا دو ، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرو ۔ رحم ، سخاوت اور ایثار جیسے اخلاق کو اپناؤ ، بتلایا گیا کہ تم بھی فانی ہو ، تمہاری دولت بھی فنا ہو جانے والی ہے ۔ اس لئے اس دولت کے ذریعہ آخر کی ابدیفلاح اور جنت کماؤ ، قارون جیسے پرستارانِ دولت کے انجام سے سبق حاصل کرو ۔
اس تعلیم و ہدایت اور اس کے مطابق عمل نے معاشرہ کا مزاج ایسا بنا دیا ، اور فضا اس کے لئے ایسی سازگار ہو گئی کہ اس ظالمانہ اور انسانیت کش کاروبار (ربوا ۔ سود) کی قطعی حرمت کا قانون نافذ کر دیا جائے ۔ چنانچہ اواخر سورہ بقرہ کی ۲۷۵ سے ۲۸۰ تک کی وہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں واضح طور پر ربوا (سود) کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یعنی “الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا” سے لے کر “وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ” تک ۔
ان آیتوں میں یہ بھی صراحت کر دی گئی اگر پچھلے لین دین کے سلسلے میں کسی کی کوئی سودی رقم کسی مقروض کے ذمے باقی ہے تو وہ بھی اب نہیں لی دی جائے گی ۔ انہی آیتوں میں یہ بھی اعلان فرما دیا گیا کہ سودہ کاروبار کی حرمت کے اس اعلان کے بعد بھی جو لگ باز نہ آئیں اور خداوندی قانون کی نافرمانی کریں ان کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے (فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ)
اللہ کی پناہ ! یہ وعید (یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کی وعید) سودی کاروبار کے سوا زنا شراب ، خونِ ناحق وغیرہ کسی بھی بڑے سے بڑے گناہ کے بارے میں قرآن مجید میں وارد نہیں ہوئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں یہ گناہ دوسرے سب گناہوں سے زیادہ شدید و غلیظ ہے ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود خوری کو انتہائی درجہ کے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے ۔ اور سود لینے والوں کے ساتھ اس کے دینے والوں یہاں تک کہ سودی دستاویز لکھنے والوں اور سودی معاملے کے گواہ بننے والوں کو بھی مستحق لعنت قرار دیا ہے ۔ اور بعض روایات میں سود کا گناہ زنا سے ستر گنا زیادہ بتلایا گیا ہے ۔
اس تمہید کے بعد اس باب کی مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :
تشریح ..... اس حدیث میں جن گناہوں سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے یہ شدید ترین اور خبیث ترین کبیرہ گناہ ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ان کو “موبقات” فرمایا ہے (یعنی آدمی کو اور اس کی ایمانی روح کو ہلاک و برباد کر دینے والے) ان میں آپ ﷺ نے شرک اور سحر اور قتلِ ناحق کے بعد اکل ربا (سود لینے اور کھانے) کا ذکر فرمایا اور اس کو روحِ ایمانی کے لئے قاتل اور مہلک بتلایا ہے ۔ جس طرح اطبا اور ڈاکٹر اپنے تحقیقی علم و فن اور تجربہ کی بناء پر اس دنیا میں زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں ، دواؤں ، غذاؤں وغیرہ کے خواص بیان کرتے ہیں کہ فلاں چیز میں یہ خاصیت اور تاثیر ہے اور یہ آدمی کے فلاں مرض کے لئے مفید یا مضر ہے ، اسی طرح انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے ہوئے علم کی بنیاد پر انسانوں کے عقائد و افکار اور اعمال و اخلاق کے خواص اور نتائج بتلاتے ہیں کہ فلاں ایمانی عقیدہ اور فلاں نیک عمل اور فلاں اچھی خصلت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور دنیا میں قلب و روح کا سکون ہے اور فلاں کافرانہ و مشرکانہ عقیدے اور فلاں ظلم و معصیت کا انجام اللہ کی لعنت اور دوزخ کا عذاب اور دنیا میں طرح طرح کی بےچینیاں اور پریشانیاں ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی تحقیق اور غور و فکر میں غلطی کا امکان ہے اور کبھی کبھی غلطی کا تجربہ بھی ہو جاتا ہے ۔ لیکن انبیاء علیہم السلام کی بنیاد خالق کائنات اور علیم کل اللہ تعالیٰ کی وحی پر ہوتی ہے اس میں کسی بھول چوک یا غلطی کا احتمال اور کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ۔ مگر عجب معاملہ ہے کہ حکیموں ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی دواؤں کو سب بلا چون و چرا کے اعتماد پر استعمال کرتے ہیں ، پرہیز کے بارے میں وہ جو ہدایت دیں اس کی بھی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ اور اسی کو عقل کا تقاضا سمجھا جاتا ہے اور کسی مریض کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ کہے کہ میں دواجب استعمال کروں گا جب اس کی تاثیر کا فلسفہ مجھے سمجھا دیا جائے ۔ لیکن اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے رسولِ برحق خاتم الانبیاء ﷺ مثلاً سود کے بارے میں فرمائیں کہ وہ شدید و خبیث کبیرہ گناہ اور “موبقات” میں سے ہے ۔ خدا کی لعنت و غضب کا موجب اور روح ایمان کے لئے قاتل ہے اور سود خوروں کے لئے آخرت میں لرزہ خیز عذاب ہے تو بہت سے مدعیانِ عقل و ایمان کے لئے یہ کافی نہ ہوا اور وہ اس کا “فلسفہ” معلوم کرنا ضروری سمجھیں ۔ اللہ دلوں کو ایمان و یقین نصیب فرمائے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: «الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ اليَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৭৩
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میںٰ سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں ، میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ (جو ایسے عذاب میں مبتلا ہیں) انہوں نے بتلایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں ۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
بِ معراج میں رسول اللہ ﷺ کو عالم غیب کی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا ۔ اسی ضمن میں جنت اور دوزخ کے بعض مناظر بھی دکھائے گئے تا کہ خود آپ ﷺ کو “حق الیقین” کے بعد “عین الیقین” کا مقام بھی حاصل ہو جائے اور آپ ﷺ ذاتی مشاہدہ کی بناء جپر بھی لوگوں کو عذاب و ثواب سے آگاہ کر سکیں ، اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے ایک منظر یہ بھی دیکھا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے کہ کچھ لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہیں جیسے کہ اچھا خاصا گھر اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو دیکھنے والوں کو باہر ہی سے نظر آتے ہیں اور آپ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل نے بتلایا کہ یہ سود لینے والے اور کھانے والے لوگ ہیں جو اس لرزہ خیز عذاب میں مبتلا کئے گئے ہیں ۔ صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کے اس مشاہدہ کو خود آپ ﷺ کی زبان مبارک سے سنا اور اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے بعد کے راویان حدیث کو ان کی محبت و عنایت کے طفیل میں حدیث کی مستند کتابوں کے ذریعہ یہ مشاہدہ ہم تک بھی پہنچ گیا ۔ اللہ تعالیٰ ایسا یقین نصیب فرمائے کہ دل کی آنکھوں سے یہ منظر ہم کو بھی نظر آئے ۔
تشریح
بِ معراج میں رسول اللہ ﷺ کو عالم غیب کی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا ۔ اسی ضمن میں جنت اور دوزخ کے بعض مناظر بھی دکھائے گئے تا کہ خود آپ ﷺ کو “حق الیقین” کے بعد “عین الیقین” کا مقام بھی حاصل ہو جائے اور آپ ﷺ ذاتی مشاہدہ کی بناء جپر بھی لوگوں کو عذاب و ثواب سے آگاہ کر سکیں ، اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے ایک منظر یہ بھی دیکھا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے کہ کچھ لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہیں جیسے کہ اچھا خاصا گھر اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو دیکھنے والوں کو باہر ہی سے نظر آتے ہیں اور آپ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل نے بتلایا کہ یہ سود لینے والے اور کھانے والے لوگ ہیں جو اس لرزہ خیز عذاب میں مبتلا کئے گئے ہیں ۔ صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کے اس مشاہدہ کو خود آپ ﷺ کی زبان مبارک سے سنا اور اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے بعد کے راویان حدیث کو ان کی محبت و عنایت کے طفیل میں حدیث کی مستند کتابوں کے ذریعہ یہ مشاہدہ ہم تک بھی پہنچ گیا ۔ اللہ تعالیٰ ایسا یقین نصیب فرمائے کہ دل کی آنکھوں سے یہ منظر ہم کو بھی نظر آئے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى قَوْمٍ بُطُونُهُمْ كَالْبُيُوتِ، فِيهَا الْحَيَّاتُ تُرَى مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرَائِيلُ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ أَكَلَةُ الرِّبَا " (رواه احمد وابن ماجة)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৭৪
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : سود خوری کے ستر حصے ہیں ان میں سے ادنیٰ اور معمولی ایسا ہے کہ جیسے اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرنا ۔ (سنن ابن ماجہ ، شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
اس سلسلہ معارف الحدیث میں بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ عربی محاورہ اور قرآن و حدیث کی زبان میں “سبعون” کا لفظ خاص معین عدد (۷۰) کے علاوہ کثرت اور بہتات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے بلکہ اکثر اسی معنی استعمال ہوتا ہے ۔ بہرحال اس حدیث کا مدعا اور پیغام یہ ہے کہ سود خوری اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے سے بھی بدرجہا زیادہ شدید اور خبیث گناہ ہے ۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے صرف یہی وہ گناہ ہے جس سے باز نہ آنے والوں کے خلاف قرآنِ پاک میں اللہ و رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے ۔ (فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ)
تشریح
اس سلسلہ معارف الحدیث میں بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ عربی محاورہ اور قرآن و حدیث کی زبان میں “سبعون” کا لفظ خاص معین عدد (۷۰) کے علاوہ کثرت اور بہتات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے بلکہ اکثر اسی معنی استعمال ہوتا ہے ۔ بہرحال اس حدیث کا مدعا اور پیغام یہ ہے کہ سود خوری اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے سے بھی بدرجہا زیادہ شدید اور خبیث گناہ ہے ۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے صرف یہی وہ گناہ ہے جس سے باز نہ آنے والوں کے خلاف قرآنِ پاک میں اللہ و رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے ۔ (فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الرِّبَا سَبْعُونَ جُزْءً، أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ» (رواه ابن ماجه والبيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৭৫
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سود لینے اور کھانے والے پر اور سود دینے اور کھلانے والے پر اور سودی دستاویز لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ (گناہ کی شرکت میں) یہ سب برابر ہیں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ ﷺکے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے اور عقل سلیم کے نزدیک بھی یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اصل خبیث اور موجب لعنت ظالمانہ گناہ سود لینا اور کھانا ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے روایت کئے ہوئے اس ارشاد نبوی کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ سودی کاروبار ایسا خبیث اور لعنتی کاروبار ہے کہ س میں کسی طرح کی شرکت بھی لعنت الٰہی کا موجب ہے اس بناء پر سود دینے والا ، سودی دستاویز کا کاتب اور اس کے گواہ بھی لعنت میں حصہ دار ہیں ۔ اس لئے جو خدا اور رسول کی لعنت اور ان کے غضب سے بچنا چاہے وہ اس کاروبار سے دور دور رہے ۔
تشریح
قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ ﷺکے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے اور عقل سلیم کے نزدیک بھی یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اصل خبیث اور موجب لعنت ظالمانہ گناہ سود لینا اور کھانا ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے روایت کئے ہوئے اس ارشاد نبوی کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ سودی کاروبار ایسا خبیث اور لعنتی کاروبار ہے کہ س میں کسی طرح کی شرکت بھی لعنت الٰہی کا موجب ہے اس بناء پر سود دینے والا ، سودی دستاویز کا کاتب اور اس کے گواہ بھی لعنت میں حصہ دار ہیں ۔ اس لئے جو خدا اور رسول کی لعنت اور ان کے غضب سے بچنا چاہے وہ اس کاروبار سے دور دور رہے ۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৭৬
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم میں سے کوئی آدمی کسی کو قرض دے تو اگر وہ مقروض و مدیون آدمی قرض دینے والے کو کوئی چیز بطور ہدیہ دے یا سواری کے لئے اپنا جانور پیش کرے تو چاہئے کہ وہ اس کے ہدیہ کو قبول نہ کرے اور اس کے جانور کو سواری میں استعمال میں نہ کرے ۔ الا یہ کہ ان دونوں کے درمیان پہلے سے اس کا تعلق اور معاملہ ہوتا رہا ہو ۔ (سنن ابن ماجہ و شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
حدیث کا مدعا اور پیغام یہ ہے کہ سود کا معاملہ اتنا سنگین اور خطرناک ہے کہ اس کے ادنیٰ شبہ سے بھی بچنا چاہئے ۔ جب کسی بندہ کو آدمی قرض دے تو اس کی پوری احتیاط کرے کہ اس قرض کی وجہ سے ذرہ برابر بھی نیوی فائدہ حاصل نہ ہو اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی بچے ۔
تشریح
حدیث کا مدعا اور پیغام یہ ہے کہ سود کا معاملہ اتنا سنگین اور خطرناک ہے کہ اس کے ادنیٰ شبہ سے بھی بچنا چاہئے ۔ جب کسی بندہ کو آدمی قرض دے تو اس کی پوری احتیاط کرے کہ اس قرض کی وجہ سے ذرہ برابر بھی نیوی فائدہ حاصل نہ ہو اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی بچے ۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَقْرَضَ أَحَدُكُمْ قَرْضًا، فَأَهْدَى لَهُ، أَوْ حَمَلَهُ عَلَى الدَّابَّةِ، فَلَا يَرْكَبْهُ وَلَا يَقْبَلْهُ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَبْلَ ذَلِكَ» (رواه ابن ماجه والبيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৭৭৭
کتاب الحج
পরিচ্ছেদঃ رِبا (سود)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ : ربو ا والی آیت (یعنی سورہ بقرہ کی جس آیت میں ربوا کی حرمت کا قطعی اعلان فرمایا گیا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی حیات کے) آخری دور میں نازل ہونے والی آیتوں میں سے ہے ۔ حضور ﷺ اس دنیا سے اُٹھا لئے گئے اور آپ ﷺ نے ہمارے لئے اس کی پوری تفسیر و تشریح نہیں فرمائی ، لہذا ربوا کو بالکل چھوڑ دو اور اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی پرہیز کرو ۔ (سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)
تشریح
“ربوا” عربی زبان کا ایک عام معروف لفظ تھا جو نزول قرآن سے پہلے بھی بولا جاتا تھا اور وہاں کا ہر شخص اس کا مطلب سمجھتا تھا اور وہ وہی تھا جو اوپر تمہیدی سطروں میں بیان کیا گیا ہے اس لئے جب حرمت ربوا والی آیت نازل ہوئی تو وہاں سب نے اس سے یہی سمجھا کہ سودی کاروبار (جس کا وہاں رواج تھا) حرام قرار دے دیا گیا ، اس میں نہ کسی کو کوئی شبہ ہوا اور نہ کسی شبہ کی گنجائش تھی ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض ارشادات میں جو (آگے درج ہو رہے ہیں) خرید و فروخت کی بعض ایسی صورتوں کے بھی “ربوا” کے حکم میں ہونے کا اعلان فرمایا جن میں کسی پہلو سے ربوا کا شائبہ تھا اور جن کو وہاں پہلے “ربوا” نہیں کہا اور سمجھا جاتا تھا مگر اس سلسلہ کی ساری جزئیات رسول اللہ ﷺ نے بیان نہیں فرمائیں بلکہ جیسا کہ حکمت شریعت کا تقاضا تھا اصولی ہدایت فرما دی اور یہ کام امت کے مجتہدین اور فقہا کے لئے رہ گیا کہ وہ آپ کی دی ہوئی اصولی ہدایات کی روشنی میں جزئیات کے بارے میں فیصلہ کریں (تمام ابواب شریعت کا یہی حال ہے) لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو امت کے فقہا و مجتہدین کی صف اول میں ہیں ربوا کے بارے میں سخت وعیدوں سے ڈرتے اور لرزتے ہوئے یہ خواہش رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اس باب (ربوا) کی وہ جزئیات بھی بیان فرما جاتے جو آپ ﷺ نے بیان فرمائیں اور جن کے بارے میں اب اجتہاد سے فیصلہ کرنا پڑے گا ۔ اپنے اس انتہائی خدا ترسانہ اور محتاط نقطہ نظر کی بناء پر انہوں نے اپنے اس ارشاد کے کے آخر میں فرمایا “ فَدَعُوا الرِّبَوا وَالرِّيْبَة ” یعنی اب اہل ایمان کے لئے راہِ عمل یہ ہے کہ وہ “ربوا” اور اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی اپنے کو بچائیں لیکن اس کے برعکس ہمارے زمانہ کے بعض دانشور مدعیان اجتہاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ “ربوا” کی حقیقت مشتبہ بلکہ نامعلوم ہے اور پھر اس کی بنیاد پر وہ سود کی بہت سی مروجہ صورتوں کا جواز نکالتے ہیں ۔
“ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا ہکجا”
تشریح
“ربوا” عربی زبان کا ایک عام معروف لفظ تھا جو نزول قرآن سے پہلے بھی بولا جاتا تھا اور وہاں کا ہر شخص اس کا مطلب سمجھتا تھا اور وہ وہی تھا جو اوپر تمہیدی سطروں میں بیان کیا گیا ہے اس لئے جب حرمت ربوا والی آیت نازل ہوئی تو وہاں سب نے اس سے یہی سمجھا کہ سودی کاروبار (جس کا وہاں رواج تھا) حرام قرار دے دیا گیا ، اس میں نہ کسی کو کوئی شبہ ہوا اور نہ کسی شبہ کی گنجائش تھی ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض ارشادات میں جو (آگے درج ہو رہے ہیں) خرید و فروخت کی بعض ایسی صورتوں کے بھی “ربوا” کے حکم میں ہونے کا اعلان فرمایا جن میں کسی پہلو سے ربوا کا شائبہ تھا اور جن کو وہاں پہلے “ربوا” نہیں کہا اور سمجھا جاتا تھا مگر اس سلسلہ کی ساری جزئیات رسول اللہ ﷺ نے بیان نہیں فرمائیں بلکہ جیسا کہ حکمت شریعت کا تقاضا تھا اصولی ہدایت فرما دی اور یہ کام امت کے مجتہدین اور فقہا کے لئے رہ گیا کہ وہ آپ کی دی ہوئی اصولی ہدایات کی روشنی میں جزئیات کے بارے میں فیصلہ کریں (تمام ابواب شریعت کا یہی حال ہے) لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو امت کے فقہا و مجتہدین کی صف اول میں ہیں ربوا کے بارے میں سخت وعیدوں سے ڈرتے اور لرزتے ہوئے یہ خواہش رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اس باب (ربوا) کی وہ جزئیات بھی بیان فرما جاتے جو آپ ﷺ نے بیان فرمائیں اور جن کے بارے میں اب اجتہاد سے فیصلہ کرنا پڑے گا ۔ اپنے اس انتہائی خدا ترسانہ اور محتاط نقطہ نظر کی بناء پر انہوں نے اپنے اس ارشاد کے کے آخر میں فرمایا “ فَدَعُوا الرِّبَوا وَالرِّيْبَة ” یعنی اب اہل ایمان کے لئے راہِ عمل یہ ہے کہ وہ “ربوا” اور اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی اپنے کو بچائیں لیکن اس کے برعکس ہمارے زمانہ کے بعض دانشور مدعیان اجتہاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ “ربوا” کی حقیقت مشتبہ بلکہ نامعلوم ہے اور پھر اس کی بنیاد پر وہ سود کی بہت سی مروجہ صورتوں کا جواز نکالتے ہیں ۔
“ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا ہکجا”
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: «إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا لَنَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ» (رواه ابن ماجة والدارمى)
তাহকীক: