কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
جہاد کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৩০ টি
হাদীস নং: ২৮৫৩
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ انعام دینا۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد مال غنیمت سے ہبہ اور عطیہ کا سلسلہ ختم ہوگیا، اب طاقتور مسلمان کمزور مسلمانوں کو مال لوٹائیں گے ١ ؎۔
حدیث نمبر: 2853 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ، أَنْبَأَنَا رَجَاءُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، قَالَ: لَا نَفَلَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرُدُّ الْمُسْلِمُونَ قَوِيُّهُمْ عَلَى ضَعِيفِهِمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৫৩
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ انعام دینا۔
حبیب بن مسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے شروع لڑائی میں ملنے والے کو مال غنیمت کا چوتھائی حصہ بطور ہبہ اور عطیہ دیا، اور لوٹتے وقت تہائی حصہ دیا ٢ ؎۔ تو عمرو بن شعیب نے سلیمان بن موسیٰ سے کہا کہ میں تمہیں اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما) سے روایت کر رہا ہوں اور تم مجھ سے مکحول کے حوالے سے بیان کر رہے ہو ؟ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد اللہ بن عمرو تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٥، ومصباح الزجاجة : ١٠١٠) ، وحدیث حبیب بن مسلمة تقدم تخریجہ، (٢٨٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی طاقتور لوگوں کے ذریعہ حاصل شدہ مال میں کمزوروں کا بھی حصہ ہوگا۔ ٢ ؎: یعنی مال غنیمت میں سب مسلمان برابر کے شریک ہوں گے اور برابر حصہ پائیں گے۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ قَالَ رَجَاءٌ: فَسَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ مُوسَى، يَقُولُ لَهُ: حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ فِي الْبَدْأَةِ الرُّبُعَ، وَحِينَ قَفَلَ الثُّلُثَ، فَقَالَ عَمْرٌو: أُحَدِّثُكَ عَنْ أَبِي، عَنْ جَدِّي، وَتُحَدِّثُنِي عَنْ مَكْحُولٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৫৪
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مال غنیمت کی تقسیم۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جنگ خیبر میں گھوڑ سوار کے لیے تین حصے متعین فرمائے، دو حصے گھوڑے کے، اور ایک حصہ آدمی کا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٥٤ (٢٧٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٨١١١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥١ (٢٨٦٣) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٧ (١٧٦٢) ، سنن الترمذی/السیر ٦ (١٥٥٤) ، مسند احمد (٢/٢، ٦٢) ، سنن الدارمی/السیر ٣٣ (٢٥١٥) (صحیح )
حدیث نمبر: 2854 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْهَمَ يَوْمَ خَيْبَرَ لِلْفَارِسِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ، لِلْفَرَسِ سَهْمَانِ، وَلِلرَّجُلِ سَهْمٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৫৫
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ غلام اور عورتیں جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں۔
محمد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے آبی اللحم (وکیع کہتے ہیں کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے) کے غلام عمیر (رض) سے سنا : وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے مالک کے ہمراہ خیبر کے دن جہاد کیا، چونکہ میں غلام تھا لہٰذا مجھے مال غنیمت میں حصہ نہیں ملا، صرف ردی چیزوں میں سے ایک تلوار ملی، جب اسے میں لٹکا کر چلتا تو (وہ اتنی لمبی تھی) کہ وہ گھسٹتی رہتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٥٢ (٢٧٣٠) ، سنن الترمذی/السیر ٩ (١٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٥/٢٢٣) ، سنن الدارمی/السیر ٣٥ (٢٥١٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس وجہ سے کہ تلوار لمبی ہوگی یا ان کا قد چھوٹا ہوگا لیکن امام جو مناسب سمجھے انعام کے طور پر ان کو دے، صحیح مسلم میں عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا : غلام اور عورت کا کوئی حصہ معین تھا، جب وہ لوگوں کے ساتھ حاضر ہوں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان دونوں کا کوئی حصہ متعین نہ تھا مگر یہ کہ مال غنیمت میں سے کچھ ان کو دیا جائے، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی اکرم ﷺ جہاد میں عورتوں کو رکھتے تھے، وہ دو زخمیوں کا علاج کرتیں اور مال غنیمت میں سے کچھ انعام ان کو دیا جاتا لیکن ان کا حصہ مقرر نہیں کیا گیا۔
حدیث نمبر: 2855 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، قَالَ: سَمِعْتُعُمَيْرًا مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ وَكِيعٌ: كَانَ لَا يَأْكُلُ اللَّحْمَ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ مَوْلَايَ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَأَنَا مَمْلُوكٌ فَلَمْ يَقْسِمْ لِي مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأُعْطِيتُ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ سَيْفًا، فَكُنْتُ أَجُرُّهُ إِذَا تَقَلَّدْتُهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৫৬
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ غلام اور عورتیں جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں۔
ام عطیہ انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سات غزوات میں شرکت کی تھی، مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے ڈیروں میں رہتی، ان کے لیے کھانا بناتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور بیماروں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٤٨ (١٨١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٤ (٣٢٤) ، الحج ٨١ (١٦٥٢) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٠ (٢٤٦٦) (صحیح )
حدیث نمبر: 2856 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ، قَالَتْ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ، وَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ، وَأُدَاوِي الْجَرْحَى، وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৫৭
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حاکم کی طرف سے وصیت۔
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک فوجی دستے میں بھیجا تو فرمایا : اللہ کے نام پر، اللہ کے راستے میں جاؤ، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے اس سے لڑو، لیکن مثلہ نہ کرنا، (ناک کان مت کاٹنا) عہد شکنی نہ کرنا، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا، اور بچے کو قتل نہ کرنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٠١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے : اور نہ عورت کو نہ شیخ فانی کو قتل کرنا یعنی ایسے بوڑھے کو جو لڑائی کے قابل نہ رہا ہو۔
حدیث نمبر: 2857 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي عَطِيَّةُ بْنُ الْحَارِثِ أَبُو رُوقٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو الْغَرِيفِ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَقَالَ: سِيرُوا بِاسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، وَلَا تَمْثُلُوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৫৮
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حاکم کی طرف سے وصیت۔
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی فوجی دستے پر کسی شخص کو امیر متعین فرماتے تو اسے ذاتی طور پر اللہ سے ڈرتے رہنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتے، اور فرماتے : اللہ کے راستے میں اللہ کا نام لے کر لڑنا، جو اللہ کے ساتھ کفر کرے اس سے لڑنا، اور بدعہدی نہ کرنا، (مال غنیمت میں) خیانت نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا، اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا، جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو انہیں تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دینا، ان میں سے جس بات پر وہ راضی ہوجائیں اسے قبول کرنا، اور ان سے جنگ سے رک جانا (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ قبول کرلیں تو ان کا اسلام قبول کرنا، اور ان کے قتل سے باز رہنا، پھر انہیں گھربار چھوڑ کر مہاجرین کے ساتھ رہنے کی دعوت دینا، اور انہیں بتانا کہ اگر وہ ایسا گریں گے تو انہیں مہاجرین جیسے حقوق حاصل ہوں گے، اور جرم و سزا کا جو قانون مہاجرین کے لیے ہے وہی ان کے لیے بھی ہوگا، اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو انہیں بتانا کہ ان کا حکم اعرابی (دیہاتی) مسلمانوں جیسا ہوگا، اللہ تعالیٰ کے جو احکام مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں ان پر بھی جاری ہوں گے، لیکن مال غنیمت میں اور اس مال میں جو کافروں سے جنگ کے بغیر ہاتھ آجائے، ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا، مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اگر وہ اسلام میں داخل ہونے سے انکار کریں، تو ان سے جزیہ دینے کا مطالبہ کرنا، اگر وہ جزیہ دیں تو ان سے قبول کرنا، اور ان سے اپنا ہاتھ روک لینا، اور اگر وہ انکار کریں تو (کامیابی کے لیے) اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا، اور ان سے جنگ کرنا، اگر تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرلو اور قلعہ والے تم سے اللہ اور نبی کا عہد کرانا چاہیں تو اللہ اور نبی کا عہد مت دینا، بلکہ اپنا، اپنے باپ کا، اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دینا، کیونکہ تم اپنا اور اپنے باپ کا ذمہ اللہ اور رسول کے ذمہ کے مقابلے میں آسانی سے توڑ سکتے ہو، اگر تم نے کسی قلعے کا محاصرہ کرلیا، اور وہ اللہ کے حکم پر اترنا چاہیں تو انہیں اللہ کے حکم پہ مت اتارنا، بلکہ اپنے حکم پہ اتارنا کیونکہ تمہیں کیا معلوم کہ ان کے بارے میں تم اللہ کے حکم پر چل رہے ہو یا نہیں ١ ؎۔ علقمہ کہتے ہیں : میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے بیان کی، انہوں نے کہا : مجھ سے مسلم بن ہیضم نے بیان کی، مسلم نے نعمان بن مقرن (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٢ (١٧٣١) ، سنن ابی داود/الجہاد ٩٠ (٢٦١٢، ٢٦١٣) ، سنن الترمذی/السیر ٤٨ (١٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/السیر ٥ (٢٤٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام نووی کہتے ہیں : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ فئی اور غنیمت میں دیہات کے مسلمانوں کا حصہ نہیں جو اسلام لانے کے بعد اپنے ہی وطن میں رہے، بشرطیکہ وہ جہاد میں شریک نہ ہوں، دوسرے یہ کہ ہر ایک کافر سے جزیہ لینا جائز ہے عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی۔
حدیث نمبر: 2858 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ، بِتَقْوَى اللَّهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، فَقَالَ: اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَمْثُلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَإِذَا أَنْتَ لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِلَالٍ أَوْ خِصَالٍ، فَأَيَّتُهُنَّ أَجَابُوكَ إِلَيْهَا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ وَأَخْبِرْهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، وَإِنْ أَبَوْا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْفَيْءِ وَالْغَنِيمَةِ شَيْءٌ، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا أَنْ يَدْخُلُوا فِي الْإِسْلَامِ فَسَلْهُمْ إِعْطَاءَ الْجِزْيَةِ، فَإِنْ فَعَلُوا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ عَلَيْهِمْ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِنْ حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّكَ فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّكَ، وَلَكِنْ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ، وَذِمَّةَ أَبِيكَ، وَذِمَّةَ أَصْحَابِكَ، فَإِنَّكُمْ إِنْ تُخْفِرُوا ذِمَّتَكُمْ وَذِمَّةَ آبَائِكُمْ أَهْوَنُ عَلَيْكُمْ، مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَإِنْ حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوكَ أَنْ يَنْزِلُوا عَلَى حُكْمِ اللَّهِ فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ فِيهِمْ حُكْمَ اللَّهِ أَمْ لَا؟، قَالَ عَلْقَمَةُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ مُقَاتِلَ بْنَ حَيَّانَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ هَيْصَمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৫৯
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ امیر کی اطاعت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری بات مانی اس نے اللہ کی بات مانی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، (اسی طرح) جس نے امام کی بات مانی اس نے میری بات مانی، اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣) (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امام کی اطاعت فرض ہے اور اس کی نافرمانی رسول کی نافرمانی ہے مگر یہ جب تک ہے کہ امام کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، اگر مسئلہ اختلافی ہو اور امام ایک قول پر چلنے کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرنی چاہیے، لیکن جو بات صریح اور بالاتفاق شریعت کے خلاف ہو اس میں اطاعت نہ کرنی چاہیے، دوسری حدیث میں ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 2859 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ الْإِمَامَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى الْإِمَامَ فَقَدْ عَصَانِي.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬০
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ امیر کی اطاعت۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو اور اطاعت کرو، گرچہ تم پر حبشی غلام ہی امیر (حاکم) کیوں نہ بنادیا جائے، جس کا سر منقی (کشمش) کی طرح ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٤ (٦٩٣) ، مسند احمد (٣/١١٤، ١٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حبشی چھوٹے سر والا امامت کبری (خلافت) کے لائق ہے کیونکہ امامت کبری کے لئے قریشی ہونا شرط ہے، بلکہ حدیث کا یہ مطلب ہے کہ امام کے حکم سے اگر کسی لشکر یا ٹکڑی کا سردار معمولی حیثیت کا بھی بنادیا جائے تو بھی امام کے حکم کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کے بنائے ہوئے امیر اور سردار کی اطاعت پر اعتراض اور اس کی مخالفت نہ کرنا چاہیے، اور بعضوں نے کہا : یہ مبالغہ کے طور پر فرمایا ہے، یعنی اگر بالفرض حبشی بھی تمہارا امام ہو تو اس کی اطاعت بھی لازم ہے، اور اس حدیث میں امام اور حاکم کی اطاعت کی بھرپور ترغیب ہے۔
حدیث نمبر: 2860 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬১
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ امیر کی اطاعت۔
ام الحصین (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اگر تم پر کوئی نک کٹا حبشی غلام امیر (حاکم) بنادیا جائے تو بھی اس کی بات سنو اور مانو، جب تک کہ وہ اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق تمہاری سربراہی کرتا رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥١ (١٢٩٨) ، الإمارة ٨ (١٨٣٨) ، سنن النسائی/البیعة ٢٦ (٤١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦٩، ٥/٣٨١، ٦/٤٠٢، ٤٠٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 2861 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ الْحُصَيْنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا مَا قَادَكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬২
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ امیر کی اطاعت۔
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ وہ مقام ربذہ میں پہنچے تو نماز کے لیے تکبیر کہی جا چکی تھی، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غلام لوگوں کی امامت کر رہا ہے، اس سے کہا گیا : یہ ابوذر (رض) ہیں، یہ سن کر وہ پیچھے ہٹنے لگا تو ابوذر (رض) نے فرمایا : میرے خلیل (جگری دوست) محمد ﷺ نے مجھے یہ وصیت کی کہ امام گرچہ اعضاء کٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو میں اس کی بات سنوں اور مانوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥٠) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت سے اتفاق کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اگر کسی مستحب یا مسنون امر کی وجہ سے اتفاق ختم ہوجانے کا اندیشہ ہو تو جب تک یہ اندیشہ باقی رہے، اس امر مستحب یا مسنون سے باز رہ سکتے ہیں، لیکن جہاں تک ہو سکے حکمت عملی سے لوگوں کو سمجھا دینا چاہیے کہ یہ فعل مستحب اور سنت رسول ہے، اور اس کے لئے فتنہ و فساد کرنا صریح غیر ایمانی بات ہے۔
حدیث نمبر: 2862 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى الرَّبَذَةِ وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَإِذَا عَبْدٌ يَؤُمُّهُمْ، فَقِيلَ: هَذَا أَبُو ذَرٍّ فَذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَسْمَعَ وَأُطِيعَ، وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا مُجَدَّعَ الْأَطْرَافِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬৩
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کی نا فرمانی کرکے کسی کی اطاعت درست نہیں۔
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علقمہ بن مجزر (رض) کو ایک لشکر کا سردار بنا کر بھیجا، میں بھی اس لشکر میں تھا، جب وہ لشکر کے آخری پڑاؤ پر پہنچے یا درمیان راستے ہی میں تھے تو لشکر کی ایک جماعت نے (آگے جانے کی) اجازت مانگی، علقمہ (رض) نے اجازت دے دی، اور عبداللہ بن حذافہ بن قیس سہمی (رض) کو ان پر امیر مقرر کردیا، میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کے ساتھ غزوہ کیا، ابھی وہ راستہ ہی میں تھے کہ ان لوگوں نے تاپنے یا کچھ پکانے کے لیے آگ جلائی، تو عبداللہ بن حذافہ (رض) (جن کے مزاج میں خوش طبعی پائی جاتی تھی) نے کہا : کیا تم پر میری بات سننا اور اطاعت کرنا واجب نہیں ؟ لوگوں نے جواب دیا : کیوں نہیں ؟ کہا : میں کسی کام کے کرنے کا تمہیں حکم دوں تو تم حکم بجا لاؤ گے ؟ لوگوں نے جواب دیا : ہاں، کہا : میں لازمی حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں چھلانگ لگا دو ، کچھ لوگ کھڑے ہوگئے اور کودنے کے لیے کمر کس لی، عبداللہ بن حذافہ (رض) کو جب یہ گمان ہوا کہ واقعی یہ تو کود ہی جائیں گے، تو بولے : ٹھہرو، میں تم سے یونہی مذاق کر رہا تھا ١ ؎۔ جب ہم لوگ واپس مدینہ آئے، لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کو سارا ماجرا سنایا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حکام میں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات نہ ما نو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦٦، ومصباح الزجاجة : ١٠١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس واقعہ سے پتہ چلا کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات ہرگز مت مانو اگرچہ وہ امام ہو یا حاکم یا خلیفہ یا بادشاہ یا رئیس یا سردار، اللہ کی اطاعت سب پر مقدم ہے، پھر جب خلاف شریعت باتوں میں امام کی اطاعت منع ہوئی تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کسی مجتہد یا عالم کی اطاعت کیوں کر جائز ہوگی، اس حدیث سے تقلید کی جڑ کٹ گئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بادشاہ یا امام شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی بات نہ ماننی چاہیے بلکہ اس کو شریعت کی اطاعت کے لئے مجبور کرنا چاہیے، اگر شریعت کی اطاعت قبول نہ کرے تو اگر قدرت اور طاقت ہو تو اس کو فوراً معزول کر کے دوسرے کسی پرہیزگار دین دار کو اپنا امام یا بادشاہ بنانا چاہیے، یہی اسلام کا شیوہ ہے اور یہی حکم الٰہی ہے۔
حدیث نمبر: 2863 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلْقَمَةَ بْنَ مُجَزِّرٍ عَلَى بَعْثٍ وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى رَأْسِ غَزَاتِهِ أَوْ كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ اسْتَأْذَنَتْهُ طَائِفَةٌ مِنَ الْجَيْشِ فَأَذِنَ لَهُمْ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسٍ السَّهْمِيَّ، فَكُنْتُ فِيمَنْ غَزَا مَعَهُ فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، أَوْقَدَ الْقَوْمُ نَارًا لِيَصْطَلُوا أَوْ لِيَصْنَعُوا عَلَيْهَا صَنِيعًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَكَانَتْ فِيهِ دُعَابَةٌ: أَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمُ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَمَا أَنَا بِآمِرِكُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا صَنَعْتُمُوهُ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أَعْزِمُ عَلَيْكُمْ إِلَّا تَوَاثَبْتُمْ فِي هَذِهِ النَّارِ، فَقَامَ نَاسٌ فَتَحَجَّزُوا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّهُمْ وَاثِبُونَ، قَالَ: أَمْسِكُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّمَا كُنْتُ أَمْزَحُ مَعَكُمْ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلَا تُطِيعُوهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬৪
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کی نا فرمانی کرکے کسی کی اطاعت درست نہیں۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان آدمی پر (امیر اور حاکم کی) بات ماننا لازم ہے، چاہے وہ اسے پسند ہو یا ناپسند، ہاں اگر اللہ اور رسول کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو اس کو سننا ماننا نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد اللہ بن رجاء المکی تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٧) ، وحدیث اللیث بن سعد أخرجہ : صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٩) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢٩ (١٧٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٨٨) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠٨ (٢٩٥٥) ، الأحکام ٤ (٧١٤٤) ، سنن ابی داود/الجہاد ٩٦ (٢٦٢٦) ، سنن النسائی/البیعة ٣٤ (٤٢١١) ، مسند احمد (٢/١٧، ٤٢) (صحیح )
حدیث نمبر: 2864 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ الطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ أَوْ كَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬৫
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کی نا فرمانی کرکے کسی کی اطاعت درست نہیں۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ زمانہ قریب ہے کہ میرے بعد تمہارے معاملات کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو سنت کو مٹائیں گے، بدعت پر عمل پیرا ہوں گے، اور نماز کی وقت پر ادائیگی میں تاخیر کریں گے ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر میں ان کا زمانہ پاؤں تو کیا کروں ؟ فرمایا : اے ام عبد کے بیٹے ! مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں ؟ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی بات نہیں مانی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٠١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٩، ٥/٣٢٥، ٣٢٩) (صحیح) (صحیح أبی داود : ٤٥٨، و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢/ ١٣٩ )
حدیث نمبر: 2865 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، ح وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَيَلِي أُمُورَكُمْ بَعْدِي رِجَالٌ يُطْفِئُونَ السُّنَّةَ، وَيَعْمَلُونَ بِالْبِدْعَةِ، وَيُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ مَوَاقِيتِهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَدْرَكْتُهُمْ كَيْفَ أَفْعَلُ؟، قَالَ: تَسْأَلُنِي يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ، كَيْفَ تَفْعَلُ؟ لَا طَاعَةَ لِمَنْ عَصَى اللَّهَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬৬
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیعت کا بیان
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ ﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢ (٧٠٥٦) ، الأحکام ٤٣ (٧١٩٩، ٧٢٠٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٧٠٩) ، سنن النسائی/البیعة ١ (٤١٥٤، ٤١٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجہاد ١ (٥) ، مسند احمد (٤/٣١٤، ٣١٨، ٣١٩، ٣٢١، ٣٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جس بات میں اللہ کی خوشی ہو یعنی ثواب اور عبادت کے کام میں کسی کی بدگوئی سے ہم کو ڈر نہ ہو، یہ مومنین کاملین کی شان ہے کہ وہ سنت پر چلنے میں کسی سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی جاہلوں اور اہل بدعت کے غلط پروپگنڈہ سے متاثر ہوتے ہیں، جاہل اور بدعتی حدیث سے محبت رکھنے اور ان پر عمل کرنے والوں کو برے القاب اور خطابات سے پکارتے اور انہیں طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب یہ محبان رسول نماز میں زور سے آمین، رفع یدین اور امام کے پیچھے سورة فاتحہ کی قرأت کرتے ہیں، تو جاہل مقلد اور بدعتی ان کو لا مذہب کہتے ہیں اور جب شرک کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، اور غیر اللہ کے پکارنے یا ماسوا اللہ کی عبادت کرنے یا مدد مانگنے سے خود رکتے ہیں اور دوسروں کو روکتے ہیں، تو یہ لوگ انہیں وہابی کے نام سے بدنام کرتے ہیں، اور جب یہ محبان رسول، اللہ تعالیٰ کی صفات جیسے استواء علی العرش، ضحک، (ہنسنا) نزول (آسمان دنیا پر اترنا) وغیرہ وغیرہ ثابت کرتے ہیں تو یہ انہیں مشبہہ کہتے ہیں، اور جب ید (ہاتھ) ، وجہ (چہرہ) ، عین (آنکھ) ، قدم، صوت (آواز) جیسی صفات کا اثبات کرتے ہیں تو وہ انہیں مجسمہ کا لقب دیتے ہیں، لیکن ان سب تہمتوں سے حق پرستوں کو کوئی ڈر نہیں، اور وہ جاہلوں اور بدعتیوں کی عیب جوئی، اور گالی گلوج اور غلط پروپگنڈے سے ڈرتے اور گھبراتے نہیں بلکہ بلا کھٹکے احادیث صحیحہ پر عمل کرتے ہیں، اس حدیث میں آپ ﷺ نے صبر و ثبات پر اور شرع کی اطاعت اور حاکم کی اطاعت پر بیعت لی۔
حدیث نمبر: 2866 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَالْأَثَرَةِ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُولَ الْحَقَّ حَيْثُمَا كُنَّا، لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬৭
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیعت کا بیان
عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے ؟ ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (بیعت کرنے کے بعد) ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم آپ سے بیعت تو کرچکے لیکن یہ کس بات پر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کرو، حکم سنو اور مانو ، پھر ایک بات چپکے سے فرمائی : لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو ، راوی کا بیان ہے کہ (اس بات کا ان لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ) میں نے ان میں سے بعض کو دیکھا کہ اس کا کوڑا بھی گر جاتا تو کسی سے یہ نہ کہتا کہ کوڑا اٹھا کر مجھے دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٣) ، سنن ابی داود/الزکاة ٢٧ (١٦٤٢) ، سنن النسائی/الصلاة ٥ (٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بات عادت میں داخل ہے کہ جب آدمی گھوڑے یا کسی دوسری سواری پر ہو اور اس کا کوڑا گرپڑے تو کسی سے بھی کہتا ہے کہ بھائی ذرا میرا کوڑا اٹھا دو ، اور ہر ایک راہ چلتا یہ کام کردیتا ہے، بلکہ اگر کوئی نہ کرے تو لوگ اس کو برا کہیں گے، مگر ان لوگوں نے جن کو آپ ﷺ نے بیعت میں یہ فرمایا تھا کہ کسی سے کچھ مت مانگنا، اتنا کام بھی اپنا کسی اور سے کرانا گوارا نہ کیا، یہ بہت بڑا مرتبہ ہے کہ آدمی سوا اپنے مالک کے کسی سے درخواست نہ کرے، نہ کسی سے کچھ مانگے اور چونکہ یہ کام بہت مشکل تھا اور ہر ایک شخص اس کو نہیں کرسکتا تھا، لہذا آپ ﷺ نے آہستہ سے اس کو فرمایا۔
حدیث نمبر: 2867 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ التَّنُوخِيُّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ أَمَّا هُوَ إِلَيَّ فَحَبِيبٌ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي فَأَمِينٌعَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ تِسْعَةً، فَقَالَ: أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟، فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَعَلَامَ نُبَايِعُكَ؟، فَقَالَ: أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُوا الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَتَسْمَعُوا وَتُطِيعُوا وَأَسَرَّ كَلِمَةً خُفْيَةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ يَسْقُطُ سَوْطُهُ، فَلَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّاهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬৮
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیعت کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، تو آپ نے فرمایا : جہاں تک تم سے ہو سکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩، ١٧٢، ١٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، آپ ﷺ ماں باپ سے زیادہ اپنی امت پر مہربان تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : جہاں تک تم سے ہو سکے تاکہ وہ لوگ جھوٹے نہ ہوں جب کسی ایسی بات کا ان کو حکم دیا جائے جو ان کی طاقت سے خارج ہو۔
حدیث نمبر: 2868 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَتَّابٍ مَوْلَى هُرْمُزَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَقَالَ: فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৬৯
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیعت کا بیان۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرم ﷺ سے ہجرت پر بیعت کرلی، اور آپ ﷺ کو اس کے غلام ہونے کا معلوم ہی نہ ہوا، چناچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ غلام مجھے بیچ دو ، آپ ﷺ نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٣ (١٦٠٢) ، سنن ابی داود/البیوع ١٧ (٣٣٥٨ مختصرا) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٢ (١٢٣٩) ، السیر ٣٦ (١٥٩٦) ، سنن النسائی/البیعة ٢١ (٤١٨٩) ، البیوع ٦٤ (٤٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٩، ٣٧٢) (صحیح )
حدیث نمبر: 2869 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَلَمْ يَشْعُرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ، فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِعْنِيهِ، فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدَ ذَلِكَ، حَتَّى يَسْأَلَهُ: أَعَبْدٌ هُوَ؟.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৭০
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیعت پوری کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : ایک وہ آدمی جس کے پاس چٹیل میدان میں فالتو پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے، دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے، پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کرلیا، حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا، تیسرا وہ آدمی جس نے کسی امام کے ہاتھ پر بیعت کی، اور مقصد محض دنیاوی فائدہ تھا، چناچہ اگر اس نے اسے کچھ دیا تو بیعت کو پورا کیا، اور اگر نہیں دیا تو پورا نہیں کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٢٢ (٢٦٧٢) ، الأحکام ٤٨ (٧٢١٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٨) ، البیوع ٦٢ (١٥٦٦) ، سنن الترمذی/السیر ٣٥ (١٥٩٥) ، سنن النسائی/البیوع ٦ (٤٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٣، ٤٨٠) ، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ٢٢٠٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 2870 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْأَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ يَمْنَعُهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَأَخَذَهَا بِكَذَا وَكَذَا فَصَدَّقَهُ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِدُنْيَا فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا وَفَى لَهُ، وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا لَمْ يَفِ لَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৮৭১
جہاد کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیعت پوری کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل کی حکومت ان کے انبیاء چلایا کرتے تھے، ایک نبی چلا جاتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا، لیکن میرے بعد تم میں کوئی نبی ہونے والا نہیں ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! پھر کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے ، لوگوں نے کہا : پھر کیسے کریں گے ؟ فرمایا : پہلے کی بیعت پوری کرو، پھر اس کے بعد والے کی، اور اپنا حق ادا کرو، اللہ تعالیٰ ان سے ان کے حق کے بارے میں سوال کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٠ (٣٤٥٥) ، صحیح مسلم/الإمارة ١٠ (١٨٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 2871 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ تَسُوسُهُمْ أَنْبِيَاؤُهُمْ، كُلَّمَا ذَهَبَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَأَنَّهُ لَيْسَ كَائِنٌ بَعْدِي نَبِيٌّ فِيكُمْ، قَالُوا: فَمَا يَكُونُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: تَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُوا، قَالُوا: فَكَيْفَ نَصْنَعُ؟، قَالَ: أَوْفُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ، فَالْأَوَّلِ أَدُّوا الَّذِي عَلَيْكُمْ، فَسَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنِ الَّذِي عَلَيْهِمْ.
তাহকীক: