আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
جنازوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১১৫ টি
হাদীস নং: ৯৮৫
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے۔
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح مروی ہے، اور راوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا ہے کہ «نعی» موت کے اعلان کا نام ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، ٣- ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں، یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں، ٤- بعض اہل علم نے «نعی» کو مکروہ قرار دیا ہے، ان کے نزدیک «نعی» یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ فلاں مرگیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں، ٥- بعض اہل علم کہتے ہیں : اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کو اس کے مرنے کی خبر دی جائے، ٦- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کو اس کے اپنے کسی قرابت دار کے مرنے کی خبر دی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 985
حدیث نمبر: 985 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ: مَيْمُونٌ الْأَعْوَرُ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، قَالَ 12 أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّعْيَ، وَالنَّعْيُ عِنْدَهُمْ أَنْ يُنَادَى فِي النَّاسِ أَنَّ فُلَانًا مَاتَ لِيَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا بَأْسَ أَنْ يُعْلِمَ أَهْلَ قَرَابَتِهِ وَإِخْوَانَهُ، وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَا بَأْسَ بِأَنْ يُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৬
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے۔
حذیفہ بن الیمان (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جب میں مرجاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات «نعی» ہوگی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٤ (١٤٩٧) (تحفة الأشراف : ٣٣٠٣) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1476) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 986
حدیث نمبر: 986 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ الْعَبْسِيُّ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى الْعَبْسِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: إِذَا مِتُّ فَلَا تُؤْذِنُوا بِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنِ النَّعْيِ . هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৭
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٥ (١٥٩٦) (تحفة الأشراف : ٨٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ صدمے کا پہلا جھٹکا جب دل پر لگتا ہے اس وقت آدمی صبر کرے اور بےصبری کا مظاہرہ ، اپنے اعمال و حرکات سے نہ کرے تو یہی صبر کامل ہے جس پر اجر مترتب ہوتا ہے ، بعد میں تو ہر کسی کو چار و ناچار صبر آ ہی جاتا ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 987
حدیث نمبر: 987 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الصَّبْرُ فِي الصَّدْمَةِ الْأُولَى . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৮
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧ (١٢٥٢) ، و ٣١ (١٢٨٣) ، و ٤٢ (١٣٠٢) ، والأحکام ١١ (٧١٥٤) ، صحیح مسلم/الجنائز ٨ (٩٢٦) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٢٧ (٣١٢٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٢ (١٨٧٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٩) ، مسند احمد (٣/١٣٠، ١٤٣، ٢١٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1596) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 988
حدیث نمبر: 988 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى . قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৯
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت کو بوسہ دینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) کا بوسہ لیا - وہ انتقال کرچکے تھے - آپ رو رہے تھے۔ یا (راوی نے) کہا : آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم ﷺ کا بوسہ لیا ٢ ؎ اور آپ انتقال فرما چکے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٠ (٣١٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٧ (٢٤٥٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٥٩) ، مسند احمد (٦/٤٣، ٥٥) (صحیح) (ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی ٤٩٥) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمان میت کو بوسہ لینا اور اس پر رونا جائز ہے ، رہیں وہ احادیث جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تو وہ ایسے رونے پر محمول کی جائیں گی جس میں بین اور نوحہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1456) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 989
حدیث نمبر: 989 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَيِّتٌ وَهُوَ يَبْكِي أَوْ قَالَ: عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ . وَفِي الْبَاب: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، قَالُوا: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَبَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَيِّتٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت کو غسل دینا
ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک بیٹی ١ ؎ کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا : اسے طاق بار غسل دو ، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو ، آخر میں کافور ملا لینا ، یا فرمایا : تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دینا ، چناچہ جب ہم (نہلا کر) فارغ ہوگئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا : اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو ۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں ٢ ؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں، یہ ہے کہ انہوں نے کہا : اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ ہشیم کہتے ہیں : میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھر ہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ٣ ؎ ہشیم کہتے ہیں : پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کر رہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ (رض) سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام عطیہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام سلیم (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے، ٥- مالک بن انس کہتے ہیں : ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اسے پاک کردیا جائے گا، ٦- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کا قول کہ اسے غسل دیا جائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یا کسی اور چیز کے پانی سے پاک کردیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیا جائے۔ تین بار سے کم غسل نہ دیا جائے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو ، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کردیں تو یہ بھی کافی ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا تین یا پانچ بار کا حکم دینا محض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں، ٧- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : ہر مرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہوگا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملا لیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٧) ، والجنائز ١٠ (١٢٥٥) ، و ١١ (١٢٥٦) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣٣ (٣١٤٤، ٣١٤٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٣١ (١٨٨٥) ، و ٣٢ (١٨٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٨١٠٢، و ١٨١٠٩، و ١٨١١١، و ١٨١٢٤، ١٨١٣٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٨ (١٢٥٣) ، و ٩ (١٢٥٤) ، و ١٢ (١٢٥٧) ، و ١٣ (١٢٥٨) ، و ١٤ (١٢٦٠) ، و ١٥ (١٢٦١) ، و ١٦ (١٢٦٢) ، و ١٧ (١٢٦٣) ، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣٣ (٣١٤٢، ٣١٤٦، ٣١٤٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٣ (٣١٤٢، ٣١٤٣، ٣١٤٦، ٣١٤٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٨ (١٨٨٢) ، و ٣٠ (١٨٨٤) ، و ٣٣ (١٨٨٧) ، و ٣٤ (١٨٨٨، ١٨٨٩، ١٨٩٠) ، و ٣٥ (١٨٩١، ١٨٩٢) ، و ٣٦ (١٨٩٤، ١٨٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٥٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ١ (٢) ، مسند احمد (٦/٤٠٧) ، من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : جمہور کے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب (رض) تھیں ، ایک قول یہ ہے کہ عثمان (رض) کی اہلیہ ام کلثوم (رض) تھیں ، صحیح پہلا قول ہی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی خالد ، منصور اور ہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔ ٣ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دینا چاہیئے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1458) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 990
حدیث نمبر: 990 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، وَمَنْصُورٌ، وَهِشَامٌ، فأما خالد، وهشام، فقالا: عَنْ مُحَمَّدٍ،وَحَفْصَةَ، وَقَالَ: مَنْصُورٌ: عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ، وَاغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي ، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ، فَقَالَ: أَشْعِرْنَهَا بِهِ . قَالَ هُشَيْمٌ: وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ هَؤُلَاءِ وَلَا أَدْرِي وَلَعَلَّ هِشَامًا مِنْهُمْ، قَالَتْ: وَضَفَّرْنَا شَعْرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ، قَالَ هُشَيْمٌ: أَظُنُّهُ قَالَ: فَأَلْقَيْنَاهُ خَلْفَهَا، قَالَ هُشَيْمٌ: فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ، عَنْ حَفْصَةَ، وَمُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: وَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ وَفِي الْبَاب: عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: غُسْلُ الْمَيِّتِ كَالْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَيْسَ لِغُسْلِ الْمَيِّتِ عِنْدَنَا حَدٌّ مُؤَقَّتٌ وَلَيْسَ لِذَلِكَ صِفَةٌ مَعْلُومَةٌ وَلَكِنْ يُطَهَّرُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا قَالَ مَالِكٌ قَوْلًا مُجْمَلًا: يُغَسَّلُ وَيُنْقَى، وَإِذَا أُنْقِيَ الْمَيِّتُ بِمَاءٍ قَرَاحٍ أَوْ مَاءٍ غَيْرِهِ، أَجْزَأَ ذَلِكَ مِنْ غُسْلِهِ، وَلَكِنْ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُغْسَلَ ثَلَاثًا فَصَاعِدًا لَا يُقْصَرُ عَنْ ثَلَاثٍ، لِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا، وَإِنْ أَنْقَوْا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَجْزَأَ ، وَلَا نَرَى أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هُوَ عَلَى مَعْنَى الْإِنْقَاءِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَلَمْ يُؤَقِّتْ، وَكَذَلِكَ قَالَ: الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: وَتَكُونُ الْغَسَلَاتُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَيَكُونُ فِي الْآخِرَةِ شَيْءٌ مِنْ كَافُورٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯১
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت کو مشک لگانا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہترین خوشبو مشک ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ٥ (٢٢٥٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٢ (١٩٠٦) ، والزینة ٣ (٥١٢٢) ، و ٧٤ (٥٢١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣١١) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/المصدرالمذکور، سنن ابی داود/ الجنائز ٣٧ (٣١٥٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٢ (١٩٠٧) ، مسند احمد (٣/٣٦، ٤٠، ٤٦، ٦٢) من غیر ہذا الوجہ۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 991 امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اسے مستمر بن ریان نے بھی بطریق : «أبي نضرة عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مستمر بن ریان ثقہ ہیں، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- اور بعض اہل علم نے میت کے لیے مشک کو مکروہ قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 992
حدیث نمبر: 991 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، وَشَبَابَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ، سَمِعَ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَطْيَبُ الطِّيبِ الْمِسْكُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمِسْكَ لِلْمَيِّتِ، قَالَ: وَقَدْ رَوَاهُ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ أَيْضًا، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ ثِقَةٌ، قَالَ يَحْيَى: خُلَيْدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯২
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت کو مشک لگانا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے مشک کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ تمہاری خوشبوؤں میں سب سے بہتر خوشبو ہے ۔
حدیث نمبر: 992 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْمِسْكِ، فَقَالَ: هُوَ أَطْيَبُ طِيبِكُمْ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯৩
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت کو غسل دے کر خود غسل کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میت کو نہلانے سے غسل اور اسے اٹھانے سے وضو ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- ابوہریرہ (رض) سے یہ موقوفاً بھی مروی ہے، ٣- اس باب میں علی اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کو غسل دے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تو اس پر غسل ہے، ٥- بعض کہتے ہیں : اس پر وضو ہے۔ مالک بن انس کہتے ہیں : میت کو غسل دینے سے غسل کرنا میرے نزدیک مستحب ہے، میں اسے واجب نہیں سمجھتا ١ ؎ اسی طرح شافعی کا بھی قول ہے، ٦- احمد کہتے ہیں : جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں ہوگا۔ رہی وضو کی بات تو یہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہا گیا ہے، ٧- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : وضو ضروری ہے ٢ ؎، عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جس نے میت کو غسل دیا، وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٦٣) (تحفة الأشراف : ١٧٢٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جمہور نے باب کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے «ليس عليكم في غسل ميتكم غسل إذا اغسلتموه إن ميتكم يموت طاهرا وليس بنجس ، فحسبکم أن تغسلوا أيديكم» جب تم اپنے کسی مردے کو غسل دو تو تم پر غسل واجب نہیں ہے ، اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی ( یعنی عورتوں ، مردوں ، بچوں میں سے ہر ایک ) پاک ہی مرتا ہے ، وہ ناپاک نہیں ہوتا تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لیا کرو لہٰذا اس میں اور باب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا جائے ، یا یہ کہا جائے کہ غسل سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے ، اور صحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانا مستحب ہے۔ ٢ ؎ : انہوں نے باب کی حدیث کو غسل کے وجوب پر محمول کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1463) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 993
حدیث نمبر: 993 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مِنْ غُسْلِهِ الْغُسْلُ، وَمِنْ حَمْلِهِ الْوُضُوءُ يَعْنِي الْمَيِّتَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُغَسِّلُ الْمَيِّتَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا غَسَّلَ مَيِّتًا فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْوُضُوءُ. وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: أَسْتَحِبُّ الْغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَلَا أَرَى ذَلِكَ وَاجِبًا، وَهَكَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ: وقَالَ أَحْمَدُ: مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا أَرْجُو أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْهِ الْغُسْلُ، وَأَمَّا الْوُضُوءُ فَأَقَلُّ مَا قِيلَ فِيهِ، وقَالَ إِسْحَاق: لَا بُدَّ مِنَ الْوُضُوءِ، قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: لَا يَغْتَسِلُ وَلَا يَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯৪
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کفن کس طرح دینا مستحب ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو بھی کفناؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سمرہ، ابن عمر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اہل علم اسی کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں : میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ آدمی انہی کپڑوں میں کفنایا جائے جن میں وہ نماز پڑھتا تھا، ٤- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : کفنانے کے لیے میرے نزدیک سب سے پسندیدہ کپڑا سفید رنگ کا کپڑا ہے۔ اور اچھا کفن دینا مستحب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ١٦ (٤٠٦١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٢ (١٤٧٢) (تحفة الأشراف : ٥٥٣٤) ، مسند احمد (١/٣٥٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں امر استحباب کے لیے ہے اس امر پر اجماع ہے کہ کفن کے لیے بہتر سفید کپڑا ہی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1472) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 994
حدیث نمبر: 994 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمُ الْبَيَاضَ، فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ . وَفِي الْبَاب: عَنْ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُكَفَّنَ فِي ثِيَابِهِ الَّتِي كَانَ يُصَلِّي فِيهَا، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَيْنَا أَنْ يُكَفَّنَ فِيهَا الْبَيَاضُ وَيُسْتَحَبُّ حُسْنُ الْكَفَنِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯৫
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کوئی اپنے بھائی کا (کفن کے سلسلے میں) ولی (ذمہ دار) ہو تو اسے اچھا کفن دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- ابن مبارک کہتے ہیں کہ سلام بن ابی مطیع آپ کے قول «وليحسن أحدکم كفن أخيه» اپنے بھائی کو اچھا کفن دو کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے کی صفائی اور سفیدی ہے، اس سے قیمتی کپڑا مراد نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٢ (١٤٧٤) (تحفة الأشراف : ١٢١٢٥) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 995
حدیث نمبر: 995 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا وَلِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُحْسِنْ كَفَنَهُ . وَفِيهِ عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: قَالَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ فِي قَوْلِهِ: وَلْيُحْسِنْ أَحَدُكُمْ كَفَنَ أَخِيهِ ، قَالَ: هُوَ الصَّفَاءُ وَلَيْسَ بِالْمُرْتَفِعِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯৬
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو تین سفید ١ ؎ یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا ٢ ؎ نہ ان میں قمیص ٣ ؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ (رض) سے کہا : لوگ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا ؟ تو ام المؤمنین عائشہ نے کہا : چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کردیا تھا، آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤١) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣٤ (٣١٥٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٩ (٩٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١١ (١٤٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٧٨٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ١٨ (١٢٦٤) ، و ٢٣ (١٢٧١) ، و ٢٤ (١٢٧٢) ، و ٩٤ (١٣٨٧) ، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور) ، الجنائز (٣١٥١) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٩ (١٨٩٨ و ١٨٩٩) ، موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٥) ، مسند احمد (٦/٤٠، ٩٣، ١١٨، ١٣٢، ١٦٥، ٢٣١) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے نزدیک کفنی ، تہ بند اور بڑی چادر ہے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ ( پگڑی ) جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے «كفن رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم في ثلاثة أثواب بحرانية : الحلة ، ثوبان ، وقميصه الذي مات فيه» تو یہ منکر ہے اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں ، اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث «خير الکفن الحلة» بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔ ٣ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہور کا یہی قول ہے ، لیکن مالکیہ اور حنفیہ استحباب کے قائل ہیں ، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ شمار کی گئی چیز کی نفی ہو یعنی قمیص اور عمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1469) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 996
حدیث نمبر: 996 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ . قَالَ: فَذَكَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَهُمْ: فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ، فَقَالَتْ: قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯৭
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے۔
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمزہ بن عبدالمطلب (رض) کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اور ان سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے، ٣- اس باب میں علی ١ ؎، ابن عباس، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے، ٥- سفیان ثوری کہتے ہیں : آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اور دو کپڑے بھی کافی ہوجاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں : عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایا جائے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٣٦٩) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ ، احمد اور بزار نے «كفن النبي صلی اللہ عليه وسلم في سبعة أثواب» کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جو سئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔ ٢ ؎ : اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ (رض) کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اور ابوداؤد نے کی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں ، لیلیٰ کہتی ہیں : «کنت فیمن غسل أم کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم عندو فاتہا ، فکان أوّل ما أعطانا رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم الحقاء ، ثم الدرع ثم الخمار ، ثم الملحفۃ ، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر ، قالت : و رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم جالس عندالباب معہ کفنہا یناولناہا ثوباً ثوباً» لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن الأحكام (59 - 60) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 997
حدیث نمبر: 997 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّنَ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي نَمِرَةٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ، وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَصَحُّ الْأَحَادِيثِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: يُكَفَّنُ الرَّجُلُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ إِنْ شِئْتَ فِي قَمِيصٍ وَلِفَافَتَيْنِ، وَإِنْ شِئْتَ فِي ثَلَاثِ لَفَائِفَ، وَيُجْزِي ثَوْبٌ وَاحِدٌ إِنْ لَمْ يَجِدُوا ثَوْبَيْنِ، وَالثَّوْبَانِ يُجْزِيَانِ، وَالثَّلَاثَةُ لِمَنْ وَجَدَهَا أَحَبُّ إِلَيْهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: تُكَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯৮
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اہل میت کے لئے کھانا پکانا
عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ جب جعفر طیار کے مرنے کی خبر آئی ١ ؎ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاؤ، اس لیے کہ آج ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس میں وہ مشغول ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم میت کے گھر والوں کے مصیبت میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کچھ بھیجنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے، ٣- جعفر بن خالد کے والد خالد سارہ کے بیٹے ہیں اور ثقہ ہیں۔ ان سے ابن جریج نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٣٠ (٣١٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٩ (١٦١٠) (تحفة الأشراف : ٥٢١٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : جعفر بن ابی طالب (رض) کی شہادت ٨ ھ میں غزوہ موتہ میں ہوئی تھی ، ان کی موت یقیناً سب کے لیے خاص کر اہل خانہ کے لیے رنج و غم لے کر آئی۔ ٢ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اہل میت کے لیے کھانا بھیج دیں۔ مگر آج کے مبتدعین نے معاملہ الٹ دیا ، تیجا ، قل ، ساتویں اور چالیسویں جیسی ہندوانہ رسمیں ایجاد کر کے میت کے ورثاء کو خوب لوٹا جاتا ہے ، «العیاذ باللہ من ہذہ الخرافات»۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1610) ، المشکاة (1739) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 998
حدیث نمبر: 998 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ شَيْءٌ لِشُغْلِهِمْ بِالْمُصِيبَةِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ: هُوَ ابْنُ سَارَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯৯
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصیبت کے وقت چہرہ پیٹنا اور گریبان پھاڑنا منع ہے۔
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو گریبان پھاڑے، چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی ہانک پکارے ١ ؎ ہم میں سے نہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٥ (١٢٩٤) ، والمناقب ٨ (٣٥١٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١٩ (١٨٦٣) ، و ٢١ (١٨٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٢ (١٥٨٤) (تحفة الأشراف : ٩٥٥٩) ، مسند احمد (١/٣٨٦، ٤٤٢) (صحیح) ووأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٣٨ (١٢٩٧) ، و ٣٩ (١٢٩٨) ، والمناقب ٨ (٣٥١٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٣) ، سنن النسائی/الجنائز ١٧ (١٨٦١) ، مسند احمد (١/٤٦٥) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : جاہلیت کی ہانک پکارنے سے مراد بین کرنا ہے ، جیسے ، ہائے میرے شیر ! میرے چاند ، ہائے میرے بچوں کو یتیم کر جانے والے عورتوں کے سہاگ اجاڑ دینے والے ! وغیرہ وغیرہ کہہ کر رونا۔ ٢ ؎ : یعنی ہم مسلمانوں کے طریقے پر نہیں۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کے غیر مسلموں جیسے جزع و فزع کے طور طریقے دیکھ کر اس حدیث کی صداقت کس قدر واضح ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1584) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 999
حدیث نمبر: 999 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زُبَيْدٌ الْأَيَامِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الْجُيُوبَ وَضَرَبَ الْخُدُودَ وَدَعَا بِدَعْوَةِ الْجَاهِلِيَّةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০০
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نوحہ حرام ہے
علی بن ربیعہ اسدی کہتے ہیں کہ انصار کا قرظہ بن کعب نامی ایک شخص مرگیا، اس پر نوحہ ١ ؎ کیا گیا تو مغیرہ بن شعبہ (رض) آئے اور منبر پر چڑھے۔ اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا : کیا بات ہے ؟ اسلام میں نوحہ ہو رہا ہے۔ سنو ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس پر نوحہ کیا گیا اس پر نوحہ کیے جانے کا عذاب ہوگا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مغیرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، علی، ابوموسیٰ ، قیس بن عاصم، ابوہریرہ، جنادہ بن مالک، انس، ام عطیہ، سمرہ اور ابو مالک اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٣ (١٢٩١) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ١١٥٢٠) ، مسند احمد (٤/٢٤٥، ٢٥٢) ، (بزیادة في السیاق) (صحیح) وانظر : مسند احمد (٢/٢٩١، ٤١٤، ٤١٥، ٤٥٥، ٥٢٦، ٥٣١) وضاحت : ١ ؎ : میت پر اس کی خوبیوں اور کمالات بیان کر کے چلاّ چلاّ کر رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : یہ عذاب اس شخص پر ہوگا جو اپنے ورثاء کو اس کی وصیت کر کے گیا ہو ، یا اس کا اپنا عمل بھی زندگی میں ایسا ہی رہا ہو اور اس کی پیروی میں اس کے گھر والے بھی اس پر نوحہ کر رہے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (28 - 29) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1000
حدیث نمبر: 1000 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ، وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ: قَرَظَةُ بْنُ كَعْبٍ، فَنِيحَ عَلَيْهِ فَجَاءَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَالُ النَّوْحِ فِي الْإِسْلَامِ أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ عُذِّبَ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ . وَفِي الْبَاب: عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَأَبِي مُوسَى، وَقَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجُنَادَةَ بْنِ مَالِكٍ، وَأَنَسٍ، وَأُمِّ عَطِيَّةَ، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০১
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نوحہ حرام ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی ہیں، لوگ انہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے : نوحہ کرنا، حسب و نسب میں طعنہ زنی، اور بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانے کا عقیدہ رکھنا مثلاً یوں کہنا کہ ایک اونٹ کو کھجلی ہوئی اور اس نے سو اونٹ میں کھجلی پھیلا دی تو آخر پہلے اونٹ کو کھجلی کیسے لگی ؟ اور نچھتروں کا عقیدہ رکھنا۔ مثلاً فلاں اور فلاں نچھتر (ستارے) کے سبب ہم پر بارش ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٨٤) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (735) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1001
حدیث نمبر: 1001 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، وَالْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَنْ يَدَعَهُنَّ النَّاسُ: النِّيَاحَةُ، وَالطَّعْنُ فِي الْأَحْسَابِ، وَالْعَدْوَى أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائَةَ بَعِيرٍ مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الْأَوَّلَ، وَالْأَنْوَاءُ مُطِرْنَا بِنَوْءٍ كَذَا وَكَذَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০২
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نوحہ حرام ہے
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمر (رض) کی حدیث صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کی ایک جماعت نے میت پر رونے کو مکروہ (تحریمی) قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ اور وہ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، ٤- اور ابن مبارک کہتے ہیں : مجھے امید ہے کہ اگر وہ (میت) اپنی زندگی میں لوگوں کو اس سے روکتا رہا ہو تو اس پر اس میں سے کچھ نہیں ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١٤ (١٨٥١) (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٧) ، و ٣٣ (١٢٩٠، ١٢٩١) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٢٧) ، سنن النسائی/الجنائز ١٤ (١٨٤٩) ، و ١٥ (١٨٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٤ (١٥٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٩٠٣١) ، مسند احمد (١/٢٦، ٣٦، ٤٧، ٥٠، ٥١، ٥٤) ، من غیر ہذا الوجہ۔ و راجع أیضا مسند احمد (٦/٢٨١) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1593) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1002
حدیث نمبر: 1002 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ . وَفِي الْبَاب: عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْبُكَاءَ عَلَى الْمَيِّتِ، قَالُوا: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَذَهَبُوا إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَرْجُو إِنْ كَانَ يَنْهَاهُمْ فِي حَيَاتِهِ أَنْ لَا يَكُونَ عَلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০৩
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نوحہ حرام ہے
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی بھی مرجائے پھر اس پر رونے والا کھڑا ہو کر کہے : ہائے میرے پہاڑ، ہائے میرے سردار یا اس جیسے الفاظ کہے تو اسے دو فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے، وہ اسے گھونسے مارتے ہیں (اور کہتے جاتے ہیں) کیا تو ایسا ہی تھا ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٤ (١٥٩٤) (تحفة الأشراف : ٩٠٣١) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1594) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1003
حدیث نمبر: 1003 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، أَنَّ مُوسَى بْنَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ بَاكِيهِ فَيَقُولُ: وَا جَبَلَاهْ وَا سَيِّدَاهْ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ إِلَّا وُكِّلَ بِهِ مَلَكَانِ يَلْهَزَانِهِ أَهَكَذَا كُنْتَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০০৪
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میت کو اپنے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جاتا ہے ، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : اللہ (ابن عمر) پر رحم کرے، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا، انہیں وہم ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو یہ بات اس یہودی کے لیے فرمائی تھی جو مرگیا تھا : میت کو عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عائشہ (رض) سے مروی ہے، ٣- اس باب میں ابن عباس، قرظہ بن کعب، ابوہریرہ، ابن مسعود اور اسامہ بن زید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- بعض اہل علم اسی جانب گئے ہیں اور ان لوگوں نے آیت : «ولا تزر وازرة وزر أخری» کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، کا مطلب بھی یہی بیان کیا ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٥٦٤ و ١٧٦٨٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/المغازي ٨ (٣٩٧٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٢٨-٩٢٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٢٩ (٣١٢٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١٥ (١٨٥٦) ، مسند احمد (٢/٣٨) ، و (٦/٣٩، ٥٧، ٩٥، ٢٠٩) ، من غیر ہذا الطریق، وانظر أیضا (رقم : ١٠٠٦) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1004
حدیث نمبر: 1004 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ . فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ وَهِمَ، إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مَاتَ يَهُودِيًّا: إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ، وَقَدْ ذَهَبَ أَهْلُ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا وَتَأَوَّلُوا هَذِهِ الْآيَةَ وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ.
তাহকীক: