আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
روزوں کے متعلق ابواب - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১২৭ টি
হাদীস নং: ৭২২
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزے میں بھول کر کھانا پینا
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری اور ام اسحاق غنویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٤- مالک بن انس کہتے ہیں کہ جب کوئی رمضان میں بھول کر کھا پی لے تو اس پر روزوں کی قضاء لازم ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٥ (١٦٧٣) ، و ( تحفة الأشراف : ١٢٣٠٣، و ١٤٤٧) (صحیح) وأخرجہ سنن ابی داود/ الصیام ٣٩ (٢٣٩٨) من غیر ہذا الطریق والسیاق، وانظر ما قبلہ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 722
حدیث نمبر: 722 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، وَخَلَّاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ أَوْ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأُمِّ إِسْحَاق الْغَنَوِيَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِذَا أَكَلَ فِي رَمَضَانَ نَاسِيًا فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২৩
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ قصدا روزہ توڑنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اور بغیر کسی بیماری کے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا تو پورے سال کا روزہ بھی اس کو پورا نہیں کر پائے گا چاہے وہ پورے سال روزے سے رہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوالمطوس کا نام یزید بن مطوس ہے اور اس کے علاوہ مجھے ان کی کوئی اور حدیث معلوم نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٣٨ (٢٣٩٦، ٢٣٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٥ (١٦٧٢) ، مسند احمد ( ٢/٤٥٨، ٤٧٠) ، سنن الدارمی/الصوم ١٨ (١٧٥٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٦١٦) (ضعیف) (سند میں ابو المطوس لین الحدیث ہیں اور ان کے والد مجہول) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1672) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (368) مختصرا، المشکاة (2013) ، ضعيف الجامع الصغير (5462) ، ضعيف أبي داود (517 / 2396) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 723
حدیث نمبر: 723 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُطَوِّسِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: أَبُو الْمُطَوِّسِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ الْمُطَوِّسِ، وَلَا أَعْرِفُ لَهُ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২৪
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ رمضان میں روزہ توڑنے کا کفارہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں ہلاک ہوگیا، آپ نے پوچھا : تمہیں کس چیز نے ہلاک کردیا ؟ اس نے عرض کیا : میں رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا۔ آپ نے پوچھا : کیا تم ایک غلام یا لونڈی آزاد کرسکتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے پوچھا : کیا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، تو آپ نے پوچھا : کیا ساٹھ مسکین کو کھانا کھلا سکتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، تو آپ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ اتنے میں آپ ﷺ کے پاس ایک بڑا ٹوکرہ لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں، آپ نے فرمایا : اسے لے جا کر صدقہ کر دو ، اس نے عرض کیا : ان دونوں ملے ہوئے علاقوں کے درمیان کی بستی (یعنی مدینہ میں) مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے ساتھ والے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ نے فرمایا : اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، عائشہ اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں جو رمضان میں جان بوجھ کر بیوی سے جماع کر کے روزہ توڑ دے، اسی حدیث پر عمل ہے، ٤- اور جو جان بوجھ کر کھا پی کر روزہ توڑے، تو اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں : اس پر روزے کی قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہے، ان لوگوں نے کھانے پینے کو جماع کے مشابہ قرار دیا ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں : اس پر صرف روزے کی قضاء لازم ہے، کفارہ نہیں۔ اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ سے جو کفارہ مذکور ہے وہ جماع سے متعلق ہے، کھانے پینے کے بارے میں آپ سے کفارہ مذکور نہیں ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ کھانا پینا جماع کے مشابہ نہیں ہے۔ یہ شافعی اور احمد کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کا اس شخص سے جس نے روزہ توڑ دیا، اور آپ نے اس پر صدقہ کیا یہ کہنا کہ اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو ، کئی باتوں کا احتمال رکھتا ہے : ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کفارہ اس شخص پر ہوگا جو اس پر قادر ہو، اور یہ ایسا شخص تھا جسے کفارہ دینے کی قدرت نہیں تھی، تو جب نبی اکرم ﷺ نے اسے کچھ دیا اور وہ اس کا مالک ہوگیا تو اس آدمی نے عرض کیا : ہم سے زیادہ اس کا کوئی محتاج نہیں۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے لے لو اور جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو ، اس لیے کہ روزانہ کی خوراک سے بچنے کے بعد ہی کفارہ لازم آتا ہے، تو جو اس طرح کی صورت حال سے گزر رہا ہو اس کے لیے شافعی نے اسی بات کو پسند کیا ہے کہ وہی اسے کھالے اور کفارہ اس پر فرض رہے گا، جب کبھی وہ مالدار ہوگا تو کفارہ ادا کرے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٠ (١٩٣٦) ، صحیح مسلم/الصیام ١٤ (١١١١) ، سنن ابی داود/ الصیام ٣٧ (٢٣٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٤ (١٦٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٢٧٥) ، موطا امام مالک/الصیام ٩ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٢٤١) ، سنن الدارمی/الصوم ١٩ (١٧٥٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1671) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 724
حدیث نمبر: 724 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَأَبَو عَمَّارٍ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ وَاللَّفْظُ لَفْظُ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ، قَالَ: وَمَا أَهْلَكَكَ ؟ قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ رَقَبَةً ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: اجْلِسْ فَجَلَسَ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ الضَّخْمُ، قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ فَقَالَ: مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَحَدٌ أَفْقَرَ مِنَّا، قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، قَالَ: فَخُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا مِنْ جِمَاعٍ، وَأَمَّا مَنْ أَفْطَرَ مُتَعَمِّدًا مِنْ أَكْلٍ أَوْ شُرْبٍ، فَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَالْكَفَّارَةُ، وَشَبَّهُوا الْأَكْلَ وَالشُّرْبَ بِالْجِمَاعِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا ذُكِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَفَّارَةُ فِي الْجِمَاعِ وَلَمْ تُذْكَرْ عَنْهُ فِي الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ، وَقَالُوا: لَا يُشْبِهُ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ الْجِمَاعَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ الَّذِي أَفْطَرَ فَتَصَدَّقَ عَلَيْهِ خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ، يَحْتَمِلُ هَذَا مَعَانِيَ: يَحْتَمِلُ أَنْ تَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَى مَنْ قَدَرَ عَلَيْهَا، وَهَذَا رَجُلٌ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الْكَفَّارَةِ، فَلَمَّا أَعْطَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا وَمَلَكَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا أَحَدٌ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنَّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ لِأَنَّ الْكَفَّارَةَ إِنَّمَا تَكُونُ بَعْدَ الْفَضْلِ عَنْ قُوتِهِ، وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ لِمَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ هَذَا الْحَالِ أَنْ يَأْكُلَهُ، وَتَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَيْهِ دَيْنًا فَمَتَى مَا مَلَكَ يَوْمًا مَا كَفَّرَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২৫
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزے میں مسواک کرنا
عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو روزہ کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ میں اسے شمار نہیں کرسکتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عامر بن ربیعہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- اسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے۔ یہ لوگ روزہ دار کے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ١ ؎ سمجھتے، البتہ بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے تازی لکڑی کی مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے، اور دن کے آخری حصہ میں بھی مسواک کو مکروہ کہا ہے۔ لیکن شافعی دن کے شروع یا آخری کسی بھی حصہ میں مسواک کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ نے دن کے آخری حصہ میں مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٢٦ (٢٣٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٣٤) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : خواہ زوال سے پہلے ہو یا زوال کے بعد ، خواہ تازی لکڑی سے ہو ، یا خشک ، یہی اکثر اہل علم کا قول ہے اور یہی راجح۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (68) //، ضعيف أبي داود (511 / 2364) ، المشکاة (2009) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 725
حدیث نمبر: 725 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَا أُحْصِي يَتَسَوَّكُ وَهُوَ صَائِمٌ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالسِّوَاكِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، إِلَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا السِّوَاكَ لِلصَّائِمِ بِالْعُودِ وَالرُّطَبِ، وَكَرِهُوا لَهُ السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ، وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ بِالسِّوَاكِ بَأْسًا أَوَّلَ النَّهَارِ وَلَا آخِرَهُ، وَكَرِهَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২৬
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روازے میں سرمہ لگانے کے بارے میں
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر پوچھا : میری آنکھ آ گئی ہے، کیا میں سرمہ لگا لوں، میں روزے سے ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں (لگا لو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ٢- اس باب میں نبی اکرم ﷺ سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں، ٣- ابوعات کہ ضعیف قرار دیے جاتے ہیں، ٤- اس باب میں ابورافع سے بھی روایت ہے، ٥- صائم کے سرمہ لگانے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ١ ؎ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے اور بعض اہل علم نے روزہ دار کو سرمہ لگانے کی رخصت دی ہے اور یہ شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٢٢) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو عاتک طریف سلمان ضعیف راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : ان کی دلیل معبد بن ہوذہ کی حدیث ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے ، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مشک ملا ہوا سرمہ سوتے وقت لگانے کا حکم دیا اور فرمایا صائم اس سے پرہیز کرے ، لیکن یہ حدیث منکر ہے ، جیسا کہ ابوداؤد نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے نقل کیا ہے ، لہٰذا اس حدیث کے رو سے صائم کے سرمہ لگانے کی کراہت پر استدلال صحیح نہیں ، راجح یہی ہے کہ صائم کے لیے بغیر کراہت کے سرمہ لگانا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 726
حدیث نمبر: 726 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاتِكَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اشْتَكَتْ عَيْنِي، أَفَأَكْتَحِلُ وَأَنَا صَائِمٌ ؟ قَالَ: نَعَمْ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَلَا يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَاب شَيْءٌ، وَأَبُو عَاتِكَةَ يُضَعَّفُ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ فَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২৭
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزے میں بوسہ لینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ماہ صیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر بن خطاب، حفصہ، ابو سعید خدری، ام سلمہ، ابن عباس، انس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صائم کے بوسہ لینے کے سلسلے میں صحابہ کرام وغیرہم کا اختلاف ہے۔ بعض صحابہ نے بوڑھے کے لیے بوسہ لینے کی رخصت دی ہے۔ اور نوجوانوں کے لیے اس اندیشے کے پیش نظر رخصت نہیں دی کہ اس کا صوم محفوظ و مامون نہیں رہ سکے گا۔ جماع ان کے نزدیک زیادہ سخت چیز ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے : بوسہ اجر کم کردیتا ہے لیکن اس سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا، ان کا خیال ہے کہ روزہ دار کو اگر اپنے نفس پر قابو (کنٹرول) ہو تو وہ بوسہ لے سکتا ہے اور جب وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہ رکھ سکے تو بوسہ نہ لے تاکہ اس کا روزہ محفوظ و مامون رہے۔ یہ سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ١٢ (١١١٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ٣٣ (٢٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٩ (١٦٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے روزے کی حالت میں بوسہ کا جواز ثابت ہوتا ہے ، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں فرض اور نفل روزے کی تفریق صحیح نہیں ، رمضان کے روزے کی حالت میں بھی بوسہ لیا جاسکتا ہے ، لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1683) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 727
حدیث نمبر: 727 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُ فِي شَهْرِ الصَّوْمِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَحَفْصَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ، فَرَخَّصَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُبْلَةِ لِلشَّيْخِ، وَلَمْ يُرَخِّصُوا لِلشَّابِّ مَخَافَةَ أَنْ لَا يَسْلَمَ لَهُ صَوْمُهُ وَالْمُبَاشَرَةُ عِنْدَهُمْ أَشَدُّ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْقُبْلَةُ تُنْقِصُ الْأَجْرَ، وَلَا تُفْطِرُ الصَّائِمَ، وَرَأَوْا أَنَّ لِلصَّائِمِ إِذَا مَلَكَ نَفْسَهُ أَنْ يُقَبِّلَ، وَإِذَا لَمْ يَأْمَنْ عَلَى نَفْسِهِ تَرَكَ الْقُبْلَةَ لِيَسْلَمَ لَهُ صَوْمُهُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২৮
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ میں بوس وکنار کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں مجھ سے بوس و کنار کرتے تھے، آپ اپنی خواہش پر تم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر ما بعدہ ( تحفة الأشراف : ١٧٤١٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1684) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 728
حدیث نمبر: 728 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُنِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২৯
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ میں بوس وکنار کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور اپنی بیویوں کے ساتھ لپٹ کر لیٹتے تھے، آپ اپنی جنسی خواہش پر تم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور «لإربه» کے معنی «لنفسه» اپنے نفس پر کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ١٢ (١١٠٦) ، سنن ابی داود/ الصیام ٣٣ (٢٣٨٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٥ و ١٧٤٠٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٢٣ (١٩٢٧) ، وصحیح مسلم/الصیام (المصدرالسابق) ، وسنن ابن ماجہ/الصیام ١٩ (١٦٨٤) ، وسنن الدارمی/الصوم ٢١ (١٧٦٣) ، من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1687) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 729
حدیث نمبر: 729 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَيْسَرَةَ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ، وَمَعْنَى لِإِرْبِهِ لِنَفْسِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩০
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ اس کا روزہ درست نہیں جو رات سے نیت نہ کرے
ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے روزے کی نیت فجر سے پہلے نہیں کرلی، اس کا روزہ نہیں ہوا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حفصہ (رض) کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، نیز اسے نافع سے بھی روایت کیا گیا ہے انہوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور اسے ابن عمر ہی کا قول قرار دیا ہے، اس کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اور اسی طرح یہ حدیث زہری سے بھی موقوفاً مروی ہے، ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اسے مرفوع کیا ہے یحییٰ بن ایوب کے سوا، ٢- اس کا معنی اہل علم کے نزدیک صرف یہ ہے کہ اس کا روزہ نہیں ہوتا، جو رمضان میں یا رمضان کی قضاء میں یا نذر کے روزے میں روزے کی نیت طلوع فجر سے پہلے نہیں کرتا۔ اگر اس نے رات میں نیت نہیں کی تو اس کا روزہ نہیں ہوا، البتہ نفل روزے میں اس کے لیے صبح ہوجانے کے بعد بھی روزے کی نیت کرنا مباح ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٧١ (٢٤٥٤) ، سنن النسائی/الصیام ٦٨ (٣٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٦ (١٧٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٠٢) ، مسند احمد (٦/٢٨٧) ، سنن الدارمی/الصوم ١٠ (١٧٤٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر یہ عام ہے فرض اور نفل دونوں قسم کے روزوں کو شامل ہے لیکن جمہور نے اسے فرض کے ساتھ خاص مانا ہے اور راجح بھی یہی ہے ، اس کی دلیل عائشہ (رض) کی روایت ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس آتے اور پوچھتے : کیا کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ تو اگر میں کہتی کہ نہیں تو آپ فرماتے : میں روزے سے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1700) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 730
حدیث نمبر: 730 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَفْصَةَ حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلُهُ وَهُوَ أَصَحُّ، وَهَكَذَا أَيْضًا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ إِلَّا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فِي رَمَضَانَ أَوْ فِي قَضَاءِ رَمَضَانَ أَوْ فِي صِيَامِ نَذْرٍ، إِذَا لَمْ يَنْوِهِ مِنَ اللَّيْلِ لَمْ يُجْزِهِ، وَأَمَّا صِيَامُ التَّطَوُّعِ فَمُبَاحٌ لَهُ أَنْ يَنْوِيَهُ بَعْدَ مَا أَصْبَحَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩১
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ نفل روزہ توڑنا
ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اتنے میں آپ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ نے اس میں سے پیا، پھر مجھے دیا تو میں نے بھی پیا۔ پھر میں نے عرض کیا : میں نے گناہ کا کام کرلیا ہے۔ آپ میرے لیے بخشش کی دعا کر دیجئیے۔ آپ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : میں روزے سے تھی اور میں نے روزہ توڑ دیا تو آپ نے پوچھا : کیا کوئی قضاء کا روزہ تھا جسے تم قضاء کر رہی تھی ؟ عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو اس سے تمہیں کوئی نقصان ہونے والا نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابو سعید خدری اور ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٨٠١٥) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ” سماک “ جب منفرد ہوں تو ان کی روایت میں بڑا اضطراب پایاجاتا ہے، یہی حال اگلی حدیث میں ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج المشکاة (2079) ، صحيح أبي داود (2120) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 731
حدیث نمبر: 731 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ ابْنِ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَتْ: كُنْتُ قَاعِدَةً عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ، ثُمَّ نَاوَلَنِي فَشَرِبْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: إِنِّي أَذْنَبْتُ فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَقَالَ: وَمَا ذَاكِ ؟ قَالَتْ: كُنْتُ صَائِمَةً فَأَفْطَرْتُ، فَقَالَ: أَمِنْ قَضَاءٍ كُنْتِ تَقْضِينَهُ ، قَالَتْ: لَا، قَالَ: فَلَا يَضُرُّكِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَائِشَةَ. وَحَدِيثُ أُمِّ هَانِئٍ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الصَّائِمَ الْمُتَطَوِّعَ إِذَا أَفْطَرَ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ أَنْ يَقْضِيَهُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَالشَّافِعِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩২
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ نفل روزہ توڑنا
شعبہ کہتے ہیں کہ میں سماک بن حرب کو کہتے سنا کہ ام ہانی (رض) کے دونوں بیٹوں میں سے ایک نے مجھ سے حدیث بیان کی تو میں ان دونوں میں جو سب سے افضل تھا اس سے ملا، اس کا نام جعدہ تھا، ام ہانی اس کی دادی تھیں، اس نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کی دادی کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں آئے تو آپ نے کوئی پینے کی چیز منگائی اور اسے پیا۔ پھر آپ نے انہیں دیا تو انہوں نے بھی پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں تو روزے سے تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے ۔ شعبہ کہتے ہیں : میں نے سماک سے پوچھا : کیا آپ نے اسے ام ہانی سے سنا ہے ؟ کہا : نہیں، مجھے ابوصالح نے اور ہمارے گھر والوں نے خبر دی ہے اور ان لوگوں نے ام ہانی سے روایت کی۔ حماد بن سلمہ نے بھی یہ حدیث سماک بن حرب سے روایت کی ہے۔ اس میں ہے ام ہانی کی لڑکی کے بیٹے ہارون سے روایت ہے، انہوں نے ام ہانی سے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- شعبہ کی روایت سب سے بہتر ہے، اسی طرح ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ہے اور محمود نے ابوداؤد سے روایت کی ہے، اس میں «أمين نفسه» ہے، البتہ ابوداؤد سے محمود کے علاوہ دوسرے لوگوں نے جو روایت کی تو ان لوگوں نے «أمير نفسه أو أمين نفسه» شک کے ساتھ کہا۔ اور اسی طرح شعبہ سے متعدد سندوں سے بھی «أمين أو أمير نفسه» شک کے ساتھ وارد ہے۔ ام ہانی کی حدیث کی سند میں کلام ہے۔ ٢- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا اگر روزہ توڑ دے تو اس پر کوئی قضاء لازم نہیں الا یہ کہ وہ قضاء کرنا چاہے۔ یہی سفیان ثوری، احمد، اسحاق بن راہویہ اور شافعی کا قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٨٠٠١) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہی جمہور کا قول ہے ، ان کی دلیل ام ہانی کی روایت ہے جس میں ہے «فإن شئت فأقضی وإن شئت فلا تقضی» نیز ابو سعید خدری (رض) کی روایت ہے جس میں ہے «أفطر فصم مکانه إن شئت» یہ دونوں روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نفل روزہ توڑ دینے پر قضاء لازم نہیں ، حنفیہ کہتے ہیں کہ قضاء لازم ہے ، ان کی دلیل عائشہ و حفصہ (رض) کی روایت ہے جو ایک باب کے بعد آرہی ہے ، لیکن وہ ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج المشکاة (2079) ، صحيح أبي داود (2120) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 732
حدیث نمبر: 732 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ سِمَاكَ بْنَ حَرْبٍ، يَقُولُ: أَحَدُ ابْنَيْ أُمِّ هَانِئٍ، حَدَّثَنِي فَلَقِيتُ أَنَا أَفْضَلَهُمَا، وكانت أم هانئ جدته، فَحَدَّثَنِي، عَنْ جَدَّتِهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَدَعَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَهَا فَشَرِبَتْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَا إِنِّي كُنْتُ صَائِمَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِينُ نَفْسِهِ، إِنْ شَاءَ صَامَ وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ . قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لَهُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَ: لَا، أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ وَأَهْلُنَا، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، فَقَالَ: عَنْ هَارُونَ بْنِ بِنْتِ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، وَرِوَايَةُ شُعْبَةَ أَحْسَنُ، هَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، فَقَالَ: أَمِينُ نَفْسِهِ، وحَدَّثَنَا غَيْرُ مَحْمُودٍ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، فَقَالَ: أَمِيرُ نَفْسِهِ أَوْ أَمِينُ نَفْسِهِ عَلَى الشَّكِّ، وَهَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ شُعْبَةَ أَمِينُ أَوْ أَمِيرُ نَفْسِهِ عَلَى الشَّكِّ. قَالَ:
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩৩
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ نفل روزہ توڑنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن میرے پاس آئے اور آپ نے پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے میں نے عرض کیا : نہیں، تو آپ نے فرمایا : تو میں روزے سے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٢ (١١٥٤) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٢ (٢٤٥٥) ، سنن النسائی/الصیام ٦٧ (٢٣٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٦ (١٧٠١) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٧٢) ، مسند احمد (٦/٤٩، ٢٠٧) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (965) ، صحيح أبي داود (2119) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 733
حدیث نمبر: 733 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ ، قَالَتْ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩৪
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ نفل روزہ توڑنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس آتے تو پوچھتے : کیا تمہارے پاس کھانا ہے ؟ میں کہتی : نہیں۔ تو آپ فرماتے : تو میں روزے سے ہوں ، ایک دن آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔ آپ نے پوچھا : کیا چیز ہے ؟ میں نے عرض کیا : حیس ، آپ نے فرمایا : میں صبح سے روزے سے ہوں ، پھر آپ نے کھالیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک قسم کا کھانا جو کھجور ، ستّو اور گھی سے تیار کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (965) ، صحيح أبي داود (2119) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 734
حدیث نمبر: 734 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْعَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَيَقُولُ: أَعِنْدَكِ غَدَاءٌ فَأَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: إِنِّي صَائِمٌ ، قَالَتْ: فَأَتَانِي يَوْمًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، قَالَ: وَمَا هِيَ ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: حَيْسٌ، قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا قَالَتْ: ثُمَّ أَكَلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩৫
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ نفل روزے کی قضا واجب ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور حفصہ دونوں روزے سے تھیں، ہمارے پاس کھانے کی ایک چیز آئی جس کی ہمیں رغبت ہوئی، تو ہم نے اس میں سے کھالیا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ آ گئے، تو حفصہ مجھ سے سبقت کر گئیں - وہ اپنے باپ ہی کی بیٹی تو تھیں - انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ روزے سے تھے۔ ہمارے سامنے کھانا آگیا، تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی تو ہم نے اسے کھالیا، آپ نے فرمایا : تم دونوں کسی اور دن اس کی قضاء کرلینا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- صالح بن ابی اخضر اور محمد بن ابی حفصہ نے یہ حدیث بسند «زہری عن عروہ عن عائشہ» اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اسے مالک بن انس، معمر، عبیداللہ بن عمر، زیاد بن سعد اور دوسرے کئی حفاظ نے بسند «الزہری عن عائشہ» مرسلاً روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عروہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٦٤١٩) (ضعیف) (جعفر بن برقان زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عروہ کا واسطہ غلط ہے سند میں عروہ ہیں ہی نہیں) وضاحت : ١ ؎ : لیکن جمہور نے اسے تخییر پر محمول کیا ہے کیونکہ ام ہانی کی ایک روایت میں ہے «وإن کان تطوعاً فإن شئت فأقضي وإن شئت فلا تقضي» اور اگر نفلی روزہ ہے تو چاہو تو تم اس کی قضاء کرو اور چاہو تو نہ کرو اس روایت کی تخریج احمد نے کی ہے اور ابوداؤد نے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (423) // عندنا برقم (531 / 2457) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 735
حدیث نمبر: 735 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ، وَكَانَتِ ابْنَةَ أَبِيهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، قَالَ: اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ هَذَا، وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَمَعْمَرٌ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ عُرْوَةَ، وَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ، قُلْتُ لَهُ: أَحَدَّثَكَ عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ فِي هَذَا شَيْئًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ فِي خِلَافَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ مِنْ نَاسٍ، عَنْ بَعْضِ مَنْ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩৬
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ شعبان اور رمضان کے روزے ملا کر رکھنا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو لگاتار دو مہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان ١ ؎ اور رمضان کے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام سلمہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اور یہ حدیث ابوسلمہ سے بروایت عائشہ بھی مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا، آپ شعبان کے سارے روزے رکھتے، سوائے چند دنوں کے بلکہ پورے ہی شعبان روزے رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٣٣ (٢١٧٧) ، و ٧٠ (٢٣٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤ (١٦٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٣٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الصیام ١١ (٢٣٣٦) ، وسنن النسائی/الصیام ٧٠ (٢٣٥٥) ، و مسند احمد (٦/٣١١) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ ایک حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں تو آپ نے اس بات کو پسند فرمایا کہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1648) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 736
حدیث نمبر: 736 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ . وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُهُ إِلَّا قَلِيلًا بَلْ كَانَ يَصُومُهُ كُلَّهُ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩৭
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ شعبان اور رمضان کے روزے ملا کر رکھنا
اس سند سے بھی اسے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مبارک اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئی مہینے کے اکثر ایام روزہ رکھے تو کہا جائے کہ اس نے پورے مہینے کے روزے رکھے، اور کہا جائے کہ اس نے پوری رات نماز پڑھی حالانکہ اس نے شام کا کھانا بھی کھایا اور بعض دوسرے کاموں میں بھی مشغول رہا۔ گویا ابن مبارک دونوں حدیثوں کو ایک دوسرے کے موافق سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ اس مہینے کے اکثر ایام میں روزہ رکھتے تھے، ٢- سالم ابوالنضر اور دوسرے کئی لوگوں نے بھی بطریق ابوسلمہ عن عائشہ محمد بن عمرو کی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٧٥٦) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٥٢ (١٩٦٩) ، وصحیح مسلم/الصیام ٣٤ (١١٥٦) ، وسنن النسائی/الصیام ٣٤ (٢١٧٩، ٢١٨٠) ، و ٣٥ (٢١٨١-٢١٨٧) ، وسنن ابن ماجہ/الصیام ٣٠ (١٧١٠) ، وط/الصیام ٢٢ (٥٦) ، و مسند احمد (٦/٣٩، ٥٨، ٨٤، ١٠٧، ١٢٨، ١٤٣، ١٠٣، ١٦٥، ٢٣٣، ٢٤٢، ٢٤٩، ٢٦٨) ، من غیر ہذا الطریق ویتصرف یسیر فی السیاق قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1648) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 737
حدیث نمبر: 737 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: هُوَ جَائِزٌ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ إِذَا صَامَ أَكْثَرَ الشَّهْرِ أَنْ يُقَالَ صَامَ الشَّهْرَ كُلَّهُ، وَيُقَالُ: قَامَ فُلَانٌ لَيْلَهُ أَجْمَعَ وَلَعَلَّهُ تَعَشَّى وَاشْتَغَلَ بِبَعْضِ أَمْرِهِ، كَأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَدْ رَأَى كِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُتَّفِقَيْنِ، يَقُولُ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ أَكْثَرَ الشَّهْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩৮
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ تعظیم رمضان کے لئے شعبان کے دوسرے پندرہ دنوں میں روزے رکھنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- اور اس حدیث کا مفہوم بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی پہلے سے روزہ نہ رکھ رہا ہو، پھر جب شعبان ختم ہونے کے کچھ دن باقی رہ جائیں تو ماہ رمضان کی تعظیم میں روزہ رکھنا شروع کر دے۔ نیز ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے وہ چیزیں روایت کی ہے جو ان لوگوں کے قول سے ملتا جلتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ماہ رمضان کے استقبال میں پہلے سے روزہ نہ رکھو اس کے کہ ان ایام میں کوئی ایسا روزہ پڑجائے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کراہت اس شخص کے لیے ہے جو عمداً رمضان کی تعظیم میں روزہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ١٢ (٢٣٣٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٤ (١٧٨٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٠٥١) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/الصیام ٥ (١٦٥١) ، وسنن الدارمی/الصوم ٣٤ (١٧٨١) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنے کی ممانعت امت کو اس لیے ہے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار رہے ، رہے نبی اکرم ﷺ اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ آپ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا لیا کرتے تھے چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزہ آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1651) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 738
حدیث نمبر: 738 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ مُفْطِرًا، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ شَعْبَانَ شَيْءٌ أَخَذَ فِي الصَّوْمِ لِحَالِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُشْبِهُ قَوْلَهُمْ، حَيْثُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ وَقَدْ دَلَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّمَا الْكَرَاهِيَةُ عَلَى مَنْ يَتَعَمَّدُ الصِّيَامَ لِحَالِ رَمَضَانَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩৯
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ شعبان کی پندرھویں رات
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو غائب پایا۔ تو میں (آپ کی تلاش میں) باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا : کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان ٢ ؎ کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث کو ہم اس سند سے صرف حجاج کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا ہے، نیز فرمایا : یحییٰ بن ابی کثیر کا عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ کا یحییٰ بن ابی کثیر سے سماع نہیں، ٣- اس باب میں ابوبکر صدیق (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الاقامة ١٩١ (١٣٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٥) (ضعیف) (مؤلف نے سبب بیان کردیا ہے کہ حجاج بن ارطاة ضعیف راوی ہے، اور سند میں دوجگہ انقطاع ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس باب کا ذکر یہاں استطراداً شعبان کے ذکر کی وجہ سے کیا گیا ہے ورنہ گفتگو یہاں صرف روزوں کے سلسلہ میں ہے۔ ٢ ؎ : اسی کو برصغیر ہندو پاک میں لیلۃ البراءت بھی کہتے ہیں ، جس کا فارسی ترجمہ شب براءت ہے۔ اور اس میں ہونے والے اعمال بدعت وخرافات کے قبیل سے ہیں ، نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے حوالے سے کوئی ایک بھی صحیح روایت اور حدیث احادیث کی کتب میں نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1389) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (295) ، المشکاة (1299) الصفحة (406) ، ضعيف الجامع الصغير (1761) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 739
حدیث نمبر: 739 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ، فَقَالَ: أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكرٍ الصِّدِّيقِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ، وقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ: لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪০
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ محرم کے روزوں کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے ١ ؎ محرم کا روزہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٨ (١١٦٣) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٥ (٢٤٢٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٦ (١٦١٤) ، سنن ابن ماجہ/قیام الصیام ٤٣ (١٧٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٢٩٢) ، مسند احمد (٢/٣٤٢، ٢٤٤، ٥٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کی طرف اس مہینہ کی نسبت اس کے شرف و فضل کی علامت ہے ، جیسے بیت اللہ اور ناقۃ اللہ وغیرہ ہیں ، محرم چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ، ماہ محرم ہی سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1742) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 740
حدیث نمبر: 740 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪১
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ محرم کے روزوں کے بارے میں
علی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا : ماہ رمضان کے بعد کس مہینے میں روزہ رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں ؟ تو انہوں نے اس سے کہا : میں نے اس سلسلے میں سوائے ایک شخص کے کسی کو پوچھتے نہیں سنا، میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے سنا، اور میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر ماہ رمضان کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہی ہو تو محرم کا روزہ رکھو، وہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں پر رحمت کی ١ ؎ اور اس میں دوسرے لوگوں پر بھی رحمت کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٩٥) (ضعیف) (سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں، اور ان سے روایت کرنے والے ” عبدالرحمن بن اسحاق بن الحارث ابو شیبہ “ ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 77) // ضعيف الجامع الصغير (1298) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 741
حدیث نمبر: 741 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ ؟ قَالَ لَهُ: مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَسْأَلُ عَنْ هَذَا إِلَّا رَجُلًا سَمِعْتُهُ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ ؟ قَالَ: إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ فَصُمْ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّهُ شَهْرُ اللَّهِ، فِيهِ يَوْمٌ تَابَ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ آخَرِينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক: