আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
روزوں کے متعلق ابواب - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১২৭ টি
হাদীস নং: ৭৪২
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ جمعہ کے دن روزہ رکھنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر ماہ کے شروع کے تین دن روزے رکھتے۔ اور ایسا کم ہوتا تھا کہ جمعہ کے دن آپ روزے سے نہ ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- شعبہ نے یہ حدیث عاصم سے روایت کی ہے اور اسے مرفوع نہیں کیا، ٣- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اہل علم کی ایک جماعت نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ مکروہ یہ ہے کہ آدمی صرف جمعہ کو روزہ رکھے نہ اس سے پہلے رکھے اور نہ اس کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٦٨ (٢٤٥٠) (تحفة الأشراف : ٩٢٠٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن تخريج المشکاة (2058) ، التعليق علی ابن خزيمة (2149) ، صحيح أبي داود (2116) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 742
حدیث نمبر: 742 حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، وَطَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ غُرَّةِ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَقَلَّمَا كَانَ يُفْطِرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ صِيَامَ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ أَنْ يَصُومَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ لَا يَصُومُ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ، قَالَ: وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ هَذَا الْحَدِيثَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪৩
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے، إلا یہ کہ وہ اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی روزہ رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، جابر، جنادہ ازدی، جویریہ، انس اور عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ آدمی کے لیے مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے مخصوص کرلے، نہ اس سے پہلے روزہ رکھے اور نہ اس کے بعد۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٤ (١١٤٤) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٠ (٢٤٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٧ (١٧٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٥٠٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصیام ٦٣ (١٩٨٥) ، و مسند احمد (٢/٤٥٨) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : اس ممانعت کی وجہ کیا ہے ، اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ، سب سے صحیح وجہ اس کا یوم عید ہونا ہے ، اس کی صراحت ابوہریرہ (رض) کی مرفوع روایت میں ہے جس کی تخریج حاکم وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «يوم الجمعة يوم عيد فلا تجعلوا يوم عيدكم صيامکم إلا أن تصوموا قبله وبعده» جمعہ کا دن عید کا دن ہے ، اس لیے اپنے عید والے دن روزہ نہ رکھا کرو ، إلا یہ کہ اس سے ایک دن قبل - جمعرات کا بھی۔ روزہ رکھو یا اس سے ایک دن بعد سنیچر کے دن کا بھی۔ اور ابن ابی شیبہ نے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث علی (رض) سے روایت کی ہے جس کی سند حسن ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «من کان منکم متطوعاً من الشهر فليصم يوم الخميس ولا يصم يوم الجمعة فإنه يوم طعام وشراب» تم میں سے جو کوئی کسی مہینے کے نفلی روزے رکھ رہا ہو ، وہ جمعرات کے دن کا روزہ رکھے ، جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے ، اس لیے کہ یہ کھانے پینے کا دن ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1723) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 743
حدیث نمبر: 743 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَصُومُ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا أَنْ يَصُومَ قَبْلَهُ أَوْ يَصُومَ بَعْدَهُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَجَابِرٍ، وَجُنَادَةَ الْأَزْدِيِّ، وَجُوَيْرِيَةَ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَخْتَصَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ لَا يَصُومُ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪৪
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ہفتے کے دن روزہ رکھنا
عبداللہ بن بسر کی بہن بہیہ صمّاء (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہفتہ کے دن روزہ مت رکھو ١ ؎، سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تم پر فرض کیا ہو، اگر تم میں سے کوئی انگور کی چھال اور درخت کی ٹہنی کے علاوہ کچھ نہ پائے تو اسی کو چبا لے (اور روزہ نہ رکھے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور اس کے مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی روزہ کے لیے ہفتے (سنیچر) کا دن مخصوص کرلے، اس لیے کہ یہودی ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٥١٢ (٢٤٢١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٨ (١٧٢٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٠ (١٧٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩١٠) (صحیح) (اس کی سند میں تھوڑا کلام ہے، دیکھئے : الإرواء رقم : ٩٦٠) وضاحت : ١ ؎ : جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے یعنی روزہ نہ رکھنا بہتر ہے ، سوائے اس کے کہ اللہ نے تم پر فرض کیا ہو کے لفظ میں فرض نذر کے کفاروں کے روزے شامل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1726) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 744
حدیث نمبر: 744 حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، عَنْ أُخْتِهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلَّا فِيمَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا لِحَاءَ عِنَبَةٍ أَوْ عُودَ شَجَرَةٍ فَلْيَمْضُغْهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمَعْنَى كَرَاهَتِهِ فِي هَذَا أَنْ يَخُصَّ الرَّجُلُ يَوْمَ السَّبْتِ بِصِيَامٍ لِأَنَّ الْيَهُودَ تُعَظِّمُ يَوْمَ السَّبْتِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪৫
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سوموار اور جمعرات کے روزے کی تلاش میں رہتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عائشہ (رض) کی حدیث حسن ہے اور اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٣٦ (٢١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٢ (١٧٣٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٠٨١) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن النسائی/الصیام السابق : ٢١٨٨، وباب ٧٠ (الأرقام : ٢٣٥٨، ٢٣٦٢-٢٣٦٥) ، و مسند احمد (٦/٨٠، ٨٩، ١٠٦) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ ان دونوں دنوں میں اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں ، ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «تعرض الأعمال يوم الإثنين والخميس فأحب أن يعرض عملي وأنا صائم» اور دوسری وجہ وہ ہے جس کا ذکر مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوموار ( دوشنبہ ) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی اور اسی میں میں نبی بنا کر بھجا گیا ، یا اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1739) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 745
حدیث نمبر: 745 حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْرَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حَفْصَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪৬
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مہینہ ہفتہ (سنیچر) ، اتوار اور سوموار (دوشنبہ) کو اور دوسرے مہینہ منگل، بدھ، اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- عبدالرحمٰن بن مہدی نے اس حدیث کو سفیان سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٠٧٠) (ضعیف) (سند میں خیثمہ بن ابی خیثمہ ابو نصر بصری لین الحدیث ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف تخريج المشکاة / التحقيق الثاني (2059) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 746
حدیث نمبر: 746 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنَ الشَّهْرِ السَّبْتَ وَالْأَحَدَ وَالِاثْنَيْنِ وَمِنَ الشَّهْرِ الْآخَرِ الثُّلَاثَاءَ وَالْأَرْبِعَاءَ وَالْخَمِيسَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سُفْيَانَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪৭
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس باب میں حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٢ (١٧٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٧٤٦) ، وأخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٩) (صحیح) (سند میں محمد بن رفاعہ لین الحدیث راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج المشکاة / التحقيق الثانی (2056) ، التعليق الرغيب (2 / 84) ، الإرواء (949) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 747
حدیث نمبر: 747 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْبَاب حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪৮
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ بدھ اور جمعرات کے دن روزہ کھنا
مسلم قرشی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے صیام الدھر (سال بھر کے روزوں) کے بارے میں پوچھا، یا آپ سے صیام الدھر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : تم پر تمہارے گھر والوں کا بھی حق ہے، رمضان کے روزے رکھو، اور اس مہینے کے رکھو جو اس سے متصل ہے، اور ہر بدھ اور جمعرات کے روزے رکھو، جب تم نے یہ روزے رکھ لیے، تو اب گویا تم نے سال بھر روزہ رکھا اور افطار کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مسلم قرشی (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- بعض لوگوں نے بطریق «ہارون بن سلمان عن مسلم بن عبیداللہ عن عبیداللہ بن مسلم» روایت کی ہے، ٣- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٥٧ (٢٤٣٢) (تحفة الأشراف : ٩٧٤) (ضعیف) (صحیح سند اس طرح ہے ” عن مسلم بن عبیداللہ، عن أبیہ ” عبیداللہ بن مسلم “ اور مسلم بن عبیداللہ لین الحدیث ہیں اور ان کے باپ ” عبیداللہ بن مسلم “ صحابی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (420) // عندنا برقم (527 / 2432) ، المشکاة (2061) ، ضعيف الجامع الصغير (1914) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 748
حدیث نمبر: 748 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُرَيْرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْه، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ سَلْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ، فَقَالَ: إِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، صُمْ رَمَضَانَ وَالَّذِي يَلِيهِ وَكُلَّ أَرْبِعَاءَ وَخَمِيسٍ، فَإِذَا أَنْتَ قَدْ صُمْتَ الدَّهْرَ وَأَفْطَرْتَ . وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هَارُونَ بْنِ سَلْمَانَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪৯
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن ١ ؎ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوقتادہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم نے عرفہ کے دن کے روزے کو مستحب قرار دیا ہے، مگر جو لوگ عرفات میں ہوں ان کے لیے مستحب نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٦ (١١٦٢) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٣ (٢٤٢٥) ، سنن النسائی/الصیام ٧٣ (٢٣٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣١ (١٧٣٠) ، (التحفہ : ١٢١١٧) ، مسند احمد (٥/٢٩٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یوم عرفہ سے مراد ٩ ذی الحجہ ہے جب حجاج کرام عرفات میں وقوف کرتے ہیں اور ذکر و دعا میں مشغول ہوتے ہیں ، اس دن ان کے لیے یہی سب سے بڑی عبادت ہے اس لیے اس دن کا روزہ ان کے لیے مستحب نہیں ہے ، البتہ غیر حاجیوں کے لیے اس دن روزہ رکھنا بڑی فضیلت کی بات ہے ، اس سے ان کے دو سال کے وہ صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے۔ ( یہ خیال رہے کہ مکہ سے دور علاقوں کے لوگ اپنے یہاں کی رویت کے حساب سے ٩ ذی الحجہ کو عرفہ کا روزہ نہ رکھیں ، بلکہ مکہ کی رویت کے حساب سے ٩ ذی الحجہ کا روزہ رکھیں کیونکہ حجاج اسی حساب سے میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں مطلع اور ملک بدل جائے وہاں کے لوگ اپنے حساب نو ذی الحجہ کا روزہ رکھیں ، بلکہ افضل یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ سے ٩ تک مسلسل روزہ رکھے ، اس لیے کہ ان دنوں میں کیے گئے اعمال کی فضیلت حدیث میں بہت آئی ہے اور سلف صالحین کا اس ضمن میں تعامل بھی روایات میں مذکور ہے ، اور اس سے یوم عرفہ سے مراد مقام عرفات میں ٩ ذی الحجہ پر بھی عمل ہوجائے گا ، واللہ اعلم۔ ٢ ؎ : اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بعد والے سال کے گناہوں کا وہ کفارہ کیسے ہوجاتا ہے جب کہ آدمی نے وہ گناہ ابھی کیا ہی نہیں ہے تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس سال اللہ تعالیٰ اسے گناہوں سے محفوظ رکھے گا یا اتنی رحمت و ثواب اسے مرحمت فرما دے گا کہ وہ آنے والے سال کے گناہوں کا بھی کفارہ ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1730) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 749
حدیث نمبر: 749 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقْدِ اسْتَحَبَّ أَهْلُ الْعِلْمِ صِيَامَ يَوْمِ عَرَفَةَ إِلَّا بِعَرَفَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫০
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ عرفات میں عرفہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عرفات میں روزہ نہیں رکھا، ام فضل (رض) نے آپ کے پاس دودھ بھیجا تو آپ نے اسے پیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عمر اور ام الفضل (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے اس دن کا (یعنی یوم عرفہ کا) روزہ نہیں رکھا اور ابوبکر (رض) کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا، عمر کے ساتھ حج کیا، تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا، اور عثمان کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا، ٤- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ عرفات میں روزہ نہ رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں تاکہ آدمی دعا کی زیادہ سے زیادہ قدرت رکھ سکے، ٥- اور بعض اہل علم نے عرفہ کے دن عرفات میں روزہ رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أوأخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٦٠٠٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2109) ، التعليق علی ابن خزيمة (2102) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 750
حدیث نمبر: 750 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْطَرَ بِعَرَفَةَ، وَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ أُمُّ الْفَضْلِ بِلَبَنٍ فَشَرِبَ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأُمِّ الْفَضْلِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَصُمْهُ يَعْنِي يَوْمَ عَرَفَةَ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَمَعَ عُمَرَ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ يَصُمْهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ الْإِفْطَارَ بِعَرَفَةَ لِيَتَقَوَّى بِهِ الرَّجُلُ عَلَى الدُّعَاءِ، وَقَدْ صَامَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَوْمَ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫১
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ عرفات میں عرفہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
ابونجیح یسار کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے عرفہ کے دن عرفات میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا۔ آپ نے اس دن کا روزہ نہیں رکھا۔ ابوبکر کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی نہیں رکھا، عمر کے ساتھ کیا۔ انہوں نے بھی نہیں رکھا۔ عثمان کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی نہیں رکھا (رضی اللہ عنہم) ، میں بھی اس دن (وہاں عرفات میں) روزہ نہیں رکھتا ہوں، البتہ نہ تو میں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے روکتا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یہ حدیث ابن ابی نجیح سے بطریق : «عن أبيه عن رجل عن ابن عمر» بھی مروی ہے۔ ابونجیح کا نام یسار ہے اور انہوں نے ابن عمر سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) ( تحفة الأشراف : ٨٥٧١) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : اس کا مطلب یہ ہے کہ ابونجیح نے اس حدیث کو پہلے ابن عمر سے ایک آدمی کے واسطے سے سنا تھا پھر بعد میں ابن عمر سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے اسے براہ راست بغیر واسطے کے ابن عمر (رض) سے سنا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 751
حدیث نمبر: 751 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ، عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ: حَجَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَمَعَ عُمَرَ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَأَنَا لَا أَصُومُهُ وَلَا آمُرُ بِهِ وَلَا أَنْهَى عَنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبُو نَجِيحٍ اسْمُهُ يَسَارٌ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْ ابْنِ عُمَرَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ عاشورہ کے روزہ کی ترغیب
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء ١ ؎ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی، محمد بن صیفی، سلمہ بن الاکوع، ہند بن اسماء، ابن عباس، ربیع بنت معوذ بن عفراء، عبدالرحمٰن بن سلمہ خزاعی، جنہوں نے اپنے چچا سے روایت کی ہے اور عبداللہ بن زبیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن کے روزہ رکھنے پر ابھارا، ٢- ابوقتادہ (رض) کی حدیث کے علاوہ ہم نہیں جانتے کہ کسی اور روایت میں آپ نے یہ فرمایا ہو کہ عاشوراء کے دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ احمد اور اسحاق کا قول بھی ابوقتادہ کی حدیث کے مطابق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٧٤٩ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : محرم کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہتے ہیں ، نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں ، آپ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی اس خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا : ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں ، چناچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ ٩ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہود کی مخالفت بھی ہوجائے ، بلکہ ایک روایت میں آپ نے اس کا حکم دیا ہے کہ تم عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1738) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 752
حدیث نمبر: 752 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ . وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَهِنْدِ بْنِ أَسْمَاءَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ عَمِّهِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ذَكَرُوا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ حَثَّ عَلَى صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: لَا نَعْلَمُ فِي شَيْءٍ مِنَ الرِّوَايَاتِ، أَنَّهُ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ كَفَّارَةُ سَنَةٍ إِلَّا فِي حَدِيثِ أَبِي قَتَادَةَ، وَبِحَدِيثِ أَبِي قَتَادَةَ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৩
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ عاشورے کے دن روزہ نہ رکھنا بھی جائز ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کردیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے ١ ؎، ٢- اس باب میں ابن مسعود، قیس بن سعد، جابر بن سمرہ، ابن عمر اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا عمل عائشہ (رض) کی حدیث پر ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے، یہ لوگ یوم عاشوراء کے روزے کو واجب نہیں سمجھتے، الا یہ کہ جو اس کی اس فضیلت کی وجہ سے جو ذکر کی گئی اس کی رغبت رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (التحفہ : ١٧٠٨٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٢) ، وصحیح مسلم/الصیام ١٩ (١١٢٥) ، و سنن ابی داود/ الصیام ٦٤ (٢٤٤٢) ، وط/الصیام ١١ (٣٣) ، وسنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٨٠٣) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : فائدہ ا ؎ : مولف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 753
حدیث نمبر: 753 حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ عَاشُورَاءُ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الْفَرِيضَةُ وَتَرَكَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ . وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَا يَرَوْنَ صِيَامَ يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ رَغِبَ فِي صِيَامِهِ لِمَا ذُكِرَ فِيهِ مِنَ الْفَضْلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৪
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ اس برے میں کہ عاشو رہ کونسا دن ہے
حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس پہنچا، وہ زمزم پر اپنی چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے، میں نے پوچھا : مجھے یوم عاشوراء کے بارے میں بتائیے کہ وہ کون سا دن ہے جس میں میں روزہ رکھوں ؟ انہوں نے کہا : جب تم محرم کا چاند دیکھو تو دن گنو، اور نویں تاریخ کو روزہ رکھ کر صبح کرو۔ میں نے پوچھا : کیا اسی طرح سے محمد ﷺ رکھتے تھے ؟ کہا : ہاں (اسی طرح رکھتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٠ (١١٣٣) ، سنن ابی داود/ الصیام ٦٥ (٢٤٤٦) ، (التحفہ : ٥٤١٢) ، مسند احمد (١/٢٤٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 754
حدیث نمبر: 754 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَىابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَيُّ يَوْمٍ هُوَ أَصُومُهُ، قَالَ: إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ ثُمَّ أَصْبِحْ مِنَ التَّاسِعِ صَائِمًا ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَهَكَذَا كَانَ يَصُومُهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: نَعَمْ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৫
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ اس برے میں کہ عاشو رہ کونسا دن ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا عاشوراء کے دن کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں : عاشوراء نواں دن ہے اور بعض کہتے ہیں : دسواں دن ١ ؎ ابن عباس سے مروی ہے کہ نویں اور دسویں دن کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اکثر علماء کی رائے بھی ہے کہ محرم کا دسواں دن ہی یوم عاشوراء ہے اور یہی قول راجح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2113) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 755
حدیث نمبر: 755 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَوْمِ عَاشُورَاءَ يَوْمُ الْعَاشِرِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَوْمُ التَّاسِعِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يَوْمُ الْعَاشِرِ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْيَهُودَ، وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৬
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں روزہ رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزے رکھتے کبھی نہیں دیکھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اسی طرح کئی دوسرے لوگوں نے بھی بطریق «الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة» روایت کی ہے، ٢- اور ثوری وغیرہ نے یہ حدیث بطریق «منصور عن ابراہیم النخعی» یوں روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا گیا، ٣- اور ابوالا ٔحوص نے بطریق «منصور عن ابراہیم النخعی عن عائشہ» روایت کی اس میں انہوں نے اسود کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ٤- اور لوگوں نے اس حدیث میں منصور پر اختلاف کیا ہے۔ اور اعمش کی روایت زیادہ صحیح ہے اور سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ متصل ہے، ٥- اعمش ابراہیم نخعی کی سند کے منصور سے زیادہ یاد رکھنے والے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الاعتکاف ٤ (١١٧٦) ، سنن ابی داود/ الصیام ٦٢ (٢٤٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٩ (١٧٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٤٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر اس حدیث سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ ہے ، لیکن یہ صحیح نہیں ، ان دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے ، خاص کر یوم عرفہ کے روزہ کی بڑی فضیلت وارد ہے ، ویسے بھی ان دنوں کے نیک اعمال اللہ کو بہت پسند ہیں اس لیے اس حدیث کی تاویل کی جاتی کہ نبی اکرم ﷺ کا ان دنوں روزہ نہ رکھنا ممکن ہے بیماری یا سفر وغیرہ کسی عارض کی وجہ سے رہا ہو ، نیز عائشہ (رض) کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ فی الواقع روزہ نہ رکھتے رہے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1729) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 756
حدیث نمبر: 756 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ قَطُّ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَرَوَى الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُرَ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ . وَرَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ الْأَسْوَدِ، وَقَدِ اخْتَلَفُوا عَلَى مَنْصُورٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَرِوَايَةُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ وَأَوْصَلُ إِسْنَادًا، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: الْأَعْمَشُ أَحْفَظُ لِإِسْنَادِ إِبْرَاهِيمَ مِنْ مَنْصُورٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৭
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں اعمال صالحہ کی فضیلت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ١١ (٩٦٩) ، سنن ابی داود/ الصیام ٦١ (٢٤٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٩ (١٧٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٦١٤) ، مسند احمد (١/٢٢٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٢ (١٨١٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1727) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 757
حدیث نمبر: 757 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ هُوَ الْبَطِينُ وَهُوَ ابْنُ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ . وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৮
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں اعمال صالحہ کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف مسعود بن واصل کی حدیث سے اس طریق کے علاوہ جانتے ہیں اور مسعود نے نہّاس سے روایت کی ہے، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے کسی اور طریق سے نہیں جان سکے، ٤- اس میں سے کچھ جسے قتادہ نے بسند «قتادة عن سعيد بن المسيب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلا روایت کی ہے، ٤- یحییٰ بن سعید نے نہ اس بن قہم پر ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٩ (١٧٢٨) (تحفة الأشراف : ١٣٠٩٨) (ضعیف) (سند میں نہ اس بن قہم ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1728) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (377) مع بعض الاختلاف في الألفاظ، وانظر :، المشکاة (1471) ، ضعيف الجامع الصغير (5161) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 758
حدیث نمبر: 758 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَسْعُودِ بْنِ وَاصِلٍ، عَنْ النَّهَّاسِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ مِثْلَ هَذَا. وقَالَ: قَدْ رُوِيَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا شَيْءٌ مِنْ هَذَا، وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ فِي نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৯
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ شوال کے چھ روزے
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوایوب (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- عبدالعزیز بن محمد نے اس حدیث کو بطریق : «صفوان بن سليم بن سعيد عن عمر بن ثابت عن أبي أيوب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، ٣- شعبہ نے یہ حدیث بطریق : «ورقاء بن عمر عن سعد بن سعيد» روایت کی ہے، سعد بن سعید، یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، ٤- بعض محدثین نے سعد بن سعید پر حافظے کے اعتبار سے کلام کیا ہے۔ ٥- حسن بصری سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس شوال کے چھ دن کے روزوں کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے : اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے روزوں سے پورے سال راضی ہے، ٦- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ثوبان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٧- ایک جماعت نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے، ٨- ابن مبارک کہتے ہیں : یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں، ٩- ابن مبارک کہتے ہیں : بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں، ١٠- اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں، ١ ١- ابن مبارک سے نے یہ بھی کہا : اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٩ (١١٦٤) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٨ (٢٤٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٣ (١٧١٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٤ (١٧٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ٣٤٨٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے ، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا ، جس کا یہ مستقل معمول ہوجائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہوگا ، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جاسکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی ، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1716) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 759
حدیث نمبر: 759 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ . وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَثَوْبَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ صِيَامَ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: هُوَ حَسَنٌ هُوَ مِثْلُ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ وَيُلْحَقُ هَذَا الصِّيَامُ بِرَمَضَانَ، وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ أَنْ تَكُونَ سِتَّةَ أَيَّامٍ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: إِنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ مُتَفَرِّقًا فَهُوَ جَائِزٌ، قَالَ: وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، وَسَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا. وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ أَبِي مُوسَى، عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، قَالَ: كَانَ إِذَا ذُكِرَ عِنْدَهُ صِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ، فَيَقُولُ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ بِصِيَامِ هَذَا الشَّهْرِ عَنِ السَّنَةِ كُلِّهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬০
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ہر مہینے میں تین روزے رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے تین باتوں کا عہد لیا : ١- میں وتر پڑھے بغیر نہ سووں، ٢- ہر ماہ تین دن کے روزے رکھوں، ٣- اور چاشت کی نماز (صلاۃ الضحیٰ ) پڑھا کروں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٨٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/التہجد ٣٣ (١١٧٨) ، والصیام ٦٠ (١٩٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧٢١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٨ (١٦٧٨) ، والصیام ٧٠ (٢٣٦٨) ، و ٨١ (٢٤٠٣) ، (٢/٢٢٩، ٢٣٣، ٢٥٤، ٢٥٨، ٢٦٠، ٢٦٥، ٢٧١، ٢٧٧، ٣٢٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٥) ، والصوم ٣٨ (١٧٨٦) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (946) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 760
حدیث نمبر: 760 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةً: أَنْ لَا أَنَامَ إِلَّا عَلَى وِتْرٍ، وَصَوْمَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَأَنْ أُصَلِّيَ الضُّحَى .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬১
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ہر مہینے میں تین روزے رکھنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! جب تم ہر ماہ کے تین دن کے روزے رکھو تو تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوذر (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابوقتادہ، عبداللہ بن عمرو، قرہ بن ایاس مزنی، عبداللہ بن مسعود، ابوعقرب، ابن عباس، عائشہ، قتادہ بن ملحان، عثمان بن ابی العاص اور جریر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض احادیث میں یہ بھی ہے کہ جس نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے صوم الدھر رکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٨٤ (٢٤٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٨٨) (حسن صحیح) وأخرجہ : سنن النسائی/الصیام (المصدر المذکور (برقم : ٢٤٢٤-٢٤٣١) ، مسند احمد (٥/١٥، ٥٢، ١٧٧) من غیر ہذا الطریق وبسیاق آخر۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (947) ، ( ، المشکاة / التحقيق الثاني 2057) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 761
حدیث نمبر: 761 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ بَسَامٍ يُحَدِّثُ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا صُمْتَ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَصُمْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي عَقْرَبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَقَتَادَةَ بْنِ مِلْحَانَ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَجَرِيرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ أَنَّ مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ كَانَ كَمَنْ صَامَ الدَّهْرَ.
তাহকীক: