আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
دعاؤں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২৩৫ টি
হাদীস নং: ৩৫৭০
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ اسی دوران علی (رض) آپ ﷺ کے پاس آئے اور آ کر عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ قرآن تو میرے سینے سے نکلتا جا رہا ہے، میں اسے محفوظ نہیں رکھ پا رہا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوالحسن ! کیا میں تمہیں ایسے کلمے نہ سکھا دوں کہ جن کے ذریعہ اللہ تمہیں بھی فائدہ دے اور انہیں بھی فائدہ پہنچے جنہیں تم یہ کلمے سکھاؤ؟ اور جو تم سیکھو وہ تمہارے سینے میں محفوظ رہے ، انہوں نے کہا : جی ہاں، اے اللہ کے رسول ! آپ ہمیں ضرور سکھائیے، آپ نے فرمایا : جب جمعہ کی رات ہو اور رات کے آخری تہائی حصے میں تم کھڑے ہوسکتے ہو تو اٹھ کر اس وقت عبادت کرو کیونکہ رات کے تیسرے پہر کا وقت ایسا وقت ہوتا ہے جس میں فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں، اور دعا اس وقت مقبول ہوتی ہے، میرے بھائی یعقوب (علیہ السلام) نے بھی اپنے بیٹوں سے کہا تھا : «سوف أستغفر لکم ربي» یعنی میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا، آنے والی جمعہ کی رات میں، اگر نہ اٹھ سکو تو درمیان پہر میں اٹھ جاؤ، اور اگر درمیانی حصے (پہر) میں نہ اٹھ سکو تو پہلے پہر ہی میں اٹھ جاؤ اور چار رکعت نماز پڑھو، پہلی رکعت میں سورة فاتحہ اور سورة یٰسین پڑھو، دوسری رکعت میں سورة فاتحہ اور حم دخان اور تیسری رکعت میں سورة فاتحہ اور الم تنزیل السجدہ اور چوتھی رکعت میں سورة فاتحہ اور تبارک (مفصل) پڑھو، پھر جب تشہد سے فارغ ہوجاؤ تو اللہ کی حمد بیان کرو اور اچھے ڈھنگ سے اللہ کی ثناء بیان کرو، اور مجھ پر صلاۃ (درود) بھیجو، اور اچھے ڈھنگ سے بھیجو اور سارے نبیوں صلاۃ پر (درود) بھیجو اور مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرو، اور ان مومن بھائیوں کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو، جو تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں، پھر یہ سب کر چکنے کے بعد یہ دعا پڑھو : «اللهم ارحمني بترک المعاصي أبدا ما أبقيتني وارحمني أن أتكلف ما لا يعنيني وارزقني حسن النظر فيما يرضيك عني اللهم بديع السموات والأرض ذا الجلال والإکرام والعزة التي لا ترام أسألك يا ألله يا رحمن بجلالک ونور وجهك أن تلزم قلبي حفظ کتابک کما علمتني وارزقني أن أتلوه علی النحو الذي يرضيك عني اللهم بديع السموات والأرض ذا الجلال والإکرام والعزة التي لا ترام أسألك يا ألله يا رحمن بجلالک ونور وجهك أن تنور بکتابک بصري وأن تطلق به لساني وأن تفرج به عن قلبي وأن تشرح به صدري وأن تغسل به بدني فإنه لا يعينني علی الحق غيرک ولا يؤتيه إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم» اے اللہ ! مجھ پر رحم فرما اس طرح کہ جب تک تو مجھے زندہ رکھ میں ہمیشہ گناہ چھوڑے رکھوں، اے اللہ ! تو مجھ پر رحم فرما اس طرح کہ میں لا یعنی چیزوں میں نہ پڑوں، جو چیزیں تیری رضا و خوشنودی کی ہیں انہیں پہچاننے کے لیے مجھے حسن نظر (اچھی نظر) دے، اے اللہ ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، ذوالجلال (رعب و داب والے) اکرام (عزت و بزرگی والے) ایسی عزت و مرتبت والے کہ جس عزت کو حاصل کرنے و پانے کا کوئی قصد و ارادہ ہی نہ کرسکے، اے اللہ ! اے بڑی رحمت والے میں تیرے جلال اور تیرے تابناک و منور چہرے کے وسیلہ سے تجھ سے مانگتا ہوں کہ تو میرے دل کو اپنی کتاب (قرآن پاک) کے حفظ کے ساتھ جوڑ دے، جیسے تو نے مجھے قرآن سکھایا ہے ویسے ہی میں اسے یاد و محفوظ رکھ سکوں، اور تو مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں اس کتاب کو اسی طریقے اور اسی ڈھنگ سے پڑھوں جو تجھے مجھ سے راضی و خوش کر دے، اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، (جاہ) و جلال اور بزرگی والے اور ایسی عزت والے جس عزت کا کوئی ارادہ (تمنا اور خواہش) ہی نہ کرسکے، اے اللہ ! اے رحمن تیرے جلال اور تیرے چہرے کے نور کے وسیلہ سے تجھ سے مانگتا ہوں کہ تو اپنی کتاب کے ذریعہ میری نگاہ کو منور کر دے (مجھے کتاب الٰہی کی معرفت حاصل ہوجائے، اور میری زبان بھی اسی کے مطابق چلے، اور اسی کے ذریعہ میرے دل کا غم دور کر دے، اور اس کے ذریعہ میرا سینہ کھول دے (میں ہر اچھی و بھلی بات کو سمجھنے لگوں) اور اس کے ذریعہ میرے بدن کو دھو دے (میں پاک و صاف رہنے لگوں) کیونکہ میرے حق پر چلنے کے لیے تیرے سوا کوئی اور میری مدد نہیں کرسکتا، اور نہ ہی کوئی تیرے سوا مجھے حق دے سکتا ہے اور اللہ جو برتر اور عظیم ہے اس کے سوا برائیوں سے پلٹنے اور نیکیوں کو انجام دینے کی توفیق کسی اور سے نہیں مل سکتی ۔ اے ابوالحسن ! ایسا ہی کرو، تین جمعہ، پانچ جمعہ یا سات جمعہ تک، اللہ کے حکم سے دعا قبول کرلی جائے گی، اور قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، اس کو پڑھ کر کوئی مومن کبھی محروم نہ رہے گا، عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! علی (رض) پانچ یا سات جمعہ ٹھہرے ہوں گے کہ وہ پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک ایسی ہی مجلس میں حاضر ہوئے اور آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس سے پہلے چار آیتیں یا ان جیسی دو ایک آیتیں کم و بیش یاد کر پاتا تھا، اور جب انہیں دل میں آپ ہی آپ دہراتا تھا تو وہ بھول جاتی تھیں، اور اب یہ حال ہے کہ میں چالیس آیتیں سیکھتا ہوں یا چالیس سے دو چار کم و بیش، پھر جب میں انہیں اپنے آپ دہراتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے تو ان کتاب اللہ میری آنکھوں کے سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے (اور میں روانی سے پڑھتا چلا جاتا ہوں) اور ایسے ہی میں اس سے پہلے حدیث سنا کرتا تھا، پھر جب میں اسے دہراتا تو وہ دماغ سے نکل جاتی تھی، لیکن آج میرا حال یہ ہے کہ میں حدیثیں سنتا ہوں پھر جب میں انہیں بیان کرتا ہوں تو ان میں سے ایک حرف بھی کم نہیں کرتا، رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا : قسم ہے رب کعبہ کی ! اے ابوالحسن تم مومن ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ولید بن مسلم کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٩٢٧، و ٦١٥٢) (موضوع) (سند میں ” ولید بن مسلم “ تدلیس تسویہ کرتے تھے، اور یہ روایت ان کی ان روایتوں میں سے ہے جن کو کسی کذاب اور واضاع سے لے کر ” عنعنہ “ کے ذریعہ تدلیس تسویہ کردیا، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم ٣٣٧٤) قال الشيخ الألباني : موضوع، التعليق الرغيب (2 / 214) ، الضعيفة (3374) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3570
حدیث نمبر: 3570 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَعِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي تَفَلَّتَ هَذَا الْقُرْآنُ مِنْ صَدْرِي فَمَا أَجِدُنِي أَقْدِرُ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا الْحَسَنِ أَفَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهِنَّ وَيَنْفَعُ بِهِنَّ مَنْ عَلَّمْتَهُ وَيُثَبِّتُ مَا تَعَلَّمْتَ فِي صَدْرِكَ ؟ ، قَالَ: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَعَلِّمْنِي، قَالَ: إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَقُومَ فِي ثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ، فَإِنَّهَا سَاعَةٌ مَشْهُودَةٌ وَالدُّعَاءُ فِيهَا مُسْتَجَابٌ، وَقَدْ قَالَ أَخِي يَعْقُوبُ لِبَنِيهِ: سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي يَقُولُ: حَتَّى تَأْتِيَ لَيْلَةُ الْجُمْعَةِ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ، فَقُمْ فِي وَسَطِهَا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ، فَقُمْ فِي أَوَّلِهَا فَصَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، تَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَةِ يس، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وحم الدُّخَانِ، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ، وَفِي الرَّكْعَةِ الرَّابِعَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَ تَبَارَكَ الْمُفَصَّلَ، فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ التَّشَهُّدِ، فَاحْمَدِ اللَّهَ، وَأَحْسِنِ الثَّنَاءَ عَلَى اللَّهِ، وَصَلِّ عَلَيَّ، وَأَحْسِنْ، وَعَلَى سَائِرِ النَّبِيِّينَ، وَاسْتَغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ، وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَلِإِخْوَانِكَ الَّذِينَ سَبَقُوكَ بِالْإِيمَانِ، ثُمَّ قُلْ فِي آخِرِ ذَلِكَ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي بِتَرْكِ الْمَعَاصِي أَبَدًا مَا أَبْقَيْتَنِي، وَارْحَمْنِي أَنْ أَتَكَلَّفَ مَا لَا يَعْنِينِي، وَارْزُقْنِي حُسْنَ النَّظَرِ فِيمَا يُرْضِيكَ عَنِّي، اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ، أَسْأَلُكَ يَا أَللَّهُ يَا رَحْمَنُ بِجَلَالِكَ، وَنُورِ وَجْهِكَ أَنْ تُلْزِمَ قَلْبِي حِفْظَ كِتَابِكَ كَمَا عَلَّمْتَنِي، وَارْزُقْنِي أَنْ أَتْلُوَهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي يُرْضِيكَ عَنِّيَ، اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ، أَسْأَلُكَ يَا أَللَّهُ يَا رَحْمَنُ بِجَلَالِكَ وَنُورِ وَجْهِكَ أَنْ تُنَوِّرَ بِكِتَابِكَ بَصَرِي، وَأَنْ تُطْلِقَ بِهِ لِسَانِي، وَأَنْ تُفَرِّجَ بِهِ عَنْ قَلْبِي، وَأَنْ تَشْرَحَ بِهِ صَدْرِي، وَأَنْ تَغْسِلَ بِهِ بَدَنِي، لَأنَّهُ لَا يُعِينُنِي عَلَى الْحَقِّ غَيْرُكَ، وَلَا يُؤْتِيهِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ، يَا أَبَا الْحَسَنِ تَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ، أَوْ خَمْسَ، أَوْ سَبْعَ تُجَابُ بِإِذْنِ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ مَا أَخْطَأَ مُؤْمِنًا قَطُّ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: فَوَاللَّهِ مَا لَبِثَ عَلِيٌّ إِلَّا خَمْسًا أَوْ سَبْعًا حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِثْلِ ذَلِكَ الْمَجْلِسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ فِيمَا خَلَا لَا آخُذُ إِلَّا أَرْبَعَ آيَاتٍ أَوْ نَحْوَهُنَّ، وَإِذَا قَرَأْتُهُنَّ عَلَى نَفْسِي تَفَلَّتْنَ، وَأَنَا أَتَعَلَّمُ الْيَوْمَ أَرْبَعِينَ آيَةً أَوْ نَحْوَهَا وَإِذَا قَرَأْتُهَا عَلَى نَفْسِي فَكَأَنَّمَا كِتَابُ اللَّهِ بَيْنَ عَيْنَيَّ، وَلَقَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ الْحَدِيثَ فَإِذَا رَدَّدْتُهُ تَفَلَّتَ وَأَنَا الْيَوْمَ أَسْمَعُ الْأَحَادِيثَ فَإِذَا تَحَدَّثْتُ بِهَا لَمْ أَخْرِمْ مِنْهَا حَرْفًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: مُؤْمِنٌ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَا أَبَا الْحَسَنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭১
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، اور افضل عبادت یہ ہے (کہ اس دعا کے اثر سے) کشادگی (اور خوش حالی) کا انتظار کیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حماد بن واقد نے ایسی ہی روایت کی ہے، اور ان کی روایت میں اختلاف کیا گیا ہے، ٢- حماد بن واقد یہ صفار ہیں، حافظ نہیں ہیں، اور یہ ہمارے نزدیک ایک بصریٰ شیخ ہیں، ٣- ابونعیم نے یہ حدیث اسرائیل سے، اسرائیل نے حکیم بن جبیر سے اور حکیم بن جبیر نے ایک شخص کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، اور ابونعیم کی حدیث صحت سے قریب تر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٥١٥) (ضعیف) (سند میں ” حماد بن واقد “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (492) // ضعيف الجامع الصغير (3278) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3571
حدیث نمبر: 3571 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ أَنْ يُسْأَلَ، وَأَفْضَلُ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى حَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَدْ خُولِفَ فِي رِوَايَتِهِ، وَحَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ هَذَا هُوَ الصَّفَّارُ لَيْسَ بِالْحَافِظِ، وَهُوَ عِنْدَنَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ، وَرَوَى أَبُو نُعَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْإِسْرَائِيلَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَحَدِيثُ أَبِي نُعَيْمٍ أَشْبَهُ أَنْ يَكُونَ أَصَحَّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭২
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے : «اللهم إني أعوذ بک من الکسل والعجز والبخل» اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں، سستی و کاہلی سے، عاجزی و درماندگی سے اور کنجوسی و بخیلی سے ،
حدیث نمبر: 3572 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَالْعَجْزِ وَالْبُخْلِ . (حديث مرفوع) (حديث موقوف)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭৩
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین پر کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جو گناہ اور قطع رحمی کی دعا کو چھوڑ کر کوئی بھی دعا کرتا ہو اور اللہ اسے وہ چیز نہ دیتا ہو، یا اس کے بدلے اس کے برابر کی اس کی کوئی برائی (کوئی مصیبت) دور نہ کردیتا ہو ، اس پر ایک شخص نے کہا : تب تو ہم خوب (بہت) دعائیں مانگا کریں گے، آپ نے فرمایا : اللہ اس سے بھی زیادہ دینے والا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٠٧٣) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 271 - 272) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3573
حدیث نمبر: 3573 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْجُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ حَدَّثَهُمْ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا عَلَى الْأَرْضِ مُسْلِمٌ يَدْعُو اللَّهَ بِدَعْوَةٍ إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا أَوْ صَرَفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ، أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِذًا نُكْثِرَ، قَالَ: اللَّهُ أَكْثَرُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَابْنُ ثَوْبَانَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ الْعَابِدُ الشَّامِيُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭৪
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو ویسا ہی وضو کر کے جاؤ، پھر داہنے کروٹ لیٹو، پھر (یہ) دعا پڑھو : «اللهم أسلمت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجا منک إلا إليك آمنت بکتابک الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» اے اللہ ! میں تیرا تابع فرمان بندہ بن کر تیری طرف متوجہ ہوا، اپنا سب کچھ تجھے سونپ دیا، تجھ سے ڈرتے ہوئے اور رغبت کرتے ہوئے میں نے تیرا سہارا لیا، نہ تو میری کوئی امید گاہ ہے اور نہ ہی کوئی جائے نجات، میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری ہے اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا ہے ، پس اگر تو اپنی اس رات میں مرگیا تو فطرت (اسلام) پر مرے گا، براء (رض) کہتے ہیں : میں نے دعا کے ان الفاظ کو دہرایا تاکہ یاد ہوجائیں تو دہراتے وقت میں نے کہا : «آمنت برسولک الذي أرسلت» کہہ لیا تو آپ نے فرمایا : (رسول نہ کہو بلکہ) «آمنت بنبيك الذي أرسلت» کہو، میں ایمان لایا تیرے اس نبی پر جسے تو نے بھیجا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث براء بن عازب سے کئی سندوں سے آئی ہے مگر اس رات کے سوا کسی بھی روایت میں ہم یہ نہیں پاتے کہ وضو کا ذکر کیا گیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٥ (٢٤٧) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٠) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٥ (٣٨٧٦) (تحفة الأشراف : ١٧٦٣) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥١ (٢٧٢٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3574
حدیث نمبر: 3574 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ، فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ قُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ فِي لَيْلَتِكَ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ ، قَالَ: فَرَدَدْتُهُنَّ لِأَسْتَذْكِرَهُ، فَقُلْتُ: آمَنْتُ بِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَقَالَ: قُلْ آمَنْتُ بِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ. قَالَ: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الْبَرَاءِ، وَلَا نَعْلَمُ فِي شَيْءٍ مِنَ الرِّوَايَاتِ ذِكْرَ الْوُضُوءُ إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭৫
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عبداللہ بن خبیب (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک بارش والی سخت تاریک رات میں رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے نکلے تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھا دیں، چناچہ میں آپ کو پا گیا، آپ نے فرمایا : کہو (پڑھو) ، تو میں نے کچھ نہ کہا : کہو آپ نے پھر فرمایا، مگر میں نے کچھ نہ کہا، (کیونکہ معلوم نہیں تھا کیا کہوں ؟ ) آپ نے پھر فرمایا : کہو ، میں نے کہا : کیا کہوں ؟ آپ نے فرمایا : «قل هو اللہ أحد» اور «المعوذتين» («قل أعوذ برب الفلق» ، «قل أعوذ برب الناس» ) صبح و شام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ (سورتیں) تمہیں ہر شر سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- ابوسعید براد : یہ اسید بن ابی اسید مدنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٠ (٥٠٨٢) ، سنن النسائی/الاستعاذة ١ (٥٤٣٠) (تحفة الأشراف : ٥٢٥٠) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (1 / 224) ، الکلم الطيب (19 / 7) ، صحيح الکلم الصفحة (19) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3575
حدیث نمبر: 3575 حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْبَرَّادِ، عَنْمُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجْنَا فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، وَظُلْمَةٍ شَدِيدَةٍ، نَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا، قَالَ: فَأَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ: قُلْ: فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ: قُلْ: فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: مَا أَقُولُ ؟ قَالَ: قُلْ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِينَ تُمْسِي وَتُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَبُو سَعِيدٍ الْبَرَّادُ هُوَ أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ مَدَنِيٌّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭৬
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عبداللہ بن بسر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے باپ کے پاس آئے، ہم نے آپ کے کھانے کے لیے کچھ پیش کیا تو آپ نے اس میں سے کھایا، پھر آپ کے لیے کچھ کھجوریں لائی گئیں، تو آپ کھجوریں کھانے اور گھٹلی اپنی دونوں انگلیوں سبابہ اور وسطی (شہادت اور بیچ کی انگلی سے (دونوں کو ملا کر) پھینکتے جاتے تھے، شعبہ کہتے ہیں : جو میں کہہ رہا ہوں وہ میرا گمان و خیال ہے، اللہ نے چاہا تو صحیح ہوگا، آپ دونوں انگلیوں کے بیچ میں گٹھلی رکھ کر پھینک دیتے تھے، پھر آپ کے سامنے پینے کی کوئی چیز لائی گئی تو آپ نے پی اور اپنے دائیں جانب ہاتھ والے کو تھما دیا (جب آپ چلنے لگے تو) آپ کی سواری کی لگام تھامے تھامے میرے باپ نے آپ سے عرض کیا، آپ ہمارے لیے دعا فرما دیجئیے، آپ نے فرمایا : «اللهم بارک لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم» اے اللہ ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور انہیں بخش دے اور ان پر رحمت نازل فرما ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی یہ حدیث عبداللہ بن بسر سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٢٢ (٢٠٤٢) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٢٠ (٣٧٢٩) (تحفة الأشراف : ٥٢٠٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢ (٢٠٦٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3576
حدیث نمبر: 3576 حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ الشَّامِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي، فَقَرَّبْنَا إِلَيْهِ طَعَامًا فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِتَمْرٍ فَكَانَ يَأْكُلُ وَيُلْقِي النَّوَى بِإِصْبَعَيْهِ جَمَعَ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى، قَالَ شُعْبَةُ: وَهُوَ ظَنِّي فِيهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَأَلْقَى النَّوَى بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ ثُمَّ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الَّذِي عَنْ يَمِينِهِ، قَالَ: فَقَالَ أَبِي وَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِهِ: ادْعُ لَنَا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ، وَارْحَمْهُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭৭
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
زید (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص کہے : «أستغفر اللہ العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه» میں مغفرت مانگتا ہوں اس بزرگ و برتر اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، جو زندہ ہے اور ہر چیز کا نگہبان ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ، تو اس کی مغفرت کردی جائے گی اگرچہ وہ لشکر (و فوج) سے بھاگ ہی کیوں نہ آیا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥١٧) (صحیح) (سند میں بلال اور یسار بن زید دونوں باپ اور بیٹے مجہول راوی ہیں، لیکن ابن مسعود وغیرہ کی احادیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، صحیح سنن أبی داود ١٣٥٨، صحیح الترغیب والترہیب ١٦٢٢، الصحیحة ٢٧٢٧) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 269) ، صحيح أبي داود (1358) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3577
حدیث نمبر: 3577 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الشَّنِّيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ مُرَّةَ، قَال: سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ يَسَارِ بْنِ زَيْدٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الْعَظِيمَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ، وَأَتُوبُ إِلَيْهِ غُفِرَ لَهُ وَإِنْ كَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭৮
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عثمان بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر (و سود مند) ہے ۔ اس نے کہا : دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے : «اللهم إني أسألک وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضی لي اللهم فشفعه» اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ابو جعفر کی روایت سے، ٢- اور ابوجعفر خطمی ہیں ٣- اور عثمان بن حنیف یہ سہل بن حنیف کے بھائی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٩ (١٣٨٥) (تحفة الأشراف : ٩٧٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہی وہ مشہور روایت ہے جس سے انبیاء اور اولیاء کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے ، بعض محدثین نے تو اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے ، اور جو لوگ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں ، ان میں سے سلفی منہج و فکر کے علماء ( جیسے امام ابن تیمیہ و علامہ البانی نے اس کی توجیہ کی ہے کہ نابینا کو اپنی ذات بابرکات سے وسیلہ پکڑنے کا مشورہ آپ ﷺ نے نہیں دیا تھا ، بلکہ آپ کی دعا کو قبول کرنے کی دعا اس نے کی ، اور اب آپ کی وفات کے بعد ایسا نہیں ہوسکتا ، اسی لیے عمر (رض) نے قحط پڑنے پر آپ کی قبر شریف کے پاس آ کر آپ سے دعا کی درخواست نہیں کی ، ( آپ کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کی بات تو دور کی ہے ) بلکہ انہوں نے آپ کے زندہ چچا عباس (رض) سے دعا کرائی ، اور تمام صحابہ نے اس پر ہاں کیا ، تو گویا یہ بات تمام صحابہ کے اجماع سے ہوئی ، کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ کیوں نہ نابینا کی طرح آپ سے دعا کی درخواست کی جائے ، اور اس دعا یا آپ کی ذات کو وسیلہ بنایا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1385) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3578
حدیث نمبر: 3578 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي، قَالَ: إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ، قَالَ: فَادْعُهْ، قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ، مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ وَهُوَ الْخَطْمِيٍّ، وَعُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ هُوَ أَخُو سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৭৯
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عمرو بن عنبسہ (رض) کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : رب تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتا ہے، تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہو کر ان لوگوں میں سے ہوجاؤ (یعنی تہجد پڑھو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٧) (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 276) ، المشکاة (1229) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3579
حدیث نمبر: 3579 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْنٌ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللَّهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮০
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عمارہ بن زعکرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرا بندہ کامل بندہ وہ ہے جو مجھے اس وقت یاد کرتا ہے جب وہ جنگ کے وقت اپنے مدمقابل (دشمن) کے سامنے کھڑا ہو رہا ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اس کی سند قوی نہیں ہے، اس ایک حدیث کے سوا ہم عمارہ بن زعکرہ کی نبی اکرم ﷺ سے کوئی اور روایت نہیں جانتے، ٢- اللہ کے قول «وهو ملاق قرنه» کا معنی و مطلب یہ ہے کہ لڑائی و جنگ کے وقت، یعنی ایسے وقت اور ایسی گھڑی میں بھی وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٣٧٩) (ضعیف) (سند میں ” عفیر بن معدان “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (3135) // ضعيف الجامع الصغير (1750) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3580
حدیث نمبر: 3580 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا دَوْسٍ الْيَحْصُبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَائِذٍ الْيَحْصُبِيِّ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَعْكَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: إِنَّ عَبْدِي كُلَّ عَبْدِيَ الَّذِي يَذْكُرُنِي وَهُوَ مُلَاقٍ قِرْنَهُ يَعْنِي عِنْدَ الْقِتَالِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَلَا نَعْرِفُ لِعُمَارَةَ بْنِ زَعْكَرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَهُوَ مُلَاقٍ قِرْنَهُ إِنَّمَا يَعْنِي عِنْدَ الْقِتَالِ، يَعْنِي أَنْ يَذْكُرَ اللَّهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮১
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
قیس بن سعد بن عبادہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے باپ (سعد بن عبادہ) نے انہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرنے کے لیے آپ کے حوالے کردیا، وہ کہتے ہیں : میں نماز پڑھ کر بیٹھا ہی تھا کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے، آپ نے اپنے پیر سے (مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) ایک ٹھوکر لگائی پھر فرمایا : کیا میں تمہیں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ نہ بتادوں ، میں نے کہا : کیوں نہیں ضرور بتائیے، آپ نے فرمایا : وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٣٠ (٣٥٥) (تحفة الأشراف : ١١٠٩٧) ، و مسند احمد (٣/٤٢٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1746) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3581
حدیث نمبر: 3581 حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَال: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ زَاذَانَ يُحَدِّثُ، عَنْمَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، أَنَّ أَبَاهُ دَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْدُمُهُ، قَالَ: فَمَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّيْتُ فَضَرَبَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮২
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
صفوان بن سلیم کہتے ہیں کہ کوئی بھی فرشتہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہے بغیر زمین سے نہیں اٹھتا (نہیں اڑتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي) (صحیح الإسناد) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3582
حدیث نمبر: 3582 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ: مَا نَهَضَ مَلَكٌ مِنَ الْأَرْضِ حَتَّى قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮৩
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
حمیضہ بنت یاسر اپنی دادی یسیرہ (رض) سے روایت کرتی ہیں، یسیرہ ہجرت کرنے والی خواتین میں سے تھیں، کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : تمہارے لیے لازم اور ضروری ہے کہ تسبیح پڑھا کرو تہلیل اور تقدیس کیا کرو ١ ؎ اور انگلیوں پر (تسبیحات وغیرہ کو) گنا کرو، کیونکہ ان سے (قیامت میں) پوچھا جائے گا اور انہیں گویائی عطا کردی جائے گی، اور تم لوگ غفلت نہ برتنا کہ (اللہ کی) رحمت کو بھول بیٹھو ۔ امام ترمذی کہتے : ہم اس حدیث کو صرف ہانی بن عثمان کی روایت سے جانتے ہیں اور محمد بن ربیعہ نے بھی ہانی بن عثمان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٨ (١٥٠١) (تحفة الأشراف : ١٨٣٠١) ، و مسند احمد (٦/٣٧١) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : «تسبیح» «سبحان اللہ» کہنا ، «تہلیل» «لا إله إلا الله» کہنا اور «تقدیس» «سبحان الملک القدوس» یا «سبوح قدوس ربنا ورب الملائکۃ والروح» کہنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، صحيح أبي داود (1345) ، المشکاة (2316) ، الضعيفة تحت الحديث (83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3583
حدیث نمبر: 3583 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ حِزَامٍ، وَعَبْدُ بْنُ حميد، وغير واحد، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ هَانِئَ بْنَ عُثْمَانَ، عَنْ أُمِّهِ حُمَيْضَةَ بِنْتِ يَاسِرٍ، عَنْ جَدَّتِهَا يُسَيْرَةَ وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ، قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيْكُنَّ بِالتَّسْبِيحِ وَالتَّهْلِيلِ وَالتَّقْدِيسِ، وَاعْقِدْنَ بِالْأَنَامِلِ فَإِنَّهُنَّ مَسْئُولَاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ، وَلَا تَغْفُلْنَ فَتَنْسَيْنَ الرَّحْمَةَ . قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ هَانِئِ بْنِ عُثْمَانَ، وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ عُثْمَانَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮৪
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ جہاد کرتے (لڑتے) تو یہ دعا پڑھتے : «اللهم أنت عضدي وأنت نصيري وبك أقاتل» اے اللہ ! تو میرا بازو ہے، تو ہی میرا مددگار ہے اور تیرے ہی سہارے میں لڑتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے ٢- اور «عضدی» کے معنی ہیں تو میرا مددگار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجھاد ٩٩ (٢٦٣٢) (تحفة الأشراف : ١٣٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الکلم الطيب (125) ، صحيح أبي داود (2366) ، // صحيح الکلم الصفحة (50) أتم من هنا // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3584
حدیث نمبر: 3584 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَالَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي، وَأَنْتَ نَصِيرِي، وَبِكَ أُقَاتِلُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: عَضُدِي يَعْنِي عَوْنِي.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮৫
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق
عبداللہ عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر دعا عرفہ والے دن کی دعا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ (بطور ذکر) کہا ہے اور مجھ سے پہلے جو دوسرے نبیوں نے کہا ہے ان میں سب سے بہتر دعا یہ ہے : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو علی كل شيء قدير» اللہ واحد کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے (ساری کائنات کی) بادشاہت ہے، اسی کے لیے ساری تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- حماد بن ابی حمیدیہ محمد بن ابی حمید ہیں اور ان کی کنیت ابوابراہیم انصاری مدنی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٦٩٨) (حسن) (سند میں حماد (محمد) بن ابی حمید ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (2598) ، التعليق الرغيب (2 / 242) ، الصحيحة (1503) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3585
حدیث نمبر: 3585 حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدِينِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، وَهُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ الْمَدَنِيُّ، وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮৬
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سکھایا، آپ نے فرمایا : کہو «اللهم اجعل سريرتي خيرا من علانيتي واجعل علانيتي صالحة اللهم إني أسألک من صالح ما تؤتي الناس من المال والأهل والولد غير الضال ولا المضل» اے اللہ ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک کر دے۔ اور لوگوں کو جو مال تو بیوی اور بچے کی شکل میں دیتا ہے ان میں سے اچھا مال دے جو نہ خود گمراہ ہوں اور نہ دوسروں کو گمراہ کریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٥١٥) (ضعیف) (سند میں ” ابو شیبہ “ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2504 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (4097) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3586
حدیث نمبر: 3586 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ الْجَرَّاحِ بْنِ الضَّحَّاكِ الْكِنْدِيِّ، عَنْ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي، وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِي النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْأَهْلِ وَالْوَلَدِ غَيْرِ الضَّالِّ وَلَا الْمُضِلِّ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮৭
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
عاصم بن کلیب بن شہاب کے دادا شہاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، آپ نماز پڑھا رہے تھے، آپ نے اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا تھا، اور اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، انگلیاں بند کی تھیں (یعنی مٹھی باندھ رکھی تھی) اور «سبابہ» (شہادت کی انگلی) کھول رکھی تھی اور آپ یہ دعا کر رہے تھے : «يا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دينك» اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر جما دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٨٤٨) (منکر) (اس سیاق سے یہ حدیث منکر ہے، سند میں ” عبداللہ بن معدان ابو سعدان “ لین الحدیث ہیں، اور یہ حدیث اس بابت دیگر صحیح احادیث کے برخلاف ہے) قال الشيخ الألباني : منکر بهذا السياق وانظر الأحاديث (291 - 293 و 2226 و 3588) // وهي في صحيح سنن الترمذي - باختصار السند بالأرقام الآتية (238 / 292 - 240 / 294 و 1739 / 2240 و 2792 / 3768) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3587
حدیث نمبر: 3587 حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَعْدَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ وَبَسَطَ السَّبَّابَةَ وَهُوَ يَقُولُ: يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮৮
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ثابت بنانی اپنے شاگرد محمد بن سالم سے کہتے ہیں کہ جب تمہیں درد ہو تو جہاں درد اور تکلیف ہو وہاں ہاتھ رکھو پھر پڑھو : «بسم اللہ أعوذ بعزة اللہ وقدرته من شر ما أجد من وجعي هذا» اللہ کے نام سے اللہ کی عزت و قدرت کے سہارے میں اپنی اس تکلیف کے شر سے جو میں محسوس کر رہا ہوں پناہ چاہتا ہوں ۔ ، پھر (درد کی جگہ سے) ہاتھ ہٹا لو پھر ایسے ہی طاق (تین یا پانچ یا سات) بار کرو، کیونکہ انس بن مالک نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایسا ہی بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور محمد بن سالم یہ بصریٰ شیخ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٦٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1258) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3588
حدیث نمبر: 3588 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، قَالَ: قَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ إِذَا اشْتَكَيْتَ فَضَعْ يَدَكَ حَيْثُ تَشْتَكِي، وَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ، أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ مِنْ وَجَعِي هَذَا، ثُمَّ ارْفَعْ يَدَكَ ثُمَّ أَعِدْ ذَلِكَ وِتْرًا ، فَإِنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ بِذَلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ هَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৫৮৯
دعاؤں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ دعا سکھائی : «اللهم هذا استقبال ليلک واستدبار نهارک وأصوات دعاتک وحضور صلواتک أسألك أن تغفر لي» اے اللہ ! یہ تیری رات کے آنے اور تیرے دن کے جانے کا وقت ہے اور تجھے یاد کرنے کی آوازوں اور تیری نماز کے لیے پہنچنے کا وقت ہے میں (ایسے وقت میں) اپنی مغفرت کے لیے تجھ سے درخواست کرتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- حفصہ بنت ابی کثیر کو ہم نہیں جانتے اور نہ ہی ہم ان کے باپ کو جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٩ (٥٣٠) (تحفة الأشراف : ١٨٢٤٦) (ضعیف) (سند میں ابوکثیر لین الحدیث راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الکلم الطيب (76 / 35) ، ضعيف أبي داود (85) // (105 / 530) //، المشکاة (669) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3589
حدیث نمبر: 3589 حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْأَسْوَدِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِيهَا أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُولِي: اللَّهُمَّ هَذَا اسْتِقْبَالُ لَيْلِكَ وَإِدْبَارُ نَهَارِكَ وَأَصْوَاتُ دُعَاتِكَ وَحُضُورُ صَلَوَاتِكَ، أَسْأَلُكَ أَنْ تَغْفِرَ لِي . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَحَفْصَةُ بِنْتُ أَبِي كَثِيرٍ لَا نَعْرِفُهَا وَلَا نَعْرِفُ أَبَاهَا.
তাহকীক: