আসসুনানুল কুবরা (বাইহাক্বী) (উর্দু)

السنن الكبرى للبيهقي

جزیہ کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ২৪৩ টি

হাদীস নং: ১৮৮০৯
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بنو تغلب کے عیسائیوں کے ذبح کا بیان
سابقہ حدیث کی طرح ہے
(١٨٨٠٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ بَالُوَیْہِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الْخَزَّازُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکٌ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فَذَکَرَہُ بِمِثْلِہِ ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১০
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بنو تغلب کے عیسائیوں کے ذبح کا بیان
(١٨٨٠٤) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے عرب کے عیسائیوں کے ذبیحہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے قول کی حکایت کی کہ وہ حلال ہے اور یہ آیت تلاوت کی : { وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ } [المائد ٥١] اور جس نے تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کی وہ انہی میں سے ہے۔ لیکن مالک بن انس (رض) نے عکرمہ کا نام ذکر نہیں کیا اور ثور کی ملاقات ابن عباس (رض) سے نہیں ہے۔
(١٨٨٠٤) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ قَالَ وَالَّذِی یُرْوَی مِنْ حَدِیثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی إِحْلاَلِ ذَبَائِحِہِمْ إِنَّمَا ہُوَ مِنْ حَدِیثِ عِکْرِمَۃَ أَخْبَرَنِیہِ ابْنُ الدَّرَاوَرْدِیِّ وَابْنُ أَبِی یَحْیَی عَنْ ثَوْرٍ الدِّیلِیِّ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ ذَبَائِحِ نَصَارَی الْعَرَبِ فَقَالَ قَوْلاً حَکَیَاہُ ہُوَ إِحْلاَلُہَا وَتَلاَ { وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ } وَلَکِنَّ صَاحِبَنَا سَکَتَ عَنِ اسْمِ عِکْرِمَۃَ وَثَوْرٌ لَمْ یَلْقَ ابْنَ عَبَّاسٍ ۔

قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ یَعْنِی بِصَاحِبِنَا مَالِکَ بْنَ أَنَسٍ لَمْ یَذْکُرْ عِکْرِمَۃَ فِی أَکْثَرِ الرِّوَایَاتِ عَنْہُ وَکَأَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی أَنْ یُحْتَجَّ بِہِ وَثَوْرٌ الدِّیلِیُّ إِنَّمَا رَوَاہُ عَنْہُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فَلاَ یَنْبَغِی أَنْ یُحْتَجَّ بِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ کَذَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِیمَا رَوَی عَنْہُ عِکْرِمَۃُ وَنَحْنُ إِنَّمَا رَغِبْنَا عَنْہُ لِقَوْلِ عُمَرَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا۔[صحیح۔ تقدم قبلہ ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১১
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بنوتغلب کے تجارتی مال سے عشرلینے کا بیان
(١٨٨٠٥) ایاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے بنوتغلب کے عیسائیوں کی جانب بھیجا اور حکم دیا کہ ان کے مالوں سے بسیواں حصہ وصول کرو اور مجھے منع فرمایا کہ کسی مسلمان یا ذمی شخص سے جو خراج ادا کرتے ہیں، ان سے عشروصول نہ کرو۔ فرماتے ہیں : مسلمان سے مرادوہ ہے جو ان میں سے مسلمان ہوجائے کیونکہ آپ نے تو بنوتغلب کے عیسایوں کی جانب بھیجا تھا کہ ذمی شخص سے موشیوں کھیتی اور پھلوں کا عشروصول نہیں کیا جاتا۔ سوائے بنو ثغلب کے کیونکہ ان سے صلح ہی اس پر ہوئی تھی۔ شیخ فرماتے ہیں : یہ بھی احتمال ہے کہ جو ذمی لوگوں کی ولایت میں رہتے تھے۔ جن سے صلح نہ تھی ان کے تجارتی مال سے عشروصول کیا جاتا تھا۔
(١٨٨٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُوسَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا شَرِیکٌ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ قَالَ : بَعَثَنِی عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ وَأَمَرَنِی أَنْ آخُذَ مِنْہُمْ نِصْفَ عُشْرِ أَمْوَالِہِمْ وَنَہَانِی أَنْ أُعَشِّرَ مُسْلِمًا أَوْ ذَا ذِمَّۃٍ یُؤَدِّی الْخَرَاجَ ۔

قَالَ یَعْنِی فِیمَا أَظُنُّ بِقَوْلِہِ مُسْلِمًا یَقُولُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ لأَنَّہُ إِنَّمَا أُرْسِلَ إِلَی نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ وَقَوْلُہُ أَوْ ذَا ذِمَّۃٍ یُؤَدِّی الْخَرَاجَ یَقُولُ : إِنَّ أَہْلَ الذِّمَّۃِ لاَ یُعْرَضُ لَہُمْ فِی مَوَاشِیہِمْ وَلاَ فِی عُشْرِ زُرُوعِہِمْ وَثِمَارِہِمْ إِلاَّ بَنِی تَغْلِبَ لأَنَّہُمْ صُولِحُوا عَلَی ذَلِکَ ۔

قَالَ الشَّیْخُ : وَیُحْتَمَلُ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ فِی صُلْحِ أُولَئِکَ الَّذِینَ کَانُوا فِی وِلاَیَتِہِ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ تَعْشِیرُ أَمْوَالِہِمُ الَّتِی یَتْجِرُونَ بِہَا۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١٨٨٠٠]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১২
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بنوتغلب کے تجارتی مال سے عشرلینے کا بیان
(١٨٨٠٦) زید بن حدیر کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے خط لکھا کہ بنو ثغلب سے سال میں ایک مرتبہ عشر وصول کیا جائے۔
(١٨٨٠٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ قَالَ : کَتَبَ إِلَیَّ عُمَرَ أَنْ لاَ تَعْشُرَ بَنِی تَغْلِبَ فِی السَّنَۃِ إِلاَّ مَرَّۃً ۔ [حسن ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১৩
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مسلمانوں کے لیے نظر پر صلح کرنے کا بیان
(١٨٨٠٧) مسوربن مخرمہ اور مروان بن حکم فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہزار سے کچھ زیادہ صحابہ کرام کے ساتھ نکلے۔ جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو قربانی کے جانوروں کی گردنوں میں پٹے ڈالے اور اونٹوں کا شعار کیا۔ عمرہ کا احرام باندھا اور اپنے آگے خزاعہ قبیلے کا شخص قریش کی جاسوسی روانہ کردیا۔ جب آپ وادی انشاط جو عسفان کے قریب ہے پہنچے تو خزاعی جاسوس آگیا۔ اس نے کہا کہ کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی نے آپ لشکر جمع کیے ہیں۔

(ب) یحییٰ بن سعید حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے تمہارے لیئے لشکر جمع کیے ہیں۔ آپ سے لڑکربیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے ان کے بارے میں مشورہ دو ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم مدد کرنے والوں کی اولاد کو پکڑ لیں۔ اگر وہ بیٹھے رہے تو پریشان ہوں گے اور اگر نجات پاجائیں تو گردن کٹی ہوگی۔ جس کو اللہ نے کاٹ ڈالا ہے یا تمہارا خیال ہے کہ ہم صرف بیت اللہ سے روکنے والوں کے خلاف لڑائی کریں۔ تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : اللہ اور رسول بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو صرف عمرہ کرنے کی غرض سے آئے تھے۔ لڑائی کا کوئی ارادہ نہ تھا، لیکن پھر بھی جو بیت اللہ اور ہمارے درمیان رکاوٹ بنا ہم اس سے لڑائی کریں گے آپ نے فرمایا : تب چلو۔

زہری فرماتے ہیں : کہ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کوئی اپنے صحابہ سے مشورہ نہیں لیتا تھا۔ زہری مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم کی حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب وہ کسی راستے پر چلے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خالد بن ولید غمیم نامی جگہ پر قریش کے ہراول دستہ پر ہیں۔ تم دائیں جانب چلو۔ اللہ کی قسم ! خالد کو پتہ بھی نہیں چلا۔ اچانک وہ لشکر کے پیچھے تھا۔ وہ قریشیوں کو ڈرا رہا تھا۔ جب اس گھاٹی میں پہنچے جس کے آگے کفار کا سامنا تھا تو آپ کی سواری بیٹھ گئی۔ لوگوں نے آواز لگائی اٹھو۔ اٹھو قصواء ٹھہرگئی۔ قصواء ٹھہر گئی۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قصواء اٹھہری نہیں۔ اور نہ ہی اس کی عادت ہے۔ اسے تو اس ذات نے روکا ہے۔ جس نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو روکا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ وہ (قریش ) مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کریں ، جس میں وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرتے ہوں تو میں ان کی ہر ایسی بات تسلیم کرلوں گا۔ تب آپ نے قصواء کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ آپ مکہ کے راستے سے ہٹ گئے اور حدیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ پھر حدیبہ کے آخری کنارے پر اترے۔ جہاں معمولی پانی کا کنواں تھا۔ لوگ وہاں تھوڑا تھوڑا پانی حاصل کر رہے تھے اور تھوڑی دیر میں لوگوں نے اس کا پانی ختم کردیا۔ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیاسی کی شکایت کی گئی تو آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس تیر کو کنویں میں پھینکو۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اللہ کی قسم ! تیر ڈالنے سے پانی جوش سے نکلنے لگا۔ یہاں تک کہ لوگ واپسی تک خوب سیر ہو کر پیتے رہے۔ وہ اس حالت میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی بنو خزاعہ کی ایک جماعت کے ساتھ آیا۔ وہ اہل تہامہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز دار تھا۔ اس نے کہا : میں کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی کو چھوڑ کر آیا ہوں۔

احمد (رض) فرماتے ہیں : یحییٰ بن سعید حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل فرماتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے کعب بن لوی اور عامر بن لوی کو حدیبیہ کے پانیوں پر اتنی تعداد میں چھوڑا ہے۔ وہ آپ سے سے لڑ کر بھیبیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ہم لڑائی کے لیے نہیں، صرف عمرہ کے لیے آئے ہیں، قریش کو لڑائیوں نے کمزور کردیا اور نقصان دیا ہے۔ اگر وہ چاہیں گے تو میں ان کے ساتھ کوئی مدت مقرر کرلوں گا اور وہ ہمارا راستہ چھوڑ دیں۔ اگر چاہیں تو جس طرح لوگ شامل ہیں وہ بھی ہوجائیں وگرنہ وہ تمام جمع ہوجائیں۔ اگر وہ انکار کریں تو اللہ کی قسم میں اپنے اس دین پر ان سے قتال کروں گا یہاں تک کہ میں اکیلا بھی رہ جاؤں یا اللہ رب العزب اپنا حکم نافذ فرما دیں۔ بدیل نے کہا : میں آپ کی بات پہنچا دیتا ہوں۔ وہ قریش کے پاس آئے اور کہا : میں اس شخص (یعنی محمد) کے پاس سے آیا ہوں۔ میں نے کچھ باتیں ان سے سنیں ہیں۔ اگر تم چاہو تو بتا دیتا ہوں، ان کے بیوقوف لوگوں نے کہا : اس کی کوئی بات بھی ہمارے سامنے بیان نہ کرو، ہمیں کوئی ضرورت نہیں، لیکن عقلمند انسانوں نے کہا : بتاؤ کیا سن کے آؤ ہو ؟ اس نے کہا : اے لوگو ! نہ تم بچے ہو اور نہ ہی میں بچہ ہوں۔ عروہ نے کہا : کیا تم مجھ پر کوئی تہمت رکھتے ہو ؟ انھوں نے کہا کوئی الزام نہیں ۔ کہنے لگا : کیا تم جانتے ہو جس وقت میں اہل متنفر ہوا۔ جب انھوں نے میری بات نہ مانی تو میں تمہارے پاس اپنے اہل و عیال بچے اور اپنے پیروکار لیکر آیا تھا تو قریشیوں نے کہا : بات تو آپ کی درست ہے تو عروہ نے کہا : اس نے درست مطالبہ پیش کیا ہے اس کو قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس جانے دوتو قریشیوں نے جانے کی اجازت دے دی، عروہ نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدیل کی طرح بات کی اور عروہ نے اس وقت یہ بات بھی کی کہ اے محمد ! آپ کا کیا خیال ہے، اگر آپ اپنی قوم کو ختم کر ڈالیں تو کیا آپ نے سن رکھا ہے کہ آپ سے پہلے کسی نے اپنی قوم کو ختم کیا ہو اور دوسری جانب اللہ کی قسم میں اپنے آوارہ قسم کے لوگ دیکھ رہا ہوں، جو آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : جاؤ لات کی شرم گاہ کو چوس۔ کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ! تو عروہ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ فرمایا : ابوبکر (رض) تو عروہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر تیرا میرے اوپر احسان نہ ہوتا تو میں تجھے جواب دیتا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت شروع کردی۔ جب بھی بات کرتا تو اپنا ہاتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی کو لگاتا، مغیرہ بن شعبہ تلوار لیے اور خود پہنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے۔ جب بھی عروہ اپنا ہاتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی کی طرف لاتا تو مغیرہ اپنا ہاتھ تلوار کے دستہ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک سے دور کر، عروہ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ صحابہ نے کہا : مغیرہ بن شعبہ ہے۔ عروہ نے کہا : اے دھوکے باز ! کیا میں نے تیرے دھوکے کی رقم ادا نہ کی تھی ؟ اور مغیرہ اپنی قوم سے تھے زمانہ جاہلیت میں جس نے قتل کیا اور مال لوٹا۔ پھر وہ آ کر مسلمان ہوگئے، آپ نے فرمایا تھا اسلام تو تیرا میں قبول کرلیتا ہوں لیکن مال سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر عروہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لعاب دہن بھی صحابی کے ہاتھ پر گرتا تھا۔ جسے وہ اپنے چہروں اور جسم پر مل لیتے تھے اور جب آپ حکم دیتے تو وہ اس کی تعمیل جلد ہی کردیتے اور جب آپ وضوء فرماتے تو آپ کے وضو کے پانی پر قریب تھا کہ وہ جھگڑ پڑتے اور جب آپ ان سے کلام کرتے تو ان کی آوازیں پست ہوجاتیں ، اور کوئی نظر بھر کر آپ کی طرف تعظیما نہیں دیکھتا تھا، عروہ قریش کے پاس واپس آیا اور کہا : اے میری قوم ! میں قیصری وکسریٰ اور نجاشی کے دربار میں گیا ہوں۔ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اتنی تعظیم کرتے ہیں ض، جتنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ محمد کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر تھوکیں تو وہ بھی کسی شخص کی ہتھیلی پر گرے جس کو وہ اپنے چہرے اور جسم پر مل لے اور حکم کی جلد تعمیل کریں اور آپ کے وضو کے پانی پر قریب تھا کہ جھگڑ پڑیں اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو آپ کے پاس پست آواز میں اور نظر بھر کر آپ کو تعظیما نہیں دیکھتے۔ انھوں نے اچھی بات پیش کی ہے قبول کرلو، بنو کنانہ کے ایک شخص نے کہا : میں ان کے پاس جاتا ہوں، قریش نے اسے بھی جانے کی اجازت دی، جب وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے پاس گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ فلاں ہے وہ اپنی قوم سے ہے۔ قربانیوں کی تعظیم کرتے ہیں، ان کے سامنے قربانیاں پیش کرو، لوگوں نے تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا، جب اس نے دیکھا تو کہنے لگا : اللہ پاک ہے ایسے لوگوں کو بیت اللہ سے نہ روکا جائے، پھر مکرز بن حفص نے کہا : مجھے ان کے پاس جانے کی اجازت دو ، جب وہ آیا تو آپ نے فرمایا : مکرز بن حفص فاجر آدمی ہے، اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت شروع کی۔ درمیان میں سہیل بن عمرو آگیا، عکرمہ فرماتے ہیں : جبسہیل بن عمرو آیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے معاملہ میں آسانی کی گئی ہے۔

زہری فرماتے ہیں : سہیل بن عمرو نے کہا : لاؤ میں اپنے اور تمہارے درمیان معاہدہ تحریر کروں۔ اس نے کاتب کو منگوایا تو آپ نے فرمایا : لکھو میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے تو سھیل نے کہا : رحمن کو ہم نہیں جانتے، بلکہ لکھو تیرے نام کے ساتھ اے اللہ ! تو آپ نے فرمایا : لکھو، باسمک اللھم، پھر فرمایا : لکھو یہ معاہدہ ہے جو محمد اللہ کے رسول نے کیا، سہیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا : اللہ کی قسم ! اگر ہم اس بات پر یقین رکھتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو تمہیں بیت اللہ میں داخل ہونے سے نہ روکتے۔ تم محمد بن عبداللہ تحریر کرو، یہ سن کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! تمہارے جھٹلانے کے باوجود میں اللہ کا رسول ہوں۔ محمد بن عبداللہ ہی تحریر کیا جائے۔ زھری نے اس قول کے بارے میں کہا کہ قریش مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کریں، جس میں وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرتے ہوں تو میں ان کی ہر ایسی بات تسلیم کرلوں گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان سے ہٹ جاؤ کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں تو سہیل نے کہا : اللہ کی قسم عرب بات نہ کریں گے کہ ہم اچانک پکڑ لیے گئے، لیکن آپ آئندہ سال آجانا۔ آپ نے تحریر کروادیا تو سھیل نے کہا : ہماری طرف سے جو شخص آپ کے پاس چلا آئے چاہے وہ آپ کے دین پر ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ مسلمانوں نے کہا : اللہ پاک ہے کیسے مشرکین کی طرف اسے واپس کیا جائے گا، جب وہ مسلمان ہو کر آجائے۔ ہم اسی حالت میں تھے کہ ابو جندل سہیل اپنی بیڑیوں میں باندھے آگئے، وہ مکہ کی نچلی جانب سے نکل کر مسلمانوں کے درمیان آیا تھا، سھیل نے کہا : اے محمد ! یہ پہلا مطالبہ ہے کہ آپ ابو جندل کو واپس کردیں۔ آپ نے فرمایا : ہم معاہدہ کے بعدوعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، لیکن ابھی معاہدہ مکمل نہیں ہوا تو سھیل نے کہا : پھر ہم معاہدہ کرتے ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا : اس کو میری وجہ سے پناہ دے ۔ سھیل نے کہا : میں پناہ نہ دوں گا، آپ نے فرمایا : چلو اسے کرلو۔ راوی کہتے ہیں : ہم ایسا کرنے والے نہیں ہیں تو مکرز نے کہا : ہم نے آپ کے لیے اس کو پناہ دی تو ابو جندل نے کہا : اے مسلمان گروہ ! میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا ، حالانکہ میں مسلمان ہوں، کیا تم دیکھتے نہیں ہو میں کس حالت میں آیا ہوں اور مجھے اللہ کے بارہ میں سزا دی گئی ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : کیا آپ اللہ کے نبی نہیں ؟ فرمایا : اللہ کا نبی ہوں، میں نے پوچھا : کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟ فرمایا : ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر ہیں، میں نے کہا : تب دین میں اتنی کمزوری کیوں ؟ آپ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں، میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا، وہ میرا مدد گار ہے۔ میں نے پوچھا : آپ نے فرمایا تھا کہ ہم عنقریب بیت اللہ کا طواف کریں گے ؟ فرمایا : کہا تھا، کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال۔ میں نے کہا : یہ تو نہ فرمایا تھا : فرمایا تم آ کر اس کا طواف کرو گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں ابوبکر (رض) کے پاس آیا۔ میں نے پوچھا : اے ابوبکر (رض) ! کیا اللہ کے نبی حق پر نہیں ؟ انھوں نے کہا : حق پر ہیں، میں نے کہا : کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ؟ انھوں نے کہا : ایسے ہی ہے، میں نے کہا : پھر ہم اپنے دین میں کمزوری کیوں دکھا رہے ہیں، ابوبکر (رض) کہنے لگے : اے عمر (رض) ! وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ وہ اپنے رب کی ہرگز نافرمانی نہ کریں گے اور وہ اس کی مدد فرمائے گا۔ فوت ہونے تک حوصلہ کرو، اللہ کی قسم ! وہ حق پر ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا کہ آپ نے بیت اللہ کے طواف کے بارے میں کہا تھا ؟ ابوبکر (رض) نے فرمایا : کیا آپ نے اس سال ہی طواف کے بارے میں کہا تھا ؟ میں نے کہا : نہیں تو انھوں نے کہا کہ آپ آ کر اس کا طواف کرلیں گے۔ زھری کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے کہا : میں نے اس کے بارے میں کچھ کام کیے، جب معاہدہ مکمل ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پنے صحابہ کو قربانیاں کرنے کا حکم دیا، پھر فرمایا : سر کے بال منڈواؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ کے تین مرتبہ کہنے کے باوجود کوئی بھی شخص کھڑا نہ ہوا۔ جب کوئی کھڑا نہ ہوا تو آپ ام سلمہ کے پاس چلے گئے ، جو لوگوں کی جانب سے پریشانی آئی بتایا تو ام سلمہ نے پوچھا : کیا آپ اس کو پسند کرتے ہیں تو جا کر اپنی قربانی کرو اور کسی سے کلام نہ کرنا اور اپنا سر منڈواؤ تو آپ نے ایسا ہی کیا۔ کسی سے کلام کیے بغیر اپنی قربانی کی اور سر مونڈنے والے کو بلا کر سر منڈوایا۔ جب انھوں نے یہ دیکھا تو قربانیاں نحر کیں اور ایک دوسرے کے سر مونڈ دیے۔ قریب تھا کہ حالت غم میں وہ اپنے ساتھی کو قتل کردیں، پھر چند مومنہ عورتیں آئیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { یاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا جَائَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ } (الممتحنہ : ١٠) حتی بلغ { بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ } اے ایمان والو ! جب تمارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں۔ وہ کافروں کے لیے حلال نہیں ہیں۔ راوی کہتے ہیں : اسی دن حضرت عمر (رض) نے دو عورتوں کو طلاق دی۔ ایک سے معاویہ بن ابی سفیان (رض) اور دوسری سے صفوان بن امیہ (رض) نے نکاح کرلیا۔ پھر آپ مدینہ واپس آگئے تو ابو بصیر آگئے یہ قریش کا مسلمان آدمی تھا، یحییٰ عبداللہ بن مبارک سے نقل فرماتے ہیں کہ ابو بصیر بن اسید ثقفی نے مسلمان ہو کر ہجرت کی تو اخنس بن شریق جو کافر آدمی تھا بنو عامر بن لوئی سے، اس نے اپنے غلام اور ایک دوسرے شخص کو خط لکھ کردیا کہ آپ سے کہنا کہ وعدہ پورہ کرو تو کفار مکہ نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا، جو آپ نے ہمارے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے، آپ نے ابو بصیرکو ان کے حوالے کردیا۔ وہ اسے لیکر مکہ چل پڑے۔ جب وہ ذوالحلیفہ مقام پر پہنچے تو وہ دونوں آدمی وہاں رک کر کھجوریں کھانے لگے تو ابو بصیر نے دونوں میں سے ایک آدمی سے کہا : اے فلاں ! اللہ کی قسم ! مجھے تمہاری یہ تلوار بہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے نے تلوار سونتی، اس نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہوا ہے، ذرا مجھے دیکھاؤ میں یہ دکھا ؤ چاہتا ہوں۔ اس نے یہ تلوار ابو بصیر کو پکڑا دی تو ابو بصری نے تلوار ماری۔ جب وہ ٹھنڈا ہوگیا اور دوسرا آدمی بھاگ کر مدینہ منورہ پہنچا اور ہانپتا ہوا مسجد نبوی میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شخص کا کسی خوفناک واقعہ سے واسطہ پڑا ہے۔ اس نے جلدی سے کہا : میرا ساتھی قتل ہوچکا، بلاشبہ میں بھی قتل ہو جاؤں گا۔ اتنے میں ابو بصیر بھی آپہنچا، ابو بصیر نے کہا : اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ نے آپ کا ذمہ پورا کردیا، آپ نے مجھے واپس کردیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیری ماں مرجائے تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے۔ اگرچہ تیرا ایک ہی ساتھی کیوں نہ ہو، ابو بصیر نے یہ سن کر یقین کرلیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو واپس بھیج دیں گے تو وہ وہاں سے نکل کر ساحل سمندر جا پہنچا، اسی دوران ابو جندل بن سھیل بیڑیاں توڑ کر نکلا اور ابو بصیر سے آ ملا، پھر جو شخص بھی قریش مکہ سے مسلمان ہو کر نکلتا، وہ ابو بصیر کے ساتھ آ ملتا، یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت قائم ہوگئی۔ راوی نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! جب وہ قریش کے کسی قافلہ کے بارے میں سنتے کہ وہ شام کی جانب جا رہا ہے تو وہ اس قافلہ پر حملہ کردیتے، قافلے والوں کو موت کی گھاٹ اتار دیتے اور ان کے مالوں پر قبضہ کرلیتے تو قریش نے گھبرا کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغام بھیجا اور آپ کو صلہ رحمی اور اللہ کی قسم دے کر کہا کہ آپ (ابو بصیر گروپ) کو پیغام بھیجیں اور انھیں مدینہ منورہ بلا لیں، نیز جو شخص آپ کے پاس مسلمان ہو کر آجائے امن والا ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ مدینہ منورہ آجائیں، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ } حتی بلغ { حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ } [الفتح ٢٦] وہ ذات جس نے ان کے ہاتھوں سے تمہیں اور تمہارے ہاتھوں سے انھیں بچایا اور ان کی غیرت یہ تھی کہ انھوں نے آپ کو نبی نہ مانا اور بسم اللہ الرحمن الرحمن نہ لکھنے دی اور بیت اللہ سے روکا۔ [صحیح۔ بخاری ٢٧٣٤]
(١٨٨٠٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ الزُّہْرِیُّ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ یُصَدِّقُ حَدِیثُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَاحِبَہُ قَالاَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ فِی بِضْعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً مِنْ أَصْحَابِہِ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِذِی الْحُلَیْفَۃِ قَلَّدَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْہَدْیَ وَأَشْعَرَہُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَۃِ وَبَعَثَ بَیْنَ یَدَیْہِ عَیْنًا لَہُ مِنْ خُزَاعَۃَ یُخْبِرُہُ عَنْ قُرَیْشٍ وَسَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی إِذَا کَانَ بِوَادِی الأَشْطَاطِ قَرِیبٍ مِنْ عُسْفَانَ أَتَاہُ عَیْنُہُ الْخُزَاعِیُّ فَقَالَ : إِنِّی تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ قَدْ جَمَعُوا لَکَ الأَحَابِشَ

قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ : قَدْ جَمَعُوا لَکَ الأَحَابِیشَ وَجَمَعُوا لَکَ جُمُوعًا وَإِنَّہُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَشِیرُوا عَلَیَّ أَتَرَوْنَ أَنْ نَمِیلَ إِلَی ذَرَارِیِّ ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ أَعَانُوہُمْ فَنُصِیبَہُمْ فَإِنْ قَعَدُوا قَعَدُوا مَوْتُورِینَ مَحْزُونِینَ وَإِنْ نَجَوْا تَکُنْ عُنُقًا قَطَعَہَا اللَّہُ أَوْ تَرَوْنَ أَنْ نَؤُمَّ الْبَیْتَ فَمَنْ صَدَّنَا عَنْہُ قَاتَلْنَاہُ ۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ إِنَّمَا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ وَلَمْ نَجِئْ نُقَاتِلُ أَحَدًا وَلَکِنْ مَنْ حَال بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْبَیْتِ قَاتَلْنَاہُ ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَرُوحُوا إِذًا ۔

قَالَ الزُّہْرِیُّ وَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا قَطُّ کَانَ أَکْثَرَ مَشُورَۃً لأَصْحَابِہِ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔

قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی حَدِیثِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ : فَرَاحُوا حَتَّی إِذَا کَانَ بِبَعْضِ الطَّرِیقِ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ بِالْغَمِیمِ فِی خَیْلٍ لِقُرَیْشٍ طَلِیعَۃً فَخُذُوا ذَاتَ الْیَمِینِ ۔ فَوَاللَّہِ مَا شَعَرَ بِہِمْ خَالِدُ حَتَّی إِذَا ہُوَ بِغَبْرَۃِ الْجَیْشِ فَانْطَلَقَ یَرْکُضُ نَذِیرًا لِقُرَیْشٍ وَسَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی إِذَا کَانَ بِالثَّنِیَّۃِ الَّتِی یُہْبَطُ عَلَیْہِمْ مِنْہَا بَرَکَتْ بِہِ رَاحِلَتُہُ فَقَالَ النَّاسُ حَلْ حَلْ فَأَلَحَّتْ فَقَالُوا خَلأَتِ الْقَصْوَائُ خَلأَتِ الْقَصْوَائُ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَا خَلأَتِ الْقَصْوَائُ وَمَا ذَاکَ لَہَا بِخُلُقٍ وَلَکِنْ حَبَسَہَا حَابِسُ الْفِیلِ ۔ ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لاَ یَسْأَلُونِی خُطَّۃً یُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرُمَاتِ اللَّہِ إِلاَّ أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا ۔ ثُمَّ زَجَرَہَا فَوَثَبَتْ بِہِ قَالَ فَعَدَلَ عَنْہَا حَتَّی نَزَلَ بِأَقْصَی الْحُدَیْبِیَۃِ عَلَی ثَمَدٍ قَلِیلِ الْمَائِ إِنَّمَا یَتَبَرَّضُہُ النَّاسُ تَبَرُّضًا فَلَمْ یُلَبِّثْہُ النَّاسُ أَنْ نَزَحُوہُ فَشُکِیَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْعَطَشُ فَانْتَزَعَ سَہْمًا مِنْ کِنَانَتِہِ ثُمَّ أَمَرَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوہُ فِیہِ قَالَ : فَوَاللَّہِ مَا زَالَ یَجِیشُ لَہُمْ بِالرِّیِّ حَتَّی صَدَرُوا عَنْہُ قَالَ : فَبَیْنَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ جَائَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ الْخُزَاعِیُّ فِی نَفَرٍ مِنْ قَوْمِہِ وَکَانُوا عَیْبَۃَ نُصْحِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ أَہْلِ تِہَامَۃَ فَقَالَ : إِنِّی تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ

قَالَ أَحْمَدُ حَدَّثَنَاہُ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَقَالَ : إِنِّی تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ نَزَلُوا أَعْدَادَ مِیَاہِ الْحُدَیْبِیَۃِ مَعَہُمُ الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ وَہُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ وَلَکِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ وَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ نَہِکَتْہُمُ الْحَرْبُ وَأَضَرَّتْ بِہِمْ فَإِنْ شَائُ وا مَادَدْتُہُمْ مُدَّۃً وَیُخَلُّوا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّاسِ فَإِنْ أَظْہَرْ فَإِنْ شَائُ وا أَنْ یَدْخُلُوا فِیمَا دَخَلَ فِیہِ النَّاسُ فَعَلُوا وَإِلاَّ فَقَدْ جَمُّوا وَإِنْ أَبَوْا فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لأُقَاتِلَنَّہُمْ عَلَی أَمْرِی ہَذَا حَتَّی تَنْفَرِدَ سَالِفَتِی أَوْ لَیُنَفِّذَنَّ اللَّہُ أَمْرَہُ ۔ قَالَ بُدَیْلٌ : سَأُبَلِّغُہُمْ مَا تَقُولُ فَانْطَلَقَ حَتَّی أَتَی قُرَیْشًا فَقَالَ : إِنَّا قَدْ جِئْنَاکُمْ مِنْ عِنْدِ ہَذَا الرَّجُلِ وَسَمِعْنَاہُ یَقُولُ قَوْلاً فَإِنْ شِئْتُمْ نَعْرِضُہُ عَلَیْکُمْ فَقَالَ سُفَہَاؤُہُمْ : لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی أَنْ تُحَدِّثَنَا عَنْہُ بِشَیْئٍ ۔ وَقَالَ ذَوُو الرَّأْیِ مِنْہُمْ : ہَاتِ مَا سَمِعْتَہُ یَقُولُ قَالَ سَمِعْتُہُ یَقُولُ کَذَا وَکَذَا فَحَدَّثَہُمْ بِمَا قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَامَ عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیُّ فَقَالَ : أَیْ قَوْمِ أَلَسْتُمْ بِالْوَالِدِ قَالُوا : بَلَی قَالَ : أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ قَالُوا : بَلَی قَالَ : فَہَلْ تَتَّہِمُونِی ؟ قَالُوا : لاَ قَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی اسْتَنْفَرْتُ أَہْلَ عُکَاظٍ فَلَمَّا جَمَحُوا عَلَیَّ جِئْتُکُمْ بِأَہْلِی وَوَلَدِی وَمَنْ أَطَاعَنِی۔ قَالُوا : بَلَی قَالَ : فَإِنَّ ہَذَا قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوہَا وَدَعُونِی آتِہِ فَقَالُوا : ائْتِہِ فَأَتَاہُ فَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لَہُ نَحْوًا مِنْ قَوْلِہِ لِبُدَیْلٍ فَقَالَ عُرْوَۃُ عِنْدَ ذَلِکَ : أَیْ مُحَمَّدُ أَرَأَیْتَ إِنِ اسْتَأْصَلْتَ قَوْمَکَ ہَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَصْلَہُ قَبْلَکَ وَإِنْ تَکُنِ الأُخْرَی فَوَاللَّہِ إِنِّی لأَرَی وُجُوہًا وَأَرَی أَوْشَابَا مِنَ النَّاسِ خُلَقَائَ أَنْ یَفِرُّوا وَیَدَعُوکَ فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : امْصَصْ بَظْرَ اللاَّتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْہُ وَنَدَعُہُ فَقَالَ : مَنْ ذَا ؟ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ قَالَ : أَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلاَ یَدٌ کَانَتْ لَکَ عِنْدِی لَمْ أَجْزِکَ بِہَا لأَجَبْتُکَ وَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمَّا کَلَّمَہُ أَخَذَ بِلِحْیَتِہِ وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ قَائِمٌ عَلَی رَأْسِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَعَہُ السَّیْفُ وَعَلَیْہِ الْمِغْفَرُ فَکُلَّمَا أَہْوَی عُرْوَۃُ بِیَدِہِ إِلَی لِحْیَۃِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ضَرَبَ یَدَہُ بِنَعْلِ السَّیْفُ وَقَالَ : أَخِّرْ یَدَکَ عَنْ لِحْیَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَفَعَ عُرْوَۃُ یَدَہُ فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ قَالَ : أَیْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَی فِی غَدْرَتِکَ وَکَانَ الْمُغِیرَۃُ صَحِبَ قَوْمًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَقَتَلَہُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَہُمْ ثُمَّ جَائَ وَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَمَّا الإِسْلاَمُ فَأَقْبَلُ وَأَمَّا الْمَالُ فَلَسْتُ مِنْہُ فِی شَیْئٍ ۔ ثُمَّ إِنَّ عُرْوَۃَ جَعَلَ یَرْمُقُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِعَیْنِہِ قَالَ : فَوَاللَّہِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نُخَامَۃً إِلاَّ وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا جِلْدَہُ وَوَجْہَہُ وَإِذَا أَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَہُ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلَی وَضُوئِہِ وَإِذَا تَکَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَہُمْ وَمَا یُحِدُّونَ النَّظَرَ إِلَیْہِ تَعْظِیمًا لَہُ فَرَجَعَ إِلَی أَصْحَابِہِ فَقَالَ : أَیْ قَوْمِ وَاللَّہِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوکِ وَوَفَدْتُ عَلَی قَیْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِیِّ وَاللَّہِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا وَاللَّہِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَۃً إِلاَّ وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ وَإِذَا أَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَہُ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلَی وَضُوئِہِ وَإِذَا تَکَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ وَمَا یُحِدُّونَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَہُ وَإِنَّہُ قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوہَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ : دَعُونِی آتِہِ قَالُوا : ائْتِہِ فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابِہِ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہَذَا فُلاَنٌ وَہُوَ مِنْ قَوْمٍ یُعَظِّمُونَ الْبُدْنَ فَابْعَثُوہَا لَہُ ۔ فَبُعِثَتْ لَہُ وَاسْتَقْبَلَہُ الْقَوْمُ یُلَبُّونَ فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ قَالَ : سُبْحَانَ اللَّہِ مَا یَنْبَغِی لِہَؤُلاَئِ أَنْ یُصَدُّوا عَنِ الْبَیْتِ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَی أَصْحَابِہِ قَالَ : رَأَیْتُ الْبُدْنَ قَدْ قُلِّدَتْ وَأُشْعِرَتْ فَلَمْ أَرَ أَنْ یُصَدُّوا عَنِ الْبَیْتِ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ مِکْرَزُ بْنُ حَفْصٍ فَقَالَ : دَعُونِی آتِہِ فَقَالُوا : ائْتِہِ فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَیْہِمْ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہَذَا مِکْرَزٌ وَہْوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ ۔ فَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَبَیْنَا ہُوَ یُکَلِّمُہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذْ جَائَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِی أَیُّوبُ عَنْ عِکْرِمَۃَ أَنَّہُ لَمَّا جَائَ سُہَیْلٌ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَدْ سُہِّلَ لَکُمْ مِنْ أَمْرِکُمْ ۔

قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی حَدِیثِہِ فَجَائَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ : ہَاتِ أَکْتُبْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابًا فَدَعَا الْکَاتِبَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اکْتُبْ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ۔ فَقَالَ سُہَیْلٌ : أَمَّا الرَّحْمَنُ فَوَاللَّہِ مَا أَدْرِی مَا ہُوَ وَلَکِنِ اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ کَمَا کُنْتَ تَکْتُبُ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ : لاَ نَکْتُبُہَا إِلاَّ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ ۔ ثُمَّ قَالَ : ہَذَا مَا قَاضَی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ ۔ فَقَالَ سُہَیْلٌ : وَاللَّہِ لَوْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُہُ َا صَدَدْنَاکَ عَنِ الْبَیْتِ وَلاَ قَاتَلْنَاکَ وَلَکِنِ اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَاللَّہِ إِنِّی لَرَسُولُ اللَّہِ وَإِنْ کَذَّبْتُمُونِی اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ ۔

قَالَ الزُّہْرِیُّ وَذَلِکَ لِقَوْلِہِ : لاَ یَسْأَلُونِی خُطَّۃً یُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرُمَاتِ اللَّہِ إِلاَّ أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : عَلَی أَنْ تُخَلُّوا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْبَیْتِ فَنَطُوفُ بِہِ ۔ فَقَالَ سُہَیْلٌ : وَاللَّہِ لاَ تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّا أُخِذْنَا ضَغْطَۃً وَلَکِنْ لَکَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَکَتَبَ فَقَالَ سُہَیْلٌ : عَلَی أَنْ لاَ یَأْتِیَکَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ عَلَی دِینِکَ إِلاَّ رَدَدْتَہُ إِلَیْنَا فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ : سُبْحَانَ اللَّہِ کَیْفَ یُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ وَقَدْ جَائَ مُسْلِمًا ؟ فَبَیْنَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ جَائَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو یَرْسُفُ وَقَالَ یَحْیَی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ یَرْصُفُ فِی قُیُودِہِ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ حَتَّی رَمَی بِنَفْسِہِ بَیْنَ أَظْہُرِ الْمُسْلِمِینَ فَقَالَ سُہَیْلٌ : ہَذَا یَا مُحَمَّدُ أَوَّلُ مَا أُقَاضِیکَ عَلَیْہِ أَنْ تَرُدَّہُ إِلَیَّ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْکِتَابَ بَعْدُ ۔ قَالَ : فَوَاللَّہِ إِذًا لاَ نُصَالِحَکَ عَلَی شَیْئٍ أَبَدًا فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَأَجِرْہُ لِی ۔ قَالَ : مَا أَنَا بِمُجِیرِہِ قَالَ : بَلَی فَافْعَلْ ۔

قَالَ : مَا أَنَّا بِفَاعِلٍ ۔ قَالَ مِکْرَزٌ : بَلَی قَدْ أَجَرْنَاہُ لَکَ ۔ فَقَالَ أَبُو جَنْدَلٍ : أَیْ مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِینَ أُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ وَقَدْ جِئْتُ مُسْلِمًا أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ أُتِیتُ وَکَانَ قَدْ عُذِّبَ عَذَابًا شَدِیدًا فِی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِیَّ اللَّہِ ؟ قَالَ : بَلَی ۔ قُلْتُ : أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ ؟ قَالَ : بَلَی ۔ قُلْتُ : فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا إِذًا ؟ قَالَ : إِنِّی رَسُولُ اللَّہِ وَلَسْتُ أَعْصِیہِ وَہُوَ نَاصِرِی ۔ قُلْتُ : أَوَلَیْسَ کُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِی الْبَیْتَ فَنَطُوفُ بِہِ قَالَ : بَلَی فَأَخْبَرْتُکَ أَنَّکَ تَأْتِیہِ الْعَامَ ۔ قُلْتُ : لاَ قَالَ : فَإِنَّکَ آتِیہِ وَمُطَوِّفٌ بِہِ ۔ قَالَ : فَأَتَیْتُ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقُلْتُ : یَا أَبَا بَکْرٍ أَلَیْسَ ہَذَا نَبِیُّ اللَّہِ حَقًّا ؟ قَالَ : بَلَی قُلْتُ : أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ ؟ قَالَ : بَلَی قُلْتُ : فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا إِذًا ؟ قَالَ : أَیُّہَا الرَّجُلُ إِنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ وَلَنْ یَعْصِیَ رَبَّہُ وَہُوَ نَاصِرُہُ فَاسْتَمْسِکْ بِغَرْزِہِ حَتَّی تَمُوتَ فَوَاللَّہِ إِنَّہُ لَعَلَی الْحَقِّ قُلْتُ : أَوَلَیْسَ کَانَ یُحَدِّثُنَا أَنَّہُ سَیَأْتِی الْبَیْتَ وَیَطُوفُ بِہِ ؟ قَالَ : بَلَی أَفَأَخْبَرَکَ أَنَّکَ تَأْتِیہِ الْعَامَ قُلْتُ : لاَ قَالَ : فَإِنَّکَ آتِیہِ فَتَطُوفُ بِہِ قَالَ الزُّہْرِیُّ قَالَ عُمَرُ : فَعَمِلْتُ لِذَلِکَ أَعْمَالاً قَالَ : فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِیَّۃِ الْکِتَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لأَصْحَابِہِ : قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا ۔ قَالَ : فَوَاللَّہِ مَا قَامَ مِنْہُمْ رَجُلٌ حَتَّی قَالَ ذَلِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا لَمْ یَقُمْ مِنْہُمْ أَحَدٌ قَامَ فَدَخَلَ عَلَی أُمِّ سَلَمَۃَ فَذَکَرَ لَہَا مَا لَقِیَ مِنَ النَّاسِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ : یَا رَسُول اللَّہِ أَتُحِبُّ ذَلِکَ اخْرُجْ ثُمَّ لاَ تُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ کَلِمَۃً حَتَّی تَنْحَرَ بُدْنَکَ وَتَدْعُوَ حَالِقَکَ فَیَحْلِقَکَ فَقَامَ فَخَرَجَ فَلَمْ یُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ حَتَّی فَعَلَ ذَلِکَ وَنَحَرَ ہَدْیَہُ وَدَعَا حَالِقَہُ یَعْنِی فَحَلَقَہُ فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِکَ قَامُوا فَنَحَرُوا وَجَعَلَ بَعْضُہُمْ یَحْلِقُ بَعْضًا حَتَّی کَادَ بَعْضُہُمْ یَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا ثُمَّ جَائَ ہُ نِسْوَۃٌ مُؤْمِنَاتٌ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا جَائَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ } [الممتحنۃ : ١٠] حَتَّی بَلَغَ { بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ } [الممتحنۃ : ١٠] قَالَ : فَطَلَّقَ عُمَرُ یَوْمَئِذٍ امْرَأَتَیْنِ کَانَتَا لَہُ فِی الشِّرْکِ فَتَزَوَّجَ إِحْدَاہُمَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ وَالأُخْرَی صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّۃَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمَدِینَۃِ فَجَائَ ہُ أَبُو بَصِیرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ مُسْلِمٌ وَقَالَ یَحْیَی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ فَقَدِمَ عَلَیْہِ أَبُو بَصِیرِ بْنُ أَسِیدٍ الثَّقَفِیُّ مُسْلِمًا مُہَاجِرًا فَاسْتَأْجَرَ الأَخْنَسُ بْنُ شَرِیقٍ رَجُلاً کَافِرًا مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ وَمَوْلًی مَعَہُ وَکَتَبَ مَعَہُمَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَسْأَلُہُ الْوَفَائَ قَالَ : فَأَرْسَلُوا فِی طَلَبِہِ رَجُلَیْنِ فَقَالُوا : الْعَہْدَ الَّذِی جَعَلْتَ لَنَا فِیہِ فَدَفَعَہُ إِلَی الرَّجُلَیْنِ فَخَرَجَا بِہِ حَتَّی بَلَغَا بِہِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ فَنَزَلُوا یَأْکُلُوا مِنْ تَمْرٍ لَہُمْ فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ لأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ : وَاللَّہِ إِنِّی لأَرَی سَیْفَکَ یَا فُلاَنُ ہَذَا جَیِّدًا فَاسْتَلَّہُ الآخَرُ فَقَالَ : أَجَلْ وَاللَّہِ إِنَّہُ لَجَیِّدٌ لَقَدْ جَرَّبْتُ بِہِ ثُمَّ جَرَّبْتُ قَالَ أَبُو بَصِیرٍ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْہِ فَأَمْکَنَہُ مِنْہُ فَضَرَبَہُ بِہِ حَتَّی بَرَدَ وَفَرَّ الآخَرُ حَتَّی أَتَی الْمَدِینَۃَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ یَعْدُو فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَقَدْ رَأَی ہَذَا ذُعْرًا ۔ فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : قُتِلَ وَاللَّہِ صَاحِبِی وَإِنِّی لَمَقْتُولٌ فَجَائَ أَبُو بَصِیرٍ فَقَالَ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ قَدْ وَاللَّہِ أَوْفَی اللَّہُ ذِمَّتَکَ قَدْ رَدَدْتَنِی إِلَیْہِمْ ثُمَّ أَنْجَانِی اللَّہُ مِنْہُمْ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَیْلُ أُمِّہِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَہُ أَحَدٌ ۔ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ عَرَفَ أَنَّہُ سَیَرُدُّہُ إِلَیْہِمْ فَخَرَجَ حَتَّی أَتَی سِیفَ الْبَحْرِ قَالَ : وَیَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلٍ فَلَحِقَ بِأَبِی بَصِیرٍ فَجَعَلَ لاَ یَخْرُجُ مِنْ قُرَیْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلاَّ لَحِقَ بِأَبِی بَصِیرٍ حَتَّی اجْتَمَعَتْ مِنْہُمْ عِصَابَۃٌ قَالَ : فَوَاللَّہِ مَا یَسْمَعُونَ بِعِیرٍ خَرَجَتْ لِقُرَیْشٍ إِلَی الشَّامِ إِلاَّ اعْتَرَضُوا لَہَا فَقَتَلُوہُمْ وَأَخَذُوا أَمْوَالَہُمْ فَأَرْسَلَتْ قُرَیْشٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَنَاشَدُہُ اللَّہَ وَالرَّحِمَ لَمَّا أَرْسَلَ إِلَیْہِمْ فَمَنْ أَتَاہُ فَہُوَ آمِنٌ فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَیْہِمْ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ } حَتَّی بَلَغَ { حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ } [الفتح ٢٦] وَکَانَتْ حَمِیَّتُہُمْ أَنَّہُمْ لَمْ یُقِرُّوا أَنَّہُ نَبِیُّ اللَّہِ وَلَمْ یُقِرُّوا بِبِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ وَحَالُوا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْبَیْتِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٧٣٤]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১৪
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مسلمانوں کے لیے نظر پر صلح کرنے کا بیان
(١٨٨٠٨) اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ اپنے چچا موسیٰ بن عقبہ سے اس قصہ کے ہم معنیٰ نقل فرماتے ہیں، اس میں کچھ زیادہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو قریش کی طرف بھیجنے کیلئے بلایا جب بلدح نامی جگہ پر تھے، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ آپ حضرت عثمان بن عفان (رض) کو بھیج دیں۔ آپ نے حضرت عثمان بن عفان (رض) کو بھیج دیا۔ جب ان کی ملاقات ابان بن سعید سے ہوئی تو اس نے پناہ دے کر اپنے گھوڑے کی اگلی جانب سوار کر کے قریش کے پاس لائے تو حضرت عثمان (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق قریش سے بات کی، قریش نے سہیل بن عمرو کو صلح کیلئے روانہ کردیا، حضرت عثمان بن عفان (رض) کے مکہ میں بہت زیادہ رشتہ دار تھے، جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کو بیت اللہ کے طواف کی دعوت دی تو حضرت عثمان (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بغیر طواف کرنے سے انکار کردیا، وہ سہیل بن عمرو کو ساتھ لیکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تاکہ صلح کرسکیں، اس نے صلح کا قصہ اور معاہدہ کی تحریر کا تذکرہ کیا، پھر اس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کو معاہدہ کی تحریر دے کر روانہ کیا، پھر اس نے دونوں فریقوں کے درمیان جو جنگ بندی ہوئی اس کا تذکرہ کیا۔

پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو بیعت کی جانب بلایا، جب قریش نے یہ دیکھا تو ان کے دل میں اللہ نے رعب ڈال دیا تو انھوں نے تمام گروی اشیاء روانہ کردیں اور آپ کو صلح کی دعوت دی۔ آپ نے ان سے صلح کی اور معاہدہ تحریر کروادیا۔
(١٨٨٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ فَذَکَرَ مَعْنَی ہَذِہِ الْقَصَّۃِ زَادَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِیُرْسِلَہُ إِلَی قُرَیْشٍ وَہُوَ بِبَلْدَحَ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ لاَ تُرْسِلْنِی إِلَیْہِمْ فَإِنِّی أَتَخَوَّفُہُمْ عَلَی نَفْسِی وَلَکِنْ أَرْسِلْ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَأُرْسِلَ إِلَیْہِمْ فَلَقِیَ أَبَانَ بْنَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ فَأَجَارَہُ وَحَمَلَہُ بَیْنَ یَدَیْہِ عَلَی الْفَرَسِ حَتَّی جَائَ قُرَیْشًا فَکَلَّمَہُمْ بِالَّذِی أَمَرَہُ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَرْسَلُوا مَعَہُ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو لِیُصَالِحَہُ عَلَیْہِمْ وَبِمَکَّۃَ یَوْمَئِذٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ نَاسٌ کَثِیرٌ مِنْ أَہْلِہَا فَدَعَوْا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِیَطُوفَ بِالْبَیْتِ فَأَبَی أَنْ یَطُوفَ وَقَالَ : مَا کُنْتُ لأَطُوفَ بِہِ حَتَّی یَطُوفَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَجَعَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَعَہُ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو قَدْ أَجَارَہُ لِیُصَالِحَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ قِصَّۃَ الصُّلْحِ وَکِتَابَتِہِ قَالَ : ثُمَّ بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالْکِتَابِ إِلَی قُرَیْشٍ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّۃً فِیمَا کَانَ بَیْنَ الْفَرِیقَیْنِ مِنَ التَّرَامِی بِالْحِجَارَۃِ وَالنَّبْلِ وَارْتِہَانِ الْمُشْرِکِینَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَارْتِہَانِ الْمُسْلِمِینَ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو وَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمُسْلِمِینَ إِلَی الْبَیْعَۃِ فَلَمَّا رَأَتْ قُرَیْشٌ ذَلِکَ رَعَبَہُمُ اللَّہُ فَأَرْسَلُوا مَنْ کَانُوا ارْتَہَنُوہُ وَدَعَوْا إِلَی الْمُوَادَعَۃِ وَالصُّلْحِ فَصَالَحَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَکَاتَبَہُمْ ۔[ضعیف ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১৫
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلح کی مدت کا بیان امام شافعی فرماتے ہیں کہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان صلح کی مدت دس سال تھی۔
(١٨٨٠٩) مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ حدیبیہ کے قصہ کے بارے میں نقل فرماتے ہیں کہ قریش نے سہیل بن عمر کو و بلایا اور کہا : جاؤ اس شخص یعنی محمد سے اس بات پر صلح کرلینا کہ وہ آئندہ سال مکہ میں تین دن کے لیے قیام کرلیں اور مکہ میں داخلہ کے وقت اسلحہ اور تلوار میانوں میں ہوں گی۔ اگر آپ کے صحابہ میں سے کوئی بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر ہمارے پاس آگیا تو ہم اسے واپس نہ کریں گے اور ہمارا کوئی فرد اپنے ولی کی اجازت کے بغیر گیا تو آپ اسے واپس کریں گے۔ یہ ہمارے اور آپ کے درمیان بند راز ہے جس میں کسی قسم کی کوئی چوری نہیں ہے۔
(١٨٨٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ فِی قِصَّۃِ الْحُدَیْبِیَۃِ قَالَ : فَدَعَتْ قُرَیْشٌ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو فَقَالُوا اذْہَبْ إِلَی ہَذَا الرَّجُلِ فَصَالِحْہُ وَلاَ یَکُونَنَّ فِی صُلْحِہِ إِلاَّ أَنْ یَرْجِعَ عَنَّا عَامَہُ ہَذَا لاَ تَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّہُ دَخَلَہَا عَلَیْنَا عَنْوَۃً فَخَرَجَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو مِنْ عِنْدِہِمْ فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُقْبِلاً قَالَ : قَدْ أَرَادَ الْقَوْمُ الصُّلْحَ حِینَ بَعَثُوا ہَذَا الرَّجُلَ ۔ فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جَرَی بَیْنَہُمَا الْقَوْلُ حَتَّی وَقَعَ الصُّلْحُ عَلَی أَنْ تُوضَعَ الْحَرْبُ بَیْنَہُمَا عَشْرَ سِنِینَ وَأَنْ یَأْمَنَ النَّاسُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ وَأَنْ یَرْجِعَ عَنْہُمْ عَامَہُمْ ذَلِکَ حَتَّی إِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَدِمَہَا خَلَّوْا بَیْنَہُ وَبَیْنَ مَکَّۃَ فَأَقَامَ بِہَا ثَلاَثًا وَأَنَّہُ لاَ یَدْخُلُہَا إِلاَّ بِسِلاَحِ الرَّاکِبِ وَالسُّیُوفِ فِی الْقُرُبِ وَأَنَّہُ مَنْ أَتَانَا مِنْ أَصْحَابِکَ بِغَیْرٍ إِذْنِ وَلِیِّہِ لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکَ وَإِنَّہُ مَنْ أَتَاکَ مِنَّا بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہِ رَدَدْتَہُ عَلَیْنَا وَإِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ عَیْبَۃً مَکْفُوفَۃً وَإِنَّہُ لاَ إِسْلاَلَ وَلاَ إِغْلاَلَ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ [صحیح لغیرہ ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১৬
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلح کی مدت کا بیان امام شافعی فرماتے ہیں کہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان صلح کی مدت دس سال تھی۔
(١٨٨١٠) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل مکہ کے درمیان حدیبیہ کے سال ٤ سال کی صلح تھی۔
(١٨٨١٠) وَرَوَی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ الْعُمَرِیُّ وَہُوَ ضَعِیفٌ جِدًّا عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَتِ الْہُدْنَۃُ بَیْنَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَہْلِ مَکَّۃَ عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ أَرْبَعَ سِنِینَ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ کَاسِبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نَافِعٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ فَذَکَرَہُ الْمَحْفُوظُ ہُوَ الأَوَّلُ ۔

وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ ہَذَا یَأْتِی بِمَا لاَ یُتَابَعُ عَلَیْہِ ضَعَّفَّہُ یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ وَالْبُخَارِیُّ وَغَیْرُہُمَا مِنَ الأَئِمَّۃِ ۔

[ضعیف ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১৭
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سو رہ فتح کے نزول اور آپ کا حدیبیہ سے واپس آنے کا بیان
(١٨٨١١) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : جب یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی : { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۔ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ } [الفتح ١-٢] ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کی، تاکہ آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں، جب آپ حدیبیہ سے پلٹے تو غم و پریشانی تھی۔ آپ نے قربانی کو نحر کیا اور فرمایا یہ جو آیت میرے اوپر نازل ہوئی مجھے تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے، صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ ہمارے اور آپ کے ساتھ کیا کریں گے ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی : { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } [الفتح ٥] کہ اللہ مومن مردوں اور عورتوں کو ایسے باغات میں داخل فرمائیں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، یہاں تک کہ مکمل آیت تلاوت کی۔
(١٨٨١١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ الشَّامَاتِیُّ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِیٍّ وَأَبُو الأَشْعَثِ قَالاَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَدَّثَہُمْ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا ۔ لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ } [الفتح ١-٢] مَرْجِعَہُمْ مِنَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَہُمْ یُخَالِطُہُمُ الْحُزْنُ وَالْکَآبَۃُ وَقَدْ نَحَرَ الْہَدْیَ فَقَالَ : لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَیَّ آیَاتٌ ہِیَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا ۔ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ قَدْ عَلِمْنَا مَا یَفْعَلُ اللَّہُ بِکَ فَمَا یَفْعَلُ بِنَا قَالَ فَنَزَلَتْ { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ } [الفتح ٥] حَتَّی بَلَغَ رَأْسَ الآیَۃِ ۔

رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَلِیٍّ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٨٦]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১৮
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سو رہ فتح کے نزول اور آپ کا حدیبیہ سے واپس آنے کا بیان
(١٨٨١٢) قتادہ حضرت انس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } [الفتح ١] سے مراد حدیبیہ کی فتح ہے، ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مبارک ہو ، یہ آپ کے لیے ہے اور ہمارے لیے کیا ہے ؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی : { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } [الفتح ٥] شعبہ کہتے ہیں : میں نے کوفہ میں قتادہ اور انس سے بیان کیا اور بصرہ میں صرف قتادہ سے بیان کیا تو فرمانے لگے : پہلے الفاظ حضرت انس (رض) کے ہیں اور دوسرے الفاظ یعنی آیت : { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } یہ حضرت عکرمہ سے منقول ہے۔
(١٨٨١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو أَحْمَدَ یَعْنِی ابْنَ إِسْحَاقَ الْحَافِظَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَرُوبَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ الأَسْفَاطِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا } [الفتح ١] قَالَ فَتْحُ الْحُدَیْبِیَۃِ فَقَالَ رَجُلٌ : ہَنِیئًا مَرِیئًا یَا رَسُولَ اللَّہِ ہَذَا لَکَ فَمَا لَنَا فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ } [الفتح ٥] قَالَ شُعْبَۃُ : فَقَدِمْتُ الْکُوفَۃَ فَحَدَّثْتُہُمْ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ثُمَّ قَدِمْتُ الْبَصْرَۃَ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِقَتَادَۃَ فَقَالَ : أَمَّا الأَوَّلُ فَعَنْ أَنَسٍ وَأَمَّا الثَّانِی { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ }[الفتح ٥] فَعَنْ عِکْرِمَۃَ ۔

رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُمَرَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤١٧٢]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮১৯
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سو رہ فتح کے نزول اور آپ کا حدیبیہ سے واپس آنے کا بیان
(١٨٨١٣) ابو وائل فرماتے ہیں کہ سہیل بن حنیف نے صفین کے دن کہا : اے لوگو ! اپنے اوپر الزام لگاؤ۔ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حدیبیہ میں موجود تھے۔ اگر لڑائی ہوتی ہم ضرور لڑتے لیکن یہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان صلح تھی تو اس وقت حضرت عمر (رض) نے کہا تھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم حق پر اور ایمان باطل پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہم حق پر اور دشمن باطل پر ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : کیا ہمارے مقتول جنت اور ان کے مقتول جہنم میں نہ جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہمارے مقتول جنتی اور ان کے جہنمی ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : پھر ہم کمزوری کیوں دکھا رہے ہیں، جب کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں، آپ نے فرمایا : اے ابن خطاب ! میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ مجھے ضائع نہ کریں گے، راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) غصہ کی حالت میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس چلے گئے اور کہا : اے ابوبکر (رض) ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ؟ ابوبکر (رض) کہنے لگے : ہم حق پر اور وہ باطل پر ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے جہنم میں نہ جائیں گے ؟ ابوبکر (رض) نے فرمایا : ہمارے مقتول جنتی اور ان کے جہنمی ہیں تو حضرت عمر (رض) نے کہا : پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں دکھا رہے ہیں، حالانکہ ابھی تک اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ بھی نہیں فرمایا ؟ ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے ابن خطاب ! وہ اللہ کے نبی ہیں، اللہ انھیں ضائع نہ کرے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ نے قرآن نازل کیا تو آپ نے عمر (رض) کو بلا کر سنایا، حضرت عمر (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ فتح ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر وہ خوشی خوشی واپس چلے گئے۔

امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : ابن شھاب نے فرمایا : اسلام میں اس سے بڑی فتح کوئی نہ تھی، جب لوگوں کی لڑائی ختم ہوگئی۔ پھر کوئی عقل مند انسان اسلام کی بات سن کر قبول کیے بغیر نہ رہا، دو سال صلح کی مدت میں جتنے مسلمان ہوئے اس سے پہلے نہ ہوئے تھے۔
(١٨٨١٣) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِی عِیسَی حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ سِیَاہٍ ح قَالَ وَأَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرِو بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو یَعْلَی حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ سِیَاہٍ حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی ثَابِتٍ عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ : قَامَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَوْمَ صِفِّینَ فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ اتَّہِمُوا أَنْفُسَکُمْ لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَلَوْ نَرَی قِتَالاً لَقَاتَلْنَا وَذَلِکَ فِی الصُّلْحِ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ قَالَ فَأَتَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ ؟ قَالَ : بَلَی ۔ قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی ۔ قَالَ : فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی أَنْفُسِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ قَالَ : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّی رَسُولُ اللَّہِ وَلَنْ یُضَیِّعَنِی اللَّہُ ۔ قَالَ : فَانْطَلَقَ ابْنُ الْخَطَّابِ وَلَمْ یَصْبِرْ مُتَغَیِّظًا فَأَتَی أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ ؟ قَالَ : بَلَی قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی قَالَ : فَعَلَی مَا نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ قَالَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللَّہُ أَبَدًا۔ قَالَ : فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ فَأَقْرَأَہُ إِیَّاہُ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَوَفَتْحٌ ہُوَ ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَطَابَتْ نَفْسُہُ وَرَجَعَ ۔

رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ السُّلَمِیُّ عَنْ یَعْلَی بْنِ عُبَیْدٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ۔

قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ فَمَا کَانَ فِی الإِسْلاَمِ فَتْحٌ أَعْظَمُ مِنْہُ کَانَتِ الْحَرْبُ قَدْ أَحْجَزَتِ النَّاسَ فَلَمَّا أَمِنُوا لَمْ یُکَلَّمْ بِالإِسْلاَمِ أَحَدٌ یَعْقِلُ إِلاَّ قَبِلَہُ فَلَقَدْ أَسْلَمَ فِی سَنَتَیْنِ مِنْ تِلْکَ الْہُدْنَۃِ أَکْثَرَ مِمَّنْ أَسْلَمَ قَبْلَ ذَلِکَ ۔ [صحیح ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২০
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سو رہ فتح کے نزول اور آپ کا حدیبیہ سے واپس آنے کا بیان
(١٨٨١٤) عروہ مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے نقل فرماتے ہیں کہ حدیبیہ اس میں اندراج ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس پلٹے، ابھی مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے کہ سورة فتح مکمل نازل ہوگئی، { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } یہ فیصلہ سورة فتح میں ہے، جو صحابہ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخت کے نیچے بیعت کرنا ہے جب تمام لوگ امن میں ہوگئے کسی نے بھی اسلام کے متعلق بات نہ کی لیکن جو اسلام کے متعلق سنتا وہ ضرور اسلام قبول کرلیتا، ان دو سال کے اندر اسلام میں زیادہ لوگ داخل وئے اور صلح حدیبیہ عظیم فتح تھی۔
(١٨٨١٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ فِی قِصَّۃِ الْحُدَیْبِیَۃِ وَفِیہَا مُدْرَجًا ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَاجِعًا فَلَمَّا أَنْ کَانَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ نَزَلَتْ عَلَیْہِ سُورَۃُ الْفَتْحِ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا } فَکَانَتِ الْقَضِیَّۃُ فِی سُورَۃِ الْفَتْحِ وَمَا ذَکَرَ اللَّہُ مِنْ بَیْعَۃِ رَسُولِہِ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَلَمَّا أَمِنَ النَّاسُ وَتَفَاوَضُوا لَمْ یُکَلَّمْ أَحَدٌ بِالإِسْلاَمِ إِلاَّ دَخَلَ فِیہِ فَلَقَدْ دَخَلَ فِی تَیْنِکَ السَّنَتَیْنِ فِی الإِسْلاَمِ أَکْثَرَ مِمَّا کَانَ فِیہِ قَبْلَ ذَلِکَ وَکَانَ صُلْحُ الْحُدَیْبِیَۃِ فَتْحًا عَظِیمًا۔ [صحیح ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২১
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سو رہ فتح کے نزول اور آپ کا حدیبیہ سے واپس آنے کا بیان
(١٨٨١٥) براء فرماتے ہیں کہ تم فتح مکہ کو عظیم فتح شمار کرتے ہو ، جبکہ ہمارے نزدیک فتح مکہ عام فتح ہے۔ لیکن صلح حدیبیہ کی فتح عظیم تھی، حدیبیہ کے مقام پر ایک کنواں تھا جس کا لوگوں نے پانی نکال کر ختم کردیا۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا گیا تو آپ کنویں کے کنارے پر آئے، پانی کا ڈول نکالا ۔ پھر کچھ پانی لیکر کنویں میں کلی کردی اور اللہ سے دعا کی تو پانی اتنا زیادہ ہوگیا کہ ہم نے سیر ہو کر پیا اور سواریوں کو پلایا اور ہماری تعداد ١٤ سو تھی۔
(١٨٨١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَجَائٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ البَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : تَعُدُّونَ أَنْتُمُ الْفَتْحَ فَتْحَ مَکَّۃَ وَقَدْ کَانَ فَتْحُ مَکَّۃَ فِینَا فَتْحًا وَنَعُدُّ نَحْنُ الْفَتْحَ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ نَزَلْنَا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَہِیَ بِئْرٌ فَوَجَدْنَا النَّاسَ قَدْ نَزَحُوہَا فَلَمْ یَدَعُوا فِیہَا قَطْرَۃً فَذُکِرَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَدَعَا بِدَلْوٍ فَنَزَعَ مِنْہَا ثُمَّ أَخَذَ مِنْہُ بِفِیہِ فَمَجَّہُ فِیہَا وَدَعَا اللَّہَ فَکَثُرَ مَاؤُہَا حَتَّی صَدَرْنَا وَرَکَائِبُنَا وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً ۔

رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مَالِکِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ وَغَیْرِہِ عَنْ إِسْرَائِیلَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤١٥٠]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২২
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلیفہ کا صلح کرنا جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو
(١٨٨١٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : امام ڈھال ہے جس کے ذریعیجہاد کیا جاتا ہے۔
(١٨٨١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ بِہِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২৩
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلیفہ کا صلح کرنا جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو
(١٨٨١٧) حضرت عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ میں جنگ تبوک میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا آپ چمڑے کے خیمے میں تھے، آپ نے فرمایا : قیامت سے پہلے چھ نشانیوں کو شمار کرو، میری وفات، بیت المقدس کی فتح، بیشمار اموات جیسے بکریاں اچانک مرجاتی ہیں۔ مال کا زیادہ ہونا یہاں تک کہ ایک شخص کو سو دینار دیا جائے گا، لیکن وہ ناراض ہوجائے گا۔ ایک فتنہ رونما ہوگا جو عرب کے تمام گھروں میں داخل ہوجائے گا تمہارے اور رومیوں کے درمیان صلح ہوجائے گی، لیکن وہ عہد شکنی کریں گے، وہ تمہارے پاس ٨٠ جھنڈوں تلے آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے وہ بارہ ہزار ہوں گے۔

(ب) مدینہ کے ایک شیخ فرماتے ہیں کہ پھر بیت المقدس کی فتح ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کی فتح، اس کی آبادی ہے۔
(١٨٨١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِیَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْعَلاَئِ بْنِ زَبْرٍ قَالَ سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَیْدِ اللَّہِ الْحَضْرَمِیَّ یُحَدِّثُ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِکٍ الأَشْجَعِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ وَہُوَ فِی قُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ فَقَالَ لِی : یَا عَوْفُ اعْدُدْ سِتًّا بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ مَوْتِی ثُمَّ فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ مُوتَانٌ یَأْخُذُ فِیکُمْ کَقُعَاصِ الْغَنَمِ ثُمَّ اسْتِفَاضَۃُ الْمَالِ فِیکُمْ حَتَّی یُعْطَی الرَّجُلُ مِائَۃَ دِینَارٍ فَیَظَلُّ سَاخِطًا ثُمَّ فِتْنَۃٌ لاَ یَبْقَی بَیْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلاَّ دَخَلَتْہُ ثُمَّ ہُدْنَۃٌ تَکُونُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ بَنِی الأَصْفَرِ فَیَغْدِرُونَ فَیَأْتُونَکُمْ تَحْتَ ثَمَانِینَ غَایَۃً تَحْتَ کُلِّ غَایَۃٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا۔

قَالَ الْوَلِیدُ فَذَاکَرْنَا ہَذَا الْحَدِیثَ شَیْخًا مِنْ شُیُوخِ الْمَدِینَۃِ فِی قَوْلِہِ ثُمَّ فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَقَالَ الشَّیْخُ أَخْبَرَنِی سَعِیدٌ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ کَانَ یُحَدِّثُ بِہَذَا الْحَدِیثِ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَیَقُولُ مَکَانَ : فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ عُمْرَانُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ۔

رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْحُمَیْدِیِّ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ مُسْلِمٍ دُونَ إِسْنَادِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔

[صحیح۔ متفق علیہ ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২৪
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلیفہ کا صلح کرنا جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو
(١٨٨١٨) خالد حضرت جبیر بن نفیر سے نقل فرماتے ہیں کہ چلوہ میں صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر چلو، کہتے ہیں : ہم ان کے پاس آئے تو انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے ساتھ رومی صلح کرلیں گے، پھر تم مل کر دشمنوں سے لڑائی کر کے مال غنیمت حاصل کرو گے واپس صحیح سلامت پلٹو گے اور ذی تلول نامی جگہ پر قیام کرو گے وہاں ایک عیسائی شخص صلیب کو بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آگئی تو ایک مسلمان صلیب کو پکڑ کر توڑ ڈالے گا، جس کی بنا پر رومی غصہ میں آ کر لڑائی کے لیے جمع ہوجائیں گے۔
(١٨٨١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ السُّوسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ مَزْیَدٍ أَخْبَرَنَا أَبِی أَخْبَرَنِی الأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنِی حَسَّانُ بْنُ عَطِیَّۃَ قَالَ : مَالَ مَکْحُولٌ وَابْنُ أَبِی زَکَرِیَّا إِلَی خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ فَمِلْتُ مَعَہُمْ قَالَ فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ أَنَّہُ قَالَ لَہُ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَی ذِی مِخْبَرٍ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ فَأَتَیْنَاہُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : سَیُصَالِحُکُمُ الرُّومُ صُلْحًا آمِنًا ثُمَّ تَغْزُونَ أَنْتُمْ وَہُمْ عَدُوًّا فَتُنْصَرُونَ وَتَسْلَمُونَ وَتَغْنَمُونَ ثُمَّ تَنْصَرِفُونَ فَتَنْزِلُونَ بِمَرْجٍ ذِی تُلُولٍ فَیَرْفَعُ رَجُلٌ مِنَ النَّصْرَانِیَّۃِ الصَّلِیبَ فَیَقُولُ : غُلِبَ الصَّلِیبُ فَیَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَیَقُومُ إِلَیْہِ فَیَدُقُّہُ فَعِنْدَ ذَلِکَ تَغْضَبُ الرُّومُ وَیَجْمَعُونَ لِلْمَلْحَمَۃِ ۔ [صحیح ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২৫
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بغیر کوئی مدت مقرر کیے صلح کرنے کا بیان
(١٨٨١٩) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے یہود و نصاریٰ کو ارض حجاز سے جلا وطن کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب خیبر فتح کیا تھا تو یہود کو وہاں سے جلا وطن کرنا چاہا، کیونکہ یہ زمین اللہ، رسول اور مسلمانوں کی تھی، جب آپ نے یہودکو نکالنے کا ارادہ کرلیا تو یہود نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : اگر آپ ہمیں زمینوں پر کام کرنے دیں اور تو آدھا پھل آپ کا ہوگا۔ آپ نے فرمایا : جتنی دیر ہم چاہیں گے تمہیں پر قرار رکھیں گے، آپ نے تو برقرار رکھا لیکن حضرت عمر (رض) نے انھیں تیماء اور اریحاء بستیوں کی جانب جلا وطن کردیا۔

(ب) موسیٰ بن عقبہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک ہم چاہیں گے برقرار رکھیں گے۔

(ج) اسامہ بن زید (رض) حضرت نافع (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں تمہیں اس پر برقرار رکھوں گا، جتنی دیر چاہوں گا۔

(د) حضرت عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم تمہیں اتنی دیر برقرار رکھیں گے جتنی دیر اللہ رب العزت برقرار رکھیں گے۔

امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : اقررکم ما اقرکم اللہ۔ کا مطلب ہے کہ میرے بعد خلیفہ جتنی دیر تمہیں برقرار رکھیں۔ خلیفہ اور رسول میں یہ فرق ہوگا کہ رسول کے پاس اللہ کی جانب سے وحی آتی ہے جبکہ کسی دوسرے کے پاس وحی نہیں آتی۔
(١٨٨١٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَجْلَی الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا ظَہَرَ عَلَی خَیْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودِ مِنْہَا فَکَانَتِ الأَرْضُ حِینَ ظَہَرَ عَلَیْہَا لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُسْلِمِینَ فَأَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودَ مِنْہَا فَسَأَلَتِ الْیَہُودُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِیُقِرَّہُمْ عَلَی أَنْ یَکْفُوہُ عَمَلَہَا وَلَہُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نُقِرُّکُمْ بِہَا عَلَی ذَلِکَ مَا شِئْنَا ۔ فَقَرُّوا بِہَا حَتَّی أَجْلاَہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی تَیْمَائَ وَأَرِیحَائَ ۔

رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ وَإِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فَقَالَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ الْفُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانُ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ : نُقِرُّکُمْ عَلَی ذَلِکَ مَا شِئْنَا۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ نَافِعٍ : أُقِرُّکُمْ فِیہَا عَلَی ذَلِکَ مَا شِئْنَا ۔

وَفِی رِوَایَۃِ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ مَا بَدَا لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -

وَفِی رِوَایَۃِ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمُ اللَّہُ ۔

وَکَذَلِکَ فِی رِوَایَۃِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُرْسَلاً : أُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمُ اللَّہُ ۔

وَرَوَاہُ صَالِحُ بْنُ أَبِی الأَخْضَرِ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیدٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مَوْصُولاً وَقَدْ مَضَتْ ہَذِہِ الرِّوَایَاتُ بِأَسَانِیدِہَا۔

قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَإِنْ قِیلَ فَلِمَ لاَ یَقُولُ أُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمُ اللَّہُ یَعْنِی کُلَّ إِمَامٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قِیلَ الْفَرْقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی أَنَّ أَمْرَ اللَّہِ کَانَ یَأْتِی رَسُولَہُ بِالْوَحْیِ وَلاَ یَأْتِی أَحَدًا غَیْرَہُ بِوَحْیٍ ۔ [صحیح ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২৬
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو لڑائی پر طاقت رکھتا ہو اس سے صلح کا بیان
(١٨٨٢٠) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو امیر حج بنا کر روانہ کیا اور ان باتوں کا اعلان کرنے کا حکم دیا، حضرت ابوبکر (رض) نے راستہ میں کسی جگہ پڑاؤ کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی قصواء کی آواز سنی، گھبرا کر نکلے ہیں، جبکہ وہ حضرت علی (رض) تھے، انھوں آپ کا خط ابوبکر (رض) کو دیا، جس میں تھا کہ ان باتوں کا اعلان حضرت علی (رض) کو کرنے دیا جائے۔ جب ابوبکر (رض) وعلی (رض) نے حج کیا تو حضرت علی (رض) نے ایام تشریق کے درمیان ان باتوں کا اعلان کردیا کہ اللہ ورسول ہر مشرک سے بری ہیں۔ { فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ اعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ } [التوبۃ ٢] تم زمین پر چار ماہ چلو پھرو، جان لو تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ 1 اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے، 2 کپڑے اتار کر بیت اللہ کا طواف نہ کیا جائے۔ 3 جنت میں صرف مومن داخل ہوگا، ابوہریرہ ان کی آواز آگے پہنچاتے تھے۔
(١٨٨٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا سَعْدُوَیْہِ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الْمَوْسِمِ وَأَمَرَہُ أَنْ یُنَادِیَ بِہَؤُلاَئِ الْکَلِمَاتِ قَالَ فَبَیْنَا أَبُو بَکْرٍ نَازِلٌ فِی بَعْضِ الطَّرِیقِ إِذْ سَمِعَ رُغَائَ نَاقَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْقَصْوَائَ فَخَرَجَ فَزِعًا وَظَنَّ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَإِذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَدَفَعَ إِلَیْہِ کِتَابَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَتَی عَلِیٌّ الْمَوْسِمَ وَأَمَرَ عَلِیًّا أَنْ یُنَادِیَ بِہَؤُلاَئِ الْکَلِمَاتِ فَانْطَلَقَا فَحَجَّا فَقَامَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَنَادَی فِی وَسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ إِنَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ بَرِیئٌ مِنْ کُلِّ مُشْرِکٍ { فَسِیحُوا فِی الأَرْضِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللَّہِ } [التوبۃ ٢] لاَ یَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفَنَّ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ وَلاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ کَانَ یُنَادِی بِہَذَا فَإِذَا بَحَّ قَام أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَنَادَی بِہَا۔ [حسن ]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২৭
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو لڑائی پر طاقت رکھتا ہو اس سے صلح کا بیان
(١٨٨٢١) محرر بن ابوہریرہ (رض) اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا۔ جب آپ نے اہل مکہ سے برأت کا اعلان کروایا، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں اعلان کرتا لیکن میری آواز ہلکی ہے تو کہا گیا : کس بات کا آپ اعلان کرنا چاہتے ہیں ؟ تو حضرت علی (رض) نے کہا : مجھے ان باتوں کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا ہے : 1 جنت میں صرف مومن داخل ہوگا۔ 2 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جس سے عھد تھا، اس کی مدت چار ماہ ہے۔ 3 جب چار ماہ گذر جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بری ہیں۔ 4 ننگے بدن بیت اللہ کا طواف نہ کیا جائے۔ 5 ۔ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے۔

(ب) زید بن یثیع حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جس کا معاہدہ تھا اسے پورا کیا جائے گا اور جس کا معاہدہ نہیں اس کی مدت چار ماہ ہے۔

امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفوان بن امیہ کو فتح مکہ کے بعد چار ماہ مہلت دی تھی۔
(١٨٨٢١) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُوبَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنُ أَبِی حَامِدٍ الْمُقْرِئُ وَأَبُو صَادِقٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْعَطَّارُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْمُغِیرَۃِ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنِ الْمُحَرَّرِ بْنِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ قَالَ : کُنْتُ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حِینَ بَعَثَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِبَرَائَ ۃَ إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ قَالَ فَکُنْتُ أَنَادِی حَتَّی صَحِلَ صَوْتِی فَقِیل لَہُ بِأَیِّ شَیْئٍ کُنْتَ تُنَادِی ؟ فَقَالَ : أُمِرْنَا أَنْ نُنَادِیَ أَنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَمَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَہْدٌ فَأَجَلُہُ إِلَی أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ فَإِذَا مَضَتِ الأَشْہُرُ فَإِنَّ اللَّہَ بَرِیئٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولَہُ وَلاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ وَلاَ یَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ۔ وَقَدْ مَضَی فِی حَدِیثِ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی ہَذَا الْحَدِیثِ : وَمَنْ کَانَ لَہُ عَہْدٌ فَعَہْدُہُ إِلَی مُدَّتِہِ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ عَہْدٌ فَأَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ۔

قَالَ الشَّافِعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِصَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ بَعْدَ فَتْحِ مَکَّۃَ تَسْیِیرَ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ

قَالَ الشَّیْخُ قَدْ مَضَی ہَذَا فِی حَدِیثِ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیِّ فِی کِتَابِ النِّکَاحِ ۔ [صحیح تقدم برقم ١٧٩٤٨]
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৮৮২৮
جزیہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مسلمان جنگ بندی کے لیے کچھ دیں اس میں خیر نہیں ہے

امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : قتل مسلمان کی شہادت ہے اور اسلام کا مشرک کو جنگ بندی کے لیے کچھ دینا مناسب خیال نہیں کرتا، کیونکہ مسلمان قاتل یا متقول دونوں صورتوں میں حق پر ہیں۔

شیخ فرماتے ہیں : مغیرہ بن شعبہ کی
(١٨٨٢٢) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ماموں حرام جو ام سلیم کے بھائی تھے، ان ستر آدمیوں میں روانہ کیا جو بئر ممونہپر قتل کردیے گئے۔ مشرکین کا رئیس عامر بن طفیل نبی کے پاس آیا، اس نے کہا : میں تجھے تین چیزوں میں اختیار دیتا ہوں، 1 آپ کے لیے بدر اور میرے ساتھی گھروں میں رہنے والے لوگ، 2 آپ کے بعد میں خلیفہ ہوں گا، 3 میں تیرے ساتھ ایک ہزار سرخ وسفید رنگت والے نوجوانوں کے ساتھ جنگ کروں گا۔ راوی کہتے ہیں : بنو فلاں کے گھر اس کو نیزہ مارا گیا یا بنوفلاں قبیلے کی عورت کے گھر میں وہ طاعون کی بیماری میں مبتلا ہوگیا، اس نے اپنا گھوڑا منگوایا تو عامر بن طفیل اپنے گھوڑے پر سوار ہی فوت ہوگیا، تو ام سلیم کے بھائی حرام اور اس کے ساتھ دو شخص اور بھی چلے، ایک لنگڑا اور ایک بنو فلاں قبیلے کا شخص۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ دونوں میرے قریب آگئے۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا : اگر تم نے مجھے پناہ دے دی تو تمہیں ملے گا اور اگر انھوں نے مجھے قتل کردیا تو تم اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جانا۔ حرام ان کے پاس آگئے، کہنے لگے : میں تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام دیتا ہوں۔ کیا تم ایمان لاؤ گے، انھوں نے حامی بھری تو حرام نے ان کو وعظ شروع کردیا جبکہ انھوں نے کسی شخص کو پیچھے سے اتارا اس نے نیزہ مار کر حرام کو ہلاک کردیا۔ ھمام کہتے ہیں : میرا گمان ہے کہ جب اسے نیزہ لگا، اس نے کہا : اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا، اس شخص نے باقی افراد کو بھی قتل کر ڈالا، سوائے اعرج کے، کیونکہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر تھے۔

(ب) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس لایا گیا، پھر یہ بات منسوخ ہوگئی کہ ہماری ملاقات اللہ رب العزت سے ہوئی، وہ ہم سے راضی اور ہم اس سے راضی تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٧٠ دن رعل وذکوان بنو لحیان قبیلوں پر بدعا کی کیونکہ انھوں نے اللہ ورسول کی نافرمانی کی تھی۔
(١٨٨٢٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ خَالَہُ وَکَانَ اسْمَہُ حَرَامٌ أَخَا أُمِّ سُلَیْمٍ فِی سَبْعِینَ رَجُلاً فَقُتِلُوا یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ وَکَانَ رَئِیسُ الْمُشْرِکِینَ عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ وَکَانَ أَتَی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : أُخَیِّرُکَ بَیْنَ ثَلاَثِ خِصَالٍ أَنْ یَکُونَ لَکَ أَہْلُ السَّہْلِ وَلِی أَہْلُ الْمَدَرِ وَأَکُونُ خَلِیفَتَکَ مِنْ بَعْدِکَ أَوْ أَغْزُوکَ بِغَطَفَانَ بِأَلْفِ أَشْقَرَ وَأَلْفِ شَقْرَائَ ۔ قَالَ : فَطُعِنَ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلاَنٍ فَقَالَ : غُدَّۃٌ کَغُدَّۃِ الْبِکْرِ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلاَنٍ ائْتُونِی بِفَرَسِی فَرَکِبَہُ فَمَاتَ عَلَی ظَہْرِ فَرَسِہِ فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَیْمٍ وَرَجُلاَنِ مَعَہُ رَجُلٌ أَعْرَجُ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِی فُلاَنٍ قَالَ : کُونَا یَعْنِی قَرِیبًا مِنِّی حَتَّی آتِیَہُمْ فَإِنْ آمَنُونِی کُنْتُمْ کَذَا وَإِنْ قَتَلُونِی أَتَیْتُمْ أَصْحَابَکُمْ فَأَتَاہُمْ حَرَامٌ فَقَالَ : أَتُؤْمِنُونِی أُبَلِّغُکُمْ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالُوا نَعَمْ فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُمْ وَأَوْمَئُوا إِلَی رَجُلٍ فَأَتَاہُ مِنْ خَلْفِہِ فَطَعَنَہُ ۔ قَالَ ہَمَّامٌ أَحْسِبُہُ قَالَ فَأَنْفَذَہُ بِالرُّمْحِ فَقَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ فَلُحِقَ الرَّجُلُ فَقُتِلَ کُلُّہُمْ إِلاَّ الأَعْرَجَ کَانَ فِی رَأْسِ الْجَبَلِ قَالَ إِسْحَاقُ فَحَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ أُنْزِلَ عَلَیْنَا ثُمَّ کَانَ مِنَ الْمَنْسُوخِ إِنَّا قَدْ لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَبْعِینَ صَبَاحًا عَلَی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِی لِحْیَانَ وَعُصَیَّۃَ عَصَتِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُوسَی بْنِ إِسْمَاعِیلَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤٠٩١]
tahqiq

তাহকীক: