আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
جنازوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১১৫ টি
হাদীস নং: ১০০৫
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس لے گئے تو دیکھا کہ ابراہیم کا آخری وقت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ابراہیم کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور رو دیا۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا : کیا آپ رو رہے ہیں ؟ کیا آپ نے رونے منع نہیں کیا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا : نہیں، میں تو دو احمق فاجر آوازوں سے روکتا تھا : ایک تو مصیبت کے وقت آواز نکالنے، چہرہ زخمی کرنے سے اور گریبان پھاڑنے سے، دوسرے شیطان کے نغمے سے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٤٨٣) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : شیطان کے نغمے سے مراد غناء مزامیر ہیں ، یعنی گانا بجانا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1005
حدیث نمبر: 1005 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ فَوَجَدَهُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ، فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ فِي حِجْرِهِ فَبَكَى، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَتَبْكِي، أَوَلَمْ تَكُنْ نَهَيْتَ عَنِ الْبُكَاءِ، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ نَهَيْتُ عَنْ صَوْتَيْنِ أَحْمَقَيْنِ فَاجِرَيْنِ: صَوْتٍ عِنْدَ مُصِيبَةٍ، خَمْشِ وُجُوهٍ، وَشَقِّ جُيُوبٍ، وَرَنَّةِ شَيْطَانٍ . وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০৬
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے
عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے سنا اور ان سے ذکر کیا گیا تھا کہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میت پر لوگوں کے رونے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے (عائشہ (رض) نے کہا) اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے۔ سنو، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا۔ بلکہ ان سے بھول ہوئی ہے یا وہ چوک گئے ہیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک یہودی عورت کے پاس سے ہوا جس پر لوگ رو رہے تھے۔ تو آپ نے فرمایا : یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٩) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٧ (١٨٥) (تحفة الأشراف : ١٧٩٤٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/المغازي ٨ (٣٩٧٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣١) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٢٩ (٣١٣٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١٥ (١٨٥٦، ١٨٥٨، ١٨٥٩) ، مسند احمد (٢/٣٨) ، و (٦/٣٩، ٥٧، ٩٥، ٢٠٩) من غیر ہذا الوجہ والسیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (28) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1006
حدیث نمبر: 1006 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: وحَدَّثَنَا، إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ، وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ 74.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০৭
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کے آگے چلنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر سب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٩ (٣١٧٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٦ (١٩٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٢) ، مسند احمد (٢/٨، ١٢٢) (تحفة الأشراف : ٦٨٢) (صحیح) وأخرجہ ما لک في المؤطا/الجنائز ٢ (٨) عن الزہري مرسلاً ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1482) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1007
حدیث نمبر: 1007 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০৮
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کے آگے چلنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) سب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٦٨٠٨ و ٦٨١٢ و ٦٩٧٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1008
حدیث نمبر: 1008 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَزِيَادٍ، وَسُفْيَانَ، كلهم يذكروَبَكْرٍ الْكُوفِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০৯
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کے آگے چلنا
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے، اور زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ معمر، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اور بھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے، ٢- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٣- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے، ٤- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیاد بن سعد، منصور، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے، ٥- اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ١ ؎، ٦- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : و موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٨) ، انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٩٣٩٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ملاحظہ ہو اگلی حدیث ( ١٠١٠) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آرہی ہے «الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها» تو یہ روایت صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آرہی ہے۔ ( ملاحظہ ہو : ١٠١١) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1009
حدیث نمبر: 1009 حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ . قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ هَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَرَوَى مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَالِكٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عنالزُّهْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ . وَأَهْلُ الْحَدِيثِ كُلُّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ فِي ذَلِكَ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت يَحْيَى بْنَ مُوسَى، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا مُرْسَلٌ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَأَرَى ابْنَ جُرَيْجٍ أَخَذَهُ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ زِيَادٍ وَهُوَ: ابْنُ سَعْدٍ، وَمَنْصُورٍ، وَبَكْرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَإِنَّمَا هُوَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، رَوَى عَنْهُ هَمَّامٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّ الْمَشْيَ أَمَامَهَا أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، قَالَ: وَحَدِيثُ أَنَسٍ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১০
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کے آگے چلنا
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) جنازے کے آگے چلتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : یہ حدیث غلط ہے اس میں محمد بن بکر نے غلطی کی ہے۔ یہ حدیث یونس سے روایت کی جاتی ہے، اور یونس زہری سے (مرسلاً ) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں : مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے آگے چلتے تھے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : یہ زیادہ صحیح ہے۔ (دیکھئیے سابقہ حدیث ١٠٠٩) تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٣) (تحفة الأشراف : ١٥٦٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1483) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1010
حدیث نمبر: 1010 حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا أَصَحُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১১
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازے کے پیچھے چلنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے جنازے کے پیچھے چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : ایسی چال چلے جو دلکی چال سے دھیمی ہو۔ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے جلدی قبر میں پہنچا دو گے اور اگر برا ہے تو جہنمیوں ہی کو دور ہٹایا جاتا ہے۔ جنازہ کے پیچھے چلنا چاہیئے، اس سے آگے نہیں ہونا چاہیئے، جو جنازہ کے آگے چلے وہ اس کے ساتھ جانے والوں میں سے نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابو حامد کی اس حدیث کو ضعیف بتاتے سنا ہے، ٣- محمد بن اسماعیل بخاری کا بیان ہے کہ حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا : ابوماجد کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ایک اڑتی چڑیا ہے جس سے ہم نے روایت کی ہے، یعنی مجہول راوی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٥٠ (٣٠٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٤) (ضعیف) (سند میں یحییٰ الجابر لین الحدیث، اور ابو ماجد مجہول ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1484) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (324) ، ضعيف الجامع الصغير (5066) ، المشکاة (1669) ، ضعيف أبي داود (698 / 3184) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1011
حدیث نمبر: 1011 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَحْيَى إِمَامِ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي مَاجِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَشْيِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، قَالَ: مَا دُونَ الْخَبَبِ فَإِنْ كَانَ خَيْرًا عَجَّلْتُمُوهُ، وَإِنْ كَانَ شَرًّا فَلَا يُبَعَّدُ إِلَّا أَهْلُ النَّارِ الْجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ وَلَا تَتْبَعُ وَلَيْسَ مِنْهَا مَنْ تَقَدَّمَهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يُضَعِّفُ حَدِيثَ أَبِي مَاجِدٍ لِهَذَا، وقَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: قِيلَ لِيَحْيَى: مَنْ أَبُو مَاجِدٍ هَذَا، قَالَ: طَائِرٌ طَارَ فَحَدَّثَنَا، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، رَأَوْا أَنَّ الْمَشْيَ خَلْفَهَا أَفْضَلُ، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَإِسْحَاق. قَالَ: إِنَّ أَبَا مَاجِدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ لَا يُعْرَفُ، إِنَّمَا يُرْوَى عَنْهُ حَدِيثَانِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَيَحْيَى إِمَامُ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ ثِقَةٌ، يُكْنَى أَبَا الْحَارِثِ، وَيُقَالُ لَهُ: يَحْيَى الْجَابِرُ، وَيُقَالُ لَهُ: يَحْيَى الْمُجْبِرُ أَيْضًا، وَهُوَ كُوفِيٌّ، رَوَى لَهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَأَبُو الْأَحْوَصِ، وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১২
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کے پیچھے سوار ہو کر چلنا مکروہ ہے۔
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، آپ نے کچھ لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا : کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھوں پر بیٹھے ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ثوبان کی حدیث، ان سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ان کی موقوف روایت زیادہ صحیح ہے، ٢- اس باب میں مغیرہ بن شعبہ اور جابر بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٨٠) (ضعیف) (سند میں ابوبکر بن ابی مریم ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث جنازہ کے پیچھے سوار ہو کر چلنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی روایت اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا «الراکب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها عن يمينها ويسارها قريبا منها» سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلتا ہے جب کہ پیدل چلنے والا اس کے پیچھے ، آگے ، دائیں ، بائیں قریب ہو کر چلتا ہے ۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق کئی طرح سے دی جاتی ہے ایک یہ کہ ثوبان کی روایت ضعیف ہے ، دوسرے یہ کہ یہ غیر معذور کے سلسلہ میں ہے اور مغیرہ بن شعبہ کی روایت معذور شخص کے سلسلہ میں ہے ، تیسرے یہ کہ ثوبان کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ وہ سوار جنازے کے پیچھے تھے ، ہوسکتا ہے کہ وہ جنازے کے آگے رہے ہوں یا جنازہ کے بغل میں رہے ہوں اس صورت میں یہ مغیرہ کی حدیث کے منافی نہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1480) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (323) ، الأحكام ص (75) الملحق، المشکاة (1672) ، ضعيف الجامع الصغير (2177) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1012
حدیث نمبر: 1012 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَرَأَى نَاسًا رُكْبَانًا، فَقَالَ: أَلَا تَسْتَحْيُونَ، إِنَّ مَلَائِكَةَ اللَّهِ عَلَى أَقْدَامِهِمْ وَأَنْتُمْ عَلَى ظُهُورِ الدَّوَابِّ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مَوْقُوفًا، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمَوْقُوفُ مِنْهُ أَصَحُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৩
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازے کے پیچھے سواری پر سوار ہو کر جانے کی اجازت
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ابودحداح کے جنازے میں تھے، آپ لوٹتے وقت ایک گھوڑے پر سوار تھے جو تیز چل رہا تھا، ہم اس کے اردگرد تھے اور وہ آپ کو لے کر اچھلتے ہوئے چل رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٨ (٩٦٥) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٤٨ (٣١٧٨) ، مسند احمد (٥/٩٠) (تحفة الأشراف : ٢١٨٠) (صحیح) وأخرجہ : سنن النسائی/الجنائز ٩٥ (٢٠٢٨) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (75) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1013
حدیث نمبر: 1013 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ أَبِي الدَّحْدَاحِ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يَسْعَى وَنَحْنُ حَوْلَهُ وَهُوَ يَتَوَقَّصُ بِهِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৪
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازے کے پیچھے سواری پر سوار ہو کر جانے کی اجازت
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ابودحداح کے جنازہ کے پیچھے پیدل گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر لوٹے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢١٤٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جنازے سے واپسی میں سوار ہو کر واپس آنا جائز ہے ، علماء اسے بلا کراہت جائز قرار دیتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1013) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1014
حدیث نمبر: 1014 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، عَنْ الْجَرَّاحِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّبَعَ جَنَازَةَ أَبِي الدَّحْدَاحِ مَاشِيًا وَرَجَعَ عَلَى فَرَسٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৫
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کو جلدی لے جانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جنازہ تیزی سے لے کر چلو ١ ؎، اگر وہ نیک ہوگا تو اسے خیر کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر وہ برا ہوگا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر (جلد) رکھ دو گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥١ (١٣١٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٦ (٩٤٤) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٠ (٣١٨١) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٤ (١٩١١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٧٧) (تحفة الأشراف : ١٣١٢٤) (صحیح) وأخرجہ مالک/الجنائز ١٦ (٥٦) ، موقوفا علی أبي ہریرة۔ وضاحت : ١ ؎ : جمہور کے نزدیک امر استحباب کے لیے ہے ، ابن حزم کہتے ہیں کہ وجوب کے لیے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1477) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1015
حدیث نمبر: 1015 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ، فَإِنْ يَكُنْ خَيْرًا تُقَدِّمُوهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ يَكُنْ شَرًّا تَضَعُوهُ عَنْ رِقَابِكُمْ . وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৬
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شہدائے احد اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ احد کے دن حمزہ (کی لاش) کے پاس آئے۔ آپ اس کے پاس رکے، آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ ١ ؎ کردیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا : اگر صفیہ (حمزہ کی بہن) اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی (دفن کیے بغیر) چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے ، پھر آپ ﷺ نے «نمر» (ایک پرانی چادر) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے تو ان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے دونوں پیروں کی طرف کھینچتے تو سر کھل جاتا۔ مقتولین کی تعداد بڑھ گئی اور کپڑے کم پڑگئے تھے، چناچہ ایک ایک دو دو اور تین تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفنایا جاتا، پھر وہ سب ایک قبر میں دفن کردیئے جاتے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے بارے میں پوچھتے کہ ان میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا تو آپ اسے آگے قبلہ کی طرف کردیتے، رسول اللہ ﷺ نے ان مقتولین کو دفن کیا اور ان پر نماز نہیں پڑھی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے انس کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- اس حدیث کی روایت میں اسامہ بن زید کی مخالفت کی گئی ہے۔ لیث بن سعد بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک عن جابر بن عبد اللہ بن زيد» ٣ ؎ روایت کی ہے اور معمر نے بسند «عن الزهري عن عبد اللہ بن ثعلبة عن جابر» روایت کی ہے۔ ہمارے علم میں سوائے اسامہ بن زید کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے زہری کے واسطے سے انس سے روایت کی ہو، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : لیث کی حدیث بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک عن جابر» زیادہ صحیح ہے، ٤- نمرہ : پرانی چادر کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٣١ (٣١٣٦) (تحفة الأشراف : ١٤٧٧) (صحیح) (وقال في حدیث أبي داود : حسن) وہو الصواب، لأن ” أسامة اللیثي صدوق بہم) وضاحت : ١ ؎ : ناک کان اور شرمگاہ وغیرہ کاٹ ڈالنے کو مثلہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شہید پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جائیگی ان کا استدلال اسی حدیث سے ہے ، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شہید پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پر اس طرح نماز نہیں پڑھی جیسے حمزہ (رض) پر کئی بار پڑھی۔ ٣ ؎ : تمام نسخوں میں اسی طرح جابر بن عبداللہ بن زید ہے جب کہ اس نام کے کسی صحابی کا تذکرہ کسی مصدر میں نہیں ملا ، اور کتب تراجم میں سب نے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کے اساتذہ میں معروف صحابی جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام ہی کا لکھا ہے ، نیز جابر بن عبداللہ بن عمرو ہی کے تلامذہ میں عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کا نام آیا ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (59 - 60) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1016
حدیث نمبر: 1016 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَمْزَةَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَرَآهُ قَدْ مُثِّلَ بِهِ، فَقَالَ: لَوْلَا أَنْ تَجِدَ صَفِيَّةُ فِي نَفْسِهَا لَتَرَكْتُهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الْعَافِيَةُ حَتَّى يُحْشَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ بُطُونِهَا . قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِنَمِرَةٍ فَكَفَّنَهُ فِيهَا، فَكَانَتْ إِذَا مُدَّتْ عَلَى رَأْسِهِ بَدَتْ رِجْلَاهُ، وَإِذَا مُدَّتْ عَلَى رِجْلَيْهِ بَدَا رَأْسُهُ، قَالَ: فَكَثُرَ الْقَتْلَى وَقَلَّتِ الثِّيَابُ، قَالَ: فَكُفِّنَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ وَالثَّلَاثَةُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، ثُمَّ يُدْفَنُونَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ عَنْهُمْ: أَيُّهُمْ أَكْثَرُ قُرْآنًا فَيُقَدِّمُهُ إِلَى الْقِبْلَةِ ، قَالَ: فَدَفَنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، النَّمِرَةُ الْكِسَاءُ الْخَلَقُ، وَقَدْ خُولِفَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَرَوَى مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ جَابِرٍ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدِيثُ اللَّيْثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرٍ أَصَحُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৭
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مریض کی عیادت کرتے، جنازے میں شریک ہوتے، گدھے کی سواری کرتے اور غلام کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ بنو قریظہ ١ ؎ والے دن آپ ایک ایسے گدھے پر سوار تھے، جس کی لگام کھجور کی چھال کی رسی کی تھی، اس پر زین بھی چھال ہی کی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف مسلم کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں۔ اور مسلم اعور ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ یہی مسلم بن کیسان ملائی ہیں، جس پر کلام کیا گیا ہے، ان سے شعبہ اور سفیان نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ التجارات ٦٦ (٢٢٩٦) ، والزہد ١٦ (٤١٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٨) (ضعیف) (سند میں مسلم بن کیسان الاعور ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : خیبر کے یہودیوں کا ایک قبیلہ ہے یہ واقعہ ذی قعدہ ٥ ھ کا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4178) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (915) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1017
حدیث نمبر: 1017 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَيَشْهَدُ الْجَنَازَةَ، وَيَرْكَبُ الْحِمَارَ، وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ، وَكَانَ يَوْمَ بَنِي قُرَيْظَةَ عَلَى حِمَارٍ مَخْطُومٍ بِحَبْلٍ مِنْ لِيفٍ عَلَيْهِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَمُسْلِمٌ الْأَعْوَرُ يُضَعَّفُ، وَهُوَ مُسْلِمُ بْنُ كَيْسَانَ الْمُلَائِيُّ تُكُلِّمَ فِيهِ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৮
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوا ١ ؎ ابوبکر (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو میں بھولا نہیں ہوں، آپ نے فرمایا : جتنے بھی نبی ہوئے ہیں اللہ نے ان کی روح وہیں قبض کی ہے جہاں وہ دفن کیا جانا پسند کرتے تھے (اس لیے) تم لوگ انہیں ان کے بستر ہی کے مقام پر دفن کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، عبدالرحمٰن بن ابی بکر ملی کی اپنے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانے جاتے ہیں، ٢- یہ حدیث اس کے علاوہ طریق سے بھی مروی ہے۔ ابن عباس نے ابوبکر صدیق سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٦٣٧ و ١٦٢٤٥) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن ابی ملیکہ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : بعض کی رائے تھی کہ مکہ میں دفن کیا جائے بعض کی مدینہ میں اور بعض کی بیت المقدس میں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (137 - 138) ، مختصر الشمائل (326) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1018
حدیث نمبر: 1018 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ، قَالَ: مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ . ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيُّ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، فَرَوَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৯
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دوسرا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے مردوں کی اچھائیوں کو ذکر کیا کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمران بن انس مکی منکر الحدیث ہیں، ٢- بعض نے عطا سے اور عطا نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، ٣- عمران بن ابی انس مصری عمران بن انس مکی سے پہلے کے ہیں اور ان سے زیادہ ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٥٠ (٤٩٠٠) (تحفة الأشراف : ٧٣٢٨) (ضعیف) (سند میں عمران بن انس مکی ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1678) ، الروض النضير (482) // ضعيف الجامع الصغير (739) ، ضعيف أبي داود (1047 / 4900) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1019
حدیث نمبر: 1019 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: عِمْرَانُ بْنُ أَنَسٍ الْمَكِّيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: وَعِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ مِصْرِيٌّ أَقْدَمُ وَأَثْبَتُ مِنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২০
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازے رکھنے سے پہلے بیٹھنا
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو جب تک جنازہ لحد (بغلی قبر) میں رکھ نہ دیا جاتا، نہیں بیٹھتے۔ ایک یہودی عالم نے آپ کے پاس آ کر کہا : محمد ! ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھنے لگ گئے اور فرمایا : تم ان کی مخالفت کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- بشر بن رافع حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٧ (٣١٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٥) (تحفة الأشراف : ٥٠٧٦) (حسن) (سند میں بشر بن رافع ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، /دیکھیے الأرواء ٣/١٩٣) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1545) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1020
حدیث نمبر: 1020 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اتَّبَعَ الْجَنَازَةَ لَمْ يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ فِي اللَّحْدِ. فَعَرَضَ لَهُ حَبْرٌ، فَقَالَ: هَكَذَا نَصْنَعُ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: خَالِفُوهُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَبِشْرُ بْنُ رَافِعٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২১
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصیبت پر صبر کی فضیلت
ابوسنان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے سنان کو دفن کیا اور ابوطلحہ خولانی قبر کی منڈیر پر بیٹھے تھے، جب میں نے (قبر سے) نکلنے کا ارادہ کیا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہا : ابوسنان ! کیا میں تمہیں بشارت نہ دوں ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ضرور دیجئیے، تو انہوں نے کہا : مجھ سے ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزب نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بندے کا بچہ ١ ؎ فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی ؟ تو وہ کہتے ہیں : ہاں، پھر فرماتا ہے : تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا ؟ وہ کہتے ہیں : ہاں۔ تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : میرے بندے نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں : اس نے تیری حمد بیان کی اور «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر : مسند احمد (٤/٤١٥) (تحفة الأشراف : ٩٠٠٥) (حسن) (دیکھئے : الصحیحة ١٤٠٨) وضاحت : ١ ؎ : بچہ سے مراد مطلق اولاد ہے خواہ مذکر ہو یا مؤنث۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (1408) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1021
حدیث نمبر: 1021 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، قَالَ: دَفَنْتُ ابْنِي سِنَانًا، وَأَبُو طَلْحَةَ الْخَوْلَانِيُّ جَالِسٌ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ الْخُرُوجَ أَخَذَ بِيَدِي، فَقَالَ: أَلَا أُبَشِّرُكَ يَا أَبَا سِنَانٍ، قُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ، قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهِ ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِي، فَيَقُولُونَ: حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ، فَيَقُولُ اللَّهُ: ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوهُ بَيْتَ الْحَمْدِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২২
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تکبیرات جنازہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے چار تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، ابن ابی اوفی، جابر، یزید بن ثابت اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں ٣- یزید بن ثابت : زید بن ثابت کے بھائی ہیں۔ یہ ان سے بڑے ہیں۔ یہ بدر میں شریک تھے اور زید بدر میں شریک نہیں تھے، ٤- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥٤ (١٣١٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٤) (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٤ (١٢٤٥) ، و ٦٤ (١٣٣٣) ، والمناقب ٣٨ (٣٨٨٠، ٣٨٨١) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥١) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٦٢ (٣٢٠٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٣) ، و ٧٦ (١٩٨٢) ، موطا امام مالک/الجنائز ٥ (١٤) ، مسند احمد (٢/٢٨٩، ٤٣٨، ٥٢٩) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1534) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1022
حدیث نمبر: 1022 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَجَابِرٍ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَزِيدُ بْنُ ثَابِتٍ هُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ شَهِدَ بَدْرًا، وَزَيْدٌ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَرَوْنَ التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৩
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تکبیرات جنازہ
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا بھی کہتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- زید بن ارقم کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنازے میں پانچ تکبیریں ہیں، ٣- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : جب امام جنازے میں پانچ تکبیریں کہے تو امام کی پیروی کی جائے (یعنی مقتدی بھی پانچ کہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٧) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٨ (٣١٩٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٦ (١٩٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٥ (١٥٠٥) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦٧١) ، مسند احمد (٤/٣٦٧، ٣٦٨، ٣٧٠، ٣٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس روایت سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں بھی جائز ہیں ، نبی کریم ﷺ سے اور صحابہ کرام سے پانچ ، چھ ، سات اور آٹھ تکبیریں بھی منقول ہیں ، لیکن اکثر روایات میں چار تکبیروں ہی کا ذکر ہے ، بیہقی وغیرہ میں ہے کہ عمر (رض) نے صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے چار تکبیروں کا حکم صادر فرمایا ، بعض نے اسے اجماع قرار دیا ہے ، لیکن یہ صحیح نہیں ، علی (رض) وغیرہ سے چار سے زائد تکبیریں بھی ثابت ہیں ، چوتھی تکبیر کے بعد کی تکبیرات میں میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1505) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1023
حدیث نمبر: 1023 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ خَمْسًا، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: إِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ عَلَى الْجَنَازَةِ خَمْسًا فَإِنَّهُ يُتَّبَعُ الْإِمَامُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৪
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز جنازہ میں کیا پڑھا جائے۔
ابوابراہیم اشہلی کے والد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے : «اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذکرنا وأنثانا» اے اللہ ! بخش دے ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر کو اور ہمارے غائب کو، ہمارے چھوٹے کو اور ہمارے بڑے کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو ۔ یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں : ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے مجھ سے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے : «اللهم من أحييته منا فأحيه علی الإسلام ومن توفيته منا فتوفه علی الإيمان» اے اللہ ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ، اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوابراہیم کے والد کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ہشام دستوائی اور علی بن مبارک نے یہ حدیث بطریق : «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة بن عبدالرحمٰن عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے، اور عکرمہ بن عمار نے بطریق : «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ عکرمہ بن عمار کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ عکرمہ کو بسا اوقات یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث میں وہم ہوجاتا ہے۔
حدیث نمبر: 1024 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا هِقْلُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَشْهَلِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى عَلَى الْجَنَازَةِ، قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا . قَالَ يَحْيَى: وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَزَادَ فِيهِ: اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ وَالِدِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَرَوَى عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَعِكْرِمَةُ رُبَّمَا يَهِمُ فِي حَدِيثِ يَحْيَى،
তাহকীক: