আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
دعاؤں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২৩৫ টি
হাদীস নং: ৩৪১০
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسی سے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو عادتیں ایسی ہیں جنہیں جو بھی مسلمان پابندی اور پختگی سے اپنائے رہے گا وہ جنت میں جائے گا، دھیان سے سن لو، دونوں آسان ہیں مگر ان پر عمل کرنے والے تھوڑے ہیں، ہر نماز کے بعد دس بار اللہ کی تسبیح کرے (سبحان اللہ کہے) دس بار حمد بیان کرے (الحمدللہ کہے) اور دس بار اللہ کی بڑائی بیان کرے (اللہ اکبر کہے) ۔ عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو انہیں اپنی انگلیوں پر شمار کرتے ہوئے دیکھا ہے، آپ نے فرمایا : یہ تو زبان سے گننے میں ڈیڑھ سو ١ ؎ ہوئے لیکن یہ (دس گنا بڑھ کر) میزان میں ڈیڑھ ہزار ہوجائیں گے۔ (یہ ایک خصلت و عادت ہوئی) اور (دوسری خصلت و عادت یہ ہے کہ) جب تم بستر پر سونے جاؤ تو سو بار سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمدللہ کہو، یہ زبان سے کہنے میں تو سو ہیں لیکن میزان میں ہزار ہیں، (اب بتاؤ) کون ہے تم میں جو دن و رات ڈھائی ہزار گناہ کرتا ہو ؟ لوگوں نے کہا : ہم اسے ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ کیوں نہیں کرسکیں گے ؟ آپ نے فرمایا : (اس وجہ سے) کہ تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے : فلاں بات کو یاد کرو، فلاں چیز کو سوچ لو، یہاں تک کہ وہ اس کی توجہ اصل کام سے ہٹا دیتا ہے، تاکہ وہ اسے نہ کرسکے، ایسے ہی آدمی اپنے بستر پر ہوتا ہے اور شیطان آ کر اسے (تھپکیاں دیدے کر) سلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ (بغیر تسبیحات پڑھے) سو جاتا ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ اور ثوری نے یہ حدیث عطاء بن سائب سے روایت کی ہے۔ اور اعمش نے یہ حدیث عطاء بن سائب سے اختصار کے ساتھ روایت کی ہے، ٣- اس باب میں زید بن ثابت، انس اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٠٩ (٥٠٦٥) ، سنن النسائی/السھو ٩١ (١٣٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٢ (٩٢٦) (تحفة الأشراف : ٨٦٣٨) ، و مسند احمد (٢/١٦٠، ٢٠٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہر نماز کے بعد دس مرتبہ اگر انہیں پڑھا جائے تو ان کی مجموعی تعداد ڈیڑھ سو ہوتی ہے۔ ٢ ؎ : یہی وجہ ہے کہ یہ دو مستقل عادتیں و خصلتیں رکھنے والے لوگ تھوڑے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (926) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3410
حدیث نمبر: 3410 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍورَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَلَّتَانِ لَا يُحْصِيهِمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ أَلَا وَهُمَا يَسِيرٌ، وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ: يُسَبِّحُ اللَّهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا، وَيَحْمَدُهُ عَشْرًا، وَيُكَبِّرُهُ عَشْرًا ، قَالَ: فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُهَا بِيَدِهِ، قَالَ: فَتِلْكَ خَمْسُونَ وَمِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ فِي الْمِيزَانِ، وَإِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ تُسَبِّحُهُ وَتُكَبِّرُهُ وَتَحْمَدُهُ مِائَةً، فَتِلْكَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ، فَأَيُّكُمْ يَعْمَلُ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ أَلْفَيْنِ وَخَمْسَ مِائَةِ سَيِّئَةٍ ، قَالُوا: فَكَيْفَ لَا يُحْصِيهَا ؟ قَالَ: يَأْتِي أَحَدَكُمُ الشَّيْطَانُ وَهُوَ فِي صَلَاتِهِ، فَيَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا اذْكُرْ كَذَا حَتَّى يَنْفَتِلَ، فَلَعَلَّهُ لَا أَنْ يَفْعَلُ، وَيَأْتِيهِ وَهُوَ فِي مَضْجَعِهِ فَلَا يَزَالُ يُنَوِّمُهُ حَتَّى يَنَامَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ هَذَا الْحَدِيثَ، وَرَوَى الْأَعْمَشُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ مُخْتَصَرًا، وَفِي الْبَابِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১১
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسی سے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تسبیح (سبحان اللہ) انگلیوں پر گنتے ہوئے دیکھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اعمش کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٩ (١٥٠٢) ، سنن النسائی/السھو ٩٧ (١٣٥٦) (تحفة الأشراف : ٨٦٣٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (926) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3411
حدیث نمبر: 3411 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُ التَّسْبِيحَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১২
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسی سے متعلق
کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کچھ چیزیں نماز کے پیچھے (بعد میں) پڑھنے کی ایسی ہیں کہ ان کا کہنے والا محروم و نامراد نہیں رہتا، ہر نماز کے بعد ٣٣ بار سبحان اللہ کہے، ٣٣ بار الحمدللہ کہے، اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- شعبہ نے یہ حدیث حکم سے روایت کی ہے، اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے، اور منصور بن معتمر نے حکم سے روایت کی ہے اور اسے مرفوع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٦) ، سنن النسائی/السھو ٩٢ (١٣٥٠) ، وعمل الیوم واللیلة ٥٩ (١٥٥) (تحفة الأشراف : ١١١١٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (102) (هذا حديث زيد بن ثابت فی نسخة الدع اس فی التسبيح والتحميد والتکبير والتهليل) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3412
حدیث نمبر: 3412 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ سَمُرَةَ الْأَحْمَسِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْمُلَائِيُّ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مُعَقِّبَاتٌ لَا يَخِيبُ قَائِلُهُنَّ: يُسَبِّحُ اللَّهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَيَحْمَدُهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَيُكَبِّرُهُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَعَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْمُلَائِيُّ ثِقَةٌ حَافِظٌ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْحَكَمِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنِ الْحَكَمِ فَرَفَعَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১৩
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسی سے متعلق
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہر نماز کے بعد ہم (سلام پھیر کر) ٣٣ بار سبحان اللہ، ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہیں، راوی (زید) کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے خواب دیکھا، خواب میں نظر آنے والے شخص (فرشتہ) نے پوچھا : کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہر نماز کے بعد ٣٣ بار سبحان اللہ ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو ؟ اس نے کہا : ہاں، (تو سائل (فرشتے) نے کہا : (٣٣، ٣٣ اور ٣٤ کے بجائے) ٢٥ کرلو، اور «لا إلہ إلا اللہ» کو بھی انہیں کے ساتھ شامل کرلو، (اس طرح کل سو ہوجائیں گے) صبح جب ہوئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے، اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا : ایسا ہی کرلو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السھو ٩٣ (١٣٥١) (تحفة الأشراف : ٣٤١٣) ، و مسند احمد (٥/٥٨٥، ١٩٠) ، وسنن الدارمی/الصلاة ٩٠ (١٣٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سلسلے میں تین روایتیں ہیں ایک یہی اس حدیث میں مذکور طریقہ ( یعنی ٣٣/٣٣/ اور ٣٤ بار ) دوسرا طریقہ وہی جو فرشتے نے بتایا ، اور ایک تیسرا طریقہ یہ ہے کہ سبحان اللہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر ٣٣/٣٣ بار ، اور ایک بار سو کا عدد پورا کرنے کے لیے «لا الہ الا اللہ» کہے ، جو طریقہ بھی اپنائے سب ثابت ہے ، کبھی یہ کرے اور کبھی وہ۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3413
حدیث نمبر: 3413 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُمِرْنَا أَنْ نُسَبِّحَ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَنَحْمَدَهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَنُكَبِّرَهُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، قَالَ: فَرَأَى رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ: أَمَرَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُسَبِّحُوا فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُوا اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُوا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاجْعَلُوا خَمْسًا وَعِشْرِينَ، وَاجْعَلُوا التَّهْلِيلَ مَعَهُنَّ، فَغَدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَهُ، فَقَالَ: افْعَلُوا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১৪
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رات کو آنکھ کھل جانے پر پڑھی جانے والے دُعا
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی نیند سے جاگے پھر کہے «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو علی كل شيء قدير و سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله» ١ ؎، پھر کہے «رب اغفر لي» اے میرے رب ہمیں بخش دے ، یا آپ نے کہا : پھر وہ دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جائے گی، پھر اگر اس نے ہمت کی اور وضو کیا پھر نماز پڑھی تو اس کی نماز مقبول ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢١ (١١٥٤) ، والأدب ١٠٨ (٥٠٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (٣٨٧٨) (تحفة الأشراف : ٥٠٧٤) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥٣ (٢٧٢٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اللہ واحد کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، بادشاہت اسی کی ہے اور اسی کے لیے سب تعریفیں ہیں ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور اللہ سب سے بڑا ہے ، اور گناہ سے بچنے کی قوت اور نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے مگر اللہ کی توفیق سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3878) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3414
حدیث نمبر: 3414 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي أَوْ قَالَ ثُمَّ دَعَا اسْتُجِيبَ لَهُ، فَإِنْ عَزَمَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى قُبِلَتْ صَلَاتُهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১৫
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رات کو آنکھ کھل جانے پر پڑھی جانے والے دُعا
مسلمہ بن عمرو کہتے ہیں کہ عمیر بن ہانی ١ ؎ ہر دن ہزار رکعتیں نمازیں پڑھتے تھے، اور سو ہزار (یعنی ایک لاکھ) تسبیحات پڑھتے تھے، یعنی سبحان اللہ کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩١٨١) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” مسلمہ بن عمرو شامی “ مجہول راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ دمشق کے رہنے والے ایک تابعی ہیں ، ستۃ کے رواۃ میں سے ہیں ، اور ثقہ ہیں ، ١٢٧ ھ میں شہید کردیئے گئے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3415
حدیث نمبر: 3415 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ يُصَلِّي كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ سَجْدَةٍ، وَيُسَبِّحُ مِائَةَ أَلْفِ تَسْبِيحَة.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১৬
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسی کے بارے میں
ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے دروازے کے پاس سوتا تھا، اور آپ کو وضو کا پانی دیا کرتا تھا، میں آپ کو «سمع اللہ لمن حمده» کہتے ہوئے سنتا تھا، نیز میں آپ کو «الحمد لله رب العالمين» پڑھتے ہوئے سنتا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٢ (١٣٢٠) ، سنن النسائی/التطبیق ٧٩ (١١٣٩) ، وقیام اللیل ٩ (١٦١٧) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (١٦٧٩) (تحفة الأشراف : ٣٦٠٣) ، و مسند احمد (٤/٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : جب جب آپ رات میں اٹھا کرتے تو یہ دونوں دعائیں کافی دیر تک پڑھتے تھے یا کبھی یہ اور کبھی وہ پڑھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3879) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3416
حدیث نمبر: 3416 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيُّ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيتُ عِنْدَ بَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُعْطِيهِ وَضُوءَهُ، فَأَسْمَعُهُ الْهَوِيَّ مِنَ اللَّيْلِ، يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَأَسْمَعُهُ الْهَوِيَّ مِنَ اللَّيْلِ، يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১৭
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسی کے بارے میں
حذیفہ بن الیمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سونے کا ارادہ فرماتے تو کہتے : «اللهم باسمک أموت وأحيا» ١ ؎، اور جب آپ سو کر اٹھتے تو کہتے : «الحمد لله الذي أحيا نفسي بعد ما أماتها وإليه النشور» ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٧ (٦٣١٢) ، والتوحید ١٣ (٧٣٩٤) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٧ (٥٠٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (٣٨٨٠) (تحفة الأشراف : ٣٣٠٨) ، و مسند احمد (٥/١٥٤) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥٣ (٢٧٢٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : تیرا ہی نام لے کر مرتا ( یعنی سوتا ) ہوں اور تیرا ہی نام لے کر جیتا ( یعنی سو کر اٹھتا ) ہوں۔ ٢ ؎ : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میری جان ( میری ذات ) کو زندگی بخشی ، اس کے بعد کہ اسے ( عارضی ) موت دے دی تھی اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ، بعض روایات میں اس کے الفاظ یوں بھی آئے ہیں ، «الحمد لله الذي أحيا نفسي بعد ما أماتها وإليه النشور» (معنی ایک ہی ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3880) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3417
حدیث نمبر: 3417 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ قَالَ: اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا ، وَإِذَا اسْتَيْقَظَ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَا نَفْسِي بَعْدَ مَا أَمَاتَهَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১৮
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ رات کو نماز (تہجد) کیلئے اٹھے کیا کہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے : «اللهم لک الحمد أنت نور السموات والأرض ولک الحمد أنت قيام السموات والأرض ولک الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن أنت الحق ووعدک الحق ولقاؤك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق اللهم لك أسلمت وبک آمنت وعليك توکلت وإليك أنبت وبک خاصمت وإليك حاکمت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» اے اللہ ! تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، (اور آسمان و زمین کے درمیان روشنی پیدا کرنے والا) تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم کرنے والا ہے، تیرے لیے ہی سب تعریف ہے تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب ہے، تو حق ہے تیرا وعدہ حق (سچا) ہے تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے جہنم حق ہے، قیامت حق ہے۔ اے اللہ ! میں نے اپنے کو تیرے سپرد کردیا، اور تجھ ہی پر ایمان لایا، اور تجھ ہی پر بھروسہ کیا، اور تیری ہی طرف رجوع کیا، اور تیرے ہی خاطر میں لڑا اور تیرے ہی پاس فیصلہ کے لیے گیا۔ اے اللہ ! میں پہلے جو کچھ کرچکا ہوں اور جو کچھ بعد میں کروں گا اور جو پوشیدہ کروں اور جو کھلے عام کروں میرے سارے گناہ اور لغزشیں معاف کر دے، تو ہی میرا معبود ہے، اور تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس (رض) سے آئی ہے، اور وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١ (١١٢٠) ، والدعوات ١٠ (٦٣١٧) ، والتوحید ٨ (٧٣٨٥) ، و ٢٤ (٧٤٤٢) ، و ٣٥ (٧٤٩٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٧١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٩ (١٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٠ (١٣٥٥) (تحفة الأشراف : ٥٧٥١) ، و مسند احمد (١/٢٩٨) ، وسنن الدارمی/الصلاة ١٦٩ (١٥٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1355) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3418
حدیث نمبر: 3418 حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلَهِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪১৯
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسی کے بارے میں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک رات نماز (تہجد) سے فارغ ہو کر پڑھتے ہوئے سنا (آپ پڑھ رہے تھے) :«اللهم إني أسألک رحمة من عندک تهدي بها قلبي وتجمع بها أمري وتلم بها شعثي وتصلح بها غائبي وترفع بها شاهدي وتزکي بها عملي وتلهمني بها رشدي وترد بها ألفتي وتعصمني بها من کل سوء اللهم أعطني إيمانا ويقينا ليس بعده کفر ورحمة أنال بها شرف کر امتک في الدنيا والآخرة اللهم إني أسألک الفوز في العطاء ونزل الشهداء وعيش السعداء والنصر علی الأعداء اللهم إني أنزل بک حاجتي وإن قصر رأيي وضعف عملي افتقرت إلى رحمتک فأسألك يا قاضي الأمور ويا شافي الصدور کما تجير بين البحور أن تجيرني من عذاب السعير ومن دعوة الثبور ومن فتنة القبور اللهم ما قصر عنه رأيي ولم تبلغه نيتي ولم تبلغه مسألتي من خير وعدته أحدا من خلقک أو خير أنت معطيه أحدا من عبادک فإني أرغب إليك فيه وأسألكه برحمتک رب العالمين اللهم ذا الحبل الشديد والأمر الرشيد أسألک الأمن يوم الوعيد والجنة يوم الخلود مع المقربين الشهود الرکع السجو د الموفين بالعهود إنک رحيم ودود وأنت تفعل ما تريد اللهم اجعلنا هادين مهتدين غير ضالين ولا مضلين سلما لأوليائك وعدوا لأعدائك نحب بحبک من أحبک ونعادي بعداوتک من خالفک اللهم هذا الدعا وعليك الإجابة وهذا الجهد وعليك التکلان اللهم اجعل لي نورا في قلبي ونورا في قبري ونورا من بين يدي ونورا من خلفي ونورا عن يميني ونورا عن شمالي ونورا من فوقي ونورا من تحتي ونورا في سمعي ونورا في بصري ونورا في شعري ونورا في بشري ونورا في لحمي ونورا في دمي ونورا في عظامي اللهم أعظم لي نورا وأعطني نورا واجعل لي نورا سبحان الذي تعطف العز وقال به سبحان الذي لبس المجد وتکرم به سبحان الذي لا ينبغي التسبيح إلا له سبحان ذي الفضل والنعم سبحان ذي المجد والکرم سبحان ذي الجلال والإکرام» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے ابن ابی لیلیٰ کی روایت سے اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- شعبہ اور سفیان ثوری نے سلمہ بن کہیل سے، سلمہ نے کریب سے، اور کریب نے ابن عباس (رض) کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے، انہوں نے یہ پوری لمبی حدیث ذکر نہیں کی ہے۔ فائدہ ١ ؎: اے اللہ ! میں تجھ سے ایسی رحمت کا طالب ہوں، جس کے ذریعہ تو میرے دل کو ہدایت عطا کر دے، اور جس کے ذریعہ میرے معاملے کو مجتمع و مستحکم کر دے، میرے پراگندہ امور کر درست فرما دے، اور اس کے ذریعہ میرے باطن کی اصلاح فرما دے، اور اس کے ذریعہ میرے ظاہر کو بلند کر دے، اور اس کے ذریعہ میرے عمل کو صاف ستھرا بنا دے، اس کے ذریعہ سیدھی راہ کی طرف میری رہنمائی فرما، اس کے ذریعہ ہماری باہمی الفت و چاہت کو لوٹا دے، اور اس کے ذریعہ ہر برائی سے مجھے بچا لے، اے اللہ ! تو ہمیں ایسا ایمان و یقین دے کہ پھر اس کے بعد کفر کی طرف جانا نہ ہو، اے اللہ ! تو ہمیں ایسی رحمت عطا کر جس کے ذریعہ میں دنیا و آخرت میں تیری کرامت کا شرف حاصل کرسکوں، اے اللہ ! میں تجھ سے «عطاء» (بخشش) اور «قضاء» (فیصلے) میں کامیابی مانگتا ہوں، میں تجھ سے شہدا کی سی مہمان نوازی، نیک بختوں کی سی خوش گوار زندگی اور دشمنوں کے خلاف تیری مدد کا خواستگار ہوں، اور میں اگرچہ کم سمجھ اور کمزور عمل کا آدمی ہوں مگر میں اپنی ضروریات کو لے کر تیرے ہی پاس پہنچتا ہوں، میں تیری رحمت کا محتاج ہوں، اے معاملات کے نمٹانے و فیصلہ کرنے والے ! اے سینوں کی بیماریوں سے شفاء دینے والے تو مجھے بچا لے جہنم کی آگ سے، تباہی و بربادی کی پکار (نوحہ و ماتم) سے، اور قبروں کے فتنوں عذاب اور منکر نکیر کے سوالات سے اسی طرح بچا لے جس طرح کہ تو سمندروں میں (گھرے اور طوفانوں کے اندر پھنسے ہوئے لوگوں کو) بچاتا ہے، اے اللہ ! جس چیز تک پہنچنے سے میری رائے عقل قاصر رہی، جس چیز تک میری نیت و ارادے کی بھی رسائی نہ ہوسکی، جس بھلائی کا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی سے وعدہ کیا اور میں اسے تجھ سے مانگ نہ سکا، یا جو بھلائی تو از خود اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو دینے والا ہے میں بھی اسے تجھ سے مانگنے اور پانے کی خواہش اور آرزو کرتا ہوں، اور اے رب العالمین ! سارے جہاں کے پالنہار، تیری رحمت کے سہارے تجھ سے اس چیز کا سوالی ہوں، اے اللہ بڑی قوت والے اور اچھے کاموں والے، میں تجھ سے وعید کے دن یعنی قیامت کے دن امن و چین چاہتا ہوں، میں تجھ سے ہمیشہ کے لیے تیرے مقرب بندوں، تیرے کلمہ گو بندوں، تیرے آگے جھکنے والے بندوں، تیرے سامنے سجدہ ریز ہونے والے بندوں، تیرے وعدہ و اقرار کے پابند بندوں کے ساتھ جنت میں جانے کی دعا مانگتا ہوں، (اے رب ! ) تو رحیم ہے (بندوں پر رحم کرنے والا) تو ودود ہے (اپنے بندوں سے محبت فرمانے والا) تو (بااختیار ہے) جو چاہتا ہے کرتا ہے، اے اللہ ! تو ہمیں ہدایت دینے والا بنا مگر ایسا جو خود بھی ہدایت یافتہ ہو جو نہ خود گمراہ ہو، نہ دوسروں کو گمراہ بنانے والا ہو، تیرے دوستوں کے لیے صلح جو ہو، اور تیرے دشمنوں کے لیے دشمن، جو شخص تجھ سے محبت رکھتا ہو ہم اس شخص سے تجھ سے محبت رکھنے کے سبب محبت رکھیں، اور جو شخص تیرے خلاف کرے ہم اس شخص سے تجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب دشمنی رکھیں، اے اللہ یہ ہماری دعا و درخواست ہے، اور اس دعا کو قبول کرنا بس تیرے ہی ہاتھ میں ہے، یہ ہماری کوشش ہے اور بھروسہ بس تیری ہی ذات پر ہے، اے اللہ ! تو میری قبر میں نور (روشنی) کر دے، اے اللہ ! تو میرے قلب میں نور بھر دے، اے اللہ ! تو میرے آگے اور سامنے نور پھیلا دے، اے اللہ تو میرے پیچھے نور کر دے، میرے آگے اور سامنے نور پھیلا دے، اے اللہ تو میرے پیچھے نور کر دے، نور میرے داہنے بھی نور میرے بائیں بھی، نور میرے اوپر بھی اور نور میرے نیچے بھی، نور میرے کانوں میں بھی نور میری آنکھوں میں بھی، نور میرے بالوں میں بھی نور میری کھال میں بھی نور، میرے گوشت میں بھی، نور میرے خون میں بھی اور نور میں اضافہ فرما دے، میرے لیے نور بنا دے، پاک ہے وہ ذات جس نے عزت کو اپنا اوڑھنا بنایا، اور عزت ہی کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا، پاک ہے وہ ذات جس نے مجد و شرف کو اپنا لباس بنایا اور جس کے سبب سے وہ مکرم و مشرف ہوا، پاک ہے وہ ذات جس کے سوا کسی اور کے لیے تسبیح سزاوار نہیں، پاک ہے فضل اور نعمتوں والا، پاک ہے مجد و کرم والا، پاک ہے عظمت و بزرگی والا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٩٢) (ضعیف الإسناد) (سند میں داود بن علی لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1194) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3419
حدیث نمبر: 3419 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْلَةً حِينَ فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ تَهْدِي بِهَا قَلْبِي وَتَجْمَعُ بِهَا أَمْرِي وَتَلُمُّ بِهَا شَعَثِي وَتُصْلِحُ بِهَا غَائِبِي وَتَرْفَعُ بِهَا شَاهِدِي وَتُزَكِّي بِهَا عَمَلِي وَتُلْهِمُنِي بِهَا رُشْدِي وَتَرُدُّ بِهَا أُلْفَتِي وَتَعْصِمُنِي بِهَا مِنْ كُلِّ سُوءٍ، اللَّهُمَّ أَعْطِنِي إِيمَانًا وَيَقِينًا لَيْسَ بَعْدَهُ كُفْرٌ، وَرَحْمَةً أَنَالُ بِهَا شَرَفَ كَرَامَتِكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْفَوْزَ فِي الْعَطَاءِ وَيُرْوَى فِي الْقَضَاءِ، وَنُزُلَ الشُّهَدَاءِ، وَعَيْشَ السُّعَدَاءِ، وَالنَّصْرَ عَلَى الْأَعْدَاءِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أُنْزِلُ بِكَ حَاجَتِي وَإِنْ قَصُرَ رَأْيِي وَضَعُفَ عَمَلِي افْتَقَرْتُ إِلَى رَحْمَتِكَ، فَأَسْأَلُكَ يَا قَاضِيَ الْأُمُورِ وَيَا شَافِيَ الصُّدُورِ كَمَا تُجِيرُ بَيْنَ الْبُحُورِ أَنْ تُجِيرَنِي مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ وَمِنْ دَعْوَةِ الثُّبُورِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْقُبُورِ، اللَّهُمَّ مَا قَصَّرَ عَنْهُ رَأْيِي وَلَمْ تَبْلُغْهُ نِيَّتِي وَلَمْ تَبْلُغْهُ مَسْأَلَتِي مِنْ خَيْرٍ وَعَدْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ خَيْرٍ أَنْتَ مُعْطِيهِ أَحَدًا مِنْ عِبَادِكَ، فَإِنِّي أَرْغَبُ إِلَيْكَ فِيهِ وَأَسْأَلُكَهُ بِرَحْمَتِكَ رَبَّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ ذَا الْحَبْلِ الشَّدِيدِ، وَالْأَمْرِ الرَّشِيدِ أَسْأَلُكَ الْأَمْنَ يَوْمَ الْوَعِيدِ، وَالْجَنَّةَ يَوْمَ الْخُلُودِ مَعَ الْمُقَرَّبِينَ الشُّهُودِ، الرُّكَّعِ السُّجُودِ، الْمُوفِينَ بِالْعُهُودِ، إِنَّكَ رَحِيمٌ وَدُودٌ وَأَنْتَ تَفْعَلُ مَا تُرِيدُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا هَادِينَ مُهْتَدِينَ غَيْرَ ضَالِّينَ وَلَا مُضِلِّينَ، سِلْمًا لِأَوْلِيَائِكَ وَعَدُوًّا لِأَعْدَائِكَ، نُحِبُّ بِحُبِّكَ مَنْ أَحَبَّكَ وَنُعَادِي بِعَدَاوَتِكَ مَنْ خَالَفَكَ، اللَّهُمَّ هَذَا الدُّعَاءُ وَعَلَيْكَ الْاسْتِجَابَةُ، وَهَذَا الْجُهْدُ وَعَلَيْكَ التُّكْلَانُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي نُورًا فِي قَبْرِي وَنُورًا فِي قَلْبِي وَنُورًا مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَنُورًا مِنْ خَلْفِي وَنُورًا عَنْ يَمِينِي وَنُورًا عَنْ شِمَالِي وَنُورًا مِنْ فَوْقِي وَنُورًا مِنْ تَحْتِي وَنُورًا فِي سَمْعِي وَنُورًا فِي بَصَرِي وَنُورًا فِي شَعْرِي وَنُورًا فِي بَشَرِي وَنُورًا فِي لَحْمِي وَنُورًا فِي دَمِي وَنُورًا فِي عِظَامِي، اللَّهُمَّ أَعْظِمْ لِي نُورًا وَأَعْطِنِي نُورًا وَاجْعَلْ لِي نُورًا، سُبْحَانَ الَّذِي تَعَطَّفَ الْعِزَّ وَقَالَ بِهِ، سُبْحَانَ الَّذِي لَبِسَ الْمَجْدَ وَتَكَرَّمَ بِهِ، سُبْحَانَ الَّذِي لَا يَنْبَغِي التَّسْبِيحُ إِلَّا لَهُ، سُبْحَانَ ذِي الْفَضْلِ وَالنِّعَمِ، سُبْحَانَ ذِي الْمَجْدِ وَالْكَرَمِ، سُبْحَانَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرْهُ بِطُولِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২০
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تہجد کی نماز شروع کرتے واقت کی دعا کے متعلق
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا : رات میں جب نبی اکرم ﷺ تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنی نماز کے شروع میں کیا پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : جب رات کو کھڑے ہوتے، نماز شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھتے : «اللهم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحکم بين عبادک فيما کانوا فيه يختلفون اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك إنک تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم» اے اللہ ! جبرائیل، میکائیل و اسرافیل کے رب ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، چھپے اور کھلے کے جاننے والے، اپنے بندوں کے درمیان ان کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والا ہے، اے اللہ ! جس چیز میں بھی اختلاف ہوا ہے اس میں حق کو اپنانے، حق کو قبول کرنے کی اپنے اذن و حکم سے مجھے ہدایت فرما، (توفیق دے) کیونکہ تو ہی جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٦٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٢ (١٦٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٠ (١٣٥٧) (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1357) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3420
حدیث نمبر: 3420 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ ؟ قَالَتْ: كَانَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَهُ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২১
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو پڑھتے : «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا من المسلمين اللهم أنت الملک لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدک ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها إنه لا يصرف عني سيئها إلا أنت آمنت بک تبارکت وتعاليت أستغفرک وأتوب إليك» ، پھر جب آپ رکوع کرتے تو پڑھتے : «اللهم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت خشع لک سمعي وبصري ومخي وعظامي وعصبي» پھر آپ جب سر اٹھاتے تو کہتے : «اللهم ربنا لک الحمد ملء السموات والأرضين وملء ما بينهما وملء ما شئت من شيء بعد» ، پھر جب آپ سجدہ فرماتے تو کہتے : «اللهم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت سجد وجهي للذي خلقه فصوره وشق سمعه وبصره فتبارک اللہ أحسن الخالقين» پھر آپ سب سے آخر میں تشہد اور سلام کے درمیان جو دعا پڑھتے تھے، وہ دعا یہ تھی : «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٨) ، دالصلاة ١٢١ (٧٦٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٧ (٨٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥ (٨٦٤) (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، و مسند احمد (١/٩٤، ٩٥، ١٠٢) ، وسنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٤) ، وانظر حدیث رقم ٣٤٢٣ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة، صحيح أبي داود (738) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3421
حدیث نمبر: 3421 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا إِنَّهُ لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، آمَنْتُ بِكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ ، فَإِذَا رَكَعَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ، قَالَ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرَضِينَ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ ، فَإِذَا سَجَدَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِيَ لِلَّذِي خَلَقَهُ فَصَوَّرَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ، ثُمَّ يَكُونُ آخِرَ مَا يَقُولُ بَيْنَ التَّشَهُّدِ وَالسَّلَامِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২২
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو (تکبیر تحریمہ کے بعد) کہتے : «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا من المسلمين اللهم أنت الملک لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدک ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا أنت لبيك وسعديك والخير كله في يديك والشر ليس إليك أنا بک وإليك تبارکت وتعاليت أستغفرک وأتوب إليك» ، پھر جب آپ رکوع کرتے تو پڑھتے : «اللهم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت خشع لک سمعي وبصري وعظامي وعصبي»، پھر جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو آپ کہتے : «اللهم ربنا لک الحمد ملء السماء وملء الأرض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شيء» ، پھر جب سجدہ میں جاتے تو کہتے : «اللهم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت سجد وجهي للذي خلقه فصوره وشق سمعه وبصره فتبارک اللہ أحسن الخالقين» ، پھر آپ سب سے آخر میں تشہد اور سلام کے درمیان پڑھتے : «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة، صحيح أبي داود (738) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3422
حدیث نمبر: 3422 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، وَيُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ: حَدَّثَنِي عَمِّي، وَقَالَ يُوسُفُ أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي الْأَعْرَجُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ ، فَإِذَا رَكَعَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَعِظَامِي وَعَصَبِي ، فَإِذَا رَفَعَ، قَالَ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاءِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ ، فَإِذَا سَجَدَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ فَصَوَّرَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ، ثُمَّ يَقُولُ مِنْ آخِرِ مَا يَقُولُ بَيْنَ التَّشَهُّدِ وَالتَّسْلِيمِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২৩
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب فرض نماز پڑھنے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے برابر اٹھاتے (رفع یدین کرتے) ، اور ایسا اس وقت بھی کرتے تھے جب اپنی قرأت پوری کرلیتے تھے اور رکوع کا ارادہ کرتے تھے، اور ایسا ہی کرتے تھے جب رکوع سے سر اٹھاتے تھے ١ ؎، بیٹھے ہونے کی حالت میں اپنی نماز کے کسی حصے میں بھی رفع یدین نہ کرتے تھے، پھر جب دونوں سجدے کر کے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اسی طرح، پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے اور نماز شروع کرتے وقت تکبیر (تحریمہ) کے بعد پڑھتے : «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا من المسلمين اللهم أنت الملک لا إله إلا أنت سبحانک أنت ربي وأنا عبدک ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا أنت لبيك وسعديك أنا بک وإليك ولا منجا ولا ملجأ إلا إليك أستغفرک وأتوب إليك» (یہ دعا پڑھنے کے بعد) پھر قرأت کرتے، رکوع میں جاتے، رکوع میں آپ یہ دعا پڑھتے : «اللهم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت وأنت ربي خشع سمعي وبصري ومخي وعظمي لله رب العالمين» پھر جب آپ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو کہتے : «سمع اللہ لمن حمده» ، «سمع اللہ لمن حمده» کہنے کے فوراً بعد آپ پڑھتے : «اللهم ربنا ولک الحمد ملء السموات والأرض وملء ما شئت من شيء» اس کے بعد جب سجدہ کرتے تو سجدوں میں پڑھتے :«اللهم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت وأنت ربي سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره تبارک اللہ أحسن الخالقين»۔ اور جب نماز سے سلام پھیرنے چلتے تو (سلام پھیرنے سے پہلے) پڑھتے : «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اسی پر عمل ہے امام شافعی اور ہمارے بعض اصحاب کا، ٣- امام احمد بن حنبل ایسا خیال نہیں رکھتے، ٤- اہل کوفہ اور ان کے علاوہ کے بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ انہیں نفلی نمازوں میں پڑھتے تھے نہ کہ فرض نمازوں میں ٢ ؎ ٣- میں نے ابواسماعیل ترمذی محمد بن اسماعیل بن یوسف کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے سلیمان بن داود ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا، انہوں نے ذکر کیا اسی حدیث کا پھر کہا : یہ حدیث میرے نزدیک ایسے ہی مستند اور قوی ہے، جیسے زہری کی وہ حدیث قوی و مستند ہوتی ہے جسے وہ سالم بن عبداللہ سے اور سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١١٨ (٧٤٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٧ (٨٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥ (٨٦٤) (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٤) ، وانظر ماقبلہ (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان تینوں حالتوں و صورتوں میں رفع یدین کرتے تھے۔ ٢ ؎ : فرض نماز خصوصا باجماعت نماز میں امام کو تخفیف کی ہدایت کی گئی ہے ، تو اس میں اتنی لمبی لمبی دعائیں آپ خود کیسے پڑھ سکتے تھے ، یہ انفرادی نمازو (رض) کے لیے ہے خواہ فرض ہو یا نفل۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (729) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3423
حدیث نمبر: 3423 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ: كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَيَصْنَعُ ذَلِكَ أَيْضًا إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَيَصْنَعُهَا إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَإِذَا قَامَ مِنْ سَجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ كَذَلِكَ فَكَبَّرَ، وَيَقُولُ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بَعْدَ التَّكْبِيرِ: وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، سُبْحَانَكَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، وَلَا مَنْجَا وَلَا مَلْجَأَ إِلَّا إِلَيْكَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ ، ثُمَّ يَقْرَأُ، فَإِذَا رَكَعَ كَانَ كَلَامُهُ فِي رُكُوعِهِ أَنْ يَقُولَ: اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، وَأَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعَظْمِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يُتْبِعُهَا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ ، فَإِذَا سَجَدَ قَالَ فِي سُجُودِهِ: اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، وَأَنْتَ رَبِّي سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ، وَيَقُولُ عِنْدَ انْصِرَافِهِ مِنَ الصَّلَاةِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَهِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ الشَّافِعِيِّ وَبَعْضُ أَصْحَابِنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَحْمَدُ لَا يَرَاهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ يَقُولُ: هَذَا فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ وَلَا يَقُولُهُ فِي الْمَكْتُوبَةِ، سَمِعْت أَبَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي التِّرْمِذِيَّ، مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل بْنِ يُوسُفَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ الْهَاشِمِيَّ، يَقُولُ: وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هَذَا عِنْدَنَا مِثْلُ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২৪
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس متعلق کہ سجود قرأت میں کیا پڑھے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سویا ہوا تھا، رات میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا تو ان میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں، میں نے سجدہ کیا تو درخت نے بھی میرے سجدے کی متابعت کرتے ہوئے سجدہ کیا، میں نے سنا وہ پڑھ رہا تھا : «اللهم اکتب لي بها عندک أجرا وضع عني بها وزرا واجعلها لي عندک ذخرا وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدک داود» اے اللہ ! تو اس کے بدلے میرے لیے اپنے پاس اجر و ثواب لکھ لے، اور اس کے عوض مجھ پر سے (گناہوں کا) بوجھ اتار دے اور اسے اپنے پاس (میرے لیے آخرت کا) ذخیرہ بنا دے، اور اسے میرے لیے ایسے ہی قبول کرلے جس طرح تو نے اپنے بندے داود (علیہ السلام) کے لیے قبول کیا تھا ۔ ابن جریج کہتے ہیں : مجھ سے تمہارے (یعنی حسن بن عبیداللہ کے) دادا (عبیداللہ) نے کہا کہ ابن عباس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (اس موقع پر) سجدہ کی ایک آیت پڑھی، پھر سجدہ کیا، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : میں نے آپ کو (سجدہ میں) پڑھتے ہوئے سنا آپ وہی دعا پڑھ رہے تھے، جو (خواب والے) آدمی نے آپ کو درخت کی دعا سنائی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے کسی اور سے نہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٥٧٩ (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کی طرف سے احکام و مسائل بتانے کے مختلف طریقے اختیار کیے گئے تھے ، ان میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ اللہ کسی صحابی کو خواب دکھاتا ، اس میں فرشتہ کوئی مسئلہ بتاتا اور وہ صحابی بیدار ہو کر اللہ کے رسول ﷺ سے ذکر کرتا ، آپ اس کی تقریر ( تصدیق ) کردیتے ، جیسے اذان میں ہوا تھا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1053) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3424
حدیث نمبر: 3424 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، قَالَ: قَالَ لِيابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُنِي اللَّيْلَةَ وَأَنَا نَائِمٌ كَأَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي خَلْفَ شَجَرَةٍ، فَسَجَدْتُ فَسَجَدَتِ الشَّجَرَةُ لِسُجُودِي وَسَمِعْتُهَا وَهِيَ تَقُولُ: اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ لِي جَدُّكَ،: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجْدَةً ثُمَّ سَجَدَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَسَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ مِثْلَ مَا أَخْبَرَهُ الرَّجُلُ عَنْ قَوْلِ الشَّجَرَةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২৫
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس متعلق کہ سجود قرأت میں کیا پڑھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کے وقت سجدہ تلاوت میں پڑھتے تھے : «سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته» میرا چہرہ اس کے آگے سجدہ ریز ہوا جس نے اسے اپنی قدرت و قوت سے پیدا کیا، جس نے اسے سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٥٨٠ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1035) ، صحيح أبي داود (1274) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3425
حدیث نمبر: 3425 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ: سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২৬
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس متعلق کہ گھر سے نکلتے وقت کیا کہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص گھر سے نکلتے وقت : «بسم اللہ توکلت علی اللہ لا حول ولا قوة إلا بالله» میں نے اللہ کے نام سے شروع کیا، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور گناہوں سے بچنے اور کسی نیکی کے بجا لانے کی قدرت و قوت نہیں ہے سوائے سہارے اللہ کے کہے، اس سے کہا جائے گا : تمہاری کفایت کردی گئی، اور تم (دشمن کے شر سے) بچا لیے گئے، اور شیطان تم سے دور ہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٢ (٥٠٩٥) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٣٧ (٨٩) (تحفة الأشراف : ١٨٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2443 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (2 / 264) ، الکلم الطيب (58 / 49) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3426
حدیث نمبر: 3426 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ يَعْنِي إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ: بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، يُقَالُ لَهُ كُفِيتَ وَوُقِيتَ وَتَنَحَّى عَنْهُ الشَّيْطَانُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২৭
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسی بارے میں
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : «بسم اللہ توکلت علی اللہ اللهم إنا نعوذ بک من أن نزل أو نضل أو نظلم أو نظلم أو نجهل أو يجهل علينا» ١ ؎ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، بھروسہ کرتا ہوں اللہ پر، اے اللہ تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ حق و صواب سے کہیں پھر نہ جاؤں، یا راہ حق سے بھٹکا نہ دیا جاؤں، یا میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے، یا میں کسی کے ساتھ جاہلانہ برتاؤ کروں یا کوئی میرے ساتھ جاہلانہ انداز سے پیش آئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٢ (٥٠٩٤) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٣٠ (٥٤٨٨) ، ٦٥ (٥٥٤١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٨ (٣٨٨٤) (تحفة الأشراف : ١٨١٦٨) ، و مسند احمد (٦/٣٠٦، ٣١٨، ٣٢٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3884) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3427
حدیث نمبر: 3427 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২৮
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بازار میں داخل ہوتے وقت پڑھنے کی دعا
عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھی : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو علی كل شيء قدير» نہیں کوئی معبود برحق ہے مگر اللہ اکیلا، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے ملک (بادشاہت) ہے اور اسی کے لیے حمد و ثناء ہے وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے، وہ زندہ ہے کبھی مرے گا نہیں، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرماتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- عمرو بن دینار زبیر (رض) کے گھر والوں کے آمد و خرچ کے منتظم تھے، انہوں نے یہ حدیث سالم بن عبداللہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٠ (٢٢٣٥) (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٨) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2235) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3428
حدیث نمبر: 3428 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ فَلَقِيَنِي أَخِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَحَدَّثَنِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ دَخَلَ السُّوقَ، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَرَفَعَ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَةٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَهُوَ قَهْرَمَانُ آلِ الزُّبَيْرِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِهَذَا الْحَدِيثَ نَحْوَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪২৯
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بازار میں داخل ہوتے وقت پڑھنے کی دعا
عمرو بن دینار زبیر (رض) کے گھر کے منتظم کار، سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے، اور وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بازار جاتے ہوئے یہ دعا پڑھے : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو علی كل شيء قدير» ١ ؎ تو اللہ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھ دے گا اور دس لاکھ اس کے گناہ مٹا دے گا اور جنت میں اس کے لیے ایک گھر بنائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ عمرو بن دینار بصریٰ شیخ ہیں، اور بعض اصحاب حدیث نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے ٢- یحییٰ بن سلیم طائفی نے یہ حدیث عمران بن مسلم سے، عمران نے عبداللہ بن دینار سے، اور عبداللہ بن دینار نے ابن عمر (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اور اس میں انہوں نے عمر (رض) سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما قبله (3428) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3429
حدیث نمبر: 3429 حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَالْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَهُوَ قَهْرَمَانُ آلِ الزُّبَيْرِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَالَ فِي السُّوقِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَبَنَى لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ هَذَا هُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، وَقَدْ رَوَى عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرً أَحَادِيثَ لا يُتَابَعُ عَلَيْهَا، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. وَرَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
তাহকীক: