আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
جنازوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১১৫ টি
হাদীস নং: ১০৪৫
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لحد ہمارے لئے ہیں اور شق دوسروں کے لئے ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بغلی قبر ہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لیے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں جریر بن عبداللہ، عائشہ، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٥ (٣٢٠٨) سنن النسائی/الجنائز ٨٥ (٢٠١١) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٩ (١٥٥٤) (تحفة الأشراف : ٥٥٤٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اہل کتاب کے لیے ہے ، مقصود یہ ہے کہ بغلی قبر افضل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ «اللحد لنا» کا مطلب ہے «اللحد لي» یعنی بغلی قبر میرے لیے ہے جمع کا صیغہ تعظیم کے لیے ہے یا «اللحد لنا» کا مطلب «اللحد اختيارنا» ہے یعنی بغلی قبر ہماری پسندیدہ قبر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صندوقی قبر مسلمانوں کے لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مدینہ میں قبر کھودنے والے دو شخص تھے ایک بغلی بنانے والا دوسرا شخص صندوقی بنانے والا اگر صندوقی ناجائز ہوتی تو انہیں اس سے روک دیا جاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1554) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1045
حدیث نمبر: 1045 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، ويوسف بن موسى القطان البغدادي، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا . وَفِي الْبَاب: عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৬
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت کو قبر میں اتارتے وقت کیا کہا جائے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب میت قبر میں داخل کردی جاتی (اور کبھی راوی حدیث ابوخالد کہتے) جب میت اپنی قبر میں رکھ دی جاتی تو آپ کبھی : «بسم اللہ وبالله وعلی ملة رسول الله» ، پڑھتے اور کبھی «بسم اللہ وبالله وعلی سنة رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» اللہ کے نام سے، اللہ کی مدد سے اور رسول اللہ ﷺ کے طریقہ پر میں اسے قبر میں رکھتا ہوں پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور اسے ابوالصدیق ناجی نے بھی ابن عمر سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے، ٣- نیز یہ صدیق الناجی کے واسطہ سے ابن عمر سے بھی موقوفاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٨ (١٥٥٠) (تحفة الأشراف : ٧٦٤٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1550) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1046
حدیث نمبر: 1046 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ قال، وَقَالَ أَبُو خَالِدٍ: مَرَّةً إِذَا وُضِعَ الْمَيِّتُ فِي لَحْدِهِ قَالَ مَرَّةً: بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ، وَقَالَ مَرَّةً: بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ أَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا أَيْضًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৭
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانا
عثمان بن فرقد کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سنا وہ اپنے باپ سے روایت کر رہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی قبر بغلی بنائی، وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ ﷺ کے مولی ٰ شقران ہیں، جعفر کہتے ہیں : اور مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا : اللہ کی قسم ! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر ١ ؎ بچھائی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- شقران کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٨٤٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ چادر جھالردار تھی جسے شقران نے قبر میں نبی اکرم ﷺ کے نیچے بچھایا تھا تاکہ اسے آپ کے بعد کوئی استعمال نہ کرسکے خود شقران کا بیان ہے کہ «كرهت أن يلبسها أحد بعد رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» امام شافعی اور ان کے اصحاب اور دیگر بہت سے علماء نے قبر میں کوئی چادر یا تکیہ وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے اور یہی جمہور کا قول ہے اور اس حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ ایسا کرنے میں شقران منفرد تھے صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی تھی اور صحابہ کرام کو یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا اور واقدی نے علی بن حسین سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے نکلوا دیا تھا ، ابن عبدالبر نے قطعیت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ مٹی ڈال کر قبر برابر کرنے سے پہلے یہ چادر نکال دی گئی تھی اور ابن سعد نے طبقات ٢/٢٩٩ میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے لیے خاص ہے اور حسن بصری سے ایک روایت میں ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے یہ سرخ چادر بچھائی گئی تھی جسے آپ ﷺ اوڑھتے تھے اور حسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ «قال رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم فرشوا لي قطيفتي في لحدي فإن الأرض لم تسلط علی أجساد الأنبياء» ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ چادر نکال دی گئی تھی اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نہیں نکالی گئی تھی تو اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص مانا جائے گا دوسروں کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1047
حدیث نمبر: 1047 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَرْقَدٍ، قَال: سَمِعْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: الَّذِي أَلْحَدَ قَبْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو طَلْحَةَ، وَالَّذِي أَلْقَى الْقَطِيفَةَ تَحْتَهُ شُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . قَالَ جَعْفَرٌ: وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، قَال: سَمِعْتُ شُقْرَانَ، يَقُولُ: أَنَا وَاللَّهِ طَرَحْتُ الْقَطِيفَةَ تَحْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ شُقْرَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ فَرْقَدٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৮
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی قبر میں ایک لال چادر رکھی گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے بھی روایت کی ہے، ان کا نام عمران بن ابی عطا ہے، اور ابوجمرہ ضبعی سے بھی روایت کی گئی ہے، ان کا نام نصر بن عمران ہے۔ یہ دونوں ابن عباس کے شاگرد ہیں، ٣- ابن عباس سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قبر میں میت کے نیچے کسی چیز کے بچھانے کو مکروہ جانا ہے۔ بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٠ (٩٦٧) سنن النسائی/الجنائز ٨٨ (٢٠١٤) (تحفة الأشراف : ٦٥٢٦) مسند احمد ( ١/٢٢٨، ٣٥٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1048
حدیث نمبر: 1048 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جُعِلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ . قَالَ: وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ وَاسْمُهُ: عِمْرَانُ بْنُ أَبِي عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ وَاسْمُهُ: نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ، وَكِلَاهُمَا مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَدْ رُوِى عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُلْقَى تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ شَيْءٌ، وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৯
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبروں کو زمین کے برابر کردینا
ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے ابوالہیاج اسدی سے کہا : میں تمہیں ایک ایسے کام کے لیے بھیج رہا ہوں جس کے لیے نبی اکرم ﷺ نے مجھے بھیجا تھا : تم جو بھی ابھری قبر ہو، اسے برابر کئے بغیر اور جو بھی مجسمہ ہو ١ ؎، اسے مسمار کئے بغیر نہ چھوڑنا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبر کو زمین سے بلند رکھنے کو مکروہ (تحریمی) قرار دیتے ہیں، ٤- شافعی کہتے ہیں کہ قبر کے اونچی کئے جانے کو میں مکروہ (تحریمی) سوائے اتنی مقدار کے جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ قبر ہے تاکہ وہ نہ روندی جائے اور نہ اس پر بیٹھا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢١ (٩٦٩) سنن ابی داود/ الجنائز ٧٢ (٣٢١٨) سنن النسائی/الجنائز ٩٩ (٢٠٣٣) (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٣) مسند احمد (١/٩٦، ١٢٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مراد کسی ذی روح کا مجسمہ ہے۔ ٢ ؎ : اس سے قبر کو اونچی کرنے یا اس پر عمارت بنانے کی ممانعت نکلتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (207) ، الإرواء (759) ، تحذير الساجد (130) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1049
حدیث نمبر: 1049 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، أَنَّعَلِيًّا، قَالَ لِأَبِي الْهَيَّاجِ الْأَسَدِيّ: أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا تَدَعَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ، وَلَا تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَكْرَهُونَ أَنْ يُرْفَعَ الْقَبْرُ فَوْقَ الْأَرْضِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: أَكْرَهُ أَنْ يُرْفَعَ الْقَبْرُ إِلَّا بِقَدْرِ مَا يُعْرَفُ أَنَّهُ قَبْرٌ لِكَيْلَا يُوطَأَ وَلَا يُجْلَسَ عَلَيْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫০
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبروں پر چلنا اور بیٹھنا منع ہے۔
ابومرثد غنوی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قبروں پر نہ بیٹھو ١ ؎ اور نہ انہیں سامنے کر کے نماز پڑھو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ، عمرو بن حزم اور بشیر بن خصاصیہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٣ (٩٧٢) سنن ابی داود/ الجنائز ٧٧ (٣٢٢٩) سنن النسائی/القبلة ١١ (٧٦١) (تحفة الأشراف : ١١١٦٩) مسند احمد (٤/١٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں قبر پر بیٹھنے کی حرمت کی دلیل ہے ، یہی جمہور کا مسلک ہے اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کی تذلیل ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے توقیر و تکریم سے نوازا ہے۔ ٢ ؎ : اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مشرکین کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے اور غیر اللہ کی تعظیم کا پہلو بھی نکلتا ہے جو شرک تک پہنچانے والا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (209 - 210) ، تحذير الساجد (33) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1050
حدیث نمبر: 1050 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ، حَدَّثَنَامُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ. عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫১
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبروں پر چلنا اور بیٹھنا منع ہے۔
اس طریق سے بھی ابومرشد غنوی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ اس سند میں ابوادریس کا واسطہ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ابن مبارک کی روایت غلط ہے، اس میں ابن مبارک سے غلطی ہوئی ہے انہوں نے اس میں ابوادریس خولانی کا واسطہ بڑھا دیا ہے، صحیح یہ ہے کہ بسر بن عبداللہ نے بغیر واسطے کے براہ راست واثلہ سے روایت کی ہے، اسی طرح کئی اور لوگوں نے عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے روایت کی ہے اور اس میں ابوادریس کے واسطے کا ذکر نہیں ہے۔ اور بسر بن عبداللہ نے واثلہ بن اسقع سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1050) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1051
حدیث نمبر: 1051 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، عن أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، وَهَذَا الصَّحِيحُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ ابْنِ الْمُبَارَكِ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَزَادَ فِيهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، وَإِنَّمَا هُوَ بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ وَاثِلَةَ، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، وَبُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَدْ سَمِعَ مِنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫২
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبروں کو پختہ کرنا، ان کے اردگرد اوپر لکھنا حرام ہے۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ١ ؎، ان پر لکھا جائے ٢ ؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ٣ ؎ اور انہیں روندا جائے ٤ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ اور بھی طرق سے جابر سے مروی ہے، ٣- بعض اہل علم نے قبروں پر مٹی ڈالنے کی اجازت دی ہے، انہیں میں سے حسن بصری بھی ہیں، ٤- شافعی کہتے ہیں : قبروں پر مٹی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٢ (٩٧٠) سنن ابی داود/ الجنائز ٧٦ (٣٢٢٥) سنن النسائی/الجنائز ٩٦ (٢٠٢٩) (تحفة الأشراف : ٢٧٩٦) مسند احمد (٣/٢٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس ممانعت کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچا دیتی ہے۔ ٢ ؎ : یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اور تبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اور اسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔ ٣ ؎ : مثلاً قبّہ وغیرہ۔ ٤ ؎ : یہ ممانعت میت کی توقیر و تکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل و توہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (204) ، تحذير الساجد (40) ، الإرواء (757) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1052
حدیث نمبر: 1052 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْجَابِرٍ، قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ الْقُبُورُ، وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا، وَأَنْ تُوطَأَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي تَطْيِينِ الْقُبُورِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ أَنْ يُطَيَّنَ الْقَبْرُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৩
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبرستان جانے کی دعا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے، تو ان کی طرف رخ کر کے آپ نے فرمایا :«السلام عليكم يا أهل القبور يغفر اللہ لنا ولکم أنتم سلفنا ونحن بالأثر» سلامتی ہو تم پر اے قبر والو ! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے تم ہمارے پیش روہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- اس باب میں بریدہ (رض) اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٤٠٣) (ضعیف) (اس کے راوی ” قابوس “ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے صحابہ کی روایت سے یہ حدیث ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1765) // ضعيف الجامع الصغير (3372) ، أحكام الجنائز (197) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1053
حدیث نمبر: 1053 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، عَنْ أَبِي كُدَيْنَةَ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمَدِينَةِ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْأَثَرِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ بُرَيْدَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو كُدَيْنَةَ: اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ، وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُهُ: حُصَيْنُ بْنُ جُنْدُبٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৪
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبروں کی زیارت کی اجازت
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، ابن مسعود، انس، ابوہریرہ اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧) (بزیادة فی السیاق) ( تحفة الأشراف : ١٩٣٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الأضاحی ٥ (٩٧٧) سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٨) سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤) والأضاحی ٣٥ (٤٤٣٤، ٤٤٣٥) مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس میں قبروں کی زیارت کا استحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اور تاکید ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانہ جاہلیت کے اثر سے وہاں کوئی غلط کام نہ کر بیٹھیں پھر جب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدہ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دے دی گئی بلکہ اس کی تاکید کی گئی تاکہ موت کا تصور انسان کے دل و دماغ میں ہر وقت رچا بسا رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (178 و 188) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1054
حدیث نمبر: 1054 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمِ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْآخِرَةَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ: ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৫
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عورتوں کو قبروں کی زیارت کرنا ممنوع ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس اور حسان بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے قبروں کی زیارت کی اجازت دینے سے پہلے کی بات ہے۔ جب آپ نے اس کی اجازت دے دی تو اب اس اجازت میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں، ٤- بعض کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت ان کی قلت صبر اور کثرت جزع فزع کی وجہ سے مکروہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٩ (١٥٧٦) (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٠) مسند احمد (٢/٣٣٧، ٣٥٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1576) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1056
حدیث نمبر: 1056 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ هَذَا كَانَ قَبْلَ أَنْ يُرَخِّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِهِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا كُرِهَ زِيَارَةُ الْقُبُورِ لِلنِّسَاءِ لِقِلَّةِ صَبْرِهِنَّ وَكَثْرَةِ جَزَعِهِنَّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৬
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عورتوں کا قبر کی زیارت کرنا
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر حبشہ میں وفات پا گئے تو انہیں مکہ لا کر دفن کیا گیا، جب ام المؤمنین عائشہ (رض) (مکہ) آئیں تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) کی قبر پر آ کر انہوں نے یہ اشعار پڑھے۔ «وكنا کندماني جذيمة حقبة من الدهر حتی قيل لن يتصدعا فلما تفرقنا كأني ومالکا لطول اجتماع لم نبت ليلة معا» ہم دونوں ایک عرصے تک ایک ساتھ ایسے رہے تھے جیسے بادشاہ جزیمہ کے دو ہم نشین، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ پھر جب ہم جدا ہوئے تو مدت دراز تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایسا لگنے لگا گویا میں اور مالک ایک رات بھی کبھی ایک ساتھ نہ رہے ہوں ۔ پھر کہا : اللہ کی قسم ! اگر میں تمہارے پاس موجود ہوتی تو تجھے وہیں دفن کیا جاتا جہاں تیرا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر رہی ہوتی تو تیری زیارت کو نہ آتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج ثقہ راوی ہیں، لیکن تدلیس اور ارسال کرتے تھے اور یہاں پر روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1718) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1055
حدیث نمبر: 1055 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ بالحبْشِيَّ، قَالَ: فَحُمِلَ إِلَى مَكَّةَ، فَدُفِنَ فِيهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَةُ، أَتَتْ قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَوْ حَضَرْتُكَ مَا دُفِنْتَ إِلَّا حَيْثُ مُتَّ، وَلَوْ شَهِدْتُكَ مَا زُرْتُكَ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৭
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رات کو دفن کرنا
آپ نے میت کو قبلے کی طرف سے لیا۔ اور فرمایا : اللہ تم پر رحم کرے ! تم بہت نرم دل رونے والے، اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں جابر اور یزید بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں اور یزید بن ثابت، زید بن ثابت کے بھائی ہیں، اور ان سے بڑے ہیں، ٣- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میت کو قبر میں قبلے کی طرف سے اتارا جائے گا ١ ؎، ٤- بعض کہتے ہیں : پائتانے کی طرف سے رکھ کر کھینچ لیں گے ٢ ؎، ٥- اور اکثر اہل علم نے رات کو دفن کرنے کی اجازت دی ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٠ (١٥٢٠) (ولفظہ ” أدخل رجلاً قبرہ لیلا، وأسرج قبرہ “ وسقط من سندہ الحجا) ( تحفة الأشراف : ٥٨٨٩) (ضعیف) (سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، قابل استدلال نہیں ہے۔ ٢ ؎ : یہی مذہب امام شافعی ، امام احمد اور اکثر لوگوں کا ہے اور دلیل کے اعتبار سے قوی اور راجح بھی یہی ہے ، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید (رض) نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبر میں اتارا اور کہا : سنت طریقہ یہی ہے ، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے اور ساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اور ابواسحاق سبیعی کی جو روایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ «معنعن» ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔ ٣ ؎ : حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اور جابر کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے «ان النبي صلی اللہ عليه وسلم زجرأن یقبرالرجل لیلاً حتیٰ یصلیٰ علیہ» (رواہ مسلم ) اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ زجر نماز جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی ، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے ، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیا کفن دینے کے لیے کرتے تھے لہٰذا اگر ان چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تو رات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں ، نبی اکرم ﷺ کی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیسا کہ احمد نے عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکر و عمر کی تدفین بھی رات میں ہوئی اور فاطمہ (رض) کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن موضع الشاهد منه حسن، المشکاة (2706) ، الأحكام (142) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1057
حدیث نمبر: 1057 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ قَبْرًا لَيْلًا فَأُسْرِجَ لَهُ سِرَاجٌ فَأَخَذَهُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ، وَقَالَ: رَحِمَكَ اللَّهُ إِنْ كُنْتَ لَأَوَّاهًا تَلَّاءً لِلْقُرْآنِ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَكْبَرُ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَقَالُوا: يُدْخَلُ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُسَلُّ سَلًّا، وَرَخَّصَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৮
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی تعریف کی ١ ؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (جنت) واجب ہوگئی پھر فرمایا : تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، کعب بن عجرہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨١٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٨٥ (١٣٦٧) والشہادات ٦ (٢٦٤٢) صحیح مسلم/الجنائز ٢٠ (٩٤٩) سنن النسائی/الجنائز ٥٠ (١٩٣٤) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٠ (١٤٩١) مسند احمد (٣/١٧٩، ١٨٦، ١٩٧، ٢٤٥، ٢٨١) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے کہا : یہ فلاں کا جنازہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا تھا اور اللہ کی اطاعت کرتا تھا اور اس میں کوشاں رہتا تھا۔ ٢ ؎ : یہ خطاب صحابہ کرام (رض) اور ان کے طریقے پر چلنے والوں سے ہے ، ابن القیم نے بیان کیا ہے کہ یہ صحابہ کے ساتھ خاص ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1491)
حدیث نمبر: 1058 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: مُرَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَجَبَتْ ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৫৯
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا
ابوالاسود الدیلی کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا، تو عمر بن خطاب (رض) کے پاس آ کر بیٹھا اتنے میں کچھ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی تعریف کی عمر (رض) نے کہا : واجب ہوگئی، میں نے عمر (رض) سے پوچھا : کیا چیز واجب ہوگئی ؟ تو انہوں نے کہا : میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے کہی ہے۔ آپ نے فرمایا : جس کسی بھی مسلمان کے (نیک ہونے کی) تین آدمی گواہی دیں، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ ہم نے عرض کیا : اگر دو آدمی گواہی دیں ؟ آپ نے فرمایا : دو آدمی بھی ہم نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کی گواہی کے بارے میں نہیں پوچھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٥ (١٣٦٨) والشہادات ٦ (٢٦٤٣) سنن النسائی/الجنائز ٥٠ (١٩٣٦) (تحفة الأشراف : ١٠٤٧٢) مسند احمد (١/٢٢، ٣٠، ٤٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (45) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1059
حدیث نمبر: 1059 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَمَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ: وَمَا وَجَبَتْ ؟ قَالَ: أَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ لَهُ ثَلَاثَةٌ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ . قَالَ: قُلْنَا: وَاثْنَانِ، قَالَ: وَاثْنَانِ ، قَالَ: وَلَمْ نَسْأَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوَاحِدِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْأَسْوَدِ الدِّيلِيُّ اسْمُهُ: ظَالِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سُفْيَانَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬০
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس مسلمان کے تین بچے فوت ہوجائیں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر قسم پوری کرنے کے لیے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، معاذ، کعب بن مالک، عتبہ بن عبد، ام سلیم، جابر، انس، ابوذر، ابن مسعود، ابوثعلبہ اشجعی، ابن عباس، عقبہ بن عامر، ابو سعید خدری اور قرہ بن ایاس مزنی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ابوثعلبہ اشجعی کی نبی اکرم ﷺ سے صرف ایک ہی حدیث ہے، اور وہ یہی حدیث ہے، اور یہ خشنی نہیں ہیں (ابوثعلبہ خشنی دوسرے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ٩ (٦٦٥٦) صحیح مسلم/البروالصلة ٤٧ (٢٦٣٢) سنن النسائی/الجنائز ٢٥ (١٨٧٦) (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٤) مسند احمد (٢/٤٧٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٦ (١٢٥١) صحیح مسلم/الجنائز (المصدر المذکور) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٧ (١٦٠٣) مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٧٦، ٤٧٩) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : «تحلۃ القسم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا فرمان «وإن منکم إلا واردها» تم میں سے ہر شخص اس جہنم میں وارد ہوگا ، ہے اور وارد سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1603) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1060
حدیث نمبر: 1060 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. ح وحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَمُوتُ لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ فَتَمَسَّهُ النَّارُ إِلَّا تَحِلَّةَ الْقَسَمِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَمُعَاذٍ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ، وَأُمِّ سُلَيْمٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي ثَعْلَبَةَ الْأَشْجَعِيِّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ: وَأَبُو ثَعْلَبَةَ الْأَشْجَعِيُّ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ وَاحِدٌ هُوَ هَذَا الْحَدِيثُ، وَلَيْسَ هُوَ الْخُشَنِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬১
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تین بچوں کو (لڑکے ہوں یا لڑکیاں) بطور ذخیرہ آخرت کے آگے بھیج دیا ہو، اور وہ سن بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچانے کا ایک مضبوط قلعہ ہوں گے ۔ اس پر ابوذر (رض) نے عرض کیا : میں نے دو بچے بھیجے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : دو بھی کافی ہیں ۔ تو ابی بن کعب سید القراء ١ ؎ (رض) نے عرض کیا : میں نے ایک ہی بھیجا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ایک بھی کافی ہے۔ البتہ یہ قلعہ اس وقت ہوں گے جب وہ پہلے صدمے کے وقت یعنی مرنے کے ساتھ ہی صبر کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ابوعبیدہ عبیدہ نے اپنے والد عبداللہ بن مسعود (رض) سے نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٧ (١٦٠٦) (تحفة الأشراف : ٩٦٣٤) مسند احمد (١/٣٧٥، ٤٢٩، ٤٥١) (ضعیف) (سند میں ” ابو محمد مجہول ہیں، اور ” ابو عبیدہ “ کا اپنے باپ ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : انہیں سیدالقراء اس لیے کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا ہے : «أقرؤكم أبي» تم میں سب سے بڑے قاری ابی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1606) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (351) ، المشکاة (1755) ، ضعيف الجامع الصغير (5754) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1061
حدیث نمبر: 1061 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَدَّمَ ثَلَاثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ، كَانُوا لَهُ حِصْنًا حَصِينًا مِنَ النَّارِ . قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدَّمْتُ اثْنَيْنِ، قَالَ: وَاثْنَيْنِ ، فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ سَيِّدُ الْقُرَّاءِ: قَدَّمْتُ وَاحِدًا، قَالَ: وَوَاحِدًا، وَلَكِنْ إِنَّمَا ذَاكَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬২
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب
عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میری امت میں سے جس کے دو پیش رو ہوں، اللہ اسے ان کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا اس پر عائشہ (رض) نے عرض کیا : آپ کی امت میں سے جس کے ایک ہی پیش رو ہو تو ؟ آپ نے فرمایا : جس کے ایک ہی پیش رو ہو اسے بھی، اے توفیق یافتہ خاتون ! (پھر) انہوں نے پوچھا : آپ کی امت میں جس کا کوئی پیش رو ہی نہ ہو اس کا کیا ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا : میں اپنی امت کا پیش رو ہوں کسی کی جدائی سے انہیں ایسی تکلیف نہیں ہوگی جیسی میری جدائی سے انہیں ہوگی ۔
حدیث نمبر: 1062 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَأَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ بَارِقٍ الْحَنَفِيُّ، قَال: سَمِعْتُ جَدِّي أَبَا أُمِّي سِمَاكَ بْنَ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيّ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ كَانَ لَهُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِي أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِمَا الْجَنَّةَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ ؟ قَالَ: وَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ يَا مُوَفَّقَةُ . قَالَتْ: فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ ؟ قَالَ: فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِي لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِي . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ بَارِقٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৩
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شہداء کون ہیں ؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہید پانچ لوگ ہیں : جو طاعون میں مرا ہو، جو پیٹ کے مرض سے مرا ہو، جو ڈوب کر مرا ہو، جو دیوار وغیرہ گر جانے سے مرا ہو، اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، صفوان بن امیہ، جابر بن عتیک، خالد بن عرفطہٰ ، سلیمان بن صرد، ابوموسیٰ اشعری اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٢ (٦٥٢) و ٧٣ (٧٢٠) (بزیادة فی السیاق) والجہاد ٣٠ (٢٨٢٩) والطب ٣٠ (٥٧٣٣) صحیح مسلم/الإمارة ٥١ (١٩١٤) (بزیادة في السیاق) موطا امام مالک/الجماعة ٢ (٦) (بزیادة فی السیاق) مسند احمد (٢/٣٢٥، ٥٣٣) (بزیادة فی السیاق) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الإمارة (المصدر المذکور) سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٧ (٢٨٠٤) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : یہ پانچ قسم کے افراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز شہیدوں کا ثواب عطا فرمائے گا بعض روایات میں کچھ اور لوگوں کا بھی ذکر ہے ان احادیث میں تضاد نہیں اس لیے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ کو اتنے ہی لوگوں کے بارے میں بتایا گیا بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس فہرست میں کچھ مزید لوگوں کا بھی اضافہ فرما دیا ان میں «شہید فی سبیل اللہ» کا درجہ سب سے بلند ہے کیونکہ حقیقی شہید وہی ہے بشرطیکہ وہ صدق دلی سے اللہ کی راہ میں لڑا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (38) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1063
حدیث نمبر: 1063 حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الشُّهَدَاءُ خَمْسٌ: الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، وَخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৬৪
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شہداء کون ہیں ؟
ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ سلیمان بن صرد نے خالد بن عرفطہٰ سے (یا خالد نے سلیمان سے) پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے نہیں سنا ؟ جسے اس کا پیٹ مار دے ١ ؎ اسے قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا تو ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا : ہاں (سنا ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس کے علاوہ یہ اور بھی طریق سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١١١ (٢٠٥٤) (تحفة الأشراف : ٣٥٠٣ و ٤٥٦٧) مسند احمد (٤/٢٦٢) و (٥/٢٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہیضہ اور اسہال وغیرہ سے مرجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (38) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1064
حدیث نمبر: 1064 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنِ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق السَّبِيعِيِّ، قَالَ: قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ لِخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ، أَوْ خَالِدٌ لِسُلَيْمَانَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ قَتَلَهُ بَطْنُهُ لَمْ يُعَذَّبْ فِي قَبْرِهِ . فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: نَعَمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ فِي هَذَا الْبَابِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক: