কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)

كتاب السنن للإمام ابن ماجة

فتنوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ১৭৩ টি

হাদীস নং: ৩৯৪৭
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تمام اہل اسلام اللہ تعالیٰ کے ذمے ( پناہ) میں ہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن اللہ عزوجل کے نزدیک اس کے بعض فرشتوں سے زیادہ معزز و محترم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٣٦) ، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٥) (ضعیف) (سند میں ابوالمہزم یزید ین سفیان ضعیف ہے )
حدیث نمبر: 3947 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُهَزِّمِ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمُؤْمِنُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ بَعْضِ مَلَائِكَتِهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৪৮
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تعصب کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی دعوت دے، اور عصبیت کے سبب غضب ناک ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٣ (١٨٤٨) ، سنن النسائی/تحریم الدم ٢٤ (٤١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٦، ٣٠٦، ٤٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جاہلیت کے زمانے میں ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے نفسانیت اور تعصب کے جذبے سے لڑتا اور فخر و غرور اور تکبر اس کو قتل و قتال پر آمادہ کرتے، اور اپنے قبیلہ کی ناموری اور عزت کے لئے جان دیتا اور جان لیتا، پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کے زمانہ میں جو شرعی سبب کے بغیر لڑائی کرے اس کا حکم بھی جاہلیت کا سا ہے، یعنی اس لڑائی میں کچھ ثواب نہیں بلکہ عذاب ہوگا، اور گمراہی کے جھنڈے کا یہی مطلب ہے کہ نہ شرع کے مطابق امام ہو، نہ شرع کے اصول و ضوابط کے لحاظ سے جہاد ہو، بلکہ یوں اپنی قوم کا فخر قائم رکھنے کے لئے کوئی لڑے اور مارا جائے تو ایسے لڑنے والے کو کچھ ثواب نہیں، سبحان اللہ، دین اسلام سے بڑھ کر اور کوئی دین کیسے اچھا ہوسکتا ہے، ہر آدمی کو اپنی قوم عزیز ہوتی ہے، لیکن اسلام میں یہ حکم ہے کہ اپنے قوم کی مدد بھی وہیں تک کرسکتا ہے، جب تک کہ وہ ظالم نہ ہو، اور انصاف اور شرع کے مطابق کاروائی کرے، لیکن جب قوم ظالم ہو اور انسانوں پر ظلم و زیادتی کرے، تو ایسی قوم سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلے، ایمان کا یہی تقاضا ہے، اور جو لوگ عادل و منصف اور متبع شرع ہوں ان کا ساتھ دے، اور انہی کو اپنی قوم اور جماعت سمجھے۔
حدیث نمبر: 3948 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ،‏‏‏‏ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْ زِيَادِ بْنِ رِيَاحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ،‏‏‏‏ يَدْعُو إِلَى عَصَبِيَّةٍ،‏‏‏‏ أَوْ يَغْضَبُ لِعَصَبِيَّةٍ،‏‏‏‏ فَقِتْلَتُهُ جَاهِلِيَّةٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৪৯
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تعصب کرنے کا بیان
فسیلہ نامی ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ ظلم پر قوم کی مدد کرنا عصبیت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١٢١ (٥١١٩) مختصراً (ضعیف) (سند میں عباد بن کثیر اور فسیلہ ضعیف ہیں )
حدیث نمبر: 3949 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ الْيُحْمِدِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ الشَّامِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ امْرَأَة مِنْهُمْ يُقَالُ لَهَا:‏‏‏‏ فُسَيْلَةُ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي،‏‏‏‏ يَقُولُ،‏‏‏‏ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ وَلَكِنْ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُعِينَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫০
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سواد اعظم (کے ساتھ رہنا )
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہوگی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧١٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٧) (ضعیف جدا) (ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہاں پر سواد اعظم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی مناسب ہے کہ زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہوگی، نبی اکرم ﷺ کی جب بعثت ہوئی تو آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے اقلیت ہی میں تھے، اور وہ حق پر تھے، اور حق ان کے ساتھ تھا، یہی حال تمام انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کا رہا ہے کہ وہ وحی کی ہدایت پر چل کر کے اہل حق ہوئے اور ان کے مقابلے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی، خلاصہ یہ کہ صحابہ تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہی سواد اعظم ہیں، چاہے ان کی جماعت قلیل ہو یا کثیر، قلت اور کثرت سے ان کا حق متاثر نہیں ہوگا، اور اہل حق کا یہ گروہ قلت اور کثرت سے قطع نظر ہمیشہ تاقیامت موجود ہوگا، اور حق پر نہ چلنے والوں کی اقلیت یا اکثریت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، انشاء اللہ العزیز۔ اس ضعیف ترین حدیث کے آخری فقرہ : فعليكم بالسواد الأعظم کو دلیل بنا کر ملت اسلامیہ کے جاہل لوگ اور دین سے کوسوں دور والی اکثریت پر فخر کرنے والوں کو صحیح احادیث کی پرکھ کا ذوق ہی نہیں، اسی لیے وہ بےچارے اس آیت کریمہ : من الذين فرقوا دينهم وکانوا شيعا کل حزب بما لديهم فرحون (سورة الروم :32) کے مصداق ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پھوٹ ڈالی (قرآن و سنت والے اصلی اور فطری دین کو چھوڑ کر اپنے الگ الگ دین بنا لیے اور وہ خود کئی گروہ میں بٹ گئے، اور پھر ہر گروہ اپنے جھوٹے اعتقاد پر خوش ہے، پھولا نہیں سماتا، حقیقت میں یہ لوگ اسی آیت کریمہ کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں، جب کہ قرآن کہہ رہا ہے : وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوک عن سبيل الله إن يتبعون إلا الظن وإن هم إلا يخرصون (سورة الأنعام : 116) اے نبی ! آپ اگر ان لوگوں کے کہنے پر چلیں جن کی دنیا میں اکثریت ہے (سواد اعظم والے) تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے، یہ لوگ صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں، اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں) پھر اس سواد اعظم والی منکر اور سخت ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیحین میں موجود معاویہ (رض) والی حدیث قیامت تک کے لیے کس قدر عظیم سچ ہے کہ جس کا انکار کوئی بھی صاحب عقل و عدل مومن عالم نہیں کرسکتا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لايزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لايضرهم من کذبهم ولا من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك میری امت کا ایک گروہ برابر اور ہمیشہ اللہ کے حکم (قرآن و حدیث) پر قائم رہے گا، کوئی ان کو جھٹلائے اور ان کی مدد سے دور رہے، اور ان کے خلاف کرے، ان کا کچھ نقصان نہ ہوگا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آپہنچے اور وہ اسی (قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے والی) حالت میں ہوں گے (صحیح البخاری، کتاب التوحید حدیث نمبر ٧٤٦٠ ) ، صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں : لاتزال طائفة من أمتي قائمة بأمر الله، لايضرهم من خذلهم أو خالفهم، حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس (کتاب الإمارۃ) یہاں اس روایت میں امت کی جگہ طائفہ کا کلمہ آیا ہے، اور طائفہ امت سے کم کی تعداد ظاہر کرتا ہے (بلکہ دوسری روایات میں عصابہ کا لفظ آیا ہے، جس سے مزید تعداد کی کمی کا پتہ چلتا ہے) یعنی کسی زمانہ میں ان اہل حق، کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی تعداد ایک امت کے برابر ہوگی، کسی دور میں کسی جگہ طائفہ کے برابر اور کسی زمانہ میں عصابہ کے برابر۔ اور یہ کہ وهم ظاهرون على الناس اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے سبحان اللہ، نبی آخر الزماں ﷺ کا فرمان کس قدر حق اور سچ ہے، اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل کہ آج بھی صرف قرآن و سنت پر عمل کرنے والے لوگ جو سلف صالحین اور ائمہ کرام و علمائے امت کے اقرب إلی القرآن والسنہ ہر اجتہاد و رائے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں، معاملہ امت اسلامیہ کے اندر کا ہو یا باہر کا، دین حق پر ہونے کے اعتبار سے یہ اللہ کے صالح بندے ہمیشہ سب پر غالب نظر آتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : یہ گروہ اگر اہل حدیث کا نہیں ہے تو میں نہیں جانتا کہ اور کون ہیں ؟ مندرجہ بالاصحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں : اب اہل بدعت و ضلالت کا وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ، پر نبی اکرم ﷺ کا فرمانا خلاف نہیں ہوسکتا، اب بھی ایک فرقہ مسلمانوں کا باقی ہے جو محمدی کے لقب سے مشہور ہے، اور اہل توحید، اہل حدیث اور موحد یہ سب ان کے نام ہیں، یہ فرقہ قرآن اور حدیث پر قائم ہے، اور باوجود صدہا ہزارہا فتنوں کے یہ فرقہ (گروہ اور جماعت) بدعت و گمراہی سے اب بھی بچا ہوا ہے، اور اس زمانہ میں یہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں۔
حدیث نمبر: 3950 حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلَامِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الْأَعْمَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫১
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ہونے والے فتنوں کا ذکر
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن بہت لمبی نماز پڑھائی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے (یا لوگوں نے) عرض کیا : اللہ کے رسول ! آج تو آپ نے نماز بہت لمبی پڑھائی، آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، آج میں نے رغبت اور خوف والی نماز ادا کی، میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین باتیں طلب کیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو عطا فرما دیں اور ایک قبول نہ فرمائی، میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کیا تھا کہ میری امت پر اغیار میں سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے دیا، دوسری چیز میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کی تھی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی مجھے دیا، تیسری یہ دعا کی تھی کہ میری امت آپس میں جنگ و جدال نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہ فرمائی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٤٠) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٤٠٦ )
حدیث نمبر: 3951 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ رَجَاءٍ الْأَنْصَارِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ،‏‏‏‏ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةً فَأَطَالَ فِيهَا،‏‏‏‏ فَلَمَّا انْصَرَفَ،‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ أَوْ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَطَلْتَ الْيَوْمَ الصَّلَاةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي صَلَّيْتُ صَلَاةَ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ،‏‏‏‏ سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِأُمَّتِي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ،‏‏‏‏ وَرَدَّ عَلَيَّ وَاحِدَةً،‏‏‏‏ سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا،‏‏‏‏ وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَهُمْ غَرَقًا فَأَعْطَانِيهَا،‏‏‏‏ وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَرَدَّهَا عَلَيَّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫২
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ہونے والے فتنوں کا ذکر
رسول اللہ ﷺ کے غلام ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا، پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی بھی) مجھے دئیے گئے ١ ؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) حکومت وہاں تک ہوگی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا : پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس میں ایک کو دوسرے سے نہ لڑا، تو مجھ سے کہا گیا کہ میں جب کوئی حکم نافذ کردیتا ہوں تو وہ واپس نہیں ہوسکتا، بیشک میں تمہاری امت کو قحط سے ہلاک نہ کروں گا، اور میں زمین کے تمام کناروں سے سارے مخالفین کو (ایک وقت میں) ان پر جمع نہ کروں گا جب تک کہ وہ خود آپس میں اختلاف و لڑائی اور ایک دوسرے کو مٹانے اور قتل نہ کرنے لگیں، لیکن جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف گمراہ سربراہوں کا ہے، عنقریب میری امت کے بعض قبائل بتوں کی پرستش کریں گے، اور عنقریب میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے مل جائیں گے، اور قیامت کے قریب تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہوگا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اور ہمیشہ ان کی مدد ہوتی رہے گی، اور جو کوئی ان کا مخالف ہوگا وہ ان کو کوئی ضرور نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے ٢ ؎۔ ابوالحسن ابن القطان کہتے ہیں : جب ابوعبداللہ (یعنی امام ابن ماجہ) اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا : یہ حدیث کتنی ہولناک ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٣ (١٩٢٠) ، الفتن ٥ (٢٨٨٩) إلی قولہ : بعضھم بعضاً مع فقرة الطائفة المنصورة، سنن ابی داود/الفتن ١ (٤٢٥٢) ، سنن الترمذی/الفتن ١٤ (٢١٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٨، ٢٨٤) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٢ (٢٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے روم و ایران کے خزانے مراد ہیں۔ ٢ ؎: یعنی قیامت قائم ہو، اس حدیث میں آپ ﷺ کا کھلا معجزہ ہے، آپ نے فرمایا : مجھ کو زمین کے پورب اور پچھم دکھلائے گئے اور ایسا ہی ہوا کہ اسلام پورب یعنی ترکستان اور تاتار کی ولایت سے لے کر پچھم یعنی اندلس اور بربر تک جا پہنچا لیکن اتری اور دکھنی علاقوں میں اسلام کا رواج نہیں ہوا۔
حدیث نمبر: 3952 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ الْجَرْمِيِّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ زُوِيَتْ لِي الْأَرْضُ حَتَّى رَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا،‏‏‏‏ وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَصْفَرَ أَوِ الْأَحْمَرَ،‏‏‏‏ وَالْأَبْيَضَ يَعْنِي:‏‏‏‏ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ،‏‏‏‏ وَقِيلَ لِي:‏‏‏‏ إِنَّ مُلْكَكَ إِلَى حَيْثُ زُوِيَ لَكَ،‏‏‏‏ وَإِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثًا:‏‏‏‏ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِي جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ بِهِ عَامَّةً،‏‏‏‏ وَأَنْ لَا يَلْبِسَهُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ،‏‏‏‏ وَإِنَّهُ قِيلَ لِي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَلَا مَرَدَّ لَهُ،‏‏‏‏ وَإِنِّي لَنْ أُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِكَ جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ فِيهِ،‏‏‏‏ وَلَنْ أَجْمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يُفْنِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَيَقْتُلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا،‏‏‏‏ وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي فَلَنْ يُرْفَعَ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مِمَّا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي أَئِمَّةً مُضِلِّينَ،‏‏‏‏ وَسَتَعْبُدُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ،‏‏‏‏ وَسَتَلْحَقُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ،‏‏‏‏ وَإِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ دَجَّالِينَ كَذَّابِينَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ،‏‏‏‏ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ،‏‏‏‏ وَلَنْ تَزَالَ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ،‏‏‏‏ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو الْحَسَنِ:‏‏‏‏ لَمَّا فَرَغَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَهْوَلَهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫৩
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ہونے والے فتنوں کا ذکر
ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا مبارک چہرہ سرخ تھا، اور آپ فرما رہے تھے : لا إله إلا الله عرب کے لیے تباہی ہے اس فتنے سے جو قریب آگیا ہے، آج یاجوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا ہے، آپ ﷺ نے ہاتھ کی انگلیوں سے دس کی گرہ بنائی ١ ؎، زینب (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے ؟ حالانکہ ہم میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، جب معصیت (برائی) عام ہوجائے گی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٦ (٣٣٤٦) ، صحیح مسلم/الفتن ١ (٢٨٨٠) ، سنن الترمذی/الفتن ٢٣ (٢١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٢٨، ٤٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دس کی گرہ یہ ہے کہ شہادت کی انگلی کے سرے کو انگوٹھے کے پہلے موڑپر رکھ کردائرہ بنایا جائے۔ ٢ ؎: تو نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی عذاب آئے گا، یاجوج اور ماجوج دو قومیں ہیں، جو قیامت کے قریب نکلیں گی۔
حدیث نمبر: 3953 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْحَبِيبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ،‏‏‏‏ أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمِهِ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ،‏‏‏‏ وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ،‏‏‏‏ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ،‏‏‏‏ وَمَأْجُوجَوَعَقَدَ بِيَدَيْهِ عَشَرَةً،‏‏‏‏ قَالَتْ زَيْنَبُ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫৪
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ہونے والے فتنوں کا ذکر
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب کئی فتنے ظاہر ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہوگا، اور شام کو کافر ہوجائے گا مگر جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعہ زندہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٥٠) (ضعیف جداً ) (سند میں علی بن یزید منکر الحدیث اور متروک ہے، علم کے جملہ کے بغیر اصل متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٦٩٦ )
حدیث نمبر: 3954 حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي السَّائِبِ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ،‏‏‏‏ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ سَتَكُونُ فِتَنٌ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا،‏‏‏‏ إِلَّا مَنْ أَحْيَاهُ اللَّهُ بِالْعِلْمِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫৫
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ہونے والے فتنوں کا ذکر
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم عمر (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد ہے ؟ حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : مجھ کو یاد ہے، عمر (رض) نے کہا : تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے : وہ (حدیث) کیسے ہے ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر (رض) نے کہا : میری یہ مراد نہیں ہے، بلکہ میری مراد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موج کی طرح امنڈ آئے گا، انہوں نے کہا : امیر المؤمنین ! آپ کو اس فتنے سے کیا سروکار، آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ ہے، تو انہوں نے پوچھا : کیا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا، حذیفہ (رض) نے کہا : نہیں ؛ بلکہ وہ توڑ دیا جائے گا تو عمر (رض) نے کہا : تو پھر وہ کبھی بند ہونے کے قابل نہ رہے گا ١ ؎۔ ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے حذیفہ (رض) سے کہا : کیا عمر (رض) جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے ؟ جواب دیا : ہاں، وہ ایسے ہی جانتے تھے جیسے یہ جانتے ہیں کہ کل سے پہلے رات ہے، میں نے ان سے ایک ایسی حدیث بیان کی تھی جس میں کوئی دھوکا جھوٹ اور مغالطہٰ نہ تھا، پھر ہمیں خوف محسوس ہوا کہ ہم حذیفہ (رض) سے یہ سوال کریں کہ اس دروازے سے کون شخص مراد ہے ؟ پھر ہم نے مسروق سے کہا : تم ان سے پوچھو، انہوں نے پوچھا تو حذیفہ (رض) نے کہا : وہ دروازہ خود عمر (رض) ہیں (جن کی ذات تمام بلاؤں اور فتنوں کی روک تھی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٤ (٥٢٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٥ (١٤٤) ، سنن الترمذی/الفتن ٧١ (٢٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حذیفہ (رض) کا مطلب یہ تھا کہ عمر (رض) شہید کردیئے جائیں گے اور آپ کی شہادت سے فتنوں کا دروازہ ایسا کھلے گا کہ قیامت تک بند نہیں ہوگا، بلاشبہ ایسا ہی ہوا آپ کی رحلت کے بعد طرح طرح کے فتنے رونما ہوئے۔
حدیث نمبر: 3955 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ،‏‏‏‏ قَالَ حُذَيْفَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ،‏‏‏‏ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ،‏‏‏‏ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ،‏‏‏‏ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ،‏‏‏‏ فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ،‏‏‏‏ إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ،‏‏‏‏ إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَيُكْسَرُ الْبَابُ أَوْ يُفْتَحُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا بَلْ يُكْسَرُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ أَجْدَرُ أَنْ لَا يُغْلَقَ،‏‏‏‏ قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ:‏‏‏‏ أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ،‏‏‏‏ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ،‏‏‏‏ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنِ الْبَابُ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ:‏‏‏‏ سَلْهُ فَسَأَلَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ عُمَرُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫৬
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ہونے والے فتنوں کا ذکر
عبدالرحمٰن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کے پاس پہنچا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع تھے، تو میں نے ان کو کہتے سنا : اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، آپ نے ایک جگہ قیام کیا، تو ہم میں سے کوئی خیمہ لگا رہا تھا، کوئی تیر چلا رہا تھا، اور کوئی اپنے جانور چرانے لے گیا، اتنے میں ایک منادی نے آواز لگائی کہ لوگو ! نماز کے لیے جمع ہوجاؤ، تو ہم نماز کے لیے جمع ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا، اور فرمایا : مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں ان پر ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی ان باتوں کی طرف رہنمائی کریں جن کو وہ ان کے لیے بہتر جانتے ہوں، اور انہیں ان چیزوں سے ڈرائیں جن کو وہ ان کے لیے بری جانتے ہوں، اور تمہاری اس امت کی سلامتی اس کے شروع حصے میں ہے، اور اس کے اخیر حصے کو بلا و مصیبت لاحق ہوگی، اور ایسے امور ہوں گے جن کو تم برا جانو گے، پھر ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک کے سامنے دوسرا ہلکا محسوس ہوگا، مومن کہے گا : اس فتنے میں میری تباہی ہے، پھر وہ فتنہ ختم ہوجائے گا، اور دوسرا فتنہ آئے گا، مومن کہے گا : اس میں میری تباہی ہے پھر وہ بھی ختم ہوجائے گا، تو جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے تو وہ کوشش کرے کہ اس کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ کریں، اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے، اور اس کو اپنی قسم کا ہاتھ دے کر دل سے سچا عہد کرے تو اب جہاں تک ہو سکے اس کی اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا امام آ کر اس سے لڑنے جھگڑنے لگے (اور اپنے سے بیعت کرنے کو کہے) تو اس دوسرے امام کی گردن مار دے ۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے (یہ سن کر) اپنا سر لوگوں میں سے نکال کر کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں : کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی جانب اشارہ کر کے کہا : میرے کانوں نے اسے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٠ (١٨٤٤) ، سنن ابی داود/الفتن ١ (٤٢٤٨) ، سنن النسائی/البیعة ٢٥ (٤١٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦١، ١٩١، ١٩٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 3956 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ،‏‏‏‏ ووكيع،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ،‏‏‏‏ عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،‏‏‏‏ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ،‏‏‏‏ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ،‏‏‏‏ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ،‏‏‏‏ وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ،‏‏‏‏ وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ،‏‏‏‏ إِذْ نَادَى مُنَادِيهِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ فَاجْتَمَعْنَا،‏‏‏‏ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَخَطَبَنَا فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي،‏‏‏‏ إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ،‏‏‏‏ وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا،‏‏‏‏ وَإِنَّ آخِرَهُمْ يُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ وَأُمُورٌ يُنْكِرُونَهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ تَجِيءُ فِتَنٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا،‏‏‏‏ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ:‏‏‏‏ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَجِيءُ فِتْنَةٌ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ:‏‏‏‏ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ،‏‏‏‏ فَمَنْ سَرَّهُ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ،‏‏‏‏ فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ،‏‏‏‏ وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَأْتُوا إِلَيْهِ،‏‏‏‏ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَمِينِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ،‏‏‏‏ فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مِنْ بَيْنِ النَّاسِ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُذُنَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫৭
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہوگا جو عنقریب آنے والا ہے ؟ جس میں لوگ چھانے جائیں گے (اچھے لوگ سب مرجائیں گے) اور خراب لوگ باقی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے) ، ان کے عہد و پیمان اور امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کر کے اس طرح ہوجائیں گے ، پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کردکھائیں، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھوڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات و مسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٧ (٤٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٨ (٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو امر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔ یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اور بری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت، ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔
حدیث نمبر: 3957 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ،‏‏‏‏ يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً،‏‏‏‏ وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ،‏‏‏‏ فَاخْتَلَفُوا وَكَانُوا هَكَذَاوَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ،‏‏‏‏ وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫৮
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جس وقت لوگوں پر موت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہوگی ١ ؎، میں نے عرض کیا : جو اللہ اور اس کا رسول میرے لیے پسند فرمائیں (یا یوں کہا : اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : اس وقت تم صبر سے کام لینا ، پھر فرمایا : اس وقت تم کیا کرو گے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتیٰ کہ تم اپنی مسجد میں آؤ گے، پھر تم میں اپنے بستر تک جانے کی قوت نہ ہوگی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہوگی، میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، یا کہا (اللہ اور اس کا رسول جو میرے لیے پسند کرے) آپ ﷺ نے فرمایا : (اس وقت) تم اپنے اوپر پاک دامنی کو لازم کرلینا ، پھر فرمایا : تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں) لوگوں کا قتل عام ہوگا، حتیٰ کہ مدینہ میں ایک پتھریلا مقام حجارة الزيت ٢ ؎ خون میں ڈوب جائے گا ، میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول جو میرے لیے پسند فرمائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو (یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہوجانا) ابوذر (رض) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی تلوار لے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں ؟ ، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم ایسا کرو گے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہوجاؤ گے، تمہیں چاہیئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھر ہی میں پڑے رہو ٣ ؎ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آجائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہوجانا) وہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہارا دونوں کا گناہ اپنے سر لے گا، اور وہ جہنمی ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ١١٩٤٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الفتن ٢ (٤٢٦١) ، بدون ذکر الجوع و العفة، مسند احمد (٥/١٤٩، ١٦٣) (صحیح) (ملا حظہ ہو : الإرواء : ٢٤٥١ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک قبر کی جگہ کے لیے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبر کھودنے کے لیے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہوجائیں گے کہ ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔ ٢ ؎: حجارة الزيت مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ٣ ؎: یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔
حدیث نمبر: 3958 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ الْمُشَعَّثِ بْنِ طَرِيفٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي ذَرٍّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ؟ وَمَوْتًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى يُقَوَّمَ الْبَيْتُ بِالْوَصِيفِيَعْنِي:‏‏‏‏ الْقَبْرَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ تَصَبَّرْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ؟ أَنْتَ وَجُوعًا يُصِيبُ النَّاسَ،‏‏‏‏ حَتَّى تَأْتِيَ مَسْجِدَكَ فَلَا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى فِرَاشِكَ،‏‏‏‏ وَلَا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،‏‏‏‏ أَوْ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْكَ بِالْعِفَّةِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَنْتَ وَقَتْلًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تُغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ بِالدَّمِ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ الْحَقْ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَفَلَا آخُذُ بِسَيْفِي فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا وَلَكِنْ ادْخُلْ بَيْتَكَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَإِنْ دُخِلَ بَيْتِي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ،‏‏‏‏ فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ فَيَبُوءَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ فَيَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৫৯
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیان کیا : قیامت سے پہلے ہرج ہوگا ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول !ہرج کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : قتل ، کچھ مسلمانوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم تو اب بھی سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : مشرکین کا قتل مراد نہیں بلکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، اپنے چچا زاد بھائی اور قرابت داروں کو بھی قتل کرے گا ، تو کچھ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس وقت ہم لوگ عقل و ہوش میں ہوں گے کہ نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں سلب کرلی جائیں گی، اور ان کی جگہ ایسے کم تر لوگ لے لیں گے جن کے پاس عقلیں نہیں ہوں گی ۔ پھر ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا : قسم اللہ کی ! میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ زمانہ مجھے اور تم کو پالے، اللہ کی قسم ! اگر ایسا زمانہ مجھ پر اور تم پر آگیا تو ہمارے اور تمہارے لیے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہوگا، جیسا کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں وصیت کی ہے، سوائے اس کے کہ ہم اس سے ویسے ہی نکلیں جیسے داخل ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٣٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩١، ٣٩٢، ٤٠٦، ٤١٤) (صحیح) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٦٨٢ )
حدیث نمبر: 3959 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَوْفٌ،‏‏‏‏ عَنْ الْحَسَنِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ الْمُتَشَمِّسِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَهَرْجًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْقَتْلُ،‏‏‏‏ فَقَالَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّا نَقْتُلُ الْآنَ فِي الْعَامِ الْوَاحِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ كَذَا وَكَذَا،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَيْسَ بِقَتْلِ الْمُشْرِكِينَ،‏‏‏‏ وَلَكِنْ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا،‏‏‏‏ حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ،‏‏‏‏ وَابْنَ عَمِّهِ،‏‏‏‏ وَذَا قَرَابَتِهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَعَنَا عُقُولُنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تُنْزَعُ عُقُولُ أَكْثَرِ ذَلِكَ الزَّمَانِ،‏‏‏‏ وَيَخْلُفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ لَا عُقُولَ لَهُمْ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ الْأَشْعَرِيُّ:‏‏‏‏ وَايْمُ اللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّهَا مُدْرِكَتِي،‏‏‏‏ وَإِيَّاكُمْ وَايْمُ اللَّهِ مَا لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجٌ،‏‏‏‏ إِنْ أَدْرَكَتْنَا فِيمَا عَهِدَ إِلَيْنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ كَمَا دَخَلْنَا فِيهَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৬০
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔
عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طالب (رض) یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے، اور کہا : ابو مسلم ! ان لوگوں (شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی باندی کو بلایا، اور اسے تلوار لانے کو کہا : وہ تلوار لے کر آئی، ابو مسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی، پھر ابو مسلم نے کہا : میرے خلیل اور تمہارے چچا زاد بھائی (محمد ﷺ ) نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے کہ جب مسلمانوں میں جنگ اور فتنہ برپا ہوجائے تو میں ایک لکڑی کی تلوار بنا لوں ، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے ہمراہ نکلوں، انہوں نے کہا : مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے اور نہ تمہاری تلوار کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٣٣ (٢٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٩، ٦/٣٩٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور ان کو لڑائی سے معاف کردیا، نبی اکرم ﷺ کا یہ حکم کہ لکڑی کی تلوار بنا لو، اس صورت میں ہے جب مسلمانوں میں فتنہ ہو اور حق و صواب معلوم نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خاموش رہے کسی جماعت کے ساتھ نہ ہو۔
حدیث نمبر: 3960 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ مُؤَذِّنُ مَسْجِدِ حُرْدَانَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَتْنِيعُدَيْسَةُ بِنْتُ أُهْبَانَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَمَّا جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ هَاهُنَا الْبَصْرَةَ دَخَلَ عَلَى أَبِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ أَلَا تُعِينُنِي عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَدَعَا جَارِيَةً لَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا جَارِيَةُ،‏‏‏‏ أَخْرِجِي سَيْفِي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخْرَجَتْهُ فَسَلَّ مِنْهُ قَدْرَ شِبْرٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُوَ خَشَبٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّإِذَا كَانَتِ الْفِتْنَةُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فَأَتَّخِذُ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ،‏‏‏‏ فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ مَعَكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا حَاجَةَ لِي فِيكَ،‏‏‏‏ وَلَا فِي سَيْفِكَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৬১
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے قریب ایسے فتنے ہوں گے جیسے اندھیری رات کے حصے، ان میں آدمی صبح کو مومن ہوگا، تو شام کو کافر ہوگا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر ہوگا، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، اور ان فتنوں میں تم اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا، کمان کے تانت کاٹ ڈالنا، اپنی تلواریں پتھر پر مار کر کند کرلینا، اور اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس جائے تو آدم کے دونوں بیٹوں میں سے نیک بیٹے کی طرح ہوجا نا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفتن ٢ (٤٢٥٩) ، سنن الترمذی/الفتن ٣٣ (٢٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٨، ٤١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جنہوں نے اپنے بھائی قابیل سے کہا : تو مجھے اگر مارے گا تب بھی تجھے نہیں ماروں گا، مطلب آپ کا یہ ہے کہ ان فتنوں میں لڑنا اور مسلمانوں کو مارنا گویا فتنہ کی تائید کرنا ہے، پس گھر میں خاموشی سے بیٹھے رہنا مناسب ہے، اور جس قدر کوئی زیادہ حرکت کرے گا اتنا ہی وہ برا ہے۔
حدیث نمبر: 3961 حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ،‏‏‏‏ عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ،‏‏‏‏ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا،‏‏‏‏ وَيُمْسِي كَافِرًا،‏‏‏‏ وَيُمْسِي مُؤْمِنًا،‏‏‏‏ وَيُصْبِحُ كَافِرًا،‏‏‏‏ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ،‏‏‏‏ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي،‏‏‏‏ وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي،‏‏‏‏ فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ،‏‏‏‏ وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ،‏‏‏‏ وَاضْرِبُوا بِسُيُوفِكُمُ الْحِجَارَةَ،‏‏‏‏ فَإِنْ دُخِلَ عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৬২
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔
ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ میں محمد بن مسلمہ (رض) کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہت جلد ایک فتنہ ہوگا، فرقہ بندی ہوگی اور اختلاف ہوگا، جب یہ زمانہ آئے تو تم اپنی تلوار لے کر احد پہاڑ پر آنا، اور اس پر اسے مارنا کہ وہ ٹوٹ جائے، اور پھر اپنے گھر بیٹھ جانا یہاں تک کہ کوئی خطاکار ہاتھ تمہیں قتل کر دے، یا موت آجائے جو تمہارا کام تمام کر دے ۔ محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا : یہ فتنہ آگیا ہے، اور میں نے وہی کیا جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماحہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٣، ٤/٢٢٦) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٣٨٠ )
حدیث نمبر: 3962 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،‏‏‏‏ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ ثَابِتٍ،‏‏‏‏ أَوْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ،‏‏‏‏ شَكَّ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ وَفُرْقَةٌ وَاخْتِلَافٌ،‏‏‏‏ فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ فَأْتِ بِسَيْفِكَ أُحُدًا فَاضْرِبْهُ حَتَّى يَنْقَطِعَ،‏‏‏‏ ثُمَّ اجْلِسْ فِي بَيْتِكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ يَدٌ خَاطِئَةٌ،‏‏‏‏ أَوْ مَنِيَّةٌ قَاضِيَةٌ،‏‏‏‏ فَقَدْ وَقَعَتْ وَفَعَلْتُ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৬৩
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٣) (صحیح) (سند میں مبارک بن سحیم متروک راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، کما سیاتی )
حدیث نمبر: 3963 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا بِأَسْيَافِهِمَا،‏‏‏‏ إِلَّا كَانَ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৬৪
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں، تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے (قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گا) مگر مقتول کا کیا گناہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/تحریم الدم ٢٥ (٤١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠١، ٤٠٣، ٤١٠، ٤١٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 3964 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ،‏‏‏‏ وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْالْحَسَنِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৬৫
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں۔
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن (٧٠٨٣ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الفتن ٤ (٢٨٨٨) ، سنن النسائی/تحریم الدم ٢٥ (٤١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ صورت اس وقت ہے جب دونوں ایک ساتھ ہتھیار لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے اٹھیں گے لیکن اگر کوئی شخص ہتھیار لے کر قتل کرنے آئے تو اپنی حفاظت صحیح ہے اور اگر مدافعت میں حملہ کرنے والا مارا جائے تو وہی جہنم میں جائے گا مدافعت کرنے والے کا کوئی قصور نہیں۔
حدیث نمبر: 3965 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ عَنْ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا الْمُسْلِمَانِ حَمَلَ أَحَدُهُمَا عَلَى أَخِيهِ السِّلَاحَ فَهُمَا عَلَى جُرُفِ جَهَنَّمَ،‏‏‏‏ فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ دَخَلَاهَا جَمِيعًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯৬৬
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برباد اور خراب مقام اس شخص کا ہوگا جس نے اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کے لیے برباد کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٩١، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٥) (ضعیف) (سند میں سوید اور شہر بن حوشب مختلف فیہ راوی ہیں، اور عبدالحکم بن ذکوان مجہول، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٩١٥ )
حدیث نمبر: 3966 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الْحَكَمِ السُّدُوسِيِّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ،‏‏‏‏ عَنْأَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ عَبْدٌ أَذْهَبَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ.
tahqiq

তাহকীক: