আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
دعاؤں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২৩৫ টি
হাদীস নং: ৩৫৯০
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی کوئی بندہ خلوص دل سے «لا إله إلا الله» کہے گا اور کبائر سے بچتا رہے گا تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، اور یہ کلمہ «لا إله إلا الله» عرش تک جا پہنچے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٤٢ (٨٣٣) (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (2314 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (2 / 238) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3590
حدیث نمبر: 3590 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ الصُّدَائِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا قَالَ عَبْدٌ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَطُّ مُخْلِصًا إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ حَتَّى تُفْضِيَ إِلَى الْعَرْشِ مَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯১
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
زیاد بن علاقہ کے چچا قطبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے : «اللهم إني أعوذ بک من منکرات الأخلاق والأعمال والأهواء» اے اللہ ! میں تجھ سے بری عادتوں، برے کاموں اور بری خواہشوں سے پناہ مانگتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے ٢- اور زیاد بن علاقہ کے چچا کا نام قطبہ بن مالک ہے اور یہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٠٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2471 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3591
حدیث نمبر: 3591 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ، وَالْأَعْمَالِ، وَالْأَهْوَاءِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَعَمُّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ هُوَ قُطْبَةُ بْنُ مَالِكٍ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯২
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ١ ؎، اسی دوران ایک شخص نے کہا : «الله أكبر کبيرا والحمد لله كثيرا و سبحان اللہ بكرة وأصيلا» اللہ بہت بڑائی والا ہے، اور ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور پاکی ہے اللہ تعالیٰ کے لیے صبح و شام ، رسول اللہ ﷺ نے (سنا تو) پوچھا : ایسا ایسا کس نے کہا ہے ؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا : میں نے کہا ہے، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : میں اس کلمے کو سن کر حیرت میں پڑگیا، اس کلمے کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے ۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے میں نے ان کا پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- حجاج بن ابی عثمان یہ حجاج بن میسرہ صواف ہیں، ان کی کنیت ابوصلت ہے اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ فائدہ ١ ؎: نماز پڑھ رہے تھے سے مراد : ہم لوگ نماز شروع کرچکے تھے، اتنے میں وہ آدمی آیا اور دعا ثناء کی جگہ اس نے یہی کلمات کہے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے اس کی تقریر (تصدیق) کردی، تو گویا ثناء کی دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ دعا بھی ایک ثناء ہے، امام نسائی دعا ثناء کے باب ہی میں اس حدیث کو لاتے ہیں، اس لیے بعض علماء کا یہ کہنا کہ «سبحانک اللہم …» کے سواء ثنا کی بابت منقول ساری دعائیں سنن و نوافل سے تعلق رکھتی ہیں، صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٧ (٦٠١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨ (٨٨٦) (تحفة الأشراف : ٧٣٦٩) ، و مسند احمد (٢/١٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة (74) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3592
حدیث نمبر: 3592 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ الْقَائِلُ كَذَا وَكَذَا ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: عَجِبْتُ لَهَا فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ . قَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ هُوَ حَجَّاجُ بْنُ مَيْسَرَةَ الصَّوَّافُ، وَيُكْنَى: أَبَا الصَّلْتِ، وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯৩
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی عیادت کی (یہاں راوی کو شبہ ہوگیا) یا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی عیادت کی، تو انہوں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول ! کون سا کلام اللہ کو زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ کلام جو اللہ نے اپنے فرشتوں کے لیے منتخب فرمایا ہے (اور وہ یہ ہے) «سبحان ربي وبحمده سبحان ربي وبحمده» میرا رب پاک ہے اور تعریف ہے اسی کے لیے، میرا رب پاک ہے اور ہر طرح کی حمد اسی کے لیے زیبا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٢ (٢٧٣١) (تحفة الأشراف : ١١٩٤٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 242) ، الصحيحة (1498) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3593
حدیث نمبر: 3593 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيِّ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَهُ أَوْ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ عَادَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْكَلَامِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ؟ قَالَ: مَا اصْطَفَى اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯৪
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا لوٹائی نہیں جاتی ، (یعنی قبول ہوجاتی ہے) لوگوں نے پوچھا : اس دوران ہم کون سی دعا مانگیں، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : دنیا اور آخرت (دونوں) میں عافیت مانگو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، یحییٰ بن ابان نے اس حدیث میں اس عبارت کا اضافہ کیا ہے کہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا : دنیا و آخرت میں عافیت (یعنی امن و سکون) مانگو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٢ (منکر) حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، لیکن اس کے بعد کا قصہ ” منکر “ ہے اس لیے کہ سند میں یحییٰ بن الیمان اور زید العمی دونوں ضعیف راوی ہیں، اور قصے کا شاہد موجود نہیں ہے، تراجع الالبانی ١٤٠) قال الشيخ الألباني : منکر بهذا التمام، لکن قوله : صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3594
حدیث نمبر: 3594 حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ ، قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَقَدْ زَادَ يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ هَذَا الْحَرْفَ قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ ؟ قَالَ: سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯৫
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ، (یعنی ضرور قبول ہوتی ہے۔ ) امام ترمذی کہتے ہیں : ابواسحاق ہمدانی نے برید بن ابی مریم کوفی سے اور برید کوفی نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے ایسے ہی روایت کی ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٢ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی (212) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3595
حدیث نمبر: 3595 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَبُو أَحْمَدَ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْمُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ الْكُوفِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا وَهَذَا أَصَحُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯৬
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہلکے پھلکے لوگ آگے نکل گئے ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! یہ ہلکے پھلکے لوگ کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی یاد و ذکر میں ڈوبے رہنے والے لوگ، ذکر ان کا بوجھ ان کے اوپر سے اتار کر رکھ دے گا اور قیامت کے دن ہلکے پھلکے آئیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٤١١) (ضعیف) (سند میں ” عمر بن راشد “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3690) // ضعيف الجامع الصغير (3240) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3596
حدیث نمبر: 3596 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَبَقَ الْمُفْرِدُونَ ، قَالُوا: وَمَا الْمُفْرِدُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: الْمُسْتَهْتَرُونَ فِي ذِكْرِ اللَّهِ، يَضَعُ الذِّكْرُ عَنْهُمْ أَثْقَالَهُمْ فَيَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِفَافًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯৭
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ساری کائنات سے کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں : «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر» اللہ پاک ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، کہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩٥) (تحفة الأشراف : ١٢٥١١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3597
حدیث نمبر: 3597 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَأَنْ أَقُولَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯৮
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی : ایک روزہ دار، جب تک کہ روزہ نہ کھول لے، (دوسرے) امام عادل، (تیسرے) مظلوم، اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور رب کہتا ہے : میری عزت (قدرت) کی قسم ! میں تیری مدد کروں گا، بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- سعدان قمی یہ سعدان بن بشر ہیں، ان سے عیسیٰ بن یونس، ابوعاصم اور کئی بڑے محدثین نے روایت کی ہے ٣- اور ابومجاہد سے مراد سعد طائی ہیں ٤- اور ابومدلہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں ہم انہیں صرف اسی حدیث کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہی حدیث ان سے اس حدیث سے زیادہ مکمل اور لمبی روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٨ (١٧٥٢) (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٧) ، و مسند احمد (٢/٣٠ ¤ ٤- ٣٠٥، ٤٤٥، ٤٧٧) (ضعیف) (” الإمام العادل “ کے لفظ سے ضعیف ہے، اور ” المسافر “ کے لفظ سے صحیح ہے، سند میں ابو مدلہ مولی عائشہ “ مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث ابوہریرہ ہی کی صحیح حدیث جس میں ” المسافر “ کا لفظ ہے کے خلاف ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم ١٣٥٨، والصحیحة رقم : ٥٩٦) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لكن، الصحيحة منه الشطر الأول بلفظ : .... المسافر مکان الإمام العادل ، وفي رواية الوالد ، ابن ماجة (1752) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3598
حدیث نمبر: 3598 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ سَعْدَانَ الْقُبِّيِّ، عَنْ أَبِي مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ: الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ فَوْقَ الْغَمَامِ، وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَسَعْدَانُ الْقبِّيُّ هُوَ سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَأَبُو عَاصِمٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَأَبُو مُجَاهِدٍ هُوَ سَعْدٌ الطَّائِيُّ، وَأَبُو مُدِلَّةَ هُوَ مَوْلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثُ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৯৯
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : «اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وزدني علما الحمد لله علی كل حال وأعوذ بالله من حال أهل النار» اے اللہ ! مجھے اس علم سے نفع دے جو تو نے مجھے سکھایا ہے اور مجھے وہ علم سکھا جو مجھے فائدہ دے اور میرا علم زیادہ کر، ہر حال میں اللہ ہی کے لیے تعریف ہے اور میں جہنمیوں کے حال سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٣ (٢٥١) ، والدعاء (٣٨٣٣) (تحفة الأشراف : ١٤٣٥٦) (صحیح) ” الحمد للہ۔۔۔ الخ) کا لفظ صحیح نہیں ہے، سند میں محمد بن ثابت مجہول راوی ہے، مگر پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی ٤٦٢) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله : والحمد لله ... ، ابن ماجة (251 و 3833 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3599
حدیث نمبر: 3599 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا، الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬০০
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) یا ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کے نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ بھی کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، جب وہ کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں : آؤ آؤ یہاں ہے تمہارے مطلب و مقصد کی بات، تو وہ لوگ آ جاتے ہیں، اور انہیں قریبی آسمان تک گھیر لیتے ہیں، اللہ ان سے پوچھتا ہے : میرے بندوں کو کیا کام کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہو ؟ وہ کہتے ہیں : ہم انہیں تیری تعریف کرتے ہوئے تیری بزرگی بیان کرتے ہوئے اور تیرا ذکر کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں، وہ کہتا ہے : کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے (یا بن دیکھے ہوئے ہی میری عبادت و ذکر کئے جا رہے ہیں) وہ جواب دیتے ہیں : نہیں، اللہ کہتا ہے : اگر وہ لوگ مجھے دیکھ لیں تو کیا صورت و کیفیت ہوگی ؟ وہ جواب دیتے ہیں، وہ لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو وہ لوگ اور بھی تیری تعریف کرنے لگیں، تیری بزرگی بیان کریں گے اور تیرا ذکر بڑھا دیں گے، وہ پوچھتا ہے : وہ لوگ کیا چاہتے اور مانگتے ہیں ؟ فرشتے کہتے ہیں : وہ لوگ جنت مانگتے ہیں، اللہ پوچھتا ہے کیا ان لوگوں نے جنت دیکھی ہے ؟ وہ جواب دیتے ہیں : نہیں، وہ پوچھتا ہے : اگر یہ دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہوگی ؟ وہ کہتے ہیں : ان کی طلب اور ان کی حرص اور بھی زیادہ بڑھ جائے گی، وہ پھر پوچھتا ہے : وہ لوگ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : جہنم سے، وہ پوچھتا ہے : کیا ان لوگوں نے جہنم دیکھ رکھی ہے ؟ وہ کہتے ہیں : نہیں، وہ پوچھتا ہے : اگر یہ لوگ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہوگی ؟ وہ کہتے ہیں : اگر یہ جہنم دیکھ لیں تو اس سے بہت زیادہ دور بھاگیں گے، زیادہ خوف کھائیں گے اور بہت زیادہ اس سے پناہ مانگیں گے، پھر اللہ کہے گا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کی مغفرت کردی ہے ، وہ کہتے ہیں : ان میں فلاں خطاکار شخص بھی ہے، ان کے پاس مجلس میں بیٹھنے نہیں بلکہ کسی ضرورت سے آیا تھا، (اور بیٹھ گیا تھا) اللہ فرماتا ہے، یہ ایسے (معزز و مکرم) لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشیں بھی محروم نہیں رہ سکتا (ہم نے اسے بھی بخش دیا) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٠١٥، و ١٢٥٤٠) ، و مسند احمد (٢/٢٥١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3600
حدیث نمبر: 3600 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ فُضُلًا عَنْ كُتَّابِ النَّاسِ، فَإِذَا وَجَدُوا أَقْوَامًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى بُغْيَتِكُمْ، فَيَجِيئُونَ فَيَحُفُّونَ بِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ اللَّهُ: عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تَرَكْتُمْ عِبَادِي يَصْنَعُونَ ؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ يَحْمَدُونَكَ، وَيُمَجِّدُونَكَ، وَيَذْكُرُونَكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: فَهَلْ رَأَوْنِي ؟ فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي ؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ لَكَانُوا أَشَدَّ تَحْمِيدًا، وَأَشَدَّ تَمْجِيدًا، وَأَشَدَّ لَكَ ذِكْرًا، قَالَ: فَيَقُولُ: وَأَيُّ شَيْءٍ يَطْلُبُونَ ؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: يَطْلُبُونَ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا ؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا لَهَا أَشَدَّ طَلَبًا، وَأَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَتَعَوَّذُونَ ؟ قَالُوا: يَتَعَوَّذُونَ مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْهَا ؟ فَيَقُولُونَ: لَا، فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا ؟ فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا مِنْهَا أَشَدَّ هَرَبًا، وَأَشَدَّ مِنْهَا خَوْفًا، وَأَشَدَّ مِنْهَا تَعَوُّذًا، قَالَ: فَيَقُولُ: فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، فَيَقُولُونَ: إِنَّ فِيهِمْ فُلَانًا الْخَطَّاءَ لَمْ يُرِدْهُمْ إِنَّمَا جَاءَهُمْ لِحَاجَةٍ، فَيَقُولُ: هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى لَهُمْ جَلِيسٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬০১
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «لا حول ولا قوة إلا بالله» کثرت سے پڑھا کرو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔ مکحول کہتے ہیں : جس نے کہا : «لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجا من اللہ إلا إليه» تو اللہ تعالیٰ اس سے ستر طرح کے ضرر و نقصان کو دور کردیتا ہے، جن میں کمتر درجے کا ضرر فقر (و محتاجی) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس کی سند متصل نہیں ہے، مکحول نے ابوہریرہ (رض) سے نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٦٢١) (صحیح) (سند میں مکحول اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لیے مکحول کا قول، سنداً ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، الصحیحة ١٠٥، ١٥٢٨) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قول مکحول فمن قال ... فإنه مقطوع، الصحيحة (105 و 1528) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3601
حدیث نمبر: 3601 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْغَازِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ قَالَ مَكْحُولٌ: فَمَنْ قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا مَنْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ كَشَفَ عَنْهُ سَبْعِينَ بَابًا مِنَ الضُّرِّ أَدْنَاهُنَّ الْفَقْرُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، مَكْحُولٌ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَة.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬০২
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کی ایک دعا مقبول ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ کر رکھی ہے، اس دعا کا فائدہ ان شاء اللہ امت کے ہر اس شخص کو حاصل ہوگا جس نے مرنے سے پہلے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٦ (١٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٧ (٤٣٠٧) (تحفة الأشراف : ١٢٥١٢) ، و مسند احمد (٢/٢٧٥، ٣١٣، ٣٨١، ٣٩٦، ٤٠٩، ٤٢٦، ٤٣٠، ٤٨٦، ٤٨٧) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٨٥ (٢٨٤٧، ٢٨٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہر اس شخص کو اللہ کے رسول ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی جس نے کسی قسم کا شرک نہیں کیا ہوگا مشرک خواہ غیر مسلموں کا ہو ، یا نام نہاد مسلمانوں کا شرک کے مرتکب کو یہ شفاعت نصیب نہیں ہوگی ، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مذہب وہی ہے جس کے قائل سلف صالحین ہیں ، یعنی موحد گناہوں کے سبب ہمیشہ ہمیش جہنم میں نہیں رہے گا ، گناہوں کی سزا بھگت کر آخری میں جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی ، الا یہ کہ توبہ کرچکا ہو تو شروع ہی میں جنت میں چلا جائے گا ، ان شاء اللہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3602
حدیث نمبر: 3602 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، وَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬০৩
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کہتا ہے : میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتا ہوں ١ ؎، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت (لوگوں) میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں (یعنی فرشتوں میں) اگر کوئی مجھ سے قریب ہونے کے لیے ایک بالشت آگے بڑھتا ہے تو اس سے قریب ہونے کے لیے میں ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہوں، اور اگر کوئی میری طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں، اگر کوئی میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس حدیث کی تفسیر میں اعمش سے مروی ہے کہ اللہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں ، اس سے مراد یہ ہے کہ میں اپنی رحمت و مغفرت کا معاملہ اس کے ساتھ کرتا ہوں، ٣- اور اسی طرح بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد جب بندہ میری اطاعت اور میرے مامورات پر عمل کر کے میری قربت حاصل کرنا چاہتا ہے تو میں اپنی رحمت و مغفرت لے کر اس کی طرف تیزی سے لپکتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ١٥ (٧٤٠٥) ، و ٣٥ (٧٥٠٥) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٦ (٢٦٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٨ (٣٨٢٢) (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٥) (وراجع ماتقدم عند المؤلف في الزہد (برقم ٢٣٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3822) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3603 سعید بن جبیر اس آیت : «فاذکروني أذكركم» کے بارے میں فرماتے ہیں : «اذکروني» سے مراد یہ ہے کہ میری اطاعت کے ساتھ مجھے یاد کرو میں تمہاری مغفرت میں تجھے یاد کروں گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : اگر مومن بندہ اپنے تئیں اللہ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا ، میرے اوپر رحمت کرے ، مجھے دین و دنیا میں بھلائی سے بہرہ ور کے گا ، تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس حسن ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے ، بعض شارحین کہتے ہیں : یہاں ظن گمان نہیں یقین کے معنی میں ہے ، یعنی : بندہ جیسا اللہ سے یقین رکھتا ہے اللہ ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3822) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3603
حدیث نمبر: 3603 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى عَنِ الْأَعْمَشِ فِي تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا يَعْنِي بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ، وَهَكَذَا فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالُوا: إِنَّمَا مَعْنَاهُ يَقُولُ: إِذَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ الْعَبْدُ بِطَاعَتِي وَمَا أَمَرْتُ أُسْرِعُ إِلَيْهِ بِمَغْفِرَتِي وَرَحْمَتِي.وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ سورة البقرة آية 152 قَالَ: اذْكُرُونِي بِطَاعَتِي أَذْكُرْكُمْ بِمَغْفِرَتِي. حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَعَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ الرَّمْلِيُّ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ بِهَذَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৬০৪
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «استعيذوا بالله من عذاب جهنم واستعيذوا بالله من عذاب القبر استعيذوا بالله من فتنة المسيح الدجال واستعيذوا بالله من فتنة المحيا والممات» اللہ سے پناہ مانگو جہنم کے عذاب سے، اللہ سے پناہ مانگو قبر کے عذاب سے، اللہ سے پناہ مانگو مسیح دجال کے فتنے سے اور اللہ سے پناہ مانگو زندگی اور موت کے فتنے سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٩٢ (٥٩٠) ، و مسند احمد (٢/٢٩٠) (تحفة الأشراف : ١٢٧٥٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد، صفة الصلاة (163) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3604
حدیث نمبر: 3604 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক: