আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
آداب اور اجازت لینے کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৭২ টি
হাদীস নং: ২৭০৮
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بغیر اجازت کسی کے گھر میں جھانکنا
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے گھر میں تھے (اسی دوران) ایک شخص نے آپ کے گھر میں جھانکا، آپ ﷺ تیر کا پھل لے کر لپکے (کہ اس کی آنکھیں پھوڑ دیں) لیکن وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١١ (٦٢٤٢) ، والدیات ١٥ (٦٨٨٠) ، و ٢٣ (٦٩٠٠) ، صحیح مسلم/الآداب ٩ (٢١٥٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣٦ (٥١٧١) ، سنن النسائی/القسامة ٤٦ (٤٨٦٢) (تحفة الأشراف : ٧٢١) ، و مسند احمد (٣/١٠٨، ١٤٠، ٢٣٩، ٢٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2708
حدیث نمبر: 2708 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ فِي بَيْتِهِ فَاطَّلَعَ عَلَيْهِ رَجُلٌ فَأَهْوَى إِلَيْهِ بِمِشْقَصٍ فَتَأَخَّرَ الرَّجُلُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭০৯
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بغیر اجازت کسی کے گھر میں جھانکنا
سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے حجرے میں ایک سوراخ سے جھانکا (اس وقت) نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ اپنا سر کھجا رہے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے (پہلے سے) معلوم ہوتا کہ تو جھانک رہا ہے تو میں اسے تیری آنکھ میں کونچ دیتا (تجھے پتا نہیں) اجازت مانگنے کا حکم تو دیکھنے کے سبب ہی سے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٥ (٥٩٢٤) ، والاستئذان ١١ (٦٢٤١) ، والدیات ٢٣ (٦٩٠١) ، صحیح مسلم/الآداب ٩ (٢١٥٦) ، سنن النسائی/القسامة ٤٦ (٤٨٦٣) (تحفة الأشراف : ٤٨٠٦) ، و مسند احمد (٥/٣٣٠، ٣٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ اجازت مانگنے سے پہلے کسی کے گھر میں جھانکنا اور ادھر ادھر نظر دوڑانا منع ہے ، یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بھی اجازت طلب کئے بغیر داخل ہونا منع ہے ، اگر اجازت طلب کرنا ضروری نہ ہوتا تو بہت سوں کی پردہ دری ہوتی اور نامحرم عورتوں پر بھی نظر پڑتی ، یہی وہ قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح الترغيب (3 / 273) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2709
حدیث نمبر: 2709 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّ رَجُلًا اطَّلَعَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جُحْرٍ فِي حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِدْرَاةٌ يَحُكُّ بِهَا رَأْسَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ تَنْظُرُ لَطَعَنْتُ بِهَا فِي عَيْنِكَ إِنَّمَا جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১০
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اجازت مانگنے سے پہلے سلام کرنا
کلدہ بن حنبل (رض) نے بیان کیا کہ صفوان بن امیہ نے انہیں دودھ، پیوسی اور ککڑی کے ٹکڑے دے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا اور آپ اس وقت مکہ کے اونچائی والے حصہ میں تھے، میں آپ کے پاس اجازت لیے اور سلام کئے بغیر چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : واپس باہر جاؤ، پھر کہو «السلام علیکم» ، کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب صفوان اسلام لا چکے تھے۔ عمرو بن عبداللہ کہتے ہیں : یہ حدیث امیہ بن صفوان نے مجھ سے بیان کی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ حدیث میں نے کلدہ سے سنی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اسے ہم صرف ابن جریج کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ٣ - ابوعاصم نے بھی ابن جریج سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٣٧ (٥١٧٦) (تحفة الأشراف : ١١١٦٧) ، و مسند احمد (٣/٤١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (818) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2710
حدیث نمبر: 2710 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ كَلَدَةَ بْنَ حَنْبَلٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ بَعَثَهُ بِلَبَنٍ وَلِبَإٍ وَضَغَابِيسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَى الْوَادِي، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَلَمْ أُسَلِّمْ وَلَمْ أَسْتَأْذِنْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْجِعْ فَقُلِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ ؟ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ صَفْوَانُ، قَالَ عَمْرٌو: وَأَخْبَرَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ أُمَيَّةُ بْنُ صَفْوَانَ وَلَمْ يَقُلْ سَمِعْتُهُ مِنْ كَلَدَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَرَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ أَيْضًا، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ مِثْلَ هَذَا، وَضَغَابِيسُ هُوَ: حَشِيشٌ يُوكَلُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১১
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اجازت مانگنے سے پہلے سلام کرنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک قرض کے سلسلے میں جو میرے والد کے ذمہ تھا کچھ بات کرنے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے کہا : کون ہے ؟ ۔ میں نے کہا : میں ہوں، آپ نے فرمایا : میں میں (کیا ہے ؟ ) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٧ (٦٢٥٠) ، صحیح مسلم/الآداب ٨ (٢١٥٥) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣٩ (٥١٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٧ (٣٧٠٩) (تحفة الأشراف : ٣٠٤٢) ، و مسند احمد (٣/٢٩٨) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٢ (٢٦٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ اجازت طلب کرتے وقت اگر گھر والے یہ جاننا چاہیں کہ آنے والا کون ہے تو میں کہنے کے بجائے اپنا نام اور اگر کنیت سے مشہور ہے تو کنیت بتلائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2711
حدیث نمبر: 2711 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَيْنٍ كَانَ عَلَى أَبِي، فَقَالَ: مَنْ هَذَا ؟ فَقُلْتُ: أَنَا، فَقَالَ: أَنَا أَنَا كَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১২
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ سفر سے واپسی میں رات کو گھر میں داخل ہونا مکروہ ہے
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو سفر سے رات میں بیویوں کے پاس لوٹ کر آنے سے روکا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے جابر (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں انس، ابن عمر، اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - ابن عباس (رض) سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو رات میں بیویوں کے پاس سفر سے واپس لوٹ کر آنے سے روکا ابن عباس (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے اس روکنے کے باوجود دو شخص رات میں لوٹ کر اپنی بیویوں کے پاس آئے (نتیجہ انہیں اس نافرمانی کا یہ ملا) کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی بیوی کے پاس ایک دوسرے مرد کو پایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ١٦ (١٨٠١) ، والنکاح ١٢٠ (٥٢٤٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥٦ (١٩٢٨/١٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رات میں سفر سے واپس آ کر اپنے گھر والوں کے پاس آنے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب آمد کی پیشگی اطلاع نہ دی گئی ہو ، اور اگر گھر والے اس کی آمد سے پہلے ہی باخبر ہیں تو پھر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2712
حدیث نمبر: 2712 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَهَاهُمْ أَنْ يَطْرُقُوا النِّسَاءَ لَيْلًا ، وفي الباب عن أَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَهَاهُمْ أَنْ يَطْرُقُوا النِّسَاءَ لَيْلًا ، قَالَ: فَطَرَقَ رَجُلَانِ بَعْدَ نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১৩
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مکتوب (خط) کو خاک آلود کرنا
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی تحریر لکھے تو لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈالنا چاہیئے، کیونکہ اس سے حاجت برآری کی زیادہ توقع ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث منکر ہے، ٢ - ہم اسے صرف اسی سند سے ابوزبیر کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - حمزہ ہمارے نزدیک عمرو نصیبی کے بیٹے ہیں، اور وہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف مانے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٩ (٣٧٧٤) (تحفة الأشراف : ٢٦٩٩) (سند میں حمزة بن عمرو متروک الحدیث ہے اور ابو زبیر مکی مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ابن ماجہ کی سند میں بقیہ ہیں اور روایت ابو احمد دمشقی سے ہے جو مجہول ہیں) (ضعیف) (الضعیفة ١٧٣٨ ) وضاحت : ١ ؎ : تحریر پھیلی اور بگڑی ہوئی نہیں بلکہ صاف و ستھری رہے گی تو جس مقصد کے لیے لکھی گئی ہوگی ، اس مقصد کے جلد حاصل ہونے کی امید کی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5657) ، الضعيفة (1738) // ضعيف الجامع الصغير (674) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2713
حدیث نمبر: 2713 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَتَبَ أَحَدُكُمْ كِتَابًا فَلْيُتَرِّبْهُ، فَإِنَّهُ أَنْجَحُ لِلْحَاجَةِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لَا نَعْرِفُهُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَحَمْزَةُ هُوَ عِنْدِي ابْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِيُّ، هُوَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১৪
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا۔ آپ کے سامنے ایک کاتب بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے سنا آپ اس سے فرما رہے تھے : تم اپنا قلم اپنے کان پر رکھے رہا کرو کیونکہ اس سے لکھوانے والوں کو آگاہی و یاد دہانی ہوجایا کرے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور یہ سند ضعیف ہے، ٣ - عنبسہ بن عبدالرحمٰن اور محم بن زاذان، دونوں حدیث بیان کرنے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (التحفہ : ٤٧٤٣) (موضوع) (سند میں عنبسہ اور محمد بن زاذان دونوں متروک الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (865) // ضعيف الجامع الصغير (3588) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2714
حدیث نمبر: 2714 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ أُمِّ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ كَاتِبٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ضَعِ الْقَلَمَ عَلَى أُذُنِكَ فَإِنَّهُ أَذْكَرُ لِلْمُمْلِي ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَهُوَ إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ، وَعَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زَاذَانَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১৫
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سریانی زبان کی تعلیم
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے یہود کی کچھ تحریر سیکھ لوں، آپ نے فرمایا : قسم اللہ کی ! میں یہود کی تحریر پر اعتماد و اطمینان نہیں کرتا ، چناچہ ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے آپ کے لیے اسے سیکھ لیا۔ کہتے ہیں : پھر جب میں نے سیکھ لیا اور آپ کو یہودیوں کے پاس کچھ لکھ کر بھیجنا ہوا تو میں نے لکھ کر ان کے پاس بھیج دیا، اور جب یہودیوں نے کوئی چیز لکھ کر آپ کے پاس بھیجی تو میں نے ان کی کتاب (تحریر) پڑھ کر آپ کو سنا دی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث اس سند کے علاوہ بھی دوسری سند سے زید بن ثابت (رض) سے مروی ہے، اسے اعمش نے ثابت بن عبید انصاری کے واسطہ سے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سریانی زبان سیکھ لوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٤٠ (٧١٩٥) (تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/ العلم ٢ (٣٦٤٥) (تحفة الأشراف : ٣٧٠٢) ، و مسند احمد (٥/١٨٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ یہود سے اگر کوئی چیز لکھائی جاتی یا ان سے کوئی چیز پڑھوائی جاتی دونوں صورتوں میں ان کی طرف سے کمی و زیادتی کا امکان تھا ، اسی خطرہ کے پیش نظر آپ نے زید بن ثابت کو یہود کی زبان سیکھنے کا حکم دیا ، یہ خطرہ آج بھی باقی ہے ، اور ساتھ ہی دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبانیں بھی سیکھی جائیں ، اس لیے امت مسلمہ کو چاہیئے کہ دنیا کی ہر زبان سیکھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (4659) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2715
حدیث نمبر: 2715 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كَلِمَاتٍ مِنْ كِتَابِ يَهُودَ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابٍ، قَالَ: فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَهْرٍ، حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ لَهُ، قَالَ: فَلَمَّا تَعَلَّمْتُهُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ إِلَيْهِمْ، وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، رَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ السُّرْيَانِيَّةَ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১৬
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مشرکین سے خط وکتابت کرنے کے متعلق
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے کسریٰ و قیصر، نجاشی اور سارے سرکش و متکبر بادشاہوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھ کر بھیجے۔ اس نجاشی سے وہ نجاشی (بادشاہ حبش اصحمہ) مراد نہیں ہے کہ جن کے انتقال پر نبی اکرم ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٢٧ (١٧٧٤) (تحفة الأشراف : ١١٧٩) ، و مسند احمد (٣/٣٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2716
حدیث نمبر: 2716 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَتَبَ قَبْلَ مَوْتِهِ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১৭
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مشرکین کو کس طرح خط تحریر کیا جائے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ابوسفیان بن حرب (رض) نے ان سے بیان کیا کہ وہ قریش کے کچھ تاجروں کے ساتھ شام میں تھے کہ ہرقل (شہنشاہ شام) نے انہیں بلا بھیجا، تو وہ سب اس کے پاس آئے، پھر سفیان نے آگے بات بڑھائی۔ کہا : پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا۔ پھر خط پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا «بسم اللہ الرحمن الرحيم من محمد عبدالله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم السلام علی من اتبع الهدى أمابعد» میں شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمان (بڑا مہربان) اور رحیم (نہایت رحم کرنے والا) ہے۔ یہ خط محمد کی جانب سے ہے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور ہرقل کے پاس بھیجا جا رہا ہے جو روم کے شہنشاہ ہیں۔ سلامتی ہے اس شخص کے لیے جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد : حمد و نعت کے بعد … الخ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوسفیان کا نام صخر بن حرب (رض) تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحی ١ (٧) ، والجھاد ١٠٢ (٢٩٤١) ، وتفسیر آل عمران ٤ (٤٥٥٣) ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٧ (١٧٧٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٢٨ (٥١٣٦) (تحفة الأشراف : ٤٨٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2717
حدیث نمبر: 2717 حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ بْنُ نَضْرٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّامِ، فَأَتَوْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ: صَخْرُ بْنُ حَرْبٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১৮
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خط پر مہر لگانے کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جب عجمی (بادشاہوں) کو خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ عجمی بغیر مہر لگا ہوا خط قبول نہیں کرتے چناچہ آپ نے (مہر کے لیے) ایک انگوٹھی بنوائی، تو ان میں آپ کی ہتھیلی میں اس کی چمک کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٧ (٦٥) ، والجھاد ١٠١ (٢٩٣٨) ، واللباس ٥٠ (٥٨٧٢) ، ٥٢ (٥٨٧٥) ، والأحکام ١٥ (٧١٦٢) ، صحیح مسلم/اللباس ١٣ (٢٠٩٢/٥٦) ، سنن ابی داود/ الخاتم ١ (٤٢١٤) ، سنن النسائی/الزینة ٤٧ (٥٢٠٤) (تحفة الأشراف : ١٣٦٨) ، و مسند احمد (٣/١٦٨-١٦٩، ١٧٠، ١٨١، ٢٢٣، ٢٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (74) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2718
حدیث نمبر: 2718 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا أَرَادَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الْعَجَمِ قِيلَ لَهُ: إِنَّ الْعَجَمَ لَا يَقْبَلُونَ إِلَّا كِتَابًا عَلَيْهِ خَاتَمٌ فَاصْطَنَعَ خَاتَمًا، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي كَفِّهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭১৯
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سلام کی کیفیت کے بارے میں
مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرے دو دوست (مدینہ) آئے، فقر و فاقہ اور جہد و مشقت کی بنا پر ہماری سماعت متاثر ہوگئی تھی ١ ؎ اور ہماری آنکھیں دھنس گئی تھیں، ہم نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے لگے لیکن ہمیں کسی نے قبول نہ کیا ٢ ؎، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے تو آپ ہمیں اپنے گھر لے آئے، اس وقت آپ کے پاس تین بکریاں تھیں۔ آپ نے فرمایا : ان کا دودھ ہم سب کے لیے دوہو ، تو ہم دوہتے اور ہر شخص اپنا حصہ پیتا اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے، پھر رسول اللہ ﷺ رات میں تشریف لاتے اور اس انداز سے سلام کرتے تھے کہ سونے والا جاگ نہ اٹھے اور جاگنے والا سن بھی لے ٣ ؎، پھر آپ مسجد آتے نماز تہجد پڑھتے پھر جا کر اپنے حصے کا دودھ پیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٣٢ (٢٠٥٥) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٢٣ (٣٢٣) (تحفة الأشراف : ١١٥٤٦) ، و مسند احمد (٦/٣٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہم اونچا سننے لگے تھے۔ ٢ ؎ : وہ سوچتے یہ تو خود ہی مر رہے ہیں یہ کیا کام کریں گے۔ اور وہ ہمیں کام نہ دیتے۔ ٣ ؎ : نہ آواز بھاری ، بلند اور کرخت ہوتی کہ سونے والا چونک کر اٹھ بیٹھے اور نہ ہی اتنی باریک ، ہلکی اور پست کہ جاگنے والا بھی نہ سن سکے۔ بلکہ آواز درمیانی ہوتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح آداب الزفاف ص (82 - 83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2719
حدیث نمبر: 2719 حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي قَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَهْدِ، فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَقْبَلُنَا، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى بِنَا أَهْلَهُ فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا ، فَكُنَّا نَحْتَلِبُهُ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ نَصِيبَهُ، وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ، فَيَجِيءُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ النَّائِمَ، وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২০
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ پیشاب کرنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو اس وقت سلام کیا جب آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٩٠ (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وهو مکرر الحديث (90) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2720 عبداللہ بن عمر (رض) نے اس سند سے اسی طرح روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علقمہ بن فغواء، جابر، براء اور مہاجر بن قنفد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وهو مکرر الحديث (90) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2720
حدیث نمبر: 2720 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ، يَعْنِي: السَّلَامَ . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ الْفَغْوَاءِ، وَجَابِرٍ، وَالْبَرَاءِ، وَالْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২১
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ ابتداء میں علیک السلام کہنا مکروہ ہے
جابر بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ سے ملنا چاہتا تھا، مگر آپ تک پہنچ نہ سکا، میں بیٹھا رہا پھر کچھ لوگ سامنے آئے جن میں آپ ﷺ بھی تھے۔ میں آپ سے واقف نہ تھا، آپ ان لوگوں میں صلح صفائی کرا رہے تھے، جب آپ (اس کام سے) فارغ ہوئے تو آپ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے، ان لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! جب میں نے (لوگوں کو) ایسا کہتے دیکھا تو میں نے کہا : «علیک السلام یا رسول اللہ»! (آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول) اور ایسا میں نے تین بار کہا، آپ نے فرمایا : «علیک السلام» میت کا سلام ہے ١ ؎، آپ نے بھی ایسا تین بار کہا، پھر آپ میری طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اور فرمایا : جب آدمی اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ کہے «السلام علیکم ورحمة اللہ» پھر آپ نے میرے سلام کا جواب اس طرح لوٹایا، فرمایا : «وعلیک ورحمة اللہ وعلیک ورحمة اللہ وعلیک ورحمة اللہ» (تین بار) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوغفار نے یہ حدیث بسند «ابو تمیمہ الہجیمی عن ابی جری جابر بن سلیم الہجیمی» سے روایت کی ہے، ہجیمی کہتے ہیں : میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا پھر آگے پوری حدیث بیان کردی۔ ابو تمیمہ کا نام طریف بن مجالد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٥١ (٥٢٠٩) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٢٣ (٣١٧-٣٢٠) (تحفة الأشراف : ٢١٢٣ و ١٥٥٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں «علیک السلام» کہنے کی جو ممانعت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سلام کا یہی رواج تھا ، ورنہ اسلام میں تو زندوں اور مردوں دونوں کے لیے «السلام علیکم» ہی سلام ہے ، چناچہ مردوں کے لیے سلام کے تعلق سے حدیث کے یہ الفاظ ہیں : «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1403) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2721
حدیث نمبر: 2721 حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: طَلَبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ، فَجَلَسْتُ فَإِذَا نَفَرٌ هُوَ فِيهِمْ وَلَا أَعْرِفُهُ وَهُوَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ مَعَهُ بَعْضُهُمْ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ، قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، ثَلَاثًا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: إِذَا لَقِيَ الرَّجُلُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ فَلْيَقُلِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو غِفَارٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ الْهُجَيْمِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ: طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২২
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ ابتداء میں علیک السلام کہنا مکروہ ہے
جابر بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، پھر آپ سے عرض کیا : «علیک السلام» آپ پر سلامتی ہو تو آپ نے فرمایا :«علیک السلام» مت کہو بلکہ «السلام علیک» کہو اور آگے پورا لمبا قصہ بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2721) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2722
حدیث نمبر: 2722 حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي غِفَارٍ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ الطَّائِيِّ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سُلَيمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: لَا تَقُلْ عَلَيْكَ السَّلَامُ، وَلَكِنْ قُلِ السَّلَامُ عَلَيْكَ ، وَذَكَرَ قِصَّةً طَوِيلَةً، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২৩
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ ابتداء میں علیک السلام کہنا مکروہ ہے
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی بات کہتے تو اسے تین بار دھراتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ فائدہ ١ ؎: تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٠ (٩٤، ٩٥) ، والاستئذان ١٣ (٦٢٤٤) (تحفة الأشراف : ٥٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح مختصر الشمائل (192) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2723
حدیث نمبر: 2723 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلَاثًا وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২৪
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابو واقد حارث بن عوف لیثی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ کے ساتھ لوگ بھی بیٹھے تھے، اسی دوران اچانک تین آدمی آئے، ان میں سے دو رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھ آئے، اور ایک واپس چلا گیا، جب وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر رکے تو انہوں نے سلام کیا، پھر ان دونوں میں سے ایک نے مجلس میں کچھ جگہ (گنجائش) دیکھی تو وہ اسی میں (گھس کر) بیٹھ گیا۔ اور دوسرا شخص ان لوگوں کے (یعنی صحابہ) کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا۔ اور تیسرا تو پیٹھ موڑے چلا ہی گیا تھا، پھر جب فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا : کیا میں تمہیں تینوں اشخاص کے متعلق نہ بتاؤں ؟ (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے نے شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور رہا تیسرا شخص تو اس نے اعراض کیا، چناچہ اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا، منہ پھیرلیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابو مرہ ام ہانی بنت ابی طالب (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام یزید ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عقیل ابن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٨ (٦٦) ، والصلاة ٨٤ (٤٧٤) ، صحیح مسلم/السلام ١٠ (٢١٧٦) (تحفة الأشراف : ١٥٥١٤) ، وط/السلام ٣ (٤) ، و مسند احمد (٥/٢١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2724
حدیث نمبر: 2724 حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَهُ، إِذْ أَقْبَلَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَهَبَ وَاحِدٌ، فَلَمَّا وَقَفَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلَّمَا، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا، وَأَمَّا الْآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَدْبَرَ ذَاهِبًا، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلَاثَةِ ؟ أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ فَأَوَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ، وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ وَاسْمُهُ: يَزِيدُ وَيُقَالُ: مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২৫
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم ﷺ کے پاس آتے تو جس کو جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یہ حدیث زہیر بن معاویہ نے سماک سے بھی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٦ (٤٨٢٥) (تحفة الأشراف : ٢١٧٣) ، و مسند احمد (٥/٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مجلس کو کشادہ رکھنا چاہیئے تاکہ ہر آنے والے کو مجلس میں بیٹھنے کیا جگہ مل جائے اور اس میں تنگی محسوس نہ کرے ، مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیئے ، دوسرے کو اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھنا ممنوع ہے ، اس میں رتبے و درجے کا کوئی اعتبار نہیں ، یہ اور بات ہے کہ بیٹھا ہوا شخص اپنے سے بڑے کے لیے جگہ خالی کر دے پھر تو اس جگہ بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (330) ، تخريج علم أبي خيثمة (100) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2725
حدیث نمبر: 2725 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ أَحَدُنَا حَيْثُ يَنْتَهِي ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَاهُ زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ سِمَاكٍ أَيْضًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২৬
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ (سند میں اس بات کی صراحت ہے کہ ابواسحاق نے براء سے سنا نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے، بالخصوص شعبہ کی روایت ہونے کی وجہ سے قوی ہے) انصار کے کچھ لوگ راستے میں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا : (یوں تو راستے میں بیٹھنا اچھا نہیں ہے) لیکن اگر تم بیٹھنا ضروری سمجھتے ہو تو سلام کا جواب دیا کرو، مظلوم کی مدد کیا کرو، اور (بھولے بھٹکے ہوئے کو) راستہ بتادیا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور ابوشریح خزاعی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٨٤) ، وانظر مسند احمد (٤/٢٨١، ٢٨٣، ٢٩١، ٢٩٣، ٣٠١) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٢٦ (٢٦٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح المتن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2726
حدیث نمبر: 2726 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، وَلَمْ يَسْمَعْهُ مِنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ فَاعِلِينَ فَرُدُّوا السَّلَامَ، وَأَعِينُوا الْمَظْلُومَ، وَاهْدُوا السَّبِيلَ ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৭২৭
آداب اور اجازت لینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصافحے کے متعلق
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور (سلام) و مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث براء سے متعدد سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٥٣ (٥٢١٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٦ (٣٧٠٣) (تحفة الأشراف : ١٧٩٩) ، و مسند احمد (٤/٢٨٩، ٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنا اور مصافحہ کرنا اگر ایک طرف دونوں میں محبت کا باعث ہے تو دوسری جانب گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہے ، اس مغفرت کا تعلق صرف صغیرہ گناہوں سے ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں سے ، کبیرہ گناہ تو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3703) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2727
حدیث نمبر: 2727 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَجْلَحِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْبَرَاءِ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْأَجْلَحُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيُّ.
তাহকীক: