আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
روزوں کے متعلق ابواب - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১২৭ টি
হাদীস নং: ৮০২
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ عید الفطر اور عید الا ضحی کب ہوتی ہے ؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عید الفطر کا دن وہ ہے جب لوگ عید منائیں، اور عید الاضحی کا دن وہ ہے جس دن لوگ قربانی کریں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث، اس سند سے حسن غریب صحیح ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا : کیا محمد بن منکدر نے عائشہ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، وہ اپنی روایت میں کہتے ہیں : میں نے عائشہ سے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دیکھئیے حدیث رقم ٦٩٧ اور اس کا حاشیہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1660) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 802
حدیث نمبر: 802 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْفِطْرُ يَوْمَ يُفْطِرُ النَّاسُ، وَالْأَضْحَى يَوْمَ يُضَحِّي النَّاسُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا، قُلْتُ لَهُ: مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ، قَالَ: نَعَمْ، يَقُولُ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮০৩
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ایام اعتکاف کز رجا نا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، ایک سال آپ اعتکاف نہیں کرسکے تو جب اگلا سال آیا تو آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس بن مالک کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- معتکف جب اپنا اعتکاف اس مدت کے پورا کرنے سے پہلے ختم کر دے جس کی اس نے نیت کی تھی تو اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے کہا : جب وہ اعتکاف توڑ دے تو اس پر قضاء واجب ہوگی انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے اعتکاف سے نکل آئے تو آپ نے شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا، یہ مالک کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : اگر اس پر اعتکاف کی نذر یا کوئی ایسی چیز نہ ہو جسے اس نے اپنے اوپر واجب کرلی ہو اور وہ نفل کی نیت سے اعتکاف میں رہا ہو پھر اعتکاف سے نکل آیا ہو تو اس پر قضاء واجب نہیں الا یہ کہ وہ اپنی پسند سے اسے چاہے اور یہ اس پر واجب نہیں ہوگا۔ یہی شافعی کا قول ہے، ٣- شافعی کہتے ہیں : ہر وہ عمل جس کے کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں تمہیں اختیار ہو جب تم اسے کرنا شروع کر دو پھر اس کے پورا ہونے سے پہلے تم اسے چھوڑ دو تو اس کی قضاء تم پر لازم نہیں ہے۔ سوائے حج اور عمرہ کے، ٣- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٥٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2126) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 803
حدیث نمبر: 803 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَلَمْ يَعْتَكِفْ عَامًا، فَلَمَّا كَانَ فِي الْعَامِ الْمُقْبِلِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمُعْتَكِفِ إِذَا قَطَعَ اعْتِكَافَهُ قَبْلَ أَنْ يُتِمَّهُ عَلَى مَا نَوَى، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا نَقَضَ اعْتِكَافَهُ وَجَبَ عَلَيْهِ الْقَضَاءُ، وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ اعْتِكَافِهِ فَاعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ نَذْرُ اعْتِكَافٍ أَوْ شَيْءٌ أَوْجَبَهُ عَلَى نَفْسِهِ، وَكَانَ مُتَطَوِّعًا فَخَرَجَ فَلَيْسَ عَلَيْهِ أَنْ يَقْضِيَ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ذَلِكَ اخْتِيَارًا مِنْهُ، وَلَا يَجِبُ ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: فَكُلُّ عَمَلٍ لَكَ أَنْ لَا تَدْخُلَ فِيهِ، فَإِذَا دَخَلْتَ فِيهِ فَخَرَجْتَ مِنْهُ فَلَيْسَ عَلَيْكَ أَنْ تَقْضِيَ إِلَّا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮০৪
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ کیا معتکف اپنی حاجت کے لئے نکل سکتا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میرے قریب کردیتے میں اس میں کنگھی کردیتی ١ ؎ اور آپ گھر میں کسی انسانی ضرورت کے علاوہ ٢ ؎ داخل نہیں ہوتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی طرح اسے دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق : «مالک عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اسے بطریق : «مالک عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے، اور صحیح یہ ہے کہ ابن شہاب زہری نے اسے عروہ اور عمرہ دونوں سے اور ان دونوں نے عائشہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٧٦ (١٧٩) ، (٢٧٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٦٠٢ و ١٧٩٢١) ، وانظر الحدیث الآتی (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ معتکف اپنے جسم کا کوئی حصہ اگر مسجد سے نکالے تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔ ٢ ؎ : انسانی ضرورت کی تفسیر زہری نے پاخانہ اور پیشاب سے کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (633 و 1778) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 804
حدیث نمبر: 804 حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قِرَاءَةً، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اعْتَكَفَ أَدْنَى إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ، وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَالصَّحِيحُ عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮০৫
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ کیا معتکف اپنی حاجت کے لئے نکل سکتا ہے
ہم سے اسے قتیبہ نے بسند «الليث بن سعد عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جب آدمی اعتکاف کرے تو انسانی ضرورت کے بغیر اپنے معتکف سے نہ نکلے، اور ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ پاخانہ پیشاب جیسی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نکل سکتا ہے، ٢- پھر معتکف کے لیے مریض کی عیادت کرنے، جمعہ اور جنازہ میں شریک ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ وہ مریض کی عیادت کرسکتا ہے، جنازہ کے ساتھ جاسکتا ہے اور جمعہ میں شریک ہوسکتا ہے جب کہ اس نے اس کی شرط لگا لی ہو۔ یہ سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے، ٣- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے ان میں سے کوئی بھی چیز کرنے کی اجازت نہیں، ان کا خیال ہے کہ معتکف کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شہر میں ہو جہاں جمعہ ہوتا ہو تو مسجد جامع میں ہی اعتکاف کرے۔ اس لیے کہ یہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے معتکف سے نکلنا اس کے لیے مکروہ قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے جمعہ چھوڑنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے، اس لیے ان کا کہنا ہے کہ وہ جامع مسجد ہی میں اعتکاف کرے تاکہ اسے انسانی حاجتوں کے علاوہ کسی اور حاجت سے باہر نکلنے کی ضرورت نہ باقی رہے، اس لیے کہ بغیر کسی انسانی ضرورت کے مسجد سے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے۔ ٤- اور احمد کہتے ہیں : عائشہ (رض) کی حدیث کی رو سے نہ وہ مریض کی عیادت کرے گا، نہ جنازہ کے ساتھ جائے گا۔ ٥- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : اگر وہ ان چیزوں کی شرط کرلے تو اسے جنازے کے ساتھ جانے اور مریض کی عیادت کرنے کی اجازت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٣ (٢٠٢٩) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٩ (٢٤٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٦٤ (١٧٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٧٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : ح/الحیض ٢ (٢٩٥) ، والاعتکاف ٢ (٢٠٢٨) ، و ١٩ (٢٠٤٦) ، واللباس ٧٦ (٥٩٢٥) ، و سنن ابی داود/ الصیام ٧٩ (٢٤٦٧) ، وط/الطہارة ٢٨ (١٠٢) ، والاعتکاف ١ (١) ، و مسند احمد (٦/١٠٤) ، ٢٠٤، ٢٣١، ٢٤٧، ٢٦٢) ، وسنن الدارمی/الطہارة ١٠٧ (١٠٨٥) ، من غیر ہذا الطریق، وبتصرف یسیر فی السیاق۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 805
حدیث نمبر: 805 حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا اعْتَكَفَ الرَّجُلُ أَنْ لَا يَخْرُجَ مِنَ اعْتِكَافِهِ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ، وَاجْتَمَعُوا عَلَى هَذَا أَنَّهُ يَخْرُجُ لِقَضَاءِ حَاجَتِهِ لِلْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَشُهُودِ الْجُمُعَةِ وَالْجَنَازَةِ لِلْمُعْتَكِفِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنْ يَعُودَ الْمَرِيضَ وَيُشَيِّعَ الْجَنَازَةَ وَيَشْهَدَ الْجُمُعَةَ إِذَا اشْتَرَطَ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ لَهُ أَنْ يَفْعَلَ شَيْئًا مِنْ هَذَا، وَرَأَوْا لِلْمُعْتَكِفِ إِذَا كَانَ فِي مِصْرٍ يُجَمَّعُ فِيهِ أَنْ لَا يَعْتَكِفَ إِلَّا فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، لِأَنَّهُمْ كَرِهُوا الْخُرُوجَ لَهُ مِنْ مُعْتَكَفِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَلَمْ يَرَوْا لَهُ أَنْ يَتْرُكَ الْجُمُعَةَ، فَقَالُوا: لَا يَعْتَكِفُ إِلَّا فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ حَتَّى لَا يَحْتَاجَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ مُعْتَكَفِهِ لِغَيْرِ قَضَاءِ حَاجَةِ الْإِنْسَانِ، لِأَنَّ خُرُوجَهُ لِغَيْرِ حَاجَةِ الْإِنْسَانِ قَطْعٌ عِنْدَهُمْ لِلِاعْتِكَافِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ أَحْمَدُ: لَا يَعُودُ الْمَرِيضَ وَلَا يَتْبَعُ الْجَنَازَةَ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ، وقَالَ إِسْحَاق: إِنِ اشْتَرَطَ ذَلِكَ فَلَهُ أَنْ يَتْبَعَ الْجَنَازَةَ وَيَعُودَ الْمَرِيضَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮০৬
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ رمضان میں رات کو نماز پڑھنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز (تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، (یعنی تہجد نہیں پڑھی) اور جب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی۔ تو ہم نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے (تو بہتر ہوتا) ؟ آپ نے فرمایا : جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے، پھر آپ نے ہمیں ستائیسویں رات کو نماز پڑھائی۔ اور اپنے گھر والوں اور اپنی عورتوں کو بھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا : فلاح کیا چیز ہے ؟ تو انہوں نے کہا : سحری ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، نعمان بن بشیر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا، ٤- اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام (رض) سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں : اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکہ میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے، ٥- احمد کہتے ہیں : اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ١ ؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی، ٦- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ٤١ رکعتیں مرغوب ہیں، ٧- ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کیا ہے، ٨- شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسند کیا ہے جب وہ قاری ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٨ (١٣٧) ، سنن النسائی/السہو ١٠٣ (١٣٦٥) ، الإقامة ١٧٣ (١٣٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٠٣) ، مسند احمد (٥/١٥٩) ، سنن الدارمی/الصوم (١٨١٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دو قول کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں وارد ہیں ان میں راجح اور مختار اور دلائل کے اعتبار سے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح سند سے یہی قول ثابت ہے دیگر اقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سند سے ثابت نہیں اور نہ ہی خلفاء راشدین (رض) میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1327) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 806
حدیث نمبر: 806 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الْفَلَاحُ ؟ قَالَ: السُّحُورُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وقَالَ أَحْمَدُ: رُوِيَ فِي هَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيهِ بِشَيْءٍ، وقَالَ إِسْحَاق: بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَهُ إِذَا كَانَ قَارِئًا، وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮০৭
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ افطار کرانے کی فضیلت
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں سے ذرا بھی کم کیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٥ (١٧٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٦٠) ، مسند احمد (٤/١١٤-١١٥، ١١٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1746) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 807
حدیث نمبر: 807 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮০৮
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ رمضان میں نماز شب ( یعنی تراویح) کی ترغیب اور فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے قیام (تہجد پڑھنے) کی ترغیب دلاتے، بغیر اس کے کہ انہیں تاکیدی حکم دیں اور فرماتے : جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے ، چناچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور معاملہ اسی پر قائم رہا، پھر ابوبکر (رض) کے عہد خلافت میں اور عمر (رض) کے عہد خلافت کے ابتدائی دور میں بھی معاملہ اسی پر رہا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی سے حدیث آئی ہے، ٣- یہ حدیث بطریق : «الزهري عن عروة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٢٧٠) ، وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٧) ، والصوم ٦ (١٨٩٨) ، والتراویح ١ (٢٠٠٩) ، و سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، وسنن النسائی/قیام اللیل ٣ (١٦٠٣) ، والصیام ٣٩ (٢١٩٨-٢٢٠١، ٢٢٠٣-٢٢٠٤، ٢٢١٢) ، والإیمان ٢١ (٥٠٢٧- ٥٠٢٩) ، و ٢٢ (٥٠٣٠) من غیر ھذا الطریق (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نبی اکرم ﷺ کے عہد میں اور ابوبکر (رض) کے عہد میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بغیر عزیمت و تاکید کے اکیلے اکیلے ہی تراویح پڑھنے کا معاملہ رہا ، پھر عمر فاروق (رض) نے ابی بن کعب (رض) کی امامت میں باضابطہٰ گیارہ رکعت تراویح باجماعت کا نظم قائم کردیا۔ اس ضمن میں مؤطا امام میں صحیح حدیث موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1241) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 808
حدیث نمبر: 808 حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، وَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ. ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক: