আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
جنازوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১১৫ টি
হাদীস নং: ১০২৫
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز جنازہ میں کیا پڑھا جائے۔
عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو میت پر نماز جنازہ پڑھتے سنا تو میں نے اس پر آپ کی نماز سے یہ کلمات یاد کیے : «اللهم اغفر له وارحمه واغسله بالبرد واغسله كما يغسل الثوب» اے اللہ ! اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، اسے برف سے دھو دے، اور اسے (گناہوں سے) ایسے دھو دے جیسے کپڑے دھوئے جاتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب کی سب سے صحیح یہی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٦ (٩٦٣) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٠ (٦٢) ، والجنائز ٧٧ (١٩٨٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٩٠١) ، مسند احمد (٦/٢٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٣ (١٥٠٠) ، مسند احمد (٦/٢٣) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1500) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1025
حدیث نمبر: 1025 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى مَيِّتٍ، فَفَهِمْتُ مِنْ صَلَاتِهِ عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاغْسِلْهُ بِالْبَرَدِ وَاغْسِلْهُ كَمَا يُغْسَلُ الثَّوْبُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ هَذَا الْحَدِيثُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৬
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جنازے میں سورة فاتحہ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ٢- ابراہیم بن عثمان ہی ابوشیبہ واسطی ہیں اور وہ منکر الحدیث ہیں۔ صحیح چیز جو ابن عباس سے مروی ہے کہ ـجنازے کی نماز میں سورۃ فاتحہپڑھناسنت میں سے ہے، ٣- اس باب میں ام شریک سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٢ (١٤٩٥) ، انظر الحدیث الآتي ( تحفة الأشراف : ٦٤٦٨) (صحیح) (اگلی اثر کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابراہیم بن عثمان “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1495) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1026
حدیث نمبر: 1026 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ عَلَى الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب: عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ، إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ هُوَ: أَبُو شَيْبَةَ الْوَاسِطِيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَالصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ: مِنَ السُّنَّةِ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৭
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا
طلحہ بن عوف کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے ایک نماز جنازہ پڑھایا تو انہوں نے سورة فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ سنت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- طلحہ بن عبداللہ بن عوف، عبدالرحمٰن بن عوف کے بھتیجے ہیں۔ ان سے زہری نے روایت کی ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے یہ لوگ تکبیر اولیٰ کے بعد سورة فاتحہ پڑھنے کو پسند کرتے ہیں یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی ١ ؎ اس میں تو صرف اللہ کی ثنا، نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ (درود) اور میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔ اہل کوفہ میں سے ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٥ (١٣٣٥) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٩ (٣١٩٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٧ (١٩٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جن روایتوں سے پہلی تکبیر کے بعد سورة فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے ان کی تاویل یہ کی جائیگی کہ یہ قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھی گئی تھی لیکن یہ محض تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ مبتدعین کی حرکات بھی عجیب وغریب ہوا کرتی ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں ثابت سورة فاتحہ نماز جنازہ میں نہیں پڑھیں گے اور رسم قُل ، تیجا ، ساتویں وغیرہ میں فاتحہ کا رٹہ لگائیں گے اور وہ بھی معلوم نہیں کون سی فاتحہ پڑھتے ہیں حقہ کے بغیر ان کے ہاں قبول ہی نہیں ہوتی۔ «فيا عجبا لهذه الخرافات» قال الشيخ الألباني : صحيح أنظر ما قبله (1026) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1027
حدیث نمبر: 1027 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ . فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَخْتَارُونَ أَنْ يُقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ، إِنَّمَا هُوَ ثَنَاءٌ عَلَى اللَّهِ، وَالصَّلَاةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَطَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ هُوَ: ابْنُ أَخِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، رَوَى عَنْهُ الزُّهْرِيُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৮
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز جنازہ کی کیفیت اور میت کے لئے شفاعت کرنا
مرثد بن عبداللہ یزنی کہتے ہیں کہ مالک بن ہبیرہ (رض) جب نماز جنازہ پڑھتے اور لوگ کم ہوتے تو ان کی تین صفیں ١ ؎ بنا دیتے، پھر کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس کی نماز جنازہ تین صفوں نے پڑھی تو اس نے (جنت) واجب کرلی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مالک بن ہبیرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اسی طرح کئی لوگوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ ابراہیم بن سعد نے بھی یہ حدیث محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ اور انہوں نے سند میں مرثد اور مالک بن ہبیرہ کے درمیان ایک شخص کو داخل کردیا ہے۔ ہمارے نزدیک ان لوگوں کی روایت زیادہ صحیح ہے، ٣- اس باب میں عائشہ، ام حبیبہ، ابوہریرہ اور ام المؤمنین میمونہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ١٤٣ (٣١٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٩ (١٤٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٠٨) ، مسند احمد (٤/٧٩) (حسن) (سند میں ” محمد بن اسحاق “ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، البتہ مالک بن ہبیرہ (رض) کا فعل شواہد اور متابعات کی بنا پر صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : صف کم سے کم دو آدمیوں پر مشتمل ہوتی ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1490) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (327) مع اختلاف في اللفظ، ضعيف الجامع (5087 و 5668) ، أحكام الجنائز (100) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1028
حدیث نمبر: 1028 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَيُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ، قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ هُبَيْرَةَ إِذَا صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ، فَتَقَالَّ النَّاسَ عَلَيْهَا جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى عَلَيْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ فَقَدْ أَوْجَبَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَمَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، وَرَوَى إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ، وَأَدْخَلَ بَيْنَ مَرْثَدٍ، وَمَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ رَجُلًا، وَرِوَايَةُ هَؤُلَاءِ أَصَحُّ عِنْدَنَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৯
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز جنازہ کی کیفیت اور میت کے لئے شفاعت کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان مرجائے اور مسلمانوں کی ایک جماعت جس کی تعداد سو کو پہنچتی ہو اس کی نماز جنازہ پڑھے اور اس کے لیے شفاعت کرے تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ١ ؎۔ علی بن حجر نے اپنی حدیث میں کہا : «مائة فما فوقها» سویا اس سے زائد لوگ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے، مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٨ (٩٤٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٨ (١٩٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٩١) ، مسند احمد (٦/٣٢، ٤٠، ٩٧، ٢٣١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے نماز جنازہ میں کثرت تعداد کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، مسلم کی ایک روایت میں چالیس مسلمان مردوں کا ذکر ہے ، اور بعض روایتوں میں تین صفوں کا ذکر ہے ، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ یہ احادیث مختلف موقعوں پر سائلین کے سوالات کے جواب میں بیان کی گئیں ہیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے آپ کو سو آدمیوں کی شفاعت قبول کئے جانے کی خبر دی گئی ہو پھر چالیس کی پھر تین صفوں کی گو وہ چالیس سے بھی کم ہوں ، یہ اللہ کی اپنے بندوں پر نوازش و انعام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (98) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1029
حدیث نمبر: 1029 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَاإِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعٍ كَانَ لِعَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَمُوتُ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَتُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ أَنْ يَكُونُوا مِائَةً فَيَشْفَعُوا لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ . وقَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ فِي حَدِيثِهِ: مِائَةٌ فَمَا فَوْقَهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ أَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩০
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ طلوع وغروب آفتاب کے وقت نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے۔
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ تین ساعتیں ایسی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھنے سے یا اپنے مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے : جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے، اور جس وقت ٹھیک دوپہر ہو رہی ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور جس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ لوگ ان اوقات میں نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں، ٣- ابن مبارک کہتے ہیں : اس حدیث میں ان اوقات میں مردے دفنانے سے مراد ان کی نماز جنازہ پڑھنا ہے ١ ؎ انہوں نے سورج نکلتے وقت ڈوبتے وقت اور دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج ڈھل نہ جائے نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ٤- شافعی کہتے ہیں کہ ان اوقات میں جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، ان میں نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٣١) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٥ (٣١٩٢) ، سنن النسائی/المواقیت ٣١ (٥٦١) ، و ٣٣ (٥٦٦) ، والجنائز ٨٩، (٢٠١٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٠ (١٥١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٣٩) ، مسند احمد (٤/١٥٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی نے بھی اسے اسی معنی پر محمول کیا ہے جیسا کہ ترجمۃ الباب سے واضح ہے ، اس کے برخلاف امام ابوداؤد (رح) نے اسے دفن حقیقی ہی پر محمول کیا اور انہوں نے «باب الدفن عند طلوع الشمش وعند غروبها» کے تحت اس کو ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1519) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1030
حدیث نمبر: 1030 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَكْرَهُونَ الصَّلَاةَ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي هَذِهِ السَّاعَاتِ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا يَعْنِي: الصَّلَاةَ عَلَى الْجَنَازَةِ، وَكَرِهَ الصَّلَاةَ عَلَى الْجَنَازَةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَعِنْدَ غُرُوبِهَا، وَإِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي السَّاعَاتِ الَّتِي تُكْرَهُ فِيهِنَّ الصَّلَاةُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩১
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بچوں کی نماز جنازہ
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سواری والے جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والے جہاں چاہے رہے، اور بچوں کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسرائیل اور دیگر کئی لوگوں نے اسے سعید بن عبداللہ سے روایت کیا ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ یہ جان لینے کے بعد کہ اس میں جان ڈال دی گئی تھی پڑھی جائے گی گو (ولادت کے وقت) وہ رویا نہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٩ (٣١٨٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٥ (١٩٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٨١) ، و ٢٦ (١٥٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٩٠) ، مسند احمد (٤/٢٤٧، ٢٥٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی راجح قول ہے ، کیونکہ ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے ، گویا نومولود ایک ذی روح مسلمان ہے۔ پڑھنے کا بیان جب تک کہ وہ ولادت کے وقت نہ روئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1507) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1031
حدیث نمبر: 1031 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْزِيَادِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الرَّاكِبُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ وَالْمَاشِي حَيْثُ شَاءَ مِنْهَا، وَالطِّفْلُ يُصَلَّى عَلَيْهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، رَوَاهُإِسْرَائِيلُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، قَالُوا: يُصَلَّى عَلَى الطِّفْلِ، وَإِنْ لَمْ يَسْتَهِلَّ بَعْدَ أَنْ يُعْلَمَ أَنَّهُ خُلِقَ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩২
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد نہ روئے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بچے کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی۔ نہ وہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ کوئی اس کا وارث ہوگا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث میں لوگ اضطراب کے شکار ہوئے ہیں۔ بعض نے اسے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے اور جابر نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور اشعث بن سوار اور دیگر کئی لوگوں نے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے، اور محمد بن اسحاق نے عطاء بن ابی رباح سے اور عطاء نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے گویا موقوف روایت مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت نہ روئے یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٦٦٠) (صحیح) وأخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٦ (١٥٠٨) ، والفرائض ١٧ (٢٧٥٠) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1508) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1032
حدیث نمبر: 1032 حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الطِّفْلُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّى يَسْتَهِلَّ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدِ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِيهِ، فَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْفُوعًا، وَرَوَى أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا، وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، قَالُوا: لَا يُصَلَّى عَلَى الطِّفْلِ حَتَّى يَسْتَهِلَّ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৩
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء ١ ؎ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٣- شافعی کا بیان ہے کہ مالک کہتے ہیں : میت پر نماز جنازہ مسجد میں نہیں پڑھی جائے گی، ٤- شافعی کہتے ہیں : میت پر نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے، اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٤ (٩٧٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٠ (١٩٦٩) ، مسند احمد (٦/٧٩، ١٣٣، ١٦٩) (تحفة الأشراف : ١٦١٧٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٤ (٣١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٩ (١٥١٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ٨ (٢٢) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام : سہل ، سہیل اور صفوان تھے اور ان کی ماں کا نام رعد تھا ، بیضاء ان کا وصفی نام ہے ، اور ان کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔ ٢ ؎ : اس سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے ، اگرچہ نبی اکرم ﷺ کا معمول مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا ، یہی جمہور کا مذہب ہے جو لوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت «من صلی علی جنازة في المسجد فلا شيء له» ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے ، جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں ، دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہور اور محقق نسخے میں «فلا شيء له» کی جگہ «فلا شيء عليه» ہے اس کے علاوہ اس کے اور بھی متعدد جوابات دیئے گئے ہیں دیکھئیے ( تحفۃ الاحوذی ج ٢ ص ١٤٦) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1518) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1033
حدیث نمبر: 1033 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: قَالَ مَالِكٌ: لَا يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৪
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مرد اور عورت کی نماز جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو۔
ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔ پھر لوگ قریش کی ایک عورت کا جنازہ لے کر آئے اور کہا : ابوحمزہ ! اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے، تو وہ چارپائی کے بیچ میں یعنی عورت کی کمر کے سامنے کھڑے ہوئے، تو ان سے علاء بن زیاد نے پوچھا : آپ نے نبی اکرم ﷺ کو عورت اور مرد کے جنازے میں اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔ جیسے آپ کھڑے ہوئے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ١ ؎۔ اور جب جنازہ سے فارغ ہوئے تو کہا : اس طریقہ کو یاد کرلو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور کئی لوگوں نے بھی ہمام سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ وکیع نے بھی یہ حدیث ہمام سے روایت کی ہے، لیکن انہیں وہم ہوا ہے۔ انہوں نے «عن غالب عن أنس» کہا ہے اور صحیح «عن ابی غالب» ہے، عبدالوارث بن سعید اور دیگر کئی لوگوں نے ابوغالب سے روایت کی ہے جیسے ہمام کی روایت ہے، ٣- اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے، ٤- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ فائدہ ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کی نماز جنازہ ہو تو امام اس کی کمر کے پاس کھڑا ہوگا، اور امام کو مرد کے سر کے بالمقابل کھڑا ہونا چاہیئے کیونکہ انس بن مالک نے عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ان کے سر کے پاس ہی کھڑے ہو کر پڑھایا تھا اور علاء بن زیاد کے پوچھنے پر انہوں نے کہا تھا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٥٧ (٣١٩٤) ، (بزیادة في السیاق) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢١ (١٤٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢١) ، مسند احمد (٣/١٥١) (بزیادة فی السیاق) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1494) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1034
حدیث نمبر: 1034 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَلَى جَنَازَةِ رَجُلٍ، فَقَامَ حِيَالَ رَأْسِهِ، ثُمَّ جَاءُوا بِجَنَازَةِ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالُوا: يَا أَبَا حَمْزَةَ، صَلِّ عَلَيْهَا، فَقَامَ حِيَالَ وَسَطِ السَّرِيرِ، فَقَالَ لَهُ الْعَلَاءُ بْنُ زِيَادٍ: هَكَذَا رَأَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى الْجَنَازَةِ مُقَامَكَ مِنْهَا، وَمِنَ الرَّجُلِ مُقَامَكَ مِنْهُ، قَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: احْفَظُوا . وَفِي الْبَاب: عَنْ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ هَمَّامٍ مِثْلَ هَذَا، وَرَوَى وَكِيعٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هَمَّامٍ فَوَهِمَ فِيهِ، فَقَالَ: عَنْ غَالِبٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَالصَّحِيحُ عَنْ أَبِي غَالِبٍ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْأَبِي غَالِبٍ مِثْلَ رِوَايَةِ هَمَّامٍ، وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي غَالِبٍ هَذَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُقَالُ: اسْمُهُ نَافِعٌ، وَيُقَالُ: رَافِعٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৫
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مرد اور عورت کی نماز جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو۔
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک عورت ١ ؎ کی نماز جنازہ پڑھائی، تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ نے بھی اسے حسین المعلم سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٩ (٣٣٢) ، والجنائز ٦٢ (١٣٣١) ، و ٦٣ (١٣٣٢) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٧ (٩٦٤) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٧ (٣١٩٥) ، سنن النسائی/الحیض ٢٥ (٣٩١) ، والجنائز ٧٣ (١٩٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢١ (١٤٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦٢٥) ، مسند احمد (٥/١٤، ١٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس عورت کا نام ام کعب ہے جیسا کہ نسائی کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1493) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1035
حدیث نمبر: 1035 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَالْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى امْرَأَةٍ فَقَامَ وَسَطَهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৬
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شہید پر نماز جنازہ نہ پڑھنا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں ایک ساتھ کفناتے، پھر پوچھتے : ان میں قرآن کسے زیادہ یاد تھا ؟ تو جب آپ کو ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو آپ اسے لحد میں مقدم رکھتے اور فرماتے : قیامت کے روز میں ان لوگوں پر گواہ رہوں گا ۔ اور آپ نے انہیں ان کے خون ہی میں دفنانے کا حکم دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی انہیں غسل ہی دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث زہری سے مروی ہے انہوں نے اسے انس سے اور انس نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے نیز یہ زہری سے عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیر کے واسطے سے بھی مروی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور ان میں سے بعض نے اسے جابر کی روایت سے ذکر کیا، ٢- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا شہید کی نماز جنازہ کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شہید کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ یہی اہل مدینہ کا قول ہے۔ شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں، ٤- اور بعض کہتے ہیں کہ شہید کی نماز پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ آپ نے حمزہ (رض) کی نماز پڑھی تھی۔ ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں اور یہی اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٢ (١٣٤٣) ، و ٧٣ (١٣٤٥) ، و ٧٥ (١٣٤٦) ، و ٧٨ (١٣٤٨) ، والمغازي ٢٦ (٤٠٧٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣١ (٣١٣٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٢ (١٩٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٨ (١٥١٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٨٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس موضوع پر مفصل بحث لکھنے کے بعد صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں : میرے نزدیک ظاہر مسئلہ یہی ہے کہ شہید پر نماز جنازہ واجب نہیں ہے ، البتہ اگر پڑھ لی جائے تو جائز ہے ، اور ماوردی نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ شہید پر نماز جنازہ زیادہ بہتر ہے اور اس پر نماز جنازہ نہ پڑھیں گے تو بھی ( اس کی شہادت اسے ) کفایت کرے گی ، ( فانظر فتح الباری عند الموضوع ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1514) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1036
حدیث نمبر: 1036 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيُّهُمَا أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ ، فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ، وَقَالَ: أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْهُمْ مَنْ ذَكَرَهُ عَنْ جَابِرٍ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الشَّهِيدِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يُصَلَّى عَلَى الشَّهِيدِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَبِهِ يَقُولُ: الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلَّى عَلَى الشَّهِيدِ، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى عَلَى حَمْزَةَ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ: إِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৭
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا : ابن عباس (رض) نے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، بریدہ، یزید بن ثابت، ابوہریرہ، عامر بن ربیعہ، ابوقتادہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبر پر نماز پڑھی جائے گی ١ ؎ یہ مالک بن انس کا قول ہے، ٥ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میت کو دفن کردیا جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس کی نماز جنازہ قبر پر پڑھی جائے گی، ٦- ابن مبارک قبر پر نماز (جنازہ) پڑھنے کے قائل ہیں، ٧- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : قبر پر نماز ایک ماہ تک پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر سنا ہے سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سعد بن عبادہ کی والدہ کی نماز جنازہ ایک ماہ کے بعد قبر پر پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦١ (٨٥٧) والجنائز ٥ (١٢٤٧) و ٥٤ (١٤١٩) و ٥٥ (١٣٢٤) ٥٩ (١٣٢٦) و ٦٦ (١٣٣٦) و ٦٩ (١٣٤٠) صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٤) سنن ابی داود/ الجنائز ٥٨ (٣١٩٦) سنن النسائی/الجنائز ٩٤ (٢٠٢٥) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٢ (١٥٣٠) (تحفة الأشراف : ٥٧٦٦) مسند احمد (١/٣٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ لوگ باب کی حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے «إن هذه القبور مملوؤة مظالم علی أهلها وأن اللہ ينورها لهم بصلاة عليهم» ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نماز قبر کو منور کرنے کے لیے تھی اور یہ دوسروں کی نماز میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبر پر نماز جنازہ پڑھی آپ نے انہیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائز ہے اور اگر یہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتا دوسروں کے لیے جائز نہ ہوتا تو آپ انہیں ضرور منع فرما دیتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1530) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1037
حدیث نمبر: 1037 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَى قَبْرًا مُنْتَبِذًا، فَصَفَّ أَصْحَابَهُ خَلْفَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: مَنْ أَخْبَرَكَهُ ؟ فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِذَا دُفِنَ الْمَيِّتُ وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، صُلِّيَ عَلَى الْقَبْرِ، وَرَأَى ابْنُ الْمُبَارَكِ الصَّلَاةَ عَلَى الْقَبْرِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ إِلَى شَهْرٍ، وَقَالَا: أَكْثَرُ مَا سَمِعْنَا عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَبْرِ أُمِّ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بَعْدَ شَهْرٍ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৮
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ام سعد کا انتقال ہوگیا اور نبی اکرم ﷺ موجود نہیں تھے، جب آپ تشریف لائے تو ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس واقعہ کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٧٢٢) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے، سعید بن المسیب تابعی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (3 / 183 و 186) ، // برقم (736 / 1 و 737) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1038
حدیث نمبر: 1038 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَائِبٌ، فَلَمَّا قَدِمَ صَلَّى عَلَيْهَا، وَقَدْ مَضَى لِذَلِكَ شَهْرٌ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৯
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی کریم ﷺ کا نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنا
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا : تمہارے بھائی نجاشی ١ ؎ کا انتقال ہوگیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو ۔ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- یہ حدیث ابوقلابہ نے بھی اپنے چچا ابومہلب سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے، ٣- ابومہلب کا نام عبدالرحمٰن بن عمرو ہے۔ انہیں معاویہ بن عمرو بھی کہا جاتا ہے، ٤- اس باب میں ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، ابوسعید، حذیفہ بن اسید اور جریر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٧) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٥) (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٩) مسند احمد (٤/٤٣٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥٣) سنن النسائی/الجنائز ٥٧ (١٩٤٨) مسند احمد (٤/٤٣٣، ٤٤١، ٤٤٦) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھا جیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصر اور ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا ، نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجر تھا اسی بادشاہ کے دور میں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی ، نبی اکرم ﷺ نے ٦ ھ کے آخر یا محرم ٧ ھ میں نجاشی کو عمرو بن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا ، اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور جعفر بن ابی طالب (رض) کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوہ تبوک ٩ ھ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔ ٢ ؎ : اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے ، نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول امام احمد بن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی تعامل امت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1039
حدیث نمبر: 1039 حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَخَاكُمْ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ ، قَالَ: فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا كَمَا يُصَفُّ عَلَى الْمَيِّتِ، وَصَلَّيْنَا عَلَيْهِ كَمَا يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ. وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو قِلَابَةَ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو، وَيُقَالُ لَهُ: مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪০
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز جنازہ کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی نماز جنازہ پڑھی، اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے۔ اور جو اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کی تدفین مکمل کرلی جائے تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے، ان میں سے ایک قیراط یا ان میں سے چھوٹا قیراط احد کے برابر ہوگا ۔ تو میں نے ابن عمر سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس بھیجا اور ان سے اس بارے میں پوچھوایا تو انہوں نے کہا : ابوہریرہ سچ کہتے ہیں۔ تو ابن عمر نے کہا : ہم نے بہت سے قیراط گنوا دیئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ان سے کئی سندوں سے یہ مروی ہے، ٣- اس باب میں براء، عبداللہ بن مغفل، عبداللہ بن مسعود، ابو سعید خدری، ابی بن کعب، ابن عمر اور ثوبان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٥٨) وانظر : مسند احمد (٢/٤٩٨، ٥٠٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الإیمان ٣٥ (٤٧) والجنائز ٥٨ (١٣٢٥) صحیح مسلم/الجنائز ١٧ (٩٤٥) سنن النسائی/الجنائز ٧٩ (١٩٩٦) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٤ (١٥٣٩) مسند احمد (٢/٢٣٣، ٢٤٦، ٢٨٠، ٣٢١، ٣٨٧، ٤٠١، ٤٣٠، ٤٥٨، ٤٧٥، ٤٩٣، ٥٢١) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1539) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1040
حدیث نمبر: 1040 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ تَبِعَهَا حَتَّى يُقْضَى دَفْنُهَا فَلَهُ قِيرَاطَانِ أَحَدُهُمَا، أَوْ أَصْغَرُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ . فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عُمَرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَائِشَةَ فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: صَدَقَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيطَ كَثِيرَةٍ، وَفِي الْبَاب: عَنْ الْبَرَاءِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَثَوْبَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪১
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دوسرا
عباد بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے ابوالمہزم کو کہتے سنا کہ میں دس سال ابوہریرہ کے ساتھ رہا۔ میں نے انہیں سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو کسی جنازے کے ساتھ گیا اور اسے تین بار کندھا دیا تو، اس نے اپنا حق پورا کردیا جو اس پر تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اسے بعض نے اسی سند سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٣- ابوالمہزم کا نام یزید بن سفیان ہے۔ شعبہ نے انہیں ضعیف کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٣٣) (ضعیف) (سند میں ابو المہزم ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1670) // ضعيف الجامع الصغير (5513) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1041
حدیث نمبر: 1041 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الْمُهَزِّمِ، قَالَ: صَحِبْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَشْرَ سِنِينَ سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً وَحَمَلَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ مِنْ حَقِّهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَأَبُو الْمُهَزِّمِ اسْمُهُ: يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ وَضَعَّفَهُ شُعْبَةُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪২
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کے لئے کھڑا ہونا
عامر بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو یہاں تک کہ وہ تمہیں چھوڑ کر آگے نکل جائے یا رکھ دیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عامر بن ربیعہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، جابر، سہیل بن حنیف، قیس بن سعد اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٦ (١٣٠٧) و ٤٧ (١٣٠٨) صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٨) سنن ابی داود/ الجنائز ٤٧ (٣١٧٢) سنن النسائی/الجنائز ٤٥ (١٩١٦) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٢) (تحفة الأشراف : ٥٠٤١) مسند احمد (٣/٤٤٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1542) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1042
حدیث نمبر: 1042 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا لَهَا حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ أَوْ تُوضَعَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৩
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کے لئے کھڑا ہونا
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے لیے کھڑے ہوجایا کرو۔ اور جو اس کے ساتھ جائے وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے، ٢- یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ جو کسی جنازے کے ساتھ جائے، وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ لوگوں کی گردنوں سے اتار کر رکھ نہ دیا جائے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ وہ جنازے کے آگے جاتے تھے اور جنازہ پہنچنے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔ اور یہی شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : *تخريج : صحیح البخاری/الجنائز ٤٨ (١٣١٠) صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٩) سنن النسائی/الجنائز ٤٤ (١٩١٥) و ٤٥ (١٩١٨) و ٨٠ (٢٠٠٠) مسند احمد (٣/٢٥، ٤١، ٥١) (تحفة الأشراف : ٤٤٢٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٧ (٣١٧٣) مسند احمد (٣/٨٥، ٩٧) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1043
حدیث نمبر: 1043 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ الحلواني، قَالَا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ، فَقُومُوا لَهَا فَمَنْ تَبِعَهَا فَلَا يَقْعُدَنَّ حَتَّى تُوضَعَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَا: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَلَا يَقْعُدَنَّ حَتَّى تُوضَعَ عَنْ أَعْنَاقِ الرِّجَالِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الْجَنَازَةَ فَيَقْعُدُونَ قَبْلَ أَنْ تَنْتَهِيَ إِلَيْهِمُ الْجَنَازَةُ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৪
جنازوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنازہ کے لئے کھڑا نہ ہونا
. علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ ان سے جنازے کے لیے جب تک کہ وہ رکھ نہ دیا جائے کھڑے رہنے کا ذکر کیا گیا تو علی نے کہا : رسول اللہ ﷺ کھڑے رہتے تھے پھر آپ بیٹھنے لگے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس میں چار تابعین کی روایت ہے جو ایک دوسرے سے روایت کر رہے ہیں، ٣- شافعی کہتے ہیں : اس باب میں یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔ یہ حدیث پہلی حدیث جب تم جنازہ دیکھو، تو کھڑے ہو جاؤ کی ناسخ ہے، ٤- اس باب میں حسن بن علی اور ابن عباس سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٦- احمد کہتے ہیں کہ چاہے تو کھڑا ہوجائے اور چاہے تو کھڑا نہ ہو۔ انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ کھڑے ہوجایا کرتے تھے پھر بیٹھے رہنے لگے۔ اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٧- علی (رض) کے قول (رسول اللہ ﷺ جنازے کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے تھے پھر آپ بیٹھے رہنے لگے کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنازہ دیکھتے تو کھڑے ہوجاتے پھر بعد میں آپ اس سے رک گئے۔ جب کوئی جنازہ دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٥ (٩٦٢) سنن ابی داود/ الجنائز ٤٧ (٣١٧٥) سنن النسائی/الجنائز ٨١ (٢٠٠١، ٢٠٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٤) (تحفة الأشراف : ١٠٢٧٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1544) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1044
حدیث نمبر: 1044 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ وَاقِدٍ وَهُوَ: ابْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ ذُكِرَ الْقِيَامُ فِي الْجَنَائِزِ حَتَّى تُوضَعَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَعَدَ . وَفِي الْبَاب: عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِيهِ رِوَايَةُ أَرْبَعَةٍ مِنَ التَّابِعِينَ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَذَا أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ، وَهَذَا الْحَدِيثُ نَاسِخٌ لِلْأَوَّلِ إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا، وقَالَ أَحْمَدُ: إِنْ شَاءَ قَامَ وَإِنْ شَاءَ لَمْ يَقُمْ، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَامَ ثُمَّ قَعَدَ، وَهَكَذَا قَالَ: إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: مَعْنَى قَوْلِ عَلِيٍّ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنَازَةِ ثُمَّ قَعَدَ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَى الْجَنَازَةَ قَامَ ثُمَّ تَرَكَ ذَلِكَ بَعْدُ فَكَانَ لَا يَقُومُ إِذَا رَأَى الْجَنَازَةَ
তাহকীক: