কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)

كتاب السنن للإمام ابن ماجة

تجارت ومعاملات کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ১৭১ টি

হাদীস নং: ২১৯৭
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جانوروں کا حمل خریدنا یا تھنوں میں جو دودھ ہے اسی حالت میں وہ خریدنا یا غوطہ خور کے ایک مرتبہ کے غوطہ میں جو بھی آئے (شکار کرنے سے قبل) اسے خریدنا منع ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٦٦ (٤٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٦١ (٢١٤٣) ، السلم ٧ (٢٢٥٦) ، مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٤٣) ، صحیح مسلم/البیوع ٣ (١٥١٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٥ (٣٣٨٠) ، سنن الترمذی/البیوع ١٦ (١٢٢٩) ، /البیوع ٢٦ (٦٢) ، مسند احمد (١/٥٦، ٦٣، ١٠٨، ١٤٠، ١٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حمل کے حمل کو بیچنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ میں تم سے اس حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے بچہ کے بچہ کو اتنی قیمت میں بیچتا ہوں تو یہ بیع جائز نہیں کیونکہ یہ معدوم و مجہول کی بیع ہے۔
حدیث نمبر: 2197 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২১৯৮
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نیلامی کا بیان۔
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا، وہ آپ سے کوئی چیز چاہ رہا تھا، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ ، اس نے عرض کیا : جی ہاں ! ایک کمبل ہے جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے اور ایک حصہ بچھاتے ہیں، اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ، وہ گیا، اور ان کو لے آیا، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر فرمایا : انہیں کون خریدتا ہے ؟ ایک شخص بولا : میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک درہم پر کون بڑھاتا ہے ؟ یہ جملہ آپ ﷺ نے دو یا تین بار فرمایا، ایک شخص بولا : میں انہیں دو درہم میں لیتا ہوں، چناچہ آپ ﷺ نے یہ دونوں چیزیں اس شخص کے ہاتھ بیچ دیں، پھر دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا : ایک درہم کا اناج خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو ، اور دوسرے کا ایک کلہاڑا خرید کر میرے پاس لاؤ، اس نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کلہاڑے کو لیا، اور اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی جما دی اور فرمایا : جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ (اور بیچو) اور پندرہ دن تک میرے پاس نہ آؤ، چناچہ وہ لکڑیاں کاٹ کر لانے لگا اور بیچنے لگا، پھر وہ آپ کے پاس آیا، اور اس وقت اس کے پاس دس درہم تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : کچھ کا غلہ خرید لو، اور کچھ کا کپڑا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم قیامت کے دن اس حالت میں آؤ کہ سوال کرنے کی وجہ سے تمہارے چہرے پر داغ ہو، یاد رکھو سوال کرنا صرف اس شخص کے لیے درست ہے جو انتہائی درجہ کا محتاج ہو، یا سخت قرض دار ہو یا تکلیف دہ خون بہا کی ادائیگی میں گرفتار ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٦ (١٦٤١) ، سنن الترمذی/البیوع ١٠ (١٢١٨) ، سنن النسائی/البیوع ٢٠ (٤٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٠، ١١٤، ١٢٦) (ضعیف) (سند میں ابوبکر حنفی مجہول راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٢٨٩) ۔ وضاحت : ١ ؎: انتہائی درجے کی محتاجی یہ ہے کہ ایک دن اور ایک رات کی خواک اس کے پاس کھانے کے لئے نہ ہو، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ بہ قدر نصاب اس کے پاس مال نہ ہو۔ سخت قرض داری یہ ہے کہ قرضہ اس کے مال سے زیادہ ہو۔ تکلیف دہ خون کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو قتل کیا ہو، اور مقتول کے وارث دیت پر راضی ہوگئے ہوں لیکن اس کے پاس رقم نہ ہو کہ دیت ادا کرسکے، مقتول کے وارث اس کو ستا رہے ہوں اور دیت کا تقاضا کر رہے ہوں تو ایسے شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2198 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَكَ فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَدَحٌ نَشْرَبُ فِيهِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ائْتِنِي بِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَاهُ بِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا، ‏‏‏‏‏‏فَأْتِنِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَدَّ فِيهِ عُودًا بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَلَا أَرَاكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اشْتَرِ بِبَعْضِهَا طَعَامًا وَبِبَعْضِهَا ثَوْبًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ وَالْمَسْأَلَةُ نُكْتَةٌ فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ دَمٍ مُوجِعٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২১৯৯
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیع فسخ کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٥٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٥٤ (٣٤٦٠) ، مسند احمد (٢/٢٥٢) (صحیح )
حدیث نمبر: 2199 حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، ‏‏‏‏‏‏أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০০
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نرخ مقرر کرنا مکروہ (منع) ہے۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک دفعہ قیمتیں چڑھ گئیں، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے لیے ایک نرخ (بھاؤ) مقرر کر دیجئیے ! آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، کبھی کم کردیتا ہے اور کبھی زیادہ کردیتا ہے، وہی روزی دینے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان یا مال میں کسی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٥١ (٣٤٥١) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٣ (١٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨، ٦١٤، ١١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٦) ، سنن الدارمی/البیوع ١٣ (٢٥٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نہ مالی نہ جانی کسی طرح کا ظلم میں نے کسی پر نہ کیا ہو، حدیث میں اشارہ ہے کہ نرخ مقرر کرنا یعنی قیمتوں پر کنٹرول کرنا بیوپاریوں پر اور غلہ کے تاجروں پر ایک مالی ظلم ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس سے بچنے کی آرزو کی۔
حدیث نمبر: 2200 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏ وَحُمَيْدٌ وَثَابِتٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي لَأَرْجُو، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ يَطْلُبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০১
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نرخ مقرر کرنا مکروہ (منع) ہے۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مہنگائی بڑھ گئی، تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ نرخ مقرر کردیں تو اچھا رہے گا ! آپ ﷺ نے فرمایا : میری خواہش ہے کہ میں تم سے اس حال میں جدا ہوں کہ کوئی مجھ سے کسی زیادتی کا جو میں نے اس پر کی ہو مطالبہ کرنے والا نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨، ومصباح الزجاجة : ٧٧٤) ، مسند احمد (٣/٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں شاید اس کا سبب قحط سالی اور بارش کا نہ برسنا تھا، یا مدینہ اور شام کے درمیان راستے کا خراب ہونا جہاں سے مدینہ منورہ کو غلہ آتا تھا، لوگوں نے رسول اکرم ﷺ سے قیمتوں اور منافع پر کنٹرول کی گزارش کی تو نبی کریم ﷺ نے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا دیا کہ وہی رزاق ہے اور اسی کے ہاتھ میں روزی کو کم اور زیادہ کرنا ہے، رسول اکرم ﷺ نے نرخ پر کنٹرول اس خیال سے نہ کیا کہ اس سے خواہ مخواہ کہیں لوگ ظلم و زیادتی کا شکار نہ ہوجائیں، لیکن حاکم وقت لوگوں کی خدمت کے لیے عادلانہ اور منصفانہ نرخ پر کنٹرول کا اقدام کرسکتا ہے، عام مصلحت کے پیش نظر علماء اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ نرخ کے کنٹرول میں بعض چیزیں حرام کے قبیل سے ہیں، اور بعض چیزیں انصاف پر مبنی اور جائز ہیں، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہوں یا ناحق ان کو ایسی بیع پر مجبور کیا جائے، جو ان کے یہاں غیر پسندیدہ ہو یا ان کو مباح چیزوں سے روکنے والی ہو تو ایسا کنٹرول حرام ہے، اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کا ضامن کنٹرول جیسے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ وہی قیمت لیں جس کے وہ حقیقی طور پر حقدار ہیں، اور ان کو اس حقیقی قیمت سے زیادہ لینے سے روک دے جو ان کے لیے لینا حرام ہے، تو ایسا کنٹرول جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، خلاصہ کلام یہ کہ اگر لوگوں کی مصلحتیں قیمتوں پر کنٹرول کے بغیر نہ پوری ہو رہی ہوں تو منصفانہ طور پر ان کی قیمتوں کی تحدید کر دینی چاہیے اور اگر اس کی ضرورت نہ ہو اور اس کے بغیر کام چل رہا ہو تو قیمتوں پر کنٹرول نہ کرے۔ علامہ محمد بن ابراہیم آل الشیخ مفتی اکبر سعودی عرب فرماتے ہیں کہ ہم پر جو چیز واضح ہوئی اور جس پر ہمارے دلوں کو اطمینان ہے وہ وہی ہے جسے ابن القیم نے ذکر فرمایا ہے کہ قیمتوں کی تحدید میں سے بعض چیزیں ظلم ہیں، اور بعض چیزیں عدل و انصاف کے عین مطابق تو دوسری صورت جائز ہے، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہو رہے ہوں یا ناحق انہیں ایسی قیمت پر مجبور ہونا پڑے جس پر وہ راضی نہیں ہیں، یا اس سے وہ اللہ کی مباح کی ہوئی چیزوں سے روکے جا رہے ہوں تو ایسا کرنا حرام ہے، اور اگر قیمتوں پر کنٹرول سے لوگوں کے درمیان عدل کا تقاضا پورا ہو رہا ہے کہ حقیقی قیمت اور واجبی معاوضہ لینے پر ان کو مجبور کیا جا رہا ہو یا اس تدبیر سے ان کو اصلی قیمت سے زیادہ لینے سے روکا جا رہا ہو جس کا لینا ان کے لیے حرام ہے، تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، پس قیمتوں پر کنٹرول دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ ایسی چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول ہو جن کے محتاج سارے لوگ ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ مہنگائی کا سبب بازار میں سامان کا کم ہونا ہے یا طلب کا زیادہ ہونا، تو جس چیز میں یہ دونوں شرطیں پائی جائیں اس میں قیمتوں کی تحدید عدل و انصاف اور عام مصلحتوں کی رعایت کے قبیل سے ہے، جیسے گوشت، روٹی اور دواؤں وغیرہ کی قیمتوں پر کنٹرول۔ مجمع الفقہ الإسلامی مکہ مکرمہ نے تاجروں کے منافع کے کنٹرول سے متعلق ( ١٤٠٩ ) ہجری کی ایک قرارداد میں یہ طے کیا کہ حاکم صرف اس وقت مارکیٹ اور چیزوں کے بھاؤ کے سلسلے میں دخل اندازی کرے جب مصنوعی اسباب کی وجہ سے ان چیزوں میں واضح خلل پائے، تو ایسی صورت میں حاکم کو چاہیے کہ وہ ممکنہ عادلانہ وسائل اختیار کر کے اس مسئلے میں دخل اندازی کرے اور بگاڑ، مہنگائی اور غبن فاحش کے اسباب کا خاتمہ کرے۔ (ملاحظہ ہو : توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف عبداللہ بن عبدالرحمن البسام، ٤ /٣٢٩ )
حدیث نمبر: 2201 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ لَوْ قَوَّمْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأَرْجُو، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أُفَارِقَكُمْ وَلَا يَطْلُبَنِي أَحَدٌ مِنْكُمْ بِمَظْلَمَةٍ ظَلَمْتُهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০২
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت میں نرمی سے کام لینا۔
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں لے جائے جو نرمی کرنے والا ہو، خواہ بیچ رہا ہو یا خرید رہا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ١٠٢ (٤٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٥٨، ٦٧، ٧٠) (حسن) (سند میں عطاء بن فروخ اور عثمان بن عفان (رض) کے مابین انقطاع ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١١٨٨ )
حدیث نمبر: 2202 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْبَلْخِيُّ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ فَرُّوخَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَدْخَلَ اللَّهُ الْجَنَّةَ رَجُلًا كَانَ سَهْلًا بَائِعًا وَمُشْتَرِيًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০৩
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت میں نرمی سے کام لینا۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے، جو نرمی کرے جب بیچے، نرمی کرے جب خریدے، اور نرمی کرے جب تقاضا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٦ (٢٠٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٧٦ (١٣٢٠) (صحیح )
حدیث نمبر: 2203 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا سَمْحًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا بَاعَ سَمْحًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا اشْتَرَى سَمْحًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا اقْتَضَى.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০৪
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نرخ لگانا۔
قیلہ ام بنی انمار (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی تو آپ ﷺ اپنے کسی عمرہ کے موقع پر مروہ پہاڑی کے پاس تھے، میں نے عرض کیا کہ میں ایک خریدو فروخت کرنے والی عورت ہوں، جب میں کوئی چیز خریدنا چاہتی ہوں تو پہلے اس کی قیمت اس سے کم لگاتی ہوں، جتنے میں خریدنا چاہتی ہوں، پھر تھوڑا تھوڑا بڑھاتی ہوں یہاں تک کہ اس قیمت تک پہنچ جاتی ہوں جو میں چاہتی ہوں، اور جب میں کسی چیز کو بیچنا چاہتی ہوں تو اس کی قیمت اس سے زیادہ لگاتی ہوں، جتنے میں بیچنا چاہتی ہوں، پھر تھوڑا تھوڑا کم کرتی ہوں یہاں تک کہ اس قیمت کو پہنچ جاتی ہوں جتنے میں اسے میں دینا چاہتی ہوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیلہ ! ایسا نہ کرو جب تم کوئی چیز خریدنا چاہو تو وہی قیمت لگاؤ جو تمہارے پیش نظر ہو چاہے وہ چیز دی جائے یا نہ دی جائے، اور جب تم کوئی چیز بیچنا چاہو تو وہی قیمت کہو جو تمہارے پیش نظر ہے، چاہے تم دے سکو یا نہ دے سکو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٨، ومصباح الزجاجة : ٧٧٦) (ضعیف) (عبد اللہ بن عثمان اور قیلة (رض) کے درمیان انقطاع ہے نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢١٥٦ )
حدیث نمبر: 2204 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ شَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْلَةَ أُمِّ بَنِي أَنْمَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ عُمَرِهِ عِنْدَ الْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي امْرَأَةٌ أَبِيعُ وَأَشْتَرِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَاعَ الشَّيْءَ سُمْتُ بِهِ أَقَلَّ مِمَّا أُرِيدُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ زِدْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ زِدْتُ حَتَّى أَبْلُغَ الَّذِي أُرِيدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ الشَّيْءَ سُمْتُ بِهِ أَكْثَرَ مِنَ الَّذِي أُرِيدُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَضَعْتُ حَتَّى أَبْلُغَ الَّذِي أُرِيدُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَفْعَلِي يَا قَيْلَةُ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا أَرَدْتِ أَنْ تَبْتَاعِي شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَامِي بِهِ الَّذِي تُرِيدِينَ أُعْطِيتِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مُنِعْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَرَدْتِ أَنْ تَبِيعِي شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَامِي بِهِ الَّذِي تُرِيدِينَ أَعْطَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مَنَعْتِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০৫
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نرخ لگانا۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا آپ نے مجھ سے فرمایا : کیا تم اپنے اس پانی ڈھونے والے اونٹ کو ایک دینار میں بیچتے ہو ؟ اور اللہ تمہیں بخشے میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب میں مدینہ پہنچ جاؤں، تو آپ ہی کا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا دو دینار میں بیچتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے جابر (رض) کہتے ہیں کہ پھر آپ اسی طرح ایک ایک دینار بڑھاتے گئے اور ہر دینار پر فرماتے رہے : اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے ! یہاں تک کہ بیس دینار تک پہنچ گئے، پھر جب میں مدینہ آیا تو اونٹ پکڑے ہوئے اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا : بلال ! انہیں مال غنیمت میں سے بیس دینار دے دو اور مجھ سے فرمایا : اپنا اونٹ بھی لے جاؤ، اور اسے اپنے گھر والوں میں پہنچا دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ٤ (٢٧١٨) تعلیقا، ً صحیح مسلم/الرضاع ١٦ (٧١٥) ، سنن النسائی/البیوع ٧٥ (٤٦٤٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٠ (١٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٣١٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے یہ معلوم ہو کہ بھاؤ تاؤ کرنا درست اور جائز ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیچنے والا ایک جانور کو بیچے اور کسی مقام تک اس پر سواری کرنے کی شرط کرلے تو جائز ہے، بعض روایتوں میں ہے کہ جابر (رض) جب لوٹ کر اپنے گھر آئے اور گھر والوں سے اونٹ کے بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے جابر (رض) کو ملامت کی کہ گھر کے کاموں کے لئے ایک ہی اونٹ تھا اس کو بھی بیچ ڈالا، لیکن جابر (رض) نے ان کی بات کا خیال نہ کیا، اور اپنے وعدے کے مطابق اونٹ کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آئے، آپ نے بیس دینار دیئے اور اونٹ بھی، اور فرمایا کہ اونٹ اپنے گھر لے جاؤ، شاید وحی سے آپ کو یہ حال معلوم ہوگیا ہو کہ گھر والے اس خریدو فروخت کے حق میں نہیں ہیں اور شاید محض حسن اخلاق ہو۔
حدیث نمبر: 2205 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ أَتَبِيعُ نَاضِحَكَ هَذَا بِدِينَارٍ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هُوَ نَاضِحُكُمْ إِذَا أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَتَبِيعُهُ بِدِينَارَيْنِ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا زَالَ يَزِيدُنِي دِينَارًا دِينَارًا، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ مَكَانَ كُلِّ دِينَارٍ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ حَتَّى بَلَغَ عِشْرِينَ دِينَارًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ أَخَذْتُ بِرَأْسِ النَّاضِحِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا بِلَالُ أَعْطِهِ، ‏‏‏‏‏‏مِنَ الْغَنِيمَةِ عِشْرِينَ دِينَارًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ انْطَلِقْ بِنَاضِحِكَ فَاذْهَبْ بِهِ إِلَى أَهْلِكَ..
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০৬
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نرخ لگانا۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج نکلنے سے پہلے مول بھاؤ کرنے سے، اور دودھ والے جانور کو ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٦، ومصباح الزجاجة : ٧٧٧) (ضعیف) (سند میں ربیع بن حبیب منکر الحدیث اور نوفل مستور راوی ہیں، لیکن دوسرا جملہ کے ہم معنی صحیح مسلم میں موجود ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ دودھ سے زیادہ فائدہ ہے، ہمیشہ غذا ملے گی اور گوشت اس کا دو تین روز ہی کام آئے گا، البتہ اگر دودھ والا جانور بوڑھا ہوگیا اور اس کا دودھ بند ہوگیا ہو تو ذبح کرنے میں مضائقہ نہیں۔
حدیث نمبر: 2206 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا الرَّبِيعُ بْنُ حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّوْمِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ ذَبْحِ ذَوَاتِ الدَّرِّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০৭
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت میں قسمیں اٹھانے کی کراہت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے اس قدر ناراض ہوگا کہ نہ تو ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا : ایک وہ شخص جس کے پاس چٹیل میدان میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جو اپنا مال نماز عصر کے بعد بیچے اور اللہ کی قسم کھائے کہ اسے اس نے اتنے اتنے میں خریدا ہے، اور خریدار اسے سچا جانے حالانکہ وہ اس کے برعکس تھا، تیسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت کی، اور اس نے صرف دنیا کے لیے بیعت کی، اگر اس نے اس کو کچھ دیا تو بیعت پوری کی، اور اگر نہیں دیا تو نہیں پوری کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المساقاة ١٠ (٢٣٦٩) ، الشہادات ٢٢ (٢٦٧٢) ، الأحکام ٤٨ (٧٢١٢) ، التوحید ٢٤ (٧٤٤٦) ، سنن الترمذی/السیر ٣٥ (١٥٩٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥ (٤٤٦٣) ، مسند احمد (٢/٢٥٣، ٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ امام کے مخالف ہو بیٹھا، اور اس کے خلاف بغاوت کی، جھوٹی قسم کھانا ہر وقت گناہ ہے، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد اور بھی سخت گناہ ہے۔
حدیث نمبر: 2207 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُزَكِّيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، ‏‏‏‏‏‏رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ يَمْنَعُهُ ابْنَ السَّبِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ بَايَعَ، ‏‏‏‏‏‏رَجُلًا سِلْعَةً بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَأَخَذَهَا بِكَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَصَدَّقَهُ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِدُنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا وَفَى لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا لَمْ يَفِ لَهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০৮
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت میں قسمیں اٹھانے کی کراہت۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ نامراد ہوئے اور بڑے نقصان میں پڑے، آپ ﷺ نے فرمایا : جو اپنا تہمد (لنگی) ٹخنے سے نیچے لٹکائے، اور جو دے کر احسان جتائے، اور جو اپنے سامان کو جھوٹی قسم کے ذریعہ رواج دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٨ (٤٠٨٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٥ (١٢١١) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٩ (٢٥٦٤) ، البیوع ٥ (٤٤٦٣) ، الزینة من المجتبیٰ ٥٠ (٥٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٨، ١٥٨، ١٦٢، ١٦٨، ١٧٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٣ (٢٦٤٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 2208 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَاشُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ وَالْمَنَّانُ عَطَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২০৯
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خرید و فروخت میں قسمیں اٹھانے کی کراہت۔
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٧ (١٦٠٧) ، سنن النسائی/البیوع ٥ (٤٤٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٧، ٢٩٨، ٣٠١) (صحیح )
حدیث نمبر: 2209 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏ح وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২১০
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت خریدے، تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہوگا، الا یہ کہ خریدار خود پھل لینے کی شرط طے کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٠ (٢٢٠٣) ، ٩٢ (٢٢٠٦) ، المساقاة ١٧ (٢٣٧٩) ، الشروط ٢ (٢٧١٦) ، صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن النسائی/البیوع ٧٤ (٤٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٤٤ (٣٤٣٣، ٣٤٣٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٥ (١٢٤٤) ، موطا امام مالک/البیوع ٧ (١٠) ، مسند احمد (٢/٤، ٥، ٩، ٦٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٧ (٢٦٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تأبیر کے معنی قلم کرنا یعنی نر کھجور کے گابھے کو مادہ میں رکھنا، جب قلم لگاتے ہیں تو درخت میں کھجور ضرور پیدا ہوتی ہے، لہذا قلم کے بعد جو درخت بیچا جائے وہ اس کا پھل بیچنے والے کو ملے گا۔ البتہ اگر خریدنے والا شرط طے کرلے کہ پھل میں لوں گا تو شرط کے موافق خریدار کو ملے گا، بعضوں نے کہا کہ یہ حکم اس وقت ہے جب درخت میں پھل نکل آیا ہو تو وہ خریدنے والے ہی کا ہوگا۔ اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٢ (٢٢٠٦) ، صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن النسائی/البیوع ٧٣ (٤٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٤) (صحیح )
حدیث نمبر: 2210 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَنِ اشْتَرَى نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২১১
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت بیچے تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہوگا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا خود لینے کی شرط طے کرلے، اور جو شخص کوئی غلام بیچے اور اس غلام کے پاس مال ہو تو وہ مال اس کا ہوگا، جس نے اس کو بیچا ہے سوائے اس کے کہ خریدنے والا شرط طے کرلے کہ اسے میں لوں گا، ، ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث محمد بن رمح تقدم بمثل الحدیث المتقدم (٢٢١٠) ، وحدیث ہشام بن عمار أخرجہ : صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٤٤ (٣٤٣٣) ، سنن النسائی/البیوع ٧٤ (٤٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسرے مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اختلاف ان کپڑوں میں ہے جو بکتے وقت غلام لونڈی کے بدن پر ہوں، بعضوں نے کہا : وہ بھی بیچنے والا لے لے گا، بعض نے کہا : صرف عورت کا ستر بیع میں داخل ہوگا۔
حدیث نمبر: 2211 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏ح وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ جَمِيعًا، ‏‏‏‏‏‏عَنْابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ بَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَثَمَرَتُهَا لِلَّذِي بَاعَهَا إِلَّا، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَمَنِ ابْتَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَاعَهُ إِلَّا، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২১২
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی کھجور کا درخت بیچے، اور کوئی غلام بیچے تو وہ ان دونوں کو اکٹھا بیچ سکتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٢/٧٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 2212 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ بَاعَ نَخْلًا وَبَاعَ عَبْدًا جَمَعَهُمَا جَمِيعًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২১৩
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا۔
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ کھجور کے درخت کا پھل اس شخص کا ہوگا جس نے اس کی تابیر (پیوندکاری) کی، سوائے اس کے کہ خریدنے والا خود لینے کی شرط طے کرلے، اور جس نے کوئی غلام بیچا اور اس غلام کے پاس مال ہو تو غلام کا مال اس کا ہوگا جس نے اس کو بیچا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا شرط طے کرلے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٢، ومصباح الزجاجة : ٧٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٢٦، ٣٢٧) (صحیح) (سند میں اسحاق بن یحییٰ مجہول راوی ہیں، اور عبادہ (رض) سے ملاقات بھی نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
حدیث نمبر: 2213 حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ خَالِدٍ النُّمَيْرِيُّ أَبُو الْمُغَلِّسِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِيإِسْحَاق بْنُ يَحْيَى ابْنِ الْوَلِيدِ بَنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنَّ ثَمَنَ النَّخْلِ لِمَنْ أَبَّرَهَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ مَالَ الْمَمْلُوكِ لِمَنْ بَاعَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২১৪
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کو نہ بیچو، آپ نے اس سے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو منع کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٢٦ (٤٥٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٠٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٨ (١٤٨٦) ، البیوع ٨٢ (٢١٨٣) ، ٨٥ (٢١٩٤) ، ٨٧ (٢١٩٩) ، صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٤) ، ١٤ (١٥٣٤) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٣ (٣٣٦٧) ، سنن الترمذی/البیوع ١٥ (١٢٢٦) ، موطا امام مالک/البیوع ٨ (١٠) ، مسند احمد (٢/٧، ٨، ١٦، ٤٦، ٥٦، ٥٩، ٦١، ٨٠، ١٣٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٢١ (٢٥٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی درخت پر جو پھل لگے ہوں ان کا بیچنا اس وقت تک جائز نہیں، جب تک کہ وہ پھل استعمال کے قابل نہ ہوجائیں، موجودہ دور میں کئی سالوں کے لئے باغات بیچ لیے جاتے ہیں جب کہ نہ پھول کا پتہ ہے نہ پھل کا، یہ بالکل حرام ہے، مسلمانوں کو اس طرح کی تجارت سے بچنا چاہیے اور حدیث کے مطابق جب پھل قابل استعمال ہو تب بیچنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 2214 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبِيعُوا الثَّمَرَةَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২১৫
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھلوں کو ان کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے نہ بیچو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٨) ، سنن النسائی/البیوع ٢٦ (٤٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٦٢، ٣٦٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 2215 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْمِصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، ‏‏‏‏‏‏ وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَبِيعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ২২১৬
تجارت ومعاملات کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پھلوں کو ان کی پختگی ظاہر ہوجانے سے پہلے بیچنے سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٨٩) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٣ (٣٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٥٤) (صحیح )
حدیث نمبر: 2216 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ.
tahqiq

তাহকীক: