আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
آداب اور اجازت لینے کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৭২ টি
হাদীস নং: ২৭২৮
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصافحے کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، اس نے پوچھا : کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، اس نے کہا : پھر تو وہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے، آپ نے فرمایا : ہاں (بس اتنا ہی کافی ہے) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ١٥ (٣٧٠٢) (تحفة الأشراف : ٨٢٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ( ١ ) ملاقات کے وقت کسی کے سامنے جھکنا منع ہے ، اس لیے جھک کر کسی کا پاؤں چھونا ناجائز ہے ، ( ٢ ) اس حدیث میں معانقہ اور بوسے سے جو منع کیا گیا ہے ، یہ ہر مرتبہ ملاقات کے وقت کرنے سے ہے ، البتہ نئی سفر سے آ کر ملے تو معانقہ و بوسہ درست ہے ، ( ٣ ) «أفيأخذ بيده ويصافحه» سے یہ واضح ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے ہوگا ، کیونکہ حدیث میں دونوں ہاتھ کے پکڑنے کے متعلق نہیں پوچھا گیا ، بلکہ یہ پوچھا گیا ہے کہ اس کے ہاتھ کو پکڑے اور مصافحہ کرے معلوم ہوا کہ مصافحہ کا مسنون طریقہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3702) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2728
حدیث نمبر: 2728 حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ ؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২৯
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصافحے کے متعلق
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٢٧ (٦٢٦٣) (تحفة الأشراف : ١٤٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2729
حدیث نمبر: 2729 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: هَلْ كَانَتِ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩০
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصافحے کے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مکمل سلام («السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ» کہنے کے ساتھ ساتھ) ہاتھ کو ہاتھ میں لینا یعنی (مصافحہ کرنا) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن سلیم کی روایت سے جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں جانتے ہیں، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا کہ میرے نزدیک یحییٰ بن سلیم نے سفیان کی وہ روایت مراد لی ہے جسے انہوں نے منصور سے روایت کی ہے، اور منصور نے خیثمہ سے اور خیثمہ نے اس سے جس نے ابن مسعود (رض) سے سنا ہے اور ابن مسعود نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا : (بعد نماز عشاء) بات چیت اور قصہ گوئی نہیں کرنی چاہیئے، سوائے اس شخص کے جس کو (ابھی کچھ دیر بعد اٹھ کر تہجد کی) نماز پڑھنی ہے یا سفر کرنا ہے، محمد کہتے ہیں : اور منصور سے مروی ہے انہوں نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے عبدالرحمٰن بن یزید سے یا ان کے سوا کسی اور سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں : سلام کی تکمیل سے مراد ہاتھ پکڑنا (مصافحہ کرنا) ہے، ٣ - اس باب میں براء اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٦٤١) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2691) // و (1288) ، ضعيف الجامع الصغير (5294) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2730
حدیث نمبر: 2730 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الْأَخْذُ بِالْيَدِ ، وفي الباب عن الْبَرَاءِ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعُدَّهُ مَحْفُوظًا، وَقَالَ: إِنَّمَا أَرَادَ عِنْدِي حَدِيثَ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَمَّنْ، سَمِعَ ابْنَ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا سَمَرَ إِلَّا لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَإِنَّمَا يُرْوَى عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، أَوْ غَيْرِهِ، قَالَ: مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الْأَخْذُ بِالْيَدِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩১
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصافحے کے متعلق
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ تم میں سے عیادت کرنے والا اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے ، یا آپ نے یہ فرمایا : (راوی کو شبہ ہوگیا ہے) اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے، پھر اس سے پوچھے کہ وہ کیسا ہے ؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : عبیداللہ بن زحر ثقہ ہیں اور علی بن یزید ضعیف ہیں، ٣ - قاسم بن عبدالرحمٰن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے اور یہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ثقہ ہیں اور قاسم شامی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩١٠) (ضعیف) وانظر مسند احمد (٥/٢٦٠) (یہ سند مشہور ضعیف سندوں میں سے ہے، عبید اللہ بن زحر “ اور ” علی بن زید بن جدعان “ دونوں سخت ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1288) // ضعيف الجامع الصغير (5297) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2731
حدیث نمبر: 2731 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْالْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَمَامُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ أَنْ يَضَعَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ أَوْ قَالَ: عَلَى يَدِهِ، فَيَسْأَلُهُ كَيْفَ هُوَ، وَتَمَامُ تَحِيَّاتِكُمْ بَيْنَكُمُ الْمُصَافَحَةُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا إِسْنَادٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زَحْرٍ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ ضَعِيفٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُكْنَى: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَالْقَاسِمُ شَامِيٌّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩২
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گلے ملنے اور بوسہ دینے کے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ زید بن حارثہ مدینہ آئے (اس وقت) رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے، وہ آپ کے پاس آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، تو آپ ان کی طرف ننگے بدن اپنے کپڑے سمیٹتے ہوئے لپکے اور قسم اللہ کی میں نے آپ کو ننگے بدن نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد دیکھا ١ ؎، آپ نے (بڑھ کر) انہیں گلے لگا لیا اور ان کا بوسہ لیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف زہری کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٦١١) (ضعیف) (سند میں ” ابراہیم بن یحییٰ بن محمد “ اور ان کے باپ ” یحییٰ بن محمد بن عباد “ دونوں ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کسی کے استقبال میں آپ ﷺ کو اس حالت و کیفیت میں نہیں دیکھا جو حالت و کیفیت زید بن حارثہ سے ملاقات کے وقت تھی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھے سے گرگئی تھی اور آپ نے اسی حالت میں ان سے معانقہ کیا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4682) ، مقدمة رياض الصالحين و / (5) ، نقد الکتاني ص (16) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2732
حدیث نمبر: 2732 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ الْمَدِينَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، فَأَتَاهُ فَقَرَعَ الْبَابَ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُرْيَانًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ عُرْيَانًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ فَاعْتَنَقَهُ وَقَبَّلَهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩৩
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لینے کے متعلق
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا : چلو اس نبی کے پاس لے چلتے ہیں۔ اس کے ساتھی نے کہا نبی نہ کہو۔ ورنہ اگر انہوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی، پھر وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے (موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئیں) نو کھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے ان سے کہا ( ١ ) کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ ( ٢ ) چوری نہ کرو ( ٣ ) زنا نہ کرو ( ٤ ) ناحق کسی کو قتل نہ کرو ( ٥ ) کسی بےگناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے ( ٦ ) جادو نہ کرو ( ٧ ) سود مت کھاؤ ( ٨ ) پارسا عورت پر زنا کی تہمت مت لگاؤ ( ٩ ) اور دشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اور خاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ «سبت» (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو، (آپ کا جواب سن کر) انہوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا : پھر تمہیں میری پیروی کرنے سے کیا چیز روکتی ہے ؟ انہوں نے کہا : داود (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے۔ اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع (پیروی) کی تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں یزید بن اسود، ابن عمر اور کعب بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ١٦ (٣٧٠٥) ، وأعادہ المؤلف في التفسیر (٣١٤٤) والنسائی فی الکبری فی السیر (٨٦٥٦) وفی المحاربة (٣٥٤١) (تحفة الأشراف : ٤٩٥١) وأحمد (٤/٢٣٩) (ضعیف) (سند میں ” عبد اللہ بن سلمہ “ مختلط ہوگئے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3705) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (808) ، والذي هنا أتم وانظر الآتي برقم (613 / 3365) ، ضعيف سنن النسائي (275 / 4078) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2733
حدیث نمبر: 2733 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ، فَقَالَ صَاحِبُهُ: لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ، فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ، فَقَالَ لَهُمْ: لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ، وَلَا تَسْحَرُوا، وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ يَوْمَ الزَّحْفِ، وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لَا تَعْتَدُوا فِي السَّبْتِ ، قَالَ: فَقَبَّلُوا يَدَهُ وَرِجْلَهُ، فَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي ، قَالُوا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا رَبَّهُ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ، وفي الباب عن يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩৪
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مرحبا کہنے کے بارے میں
ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ فتح مکہ والے سال میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی۔ آپ اس وقت غسل فرما رہے تھے، اور فاطمہ (رض) ایک کپڑے سے آپ کو آڑ کیے ہوئے تھیں۔ میں نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا : کون ہیں یہ ؟ میں نے کہا : میں ام ہانی ہوں، آپ نے فرمایا : ام ہانی کا آنا مبارک ہو ۔ راوی کہتے ہیں پھر ابو مرہ نے حدیث کا پورا واقعہ بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢١ (٢٨٠) ، والصلاة ٤ (٣٥٧) ، والجزیة ٩ (٣١٧١) ، والأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، صحیح مسلم/الحیض ١٦ (٣٣٦) ، والمسافرین ١٣ (٣٣٦/٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٩ (٤٦٥) (ببعضة) (تحفة الأشراف : ١٨٠٨) ، وط/قصر الصلاة ٨ (٢٨) ، و مسند احمد (٦/٣٤٣، ٤٢٣) ، وسنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2734
حدیث نمبر: 2734 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئِ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ ؟ قُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ ، قَالَ: فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً طَوِيلَةً، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩৫
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مرحبا کہنے کے بارے میں
عکرمہ بن ابی جہل (رض) کہتے ہیں کہ جب میں (مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے) آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہاجر سوار کا آنا مبارک ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے۔ ہم اسے صرف موسیٰ بن مسعود کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں۔ موسیٰ بن مسعود حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ٢ - عبدالرحمٰن بن مہدی نے بھی یہ حدیث سفیان سے اور سفیان نے ابواسحاق سے مرسلاً روایت کی ہے۔ اور اس سند میں مصعب بن سعد کا ذکر نہیں کیا ہے اور یہی صحیح تر ہے، ٣ - میں نے محمد بن بشار کو کہتے ہوئے سنا : موسیٰ بن مسعود حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ٤ - محمد بن بشار کہتے ہیں : میں نے موسیٰ بن مسعود سے بہت سی حدیثیں لیں، پھر میں نے ان سے حدیثیں لینی چھوڑ دی، ٥ - اس باب میں بریدہ، ابن عباس اور ابوجحیفہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٠١٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” موسیٰ بن مسعود “ حافظہ کے کمزور تھے، اس لیے تصحیف (پھیر بدل) کے شکار ہوجایا کرتے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2735
حدیث نمبر: 2735 حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ أَبُو حُذَيْفَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْمُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ أَبِي جَهْلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جِئْتُهُ: مَرْحَبًا بِالرَّاكِبِ الْمُهَاجِرِ ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ بُرَيْدَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ، لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَمُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، وَهَذَا أَصَحُّ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ بَشَّارٍ يَقُولُ، مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: وَكَتَبْتُ كَثِيرًا عَنْ مُوسَى بْنِ مَسْعُودٍ ثُمَّ تَرَكْتُهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩৬
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ چھینک کا جواب دینے کے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں، ( ١ ) جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، ( ٢ ) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، ( ٣ ) جب اسے چھینک آئے (اور وہ «الحمد لله» کہے) تو «يرحمک الله» کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے، ( ٤ ) جب وہ بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کرے، ( ٥ ) جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ (قبرستان) جائے، ( ٦ ) اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - یہ حدیث متعدد سندوں سے نبی کریم ﷺ سے آئی ہے، ٣ - بعض محدثین نے حارث اعور سے متعلق کلام کیا ہے، ٤ - اور اس باب میں ابوہریرہ، ابوایوب، براء اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١ (١٤٣٣) (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٤) ، و مسند احمد (١/٨٩) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥ (٢٦٧٥) (صحیح) (حارث بن عبداللہ أعور ضعیف راوی ہے، اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں، مؤلف نے حارث بن عبداللہ أعور کی تضعیف کا ذکر کیا ہے، اور شواہد کا بھی ذکر ہے، اور اسی لیے حدیث کی تحسین کی ہے، اور صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة ١٨٣٢، اور دیکھئے اگلی حدیث ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حقوق ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے باہمی اخوت و محبت کی رسی مضبوط ہوتی ہے ، حدیث میں بیان کردہ حقوق بظاہر بڑے نہیں ہیں لیکن انجام اور نتیجے کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1433) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (301) ، المشکاة (4643) ، الصحيحة (73) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2736
حدیث نمبر: 2736 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩৭
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جب چھینک آئے تو کیا کہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کے مومن پر چھ حقوق ہیں، ( ١ ) جب بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کرے، ( ٢ ) جب مرے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، ( ٣ ) جب دعوت کرے تو قبول کرے، ( ٤ ) جب ملے تو اس سے سلام کرے، ( ٥ ) جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب دے، ( ٦ ) اس کے سامنے موجود رہے یا نہ رہے اس کا خیرخواہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - محمد بن موسیٰ مخزومی مدنی ثقہ ہیں ان سے عبدالعزیز ابن محمد اور ابن ابی فدیک نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣ (٢١٦٣) (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٦) ، و مسند احمد (٢/٣٢١، ٣٧٢، ٤١٢، ٥٤٠) (صحیح) (و ورد عند صحیح البخاری/ (الجنائز ٢/ح ١٢٤٠) ، وم (السلام ٣/ح ٢١٦٢) بلفظ ” خمس “ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (832) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2737
حدیث نمبر: 2737 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ سِتُّ خِصَالٍ: يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ أَوْ شَهِدَ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩৮
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جب چھینک آئے تو کیا کہے
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر۔ ابن عمر (رض) نے کہا : کہنے کو تو میں بھی «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» کہہ سکتا ہوں ١ ؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم «الحمد لله علی كل حال» ہر حال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، کہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف زیاد بن ربیع کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٦٤٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دوسرے مقامات پر ایسا کہا کرتا ہوں لیکن اس کا یوں کہنے کا یہ مقام نہیں ہے ، بلکہ اس جگہ اللہ کے رسول نے ہمیں «الحمد لله علی كل حال» کہنے کا حکم دیا ہے۔ ٢ ؎ : صحیح بخاری (کتاب الادب باب ١٢٦ ) میں ابوہریرہ (رض) کی روایت میں صرف «الحمد لله» کا ذکر ہے ، حافظ ابن حجر نے متعدد طرق سے یہ ثابت کیا ہے کہ حمد و ثنا کے جو بھی الفاظ اس بابت ثابت ہیں کہے جاسکتے ہیں جیسے «الحمد لله رب العالمين» کا اضافہ بھی ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (4744) ، الإرواء (3 / 245) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2738
حدیث نمبر: 2738 حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا حَضْرَمِيٌّ مَوْلَى آلِ الْجَارُودِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا، أَنْ نَقُولَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ الرَّبِيعِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৩৯
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ چھینکنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم ﷺ کے پاس ہوتے تو یہ امید لگا کر چھینکتے کہ آپ ﷺ ان کے لیے «يرحمکم الله» اللہ تم پر رحم کرے کہیں گے۔ مگر آپ (اس موقع پر صرف) «يهديكم اللہ ويصلح بالکم» اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کر دے فرماتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، ابوایوب، سالم بن عبید، عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٠١ (٥٠٣٨) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٧ (٢٣٢/م) (تحفة الأشراف : ٩٠٨٢) ، و مسند احمد (٤/٤٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی چھینک کے جواب میں صرف «يهديكم اللہ ويصلح بالکم» کہا جائے۔ اور «یرحکم اللہ» (اللہ تم پر رحم کرے) نہ کہا جائے کیونکہ اللہ کی رحمت اخروی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4740 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2739
حدیث نمبر: 2739 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ دَيْلَمَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: كَانَ الْيَهُودُ يَتَعَاطَسُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرْجُونَ أَنْ يَقُولَ لَهُمْ: يَرْحَمُكُمُ اللَّهُ، فَيَقُولُ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَسَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৪০
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ چھینکنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے
سالم بن عبید (رض) سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا : «السلام عليكم» (اس کے جواب میں) سالم (رض) نے کہا : «عليك وعلی وأمك» (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر) ، یہ بات اس شخص کو ناگوار معلوم ہوئی تو سالم نے کہا : بھئی میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی اکرم ﷺ نے کہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم» تو نبی اکرم ﷺ نے کہا : «عليك وعلی أمك» ، (تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو) ۔ (آپ نے آگے فرمایا) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے «الحمدللہ رب العالمین» کہنا چاہیئے۔ اور جواب دینے والا «یرحمک اللہ» اور (چھینکنے والا) «يغفر اللہ لي ولكم» کہے، (نہ کہ «السلام عليك» کہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ ایک ایسی حدیث ہے جس میں منصور سے روایت کرنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لوگوں نے ہلال بن یساف اور سالم کے درمیان ایک اور راوی کو داخل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٩ (٥٠٣١) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٦ (٢٢٥) (تحفة الأشراف : ٣٧٨٦) ، و مسند احمد (٦/٧، ٨) (ضعیف) (ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان سند میں دو راویوں کا سقط ہے، عمل الیوم واللیلة کی روایت رقم : ٣٢٨-٢٣٠ سے یہ سقط ظاہر ہے، اگلی روایت صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (3 / 246 - 247) // 780 //، المشکاة (4741 / التحقيق الثاني) //، ضعيف أبي داود (1067 / 5031) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2740
حدیث نمبر: 2740 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ فِي سَفَرٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ: عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، فَكَأَنَّ الرَّجُلَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْ إِلَّا مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَقَدْ أَدْخَلُوا بَيْنَ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ وَسَالِمٍ رَجُلًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৪১
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ چھینکنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے
ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کسی کو چھینک آئے تو «الحمد لله علی كل حال» (تمام تعریفیں ہر حال میں اللہ کے لیے ہیں) کہے۔ اور جو اس کا جواب دے وہ «يرحمک الله» کہے، اور اس کے جواب میں چھینکنے والا کہے «يهديكم اللہ ويصلح بالکم» (اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست فرما دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٢ (٢١٣) (تحفة الأشراف : ٣٤٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3715) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2741
حدیث نمبر: 2741 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَلْيَقُلِ الَّذِي يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ هُوَ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ،
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৪২
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ اگر چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو اسے جواب دینا واجب ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی، آپ نے ایک کی چھینک پر «يرحمک الله» کہہ کر دعا دی اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی چھینک پر «یرحمک اللہ» کہہ کر دعا دی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے یہ دعا نہیں دی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (چھینک آئی تو) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور (تجھے چھینک آئی تو) تم نے اس کی حمد نہ کی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٢٣ (٦٢٢١) ، صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩١) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٢ (٥٠٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٠ (١٧١٣) (تحفة الأشراف : ٨٧٢) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٣١ (٢٧٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے پر جو سنت کے مطابق «الحمدللہ» کہے وہی دعائے خیر کا مستحق ہے «الحمداللہ» نہ کہنے کی صورت میں جواب دینے کی ضرورت نہیں ، یہ اور بات ہے کہ مسئلہ نہ معلوم ہونے کی صورت میں چھینکنے والے کو سمجھا دینا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2742
حدیث نمبر: 2742 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلَيْنِ عَطَسَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا، وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ ، فَقَالَ الَّذِي لَمْ يُشَمِّتْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَإِنَّكَ لَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৪৩
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ کتنی بار چھینک کا جواب دیا جائے
سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : «يرحمک الله» (اللہ تم پر رحم فرمائے) پھر اسے دوبارہ چھینک آئی تو آپ نے فرمایا : اسے تو زکام ہوگیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٠ (٥٠٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٠ (١٧١٤) (تحفة الأشراف : ٤٥١٣) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٣٢ (٢٧٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک یا دو سے زیادہ بار چھینک آنے پر جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3714) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2743
حدیث نمبر: 2743 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا شَاهِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ ثُمَّ عَطَسَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا رَجُلٌ مَزْكُومٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৪৪
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ کتنی بار چھینک کا جواب دیا جائے
عبید بن رفاعہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھینکنے والے کی چھینک کا جواب تین بار دیا جائے گا، اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیار ہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند مجہول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٠٠ (٥٠٣٦) (تحفة الأشراف : ٩٧٤٦) (ضعیف) (سند میں ” یزید بن عبد الرحمن ابو خالدالدالانی “ بہت غلطیاں کر جاتے تھے، اور ” عمر بن اسحاق بن ابی طلحہ “ اور ان کی ماں ” حمیدہ یا عبیدہ “ دونوں مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4830) // ضعيف الجامع الصغير (3407) ، ضعيف أبي داود (1068 / 5036) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2744
حدیث نمبر: 2744 حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْيَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي خَالِدٍ الدَّالانِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ إِسْحَاق بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أَبِيهَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ ثَلَاثًا، فَإِنْ زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৪৫
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ چھینک کے وقت آواز پست رکھنے اور چہرہ ڈھانکنے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٨ (٥٠٢٩) (تحفة الأشراف : ١٢٥٨١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھینک آتے وقت دوسروں کا خیال رکھا جائے ، ایسا نہ ہو کہ ناک سے نکلے ہوئے ذرات دوسروں پر پڑیں ، اس لیے ہاتھ یا کپڑے منہ پر رکھ لینا چاہیئے ، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے تہذیب و شائستگی کے ساتھ ساتھ نظافت پر بھی زور دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الروض النضير (1109) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2745
حدیث نمبر: 2745 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّى وَجْهَهُ بِيَدِهِ أَوْ بِثَوْبِهِ وَغَضَّ بِهَا صَوْتَهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৪৬
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند اور جمائی کو ناپسند کرتے ہیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھینکنا اللہ کی جانب سے ہے اور جمائی شیطان کی جانب سے ہے۔ جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیئے کہ جمائی آتے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے، اور جب جمائی لینے والا آہ، آہ کرتا ہے تو شیطان جمائی لینے والے کے پیٹ میں گھس کر ہنستا ہے۔ اور بیشک اللہ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی لینے کو ناپسند کرتا ہے۔ تو (جان لو) کہ آدمی جب جمائی کے وقت آہ آہ کی آواز نکالتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیٹ کے اندر گھس کر ہنستا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٢ (٢١٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٢ (٩٦٩) ، وانظر مایاتي بعدہ (تحفة الأشراف : ١٣٠١٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، التعليق علی ابن خزيمة (921 - 922) ، الإرواء (779) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2746
حدیث نمبر: 2746 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْعُطَاسُ مِنَ اللَّهِ، وَالتَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيهِ، وَإِذَا قَالَ: آهْ آهْ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ مِنْ جَوْفِهِ، وَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ: آهْ آهْ إِذَا تَثَاءَبَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ فِي جَوْفِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭৪৭
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند اور جمائی کو ناپسند کرتے ہیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد للہ» کہے تو ہر مسلمان کے لیے جو اسے سنے «یرحمک اللہ» کہنا ضروری ہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اور یہ ابن عجلان کی (اوپر مذکور) روایت سے زیادہ صحیح ہے، ٣ - ابن ابی ذئب : سعید مقبری کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے (احفظ) اور محمد بن عجلان سے زیادہ قوی (اثبت) ہیں، ٤ - میں نے ابوبکر عطار بصریٰ سے سنا ہے وہ روایت کرتے ہیں : علی بن مدینی کے واسطہ سے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں : محمد بن عجلان کہتے ہیں : سعید مقبری کی احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ سعید نے بعض حدیثیں (بلاواسطہ) ابوہریرہ سے روایت کی ہیں۔ اور بعض حدیثیں بواسطہ ایک شخص کے ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہیں۔ تو وہ سب میرے ذہن میں گڈمڈ ہوگئیں۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ بلاواسطہ کون تھیں اور بواسطہ کون ؟ تو میں نے سبھی روایتوں کو سعید کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کردی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٨٩) ، والأدب ١٢٥ (٦٢٢٣) ، و ٢٦ (٦٢٦٢) ، صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩٥) ، سنن ابی داود/ الأدب ٩٧ (٥٠٢٨) (تحفة الأشراف : ١٤٣٢٢) ، و مسند احمد (٢/٢٦٥، ٤٢٨، ٥١٧) وانظر ما تقدم برقم ٣٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (776) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2747
حدیث نمبر: 2747 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا يَقُولَنَّ: هَاهْ هَاهْ فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَجْلَانَ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ أَحْفَظُ لِحَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَأَثْبَتُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ: أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ رَوَى بَعْضَهَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى بَعْضُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَاخْتَلَطَتْ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
তাহকীক: