আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
روزوں کے متعلق ابواب - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১২৭ টি
হাদীস নং: ৭৬২
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ہر مہینے میں تین روزے رکھنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھے تو یہی صیام الدھر ہے ، اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمائی ارشاد باری ہے : «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» (الأنعام : ١٦٠) جس نے ایک نیکی کی تو اسے (کم سے کم) اس کا دس گنا اجر ملے گا گویا ایک دن (کم سے کم) دس دن کے برابر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ نے یہ حدیث بطریق : «أبي شمر وأبي التياح عن أبي عثمان عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٨٢ (٢٤١١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٩ (١٧٠٨) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٦٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإرواء أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 762
حدیث نمبر: 762 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَامَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ . فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ: مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا سورة الأنعام آية 160 الْيَوْمُ بِعَشْرَةِ أَيَّامٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي شِمْرٍ، وَأَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬৩
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ہر مہینے میں تین روزے رکھنا
معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ ہر ماہ تین روزے رکھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں رکھتے تھے، میں نے کہا : کون سی تاریخوں میں رکھتے تھے ؟ کہا : آپ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ کون سی تاریخ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یزید الرشک یزید ضبعی ہی ہیں، یہی یزید بن قاسم بھی ہیں اور یہی قسّام ہیں، رشک کے معنی اہل بصرہ کی لغت میں قسّام کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٦ (١١٦٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٠ (٢٤٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٩ (١٧٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٩٧٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1708) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 763
حدیث نمبر: 763 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَال: سَمِعْتُ مُعَاذَةَ، قَالَتْ: قُلْتُلِعَائِشَةَ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: مِنْ أَيِّهِ كَانَ يَصُومُ، قَالَتْ: كَانَ لَا يُبَالِي مِنْ أَيِّهِ صَامَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَيَزِيدُ الرِّشْكُ هُوَ يَزِيدُ الضُّبَعِيُّ وَهُوَ يَزِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ وَهُوَ الْقَسَّامُ، وَالرِّشْكُ هُوَ الْقَسَّامُ بِلُغَةِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬৪
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا رب فرماتا ہے : ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ اور روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ جہنم کے لیے ڈھال ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے، اور اگر تم میں سے کوئی جاہل کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آئے اور وہ روزے سے ہو تو اسے کہہ دینا چاہیئے کہ میں روزے سے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں معاذ بن جبل، سہل بن سعد، کعب بن عجرہ، سلامہ بن قیصر اور بشیر بن خصاصیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بشیر کا نام زحم بن معبد ہے اور خصاصیہ ان کی ماں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٠٩٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٢ (١٨٩٤) ، و ٩ (١٩٠٤) ، واللباس ٧٨ (٥٩٢٧) ، والتوحید ٣٥ (٧٤٩٢) ، و ٥٠ (٧٥٣٨) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٠ (١١٥١) ، سنن النسائی/الصیام ٤٢ (٢٢١٦-٢٢٢١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١ (١٦٣٨) ، و ٢١ (١٦٩١) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٨) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٥٧، ٢٦٦، ٢٧٣، ٤٤٣، ٤٧٥، ٤٧٧، ٤٨٠، ٥٠١، ٥١٠، ٥١٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٠ (١٧٧٧) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق۔ وضاحت : ١ ؎ : یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ اعمال سبھی اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں اور وہی ان کا بدلہ دیتا ہے پھر روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا کہنے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ روزہ میں ریا کاری کا عمل دخل نہیں ہے جبکہ دوسرے اعمال میں ریا کاری ہوسکتی ہے کیونکہ دوسرے اعمال کا انحصار حرکات پر ہے جبکہ روزے کا انحصار صرف نیت پر ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ دوسرے اعمال کا ثواب لوگوں کو بتادیا گیا ہے کہ وہ اس سے سات سو گنا تک ہوسکتا ہے لیکن روزہ کا ثواب صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ ہی اس کا ثواب دے گا دوسروں کے علم میں نہیں ہے اسی لیے فرمایا : «الصوم لي و أنا أجزي به»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 57 - 58) ، صحيح أبي داود (2046) ، الإرواء (918) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 764
حدیث نمبر: 764 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبَّكُمْ يَقُولُ: كُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَإِنْ جَهِلَ عَلَى أَحَدِكُمْ جَاهِلٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ . وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَسَلَامَةَ بْنِ قَيْصَرٍ، وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ وَاسْمُ بَشِيرٍ زَحْمُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَالْخَصَاصِيَةُ هِيَ أُمُّهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬৫
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ کی فضیلت
سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزہ رکھنے والوں ١ ؎ کو اس کی طرف بلایا جائے گا، تو جو روزہ رکھنے والوں میں سے ہوگا اس میں داخل ہوجائے گا اور جو اس میں داخل ہوگیا، وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ١ (١٦٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٧٧١) (صحیح) (مَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا) کا جملہ ثابت نہیں ہے، تراجع الالبانی ٣٥١) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٤ (١٨٩٦) ، وبدء الخلق (٣٢٥٧) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٠ (١١٥٢) ، مسند احمد (٥/٣٣٣، ٣٣٥) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : روزہ رکھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو فرض روزوں کے ساتھ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے ہوں ، ورنہ رمضان کے فرض روزے تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہیں ، اس خصوصی فضیلت کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو فرض کے ساتھ بکثرت نفلی روزوں کا اہتمام کرتے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1640) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 765
حدیث نمبر: 765 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَبَابا يُدْعَى الرَّيَّانَ، يُدْعَى لَهُ الصَّائِمُونَ فَمَنْ كَانَ مِنَ الصَّائِمِينَ دَخَلَهُ وَمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬৬
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں : ایک خوشی افطار کرتے وقت ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم : ٧٦٤ (التحفہ : ١٢٧١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1638) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 766
حدیث نمبر: 766 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ، وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬৭
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ہمیشہ روزہ رکھنا
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اگر کوئی صوم الدھر (پورے سال روزے) رکھے تو کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوقتادہ کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن شخیر، عمران بن حصین اور ابوموسیٰ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کی ایک جماعت نے صوم الدھر کو مکروہ کہا ہے اور بعض دوسرے لوگوں نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صیام الدھر تو اس وقت ہوگا جب عید الفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا نہ چھوڑے، جس نے ان دنوں میں روزہ ترک کردیا، وہ کراہت کی حد سے نکل گیا، اور وہ پورے سال روزہ رکھنے والا نہیں ہوا مالک بن انس سے اسی طرح مروی ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی طرح کہتے ہیں، ان دونوں کا کہنا ہے کہ ان پانچ دنوں یوم الفطر، یوم الاضحی اور ایام تشریق میں روزہ رکھنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، بقیہ دنوں میں افطار کرنا واجب نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٤٩ (تحفة الأشراف : ١٢١١٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ راوی کو شک ہے کہ «لا صام ولا أفطر» کہا یا «لم يصم ولم يفطر» کہا ( دونوں کے معنی ایک ہیں ) ظاہر یہی ہے کہ یہ خبر ہے کہ اس نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اس نے سنت کی مخالفت کی ، اور افطار نہیں کیا کیونکہ وہ بھوکا پیاسا رہا کچھ کھایا پیا نہیں ، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بد دعا ہے ، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اس کے اس فعل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (952) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 767
حدیث نمبر: 767 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَنْ صَامَ الدَّهْرَ ؟ قَالَ: لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ أَوْ لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ . وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ صِيَامَ الدَّهْرِ وَأَجَازَهُ قَوْمٌ آخَرُونَ، وَقَالُوا: إِنَّمَا يَكُونُ صِيَامُ الدَّهْرِ إِذَا لَمْ يُفْطِرْ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى وَأَيَّامَ التَّشْرِيقِ، فَمَنْ أَفْطَرَ هَذِهِ الْأَيَّامَ فَقَدْ خَرَجَ مِنْ حَدِّ الْكَرَاهِيَةِ وَلَا يَكُونُ قَدْ صَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق نَحْوًا مِنْ هَذَا، وَقَالَا: لَا يَجِبُ أَنْ يُفْطِرَ أَيَّامًا غَيْرَ هَذِهِ الْخَمْسَةِ الْأَيَّامِ الَّتِي نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الْأَضْحَى وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬৮
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پے درپے روزے رکھنا
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے نبی اکرم ﷺ کے روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے خوب روزے رکھے، پھر آپ روزے رکھنا چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے بہت دنوں سے روزہ نہیں رکھے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے پورے روزے نہیں رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٤ (١١٥٦) ، سنن النسائی/الصیام ٧٠ (٢٣٥١) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٠٢) ، وانظر ما تقدم عند المؤلف برقم : ٧٣٧ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس کی وجہ یہ تھی تاکہ کوئی اس کے وجوب کا گمان نہ کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1710) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 768
حدیث نمبر: 768 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَفْطَرَ قَالَتْ: وَمَا صَامَ رَسُولُ اللَّهِ شَهْرًا كَامِلًا إِلَّا رَمَضَانَ . وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬৯
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پے درپے روزے رکھنا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ان سے نبی اکرم ﷺ کے روزوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا : آپ کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے : اب آپ کا ارادہ روزے بند کرنے کا نہیں ہے، اور کبھی بغیر روزے کے رہتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپ کوئی روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ اور آپ کو رات کے جس حصہ میں بھی تم نماز پڑھنا دیکھنا چاہتے نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جس حصہ میں سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے دیکھ لیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٨٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 769
حدیث نمبر: 769 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَانَ يَصُومُ مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى نَرَى أَنَّهُ لَا يُرِيدُ أَنْ يُفْطِرَ مِنْهُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَرَى أَنَّهُ لَا يُرِيدُ أَنْ يَصُومَ مِنْهُ شَيْئًا، وَكُنْتَ لَا تَشَاءُ أَنْ تَرَاهُ مِنَ اللَّيْلِ مُصَلِّيًا إِلَّا رَأَيْتَهُ مُصَلِّيًا وَلَا نَائِمًا إِلَّا رَأَيْتَهُ نَائِمًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭০
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پے درپے روزے رکھنا
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے افضل روزہ میرے بھائی داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے، اور جب (دشمن سے) مڈبھیڑ ہوتی تو میدان چھوڑ کر بھاگتے نہیں تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ سب سے افضل روزہ یہ ہے کہ تم ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن بغیر روزہ کے رہو، کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے سخت روزہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق ( تحفة الأشراف : ٨٦٣٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٥٧ (١٩٧٧) ، و ٥٩ (١٩٧٩) ، والانبیاء ٣٨ (٣٤٢٠) ، وفضائل القرآن ٣٤ (٥٠٥٢) ، والنکاح ٨٩ (٥١٩٩) ، والأدب ٨٤ (٦١٣٤) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٣ (٢٤٢٧) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، سنن النسائی/الصیام ٧١ (٢٣٨٠) ، و ٧٦ (٢٣٩٠-٢٣٩٥) ، و ٧٧ (٢٣٩٦-٢٣٩٨) ، و ٧٨ (٢٣٩٩-٢٤٠١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٨ (١٧٠٦) ، و ٣١ (١٧١٢) ، مسند احمد ٢/١٦٠، ١٦٤، ١٨٨، ١٨٩، ١٩٠، ١٩٤، ١٩٥، ١٩٨، ١٩٩، ٢٠٠، ٢٠٦، ٢١٦، ٢٢٤، ٢٦٥) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٢ (١٧٩٣) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف في السیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 770
حدیث نمبر: 770 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ الصَّوْمِ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعَبَّاسِ هُوَ الشَّاعِرُ الْمَكِّيُّ الْأَعْمَى وَاسْمُهُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَفْضَلُ الصِّيَامِ أَنْ تَصُومَ يَوْمًا وَتُفْطِرَ يَوْمًا، وَيُقَالُ: هَذَا هُوَ أَشَدُّ الصِّيَامِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭১
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پے درپے روزے رکھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو روزوں سے منع فرمایا : یوم الاضحی (بقر عید) کے روزے سے اور یوم الفطر (عید) کے روزے سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، علی، عائشہ، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- عمرو بن یحییٰ ہی عمارہ بن ابی الحسن مازنی ہیں، وہ مدینے کے رہنے والے ہیں اور ثقہ ہیں۔ سفیان ثوری، شعبہ اور مالک بن انس نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ /الصوم ٦٦ (١٩٩١) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٢ (٨٢٧) ، سنن ابی داود/ الصیام ٤٨ (٢٤١٧) ، ( تحفة الأشراف : ٤٤٠٤) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٦ (١٨٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٦ (١٧٢١) ، مسند احمد (٣/٣٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٣ (١٧٩٤) ، من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح (1721) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 772
حدیث نمبر: 772 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامَيْنِ يَوْمِ الْأَضْحَى وَيَوْمِ الْفِطْرِ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ: وَعَمْرُو بْنُ يَحْيَى هُوَ ابْنُ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ الْمَازِنِيُّ الْمَدَنِيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ، رَوَى لَهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭২
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پے درپے روزے رکھنا
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے مولیٰ ابو عبید سعد کہتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب (رض) کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے سنا ہے، عید الفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے روزوں سے افطار کا دن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الاضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٦ (١٩٩٠) ، والأضاحی ١٦ (٥٥٧١) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٢ (١١٣٧) ، سنن ابی داود/ الصیام ٤٨ (٢٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٦ (١٧٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦٦٣) ، موطا امام مالک/العیدین ٢ (٥) مسند احمد (١/٤٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو ، اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنے کی نذر مان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کی قضاء اس پر لازم آئے گی اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہوجائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا ، ان کی قضاء کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1722) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 771
حدیث نمبر: 771 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي يَوْمِ النَّحْرِ، بَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ صَوْمِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صَوْمِكُمْ وَعِيدٌ لِلْمُسْلِمِينَ، وَأَمَّا يَوْمُ الْأَضْحَى فَكُلُوا مِنْ لُحُومِ نُسُكِكُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ اسْمُهُ سَعْدٌ وَيُقَالُ لَهُ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ أَيْضًا، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَزْهَرَ هُوَ ابْنُ عَمِّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭৩
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ ایام تشریق میں روزہ رکھنا حرام ہے
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یوم عرفہ ١ ؎، یوم نحر ٢ ؎ اور ایام تشریق ٣ ؎ ہماری یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عقبہ بن عامر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، سعد، ابوہریرہ، جابر، نبیشہ، بشر بن سحیم، عبداللہ بن حذافہ، انس، حمزہ بن عمرو اسلمی، کعب بن مالک، عائشہ، عمرو بن العاص اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ البتہ صحابہ کرام وغیرہم کی ایک جماعت نے حج تمتع کرنے والے کو اس کی رخصت دی ہے جب وہ ہدی نہ پائے اور اس نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن میں روزہ نہ رکھے ہوں کہ وہ ایام تشریق میں روزہ رکھے۔ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٤٩ (٢٤١٩) ، سنن النسائی/المناسک ١٩٥ (٣٠٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٤١) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٧ (١٨٠٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ یوم عرفہ سے مراد وہ دن ہے جس میں حاجی میدان عرفات میں ہوتے ہیں یعنی نویں ذی الحجہ مطابق رؤیت مکہ مکرمہ۔ ٢ ؎ قربانی کا دن یعنی دسویں ذی الحجہ۔ ٣ ؎ ایام تشریق سے مراد گیارہویں ، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2090) ، الإرواء (4 / 130) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 773
حدیث نمبر: 773 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَسَعْدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَنُبَيْشَةَ، وَبِشْرِ بْنِ سُحَيْمٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ، وَأَنَسٍ، وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَائِشَةَ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ الصِّيَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، إِلَّا أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ رَخَّصُوا لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا لَمْ يَجِدْ هَدْيًا وَلَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ أَنْ يَصُومَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، وَأَهْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عُلِيٍّ، وقَالَ: سَمِعْت قُتَيْبَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ، يَقُولُ: قَالَ مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ: لَا أَجْعَلُ أَحَدًا فِي حِلٍّ صَغَّرَ اسْمَ أَبِي.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭৪
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ پچھنے لگانا مکروہ ہے
رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سینگی (پچھنا) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ نہیں رہا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- رافع بن خدیج (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح رافع بن خدیج کی روایت ہے، ٣- اور علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح ثوبان اور شداد بن اوس کی حدیثیں ہیں، اس لیے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ سے ثوبان اور شداد بن اوس دونوں کی حدیثوں کی ایک ساتھ روایت کی ہے، ٤- اس باب میں علی، سعد، شداد بن اوس، ثوبان، اسامہ بن زید، عائشہ، معقل بن سنان (ابن یسار بھی کہا جاتا ہے) ، ابوہریرہ، ابن عباس، ابوموسیٰ ، بلال اور سعد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کو مکروہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ بعض صحابہ نے رات کو پچھنا لگوایا۔ ان میں موسیٰ اشعری، اور ابن عمر بھی ہیں۔ ابن مبارک بھی یہی کہتے ہیں : ٦- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ جس نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا، اس پر اس کی قضاء ہے، اسحاق بن منصور کہتے ہیں : اسی طرح احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کہا ہے، ٧- شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا ، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی روزہ دار پچھنا لگوا لے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا، ٨- بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہوگئے تھے اور روزہ دار کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٥٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : گویا ان کا موقف یہ تھا کہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جانے کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1679 - 1681) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 774
حدیث نمبر: 774 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ، ومحمود بن غيلان، ويحيى بن موسى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَسَعْدٍ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، وَثَوْبَانَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَعَائِشَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ سِنَانٍ وَيُقَالُ ابْنُ يَسَارٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَبِلَالٍ، وَسَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَذُكِرَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَذُكِرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب حَدِيثُ ثَوْبَانَ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، لِأَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ رَوَى عَنْ أَبِي قِلَابَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا، حَدِيثَ ثَوْبَانَ، وَحَدِيثَ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ، حَتَّى أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ احْتَجَمَ بِاللَّيْلِ، مِنْهُمْ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، وَابْنُ عُمَرَ، وَبِهَذَا يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت إِسْحَاق بْنَ مَنْصُورٍ، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: مَنِ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ: وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق. حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ، قَالَ: وقَالَ الشَّافِعِيُّ: قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ وَلَا أَعْلَمُ وَاحِدًا مِنْ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ ثَابِتًا، وَلَوْ تَوَقَّى رَجُلٌ الْحِجَامَةَ وَهُوَ صَائِمٌ كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ، وَلَوِ احْتَجَمَ صَائِمٌ لَمْ أَرَ ذَلِكَ أَنْ يُفْطِرَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا كَانَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ بِبَغْدَادَ، وَأَمَّا بِمِصْرَ فَمَالَ إِلَى الرُّخْصَةِ وَلَمْ يَرَ بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭৫
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ دار کو پچھنے لگانے کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا، آپ محرم تھے اور روزے سے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- اسی طرح وہیب نے بھی عبدالوارث کی طرح روایت کی ہے، ٣- اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے ایوب سے اور ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور، عکرمہ نے اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، والطب ١٢ (٥٦٩٥) ، سنن ابی داود/ الصیام ٢٩ (٢٣٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩٨٩) (صحیح) ” احتجم وھو صائم “ کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے، اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داود میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجود ہے، جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں ” محرم “ کا لفظ نہیں ذکر کیا ہے، در اصل الگ الگ نبی اکرم ﷺ نے دونوں حالت میں حجامت کرائی، جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب، عن عکرمہ، عن ابن عباس ہے کہ أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احتجم وهو محرم، واحتجم وهو صائم : ١٨٣٥، ١٩٣٨) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم و احرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے، بلکہ دو الگ الگ واقعہ ہے) وقد أخرجہ کل من : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، واطلب ١٥ (٥٧٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، سنن ابی داود/ الحج ٣٦ (١٨٣٥، ١٨٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٨٧ (٣٠٨١) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٢، ٢٣٦، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٦٠، ٢٨٣، ٢٨٦، ٢٩٢، ٣٠٦، ٣١٥، ٣٣٣، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٧٢، ٣٧٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٠ (١٨٢٠) ، من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح - بلفظ : .... واحتجم وهو صائم -، ابن ماجة (1682) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 775
حدیث نمبر: 775 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رَوَى وَهِيبٌ نَحْوَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْوَارِثِ، وَرَوَى إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭৬
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ N/A
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، آپ روزے سے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭৭
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ دار کو پچھنے لگانے کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسے وقت میں پچھنا لگوایا جس میں آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، آپ احرام باندھے ہوئے تھے اور روزے کی حالت میں تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٦٤٩٥) (منکر) (اس لفظ کے ساتھ منکر ہے، صحیح یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حالت احرام میں سینگی لگوائی تو صوم سے نہیں تھے کما تقدم اور حالت صیام میں سینگی لگانے کا واقعہ الگ ہے) قال الشيخ الألباني : منکر بهذا اللفظ، ابن ماجة (1682) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 777
حدیث نمبر: 777 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ فِيمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ، وأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَرَوْا بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭৮
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزوں میں وصال کی کر اہت کے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صوم وصال ١ ؎ مت رکھو ، لوگوں نے عرض کیا : آپ تو رکھتے ہیں ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابوہریرہ، عائشہ، ابن عمر، جابر، ابو سعید خدری، اور بشیر بن خصاصیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ بغیر افطار کیے لگاتار روزے رکھنے کو مکروہ کہتے ہیں، ٤- عبداللہ بن زبیر (رض) سے مروی ہے کہ وہ کئی دنوں کو ملا لیتے تھے (درمیان میں) افطار نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صوم وصال یہ ہے کہ آدمی قصداً دو یا دو سے زیادہ دن تک افطار نہ کرے ، مسلسل روزے رکھے نہ رات میں کچھ کھائے پیئے اور نہ سحری ہی کے وقت ، صوم وصال نبی اکرم ﷺ کے لیے جائز تھا لیکن امت کے لیے جائز نہیں۔ ٢ ؎ : میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اسے جمہور نے مجازاً قوت پر محمول کیا ہے کہ کھانے پینے سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ قوت مجھے یوں ہی بغیر کھائے پیے دے دیتا ہے ، اور بعض نے اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوئے کھانے پینے سے جنت کا کھانا پینا مراد لیا ہے ، حافظ ابن القیم (رح) فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے معارف کی ایسی غذا کھلاتا ہے جس سے آپ کے دل پر لذت سرگوشی ومناجات کا فیضان ہوتا ہے ، اللہ کے قرب سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے اور اللہ کی محبت کی نعمت سے آپ کو سرشاری نصیب ہوتی ہے اور اس کی جناب کی طرف شوق میں افزونی ہوتی ہے ، یہ ہے وہ غذا جو آپ کو اللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہے ، یہ روحانی غذا ایسی ہے جو آپ کو دنیوی غذا سے کئی کئی دنوں تک کے لیے بےنیاز کردیتی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 778
حدیث نمبر: 778 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُوَاصِلُوا ، قَالُوا: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ، إِنَّ رَبِّي يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِي . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا الْوِصَالَ فِي الصِّيَامِ، وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ كَانَ يُوَاصِلُ الْأَيَّامَ وَلَا يُفْطِرُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭৯
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ صبح تک حالت جنابت میں رہتے ہوئے روزے کی نیت کرنا
ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو فجر پا لیتی اور اپنی بیویوں سے صحبت کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے پھر آپ غسل فرماتے اور روزہ رکھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں ـ: ١- عائشہ اور ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جب کوئی حالت جنابت میں صبح کرے تو وہ اس دن کی قضاء کرے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٢ (١٩٢٦) ، صحیح مسلم/الصیام ١٣ (١١٠٩) ، سنن ابی داود/ الصیام ٣٦ (٢٣٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٩٦) ، موطا امام مالک/الصیام ٤ (١٢) ، مسند احمد (٦/٣٨، وسنن الدارمی/الصوم ٢٢ (١٧٦٦) من غیر ہذا الطریق (صحیح) وضاحت : ١ ؎ ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کی یہ حدیث ابوہریرہ کی حدیث «من أصبح جنبا فلا صوم له» کے معارض ہے ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ عائشہ اور ام سلمہ کی حدیث کو ابوہریرہ کی حدیث پر ترجیح حاصل ہے کیونکہ یہ دونوں نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں سے ہیں اور بیویاں اپنے شوہروں کے حالات سے زیادہ واقفیت رکھتی ہیں ، دوسرے ابوہریرہ (رض) تنہا ہیں اور یہ دو ہیں اور دو کی روایت کو اکیلے کی روایت پر ترجیح دی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1703) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 779
حدیث نمبر: 779 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِيعَائِشَةُ، وَأُمُّ سَلَمَةَ زَوْجَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ أَهْلِهِ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فَيَصُومُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنَ التَّابِعِينَ: إِذَا أَصْبَحَ جُنُبًا يَقْضِي ذَلِكَ الْيَوْمَ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৮০
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ دار کو دعوت قبول کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو اسے قبول کرے، اور اگر وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ دعا کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٤٣٣) (صحیح) وأخرجہ : کل من : صحیح مسلم/الصیام ٢٨ (١١٥٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٥ (٢٤٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٧ (١٧٥٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٢) ، سنن الدارمی/الصیام ٣١ (١٧٧٨) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی صاحب طعام کے لیے برکت کی دعا کرے ، کیونکہ طبرانی کی روایت میں ابن مسعود (رض) سے وارد ہے جس میں «وإن کان صائما فليدع بالبرکة» کے الفاظ آئے ہیں ، باب کی حدیث میں «فلیصل» کے بعد «يعني الدعاء» کے جو الفاظ آئے ہیں یہ «فلیصل» کی تفسیر ہے جو خود امام ترمذی نے کی ہے یا کسی اور راوی نے ، مطلب یہ ہے کہ یہاں نماز پڑھنا مراد نہیں بلکہ اس سے مراد دعا ہے ، بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے ، اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرے اس کے گھر جائے اور گھر کے کسی کونے میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ام سلیم (رض) کے گھر میں پڑھی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1750) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 780
حدیث نمبر: 780 حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ فَلْيُجِبْ، فَإِنْ كَانَ صَائِمًا فَلْيُصَلِّ . يَعْنِي الدُّعَاءَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৮১
روزوں کے متعلق ابواب
পরিচ্ছেদঃ روزہ دار کو دعوت قبول کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے اور وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ وہ کہے میں روزہ سے ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ سے مروی دونوں حدیثیں حسن صحیح ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٣٦٧١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : میں روزہ سے ہوں کہنے کا حکم دعوت قبول نہ کرنے کی معذرت کے طور پر ہے ، اگرچہ نوافل کا چھپانا بہتر ہے ، لیکن یہاں اس کے ظاہر کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ تاکہ داعی کے دل میں مدعو کے خلاف کوئی غلط فہمی اور کدورت راہ نہ پائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1750) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 781
حدیث نمبر: 781 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ فِي هَذَا الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক: